Tuesday, June 30, 2009

مرفی کی برفی


جہاز اپنی سرنگ میں ایک بڑی تعداد اسکول کے بچوں کی لئیے ہوئے اپنی منزل کے قریب ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے دارالحکومت میں متوقع امیرالمومنین دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھے آنیوالے لمحے کا انتظار کر رہے ہیں۔جہاز میں اچانک کھلبلی مچ گئ۔ ایئر پورٹ کی تمام لائٹس بند ہو گئ ہیں اور جہاز کے پائلٹ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک چلا جائے چاہے وہ انڈیا ہی کیوں نہ ہو۔ جہاز میں اس وقت کا ملک کا سپہ سالار بیٹھا ہے۔ اسکول کے بچے ہیں۔ ایندھن خاتمے کے قریب ہے اور ادھر متوقع امیرالمومنین انتظار کر رہے ہیں ایک ایسی ساعت کا جس میں سانحہ ہو جائے۔ شطرنج کی بساط پہ سارے مہروں کو ہٹاتے ہوئے وہ اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ لیکن یہ کیا ہوا۔ ہائیں۔ مومنین منتظر رہ گئے۔ کچھ ایسا خاص نہیں ہوا۔ مرفی کا قانون حرکت میں آیا۔ اور امیر المومنین وہاں پہنچ گئے جہاں سے انکو بھی کچھ انکی خبر نہیں آتی تھی۔ مرفی کا قانون کہتا ہے کہ غلط ترین صورت حال وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔

کسے گمان تھا کہ زرداری جیل سے نکلیں گے اور تخت پہ براجمان ہو جائیں گے۔ وہ بھی عوام کی

اکثریت کی حمایت سے۔ بےنظیر جو انتہائ اندرونی ذرائع کے مطابق تہیہ کئے ہوئے تھیں کہ اس دفعہ حکومت ملنے کے بعد زرداری کو سات سمندر پار ہی رکھیں گی۔ آسمانوں کے اس پار چلی گئیں۔
مشرف سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ بازی اس طرح ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی کہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئ اور انکے بعد ان کی جگہ سنبھالے گا بھی گا تو کون۔ زرداری۔ لگتا ہے وہ بھی مرفی کے قانون کو نہیں جانتے تھے۔ مرفی کا قانون کہتا ہے کہ غلط ترین صورتحال وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔

لیکن عقلمند وہی ہے جو دوسروں کو دیکھ کر عبرت پکڑتا ہے۔ یہاں میری مراد اخبار عبرت نہیں ہے۔ اگر یہ بات آپ کو سمجھ آرہی ہے تو باقی کی باتیں بھی سمجھ آجائیں گی۔یہ ناہنجار مرفی ایک انجینیئر تھا۔ ایکدن کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہا تھا۔ اسکے ساتھ کچھ اور لوگ بھی کام کر رہے تَھے۔ جب ہر چیز بظاہر اس حالت میں آگئ کہ اس کی آزمائش کی جائے تو وہ ناکام ہو گئے۔ پتہ چلا کہ کسی معمولی سی غلطی کی بناء پر وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکے۔ مرفی نے تنکتے ہوئے اس کا ذمہ دار اپنے اسسٹنٹ کو ٹہرایا اور کہا۔' یہ شخص جہاں بھی غلطی کرنے کا موقع ہو ۔ ضرور کریگا۔' بس لوگ اس کی اس بات پہ واری واری ہو گئے۔ حالانکہ آپ میں سے بہتوں کے لئیے یہ مکالمہ نیا نہ ہوگا۔ اور انہوں نے کھوج کھوج کر اس کے حق میں جانے والی باتیں تیار کر لیں۔ جس سے اس قانون کی حیثیت مسلمہ ہو گئ۔ یہاں میرا مطلب حقیقت کے مسلمان ہونے سے نہیں ہے۔ یا تو حقیقت ہمیشہ مسلمان ہوتی ہے یا پھر کچھ نہیں ہوتی۔ اسکے کچھ نہ ہونے سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔

اب ان لوگوں نے اس قانون کو جانچنے کے لئے کچھ مثالیں پیش کیں جن میں سے میں صرف دو بیان کرنا چاہونگی۔۔ مثلاًڈبل روٹی کا سلائس اگر آپکے ہاتھ سے گرے گا تو ہمیشہ اس کا مکھن لگا ہوا حصہ قالین سے ٹکرائے گا۔ اسکے اس حصے سے گرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں جتنا قیمتی قالین ہوتا ہے۔

آپ کسی مشین کو درست کر رہے ہوں تو اس کا باریک سا اسکرو جو کہ بہت اہم ہوتا ہے آپکے ہاتھ سے چھٹ کر کمرے کے بھاری ترین فرنیچر کے سب سے کونے والے حصے میں پہنچ جاتا ہے۔

تو سب سے پہلے اس قانون کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کر لیں جو حسب ذیل ہیں؛
اگر کوئ غلط صورت حال پیدا ہو سکتی ہے تو وہ ضرور ہو گی

اگر ایک بات کے ساتھ بہت ساری غلط صورت احوال ہونے کے امکانات ہیں تو سب سےبد ترین صورتحال سامنے آئےگی۔

اگر کئ چیزیں ایک ساتھ غلط ہونے کے امکانات ہیں تو وہ سب ایک ساتھ وقوع پذیر ہونگی۔

اگر کوئ چیز کسی بھی طریقے سے غلط سمت میں نہیں جا سکتی تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے جائے گی ضرور۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے غلط سمت میں جانے کے چار طریقے ہو سکتے ہیں تو کوئ پانچواں طریقہ کہیں نہ کہیں سے جنم لے لیگا۔

اگر حالات کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو وہ کم بری سے زیادہ بری حالت کی طرف جاتے ہیں۔

قدرت ہمیشہ اس خفیہ غلطی کے ساتھ ہوتی ہے جس کا حل آپ نے نہیں سوچا ہوتا بلکہ جس کا تصور بھی آپ نے نہیں کیا ہوتا۔

قدرت اتنی مہربان نہیں جتنا آپ خیال کرتے ہیں۔

اب اس قانون کی مزید وضاحت کے لئے میں آپ کو آپ سب کی زندگی میں سے کچھ مثالیں دینے کی کوشش کرتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنی والی نہایت عقلمندی سے نکال لیں گے۔ میرا مطلب ہے مثال۔ ویسے مثال میری پڑوس کی لڑکی کا نام بھی ہے۔ انہوں نے بی اے کر لیا ہے اور بیاہ کے لئے تیار ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ شادی جیسے بندھن میں بندھنا چاہتے ہیں وہ چاہیں تو انہیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ جلدی کی ضرورت نہیں پہلے یہ والی مثالیں دیکھ لیں۔

ٹریفک جام اس دن سب سے زیادہ ہو گا جس دن آپ گھر سے دیر سے نکلے ہونگے۔

جس دن آپ کو آفس پہنچنے میں دیر ہوگی اس دن داخلہ دروازے پہ آپ کی ملاقات باس سے ہوگی۔

امتحانات میں اسی فی صد پیپر ان اسباق میں سے آتے ہیں جنہیں آپ دوران تیاری چھوڑ دیتے ہیں۔

جب پیپر شروع ہونے میں دس گھنٹے رہ جاتے ہیں اس وقت مضمون اچھی طرح سمجھ میں آنا شروع ہوتا ہے اور آپ کہتے ہیں۔ اے کاش، ایکدن اور مل جاتا تو پیپر زبردست ہو جاتا۔ اب اگر اگلے دن اس وجہ سے ہڑتال ہوگئ کہ آپ کے اس وقت کے محبوب رہنما ، پھانسی چڑھ گئے، یا جہاز پھٹ جانے سے ہلاک ہو گئے یا بم دھماکے میں مارے گئے یا انہوں نے اپنے لئے کوئ بھی اور طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں انکی غیر طبعی موت واقع ہونا ضروری ہے تو آپ کا پیپر مزید پندرہ دن کے لئے ٹل جائے گا۔ یاد رکھیں۔ اب بھی مضمون آپ کو دس گھنٹے پہلے ہی سمجھ میں آنا شروع ہو گا۔ اور آپ پھر کہیں گےکہ اے کاش،---- یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک ہی محبوب رہنما بار بار غیر طبعی موت نہیں مرتا اور اگلے کی باری اتنی جلد نہیں آتی۔

اپنی اماں کو آپ جتنا مہنگا تحفہ لیکر دیں گے امکان غالب ہے کہ اتنا ہی کم وہ استعمال ہو گا۔

ماں کی وہ نصیحت جو آپ نظر انداز کر دیتے ہیں ۔بالکل صحیح اور انکی بتائ ہوئ تمام نصیحتوں میں سب سے بہترین نکل آتی ہے۔


آپ کے چھوٹے سےبچے کے ہنگامہء بدتمیزی کا انحصار ارد گرد موجود لوگوں کی تعداد پہ ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ اتنا زیادہ ہنگامہ۔

خواتین کے لئے خاص طور پہ۔ جب آپ کہیں دعوت میں جانے کے لئے سب سولہ سنگھار سے لیس ہوجاتی ہیں تو آپ کے بچے کو اسی وقت واش روم جانا ہوتا ہے۔


پڑوس کے کرائے داروں کی جس بیٹی پہ آپ کا دل آیا ہے اسے پہلے ہی کوئ لے اڑا ہو گا۔

آپ کے آفس کا ہینڈ سم لڑکا جس کے خاموش عشق میں آپ مبتلا ہیں ایکدن کسی جمائمہ خان کو آپ کے سامنے لا کر کھڑا کر دیگا اور اپنی اسی نرم میٹھی مسکان سے جس پہ آپ فدا ہیں کہے گا۔ ان سے ملئیے یہ آپ کی بھابی ہیں۔

جس دن آپ گھر کے غلیظ ترین کپڑوں میں انتہائ نکمے پن سے پھر رہی یا پھر رہے ہوں۔ اسی دن آپ کو شادی کے ارادے سے دیکھنے کچھ لوگ نازل ہوجائیں گے اور سوئے اتفاق انہیں سب سے پہلے آپ ہی ملیں گے۔

جس لمحے کوئ آپ کو اچھا لگنے لگتا اسی لمحے اس کا کوئ دعوی دار نکل آتا ہے۔

محلے کا لڑکا جسے آپ بچپن سے اس کی فاسٹ باءولنگ کی وجہ سے پسند کرتے تھے حتی کہ دل ہی دل میں اسے اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ایکدن صبح صبح، داڑھی سجائے، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنے نیچی نظروں کے ساتھ آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگنے نہیں بلکہ جہاد پر جانے کے لئے آپ سے آشیرباد لینے آئیگا۔

غالب بھی مرفی کے قانون سے بڑے خائف تھے کہتے ہیں،

رات کے وقت مئے پئے، ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں

کیا اس وقت بھی مرفی کا قانون موجود تھا، کیا مرفی نے ان کے ساتھ رعایت کی، کیا غالب کا خدشہ صحیح ثابت ہوا۔ غالب اور مرفی کی آپس میں کیسی بنتی تھی۔ یہ سب جاننے کے لئے شاید خطوط غالب پڑھنا پڑیں گے۔ کیا کہا پوسٹ پڑھ کر فارغ ہونگے تو کچھ اور پڑھیں گے۔ پڑھیں،کچھ اور نہیں پڑھیں گے تو بڑے آدمی کیسے بنیں گے۔

ریفرنس؛
مرفی کا قانون


سرمایہ اور ایجاد تمنا


اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ مسائل کے حل تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔ آپ کسی آئنسٹائن اور مادام کیوری سے کم نہیں۔ لیکن آپ یہ بھی سوچتے ہیں کہ روکڑہ یعنی پیسہ ملے تو کچھ کرنے میں مزہ آئے۔ اس سے انکار نہیں۔ پیسے کی ایک باعزت مقدار ہر ذی روح کے لئے ضروری ہے۔ اس یو آر ایل پہ جا کر دیکھئے یہ آپ کو ڈالر دے رہے ہیں اگر آپ انکی مدد کر سکیں انکے مسائل کو حل کرنے میں۔ دیکھ لیں اور کسی اور کو روانہ کر دیں۔ ہو سکتا ہے کوئ سینہ ٹھنوک کر کام سے لگ جائے۔

http://www.innocentive.com/

Friday, June 26, 2009

تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں


چلئیے۔
آج کچھ ادھر ادھر چلتے ہیں۔ یہ آج سے کچھ سال ادھر کی بات ہے۔ میں سانگھڑ کے ایک مضافاتی گاءوں میں موجود ہوں۔ جہاں پہنچنے کے لئیے ہمیں پہلے فور وھیل ڈرائیو کرنی پڑی۔ اور پھر کشتی کے ذریعے ایک جھیل کو پار کیا اور ریت کے ٹیلوں پر سے پھسلتے چڑھتے ہم بالآخر ایک گاءوں کی اوطاق تک جا پہنچے۔ یہاں موجود پندرہ بیس گھر سب کے سب مٹی کے گارے اور گھاس پھونس کی مدد سے بنائے گئے تھے۔ قریب میں موجود ایک ہینڈ پمپ سے پانی لیا منہ ہاتھ دھو کر جب آنکھوں سے مٹی صاف ہوئ تو احساس ہوا کہ کچھ گھر بالکل نزدیک ہیں۔ ابھی کھانا آنے میں وقت تھا اس لئے میں اٹھی۔ اپنا بیک پیک اٹھایا اور ایک گھر کی طرف چل پڑی کہ خواتین سے ملاقات کرکے آجاءوں۔

