Monday, July 30, 2012

و تعز من تشاء؟

عزت ہمارے خطے میں ایک بہت اہم لفظ ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کسی بھی معمولی سی بات پہ خطرے میں پڑجاتی ہے اور اگر اسے خطرے میں نہیں پڑنا ہو تو آپ کروڑوں کی کرپشن کر ڈالیں یا منافقت کے جتنے چاہیں لبادے اوڑھ ڈالیں معاشرے میں آپکی عزت کو کوئ نقصان نہیں پہنچتا۔ 
مثلاً پسند کی شادی جسے عام طور سے محبت کی شادی سے ملا دیا جاتا ہے اس سے والدین کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ شادی بیاہ پہ اگر خواتین قیمتی کپڑے نہ پہنیں تو مرد کی عزت کم ہونے کا اندیشہ دامنگیر ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت زیادہ خطرے میں رہتی ہے۔ یوں اگر کوئ خاتون بچاءو بچاءو چیخے تو پہلا خیال بھی یہی آتا ہے کہ عزت خطرے میں ہے چاہے وہ چوہے یا چھپکلی کو دیکھ کر چیخ رہی ہو۔
ایک زمانے میں لاچار مرد اپنی عزت بچانے کے لئے پگڑی اتار کر واسطے دیا کرتا تھا۔ خواتین کی عزت دوپٹے کے ساتھ وابستہ تھی اور گبرو مرد اس دوپٹے کی حفاظت کے لئے جان لٹا دیتے تھے۔  دوپٹہ تو اسکارف میں تبدیل ہو گیا لیکن پگڑی سرے سے نا پید ہو گئ۔
ذرا سانس لے کر وضاحت کر دوں کہ یہ تحریر  دوپٹے اور پگڑی  کے بالترتیب ارتقاء اور عنقا ہو جانے کے متعلق نہیں۔ کیونکہ یہاں سے پگڑی کے نایاب ہوجانے کی وجوہات پہ غور کے بجائے دوپٹے اور اسکارف کے تقدس پہ بات جا سکتی ہے۔ جس پہ نہ صرف پہلے بھی سیر حاصل بحث ہو چکی ہے بلکہ مزید سیر کے لئے آئندہ الگ سے بحث ہو سکتی ہے۔
بات ہے عزت کی۔ عزت کیا چیز ہے؟
میں اسکی کوئ جامع تعریف کرنے سے معذور ہوں۔ لیکن لوگوں کو یہ کہتے اکثر سنتی ہوں کہ یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔ یعنی خدا ہی عزت دینے والا ہے حالانکہ خدا کا دعوی ہے کہ وہی ذلت دینے والا بھی ہے لیکن اکثر عناصر اسکا سہرا اپنے سر پہ باندھنا پسند کرتے ہیں تاکہ کچھ لوگ عزت بچانے کے چکر میں ان کے قابو میں رہیں۔ 
عزت پہ شعراء اکرام نے بہت کم لکھا ہے لیکن ذلت کو خوب موضوع بحث بنایا ہے۔ حالانکہ دونوں ہم قافیہ الفاظ ہیں۔  
اب کوئ اس پہ کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
 عزت کی تعریف کرنا کیوں مشکل ہے؟ اسکی بنیادی وجہ اس کے دعوے دار ہیں۔
اس لئے ایٹم بم کا دھماکا کرنے کے بعد بھی ہم سنتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اس عزت سے نوازا۔ ادھر ایک ڈیرے دار طوائف بھی اپنے لباس کی نوک پلک درست کرتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے کہ بس آج جو بھی مرتبہ ہےعزت ہے وہ خدا کی عطا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں اگر ہم اس پہ یقین رکھتے ہیں کہ سبھی کچھ خدا کا دیا ہوا ہے سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں۔
لیکن پھر بھی ہم اس طوائف کی بات پہ ہنستے ہیں اور اس سیاستداں کی بات پہ فخر سے سینہ پھلا لیتے ہیں۔
اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ عزت کا تعلق عام طور پہ معاشرے میں موجود اچھائ اور برائ کے معیار سے بڑا تعلق رکھتا ہے۔ طوائف کا پیشہ، نیچ  سمجھا جاتا ہے اس لئے وہ اپنے پیشے میں جتنی بھی کامیابی حاصل کرے۔ چاہے لوگ اسکی ایک جھلک کے لئے اپنا دین اور ایمان لٹا دینے کو تیار ہوں۔ اسکے ابرو کے اشارے پہ عاشق پہاڑ تو کیا آسمان کو زیر کر لے لیکن جب بھی وہ یہ کہے گی کہ یہ سب عزت خدا کی دی ہوئ ہے تو ہم  ہنستے ہیں۔
اسکے بر عکس، ہم ایک ایسا ہتھیار بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو چشم زدن میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو ختم کر سکتا ہے تو ہمیں انتہائ فخر اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم دشمن پہ سبقت حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ ہمیں آسانی سے ہرا نہیں سکتا۔ چونکہ ہم ہار نہیں سکتے اس لئے ہم عزت دار ہونگے۔ جس شخص نے یہ حاصل کرنے میں ہماری مدد کی وہ بھی ہماری عزت کا مستحق ہے۔ وہ شخص بھی یہی کہے گا کہ یہ عزت خدا کی دی ہوئ ہے ۔ ہم اسکا احترام کرتے ہیں۔ ہم اسکی بات کو سچ جانتے ہیں۔
عزت کے دعوے دار اور عزت کے پرستار دونوں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی ہے جس پہ عزت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
 گاءوں کے چوپال میں درد بھری آواز میں ماہیا گانے والا میراثی کہلاتا ہے اس کا سماجی مرتبہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن جب آواز کا یہ جادو نورجہاں جنگ کے گیتوں میں دکھاتی ہے تو ملکہ ء ترنم کا خطاب پاتی ہے۔ کس میں ہمت کے انہیں میراثن کہہ دے۔   
عزت کے بارے میں آج جاننے کی خواہش اس وقت سوا ہو گئ جب ایک جگہ پڑھا کہ ڈاکٹرعامر لیاقت کو جب خدا نے عزت دی ہے لوگ اسکی بات سنتے ہیں ، لوگوں پہ اسکی بات کا اثر ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اسے برا کیوں کہتے ہیں؟  لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں رمضان میں تبلیغ کے عمل سے روک دیا جائے۔ نہ صرف ان صاحب نے لکھا بلکہ دیگر صاحبان نے اسے شیئر بھی کیا۔
آج پھر میں نے سوچا کہ خدا کی دی ہوئ عزت کیا چیز ہوتی ہے؟  اگر ایسا ہے تو زرداری سے بےزاری کیوں؟ ان کی عزت بھی خدا کی دی ہوئ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق یہ مرتبہ انہیں محض لوگوں کے ووٹ سے حاصل نہیں ہوا۔  لوگوں کے ایک بڑے حلقے میں انکا اثر ہے۔ لوگ انکی بات سنتے ہیں ان پہ اثر ہوتا ہے۔ یہی بات الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان حتی کہ ملا عمر اور اوبامہ کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ اور چونکہ ان سب کو ملی ہوئ عزت کو خداکی دین سمجھنا چاہئیے تو ہمیں انکی عزت بھی کرنی چاہئیے اور انکے متعلق برا نہیں کہنا چاہئیے۔
کیا ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئیے کہ یہ سب لوگ جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں اسکے لئے عملی طور پہ کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں؟  یا آسان الفاظ میں جب خدا کسی کو عزت اور مرتبہ دے دے اور لوگوں پہ اس کا اثر قائم ہو جائے تو کیا اسکے خلاف آواز بلند کرنا خدا کے خلاف جانا ہوتا ہے؟
  

Tuesday, July 24, 2012

پولیو کے خلاف جہاد

ہر دفعہ پولیو مہم کے ساتھ ہی خبروں  اور اعتراضات کا ایک سلسلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کیوں؟
خبر یہ ہے کہ کراچی میں پولیو مہم سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو مار دیا گیا۔  یہ واقعہ سہراب گوٹھ کے علاقے میں موجود الآصف اسکوائرکے نزدیک  پیش آیا جہاں افغان مہاجرین اور پشتونوں کی آبادی زیادہ ہے۔ کراچی میں جن لوگوں نے ان قطروں کو پلانے سے انکار کیا ، وہ بھی عام طور پہ انہی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں ہی پولیو کی مہم کو سب سے زیادہ خطرات لا حق ہوتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ ان گروہوں میں آگہی اور تعلیم کی کمی ہے۔
دوسری طرف اس مہم کو نہایت سنگدلی کے ساتھ مذہب اور جہاد سے جوڑ دیا گیا ہے۔  برین واشنگ اس طرح ہوتی ہے کہ چونکہ ہم کافروں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اس لئے وہ اس ویکسین کے ذریعے ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ویکسین کے مقابلے میں سر درد کی گولیوں سے یہ کام کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری کسی بھی دوا کو چھوڑ کر محض اس ویکسین کو پکڑ لیا گیا ہے۔ شاید یہ کہ عام طور پہ اس ویکسین کی مہم چلانے کے لئے تعلیم یافتہ لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور مخصوص عناصر نہیں چاہتے کہ تعلیم کا کوئ بھی مثبت پہلو سامنے آئے۔ 
 آج ہم اس تحریر میں ویکسین ہی پہ بات کریں گے۔

