Thursday, February 23, 2012

بلوچستان؛ سرادر کی فوج یا فوج کی سرداری

 امریکیوں نے آزاد بلوچستان کے لئے اپنی سینیٹ میں ایک قرارداد پاس کی۔ وجہ یہ ہے کہ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے وہ ہیں، سارے جہاں کا درد انکے جگر میں ہے۔ اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ ہو یا دوسرے ممالک کے حصے بخرے کرنے کا معاملہ یہ دونوں ہی مشغلے انہیں بھاتے ہیں۔ انکے جنگی بحری بیڑے سمندروں پہ حاضر رہتے ہیں اور انکے مقاصد میں آسانی پیدا کرنے والے صحافی اور سیاستداں اپنی زمینوں میں سرنگیں بنائے انکے منتظر۔
بی بی سی اردو سروس میں وسعت اللہ خان صاحب کا ایک مضمون بلوچستان کے متعلق پڑھ رہی تھی۔  جسے پڑھ کر مجھ جیسے پاکستانی کو لگتا ہے کہ یا تو باغی بلوچ سرداروں نے املا کرایا ہے یا پھر امریکی کانگریس مین نے اپنی قرارداد کے ساتھ اس قسم کے مضامین بھی نتھی کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ بلوچستان کے ساتھ سیاسی غلطیاں اور زیادتیاں ہوئ ہیں لیکن کیا ان سیاسی غلطیوں اور زیادتیوں میں وہ سردار شامل نہیں جو آج آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔
پچھلے چونسٹھ سال میں اگر حکومت پاکستان کی ملی بھگت سے بلوچستان میں سڑکوں کا جال نہیں بچھا، انگریزی میڈیم اسکول نہیں بنائے گئے، ہسپتال قائم نہیں ہوئے تو کیا پچھلے چونسٹھ سال میں  مری، بگتی اور مینگل سردار اس جہد مسلسل میں اپنی جانیں گنواتے رہے کہ انکے ہم قوموں کو یہ زندگی کی سہولیات مل جائیں۔ یہ بات سوچتے ہوئے بھی ہمیں شرمندگی ہوتی ہے کہ آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کرنے والے یہ سردار آزادی صرف اپنے لئے چاہتے ہیں۔ اور اسکے لئے انہوں نے کیا امریکہ اور کیا لندن ہر جگہ ان لابیز سے گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے جو انکے مقاصد تک انہیں پہنچا سکیں۔
یہ سب سردار ااور انکی نسلیں پاکستان ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی عیاشی کرتی رہیں اور رونا اس بات کا رہا کہ بلوچستان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی ہے۔ جس بلوچ کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اس سے کیا مینگل، کیا بگتی اور کیا مری ان سب سرداروں میں سے کسے دلچسپی ہے؟
ان لوگوں کی دلچسپی اگر کسی چیز میں ہے تو وہ یہ کہ بلوچستان میں قدرتی دولت کے جو بھی ذخائر ہیں اسکی آمدنی ان میں اس طرح تقسیم  ہو جائے کہ  کسی اور کے حصے میں آنے نہ پائے۔ یہ 'کسی اور' جسے وہ اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں ہر وہ شخص ہوتا ہے جو بلوچ نہیں ہے۔ دوسری قومیتوں کا خوف پیدا کر کے اپنے خوفزدہ لوگوں کو کس چیز سے خوفزدہ کرتے ہیں۔  کیا ایک عام بلوچ کو اس بات سے ڈرنا چاہئیے کہ وہ اپنے سردار کی گولی کھا کر بے گناہ مرنے کے اعزاز سے محروم ہوگا اور فوج کی گولی سے مارا جائے گا۔ فوج کی گولی سے مرنا حرام موت اور سردار کی گولی سے مرنا رتبہ ء عالی ہے۔
اختر مینگل صاحب جو اس وقت کسی ترقی یافتہ ملک میں بیٹھے گلچھرے اڑا رہے ہونگے کیا انکے منصوبوں میں کبھی بلوچستان میں سڑک بنانے، اسکول بنانے اور ہسپتال بنانے کے منصوبے شامل رہے۔ کیا انکے مطالبات میں کبھی یہ چیز شامل رہی کہ انکے صوبے کے عوام کو یہ سہولیات دی جائیں۔ نواب بگتی کے پوتے براہمداغ بگتی فرماتے ہیں کہ آزاد بلوچستان ایک اٹل حقیقت ہے۔ ذرا وہی اپنے دادا کے بلوچوں پہ احسان گنوا دیں۔ کوئ ایک اسکول، کوئ ایک روڈ، کوئ ایک ہسپتال ، کوئ ایک  عوامی فلاح کا کام جو ایڈوینچر کے شوقین انکے دادا نے بلوچوں کو عظیم قوم بنانے کے لئے انجام دیا۔  بخدا، مجھ جیسا ہر پاکستانی ان سے نا آشنا ہے۔ چلیں وسعت اللہ خان صاحب ہی بتا دیں کہ سرداروں نے اپنی قوم پہ جو احسانات کئے یا کرنے کی کوشش کی۔ جسکی بنیاد پہ آج بلوچ قوم کو انکے پیچھے کھڑے ہو کر آزاد بلوچستان کی جنگ لڑنی چاہئیے۔ جی وسعت اللہ خان صاحب، ہم سب ان کارہائے نمایاں کو جاننے کے لئے بے تاب ہیں۔