ایک گھر میں داخل ہوئ تو مجھے دیکھتے ہی ایک عورت جلدی سے ایک سندھی رلی نکال کر لے آئ اور لپک کر اسے چارپائ پر بچھا دیا۔ میں اسے منع کرتی رہ گئ کہ مجھے کھری چارپائ پر بیٹھنے میں کوئ اعتراض نہیں لیکن اسے اردو آتی نہ تھی اس لئے اس نے میری بات پہ کوئ دھیان نہ دیا۔ کمرے میں ایک دیوار پہ پیر پگارا کی تصویر لگی ہوئ تھی۔ یہ ان کا علاقہ ہے اور علاقے کے لوگ انکے معتقد ہیں۔ تھوڑی دیر ہم ایکدوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر میں نے اپنی سندھی آزمائ جوکہ بولنے کے ضمن میں بمشکل پچاس الفاط پر مشتمل ہے۔ البتہ سمجھ خاصی آجاتی ہے۔ اس نے مجھے سندھی بولتے دیکھا تو حیران ہوئ۔ تم کہاں سے آئ ہو۔ میں نے جواب دیا۔ کراچی سے۔ وہ بالکل ٹھٹھک گئ۔ کیا پنجابی ہو۔میں ہنسی, اپنے حلئے پر نظر ڈالی ایک مثالی سکنہ کراچی۔نہیں تو سندھی ہوں۔ نہیں کراچی میں تو پنجابی رہتے ہیں۔ اس نے بھی ہنس کر جیسے میری بات ہنسی میں اڑائ۔ نہیں سب پنجابی نہیں ہوتے۔ میں نہیں ہوں ۔ اچھا تمہاری ذات کیا ہے؟ اس نے جیسے امتحان لیا۔سندھ میں ذات کی بڑی اہمیت ہے۔ اب میں پھر مسکرائ۔ میں پٹھان ہوں۔ سندھی تو پٹھان نہیں ہوتے اس نے بڑی معصومیت سے کہا۔ آگے کی گفتگو کا کیا تذکرہ کہ میں نے کیسے پچاس الفاظ سے اسکا دل موم کیا۔ لیکن یہ ضرور سوچا کہ پنجابی ہونے کے ذکر پہ وہ اس قدر تذبذب میں اور کھنچی ہوئ کیوں تھی۔

اس بات کو ایک وقت گذر گیا اب ایک نئے منظر میں ، میں بلوچستان کے شہر گوادر کے مضافاتی علاقے میں ہوں۔ یہ چھوٹا سا گھر ہمارا ذاتی ہے جسے بلوچیوں کے کھلے دل، اس علاقے کے سکون اور سمندر سے نزدیکی کی بناء پر بنایا گیا ہے۔ اطلاع ملی کہ اکبر بگتی مارا گیا۔ ابھی شام کا دھندلکا پھیلے زیادہ دیر نہ ہوئ تھی کہ پندرہ سولہ لوگ گھر کی باءونڈری وال پھاند کر گھس آئے۔ان سب کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ ہم نے سوچا اب شامت آئ۔ ساری شیشے کی کھڑکیاں جائیں گی جو صرف سمندر کا نظارہ کرنے کے لیئے لگائ گئیں تھیں۔گھر کے بزرگ حضرت آگے بڑھے۔ کیا بات ہے؟تم لوگ پنجابی ہو اور یہاں سے فوج کے لئے مخبری کرتے ہو۔ تمہارے پاس مخبری کی مشینیں بھی ہیں۔ کوئ غرایا۔ نہیں ہم پنجابی نہیں ہیں۔ کراچی کے رہنے والے ہیں۔ اردو بولتے ہیں۔ اور اس گھر میں ایسی کوئ مشین نہیں ہے۔ چاہو تو تم میں سے دو تین لوگ جا کر پورے گھر کی تلاشی بھی لے سکتے ہیں۔ بزرگ حضرت نے پر امن پیش کش کی۔ ان میں سے تین آگے بڑھے۔ پورے گھر کی تلاشی ہوئ۔ اس دوران بزرگوار انہیں اپنے غیر پنجابی ہونے کے مزید ثبوت بتاتے رہے۔ اتنی دیر میں محلے کے ایک دو لوگ بھی آگئے انہوں نے بھی کہا کہ یہ پنجابی نہیں ہیں۔ بچت ہوئ، وہ جن ارادوں سے آئے تھے انہیں پورا کئے بغیر چلے گئے۔

ان دونوں علاقوں کے درمیان ہزار کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ ہے ان دونوں علاقوں کے رہن سہن اور ثقافت میں فرق ہے مگر ان دونوں علاقوں کے لوگ اپنے ملک کے ایک صوبے کے رہنے والوں سے نالاں کیوں ہیں۔

غالب تمہیں کہو کہ ملیگا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کئے، اور وہ سنا کئے

ریفرنس؛

سانگھڑ

گوادر

Wednesday, June 24, 2009

کریلہ اور کترینہ کیف


آج میں ایسا کچھ نہیں لکھ رہی جس میں کوئ مقصد ہو سوائے کچھ لوگوں کی دل پشوری کے۔ خاص طور پر انکے لئے جو کریلہ کھانا سخت نا پسند کرتے ہیں۔ کریلہ پکانے کی یہ تر کیب اگرچہ ایک ماہر امور خانہ داری خاتون سے متائثر ہو کر بنائ گئ ہے۔ جی، یہ وہی خاتون ہیں جو ٹی وی پہ کھانا پکانے کا پروگرام کرتے ہوئے اپنی جوانی کی تصویر اپنے کچن میں لگا کر رکھتی ہیں۔


گھبرا ئیے نہیں، اگر آپ میں سے کچھ لوگ عین عالم شباب میں بھی بڑھاپے کی تصویر نظر

آتے ہیں۔ تو ان پر واضح ہو کہ اس تر کیب کے لئے جوانی کی تصویر کچھ ضروری نہیں۔ دل چاہ رہا ہو تو کسی اور کی جوانی کی تصویر لگا لیں۔ اور اگر کوئ نہ ملے تو پھر ظالمانہ حد تک خوبصورت لگنے والی خاتون کی تصویر لگا لیں۔ سنا ہے آجکل یہ اعزاز کترینہ کیف کو ملو ہوا ہے۔ لیکن میں یہ بھی آپکی پسند
پہ چھوڑتی ہوں۔ جو بھی ظالمانہ حد تک خوبصورت لگتا ہو چاہے زرداری ہی کیوں نہ ہو ۔
اس سے اس ڈش کے ذائقے پر کوئ فرق نہیں پڑے گا۔

ہماری یہ خاتون ہر ڈش کے اندر کہیں نا کہیں چکن ضرور استعمال کرتی ہیں۔ اگر وہ زردہ بناتی ہیں
تو بھی کسی نہ کسی ککڑ کا آس پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی ککڑوں کوں اس میں
وقفے وقفے سے شامل ہوتی رہے۔ اور دسترخوان پہ بیٹھ کر آپ یہ کہہ سکیں کہ گھٹ گئ مرغی، بڑھ گیا سالن۔ وجہ صاف ظاہر ہے پانی سے۔ یہاں میں آپ کو مرغیوں کے بھاءو، اور ہمارے محبوب صدر
کےبیرونی دوروں کے حوالے سے کوئ تعلق نہیں بتانا چاہ رہی۔ ایسا اگر کوئ کرتا ہے تو
وہ اپنی صوابدید پہ کر رہا ہے۔ میرا اس سے کوئ تعلق نہیں ہے۔

اب اگر آپ عاجز آ کر اس پوسٹ کو بند کرنا چاہ رہے ہیں تو بتا دوں کہ ابھی کچھ الفاظ کے بعد آپ کی خدمت میں کریلہ پکانے کی ایک ایسی ترکیب پیش کی جارہی ہے۔جو ملک کے کچھ غیر متوقع سائنسدانوں نے چوری چھپے سوچی۔ فنڈز کی کمی کی بناء پر اس کو فوری طور پر آزمایا نہیں گیا۔ لیکن جب تک فنڈز ملنا شروع ہوئے یعنی ان میں سے کچھ لوگوں کی شادی ہو گئ تو پتہ یہ چلا کہ نئ اینٹریز کریلوں کو ارتقاء کے راستے میں پیدا ہونے والی کڑواہٹ سمجھتے ہیں اور اسے دیکھنے کے بھی روادار نہیں چہ جائیکہ پکانے کے۔ اس سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ اب میں آپ سے کریلوں کی فلا ح و بہبود کے لئے چندہ مانگنے والی ہوں۔ اس سے مقصود صرف اتنا تھا کہ آپ کو پتہ رہے کہ یہ ترکیب اتنی نادر ہے ابھی تک آزمائ بھی نہیں گئ۔ اور اس کے جملہ حقوق بالکل محفوظ نہیں ہیں۔اب آپ مجھے گالیاں دینے والے ہونگے یہ مرحلہ اس ڈش کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس سے جو ذائقہ پیدا ہوگا وہی اس کا راز ہے۔

سو،اب میں وہ کرنے جا رہی ہوں جس کے لئے اقبال اپنی زندگی میں اور میری پیدائش سے قبل ہی مجھے لعن طعن کر کے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا اور میں نے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی اس بات کو انتہائ خنداں پیشانی سے سنا۔

تو نے یہ کیا غضب کیا، اس کو بھی فاش کردیا
یہ ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں

تو جناب اس ترکیب کے لئے آپ کو چاہئےایک مرگی یعنی چکن، کہیں مرغی مت لے لیجئے گا۔ ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی۔ مزید چیزوں میں ایک مکھن کی ٹکیہ اور ایک کنور کیوب۔ مکھن جتنا زیادہ ہو اتنا اچھا ہے۔ اس کے زیادہ استعمال سے طبقہء اشرافیہ سے آپکے اٹوٹ رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔ نہیں نہیں اس کا مشرف سے کوئ تعلق نہیں۔ نہ ہی آپکے چوکیدار اشرف سے۔ کیا کہا، کریلہ کہاں ہے۔ اوہ ہاں ، ایک عدد کریلہ بھی لے لیں۔ اگر نہیں ملے تو تصویر سے بھی کام چلے گا لیکن کریلے کی۔ ظالمانہ حد تک خوبصورت لگنے والی خاتون کی تصویر آپ کے لئے ہے۔ مر گی یا مکھن کو اس سے کوئ دلچسپی نہیں۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ ان خاتون کو بھی اس سے کوئ دلچسپی نہیں اور ان تینوں کا نام ایک ساتھ ایک جملے میں لینے پر آپ کے خلاف ہتک حسن کا دعوی بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔ ڈرئیے نہیں حسین کافی خود بیں و خود آرا ہوتے ہیں اور انہیں پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی پھر بھی حیران کن طور پہ وہ پڑھاتے اچھا ہیں۔

اب ہم واپس چکن کی طرف آتے ہیں۔اگر آپ نے ذبح کی ہوئ مرگی لی ہے تو وہ اب تک اپنی جگہ پر ہوگی ورنہ دوسری صورت میں آپ کو ایک عدد اور چاہئیے ہوگی۔ مرگی، کترینہ نہیں۔ وہ صرف ایک ہے اور بھاگ جانے کی صورت میں آپ کو اسکا ککھ بھی نہیں ملے گا۔ اچھا اب کریلے کو اچھی طرح دھولیں۔ چھیلیں خوب اچھی طرح اور پھر دھوئیں۔ اب اس کریلے کو مرگی کے پیٹ کے اندر رکھ دیں۔ زندہ نہیں ذبح کی ہوئ اور صاف کی ہوئ۔ زندہ کے پیٹ میں اس کا انڈہ ہو گا جس سے اور مرگیاں بنیں گی اور آلائیشیں اندر سے صاف نہ کی جائیں تو کچھ لوگوں کو زیادہ کیا بالکل مزہ نہیں آتا۔ ویسے یہ آپکی پسند پہ ہے۔۔ اب اس کے ساتھ تھوڑا سا مکھن اور کنور کی ٹکیہ بھی رکھدیں۔ مرگی کے باہر اچھی طرح مکھن لگائیں۔ یہاں تک کہ سارا مکھن ختم یعنی خلاص ہو جائے۔ ورنہ یہ بچا ہوا مکھن کسی اور کے لگانے کے کام آئیگا۔ اور مرگئیوں کو یہ بات کچھ خاص پسند نہیں۔

اب اسے دھیمی آنچ پہ ایک منٹ پکائیں۔ اگر اس سلسلے میں اسٹاپ واچ استعمال کریں تو بہتر ہے۔ ورنہ ساٹھ تک گنتی گن لینا کافی ہے۔ اب ڈھکن کھولیں اور کریلے کو نکال کر باہر پھینک دیں۔ اس کی ساری غذائیت مرگی میں منتقل ہو چکی ہے۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ مرگی کو مکھن میں اچھی طرح تل لیں۔ اس مرحلے پہ آپ کو چلو بھر پانی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لاہور میں رہائش پذیر بھاگ کر نہر سے لے آئیں۔ کراچی والے سرکاری نل کی ہوا پہ گذارا کریں۔ سمندر کے پانی میں نمک زیادہ ہوتا ہے اس سے مرگی کا بلڈ پریشر ہائ ہوسکتا ہے۔ خیال رہےاس پانی میں آپ کو ڈوبنا نہیں ہے اور نہ ہی کسی کترینہ کو پلانا ہے وہ منرل واٹر پیتی ہے۔ اس سے صرف تلنے کے دوران مرگی کو چھینٹا دینا ہے۔ اس طرح آپ کو پتہ چلے گاکہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ اگلے مرحلے میں جتنے مصالحہ جات کے نام آپ کو آتے ہیں اس میں ڈالدیں۔ کلچہ نان کے ساتھ جو موجاں ہونگیں۔ وہ تو آپ اور نان ہی جان سکتے ہیں۔ کیا کہا کریلے کا کیا ہوا۔ کریلوں کی فکر کرنے کی کوئ ضرورت نہیں۔ یہ تعصب کہلاتا ہے۔ انہیں اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنے دیں۔ ورنہ پڑا سڑنے دیں۔ اہل پنجاب کی وضاحت کے لئیے سڑنے کے معنی یہاں بمطابق اردو ہیں۔ مزید معلومات کے لئے اگر ناگوار خاطر نہ گذرے تو کسی کراچی والے سے پوچھ لیں۔ زیادہ دل نہ جلائیے گا۔ یہی تو ایک چیز ہے سینہء کائنات میں۔

نوٹ: کریلوں کی بقاء کی فکر میں گھلنے والے اس مضمون کی کاپی کرواکے جہاں دل چاہے بھجوا دیں۔ وہ یعنی کریلے ارتقاء کے عمل میں کہیں بھی کوئ رخنہ پیدا کرنے کے قابل نہیں۔