ویکسین کیا ہوتی ہے؟
ویکسین ایک ایسا مرکب ہوتا ہے جو انسانی جسم کے دفاعی نظام کو مختلف بیماریوں کے لئے بہتر بناتا ہے۔ یہ مرکب جن مختلف طریقوں سے تیار کیا جا سکتا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
نمبر ایک؛ 
جس بیماری کے خلاف دفاع حاصل کرنا ہو اسی کے کمزور یا مردہ جراثیم سے۔ جراثیم کو مردہ  یا کمزور کرنے کے لئے کیمیکلز، حرارت، تابکاری یا اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جاتی ہیں۔ پولیو کی ویکسین اسی طریقے سے تیار ہوتی ہے۔
نمبر دو؛
وہ جراثیم جو زہر خارج کرتے ہیں اس زہر سے مشابہت رکھنے والے کسی مرکب سے تیار کی جاتی ہیں۔ ٹیٹنس اور کالی کھانسی کی ویکسین اسی طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔
نمبر تین؛
 جراثیم کی بیرونی سطح پہ پائ جانے والی پروٹینز کی ساخت سے مشابہت رکھنے والے مرکبات کی مدد سے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین اس طریقے سے تیار ہوتی ہے۔
 ویکسین بنانے کے دیگر طریقے بھی استعمال میں آ رہے ہیں جنکی تفصیل میں ہم اس وقت نہیں جا رہے۔

ویکسین انسانی جسم میں کیسے کام کرتی ہے؟
انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف دفاع کے لئے ایک مربوط نظام موجود ہے جسے ہم امیون سسٹم کہتے ہیں۔ یہ نظام اپنے جسمانی خلیوں کو پہچانتا ہے  لیکن جیسے ہی کوئ اور ایجنٹ جسم میں داخل ہوتا ہے جو کہ اس جسم کا نہیں ہوتا وہ اسکے خلاف حرکت میں آجاتا ہے۔ اگر جراثیم طاقتور ہوتے ہیں تو وہ اس نظام پہ حاوی ہو جاتے ہیں اور انسان کو بیمار کر دیتے ہیں اگر ان جراثیم کی تعداد ایک مخصوص مقدار سے کم ہوتی ہے یا انکا زہریلا پن کم ہوتا ہے تو جسم کا دفاعی نظام اسے زیر کر لیتا ہے اور انسان کو بیماری سے بچا لیتا ہے۔
زیادہ تر حالات میں انسان کا یہ دفاعی نظام اس ایجنٹ کو برباد کرنے کے ساتھ اسکی ساخت یاد کر لیتا ہے۔ اس طرح جب وہ جراثیم دوبارہ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو انسانی جسم کا یہ دفاعی نظام تیزی سے ایکشن میں آتا ہے اور انہیں فی الفور ختم کر دیتا ہے۔
جب انسان نے جراثیم کے بارے میں جانا اور اسے انسانی جسم کے اس دفاعی نظام کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ یوں ویکسین وجود میں آئ۔ ویکسین انسانی جسم کو بیمار ہونے سے پہلے ہی تحفظ دیتی ہے اس طرح یہ دیگر ادویات کے مقابلے میں کہیں موءثر ہوتی ہیں۔ محض معمولی سی مقدار زیادہ تر حالات میں تا عمر تحفظ دیتی ہے یا پھر ایک مخصوص عرصے کے لئے تحفظ دیتی ہے۔ زیادہ تر ویکسین سستی ہوتی ہیں۔ چونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہی اتنے فنڈز ہوتے ہیں کہ لوگوں کی صحت پہ خرچ کئ جا سکیں تو عام طور پہ تحقیقاتی ادارے بھی ان ملکوں میں پھیلی ہوئ بیماریوں پہ توجہ کرتے ہیں اور غریب ملکوں میں عام بیماریوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے غریب ملکوں کی بیماریوں کے خلاف سستا علاج ڈھونڈھنا مشکل ہوتا ہے۔

 انیس سو چھتیس میں فارملڈی ہائیڈ کے ذریعے پولیو جراثیم کو مردہ کر کے ویکسین بنائ گئ۔ اسے بنانے والے سائینسدان نے اسے اپنے اوپر اپنے کچھ ساتھیوں اور تین ہزار بچوں پہ آزمایا۔ ان میں سے کچھ بچوں کو اس سے الرجی ہو گئ، لیکن کسی بچے کو پولیو نہیں ہوا۔ اس لئے یہ ویکسین کامیاب نہ کہلائ جا سکی۔ کچھ اور تجربات کئے گئے جو کامیاب نہ ہوئے۔
ایک اور گروپ  نے جان اینڈر کی سربراہی میں تحقیقات کی اور اسکے نتیجے میں وہ پولیو کے جراثیم کاشت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جان اینڈر کو اس سلسلے میں نوبل پرائز بھی ملا۔
انیس سو باون  اور تریپن میں امریکہ میں تقریبا نوے ہزار لوگ پولیو سے متائثر ہوئے۔ جسکی وجہ سے اسکی ویکسین کی تیاری کی طرف خصوصی توجہ کی گئ۔ جو ویکسین ملی اسے پہلی دفعہ انیس سو پچاس میں ایک آٹھ سالہ لڑکے پہ آزمایا گیا۔ کامیابی کے بعد مزید انیس بچوں کو دی گئ۔  انیس سو پچپن میں اسکا اعلان کیا گیا۔

جوناس ساک، سائینسدان جس نے پہلی دفعہ انجیکشن والی پولیو ویکسین بنائ، بے غرض والدین کی بچی جس نے اپنا بازو پیش کیا نئ ویکسین کی آزمائش کے لئے

اور اب اس بیماری کا امریکہ سے خاتمہ ہوچکا ہے۔ سن دو ہزار میں چین اور آسٹریلیا سے اسکے خاتمے کا اعلان ہوا اور دو ہزار دو میں یوروپ میں اسکے خاتمے کا اعلان ہوا۔ اس کے باوجود ان تمام علاقوں میں بچوں کو پولیو کی ویکسین دی جاتی ہے۔ دنیا میں اس وقت صرف چار ملک ایسے ہیں جہاں پولیو موجود ہے ان ملکوں میں نائجیریا، افغانستان، انڈیا اور ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں چند عناصر اسے ختم کرنے کی راہ میں حائل ہیں اور نہیں چاہتے کہ بچوں کو اس ویکسین کے قطرے ملیں۔ 
 پولیو ویکسین دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک  انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے اور اس میں پولیو کے مردہ جراثیم استعمال ہوتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی دوسری صورت قطروں کی شکل میں استعمال ہوتی ہے یہ کمزور کئے گئے جراثیم سے تیار ہوتی ہے۔ اس دوسری ویکسین کو ایسے علاقوں میں دیا جاتا ہے جہاں پولیو کا وبائ مرض بننے کا امکان ہوتا ہے۔ چونکہ یہ منہ کے ذریعے دی جاتی ہے اصل بیماری پیدا کرنے والے جراثیم بھی منہ کے ذریعے داخل ہوتے ہیں اس لئے زیادہ مءوثر ہوتی ہے۔ جسم سے جب فضلہ خارج ہوتا ہے تو یہ اس فضلے میں بھی خارج ہوتے ہیں جہاں سے یہ دوسرے انسانوں کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے انہیں بغیر ویکسینیشن کے ہی تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔
پولیو ویسکین کےاجزاء کیا ہوتے ہیں؟
قطروں والی ویکسین کے اجزاء اس طرح ہیں۔ بیماری کے جراثیم کی مختلف اقسام  اور ان کے علاوہ بہت کم مقدار میں اینٹی بائیوٹکس ہوتی ہیں جو عام طور پہ نیو مائسین یا اسٹرپٹو مائسین ہوتی ہیں اس میں کوئ اور محفوظ کرنے والا کیمیکل استعمال نہیں ہوتا۔
OPV is usually provided in vials containing 10-20 doses of vaccine. A single dose of oral polio vaccine (usually two drops) contains 1,000,000 infectious units of Sabin 1 (effective against PV1), 100,000 infectious units of the Sabin 2 strain, and 600,000 infectious units of Sabin 3. The vaccine contains small traces of antibioticsneomycin and streptomycin—but does not contain preservatives.
قطروں والی ویکسین میں چند قباحتیں ہیں۔ سب سے پہلی تو یہ کہ پولیو کے نیم مردہ جراثیم اتنی طاقت حاصل کر لیں کہ تندرست جراثیم کے برابر ہو جائیں اس طرح وہ بیماری پھیلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یعنی اندازاً ساڑھے سات لاکھ میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہو سکتا ہے  اور یہ بھی ان بچوں میں ہوتا ہے جن کا دفاعی نظام کمزور ہوتا ہے یا اس میں اس بیماری کے جراثیم کے خلاف ایجنٹس بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ اس ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہوتا ہے۔ گرم ملکوں میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ نیم مردہ جراثیم کی وجہ سے ویکسین کا درجہ ء حرارت کم رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ 