اس وقت بھی بلوچستان کی صورت حال کا نقشہ ایسا کھینچا جاتا ہے جیسا کہ بنگلہ دیش کا سقوط کے وقت تھا۔ حالانکہ بنگلہ دیش اور بلوچستان اور بنگلہ دیش میں ایک واضح فرق موجود ہے اور وہ یہ کہ بنگلہ دیش میں آزادی کے لئے عوامی شعور موجود تھا اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں آزادی کے بعد کیا کرنا ہے۔ بلوچستان میں عوام اس بات سے واقف ہی نہیں کہ انسان شعور رکھتا ہے۔ انکی بڑی تعداد گٹکے اور چرس کے کے نشے میں گم ہے۔  یہی نہیں بنگالی ، بنگالی قومیت کا مضبوط تصور رکھتے تھے، انکی زبان اور ادب موجود تھا۔  بلوچستان میں بلوچ قومیت کا تصور ہی چند سرداروں تک محدود ہے جو کہ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنی مٹی یا اپنے لوگوں سے وفاداری کی جنگ انہیں کیا معلوم۔ بھلا کوئ کیڑے مکوڑوں کی خود مختاری کے لئے لڑتا ہے۔ 
دوسری ظالمانہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تو پشتون ہیں۔ پھر یہاں کی آبادی کا دوسرا بڑا حصہ ان قبائل سے تعلق رکھتا ہے جو لاسی کہلاتے ہیں اور اپنی بنیاد میں یہ سندھی بلوچ ہیں۔ اسکے بعد یہاں پنجابیوں کی باری آتی ہے جو کہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایک ایسے بلوچستان کو کس آزاد ملک میں تخلیق کیا جائے گا۔
اچھا ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ یہ خود غرض، ظالم سردار عوامی حمایت کے ساتھ آزاد بلوچستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے. کیونکہ فوج نے ان کو آزادی سے محروم کر رکھا ہے۔  تو انکے آزاد ملک کا انتظام کون چلائے گا۔ وہ کیڑے مکوڑے تو نہیں چلا پائیں گے جو انہوں نے پچھلے چونسٹھ سالوں میں اپنی غلامی کے کوکون میں محفوظ کر کے اپنی بادشاہت کی تسکین کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ پھر یقیناً یہ امریکی سینیٹرز یا لندن کے صحافی آکر ہی انکی مدد کریں گے۔ ایک دفعہ پھر قدرتی دولت میں انہیں ساجھے دار بنانا پڑے گا۔ تو اب کیا مسئلہ ہے؟
مجھ جیسے پاکستانیوں کو یہ بھی سمجھنا ہے کہ سردار اپنی رعایا پہ زندگی تنگ کر دے انہیں انسان تسلیم کرنے سے انکار کر دے، انکے خاندان کے خاندان ختم کر دے تو کوئ نکتہ ء اعتراض نہیں ابھرتا۔ کوئ اللہ کا بندہ نہیں کہتا کہ انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے اور ان زمینی فرعونوں کے خلاف کارروائ کی جائے۔ لیکن جب سیاسی بساط پہ چالیں چلی جاتی ہیں , فوج یا حکومتی ایسے رد عمل پہ امریکی کانگریس مین قرار دادیں پاس کرتے ہیں تو کیا مینگل، کیا بگتی اور کیا وسعت اللہ خان سب ہی ایک آواز ہو جاتے ہیں۔ 
جس طرح پاکستانیوں کو کسی چیز سے نفرت دلانے کے لِئے ایک ہی نعرہ کافی ہے کہ یہ امریکیوں نے کیا ہے اسی طرح یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سے باہر ایک حلقہ صرف یہ نعرہ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ یہ ظلم پاکستانی فوج کا کام ہے۔ کیا ان دو انتہائ صورتوں کے درمیان پاکستانی عوام کے لئے کوئ امید موجود ہے؟