ریفرنس؛


Tuesday, June 23, 2009

نوائے سروش


ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے ٹیلیفون پر ایک ادبی اجلاس میں اپنی کہانی پڑھنے کے لئےبلایا گیا۔ میں نے اپنے قریبی حلقہء احباب میں اس خبر کو پھیلانے کی کوشش کی۔ کس نے بلایا ہے؟ ترقی پسندوں نے۔ اچھا ابھی تک موجود ہیں۔ کسی نے حیرانی کا اظہار کیا۔ ایک اور مبصر کہنے لگے۔' جائیں اپنا شوق پورا کرلیں۔ مگر زیادہ جذباتی ہو کر مت جائیے گا۔ وہاں سب ریٹائرڈ لوگوں کا مجمع ہو گا۔ اب اس عمر میں انکے پاس اور کچھ کرنے کو نہیں تو یہ ان کی ایک سرگرمی ہے'۔' تو اچھی بات ہے ناں کہ انسان اپنے آپ کو ہر عمر میں مصروف رکھے۔ سنا نہیں خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔' 'اور بھراذہن شیطان کا شو روم ہوتا ہے'۔ اب ایسے لوگوں سے کوئ کیا کہے۔ مجھے اس سے کیا۔ ویسے بھی کسی کی دعوت ٹھکرانا سخت غیر اسلامی فعل ہے۔ اور لوگ تو چاہتے نہیں کہ ہمیں بھی عزت اور احترام ملے اور ہم بھی لائق توقیر ٹھریں اس لئے ایسی باتوں کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ ہم نہ جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو تو موبائل فونز والوں نے مصروف رکھا ہوا ہے تو اب ایسی سرگرمیوں میں کون آئے گا۔ لازماً وہی ریٹائرڈ لوگ۔ وہ اپنی روایات کے ساتھ ہیں۔ بزم ادب میں رونق انہی کے دم سے ہے۔

لیجئیے مزید لوگوں کو کچھ بتانے سے کان پکڑے ۔ اور اگلے لمحے کان چھوڑ کر اپنی شائع شدہ

کہانیوں میں سے چھاننے لگی کہ کیا پڑھنا چاہئیے ۔ دعوتی پیغام میں تو یہ کہا گیا تھاکہ بالکل نئ تخلیق ہونی چاہئیے ۔ لیکن میں نے معذرت کر لی۔ ایک ہفتے کے نوٹس پہ یا تو اخبار میں آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے ۔ یا کسی اور کے محبوب کے نام خط۔ ۔ ایک معیاری کہانی اگر لکھ بھی لی جائے تو اسے پال میں لگے رہنےکے لئے وقت چاہئیے ہوتا ہے ۔ اور یہ کچھ دنوں کا کام نہیں ہوتا۔ کم از کم میرے لئے ۔

حسب پیشنگوئ وہاں تقریباً بیس افراد ایسے تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ تھیں۔چار پانچ احباب درمیانی عمروں کے اور دو تین لوگ ان میں سے کہے جاسکتے ہیں جن کے لئے اقبال نے کہا کہ

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں

محفل کے پہلے نثری حصے میں ہم اپنے حصے کا کام کر کے فارغ ہوئے۔ اب راقم کے لئے جو کچھ کہا گیا اسکے نتیجے میں تو مجھے اس پوسٹ کا بقیہ حصہ نہیں لکھنا چاہئیے۔ تعریف اور توصیف کا گوند اتنا ہی موئثر ہوتا ہے۔ لیکن پھر یہ مقام آتا ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ

کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سیں
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی

اب اس شعر میں پنجابی زبان کی جو غلطیاں ہوں انہیں درست کر کے براہ شکریہ مجھے بھی بتا دیجئیے گا۔ محفل کا دوسرا اور متنازعہ حصہ شروع ہوا۔ اس حصے میں ایک شاعرہ کو تنقید کے لئے اپنی غزل پیش کرنی تھی۔ غزل کی ایک کاپی سب کو عنایت کی گئ۔

میں کوئ شاعر نہیں، اور نہ ان کیفیات میں مبتلا ہوں جس میں احباب کہتے ہیں۔ جب سے دیکھا میں نے تجھ کو شاعری آگئ۔ لیکن شاعری بقول شخصے روح کا نغمہ ہے تو جس بات کی فریکوئنسی روح کے ساتھ تال میل کھا جائے وہی شاعری لگنے لگتی ہے۔

ہمارے ایک کرمفرما کے مطابق کراچی میں اتنے شاعر ہیں کہ ایک پتھر اٹھاءو تو ہزار نکلتے ہیں۔ میرا خیال ہے جو پتھر جہاں پڑا ہے اسے وہیں پڑا رہنے دیجئیے کوئ خود ہی زور لگا کر نکل آئے تو ٹھیک ہےورنہ ان میں سے جو فوسلز میں تبدیل ہو جائیں انہیں بعد میں شاعر تسلیم کر لیا جائے ۔کم از کم اس غزل پر ایک نظر ڈالنے کے بعد یہ خیال راسخ ہو گیا۔
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی۔ جب اس شعر پر تنقید کی گئ،

میری نظریں بھی نئے رنگ طلب کرتی ہیں
گھر کا سائیں، سر وسامان بدل کر دیکھیں

ہمارے پہلے تنقید نگار نے سوال آمیز تنقید میں پوچھا کہ شعر کا مفہوم تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اپنا گھر والا بھی گھر کے سروسامان کے ساتھ تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ شاعرہ موصوفہ میرے پڑوس میں تھیں اور میں انکی آواز بخوبی سن سکتی تھی۔ وہ بالکل جھینپ گئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے کومہ تو ڈالا ہے یہ مخاطب کرنے کے لئے ہے۔ سچ پوچھیں تو میں بھی اس کا وہی مطلب سمجھی تھی جو ان تنقید نگار نے کیا۔ ان شاعرہ کی وضاحت باقی لوگوں کے کانوں تک اس صفائ سے نہ پہنچ سکی اور ترقی پسندوں کی اس محفل میں اس بات پہ داد دی گئ کہ اردو شاعری میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک عورت نے بھی مرد کی طرح اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کی تبدیلی چاہتی ہے۔ یاد رہے وہ اس کی تردید کر چکی تھیں لیکن اس خیال کو اس شعر کی خوبی سمجھا گیا۔ اسی طرح ایک اور شعر میں ایک مصرعہ کچھ اس طرح تھا کہ من کے اندر کا ہی بھگوان بدل کر دیکھیں۔ ایک اور سینیئر تنقید نگار نے اس بات پہ داد دی کہ شاعرہ نے بڑی جراءت دکھائ کہ ہندی کے الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کئے۔ حالانکہ انکے علم میں خدا جانے کیوں ان لاتعداد شاعروں کے نام نہ تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں پوربی اردو استعمال کی ہے جس میں بےشمار ہندی کے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس وقت فوری طور پر جس قریبی شاعر کا نام میرے ذہن میں آرہا ہے وہ پرتو روہیلہ اور مجید امجد ہیں۔ محض روایت سے ہٹنے کا نام ترقی پسندی نہیں ہو سکتا۔ اگر کوے کی تین ٹانگیں ہو جائیں کسی بھی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں تو اسے ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک عیب ہے۔

سب سے مایوس کن صورتحال اس وقت لگی جب ہمارے ایک نوجوان شاعر نے حاضرین محفل کو غزل میں موجود فنی خرابیوں سے آگاہ کیا اور شاعری کی باریکیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اسے ایک نچلے درجے کی غزل قرار دیا۔ یوں لگا کہ سب حاضرین کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ انکی اس ماہرانہ تنقید کے بعد باقی سینئر حضرات نے اس کا اثر مٹانے کی بھر پور کوشش کی اور آخر میں اسے ایک ترقی پسند اچھی غزل قرار دیا گیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ چونکہ مجھے ان شاعرہ کی ہم جلیسی میسر تھی۔ تو محفل کے اختتام پہ میں نے سنا کہ وہ اور انکے ساتھی اس بات پہ ناراض ہوئے کہ چھوٹے بڑے کی کوئ تمیز نہیں انہوں نے اس طرح کی تنقید آخر کیوں کی۔

میں گھر واپس آگئ۔ اگر ہم تنقید کے لئے کوئ چیز سب کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہئیے کہ اس پر ہمارے سینیئر رائے دیں گے یا ہمارے جونیئر۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو شخص اس چیز کی مہارت رکھتا ہے وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔اس بات کو بھی مسئلہ نہیں بنانا چاہئیے کہ وہ رائے مثبت ہو گی یا منفی۔ اور جو شخص کوئ منفی رائے دے گا وہ ہماری بے عزتی کریگا یا یہ روایت کے خلاف ہوگا اور ہر ایک کو سب اچھا ہے کی گردان الاپنی چاہئیے۔ تخلیق کی دنیا میں سب برابر ہیں فرق صرف اس بات کا ہے کہ کوئ اپنی خدا داد صلاحیت کو کسطرح استعمال کرتا ہے۔ غالب تو مومن کو اس شعر کے بدلے اپنا دیوان دینے کو تیار تھے کہ۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئ دوسرا نہیں ہوتا

اگرچہ اس محفل کے آغاز میں یہ کہا گیا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کا مقصد نوجوانوں میں تخلیقی جذبہ پیدا کرنا اور ساتھ میں ان کی اصلاح اور سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ لیکن جس طرح سیکھنا صبر اور استقامت کا کام ہوتا ہے سکھانا اس سے زیادہ صبر اور استقامت اور غیر جانبدار رہنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے ایک دفعہ کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر اداروں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب سینیاریٹی سنڈروم ہے۔ میری بات سنی جائے، میری رائے کو صائب سمجھا جائے، صرف میرے بتائے ہوئے مشوروں پہ عمل کیا جائے کیونکہ میں سینیئر ہوں۔ یہ سوچ ہمارے بہت سارے اداروں کی نہ صرف تباہی کا باعث بنی بلکہ ہمارے ملک کے نوجوان ذہین دماغوں کے ملک چھوڑنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔حالانکہ میں سمجھتی ہوں کہ اس نوجوان تنقید نگار نے تنقید کا حق ادا کر دیا تھا۔ اور بجائے اس کی تنقیدی صلاحیت کو سراہنے کے اس غزل میں ایسی ایسی خوبیاں کھوج کھوج کر بیان کی گئیں جو صاحب تحریر کے علم میں بھی نہ تھیں۔

ہمارے عمومی روئیے کچھ اسی طرح کے ہیں۔ آخر ہم کسطرح کسی بھی میدان میں بلندی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اپنی خامیاں سننا برداشت نہیں کرتے۔ اور کوئ بھی چیز اپنے اعلی معیار پہ کیسے پہنچ سکتی ہے جب ہم اسکی جانچ کے لئے سخت معیار متعین نہیں کریں گے اور محض دوستی اور جان پہچان نبھانے کے لئے حقدار کو اسکے حق سے محروم رکھیں گے۔ گروپ بندی کر کے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے ضمیر کو سپورٹ دے لیں کیونکہ اس طرح آپ وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے آپ کے کسی ہنر کی تعمیر نہیں ہو پا تی۔

ریفرنس؛
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن


مبارک تمہیں خوشی کا یہ سماں

Friday, June 19, 2009

فتراک کے نخمچیر

میرے بھائ کو مدرسے سے نکال دیا گیا۔ اور یہ صرف اسی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ مزید پندرہ طلباء اس سلوک کے حقدار ٹہرے۔ جی، وہ مدرسے میں شیطانیاں کرتے ہوئے یا باتیں کرتے ہوئے نہیں پکڑے گئے تھے بلکہ مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یا تو قرآن کی تعلیم حاصل کریں یا پھر اسکول کی۔ یہ جو آپ چالاکی دکھاتے ہوئے دونوں کام کرنا چاہ رہے ہیں تو ایسا ہم نہیں کرنے دیں گے۔ یہ واقعہ بھی ابھی کا نہیں جب کچھ معصوم سوچتے ہیں کہ ایسا اس لئے ہوا کہ مشرف نے آ کر ماڈرن اسلام کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی اور اسلام پسندوں نے اسلام بچانے کی، اس وجہ انتہا پسندوں نے جنم لیا۔ بلکہ یہ واقعہ اسی کی دھائ کا ہے جب جنرل ضیاءالحق پاکستان کو مشرف بہ اسلام کر چکے تھے۔ لیکن ابھی ہمارے محبوب صدر کا طیارہ فضا میں نہیں پھٹا تھا۔

میری اماں حیران رہ گئیں۔ ارے اسکول نہیں جائیں گے تو کیسے اپنی زندگی گذاریں گے۔ وہ اتنی معصومیت اور حیرانی سے ہر ایک سے یہ بات پوچھتیں۔ اگرچہ کہ انہوں نے یہ فیصلہ مدرسے کے منتظم کے پاس کھڑے کھڑے کر لیا تھاکہ وہ اپنے بچوں کو وہاں نہیں پڑھوائیں گی۔ پاگل ہو گئے ہیں یہ مدرسے والے۔ انہوں نے تو اس وقت اس قصے پہ بڑی سادگی سے یہ کہہ کر مٹی ڈالدی۔ مگر شاید پوری قوم کو پاگل بنانے کی تیاری اس وقت شروع کر دی گئ تھی۔

اس بات کو عرصہ گذر گیا، میں اپنی پی ایچ ڈی کے کاموں میں منہمک تھی۔ اس دوران میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئ۔ ہمارے گرائیں یعنی کراچی سے تعلق رکھتے تھے آئ سی ایم اے میں فائنل ائیر کے طالب علم تھے۔ مجھ سے کہنے لگے۔یہ ریسرچ وغیرہ تو میں سمجھتا ہوں کہ بیکار چیزیں ہیں۔ اگر انسان قرآن کو صحیح سے پڑھے تو ان جدید علوم کی کوئ ضرورت نہ پڑے۔ یعنی آپ بیمار نہیں پڑیں گے اگر قرآن کو پڑھیں گے تو۔ جی بالکل، اور اگر پڑ بھی گئے تو اس کا علاج قرآن میں موجود ہے۔ آپ کو بسوں اور جہازوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کہنے لگے آپ نے ان صوفیوں اور بزرگوں کے بارے میں نہیں سنا جو ہوا میں اڑتے تھے اور پلک جھپکتے میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں موجود ہوتے تھے۔میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگی تو پھر آپ کیوں پڑھ رہے ہیں۔ پیسہ کمانے کے لئے۔ میں نےتو ایسے بزرگوں کے بارے میں بھی سنا ہے جن کی جائے نماز کے نیچے خزانہ موجود رہتا تھا وہ اس کا کونہ اٹھاتے اور ضروریات پہ خرچ کرتے تھے۔ کہنے لگے لڑکیوں کو میٹرک سے زیادہ نہیں پڑھنا چاہئیے۔ بہت شیطانی باتیں سوچنے لگتی ہیں۔ افسوس، میں ان کے گھر کی لڑکی نہ تھی۔ پھرمزید گویا ہوئے۔ ضرورت کا علم حاصل کرنے میں کوئ قباحت نہیں۔ لیکن اگر ہم قرآن شناسی بڑھا لیں تو پھر اس کی بھی چنداں ضرورت نہ رہے۔