کیا ویکسین دینے کے باوجود بچے اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں؟
بعض صورتوں میں ویکسین بہت موءثر ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً بعض افراد میں بیماری کے جراثیم کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لئے وہ ویکسینیشن کے باوجود بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ ٹیکوں کے لگانے کے وقت یعنی ٹائم ٹیبل کا دھیان نہ رکھنا، تیسری اہم وجہ ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے وقت انہیں ٹھنڈا رکھنے میں ناکام رہنا۔

کیا پولیو ویکسین سے بانجھ پن پیدا ہوتا ہے؟
جی نہیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اس سلسلے میں نہ صرف سرٹیفیکیٹ جاری کر چکی ہے بلکہ پمفلٹس تقسیم کرا چکی ہے کہ پولیو ویکسین نہ صرف معیاری ہے بلکہ اس طرح کے کوئ امکانات نہیں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ ویکسین بچوں کو دی جاتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بانجھ کر رہے ہوں دوسری طرف یہ ویکسین انیس سو پچاس کی دہائ سے دی جارہی ہیں۔ آج ساٹھ سال بعد بھی ایسی کوئ تحقیق یا مشاہدہ سامنے نہیں آ سکا۔
بانجھ پن کی دیگر متعدد وجوہات ہیں جنکی طرف یہ عناصر کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور ان میں سب سے پہلی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ کاشتکاری کے لئے فرٹیلائزرز کا استعمال، کیڑے مار ادویات یہ سب بھی تو بانجھ پن پیدا کر سکتی ہیں حتی کہ ذہنی تناءو بھی بانجھ پن پیدا کر سکتا ہے۔ انکے خلاف کیوں نہیں کوششیں ہوتیں۔

کیا پولیو ویکسین کے لئے بچوں کا خون چاہئیے ہوتا ہے؟
جی نہیں ، پاکستان میں جو ویکسین دی جاتی ہے یہ قطروں کی صورت میں ہوتی ہے اور اس کے لئے کسی بھی قسم کے انجکشن یا خون کے سیمپل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

  پاکستان میں بچوں کی ویکسینیشن کے لئے دو سال کی عمر تک مندرجہ ذیل چارٹ پہ عمل کیا جاتا ہے۔  پانچ سال کی عمر تک ڈی پی ٹی اور پولیو کے قطروں کا ایک بوسٹر دیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ بچوں کو ٹائیفائڈ کے بوسٹر بھی دئے جاتے ہیں جو ہر تین سال کے وقفے سے لگتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کے بھی ٹیکے میسر ہیں جو لگوانے چاہئیں۔

  اینٹی جن
عمر
 بی سی جی کا ٹیکہ دائیں ہاتھ پہ اوپر کی جانب جلد کے نیچے لگے گا۔ پولیو کے دو قطرے پلائے جائیں گے اور ہیپاٹائیٹس بی سے بچاءو کے انجکش بائیں ران کے گوشت میں لگیں گے۔

 پیدائش کے فوراً بعد
 پانچ بیماریوں کے خلاف ٹیکے لگیں جو اس طرح ہیں، ڈی پی ٹی کا ٹیکہ، ہیپاٹاٹئیس بی کا ٹیکہ اور ایچ آئ بی،  اسکے علاوہ پولیو ویکسین کے دو قطرے۔

 چھ ہفتوں پہ
 وہی پانچ بیماریوں کے ٹیکے جو چھ ہفتوں پہ لگائے گئے اور پولیو ویکسین کے دو قطرے۔

 دس ہفتوں پہ
 وہی پانچ بیماریوں کے ٹیکے جو پہلے لگے تھے اور پولیو ویکسین کے دو قطرے

 چودہ ہفتوں پہ
 نمونیا کا ٹیکہ جو کہ دائیں ران میں لگے گا

 چھ ہفتوں پہ

 نمونیا کا ٹیکہ بائیں ران میں لگے گا
 دس ہفتوں پہ
 نمونیا کا ٹیکہ بائیں ران میں لگے گا

 چودہ ہفتوں پہ
   خسرہ کا ٹیکہ جو الٹے ہاتھ پہ لگے گا

 نو مہینے پہ
 خسرہ کا ٹیکہ اور چکن پاکس کا ٹیکہ
 
 پندرہ مہینے پہ

پولیو کے جراثیم بیمار شخص کے فضلے کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص کو پھیل سکتے ہیں۔ بالخصوص ہمارے ملک میں جہاں لوگ ہاتھ دھونے یا صفائ رکھنے سے نا آشنا ہوتے ہیں اور جہاں ایک بڑے علاقے میں بیت الخلاء کا یا سیوریج نظام کا کوئ تصور نہیں ہوتا۔ اس بیماری کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 
یاد رکھیں پولیو کی بیماری میں اگر بچہ مرنے سے بچ جائے تو بھی اسکے معذور ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ معذوری،  دماغی معذوری سے جسمانی معذوری تک کوئ بھی شکل لے سکتی ہے۔ بچہ ایسی حالت میں بھی جا سکتا ہے کہ بستر پہ کروٹ نہ لے سکے اور اپنا ہاتھ ہلا کر اپنے جسم پہ سے ایک مکھی بھی نہ ہٹا سکے۔ ایسا معذور انسان ایک خاندان کی معیشت پہ نہ صرف بوجھ ہوتا ہے بلکہ چونکہ وہ اپنی کفالت کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تو دیگر رشتے دار بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ میں آنکھوں دیکھی بتا رہی ہوں کہ کس طرح والدین بلک بلک کر دعا کرتے ہیں کہ ذہنی طور پہ معذور اولاد کو انکی زندگی ہی میں موت آجائے۔ خاص طور پہ اگر یہ اولاد لڑکی ہو تو دیگر ہزار طرح کی پیچیدگیاں کھڑی ہوتی ہیں۔



پھر کیوں نہ ہم اپنی ساری کوششیں اس بات کی طرف مرکوز رکھیں کہ ہمارے بچے صحت مند رہیں۔
بچوں کو پیدا کرنے کا فریضہ تو جانور بھی انجام دیتے ہیں لیکن انہیں صحت مند زندگی حاصل کرنے میں مدد دینا اور انکے لئے اپنے معاشرے کو محفوظ بنانا یہ عمل ایک ذمہ دار انسان ہی انجام دے سکتا ہے۔

