Sunday, July 15, 2012

دروازہ پچکاں

بلوچستان میں معدنیات کی ایک کان پہ جانے کا اتفاق ہوا تو بہت ساری دلچسپ باتوں کا اندازہ ہوا۔  بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں پہ مشتمل ہے وہ بھی بنجر پہاڑ۔ ان پہاڑوں کو دیکھ کر خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ کسی زمانے میں سمندر کے پانی سے ڈھکے ہوئے تھے اور جب یہ پانی غائب ہوا تو سمندر میں پوشیدہ یہ پہاڑ ظاہر ہو گئے۔ یہ کام ہزاروں سال پہلے ہوا ہوگا۔ اب یہ بظاہر بنجر پہاڑ، اپنےاندر خزانوں کو چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ خزانے  پر اسرار تو نہیں  لیکن لگتا ہے کہ ان پہ کسی آسیب کا سایہ ہے۔ یہ آسیب ان خزانوں کو باہر آنے نہیں دیتا ، دروازہ بند رکھتا ہے اور اسکا پہرہ دار ہے۔


ہمارے بلوچ ساتھی نے ہمیں معلومات دیں کہ اس علاقے میں لوہا، تانبا، بیریئم اور دیگر دھاتوں کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہم نے جب انٹر نیٹ کی طرف توجہ کی تو پتہ چلا کہ لوہا، تانبا، کرومیئم، بیرائٹ، فلورائیٹ اور مختلف طرح کے سنگ مر مر ہی نہیں سونا بھی یہاں سے نکالا جاتا ہے۔
   سونا جیسی زمین نہیں بلکہ سونے کی کانیں بھی بلوچستان میں موجود ہیں۔ یہ سونا ایک چینی کمپنی نکال رہی ہے۔ سونا،  تانبے کے ذخائر کے ساتھ عام طور سے ملتا ہے۔ سونے اور تانبے کے یہ ذخائر، ریکو ڈک جوکہ ایک چھوٹآ سا قصبہ ہے چاغی ڈسٹرکٹ ، بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔
 ہم جس علاقے میں موجود تھے یہ بیلہ کے قریب ہے۔ یہاں سے ماربل کی بڑی مقدار نکالی جا رہی ہے۔ ہمارے بلوچ ساتھی نے جن کا نام ہم انیس بلوچ فرض کر لیتے ہیں ہمیں بتایا کہ وہ علاقے جو سمندر کے ساتھ ہیں وہاں عام طور پہ ماربل نہیں ہوتا ، جو ہوتا ہے وہ اچھے معیار کا نہیں ہوتا۔ سمندر کا پانی اسے خراب کر دیتا ہے۔ ادھر بیلہ کی طرف اس کے بقول زیر زمین قدرتی گیس پائ جاتی ہے جو کہ زیادہ تر ماربل کی چٹانوں کو پھاڑ دیتی ہے۔ جس سے ماربل کا معیار اچھا نہیں رہتا۔
چٹان کی پھٹی ہوئ تہیں

انیس نے ہمیں مزید بتایا کہ ماربل کی  کانوں سے پیداوار اتنی اچھی حاصل نہیں ہو پاتی کیونکہ ہمارے پاس ماربل کی کان کنی کے لئے جدید مشینیں موجود نہیں ہیں۔ عام طور پہ چٹانوں کو توڑنے کے لئے ڈائینامائیٹ استعمال ہوتا ہے جس سے چٹان تباہ ہو جاتی ہے اور بڑے سائز کا پتھر نہیں ملتا۔ انیس بلوچ کا کہنا تھا کہ تقریباً پچھتر فی صد پیداوار تباہ ہوجاتی ہے جبکہ باہر کے ممالک میں یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
مشینیں کیوں نہیں ہیں، جبکہ بلوچستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال زمین سمجھا جاتا ہے۔ انیس کا کہنا تھا کہ حکومت زراعت کے لئے قرضہ دیتی ہے لیکن معدنیات کے لئے نہیں۔ لوگ اپنے طور پہ کام کرتے ہیں اور یہ بھاری بھرکم مشینیں نہیں خریدسکتے۔
حکومت کیوں ایسے قوانین نہیں بناتی کہ معدنیات کے لئے بھی قرضہ فراہم کیا جائے۔ اس پہ انیس بلوچ نے ہنستے ہوئے کہا یہ حکومت کہاں ہے یہ تو قبضہ گروپ ہے۔ ابھی ادھر زہری کی جو کانیں ہیں ، زرداری کی کوشش ہے کہ اس پہ اس کا قبضہ ہوجائے۔
یہ تو تھے ایک بلوچ کے خیالات۔ میرے خیال سے تو سرداری نظام ہر چیز پہ حاوی ہے۔ یہ کانیں سردار کی مرضی کے بغیر کوئ استعمال نہیں کر سکتا۔ 
سارا دن پہاڑ پہ ایک گرم دن اس طرح گذارا کہ لو چل رہی تھی اور ہم چٹائیوں سے بنے ایک شیڈ کے نیچے چٹائیوں پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کان پہ زیادہ تر مزدور پٹھان اور انتظامیہ سرائکی اور بلوچ تھی۔
دن کے تین بجے تک اس بات کے قوی امکان پیدا ہو چلے تھے کہ ہمیں لو لگ جائے گی۔ تب ہمارے میزبان ہمیں قریب واقع ایک چشمے پہ لے گئے۔ یہ جگہ درختوں سے گھری ہوئ تھی۔ زمین سے مختلف سمتوں سے پانی رس رس کر جمع ہورہا تھا اور اس نے ایک نالے کی شکل اختیار کر لی تھی۔ یہ چشمہ چند گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد زمین میں غائب ہو رہا تھا۔
چشمے کا پانی یہاں زمین میں غائب ہو رہا ہے