ضرورت کا علم، کتنا منافقانہ لفظ لگتا ہے۔ آخر مذہب کے خود ساختہ متولیوں کے پاس ایسے منافقانہ الفاظ کا ذخیرہ کیسے جمع ہو جاتا ہے۔ ایسے بے روح، شکستہ، نیم مردہ الفاظ ، یہ الفاظ جو پھر اپنی کوکھ سے موت کو اورخود کش حملہ آوروں کو جنم دیتے ہیں۔میں نے ان سے کہا تھوڑا خاموش ہو جائیں۔ میں اس وقت جس مشین پہ کام کر رہی ہوں یہ آواز کے ارتعاش سے حتی کہ جسم کی حرارت سے بھی متائثر ہوتی ہے۔ اپنا کام پورا کرنے کے بعد میں ان کی طرف مڑی اور انہیں بتایا کہ اس مشین کے ذریعے میں نمک کے ایک ریزے کااور آپکی آنکھ کی ایک پلک کا بھی وزن بالکل صحیح معلوم کر سکتی ہوں۔ اور یہ جرمنی سے تیار ہو کر یہاں آئ ہے۔ حقیقت میں ، میں نے انہیں مزید بتایا اس وقت اس لیبارٹری کے اندر یہ جو اتنی بڑی بڑی مشینیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں سے کوئ ایک بھی کسی مسلمان ملک میں نہیں بنی۔ انکی در آمد پہ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ دراصل یہ پورا ریسرچ سینٹر جس کی مالیت شاید اس وقت اربوں میں ہو گی۔ اس میں ایک معمول سی مشین بھی کسی مسلمان ملک کی نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس ادارے کو مسلمان ممالک سے کوئ بیر ہے بس ایسا ہے کہ مسلم ممالک میں اتنا دم نہیں کہ انہیں بنا سکیں یا اس پائے کا بنا سکیں۔

کیا ہوتا ہے ضرورت کا علم، آپ ایف سکسٹین ان سے لیکر اڑانا سیکھ لیں۔ البتہ بناتے وہ اسے رہیں اور اپنی ضرورت کے حساب سے اس میں نئ تبدیلیاں وہ لاتے رہیں۔ پھر ان نئ تبدیلیوں کو آپ ان سے پیسہ دیکر سیکھیں۔ کیا ہوتا ہے ضرورت کا علم، آپ اپنی فوجوں کی صحت کے لئے، جان بچانے والی اشیاءاور دوائیں ان سے خریدیں اور ان کا طریقہ ء استعمال بھی۔ البتہ وہ اس چیز پہ تحقیق کرتے رہیں کہ اسے مزید بہتر اور سستا کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ کتاب ہم سے مخاطب ہوتی ہے کہ کوئ ہے جو ان نشانیوں پہ غور کرے جو رب ذوالجلال نے اپنی پہچان کے لئے اس کائنات میں قدم بہ قدم بکھیر دیں ہیں۔ لیکن یہ وہ ہیں جوستاروں پہ کمندیں ڈالتے ہیں اور کائنات کی بیکراں وسعتوں کی خبر لاتے ہیں۔ چونکہ فی الحال آپ کی ضرورت یہ ہے کہ موسم کا حال پتہ چل جائے یا آپ ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ لیں، اس لئے آپ ان سے یہ سہولت ایک مقررہ مدت کے لئے خرید لیتے ہیں۔

وہ اندھوں کی طرح اپنے تخیل کی انگلیوں سےٹٹول ٹٹول کر اس تخلیق گاہ کو دریافت کر رہے۔ ہیں اور آپ کتاب بغل میں دبا کر خوش ہیں کہ ہم ہیں خدا کی بہترین امت اور اس نے ہمیں یہ کتاب دی جس میں ان تمام رازوں کے اخفاء کے طریقے موجود ہیں، البتہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعادت آپ نے انہیں دیدی ہے۔ کیوں ان مسلمانوں کو کسی اندیکھے ذریعے سے یہ بات پتہ ہے کہ ان کے لئے صرف ضرورت کا علم رکھا گیاہے حالانکہ اب وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا ہے۔ کسی ایسی صورت کے لئے اقبال نے کہا کہ

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں

حکیم الامت نے یہیں پر بس نہیں کی بلکہ وہ آگے کہتے ہیں کہ

اسی قرآن میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایامہ و پرویں کا امیر
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہا ں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھاجو 'ناخوب' بتدریج وہی 'خوب' ہوا
کے غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

چلیں اتنی بڑی باتوں پہ جی کیا جلانا ۔ یہ مجھے کسی نے باہر سے سلائ کی مشین تحفے میں لا کر دی ہے۔ اسکی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت ہلکی اور چھوٹی سی ہے۔ میں اسے اپنے ساتھ لیکر کہیں بھی پھر سکتی ہوں۔ اس کا وزن کسی گنتی میں نہیں۔ لیکن لانے والا اس کا مینوئل وہیں بھول آیا ۔ باہر سے کوئ سوراخ نظر نہیں آتا اندر سے یہ بالکل بند لگتی ہے۔ اب میں نیٹ پر بیٹھی سرچ کر رہی ہوں کہ اس میں تیل ڈالنےکا کیا طریقہ ہوگا۔ یہ مشین یہاں کسی نے استعمال نہیں کی اور کوئ مجھے کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ ہم سب نے صرف ضرورت کا علم حاصل کیا ہے۔

Wednesday, June 17, 2009

قیاس کہتا ہے

جمائمہ خان، لا تعداد پاکستانی لڑکیوں کے دلوں کو چکنا چور کرتی ہوئیں، لاکھوں پاکستانیوں کی بھابھی بن کر یہاں آئیں۔ لیکن ان کے سلسلے میں بھی تاریخ نے اپنے آپ کو دھرایا۔ اور ہوا یہ کہ جتھوں دی کھوتی اتھےآنکھلوتی۔ یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تَھا۔

لیکن اکثر جب بیتے دن یاد آتے ہیں تو وہ اپنے دیدار سے ہی نہیں بلکہ اپنے بیانات سے بھی ہمیں نوازتی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس سلسلے میں اخبار سنڈے ٹائمز میں اپنے تاءثرات بھی لکھے۔

وہ لکھتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والے تضادات کا مجموعہ ہے۔ لوگ مہربان بھی اور خونخوار بھی، چیزوں کو ڈھکے چھپے انداز میں برتتے ہیں اور پھر بالکل کھلے ڈلے ہوتے ہیں، کہاں تو روحانیت میں گم تو کہاں ظاہریت پہ جان دینے والے۔وہی ظالم اور وہی مظلوم۔

ان تضادات میں کچھ اور چیزیں بھی شامل کی جا سکتی ہیں لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔ وہ بیچاری پانچ سال ایک پاکستانی گھرانے سے جڑے رہنے کے باوجود نہ جان سکیں کہ ایک مثالی پاکستانی ہونے کا مطلب ہی دراصل مجموعہء اضداد ہے۔خیر، یہ موضوع پھر کبھی۔

آگے انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اس وقت شدت سے قیاسی سازش کی زد میں ہے۔ قیاسی سازش ، یہ میں نے ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے اس ترکیب کی جسے انگریزی میں کانسپیریسی تھیوری کہتے ہیں۔ اگر کوئ اس سے بہتر اردو مترادف اس لفظ کا جانتا ہے تو براہ مہربانی اس سے آگاہ کرے۔ میں مشکور ہونگی۔ الفاظ کی یہ ترکیب انیس سو پانچ میں پہلی دفعہ منظر عام پہ آئ۔ شروع میں اسے ایک نیوٹرل لفظ کے طور پہ لیا جاتا تھا۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ۔ اسے منفی معنوں میں زیادہ استعمال کیا جانے لگا۔

یہ قیاس آرائ ذہن کی ایک ایسی رو ہوتی ہے جس میں ہم ہر واقعے کے پیچھے کسی سازش کو کارفرما دیکھتے ہیں۔ کیونکہ حقائق، واقعات اور ان سے منسلکہ لوگ کچھ اس طور پہ دھند میں ہوتے ہیں کہ ذہن صحیح بات تک بمشکل پہنچ پا تا ہے۔۔ نظریہ دان کہتے ہیں یہ رویہ لیڈرشپ کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ لیڈرشپ کا کرپٹ ہونا، ایک ایسی لیڈر شپ کا نہ ملنا جس سے عوام مطمئن ہوں، یالیڈرشپ کا سامنے نہ آپانا، صرف پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں دیگر اقوام بھی اس سے دوچار ہیں۔

ہر ملک اور قوم اپنے حالات اور معاشرے کی بنت کی وجہ سے مختلف قیاسی سازشوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ تاریخ کی کچھ مشہور قیاس آرائیوں پہ ڈالنے سے ہو سکتا ہے۔

ان میں سر فہرست گیارہ ستمبر، ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو جہاز سے اڑانا ہے۔ امریکہ سے باہر لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا خیال ہے کہ اس میں امریکن سی آئ اے شامل ہے۔ اورحادثہ بش انتظامیہ نےترتیب دیا۔۔ بظاہر اس کے حق میں کئ شہادتیں بھی جاتی ہیں۔ جیسے اس واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ کس نے اٹھایا۔ جواب یہ ہے کہ امریکہ نے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ انکے پیارے صدر ایسا نہیں کر سکتے کہ اس طرح امریکیوں کا قتل کروا کے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ کافی حد تک یہ بات صحیح بھی لگتی ہے امریکی ہمیشہ غیر امریکی کو مار کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی انہوں نے واقعات کو سیدھا رکھنے کے لئے امریکیوں کی قربانی دی بھی ہے جیسے صدر ضیا الحق کے طیارے کا پھٹنا حالانکہ اس میں اس وقت امریک نمائندگان بھی موجود تھے۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ اسٹریٹجی انہوں نے ہم سے یعنی پاکستانیوں سے سیکھی ہو۔

۱۹۴۱، دسمبر میں جاپان نے ایکدن ہمت دکھائ اور امریکی بحری بیڑے یو ایس پیسیفک کو ہنولولو کے پرل ہاربر پہ جا لیا۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے کی اطلاع امریکیّوں کو مل گئ تھی جو انہوں نے ایک کوڈڈ پیغام کو ڈیکوڈ کر کے حاصل کی تھیں لیکن وہ جگہ کا نام نہ معلوم کر سکے۔ اس حملے میں لگ بھگ ڈھائ ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ امریکہ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لایا۔۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ کو اسکی پیشگی اطلاع تھی اور انہوں نے اس سے جنگی فائدہ اٹھانے کے لئے اسے وقوع پذیر ہو جانے دیا۔

ایک اور واقعہ لیڈی ڈیانا کے اپنے مسلمان ساتھی کے ہمراہ پیرس میں حادثے کے دوران ہلاکت ہے۔ بیشتر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی شاہی حکومت نے یہ آنر کلنگ کروائ ہے۔ انگلش چرچ کے متوقع متولی کی ماں ایک مسلمان کے ساتھ عیاشی کرتی پھر رہی ہوں اس پر تو اسے زندگی سے فراغت دے دینا ہی بہتر ہے۔ انگلینڈ میں اس خیال کے حامی اور مخالف دونوں پچاس فی صد ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ڈیانا مسلمان ہونے والی تھیں اور زیادہ راسخ العقیدہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ہوچکی تھیں اس لئے انہیں قتل کروا دیا گیا۔۔مسلمان ہونے سے پہلے وہ شاید یہ چیک کر رہی تھیں کہ مسلمان اچھے شوہر ہوتے ہیں یا نہیں اس لئے پہلے انہوں نے ڈاکٹر حسنات اور پھر ڈوڈی الفوائد کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کی ۔ ڈوڈی الفوائد نے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا اور ان کے ساتھ موت میں بھی ہمراہی قبول کی۔

کالوں کو بھی کچھ کم تحفظات نہیں ہیں۔ ہر تین میں سے ایک افریقی النسل شخص اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ ایڈز کے جراثیم جان بوجھ کر امریکہ نے انکی سر زمین پہ متعا رف کرائے اور اس طرح انسانوں کی لیبارٹری تیار کی۔ اف یہ امریکی کبھی کبھی تو مجھے ان سے بڑی ہمدردی ہوتی ہے۔ ڈسٹ بن قوم، بیشتر لوگ اپنے موجودہ اور غیر موجودہ مسائل انہی کے سر منڈھ دیتے ہیں۔

یہی نہیں گلوبل وارمنگ کے بارے میں بھی دوستوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ہوّا ترقی یافتہ ممالک نے اس سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے۔لیجئیے ہر سال جب گرمی پڑتی ہے ہر ایک ہر دوسرے سے یہ کہتا سنائ دیتا ہے کہ اس سال کیا قیامت کی گرمی پڑی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ جن میں سے وہ جو سائنس سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ذمہ دار گلوبل وارمنگ کو سمجھتے ہیں اس معاشی فوائد والی بات پہ بالکل چیں بہ جبیں ہو جاتے ہیں۔ ہونہہ، جب مریں گے کینسر کی وجہ سے تو پتہ چلے گا۔ یہاں تو ہر بات میں کوئ سازش ہے۔

اور یہ بات تو کچھ ایسی پرانی نہیں۔ جب ہمارے موجودہ محبوب صدر، پاکستان کے سب سے کرپٹ صدر کو ٹھوکر مار کے عوامی امنگوں کے مطابق صدر بنے۔ جب سب ہوا دے نال اڈ اڈ کے تھک گئے تو دشمنوں نے اڑایا کہ اس کار خیر کو انجام دینے کے لئے انہوں نے اپنی بیوی اور اس وقت کی مشہور لیڈر خاتون کی جان لینے سے بھی گریز نہ کیا۔ اب وہ ان کی تصویر اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور گاتے ہیں۔

جو بات تجھ میں نہیں ، تصویر میں وہ ہے، تصویر میں وہ ہے۔

حق کی راہ میں ایسی قربانی وہ اس سے پہلے بھی لے چکے ہیں۔ اور اس وجہ سے شہیدوں کا ایک خانوادہ وجود میں آیا۔ جس سے مستقبل کے شہیدوں کی چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے۔ اور عالم یہ ہے کہ چلے گئے تھانیدار جی اب ڈر کاہے کا۔