Monday, July 23, 2012

ہے کون سا فرق ایسا؟

سحری، افطار، پھر عید کی تیاریاں اور ساتھ ہی ثواب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی رمضان کی کشش بڑھانے کو کم نہ تھا کہ اس دفعہ وینا ملک نے اپنے استغفار کا بھی اعلان کر دیا اور وہ بھی عین رمضان میں۔ ہم تو سمجھے، شاید اس لئے کہ رمضان میں ہر نیک عمل کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں نے اس استغفار کے خلاف مہم چلا دی اور اب سنتے ہیں کہ یہ استغفار عوام تک نہیں پہنچ پائے گا۔ عوام تک کیا اب خدا تک بھی اسکا پہنچنا مشکل ہےیہ رمضان پیکیج تھا اب اگلے سال تک دیکھتے ہیں  کیا یہ استغفار ہو پائے گا۔ سوری وینا، ٹرائ نیکسٹ ٹائم۔
لوگ کہتے ہیں کہ شیطان کو رمضان میں بند کر دیا جاتا ہے۔ لیکن عامر لیاقت حسین کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ انہیں لوگ رمضان میں اتنا زیادہ اس لئے پسند کرتے ہیں کہ وہ شیطان کو بہت مِس کرتے ہیں۔ البتہ انکی دعا کرانے پہ لوگوں پہ گریہ کیسے طاری ہوجاتا ہے یہ معمہ حل طلب ہے۔
http://www.youtube.com/watch?v=iiyG1pSlzpo&feature=related
 مجھے عامر لیاقت سے نجانے کیوں عجیب سی مخاصمت ہے حالانکہ ان کے فتوے، فتوے کم اور لطائف زیادہ لگتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا شیعوں کی سنیوں سے شادی ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے کیوں نہیں، سین سے سنی، شین سے شیعہ اور شین سے شادی۔ کیا مسئلہ ہے بھئ۔ ان سے پہلے حروف تہجی کو فتوی کے لئے کسی نے استعمال نہیں کیا۔ لیکن اتنا پروگریسو ہونے کے باوجود جب کوئ انہیں برا کہتا ہے تو مجھے یک گونہ تسلی رہتی ہے۔
وینا کے پروگرام پہ احتجاج اور عامر لیاقت کو خوش آمدید پہ جب میں سوال کرتی ہوں تو ایک جواب آتا ہے کہ اسکی وجہ وینا کی عریاں تصاویر ہیں۔ بس یونہی خیال آیا کہ جسم کی عریانیت اور زبان کی عریانیت میں سے کون گھٹیا درجے پہ ہے؟
اس لئے شیطان کا بطور خاص اس مہینے میں بند ہوجانا میرے لئے کم از کم بڑا سوالیہ نشان رکھتا ہے۔ ہم جو کچھ اس مہینے مشاہدہ کرتے ہیں کیا وہ اس روایت پہ پورا اترتا دکھائ دیتا ہے۔ کون سا شیطان بند ہوتا ہے۔ وہ جس نے خدا کے حکم پہ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا جسکا نام عزازیل ہے یا وہ جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور خدا کی طرح ہر لمحے اسکے ساتھ رہتا ہے اور صورت حال اس طرح رہتی ہے، اک طرف اسکا گھر اک طرف میکدہ۔ اک طرف محتسب اور اک طرف رند۔ 
خیر، ابھی کل ہی میں طارق روڈ پہ گاڑی پارک کرنے کی جگہ تلاش کر رہی تھی ایک جگہ ملی اسکے پاس چند سیکنڈ کو کھڑا کر کے سوچا کہ یہاں ذرا سناٹا سا ہے اس لئے مناسب نہیں لگ رہا۔ اتنے میں ایک بڑے میاں نازل ہو گئے کہ یہیں گاڑی پارک کرو۔ آگے کہیں  کروگی تو آجکل تو لوگ گاڑی کے شیشے بھی کاٹ لیتے ہیں۔ میں نے یہ سن کر گاڑی موڑی، بڑے میاں کو ناراض چھوڑا اور شاہراہ عام پہ آگئ۔ دور سہی، لیکن شیشہ کٹنے کا امکان کم ہے۔
ڈکیتیوں اور سر راہ لوٹ لینے کے واقعات میں چشم زدن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نیا ٹرینڈ یہ ہے کہ لوگ جو شاپنگ کر کے لوٹتے ہیں وہ بھی کوئ لوٹ لیتا ہے۔ چونکہ شیطان بند ہے اس لئے کم از کم اس مہینے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب ہمارے بھائ بندوں میں سے کوئ کرتا ہے وہ بھی مسلمان۔  لیکن ان دونوں میں ہے کون سا فرق ایسا؟
یوں اس مہینے پرچون فروشوں، قصائیوں ، درزیوں، بوتیکس اور کپڑے کی دوکان والوں میں مقابلہ کرایا جائے تو ڈاکو اور چور اچکے سب سے زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ ان میں سے شیطان کی دی ہوئ ذمہ داری کون اچھی طرح نبھاتا ہے۔
کیا واقعی شیطان بند ہوتا ہے؟ شاید نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ گوشت کی قیمت میں پہلی رمضان کو نہیں تو دوسرے دن ضرور اضافہ ہوجائے گا۔  قیمت کے اس اضافے سے دودھ اور پھل بھی متائثر ہونگے۔  یہ پیکیج شاید شیطان رمضان کی چھٹیوں سے پہلے طے کر جاتا ہے۔ شیطان، رمضان کی تیاریاں شب براءت میں شروع کرتا ہے جب ہم رات کو جاگ کر اپنے گناہ بخشوا رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے نئے گناہوں کا نصاب تیار کر لیتا ہے۔
کیا واقعی شیطان بند ہوتا ہے؟ شاید ہاں۔ کیونکہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی نصیحتوں اور تبلیغ کا ایک ریلہ داخل ہوچکا ہے۔ ہر ایک اس میں بھی مصروف ہے۔ اسکا بھی بڑا ثواب ہے اور اسکا ثواب الگ جو وہ بتلا رہے ہیں۔  فیس بک وغیرہ کی آمد سے ثواب حاصل کرنا اب پہلے سے کہیں آسان ہے صرف ایک کلک پہ ثواب کا سلسلہ جاری۔ کیا لفظ کلک قرآن میں آیا ہے؟ کیا انٹر نیٹ کی پیشن گوئ اس میں موجود ہے؟ یہ سب جانے بغیر لوگ دھڑا دھر ثواب کی کلِکس کئے جا رہے ہیں۔ یہ دوڑ عین اس وقت متائثر ہوتی ہے جب شیئر کرنے کا لنک ہم جیسے شیطانوں کے پاس پہنچتا ہے۔
ان تمام نصیحتوں سے الگ جو مذہبی کتابوں کا خلاصہ نکال کر تیار کی جاتی ہیں۔ کل کی ایک نصیحت یاد آرہی ہے۔ ایک خاتون نے نصیحت کی کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا کہ زندگی کو آسان کرو اگر ہر وقت مصروف رہوگے تو خدا کی عبادت کیسے کروگے۔ اگر دن میں اپنی ساری توانائ دنیا کمانے میں لگا دوگے تو رات کو تہجد کیسے پڑھوگے؟  آسان زندگی کے اس فلسفے پہ ایک بزرگ خاتون نے خاصہ احتجاج کیا۔ میں نے کہا ہمارے کراچی میں تو لوگ کاروبار شروع ہی آدھے دن کے بعد کرتے ہیں۔ یہ شاید ڈاکٹر صاحب کی نصیحت کا کمال ہے۔ توانائ دن میں نہیں رات میں خرچ ہونی چاہئیے۔
ادھر رمضان کے لئے وظائف کا چارٹ بھی تیار ہے۔ اگر انسان ان سب پہ عمل کر لے تو سال بھر کے لئے گناہوں کی آزادی صاف نظر آتی ہے۔ مثلاً تین دفعہ قل شریف پڑھ لیں ایک قرآن کا ثواب، میرے جیسے دماغ میں تو آتا ہے کہ بس سارا دن قل شریف ہی پڑھتے رہنا چاہئیے ایکدن میں کتنے ہی قرآنوں کا ثواب ملے گا جبکہ اصل کو ایک دن میں پڑھکر ختم کرنا ہی ناممکن ہوتا، ادھر رمضان میں ایک قرآن ختم کر لیں سال بھر کی تلاوت کا ثواب۔
 چونکہ رمضان میں ثواب کئ گنا بڑھ جاتا ہے اس لئے لوگ عام زندگی کی چھوٹی موٹی نیکیاں بھی رمضان کے لئے چھوڑے رکھتے ہیں۔ مثلاً زکوۃ بچا کر رکھتے ہیں کہ اس مہینے دینے کا ثواب ہے۔ ایک صاحب نے رستے میں ایک پتھر دیکھا اٹھا کر ایک طرف کرنے کا سوچا تھا ہی کے خیال آیا کہ ابھی مغرب کے بعد رمضان کے چاند کا اعلان ہو جائے تو ہٹائیں گے۔ ثواب زیادہ ہوگا۔
کیا شیطان واقعی بند ہوتا ہے؟ تو یہ اوٹ پٹانگ تحاریر کون لکھتا ہے؟ 
رمضان میں ایسی اوٹ پٹانگ تحاریر پڑھنے کا کوئ ثواب نہیں۔ اس لئے آپ جلدی سے اپنی تسبیح پکڑئیے اور یہ بتائیے وہ کون سا اسم یا وظیفہ ہے جسکے پڑھنے سے انسان انٹر نیٹ سے دور رہتا ہے؟ جب تک میں ایک سادہ سا حساب کر لوں وینا ملک اور عامر لیاقت میں ہے کون سا فرق ایسا؟