 صاف ستھرے اس پانی کو ہم نے پینے کی بھی جراءت کی۔ اگرچہ اس میں کائ کی مہک شامل تھی اور اسکے ارد گرد بن جانے والے جوہڑوں میں مینڈک بھی موجود تھے۔  لوگوں نے بالخصوص بچوں نے اس میں اشنان کرنے کی سعی بھی کی۔ اپنی اس کوشش میں وہ اس حد تک کامیاب رہے کہ پانی میں پاءوں پھیلا کر لیٹ گئے۔ اشنان اس لئے کہ غسل میں میرا خیال ہے زیادہ پانی خرچ ہوتا ہے۔


اگر کائ کی مہک نہ ہو تو اس پانی کا کاروبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں نے سوچا۔ ماں کے دودھ جیسا خالص پانی، ایک بلوچ محاورہ ہے۔ بلوچستان میں پینے کا پانی اہمیت رکھتا ہے کہ یہاں میٹھے پانی کا کال ہے۔
بہر حال پہاڑوں پہ بادل گرجنے کی ہلکی سی آواز آئ تو ہم نے اپنا ڈیرہ سمیٹا کہ ان علاقوں میں سیلابی پانی انتہائ تیزرفتاری سے کسی بھی وقت دھاوا بول سکتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ کسی گاڑی کو اپنے ہمراہ لے جائے۔ ابھی ہم کچے میں ہی تھے موبائل فون بجا۔ اطلاع ملی کہ اس کان پہ بارش ہو گئ جہاں ہم ابھی ایک گھنٹہ پہلے موجود تھے۔  موسم بہتر ہو چلا تھا۔
وہاں سے واپسی پہ ایک گاءوں کے نزدیک ایک ہوائ چکی دیکھی یعنی ونڈ مل جسکے ساتھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مشرف کے دور میں یہ پن چکی یہاں لگائ گئ تھی۔ جسکی مدد سے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔
 انیس بلوچ کے خیال میں مشرف کی پالیسی معدنیات کے حوالے سے اچھی تھیں۔ اس کے دور میں اس سمت میں کام بھی ہوا لیکن اب کوئ پرسان حال نہیں۔
 اوتھل کے قریب جب ہم ایک دوکان سے پانی لے رہے تھے ایک عورت گاڑی کے نزدیک آکر بھیک مانگنے لگی۔ یہ ایک سرائکی عورت لگ رہی تھی۔ وہیں پہ ایک صاحب دوکان پہ کھڑے باتیں کر رہے تھے خالص کارخانے دار دہلوی انداز میں۔
اور گاڑی میں مشعل، دیگر بلوچی بچوں کو بتا رہی تھی کہ اسے بلوچی آتی ہے۔ پھر اس نے ایک جملہ بول کر دکھایا بلوچی لب و لہجے میں۔ دروازہ پچکاں۔ ہمارے ساتھیوں نے اسے داد دی اور ان میں سے کسی نے پوچھا، تمہیں اسکے مطلب پتہ ہیں۔ اس نے کہا، ہاں دروازہ کھول دو۔
بلوچستان کی  بھی اس وقت یہی آواز ہے، دروازہ پچکاں۔ دروازہ کھول دو ترقی کی طرف، آگہی کی طرف۔

1 comment:

  1. اردو بلاگنگ پچکاں پیشتر اس سے کہ مظلوم طبقہ ہی پچک جائے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