ایک زمانے میں یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ کوئ دن جاتے ہیں کہ کراچی جناح پور بن جائے گا اور ایم کیو ایم والے اس پہ حکومت کریں گے۔ حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب گھی سیدھی انگلیوں سے نکل رہا ہو تو انہیں ٹیڑھا کرنے کا فائدہ۔ اپنے غیر کراچی دوستوں کو دھمکایا کرتے تھے کہ اگر زیادہ آئیں بائیں شائیں کی تو ویزہ لگوا کر آنا پڑیگا۔ اور آپ کا ویزہ تو لگنے نہیں دونگی۔ میرے سینے پہ مونگ دلنے کے لئیے انہوں نے کراچی میں ہی رہائش اختیار کر لی۔ کر لو جو کرنا ہے۔ اس وقت یہ نہیں سمجھ میں آتا تھا کہ محمد علی جناح نے جو ملک بنایا اس کا نام تو پاکستان رکھ دیا۔ اب اس کا نام جناح پور کیوں رکھیں گے۔ ہم کوئ پختون تھوڑی ہیں کہ اسلامی ملک بنانے کے بعد یا تو اپنےنام پر لڑ رہے رہیں یا اسلام پہ۔ کام پکا ہونا چاہئیے۔ بس اس وجہ سے جناح پور بنتے بنتے رہ گیا۔

اب میرے سواتی ڈرائیور نے بتایا کہ باجی یہ طالبان مسلمان نہیں ہوتا۔ یہ غیر مسلمان ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا سب کےسب غیر مسلمان ہوتے ہیں۔ کہنے لگا نہیں تو، یوں سمجھ لو کہ ہزار میں صرف سو طالبان ہوتا ہے اور باقی غیر مسلمان۔ اچھا یہ بتاءو میں نے اس سے مزید پوچھا۔ یہ صوفی محمد اور فضل اللہ یہ سب بھی غیر مسلمان ہے۔ تھوڑا سا جھجھکا اور کہنے لگا باجی یہ سب بکا ہوا مسلمان ہے۔ باجی ان سب کو پیسہ چاہئیے پیسہ۔

میڈیا میں اس حوالے سے چند تصاویر گردش میں ہیں۔ لیکن ہزاروں کی تعداد میں بر سر پیکار عسکریت پسندوں کے لشکر پاکستان میں کیسے داخل ہو گئے۔ یہ کوئ نہیں بتاتا۔ آج ہی میں اخبار میں پڑھ رہی تھی کہ بیت اللہ محسود اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ وزیرستان میں موجود ہے۔ ان کی مقامی آبادیوں سے دوستی کیسے ہو گئ۔ جبکہ اسلامی ظاہری علامتوں کی اس تمام علاقے میں سختی سے پابندی بھی کی جاتی ہے۔آخر لوگ کیوں اس حقیقت کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ یہ عکسریت پسند دراصل طالبان ہیں جو ایمان اور امن دونوں راستوں سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ طالبان کی حمایت میں گوڈوں گوڈوں ڈوبے ہوءووں کے ساتھ ایسا نہ ہو کہ،

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر، تو لٹاتا نہ گھر کو میں

اب میں تھوڑا اور اپنے قریب دیکھتی ہوں۔ میری ماں۔ ان کا خیا ل ہے کہ سائنسداں جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ چاند پہ پہنچ چکے ہیں۔ کسی صحرا میں جا کر تصویریں بنا لی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاند سے ہو کر آرہے ہیں۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ میں انکے حامی لوگوں سے بھی مل چکی ہوں۔ اور ان سے اکثر سوال کرتی ہوں۔ ڈاکٹر اسی سائنس کی مشین سے آپ کا بلڈپریشر چیک کر کے بتاتا ہے۔ اس وقت آپ اسکی بات پہ اس سے زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ اور فورا فکر کرنے لگتی ہیں کہ میرا بلڈ پریشر کس وجہ سے بڑھ گیا ہے۔ ٹی وی آپ دیکھتی ہیں۔ یہ سائنس کی ایجاد ہے۔ یقین کرتی ہیں۔ جہاز سے اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہیں یقین کرتی ہیں کہ وہاں ہو آئیں۔ ٹیلیفون پہ کی ہوئ بات پہ یقین کرتی ہیں۔ آخر چاند کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ وہ مسکرا کے خاموشی سے اپنا کام کرنے لگتی ہیں۔
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاء چاند

جمائمہ خان
ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی تباہی
پرل ہاربر پر حملہ
روزویلٹ کا فیصلہ
ڈیانا کی موت
گلوبل وارمنگ

Tuesday, June 16, 2009

ن م راشد کی نظم اندھا کباڑی

ن میم راشد یا راجہ نذر محمد راشد نے اردو نثری نظم کا مزاج تبدیل کر کے اسے عالمی ادب میں روشناس کرادیا۔ ن میم راشد اور فیض ہم عصر شاعر ہیں۔ ناقدین کی نظر میں راشد کا مقام فیض سے بڑھ کر ہے۔ لیکن شہرت کی دیوی فیض پر مہربان ہوئ۔ راشد کی بے شمار نظمیں دل میں کھب جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہاں حاضر ہے۔ اسے ضیا محی الدین نے کمال کاتحت اللفظ میں پڑھا ہے۔ ویسے راز کی بات ہے اتنا برا میں بھی نہیں پڑھتی بس کچھ یہ ہے کہ سب کہیں گے۔ 'ارے ضیا محی الدین کی نقل اتاری ہے'۔

اندھا کباڑی


شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ سر بریدہ خواب
جن سے شہر والے بےخبر
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روزوشب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاءوں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کےدست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب ورخسار و گردن
جیسے نو آرستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے

'خواب لے لو خواب'۔
صبح ہوتے چوک پہ جا کر لگاتا ہوں صدا۔
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟'۔
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خوابداں کوئ نہ ہو
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس۔۔
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں

شام ہوجاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا۔۔۔
'مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب'۔۔۔۔۔۔۔
'مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ۔۔
'دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
کوئ دھوکا نہ ہو؟
ایسا کوئ شعبدہ پنہاں نہ ہو؟
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب؟
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئ سحر کر ڈالیں یہ خواب۔۔
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کہ یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب'؟
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں رات بھر پھر بڑ بڑاتا ہوں
'یہ لے لو خواب'۔۔۔
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب۔۔۔۔
میرے خواب۔۔۔
خواب۔۔۔۔۔میرے خواب۔۔۔۔۔۔۔
خواا، اب۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے داااام بھی ی ی ی۔'۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ریفرنس؛

ن میم راشد ایک تعارف

ن میم راشد کی کچھ اور نظمیں

ن میم راشد ایک تعارف ۲

Friday, June 12, 2009

آوارگی کا عذاب

یورپ میں ۱۴۸۴ سے ۱۷۵۰ کے درمیان کم از کم ایک لاکھ عورتوں اور دیگر ذرائع کے دعوے سے دو لاکھ عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان عورتوں کو مارنے سے پہلے چڑیل ثابت کیا جاتا تھا۔ ان عورتوں کی کثیر تعداد بوڑھی اور غریب عورتیں ہوتی تھیں۔ چڑیلوں کی کچھ نشانیاں مقرر کر لی گئ تھیں جیسے چہرے پہ تل یا مسہ یا کسی اور قسم کا نشان حتی کہ کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی اس میں شمار تھا۔ اس کے ساتھ اگر ان کے پاس بلی موجود ہو توپھر کیا کہنا۔ اس سلسلے میں ایک شخص جس کا ذکر خاصہ کیا جاتا ہے اس کا نام میتھیو ہوپ کنس تھا ، پیشے کے حساب سے ایک ناکام وکیل۔چڑیلوں کو مارنے میں بہت کامیاب رہا اور ایک ایکدن میں انیس چڑیلوں کی حیات کا چراغ گل کیا۔ اسے وہاں کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے بدلے میں اسے مختلف ریاستی حاکموں کی طرف سے کثیر رقم ملی۔ تاریخ میں اس کا نام'چڑیل کھوجی جنرل' کے طور پہ مشہور ہے۔ یورپ میں مظالم کا یہ سلسلہ اس وقت بتدریج ختم ہوا جب لوگوں کے اندر علم کی روشنی پھیلی اور انہوں نے توجیہی علم کی طرف توجہ کی یعنی علم کی بنیاد الفاظ کیوں اور کیسے بنے۔

آج مجھے یہ کہانی اس مضمون کو پڑھ کر یاد آئ۔ جو میں نے اردو سیارہ پہ دیکھا۔صاحب مضمون نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئیے پہلے مذہبی جذبات کو استعمال کیا ہے اور اسکے بعد انہوں نے مضمون کے اخیر میں این جی اوز سے وابستہ خواتین کونہ صرف آوارہ مزاج بلکہ ان کوملک کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ میرا کسی این جی او سے چاہے وہ مردانہ ہو یا زنانہ کوئ تعلق نہیں۔ لیکن میں صاحب تحریر سے اس بات کی وضاحت ضرور چاہوں گی کہ جب خدا نے اس ملک کو مردوں کو ان کی آوارگی پہ کوئ سزا نہیں دی تو میں اپنے اسی خدا سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتی کہ وہ اتنی نا انصافی کریگا کہ این جی اوز کی چند درجن خواتین کی وجہ سے اس ملک کو اس حشر تک پہنچا دے۔

خدا اتناجانبدار نہیں ہو سکتا کہ ملک کی دیگر عورتوں اوربچوں کے ساتھ چاہے جس طرح کا بھی سلوک روا رکھا جائے مگر اگر کسی کی آواز پہ وہ لبیک کہے تو وہ صرف جامعہ حفصہ کی خواتین اور بچے ہوں۔ اگر وہ حفصہ کی خواتین اور بچوں کا خدا ہے تو وہ اس دھرتی اور اس کرہء ارض پہ بسنے والے ہر شخص کا خدا ہے۔

مقام حیرت ہے کہ چند عورتیں اپنی آوارگی سے ملک کو اس حشر تک پہنچا سکتی ہیں۔ وہ ملک جہاں کہ حکمرانوں کی اکثریت بنیادی اخلاق کی کجی کا شکار رہی ہو۔ اور جو معاشرہ مردوں کا معاشرہ کہلاتا ہو۔ جہاں کے قوانین مردوں کی اکثریت اپنے مفادات دیکھ کر بناتی ہو۔ جس ملک کا یہ عالم ہو کہ الیکشن کے وقت اس ملک کی تمام بڑی جماعتیں جن میں مسلم لیگ، تمام مذہبی پارٹیاں، جناب عمران خان کی تحریک انصاف اور کچھ اور جماعتیں جن کے نام میرے ذہن سے محو پورہے ہیں ملکر ایک معاہدے پہ دستخط فرماتے ہیں کہ ہمارے ان حلقوں سے کوئ خاتون ووٹ نہیں ڈالے گی۔ جی جناب جہاں خواتین کو اس قدر اختیارات حاصل ہوں وہاں خدا کا عذاب عورتوں کی وجہ سے نہیں آئے گا تو کہاں آئے گا۔

لال مسجد آپریشن سے پہلے اسلام آباد میں ایک خاتون کو فحاشی کا اڈا چلانے کے جرم میں لال مسجد کے خدائ فوجدار ا پکڑ کر لے گئے اور کچھ دنوں تک اسے اپنی تحویل میں بھی رکھا۔ جب تک ان سے یہ وعدہ نہ لے لیا کہ تم یہ دھندہ نہیں کروگی انہیں نہیں چھوڑا گیا۔ انہوں نے بھی اپنی جان چھڑانے کے لئیے یہ وعدہ کر لیا ہو گا۔ درپردہ تو انہیں معلوم ہو گا کہ ہوتا کیا ہے۔

اب اگر آپ میں سے کوئ صاحب یا صاحبہ ہمت رکھتے ہوں تو ڈیٹا جمع کریں ۔ فحاشی کے ان اڈوں پہ، عورتوں کے ان بازاروں میں روزانہ کتنے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مرد جاتے ہیں انکی عمر کیا ہوتی ہے اور وہ کن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سارے حساب کتاب کے بعد انہیں پتہ چلے گا کہ پاکستانی مردوں کی کل آبادی کا خاصہ بڑا حصہ ان سے مستفید ہوتا ہے اور انہی شماریات سے اندازہ ہو گا کہ پاکستان کی عورتوں کی کل آبادی کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ اس پیشے سے باوجوہ وابستہ ہے جبکہ پاکستانی مرد محض عیاشی کے لئیے ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ یا ان خواتین کو اپنے پاس بلاتےہیں۔ معاشیات کا ایک بالکل بنیادی اور سادہ سا اصول ہے اور وہ یہ کہ جب تک ڈیمانڈ ہے سپلائ رہے گی۔ اگر اپ اس سارے خطے کی خواتین کو بالکل پاکباز بنا دیں تب بھی یہ مرد باہر سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئیے کسی اور کو لے آئیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہء سرحد جہاں سے آج مذہب کے احیاء کی تحریکیں پیش کی جا رہی ہیں یہاں پاکستان میں سب سے زیادہ ہم جنس پرستی عام تھی اور ہے۔ یہ چیز وہاں اسٹیٹس سمبل یعنی خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔ معاشی طور پہ مستحکم مرد کے پاس کچھ نو عمر لڑکے ضرور ہوتے ہیں۔ آج تک اس صوبے کے اندر رائج اس عادت قبیح کا آپ کبھی کسی مذہبی جماعت سے تذکرہ بھی نہیں سنیں گے۔ حالانکہ یہ وہ چیز ہے جس پہ خدا نے ایک قوم پہ اپنا عذاب نازل کیا۔مگر ایک صوبے میں یہ برائ عام ہونے کے باوجود وہاں کوئ عذاب نہ آیا۔عذاب آیا تو ان عورتوں کی وجہ سے۔

تو آج تک کبھی ان مردوں کے خلاف کوئ موءثر کارروائ نہ ہو سکی۔ در حقیقت پوچھا جائے کہ آوارگی کی کیا تعریف ہے تو اس کی کوئ ڈھنگ کی تعریف بھی نہ پیش کی جاسکے گی۔ سوائے خواتین کے اوپر تنقید کرنے کے۔ اس لئیے نہیں کہ کوئ تعریف ہے نہیں بلکہ اس لئیے کہ پھر اس نظام کو اس کرپٹ نظام کو کون بچائے گا۔ مرد ایکدوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ آخر انہیں ہی اس نظام کو چلانا ہے۔

یہ ایک تبصرہ نگارہیں ایک بلاک پہ فرماتے ہیں کہ یہ رافضی عورتوں کی کوکھ ہی ایسی ہے۔ میر جعفر اور میر صادق کو ہی جنم دیں گی۔ اس مرد محترم کو یہ نہیں معلوم کہ زمین کیسی بھی ہو پھل میں خصوصیات بیج کی آتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوتوں کے معاملے میں ہم دن بہ دن کہاں جارہے ہیں۔