Wednesday, July 18, 2012

سوشل میڈیا: چیلوں کا میلہ

تصور کریں کہ ایک شخص جو کہ اس ملک کے کسی مضافاتی علاقے میں رہا ہو جہاں زندگی کی اشد ضرورت کی اشیاء بھی نایاب ہوں۔ جس نے کبھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل کی شکل نہ دیکھی ہو، کبھی سگریٹ پیتی عورت سے بہ نفس نفیس ملاقات نہ کی ہو، کبھی ایک عورت کو ایک مرد سے معانقہ کرتے نہ دیکھا ہو بلکہ کسی عورت کا گھر سے باہر نکلنا ہی شدت سے برا سمجھتا ہو۔ اسے آپ اچانک ایسی تقریب میں پہنچا دیں جہاں اسکی دنیا کی یہ ساری قباحتیں موجود ہوں، جن کا اس نے زندگی میں تصور تک نہ کیا ہو۔
  مزے کی بات یہ ہے کہ تقریب کا نام تو سوشل میڈیا میلہ ہو جو پاکستان کے حوالے سے ہو۔ لیکن اس میں صرف وہ لوگ چھائے ہوں۔  جو اس ملک کے عام آدمی کی زبان نہیں بولتے۔ اسکے مسائل سے صرف اتنی دلچسپی رکھتے ہیں کہ اسے کسی اور جگہ استعمال کر کے اپنی دولت اور شہرت میں اضافہ کیا جا سکے۔ کیا یہ بے حسی، سفاکی اور خود غرضی کا دوسرا نام نہیں۔
سوشل میڈیا میلہ کے نام سے یہ تقریب کراچی میں  منعقد ہوئ۔ جس میں ایک اطلاع کے مطابق شہر کے اشرافیہ اور امریکی سفارتخانے کے عہدے داروں نے شرکت کی۔ میں اس میں نہیں گئ مجھے اس طبقے کے رنگ ڈھنگ معلوم ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ عام طور پہ یہ تقریبات اشرافیہ کے بیرون ملک  عہدے داروں سے تعلقات کو بڑھانے کے لئے منعقد ہوتی ہیں۔ اس میں تالیاں بجانے کا کام میں کیوں کروں؟ اس لئے اس ترغیب کے باوجود کہ اس میں اردو زبان کے حوالے سے بھی کوئ سیشن رکھاجائے گا میں نہیں گئ۔ 
مجھے اس چیز سے، اس منافقت سے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ جس سوشل میڈیا کو تبدیلی کا اہم ذریعہ سمجھا جا رہا ہے اسکے کرتا دھرتا انگریزی کے علاوہ کسی زبان کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کیوں کوئ موئثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ یہ سوشل نہیں ہے۔ ایک گیند مخصوص حلقوں میں گھومتی رہتی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
حالانکہ ہمارے یہ کرتا دھرتا اتنے وسائل رکھتے ہیں کہ چاہتے تو گوگل کو اردو سپورٹ کے لئے مجبور کروالیتے آخیر گوگل فارسی، عربی حتی کہ تیلگو زبان تک کو سپورٹ کرتا ہے۔ 
یہی نہیں یہ سارے کرتا دھرتا در حقیقت دل سے یہ چاہتے ہی نہیں کہ ایک عام آدمی کو درپیش مسائل حل ہو جائیں یا وہ اسکے حل میں اپنا حصہ ڈال سکیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک اتنی اہلیت اور وسائل رکھتا ہے کہ یہاں تبدیلی کا سیلاب آجائے۔ لیکن ایسی تبدیلی کا کیا فائدہ کہ ان میں اور عام آدمی میں برسوں کی محنت سے ٹہرایا ہوا فرق کم ہو جائے۔
 یہ اشرافیہ جن میں ہمارے دانشور بھی شامل ہیں، فکشن لکھنے والے بھی شامل ہیں اور اپنے لکھے پہ دنیا سے انعامات لینے والے بھی شامل ہیں، دستاویزی فلمیں بنانے والے بھی شامل ہیں، این جی اوز سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔
یہ سب لوگ، اسی عام آدمی کی وجہ سے اپنی زندگیوں میں رنگینی حاصل کرتے ہیں۔ اگر انہیں ہم اپنی زندگی کے دکھ نہ سنائیں تو یہ کون سا فکشن لکھیں گے۔ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی قوت حاصل کر پائیں تو یہ انہیں دور کرنے کے لئے کہاں سے غیر ملکی امداد حاصل کریں گے۔ ہم اور ہماری تکلیفیں انکے لئے خوش قسمتی کے دروازے کھول دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب یہ ہمارے سامنے کبھی اتفاقاً آکر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ کیوں اس بات کی علامت بنے رہتے ہیں کہ یہ ہم میں سے نہیں۔ البتہ یہ ہمارے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ضرور ہیں۔ کتنے عظیم لوگ ہیں جو ہم بے چاروں کو شعور دینا چاہتے ہیں، ہمیں ایک آسان زندگی دینا چاہتے ہیں، ہمیں بنیادی انسانی حقوق دلوانا چاہتے ہیں لیکن ان کا ہم سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں یہ ان کا ہم پہ اور اس معاشرے پہ احسان ہے۔
ایسی تقریبات میں جان بوجھ کر پیدا کیا جانے والا طبقاتی فرق مجھے انتہائ مکروہ لگتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ نہ بغیر آستین کے کپڑوں سےخار ہے۔ اگر میرا رنگ خوب سفید ہوتا تو شاید میں بھی کبھی کبھار پہن لیتی۔ نہ ہی مجھے خواتین کا سگریٹ پینا عجیب لگتا ہے دیہاتی عورتیں بھی پیتی ہیں، حتی کہ میں ان عورتوں اور مردوں کو بھی نظر انداز کر دیتی ہوں جو ایکدوسرے کو خوش آمدید کہنے کے لئے معانقہ کرتے ہیں۔ یہاں دیہاتوں میں عورت اور مرد مصافحہ کرتے ہیں۔
لیکن مجھے اس چیز پہ حیرت ہوتی ہے کہ اسی معاشرے میں جہاں ایک انتہا یہ ہوتی ہے کہ عورت دس گز کے برقعے میں بھی باہر نہیں نکل سکتی وہاں دوسری انتہا یہ ہوتی ہے کہ خواتین سگریٹ ہاتھ میں دبائے، کھلے ڈلے کپڑے پہنے کسی مرد سے گلے مل رہی ہوتی ہیں۔ خواتین کے اس انداز پہ بھی مجھے اعتراض نہیں۔ ایک شخص اپنے لئے جو چاہے پسند کرے۔ اپنی ذاتی زندگی جیسے چاہے گذارے۔  لیکن طرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خواتین اس ملک کی پسی ہوئ خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ ایک عام آدمی لازماً یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہماری عورت جب دس گز کے برقعے سے باہر نکلے گی تو یہ عورت بن جائے گی۔ یہ عورت جو اسکے نزدیک بے حیاء عورت ہے۔ اس سے انکے کاز کو کوئ فائدہ نہیں پہنچتا۔ سوائے اسکے کہ انکا یہ لباس طبقاتی فرق کو قائم رکھنے میں معاون ہوتا ہے وہ کسی بھی مثبت مقصد کے لئے ایک رول ماڈل نہیں بنتیں۔ ایک ایسا رول ماڈل جسے دیکھ کر ایک کمزور عورت یہ سوچے کہ اگر میں کوشش کروں تو ایسی عورت بن سکتی ہوں، ایسی زبردست صلاحیتوں والی عورت۔ البتہ یہ کہ وہ اپنے سر کا اسکارف اور کس کے باندھ لیتی ہے۔
اس جگہ پہ آ کر ہمیں اپنی سرحد متعین کرنی پڑے گی۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کی عورتیں تعلیم حاصل کریں، معاشی استحکام حاصل کریں، اپنی زندگی پہ اپنا اختیار حاصل کریں، اپنے فیصلے خود کرنے کی قوت حاصل کریں۔ صحت حاصل کریں، بچے کتنے پیدا کریں گی یہ حق حاصل کریں، یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ سگریٹ۔ پیئیں، شراب پیئیں، کم کپڑے پہنیں، مردوں کے برابر اس طرح ہوں کہ انکے گال چومیں یا گلے لگیں۔
اسی طرح کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں معیاری اور بنیادی تعلیم سب کا حق ہو یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم بہتر معاشی حالت رکھتے ہیں اس لئے ہمارے بچے تو معیاری تعلیم حاصل کر لیں لیکن جو نہیں کر سکتے ہیں ہم انکا مذاق اڑائیں۔ حالانکہ انکا نہ کر پانا اس فرسودہ نظام کی وجہ سے ہے جسکی وجہ سے ہم مضبوط اور وہ کمزور ہیں۔ ہم خود ہی اس ملک میں کئ طرح کے تعلیمی طبقات بنائیں۔ کسی کواردو میڈیئم گورنمنٹ کے ناکارہ اسکول دیں کسی کو انگلش میڈیئم اعلی اسکول عنایت کریں۔ اور پھر اردو میڈیئم کو حقارت سے دیکھیں اور ان سے دور خود صرف اس لئے اڑے اڑے پھریں کہ انگلش بول سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں چاہے اسکے علاوہ ککھ نہ جانتے ہوں۔
اسی طرح بحیثیئت ایک لبرل پاکستانی کیا ہم اس ملک میں اس بات کی آزادی کے خواہشمند ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے مذہب پہ آزادی سے عمل کر سکے، بلا تفریق، مذہب، جنس، زبان، اور نسل کے ہم میں سے ہر ایک کو تعلیم کا اور صحت کا حق حاصل ہو، ہم میں سے ہر ایک کے  پاس با عزت روزگار ہو، ملک کا قانون ہر ایک شہری کو برابر کی نظر سے دیکھے اور اس کے فیصلوں پہ عمل در آمد ہو، ہر شہری کی جان ، مال اور عزت محفوظ ہو۔ ہم دنیا میں دہشت گرد ملک کے طور پہ نہ پہچانے جائیں، ہمارے لوگ خود کو بموں سے نہ اڑائیں ہم بات بے بات جان لینے اور جان دینے پہ نہ تیار رہیں۔ ہمارے یہاں درجنوں لوگ روزانہ بے گناہ تاریک راہوں میں نہ جان گنوائیں۔ ہماری عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی نہ ہو۔ ایک عورت کو باہر نکلنے ، چلنے پھرنے زندگی برتنے کی آزادی ہو۔ یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بس شراب پینے کی آزادی ہو۔
ہمارے اس طبقے کو جو انگریزی بولتا ہے سمجھتا ہے اور انگریزی میں اظہار کرنا پسند کرتا ہے اورمزید یہ کہ اپنے آپکو دانشور سمجھتا ہے، سمجھتا ہے کہ مسائل کی وجوہات اور صحیح حل اسے معلوم ہیں۔ اسے یہ بھی تو طے کرنا چاہئیے کہ آخر انکا کاز درحقیقت ہے کیا۔ 
اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک میں تبدیلی کا ڈھول پیٹنے والے سوچیں کہ دراصل وہ  کیا چاہتے ہیں؟ 
بہرحال انکے چاہنے سے الگ، سوشل میڈیا کسی کے اشاروں پہ نہیں چل سکتا۔ یہ عام آدمی سے چلتا ہے اور اگر کوئ اسے اپنے اشاروں پہ چلانا چاہتا ہے تو اسے عوامی بننا پڑے گا۔ یہی دیوار کا لکھا ہے۔
 