6 comments:

  1. نہایت شاندار تحریر ہے ....بلوچستان کے عام لوگوں کو تو واقعی یہ بھی علم نہیں کہ انسان حیوانات سے الگ کوئی مخلوق ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اُٹھا سکتا ہے .....جب بگٹی کا قتل ہوا تھا تو میں نے اس کے متعلق بہت سا مواد جمع کرکے پ
    پڑھا تھا....پتہ یہ چلا کہ موصوف نے پہلا قتل بچپن میں کیا تھا، قتل کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مقتول کی شکل اچھی نہیں لگتی تھی....
    باقی داستان بھی بہت بھیانک تھی...

    ReplyDelete
  2. بی بی سی اردو والوں ویسے بھی سوائے پاکستانیوں کے زخموں ہر نمک چھڑکنے کے اور کوئی کام نہیں۔

    ReplyDelete
  3. بلوچ عوام کو کیڑے مکوڑے کہنے پر میں سخت احتجاج کرتا ہوں، مزید یہ کہ پاکستان سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے لئے لکھی گئی اس تحریر کو پڑھ کر آپ زید حامد کی چھوٹی بہن معلوم ہورہی ہیں؟

    ویسے کراچی میں ہوئے فوجی آپریشن کا ذمہ دار قون تھا، مہاجر قیادت ؟؟؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کتنی بار بلوچستان گئے ہیں۔ مجھے اپنا یاد نہیں ، کیونکہ کئ بار جا چکی ہوں۔
      آپ کی اس وقت کیا عمر تھی جب کراچی میں آپریشن ہوا۔ یا آپکی اس وقت کیا عمر تھی جب کراچی میں علی گڑھ کالونی کا واقعہ پیش آیا۔
      کیا کراچی میں کبھی فیوڈل لارڈز کا کنٹرول رہا۔ کیا آپکے ساتھ ایسا کبھی ہوا کہ آپ اسکول نہ جا سکے کیونکہ آپکے علاقے میں اسکول نہیں تھا اور اسکول نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ایم کیو ایم نے اس علاقے میں اسکول نہ بننے دیا۔ کیا آپکے گھر میں کسی شخص نے اس لئے جان دی کہ ایم کی۹و ایم نے آپکے علاقے میں ہسپتال نہیں بننے دیا۔ کیا آپکی رشتے دار خواتین نے اس لئے زچگی میں جان دی کہ ایم کیو ایم نے آپکے علاقے میں خواتین کی ڈلیوری کے لئے انتظامات کرنے سے منع کیا ہوا تھا۔ کیا آپکے گھر کے تمام افراد گٹکے اور چترس کا نشہ کرتے ہیں کیونکہ ایم کیو ایم منشیات سے آمدنی کماتی ہے۔ کیا آپکو ایم کیو ایم سے تمام نفرت کے باوجود انکے لئے اسلحہ لے کر لڑنا پڑتا ہے۔
      یہ بالکل ضروری نہیں کہ چونکہ فوج کے حصے میں زیادہ تر غلط فیصلے اور سفاکیاں آئ ہیں اس لئے ساری کی ساری برائ انکے ہی حصے میں ڈالی جائے۔
      پھر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ فوج نے کراچی کی تمام سڑکیں اڑا دیں، تمام ہسپتال تباہ کر دئیے، تمام اسکول ختم کر دئیے۔
      کراچی کے حالات کا بلوچستان کے حالات سے کوئ مقابلہ نہیں یہ دونوں جگہیں بالکل مختلف سیاسی اور معاشرتی پس منظر رکھتی ہیں۔ جیسے بنگلہ دیش کا ، بلوچستان سے کوئ مقابلہ نہیں۔ بنگلہ دیش کی تعلیمی شرح اس وقت بلوچوں کے مقابلے میں کیں زیادہ تھی، بنگلہ دیشی رہ نما امریکہ اور سوئیڈن میں بیٹھ کر اپنی تحریک نہیں چلا رہے تھے۔ ایسا بھی نہیں تھَا کہ مجیب الرحمن کی نسلیں تو آکسفورڈ میں پڑھ رہی ہوں اور وہ بنگلہ دیش میں اسکول بھی نہ بننے دے رہا ہو۔