لال مسجد والوں نے اپنے وجود کو جب سہارا دینا چاہا تو انہوں نے بھی چند عورتوں کو پکڑ لیا۔ نام نہاد مذہبی تنظیمیں جب اپنی اجارہ داری کو طاہر کرنا چاہتی ہیں تو خواتین کو ہی ہر برائ کی جڑ بنا دیا جاتا ہے یا انکی حیثیت انسان سے بھی کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقبال ایک جگہ کہتے ہیں کہ
ہند کے شاعروصورتگر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اگر اس دور میں زندہ ہوتے تو ضرور ہمارے مذہبی حلقوں کو بھی اس فہرست میں شامل کرتے۔ جس جنونیت کے ساتَھ اب وہ اس راستے پہ گامزن ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ کوئ دن جاتا ہے کہ یہاں پر بھی کوئ میتھیو ہوپ کنس برآمد ہوجائیں گے۔

مغربی معاشرے میں لا دینیت کی تحریک نے ایکدم سے جڑ نہیں پکڑ لی تھی بلکہ ان جیسے عوامل نے لوگوں کے دلوں میں وہاں مذہب کے لئیے نفرت پیدا کی۔ وہاں پہ بھی ایک وقت میں یہی عالم تھا کہ عورتوں کو حقیر، اور ہر برائ کی جڑ سمجھا جاتا تھا۔ ماشاللہ سے ہم بھی انکے نقش قدم پہ جا رہے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز کو اپنا لیتے ہیں جسے برتنے کے بعد وہ بےکار کہہ کر پھینک دیتے ہیں۔

ایک حدیث جس کا میں ان تمام اصحاب کو حوالہ دینا چاہونگی وہ یہ ہے کہ
جس نے ایک انسان کی زندگی بچائ اس نے ساری انسانیت کو بچا لیا اور جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔
اگر ان آوارہ مزاج عورتوں میں کوئ ایک کسی ایک انسانی جان کو بچا لیتی ہے تو اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔ اور اگر آپ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے کسی ایک بے گناہ کی جان لیتے ہیں تو آپ نے سارے انسانوں کو قتل کردیا۔
آپ نے اپنے معاشرے کے اندر اتنی ناہمواریاں کیسے پنپنے دی ہیں کہ ان عورتوں کو آپ کے درمیان جمنے کا موقع ملا۔ کبھی اس بات پہ بھی غور فرمائیں گے۔ یا ہر وقت خدا کی پھٹکار سے ہی نوازتے رہیں گے۔

میں سمجھتی ہوں ایسے تمام اصحاب کی سختی سے مذمت کرنی چاہئیے۔ آپ کسی کے طرز عمل پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اعمال کو چھان پھٹک کر دیکھ لیں۔ تاریخ کا خوب مطالعہ کریں۔ ذہن اور نظرکی تنگی جہاں لے جاتی ہے۔ ہم سب الحمد للہ وہیں جا رہے ہیں۔

ریفرنس؛

متعلقہ مراسلہ، منیر اے طاہر کے بلاگ پہ موجود ہے

یورپ میں چڑیلیں ۱

یورپ میں چڑیلیں ۲

یورپ میں چڑیلیں ۳

Thursday, June 11, 2009

میں نہ مانوں

میں پاکستان سے باہر چند پاکستانی خواتین کے ساتھ بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ کسی نے ٹکڑا لگایا۔' یار پاکستانی لڑکیاں بہت میک اپ کرتی ہیں۔ معلوم ہے ان کے کمروں میں جا کر دیکھو تو ڈریسنگ ٹیبل پہ طرح طرح کا سامان بھرا پڑا ہوتا ہے اسکے باوجود پاکستانی اپنے آپ کو غریب کہتے ہیں۔' وہاں موجود ہر ذی روح نے اس کی تائید کی، سوائے میرے۔ کتنی پاکستانی لڑکیوں کے پاس اپنے ذاتی کمرے اور ان میں ڈریسنگ ٹیبل موجود ہوتا ہے چہ جائیکہ بھانت بھانت کا میک اپ کا سامان۔ ہم اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایک کمرے میں پانچ چھے لوگ سوتے ہیں۔لوگوں کے پورے گھر ایک کمرے پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی حد تک میں نے یہ دیکھا کہ نوے فی صد لڑکے اور لڑکیاں شام کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ جواب ملا لیکن یونیورسٹی کی نوے فیصد لڑکیاں لپ اسٹک لگاتی ہیں۔ اتنی ٹیوشن پڑھا کہ چھ مہینے میں سو روپے کی ایک لپ اسٹک لگا لینا نہ کوئ عیاشی ہےاور نہ وہ اس جملے کی حقدار ٹھیرتی ہیں۔یہ تو بس ایک شوق ہے۔ کوئ اور زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتے چلو لپ اسٹک لگا لی۔ یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں اور اب بھی، میں کبھی لپ اسٹک کی شوقین نہیں رہی لیکن کسی کےایسے بے ضرر شوق کو برا بھی نہیں کہتی۔ خیر تمام تر غربت کے ڈیٹا اور کاسمیٹکس کے استعمال کی شرح کی معاشیات کے ان سب نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ اس لئیے کہ وہ سب پاکستانی معاشرے کے اعلی طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی محدود دنیا کے علاوہ پاکستان کے بیشتر حصے کو نہ دیکھا تھا نہ محسوس کیا تھا۔

اب یہ ایک اور منظر ہے میں اپنے دوستوں کو اندرون سندھ اپنے قیام کے بارے میں بتا رہی تھی۔ 'یار سانگھڑ کے اطراف میں بڑی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ اور بعض جو کنول کے پھولوں سے ڈھکی ہوئ ہیں بہت زبردست لگتی ہیں۔' میرے ایک دوست جن کا تعلق سندھ سے نہیں تھا ایکدم بول اٹھے۔ 'دیکھا پھر بھی سندھ والے شور مچاتے ہیں کہ ہمارے لئیے پانی نہیں ہے'۔ میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا ۔ ' مگر آپ نے دریائے سندھ کا ڈیلٹا شاید نہیں دیکھا ۔ ایکدم خشک ہے اور اسے صحرائے سندھ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس میں تو خشک ریت کے ٹیلے جا بجا نظر آتےہیں۔' 'ارے نہیں ابھی مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ سالانہ کتنا پانی ڈیلٹا سے گر کے ضائع ہوتا ہے۔' مشرف کا مخالف ہونے کے باوجود انہوں نے اس کا حوالہ دیا۔'ہاں میں نے بھی انکی یہ تقریر سنی اور مجھے حیرانی ہے کہ کون انہیں یہ ڈیٹا پیش کرتا ہے اگر وہ ہیلی کاپٹر سے ایک دفعہ ڈیلٹا کا چکر لگا لیں سب لگ پتہ جائے۔ اور جو ان جھیلوں کی میں آپ سے بات کر رہی ہوں ان میں سے بیشتر پانی کی کمی کی وجہ سے نمکین ہو گئ ہیں۔ میرے پاس ان نمکین جھیلوں کی کافی تصویریں موجود ہیں اور آپ کو ضرور دکھاءونگی'۔ مگر انہوں نے میری بات تسلیم نہیں کی وہ ہمیشہ کراچی جہاز سے آتے جاتے رہے اور انہوں نے کبھی دریا کے ڈیلٹا پہ سے گذر کر نہیں دیکھا تھا۔ بس ان کا خیال تھا کہ جو بات انہوں نے اپنے جیسے لوگوں سے سنی ہے وہی صحیح ہے۔

یہاں ایک اور خاتون کا تذکرہ جن سے میری ایک تقریب میں اتفاقاً ملاقات ہو گئ ۔ انہیں معروف انگریزی صحافی ارد شیر کاءوس جی بہت پسند ہیں۔ مجھے بھی ان کی بے باک تحریر پسند ہے۔ تو میں نے ان سے کہا۔'آپ کو معلوم ہے کاءوس جی نے ایک دلچسپ بات کہی اور یہ بات وہی کہہ سکتے تھے ۔ ٹی وی پہ ان کا انٹرویو آرہا تھا اور میزبان بضد تھے کہ وہ بتائیں اگر انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ کیا کریں گے۔ انہوں نے جواب دیا۔ میں کیوں بنوں چودہ کروڑ جٹوں کا وزیر اعظم۔' ان خاتون نے اس بیان کو ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھیں اور سمجھتی تھیں کہ وہ کاءوس جی کو پسند کرتی ہے اور وہ اس پسندیدگی کے بدلے میں انکے بارے میں ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ میں بھی ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھی مگر مجھے مزہ آیا۔ میں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ آپ کو اس پروگرام کی ریکارڈنگ کہیں سے مل جائے یا آپ خود انہیں میل کرسکتی ہوں تو ضرور ان سے پوچھ لیں۔ میں نے یہ پروگرام اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ کہیں تو ان سب کی گواہی دلوادوں۔ مگر ادھر وہی بات۔ میں نہ مانوں۔

یہ تو چند چیدہ چیدہ واقعات تھے جو میری یاد داشت میں رہ گئے۔

لیکن ان جیسے واقعات کی یاد تب تازہ ہوئ جب میں نے کچھ حقیقی واقعات کے حوالے اپنی تحریروں میں دئیے اور لوگوں نے کچھ ایسے ہی تبصرے دئیَے ۔ مثلاً پٹھانوںکا خواتین کو ہراس کرنا۔ کہا گیا کیایہ حسن اتفاق ہے کہ آپ کو پٹھان ملتے ہیں۔ اے کاش آپ کو خدا عورت کی حیثیت سے کراچی میں پیدا کرے اور آپ کا گھر یا آفس یا تعلیمی ادارہ ان کی کسی بستی کے آس پاس ہو۔تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ خواتین ان سے اتنا کیوں بدکتی ہیں۔ ورنہ آپ کے لئیے مشکل ہےسمجھنا۔ گھبرائیے نہیں، خدا اپنی سنت کے حساب سے ایسا کریگا نہیں۔ اس لئیے میں بس ہنس دیتی ہوں۔

یہ ایک اور حیران صاحب ہیں انہیں حیرت ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ خاندان میں اتنے لوگ بھی نہ ہو کہ خاندان کے مردوں میں سے دو گواہ نہ نکل سکیں۔ اب میں کیا کروں۔ قسم تو کھا نہیں سکتی کہ جو کچھ کہتی ہوں سچ کہتی ہوں۔اگر آپ سے بھی ڈرنے لگی تو پھر یہ بھی کوئ زندگی ہے۔۔اگر وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں۔ میں انہیں اس تجاہل عارفانہ سے نکالنا چاہوں گی اور کراچی میں واقع ایسے لا تعداد گھروں میں لیجا ءونگی جہاں گھروں میں آسٹیوپوریسس کی ماری خواتین یا ضعیف جوڑے اکیلے رہتے ہیں۔ اور سارا دن اپنے کمپیوٹر پہ بیٹھے اپنے ہزاروں میل پر موجودبچوں اور پوتا پوتیوں سے چیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تبصرہ نگار ، خود بھی چونکہ دن رات کمپیوٹر پہ مصروف رہتے ہیں اس لئیے انہیں معلوم نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔کمپیوٹر اتنی ہی بری چیز ہے۔ اور یہ انٹر نیٹ ایج کا المیہ ہے۔ اس کا بھی کوئ حل نکالنا ہوگا۔

کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم اپنی لا علمی کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ہر انسان ہر چیز تو نہیں جان سکتا۔ ہہر شخص بہترین مشاہداتی قوت نہیں رکھتا اور جو رکھتے ہیں وہ صحیح نتیجہ نہیں نکال پاتے۔ مگر محض یہ سوچنا کہ نہیں جناب، اگر ہم نے آپ کی بات تسلیم کر لی تو ہم آپ کے مقابلے میں کم علامہ ثابت ہو جائیں گے۔ ہم اپنے نظرئیے سے الگ ہوجائِں گے ہمارے وہ ساتھی جن کے ساتھ ہم نے نظریاتی طور پہ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں ہیں ہم ان سے بیوفائ کریں گے۔ یقین جانیں ایسا کچھ نہیں ہوگا کم از کم میرے ساتھ اب تک ایسا نہیں ہوا۔بلکہ آپ حقائق سے زیادہ قریب ہونگے۔اور بہت سارے ایسے لوگوں سے قریب ہونگے جن سے آپ کا نظریاتی اختلاف ہوگا اور پھر اختلاف کی نئ راہیں نکلیں گی۔ زندگی میں کچھ تو نیا ہونا چاہئیے۔

اب میں ایک ایسی پوسٹ لکھنے والی ہوں جس میں ، میں یہ بتاءونگی کہ مجھے کتنی سادہ سادہ باتیں پہلے نہیں معلوم تھی جومیرے ساتھیوں کی وجہ سے میرے علم میں آئیں۔ ان سب کا پیشگی شکریہ۔

Tuesday, June 9, 2009

لاگ اور لگاءو

تھائ لینڈ میں میری دلچسپی تھائ کھانوں کی وجہ سےیا ان کے شاہی نظام حکومت کی وجہ سے رہی تھی۔ بادشاہوں سے ہمارا لگاءو شاید اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہم برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے جنہیں اب لوگ جنوبی ایشیائ کہنے لگے ہیں۔ بچپن میں جب کہانیاں سنتے ہیں تو وہ اکثر اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ جیسے جیسے شعور کی منازل طے کیں تو اس بات کو ہضم کرنے میں بڑا ٹائم لگا کہ کہانی بادشاہ کے بغیر بھی شروع ہو سکتی ہے۔

ہاں تو جب میں نے تھائ ائر لائن کی پرواز نمبر فلاں فلاں پہ قدم رکھا تو سب سے پہلے ان کی ائر ہوسٹس اور انکی یونیفارم پہ فدا ہوئ۔ پھر ان کی سروس پہ۔ تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ پہنچنے کے بعد اندازہ ہوا کہ تھائ کسقدر صفائ پسند اور معمولی چیزوں میں سے بھی تزئین کی جدت نکالنے والے لوگ ہیں ۔ یہاں کی روزانہ بارش خوبصورت آرکڈ کے پھولوں کے لئیے بہت سازگار ہے جن کے گملے ہر جگہ ٹنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔اتنی بارش کے باوجودشہر اانتہائ صاف ۔دھلی دھلائ سڑکیں، ہر طرف سبزہ اور ہاتھیوں کے ہر طرح کے مجسموں کے ساتھ زندہ ہاتھی چہل قدمی کرتے نظر آجاتے ہیں۔ سمندر سے گھرا، سیاحوں کو خوش آمدید کہتا یہ شہر مجھے بےحد پسند آیا۔