Sunday, July 15, 2012

دروازہ پچکاں

بلوچستان میں معدنیات کی ایک کان پہ جانے کا اتفاق ہوا تو بہت ساری دلچسپ باتوں کا اندازہ ہوا۔  بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں پہ مشتمل ہے وہ بھی بنجر پہاڑ۔ ان پہاڑوں کو دیکھ کر خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ کسی زمانے میں سمندر کے پانی سے ڈھکے ہوئے تھے اور جب یہ پانی غائب ہوا تو سمندر میں پوشیدہ یہ پہاڑ ظاہر ہو گئے۔ یہ کام ہزاروں سال پہلے ہوا ہوگا۔ اب یہ بظاہر بنجر پہاڑ، اپنےاندر خزانوں کو چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ خزانے  پر اسرار تو نہیں  لیکن لگتا ہے کہ ان پہ کسی آسیب کا سایہ ہے۔ یہ آسیب ان خزانوں کو باہر آنے نہیں دیتا ، دروازہ بند رکھتا ہے اور اسکا پہرہ دار ہے۔


ہمارے بلوچ ساتھی نے ہمیں معلومات دیں کہ اس علاقے میں لوہا، تانبا، بیریئم اور دیگر دھاتوں کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہم نے جب انٹر نیٹ کی طرف توجہ کی تو پتہ چلا کہ لوہا، تانبا، کرومیئم، بیرائٹ، فلورائیٹ اور مختلف طرح کے سنگ مر مر ہی نہیں سونا بھی یہاں سے نکالا جاتا ہے۔
   سونا جیسی زمین نہیں بلکہ سونے کی کانیں بھی بلوچستان میں موجود ہیں۔ یہ سونا ایک چینی کمپنی نکال رہی ہے۔ سونا،  تانبے کے ذخائر کے ساتھ عام طور سے ملتا ہے۔ سونے اور تانبے کے یہ ذخائر، ریکو ڈک جوکہ ایک چھوٹآ سا قصبہ ہے چاغی ڈسٹرکٹ ، بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔
 ہم جس علاقے میں موجود تھے یہ بیلہ کے قریب ہے۔ یہاں سے ماربل کی بڑی مقدار نکالی جا رہی ہے۔ ہمارے بلوچ ساتھی نے جن کا نام ہم انیس بلوچ فرض کر لیتے ہیں ہمیں بتایا کہ وہ علاقے جو سمندر کے ساتھ ہیں وہاں عام طور پہ ماربل نہیں ہوتا ، جو ہوتا ہے وہ اچھے معیار کا نہیں ہوتا۔ سمندر کا پانی اسے خراب کر دیتا ہے۔ ادھر بیلہ کی طرف اس کے بقول زیر زمین قدرتی گیس پائ جاتی ہے جو کہ زیادہ تر ماربل کی چٹانوں کو پھاڑ دیتی ہے۔ جس سے ماربل کا معیار اچھا نہیں رہتا۔
چٹان کی پھٹی ہوئ تہیں

انیس نے ہمیں مزید بتایا کہ ماربل کی  کانوں سے پیداوار اتنی اچھی حاصل نہیں ہو پاتی کیونکہ ہمارے پاس ماربل کی کان کنی کے لئے جدید مشینیں موجود نہیں ہیں۔ عام طور پہ چٹانوں کو توڑنے کے لئے ڈائینامائیٹ استعمال ہوتا ہے جس سے چٹان تباہ ہو جاتی ہے اور بڑے سائز کا پتھر نہیں ملتا۔ انیس بلوچ کا کہنا تھا کہ تقریباً پچھتر فی صد پیداوار تباہ ہوجاتی ہے جبکہ باہر کے ممالک میں یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
مشینیں کیوں نہیں ہیں، جبکہ بلوچستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال زمین سمجھا جاتا ہے۔ انیس کا کہنا تھا کہ حکومت زراعت کے لئے قرضہ دیتی ہے لیکن معدنیات کے لئے نہیں۔ لوگ اپنے طور پہ کام کرتے ہیں اور یہ بھاری بھرکم مشینیں نہیں خریدسکتے۔
حکومت کیوں ایسے قوانین نہیں بناتی کہ معدنیات کے لئے بھی قرضہ فراہم کیا جائے۔ اس پہ انیس بلوچ نے ہنستے ہوئے کہا یہ حکومت کہاں ہے یہ تو قبضہ گروپ ہے۔ ابھی ادھر زہری کی جو کانیں ہیں ، زرداری کی کوشش ہے کہ اس پہ اس کا قبضہ ہوجائے۔
یہ تو تھے ایک بلوچ کے خیالات۔ میرے خیال سے تو سرداری نظام ہر چیز پہ حاوی ہے۔ یہ کانیں سردار کی مرضی کے بغیر کوئ استعمال نہیں کر سکتا۔ 
سارا دن پہاڑ پہ ایک گرم دن اس طرح گذارا کہ لو چل رہی تھی اور ہم چٹائیوں سے بنے ایک شیڈ کے نیچے چٹائیوں پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کان پہ زیادہ تر مزدور پٹھان اور انتظامیہ سرائکی اور بلوچ تھی۔
دن کے تین بجے تک اس بات کے قوی امکان پیدا ہو چلے تھے کہ ہمیں لو لگ جائے گی۔ تب ہمارے میزبان ہمیں قریب واقع ایک چشمے پہ لے گئے۔ یہ جگہ درختوں سے گھری ہوئ تھی۔ زمین سے مختلف سمتوں سے پانی رس رس کر جمع ہورہا تھا اور اس نے ایک نالے کی شکل اختیار کر لی تھی۔ یہ چشمہ چند گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد زمین میں غائب ہو رہا تھا۔
چشمے کا پانی یہاں زمین میں غائب ہو رہا ہے

 صاف ستھرے اس پانی کو ہم نے پینے کی بھی جراءت کی۔ اگرچہ اس میں کائ کی مہک شامل تھی اور اسکے ارد گرد بن جانے والے جوہڑوں میں مینڈک بھی موجود تھے۔  لوگوں نے بالخصوص بچوں نے اس میں اشنان کرنے کی سعی بھی کی۔ اپنی اس کوشش میں وہ اس حد تک کامیاب رہے کہ پانی میں پاءوں پھیلا کر لیٹ گئے۔ اشنان اس لئے کہ غسل میں میرا خیال ہے زیادہ پانی خرچ ہوتا ہے۔