      کراچی میں فوجی آپریشن کا ذ٘مہ دار کون تھا؟ صرف فوج نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹوبھی اس میں شامل رہے۔ آج نواز شریف کو بلوچی رہ نماءووں سے جو شیطانوں سے کم نہیں بڑا بھائ چارہ ہو رہا ہے کل کراچی میں تو انکا بس نہیں چکتا تھا کہ کس طرح مہاجر قومیت کا نام لینے والی زبان کو ہی ختم کر دیا جائے۔ کراچی میں تو قبائلی اور غیر قبائلی کی جنگ تھی۔ اس وقت جناح پور کا شوشہ کس نے کھڑا کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی کراچی میں کوئ اردو اسپیکنگ جناح پور سے دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ نہ اس بارے میں اتنی تفصیل سے آگاہ تھا جتنا کہ اہلیان پنجاب اس سے آگاہ تھے اور آج تک سمجھتے ہیں یا سمجھائے جاتے ہیں کہ کراچی تو جناح پور بننے والا ہے۔ وہ بھی سیاسی ضرورت کے تحت اڑائ جانے والی خبر تھی.
      بلوچستان میں ایسا نہیں ہے یہ صرف مفادات کی جنگ ہے۔ ورنہ بلوچ سردار ایک لمبے عرصے تک قدرتی دولت پہ رائلیٹی لیتے رہے لیکن کبھی ایک پیسہ بھی عوام کی بہتری کے لئے اس میں سے خرچ نہیں کیا۔ جس میں اب بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں اور اپنا حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اسکی وجہ علاقے میں جاری اور بھضی ایشوز ہو سکتے ہیں مثلاً ایران پہ بڑھتا دباءو۔ مثلاً افغانستان سے نکلتے ہوئے پاکستان کو اپنے قابو سے نہ نکلنے دینا۔
      اسٹیبلشمنٹ سے مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن امریکی کانگریس مین کو کیا ضرورت آ پڑی کہ بلوچستان کے لئے قرارداد پیش کریں اور اس پہ بگتی اور مینگل خوشگوار بیانات دیں۔ کیا ان لوگوں کو اس لئے برا نہ کہا جائے کہ اس سے کہیں اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ بہتر نہ ہوجائے۔
      نہیں زید حامد کی طرح مجھے لال قلعہ پہ پاکستانی جھنڈا لہرانے سے دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں اس چیز پہ یقین رکھتی ہوں کہ ہندوستان سے ہمارا کوئ انتقامی رشتہ ہے اور نہ ہی میں اس نظرئیے سے متائثر ہوں کہ پاکستانیوں کے حصَ میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا جہاد آیا ہے۔ ہمیں بھی حق ہے کہ ہم دنیا میں اپنا حصہ لیں۔ ہماری نسلیں بھی امن اور سکون کے دن دیکھیں، ہمارے بچے جانیں کہ سائینس اور فنون کیا ہوتے ہیں۔ اللہ نے انہیں کن انسانی خوبیوں سے نوازا ہے اور اس کائینات میں انکے کرنے کو کتنے دلچسپ کام ہیں جنگ کے علاوہ۔