لیکن جس چیز سے تکلیف ہوئ۔ وہ ان کی اپنی زبان تھائ سے محبت ہے۔ کسی سپر اسٹور میں چلے جائیں یا مقامی جمعہ بازاروں میں ہر چیز پر تھائ لکھی ہوتی ہے۔ اپنی ضرورت کی چیز چھٹی حس کو استعمال کر کے، چیز کی شکل صورت دیکھ کر، یا کہیں کہیں انگریزی میں لکھے چند الفاظ کی مدد سے ہی خریدی جا سکتی ہے۔ اور پھر بھی شک رہتا ہے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں چاہئیے تھا۔تھائیوں کو فخر ہے کہ وہ کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ اس لئے وہ بغیر انگریزی استعمال کئے ہم سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

اس سفر کے دوران ایک دفعہ ہم ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے مینو پہ کافی تفصیلی غور وخوض کے بعد پائن ایپل رائس آڈر کئے۔ تھائ لینڈ میں ، میں تھائ کھانوں سے اتنا لظف اندوز نہ ہو سکی کیونکہ اب آپ کو حلال اور حرام بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے حلال کھانے آسانی کے ساتھ بوٹنگ کے دوران مل سکتے ہیں کیونکہ سمندر سے منسلکہ کاروبار پہ مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔
خیر، سب لوگوں کا کھانا آگیا۔ مگرمیرے چاول غیر حاضر۔جب سب اپنا ایک تہائ کھانا کھا چکے تو ویٹر میرے پاس آیا ۔ اسکی ٹوٹی پھوٹی تھائ آمیز انگریزی سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کہ رہا کہ فرائیڈ رائس نہیں ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پائن ایپل رائس منگوائے تھے فرائیڈ رائس نہیں۔ اس نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی اور اب کی بار مجھے صرف پائن ایپل کے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اور میں نےاندازے سے اسے او کے کہہ دیا۔ اب پھر انتظار کی گھڑیاں شروع ہوئیں۔ سب لوگ اپنے کھانے کے اختتام پہ پہنچنے والے تھے اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنا آڈر کینسل کروادوں کہ وہ ویٹر ایک بڑی سی ٹرے میں ایک پائن ایپل لے آیا اور لا کر بڑے سلیقے سے میرے سامنے رکھدی۔ میں بالکل حیران ہوگئ تو گویا اتنے انتطار کی کلفت اٹھانے کے بعد مجھے یہ انناس کھانے کو ملے گا۔ اور یہ موصوف شاید مجھ سے فرما رہے تھے کہ چاول تو ہیں نہیں پائن ایپل البتہ موجود ہے۔ میں نے جھنجھلا کر کہا یہ کیا ہے، مجھے کھانا چاہئے۔ اب پھر ایک عجیب سی زبان، جس سے میں نے یہ معنی اخذ کئے کہ آپ نے یہی تو منگوایا تھا۔ میرے ساتھی نے کہا۔ اب آپ اسے اپنےہوٹل لے چلیں اور رستے میں کچھ اور کھا لیجئیے گا۔ 'کیا مطلب میں اس ریسٹورنٹ میں یہ انناس خریدنے آئ تھی اتنا مہنگا انناس۔ میں اسے کہیں نہیں لے جا رہی '۔ پھر میں نے اس ویٹر سے کہاں براہ مہربانی اےسے لے جائیں مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اب وہ کچھ گومگوں حالت میں کھڑا تھا۔ یہ سارا منظر ہمارا تھائ ڈرائیور ذرا فاصلے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا کہ کیا ہوا ہے۔ قصہ مختصر اس کی انگریزی بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن اس ویٹر سے بہتر تھی۔

ان دونوں نے اس موضوع پر تھائ میں تبادلہء خیال کیا کہ ان خاتون کو یعنی مجھے کیا مسئلہ ہے۔ اس تفصیلی گفت و شنید کے بعد ویٹر آگے بڑھا اور اس نے اس انناس کو ہاتھ لگایا۔ انناس کا اوپری حصہ ہٹا اندر اس کے خا لی حصے میں پائن ایپل فرائیڈ رائس بھرے ہوئے تھے۔ اور ان پہ چھ جمبو جھینگے رکھے ہوئے تھے۔میرا منہ کھلا اور پھر بند ہوگیا۔ ویٹر اپنے حصے کی معذرت وصول کرنے کے بعد مسکراتا سینے پہ ہاتھ رکھے رخصت ہو گیا۔ چاول بے حد مزیدار تھے۔ لیکن میں اس دن، سارا دن ان کی مہارت کی داد دیتی رہی اور شرمندہ ہوتی رہی۔ کتنی مہارت سے انناس جیسے مشکل پھل کو کاٹا تھا کہ ذرا نہ پتہ چل رہا تھا کہ یہ کٹا ہوا انناس ہے۔ غالب نےصحیح کہا ہے،

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاءو
جب کچھ بھی نہ ہو تو دھوکا کھائیں کیا

ریفرنس؛

پھوکٹ، تھائ لینڈ

Saturday, June 6, 2009

جو ڈر گیا

ٹرین کے ایک ڈبے میں صرف دو افراد تھے۔ رات اندھیری اور ایک سرنگ بھی قریب آ رہی تھی۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا تم بھوتوں پہ یقین رکھتے ہو۔ اگلے نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور قطعیت سے کہا۔'نہیں'۔ اگلے ہی لمحہ پہلا شخص دھواں بن کر تحلیل ہو گیا۔

لو جی، اب کیا اتنی پرانی کہانیاں نکال کر سنانے لگیں۔ او جی کچھ نیا لاءو۔ ہن یہ چالبازیاں نئیں چلیں گی۔ ٹہرئیے، یہ تو میں چیک کر رہی تھی آپ کو ڈر لگتا ہے یا نہیں۔ میں نے تو آپ کو ڈرانے کی کوشش کی تھی۔ کیا کہاطالبان کے علاوہ کسی سے ڈر نہیں لگتا۔

اچھا چھوڑیں، آپ لوگوں نے کالے جادو کے متعلق تو سنا ہوگا۔ بچپن میں میرا خیال تھا کہ کالا جادو کالے لوگ کرتے ہونگے۔ جہاں بڑے ہو کر اور بہت سی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ وہاں اس بات کی حقیقت میں بھی کوئ سچائ نہ تھی۔ اس جادو کے لئے دل کا کالا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ خیر اب ہمیں کیا پتہ چلے کے کسی کے دل کا کیا رنگ ہے۔ لیکن ہماری پڑوسن کہتیں تھیں ایک کالا جادو بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ مٹی کی چھوٹی سی ہنڈیا میں کچھ تعویذ رکھ کر اور پڑھ کر پھونک دیتے ہیں اور اسے روانہ کردیتے ہیں۔ 'کس سے بس یا ٹرین سے'۔ 'یہ لڑکی بڑی دخل اندازی کرتی ہے۔ چپکے بیٹھی رہو'۔ وہ ایکدم گھرک دیتیں۔'ہاں تو ہوا میں اڑتی ہوئ جاتی ہے اور ٹھیک اسی جگہ پہنچتی ہے جہاں بھیجا جائے۔ اور جب وہاں پہنچ جائے تو جس کے نام پہ بھیجتے ہیں اس کی جان جا کر رہتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے عمل الٹا ہوجائے اور ہنڈیا واپس آجائے تو عمل کرنے والے کی زندگی نہیں رہتی تھی'۔ اب میں چشم تصور سے دیکھتی کہ فضا میں ایک ہنڈیا چلی جا رہی ہے۔ لیکن ہم نے حقیقت میں کبھی نہیں دیکھی۔ پڑوسن کہتی تھیں انہوں نے تو جاتی ہوئ دیکھی۔

اب کیا سچ ہے اور کیا افسانہ۔ آپ کہیں گے یہ کیا کسی عامل کا تعارف کرانے والی ہیں جو ادھر ادھر کی باتیں کئے جارہی ہیں۔بات یہ ہے کہ میں تو خیال کے اس دھاگے کو وزیرستان لے جا رہی ہوں۔ چلیں گے اب آپ کا چہرہ کھل اٹھا۔ اڈرینالن ہائپ؟ اب ہونگیں کچھ جنگ وجدل کی باتیں۔ جی نہیں جناب یہاں تو جنگ کی گھاتیں ہیں۔ چلیں جناب اسی میں تو کراماتیں ہیں۔

تو یہ کرامت امریکن ٹیکنالوجی کے طفیل آئ ہے۔ امریکیوں نے، خدا کی مار ہو ان پہ، ایک ایسا مائکرو چپ بنایا ہے جس کا سائز معمولی سی کنکری کے برابر ہوتا ہے۔ یہ کنکری ڈرون طیارے کے لئے نشانے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور ڈرون میزائل کسی طالبان کے اڈے پہ نہیں دراصل اس کنکری پہ حملہ کرتا ہے۔ امریکن اس کنکری کو جسے مقامی زبان یعنی پشتو میں 'پتھرئ' کہتے ہیں۔ اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے اپنے نشانے تک پہنچا دیتے ہیں۔بلوچستان کے کسی ائر بیس پہ موجود یہ بغیر پائلٹ کے جہاز دراصل اس لیور سے چلتے ہیں جو امریکہ میں لاس ویگاس کے جنوب سے پینتیس میل کے فاصلے پہ موجود ایک آپریٹر گھماتا ہے۔ اور ڈرون میزائل چل پڑتا ہے جہاں اسکے لئے سگنل موجود ہوتا ہے یعنی اس پتھرئ کی طرف۔ پتھرئ کی وجہ سے ڈرون حملے اب پہلے سے بہتر ہو گئے ہیں۔آمریکیوں کے لئے ڈرون حملے خاصے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اور اب ان کا نشانہ بھی خاصہ بہتر ہو گیا ہے۔ اس سال جنوری کے آغاز میں ایک کینیا کا رہنے والا عسکریت پسند مارا گیا جس کے پچھلے سال میریٹ ہوٹل کے دھماکوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔

پچھلے اٹھارہ مہینوں میں امریکہ پچاس سے زائد حملے کر چکا ہے جن میں امریکی دعوی کے مطابق القاعدہ کی اعلی قیادت کے بیس میں سے نو افراد مارے گئے ہیں۔ اس کےعلاوہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۲۰۰۶ سے اب تک تقریباً سات سو لوگ مارے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر بےگناہ ہیں۔
'شہر میں آجکل اسی کا چرچا ہے۔ ہر ایک خوفزدہ ہے کہیں اس کے گھر کے پاس پتھرئ نہ ہو کیونکہ پھر چند گھنٹوں یا دنوں میں ڈرون حملہ یقینی ہے۔'

مقامی لوگوں اور طالبان کے مطابق امریکن سی آئ اے قبائلیوں کو اس پتھرئ کو القاعدہ یا طالبان کے ٹھکانوں تک پہنچانے کے پیسے دے رہی ہے۔پچھلے دنوں طالبان نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں انیس سالہ حبیب الرحن نے کانپتی ہوئ آواز میں اقرار کیا کہ وہ سگریٹ کی پنی میں پتھرئ لپیٹ کر لے جا رہا تھا۔' انہوں نے وعدہ کیا تھا کے ڈرون کے کامیاب حملے کی صورت میں وہ مجھے ہزاروں پاءونڈز دیں گے اور پکڑے جانی کی صورت میں تحفط بھی۔' لیکن طالبان اپنے وعدے کے زیادہ پکے نکلے اور حبیب الرحمن کو ویڈیو کے آخیر میں سر اڑا کرجنت الفردوس پہنچا دیا۔

جنوبی وزیرستان کے مرکزی علاقے وانا میں باہر سے آئے ہوئے عسکریت پسند بازاروں اور دوکانوں میں جانے سے احتراز کرتے ہیں جبکہ مقامی افراد جو پہلے ان کے ساتھ گھلے ملے رہتے تھے اب ان سے دور رہنے لگے ہیں۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے لیکن چیتھڑوں کی صورت مرنے میں دفن ہوتے وقت کافر اور غیر کافر کی تمیز نہیں رہتی۔ شاید اس لئے طالبان کو ڈرون حملے پسند نہیں ہیں۔ رہے عام افراد تو وہ انسانوں کی گنتی میں کہاں ہیں۔

عسکریت پسند اب اس سلسلے میں خاصے محتاط ہیں ان کا خیال ہے کہ پتھرئی افغانستان سے لائ جاتی ہے اور اس لئے بلاوجہ افغانستان جانے والے سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔

کہاں گئے ہمارے عامل جو ہنڈیا میں بند کرکے موت بھیجا کرتے تھے۔ طالبان ان سے کیوں نہیں فائدہ اٹھاتے۔اس کے لئے تو انہیں کوئ ایجنٹ بھی نہیں چاہئیے ہوگا۔ اور مٹی کی ہنڈیا تو پتھرئ کے مقابلے میں خاصی سستی پڑے گی۔ اس طریقے میں بےگناہ لوگوں کے مرنے کا احتمال بھی نہیں۔

ریفرنس؛


پتھرئ ایک مائکرو چپ

http://www.guardian.co.uk/world/2009/may/31/cia-drones-tribesmen-taliban-pakistan

میں گواہی دیتی ہوں

ہمارے ملک میں شادی ہو تو جہاں جہیز، شادی ہال، بیٹی پارلر، کھانا اور مہمان تفصیلات میں آتے ہیں وہاں دولہا اور دلہن کے بعد سب سے اہم شخصیات قاضی صاحب، اور گواہان ہوتے ہیں۔ اب آپ باقی انتظامات کسی ویڈنگ پلانر سے کروا بھی لیں تو بھی کچھ عجیب سے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ مثلاً فلاں رشتےدار کو بلایا جائے یا نہیں۔ کوئ وی آئ پی کیسے شریک ہوگا۔اب یہ خالصتاً آپ کا درد سر ہے۔ اس میں وہ بیچارے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔

اس قحط االرجال میں جو ہمارے شہر میں اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب گھرانوں کے گھرانے دوسری ہجرت پہ روانہ ہو چکے ہیں۔ اور اہل نظر بن چکے ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔ تو جناب وہ تو ایک کے بعد ایک تازہ بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ اور یہاں، پیچھے رہ جانے والوں کو ڈپریشن اور نوسٹیلجیا جیسی چیزیں دے گئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت بڑے یاد آتے ہیں جب خاندان میں کوئ شادی ہونے والی ہو۔ اور اس وقت خاص طور پہ جب شادی کے لئیے گواہ مقرر کئے جا رہے ہوں۔