اگر کائ کی مہک نہ ہو تو اس پانی کا کاروبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں نے سوچا۔ ماں کے دودھ جیسا خالص پانی، ایک بلوچ محاورہ ہے۔ بلوچستان میں پینے کا پانی اہمیت رکھتا ہے کہ یہاں میٹھے پانی کا کال ہے۔
بہر حال پہاڑوں پہ بادل گرجنے کی ہلکی سی آواز آئ تو ہم نے اپنا ڈیرہ سمیٹا کہ ان علاقوں میں سیلابی پانی انتہائ تیزرفتاری سے کسی بھی وقت دھاوا بول سکتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ کسی گاڑی کو اپنے ہمراہ لے جائے۔ ابھی ہم کچے میں ہی تھے موبائل فون بجا۔ اطلاع ملی کہ اس کان پہ بارش ہو گئ جہاں ہم ابھی ایک گھنٹہ پہلے موجود تھے۔  موسم بہتر ہو چلا تھا۔
وہاں سے واپسی پہ ایک گاءوں کے نزدیک ایک ہوائ چکی دیکھی یعنی ونڈ مل جسکے ساتھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مشرف کے دور میں یہ پن چکی یہاں لگائ گئ تھی۔ جسکی مدد سے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔
 انیس بلوچ کے خیال میں مشرف کی پالیسی معدنیات کے حوالے سے اچھی تھیں۔ اس کے دور میں اس سمت میں کام بھی ہوا لیکن اب کوئ پرسان حال نہیں۔
 اوتھل کے قریب جب ہم ایک دوکان سے پانی لے رہے تھے ایک عورت گاڑی کے نزدیک آکر بھیک مانگنے لگی۔ یہ ایک سرائکی عورت لگ رہی تھی۔ وہیں پہ ایک صاحب دوکان پہ کھڑے باتیں کر رہے تھے خالص کارخانے دار دہلوی انداز میں۔
اور گاڑی میں مشعل، دیگر بلوچی بچوں کو بتا رہی تھی کہ اسے بلوچی آتی ہے۔ پھر اس نے ایک جملہ بول کر دکھایا بلوچی لب و لہجے میں۔ دروازہ پچکاں۔ ہمارے ساتھیوں نے اسے داد دی اور ان میں سے کسی نے پوچھا، تمہیں اسکے مطلب پتہ ہیں۔ اس نے کہا، ہاں دروازہ کھول دو۔
بلوچستان کی  بھی اس وقت یہی آواز ہے، دروازہ پچکاں۔ دروازہ کھول دو ترقی کی طرف، آگہی کی طرف۔

Friday, July 6, 2012

جرمنز کا پاکستانی وزیر سے مذاق

ہوا تو کچھ خاص نہیں ، میرا مطلب  پاکستان میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں اور دنیا نے جب سے انٹر نیٹ جیسا چوپال بنایا ہے یہاں کوئ خبر محدود نہیں رہتی۔ حتی کہ یہ لوگوں کے بیڈ رومز ہی نہیں بیت الخلاء کی خبریں نکال لاتی ہے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ ہماری ایک وفاقی وزیر نے جب اپنےفضلے میں ایک ثابت دوا کی گولی پائ تو انہیں نہایت تشویش ہوئ کہ یہ دوا کی گولی جو انہوں نے کھائ تھی، پورے نظام انہضام سے گذر کر کیسے ثابت نکل آئ۔ اس کا مطلب اس گولی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ اپنی منسٹری کے ماتحت چلنے والے دواءوں کی ریگولیشن کے ادارے اور شاید  اس دوا کی مستقل ضرورت کی وجہ سے انہوں نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا۔
ایک شکایت نامہ متعلقہ ادارے کو بھیجا گیا۔ کوالٹی کنٹرول کے چیئرمین  نے آرڈرز جاری کئے جسے وصول کرتے ہی ڈرگ انسپکڑز کراچی اور اسلام آباد میں اس دوا کے سیمپل جمع کرنے دوڑے۔
خیر جناب،  یہ دوا جو کہ کتھئ رنگ کی تہہ چڑھی ہوئ ایک گولی ہے اور اسکے ایک طرف  'عدالت تیس' لکھا ہوتا ہے ایک جرمن کمپنی تیار کرتی ہے اور یہ ہائ بلڈ پریشر یا انجائینا کی تکلیف میں استعمال ہوتی ہے جب لیبارٹری پہنچی تو وہاں موجود تجزیہ کار کو خاصہ صدمہ ہوا  کہ کسی نے بھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ اس گولی میں دوا کا ایکٹو جز یعنی نیفےڈیپن اس خول میں ایک لیزر سے کئے ہوئے سوراخ میں موجود ہوتا ہے۔ یہ دوا اس سوراخ میں سے نکل جاتی ہے لیکن خول ویسے کا ویسا ہی فضلے میں آجاتا ہے۔ 
 اس گولی کے بنانے والوں نے تو بڑی دماغی عرق ریزی کے بعد اسےاس طرح تیار کیا تاکہ یہ دوا جسم میں اس طرح خارج  ہوکہ اخراج قابو میں رہے اور دیر تک ہوتا رہے۔ لیکن یہی چیز ہمارے یہاں تشویش پھیلانے کا سبب بن گئ۔
بس لیزر سے کئے گئے اس سوراخ نے یہ سارا وبال کھڑا کر دیا حالانکہ اس دوا کے ساتھ موجود اطلاعی پرچے میں بھی لکھا ہوا ہے کہ اسے لیزر سوراخ میں داخل کیا گیا ہے۔ کسی نے نہ وہ اطلاعی پرچہ پڑھا اگر پڑھا تو سمجھا نہیں اور نہ ہی انٹر نیٹ کے اس زمانے میں کسی نے ایک بٹن دبا کر اسکی خصوصیات جاننے کی کوشش کی۔ یوں جرمنز کی بنی ہوئ اس دوا نے وزیر صاحبہ کے گھر بلکہ بیت الخلاء سے لیبارٹری تک کا سفر طے کر ڈالا۔
اب سازشی لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ یہ وزیر صاحبہ کیسے اس وزارت کو چلا رہی ہیں وہی نہیں بلکہ کنٹرول یونٹ کے چیئر مین اور دیگرانسپکٹرز بھی اتنے ہی جاہل نکلے۔ یہ دوا مارکیٹ میں دس سال سے موجود ہے اور انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ یہ کیسے عمل کرتی ہے۔
 لیکن جرمنز کا کیا ہوا یہ مذاق ہمیں بالکل پسند نہیں آیا۔  
 

Wednesday, July 4, 2012

افواج پاکستان کا خرچہ

دی گارڈیئن نے ایک رپورٹ دی ہے جس میں تمام دنیا کے ممالک کے اپنی افواج پہ آنےوالے خرچے کا تناسب دیا گیا ہے۔ یہ تناسب اس ملک کے جی ڈی پی کے فی صد سے نکالا گیا ہے۔ اور اسے دیکھ کر مجھے تھوڑی سی حیرانی ہوئ۔ یعنی جی ڈی پی کے حساب سے سب زیادہ خرچ کرنے والا ملک بھلا کون ہے؟ نہ ہم اور نہ امریکہ بلکہ سعودی عریبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا سعودی عرب اپنے جی ڈی پی کا دس اعشاریہ ایک اپنی افواج پہ خرچ کرتا ہے۔  سعودی عرب کے بعد عمان اور متحدہ عرب امارات آتے ہیں  جو بالترتیب آٹھ اعشاریہ پانچ اور چھ اعشاریہ نو فی صد خرچ کرتے ہیں جبکہ اسرائیل چھ اعشاریہ پانچ خرچ کرتا ہے۔  اسکے بعد امریکہ صاحب بہادر آتے ہیں جو چار اعشاریہ آٹھ خرچ کرتا ہے۔
حیرت انگیز طور پہ پاکستان صرف دو اعشاریہ آٹھ خرچ کرتا ہے جبکہ انڈیا دو اعشاریہ سات خرچ کرتا ہے۔ افغانستان جیسا غریب، بد حال ملک بھی  پاکستان سے زیادہ خرچ کرتا ہے یعنی تین اعشاریہ سات فی صد۔ ہائیں تو یہ پاکستانی فوج کو کس نے بدنام کیا ہوا ہے کہ ملکی بجٹ کا سفید ہاتھی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ افواج پاکستان کی اصل کمائ تو سلالہ ڈیل جیسی ڈیلوں میں ہوتی ہے۔
خیر جہاں یہ حیرانی ہوئ کہ دراصل پاکستان اپنی افواج پہ اتنا خرچ نہیں کرتا جتنا پروپیگینڈہ ہے وہاں یہ بھی حیرانی بھی ہے کہ سعودی عرب، عمان اور متحدہ امارات کس لئے اپنی افواج پہ اتنا خرچ کرتے ہیں۔ اگر اسکی وجہ اسرائیل ہے تو یاد رہے کہ اسرائیل سعودی عرب اور عمان کے مقابلے میں خاصہ کم کرتا ہے۔
مزید تفصیل کے لئے یہ لنک دیکھئیے۔