      Delete
  4. اجی آپ بلوچ سرداروں کو گولی مارئیے لیکن اگلی تحریری ضرور بلوچ عوم کے نکتہ نظر کو بھی جان کر لکھیئے، بلوچ سردار ہوں یا پاکستانی فوج کے لارڈز، اگر بلوچ عوام ان دونوں کر مسترد کر رہے ہوں تو پھر یہ دونوں ہی غلط ہوئے نا؟ یاد دہانی کے لیے لا پتہ افراد میں سردار کم اور غریب اچھوت زیادہ ہیں۔
    افتخار خان

    ReplyDelete
    Replies
    1. افتخار خان صاحب، یہی بنیادی بات ہے کہ بلوچستان سے باہر لوگ بلوچی عوام کے نکتہ ء نظر کو نہیں جانتے اس لئے جب بھی واویلہ ہوتا ہے وہ ان سرداروں کے حوالے سے یہی ہوتا ہے کہ بلوچی آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں جبکہ بلوچی عوام اپنے لئے ایک آسان زندگی چاہتی ہے جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ مجھے عوامی سطح پہ کوئ بلوچی ایسا نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ وہ ایک ملک بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا ہے۔
      البتہ ایسے لوگ بہت ملے ہیں جنہیں یہ شکایت ہے کہ اس سارے ہنگامے کی وجہ سے انکے معاشی حالات پہلے کی نسبت خراب ہوئے ہیں۔ اسکی ایک مثال گوادر شہر ہے جہاں تین سال میں تیز رفتار ترقی ہوئ۔ مکران ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں، بڑے خواب تھے اور اب پچھلے چار سال سے معاملہ کھٹائ میں پڑ گیا ہے۔
      اس پہ کوئ بات نہیں کرتا۔ آج بھی زرداری صاحب کہتے ہیں کہ وہ ناراض سرداروں کو گلے لگانے کے لئے تیار ہیں ، عوام پھر اس میں کہیں نہیں ہے۔
      لاپتہ افراد میں سردار کم ہوتے ہیں کیونکہ ہاتھیوں کی جنگ میں ہمیشہ نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔
      جن کو بلوچ عوام کا دشمن کہہ کر مارا جاتا ہے وہ بھی یونیورسٹی کا کوئ استاد یا تندور پہ کام کرنے والا کوئ پٹھان یا پھر کوئ مستری پنجابی ہوتا ہے۔ اس میں بھی کتنے فوج کے اعلی اہلکار ہوتے ہیں۔
      سردار یہ سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ وہ بچا ہوا ہے اور غریب مارا جائے تو اسی کی بات میں وزن پیدا ہوتا ہے۔ اسے فائدہ ہونے کے اور ایک شاندار ڈیل کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
      ادھر جب غیر بلوچ کی بنیاد پہ دوسرے لوگ مارے جاتے ہیں تو فوج خوش رہتی ہے کہ صوبے میں حالات اتنے خراب ہیں کہ ہمارا وہاں رہنا اور اپنی حاکمیت جمانا بالکل جائز ہے۔
      فوج جن جگہوں پہ بھی فائدہ اٹھا رہی ہے وہ قبائلی نظام کی وجہ سے ہے۔ اس لئے یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