Military spending by country

All prices in $m, 2010 prices unless otherwise stated. Click heading to sort table. Download this data
Country
1988
2010
2011
2011 current prices
% of GDP, 1988
% of GDP, 2010
Afghanistan . . 576 781 878 . . 3.8
Albania . . 190 185 197 5.6 1.6
Algeria 672 5,671 8,170 8,665 1.7 3.6
Angola . . 3,501 3,281 3,647 . . 4.2
Argentina 4,397 3,476 3,167 3,295 2.0 0.9
Armenia 395 384 414 4.2
Australia 13,228 23,221 22,955 26,706 2.1 1.9
Austria 3,285 3,513 3,305 3,589 1.3 0.9
Azerbaijan 1,476 2,794 3,104 2.9
Bahrain 243 776 883 878 5.0 3.4
Bangladesh 456 1,298 1,367 1,436 1.0 1.1
Belarus 768 709 598 1.4
Belgium 7,939 5,233 5,136 5,593 2.6 1.1
Belize 5 15 15 16 1.0 1.1
Benin 69 . . . . . . 2.3 . .
Bolivia . . 328 316 352 . . 1.7
Bosnia-Herzegovina 220 226 246 1.2
Botswana 193 352 344 371 4.9 2.4
Brazil 19,902 34,384 31,576 35,360 2.1 1.6
Brunei 349 391 373 414 6.6 3.2
Bulgaria . . 894 722 790 . . 1.9
Burkina Faso 57 124 129 139 1.9 1.3
Burundi 44 . . . . . . 3.1 . .
Cambodia 66 175 177 192 1.3 1.6
Cameroon 197 354 321 347 1.3 1.6
Canada 19,339 23,109 23,082 24,659 2.0 1.5
Cape Verde 11 8 9 10 1.9 0.5
Central African Rep. . . 52 . . . . . . 2.6
Chad . . 226 226 242 . . 2.7
Chile 2,913 6,579 7,392 8,040 5.0 3.2
China, P. R. . . 121,064 129,272 142,859 . . 2.1
Colombia 2,177 10,422 10,290 10,957 1.5 3.6
Congo . . 134 . . . . . . 1.1
Congo, Dem. Rep. . . 184 211 239 . . 1.3
Costa Rica 0 0 0 0 0.0 0.0
Croatia 1,016 1,037 1,091 1.7
Cuba . . . . . . . . . . . .
Cyprus 525 478 494 537 5.7 2.1
Czech Rep. 2,498 2,254 2,479 1.3
Czechoslovakia 7,678 . .
Côte d’Ivoire 185 388 325 357 1.2 1.6
Denmark 4,519 4,504 4,515 4,859 2.1 1.5
Djibouti 70 . . . . . . 7.0 . .
Dominican Rep. 141 359 325 341 0.9 0.7
Ecuador 420 2,094 2,209 2,308 2.0 3.6
Egypt 5,246 4,289 4,107 4,285 6.5 2.0
El Salvador 552 224 211 222 7.7 1.1
Equatorial Guinea . . . . . . . . . . . .
Eritrea . . . . . . . .
Estonia 330 336 371 1.7
Ethiopia 563 298 286 328 8.1 0.9
Fiji 43 51 . . . . 2.2 1.6
Finland 2,515 3,400 3,656 3,978 1.6 1.4
France 65,266 59,098 58,244 62,535 3.6 2.3
Gabon . . 125 . . . . . . 0.9
Gambia 2 . . . . . . 0.9 . .
Georgia 454 371 426 3.9
German DR 10,804 . .
Germany 63,629 45,075 43,478 46,745 2.9 1.4
Ghana 26 125 96 98 0.3 0.4
Greece 6,968 7,162 7,502 8,155 4.2 2.3
Guatemala 349 170 182 200 0.4
Guinea . . . . . . . . . . . .
Guinea-Bissau . . . . . . . . . . . .
Guyana 4 29 28 30 2.0 2.1
Haiti 8 0 0 0 0.1 0.0
Honduras . . 170 170 185 . . 1.1
Hungary 4,262 1,351 1,287 1,385 3.8 1.0
Iceland 0 . . . . . . 0.0 . .
India 16,705 46,086 44,282 48,889 3.6 2.7
Indonesia 1,405 4,663 5,220 5,709 0.9 0.7
Iran 1,776 . . . . . . 2.0 . .
Iraq . . 3,581 5,568 5,845 . . 2.4
Ireland 774 1,274 1,207 1,302 1.2 0.6
Israel 12,659 14,242 15,209 16,446 15.6 6.5
Italy 35,274 35,532 31,946 34,501 2.3 1.7
Jamaica . . 106 . . . . . . 0.8
Japan 46,447 54,641 54,529 59,327 1.0 1.0
Jordan 966 1,367 1,310 1,368 9.4 5.0
Kazakhstan 1,502 1,648 1,794 1.1
Kenya 853 603 507 516 2.9 1.9
Korea, North . . . . . . . . . . . .
Korea, South 13,262 27,572 28,280 30,799 4.5 2.7
Kuwait 3,361 4,715 5,178 5,640 8.2 3.6
Kyrgyzstan 202 . . . . 4.4
Laos . . 16 . . . . . . 0.3
Latvia 260 267 295 1.1
Lebanon 278 1,633 1,657 1,754 1.2 4.2
Lesotho 29 71 54 57 3.8 3.1
Liberia . . 8 . . . . 2.4 0.9
Libya . . . . . . . . . . . .
Lithuania 410 405 444 1.1
Luxembourg 173 . . . . . . 1.1 . .
Macedonia, FYR 130 121 132 1.4
Madagascar 66 57 64 72 1.3 0.7
Malawi 21 . . . . . . 1.5 . .
Malaysia 1,293 3,859 4,223 4,587 2.4 1.6
Mali 55 177 180 194 2.2 1.9
Malta 40 59 59 64 1.2 0.7
Mauritania 48 . . . . . . 4.5 . .
Mauritius 9 14 9 10 0.2 0.1
Mexico 2,284 5,414 5,723 6,022 0.5 0.5
Moldova 18 18 21 0.3
Mongolia . . 55 70 81 6.3 1.1
Montenegro 75 80 88 1.9
Morocco 1,734 3,161 3,186 3,342 4.1 3.5
Mozambique 72 . . . . . . 5.3 . .
Myanmar . . . . . . . . 2.1 . .
Namibia 397 403 427 3.9
Nepal 60 255 241 259 0.9 1.4
Netherlands 12,850 11,277 10,945 11,781 2.8 1.4
New Zealand 1,797 1,606 1,566 1,792 2.0 1.2
Nicaragua . . 44 53 55 . . 0.7
Niger . . 47 . . . . . . 0.9
Nigeria 543 1,990 2,215 2,410 0.8 1.0
Norway 5,221 6,390 7,083 7,744 2.9 1.5
Oman 2,397 4,895 4,074 4,291 18.3 8.5
Pakistan 3,657 5,661 5,685 6,282 6.2 2.8
Panama 150 0 0 0 2.1 0.0
Papua New Guinea 77 42 49 61 1.3 0.4
Paraguay . . 154 206 250 . . 0.9
Peru . . 1,958 1,978 2,098 . . 1.3
Philippines 1,959 2,438 2,225 2,417 2.5 1.2
Poland 7,982 8,781 9,149 9,705 2.5 1.9
Portugal 3,346 4,821 4,285 4,670 2.7 2.1
Qatar . . . . . . . . . . . .
Romania 8,966 2,086 1,945 2,145 4.3 1.3
Russia 331,111 58,644 64,123 71,853 15.8 3.9
Rwanda 41 74 74 75 1.6 1.3
Saudi Arabia 19,743 45,245 46,219 48,531 15.2 10.1
Senegal 111 200 . . . . 2.0 1.6
Serbia 845 805 949 2.2
Seychelles 15 9 9 9 4.3 1.3
Sierra Leone 8 25 24 26 0.7 1.2
Singapore 2,622 8,323 8,302 9,475 4.8 3.7
Slovak Rep. 1,130 968 1,058 1.3
Slovenia 772 668 715 1.6
Somalia . . . . . . . . . . . .
South Africa 6,335 4,631 4,827 5,108 4.0 1.3
South Sudan . . . . 597 . .
Spain 14,611 14,744 13,984 15,178 2.0 1.0
Sri Lanka 434 1,500 1,403 1,557 2.4 3.0
Sudan 847 . . . . . . 3.6 . .
Swaziland 16 124 115 123 1.1 3.0
Sweden 7,155 5,886 5,960 6,811 2.6 1.3
Switzerland 6,602 4,115 4,618 5,436 1.7 0.8
Syria 1,168 2,346 2,490 2,495 7.3 4.1
Taiwan 8,474 9,067 8,888 9,717 5.0 2.1
Tajikistan . . . . . . . .
Tanzania 100 250 253 255 1.4 1.2
Thailand 3,170 4,846 5,114 5,521 2.9 1.5
Timor Leste 31 24 27 4.9
Togo 65 57 55 59 3.1 1.7
Trinidad & Tobago . . . . . . . . . . . .
Tunisia 347 563 583 614 2.3 1.4
Turkey 9,918 17,649 18,687 17,871 2.9 2.4
Turkmenistan . . . . . . . .
UAE . . 16,062 . . . . . . 6.9
UK 53,751 58,099 57,875 62,685 4.1 2.6
USA 540,415 698,281 689,591 711,421 5.7 4.8
Uganda 69 280 247 253 2.5 1.6
Ukraine 3,710 3,747 4,078 2.7
Uruguay 833 788 803 902 3.2 2.0
Uzbekistan . . . . . . . .
Venezuela . . 3,363 3,115 2,385 . . 0.9
Viet Nam 840 2,672 2,487 2,675 7.1 2.5
World total 1,511,141 1,622,888 1,624,506 1,727,513
Yemen . . . . . . . .
Yemen, North 702 . .
Yemen, South . . . .
Yugoslavia (former) . . . .
Zambia 317 276 285 306 2.4 1.7
Zimbabwe 198 98 147 153 5.0 1.3