ایسی ہی ایک تیاری میں میں بھی موجود تھی۔ دلہن کے خاندان کے زیادہ تر لوگ دیار غیر کو کوئے آشنا میں تبدیل کر چکے تھے۔ یہاں اس بد نام شہر میں بس اکا دکا لوگ رہ گئے تھے۔ مسئلہ یہ در پیش تھا کہ ایک وکیل صاحب اور ایک گواہ تو ہو گئے اب دوسرا گواہ لڑکی والوں کی طرف سے کون ہو۔ دوسرا مرد قریبی رشتے داروں میں نہیں مل رہا ۔ اب کیا کریں۔ کیونکہ کوئ قریبی رشتےدار ندارد۔ بھائ خدا نے دیا نہیں۔ والد صاحب واپس لے لئیے۔ اب خدا کے اس لین دین کے بعد، سب اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ میں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ محفل کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے کہا بھئ ایسی کیا بات ہے، اسلام میں عورت بھی گواہ بن سکتی ہے بس کرنا یہ ہو گا کہ ایک مرد کی جگہ دو عورتیں ہوجائیں گی تو عورتیں تو اس وقت خاصی ہیں۔ آپ ان میں سے کسی کو بھی لے لیں ۔ لیکن وہ سناٹا کم نہ ہوا۔ لڑکی کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہائے کیا وقت آگیا کہ ہماری بیٹی کو دو مرد گواہوں کی کمی پڑ گئ۔ اب اس خاندان کے مردوں کے تذکروں کے اوراق کھل گئے۔ نتیجتاْ پڑوس کے ایک صاحب سے درخواست کی گئ کہ وہ گواہ بن جائیں۔ بظاہر تو معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دل میں اک پھانس چبھی رہ گئ۔ دل بھی کیا چیز ہے----

میں نے اپنے جاننے والون میں ان لوگوں سے جو مذہب کا خاصا علم رکھتے ہیں ان سے معلوم کیا خود اپنے طور پہ تحقیق کی۔ کیا شادی عورتوں کی گواہی سے منعقد نہیں ہو سکتی؟ تو مذہبی کتا بیں کوئ ایسی جانبداری نہیں دکھاتیں۔ جو بات میں سمجھ رہی تھی وہ ٹھیک تھی۔ نہ صرف یہ کہ عورت گواہ بن سکتی ہے بلکہ وہ نکاح کو منعقد بھی کرا سکتی ہے۔ اگر قاضی صاحب نکاح پڑھانے کے لئے میسر نہ ہوں تو ان کے خطبہء نکاح کے بغیر بھی شادی ہوجاتی ہے۔ نکاح کی بنیادی ضرورت گواہ ہیں۔ اور چونکہ ہر معاہدے کو لکھ لینا چاہئے اس لئیے شادی کے معاہدے کو بھی لکھ لینا چاہئیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ مروجہ قانون کے مطابق اس کی رجسٹریشن اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قانونی حقوق و فرائض سے آگاہ ہوجائیں جو اس رشتے میں بندھنے کے بعد ریاست آپ پہ لاگو کرتی ہے۔

پھر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیوں میری بات پہ ایسا بلک کر روئیں۔ عورتیں کیوں اپنے آپ کو اتنا کمتر اور گرا ہوا سمجھتی ہیں۔ اور وہ کب اس احسا س کمتری سے باہر آئیں گی۔ آپ کو معلوم ہے اس کے بعد میں نے لاتعداد لوگوں سے پتہ کیا اور کسی ایک کی شادی میں کوئ خاتون گواہ نہ تھی۔ وہ لوگ جو مسلمان عورت کی آدھی گواہی پہ ناک چڑھاتے رہتے ہیں انہیں علم ہو کہ مذہب کی دی ہوئ یہ آدھی گواہی کا حق جو کہ کچھ صورتوں میں پوری گواہی کے برابر بھی ہوتا ہے اسے بھی ہم اپنے سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی دباءو کی وجہ سے نہیں استعمال کرتے۔ البتہ ہماری زبانیں سارا سارا دن اللہ کی تذکیر و تہلیل اور اپنے مذہب کی فضیلت گنواتے ہوئے گذارتی ہیں۔

میں نکاح کی اس تقریب میں مرد گواہوں کو دستخط کرتے ہوئے دیکھتی ہوں اوراپنے آپ سے عہد کرتی ہوں کہ میرے بچوں کی شادی میں خدا نے اگر مجھے اور انہیں زندگی دی تو ضرور دو عورتیں گواہ ہونگیں ۔ ہم اگر تبدیلی کے لئے کسی کو مجبور نہیں کرسکتے تو ہم خود تبدیلی کا نشان بن سکتے ہیں یہ زیادہ واضح اور مضبوط نشان ہوگا۔

تو میری بیٹی تمہارے بڑے ہونے تک مجھے اس لئے بھی زندہ رہنا ہوگا۔ تم نے میری زندگی کو کتنے معنی دئیے ہیں۔ خدا تمہیں لمبی اور مطمئن حیات دے اور میں تمہارے نام سے جانی جاءوں۔

اسلامی شادی کے اصول

پاکستان شادی سے متعلق قوانین

Thursday, June 4, 2009

مدد محمد بن قاسم مدد

پہلی گولی میں تینوں ایس لیے ماراں گا کہ توں میری بھین دا دوپٹہ کھنچیاں سیں---- آگے کی

گولیوں کی وجوہات مجھے یاد نہیں. ہو سکتا ہے کہ اس جملے میں پنجابی گرامر کی غلطیاں بھی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پنجابی دوستوں نے مجھ پہ کبھی پنجابی سیکھنے کے لئے دباءو نہیں ڈالا۔ میں ان کی گنگناتی ہوئ اردو میں چاہے جتنی خامیاں نکالوں، وہ میری اردو نما پنجابی سے خوش رہتے تھے۔ خدا انہیں اور خوش رکھے۔
لیکن ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ ہیرو کی غیرت جگانی ہو یا پاکستانیوں میں جذبہ پیدا کرنا ہو جب تک عورتون کی عزت اور ان کے دوپٹوں کا تذکرہ نہ ہو ایسا کرنا ممکن نہیں۔ یہ اوپر تھا کسی پنجابی فلم کا ڈائیلاگ جو میں نے لکھنے کی کوشش کی۔ لیکن اب جناب یہ ایک مضمون ہے جو زید حامد صاحب کے کسی ٹی وی پروگرام کو نثری شکل دینے پہ وجود میں آیا ہے۔
ان کی ویب سے حاصل کی گئ اطلاعات کے مطابق وہ بنیادی طور پہ ایک دفاعی مبصر اور تجزیہ کار ہیں۔ میرا ان سے تعارف بس اتفاقیہ طور پہ ہوا۔ اس کے لئے آزاد میڈیا کا شکریہ جو مشرف کی مہربانی سے ہمیں ملا۔ اب کچھ لوگ مجھے دیسی گالیوں سے نوازیں گے۔ گالیوں پہ مجھے کچھ شعر آتے ہیں جیسے غالب کا یہ شعر

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کہ بے مزہ نہ ہوا

میں باقاعدہ ٹی وی دیکھنے والوں میں سے نہیں۔ لیکن گھر میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اگر ٹی وی نہ دیکھیں تو دل جلانے کے لئیے کوئ واضح بہانہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے میں خاصی باخبر رہتی ہوں۔

تو ہوا یوں کہ ایک دن ایسے ہی ٹی وی لاءونج سے گذرتے ہوئے ایک صاحب کی تیز جذباتی انداز میں بولنے کی آواز آئ۔ میں نے یونہی اسکرین پہ نظر ڈالی یہ کون ہیں جو جماعتیوں کے انداز میں بول رہا ہے۔ خیر ان سے معزرت کے ساتھ کہ میں نے ان کا ناطہ اپنی کم علمی کی بناء پہ جماعت اسلامی سے جوڑا۔ اس وقت ان کا موضوع دنیا کو درپیش حالیہ معاشی صورتحال تھی۔ تو بس پھر میں انہیں سننے بیٹھ گئ۔ کافی سیر حاسل بات چیت تھی۔مزہ آیا۔

کچھ دنوں بعد کسی نے مجھے ان کا مضمون 'پاکستان ایک عشق ایک یقین' کا لنک بھیجا۔ اپنی دیگر مصروفیات کی بناء پر میں اسے اس وقت نہ پڑھ سکی۔ اب جو کچھ فارغ لمحات میسر آئے تو میں نے اس مضمون کو پڑھا۔ اور جیسے ایکدم پنجابی فلموں کی یاد تازہ ہو گئ۔

اس مضمون کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے مہاجرین کی قربانیوں کو سراہا ہے اور اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ ان مہاجرین کی بے غرضی اور بے انتہا قربانیوں کا نتیجہ ہے جو آج ہم اس مملکت خداد میں ایکدوسرے کو آرام سے بیٹھ کر طعنے تشنیع دیتے ہیں اور وہ ہتھیار جو متحدہ ہندوستان میں ہندءووں کے خلاف استعمال کرتے انہیں ایکدوسرے کے خلاف آزادانہ طور پہ استعمال کرنے میں نہیں جھجھکتے۔ وہ الفاط جس سے ہمارے دشمن کے دلوں میں سوراخ ہوجائیں ان سے اپنے ہم وطنوں کے سینوں کو ڈرل کرتے رہتے ہیں۔تو ان مہاجرین کے ایثار کو پہچاننے کا شکریہ۔ شکریہ زید حامد صاحب۔

دوسری طرف مجھے اس بات پہ ہنسی آئ کہ اس مضمون کا ایک تہائ سے زائد حصہ پاکستانیوں کی غیرت کو للکار رہا ہے کہ بے غیرتوں ان ہندءووں نے تمہاری عورتوں کے ساتھ یہ کیا، ان کے سروں سے دوپٹے چھینے ان کی عزتیں پائمال کیں، انہیں اپنے گھر کی باندیاں بنا کر رکھا مگر پھر بھی تم ان کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔ اب تو اٹھو۔ اور کہو پہلا بم میں تینوں اس لئے ماراں گا کہ توں میری بھین دا دوپٹہ کھنچیاں سیں------------------- دھائیں۔

متحدہ ہندوستان کے اندر جس میں موجودہ پاکستان بھی شامل ہے ۔ عزتیں لٹنے اور دوپٹوں کے کھینچنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا جس کے نتیجے میں لوگوں کا ایک سیلاب اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اور پاکستان وجود میں آیا۔ لیکن اس میں اتنی سنسنی نہیں کہ وہ غیرت کو جگا سکے۔

پھر اسکے بعد انہوں نے موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا ہے اور اس میں انہوں نے ایکدفعہ پھر زور دیا مسلمان عورتوں کی عزتوں کا۔ کسطرح وہاں مسلمان اپنی بیٹیوں کی شادیاں ہندءووں سے کرنے پہ مجبور ہیں اور ایکدفعہ پھر وہ جیسے کہتے ہیں کہ اے بے غیرت پاکستانیوں ااب بھی تمہیں شرم نہ آئ تو کب آئیگی۔ تمہاری مسلمان بہنیں ہندءووں سے شادیاں کر رہی ہیں۔ یہاں میں ان سے تعظیماً ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ ایسا تو وہاں موجود مسلمان لڑکے یعنی مسلمان مرد بھی کر رہے ہیں یعنی ہندو عورتوں سے شادی کر رہے ہیں۔ آخر انہوں نے ان مسلمان مردوں کی غیرت کو کیوں نہیں للکارا۔

خیر جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور عورتیں اور بچےجسمانی طور پہ اور سماجی طور پہ کمزور ہونے کی وجہ جنگ کو زیادہ جھیلتے ہیں۔ اور انکے وجود کو بس اسی طرح کے مقاصد کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اچھا اب اسی بات پہ آگے سوچتی ہوں ۔ قیام پاکستان کے بعدکئ ایسے واقعات حدود پاکستان کے اندر ہوئے جن میں عورتوں کو برہنہ کر کے سر بازار پھرایا گیا، اسی پاکستان میں سالانہ نجانے کتنی عورتوں کے ساتھ گینگ ریپ ہوتا ہے۔ کتنی عورتیں ویسےہی مردوں کی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ عورتوں کی ایک بڑی تعداد جاگیرداروں، وڈیروں سرداروں اور دوسرے مردوں کے تصرف میں بغیر کسی مذہبی، سماجی یا قانونی حیثیت کے ساتھ رہنے پہ مجبور ہے۔ ان عورتوں کو زبان کے مزے کے لئیے یا یا نفس کی تسکین کے لئیے کوئ بھی نام دیدیں ۔ ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لئیے خدا جانے کتنی عورتیں کاروکاری اور اسی قماش کے مظالم کا شکار ہوتی ہیں۔ زندہ عورتوں کو سبق سکھانے کے لئے ان پہ شکاری کتے چھوڑ دئیے جاتے ہیں ان کے چہروں پہ تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ اور اسی پہ بس نہیں اسلام کا نام لیکر اسی عورت کو سر عام چار مرد اپنی ٹانگّوں میں دبا کر کوڑے بھی لگاتے ہیں۔ یہاں میں ان بنگالی خواتین کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتی جو بنگلہ دیش بننے سے پہلے اپنے ہم مذہب لوگوں کی ظلم زیادتی کا شکار ہوئیں اور جن کا تذکرہ حمود الرحان رپورٹ میں بھی ہے۔ زید حامد صاحب کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ سارے مظالم پاکستانی عورتوں پہ کسی غیر مسلم مرد نے نہیں مسلم مرد نے کئے اور کرتا ہے۔

اب میں ان سے یہ پوچھنا چاہونگی کہ اگر ایک غیر مسلم مرد مسلمان عورت کے ساتھ یہ کرتا ہے تو اس کے خلاف جہاد کرنا چاہئیے اور اس کی نسلوں کو سبق سکھا دینا چاہئے کہ تو نے ہماری عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو تیری آنکھیں نکال کر ان میں بم رکھ دیں گے۔ لیکن اگر ایک مسلمان مرد یہ کرتا ہے تو کیا کرنا چاہئیے۔

میں ایک عورت ہونے کے ناطے یہ سوچ سکتی ہوں کہ اگر عورت کے ساتھ یہ زیادتی کوئ غیر مسلم مرد کرے یا مسلم مرد۔ وہ ان دونوں سے ایک جیسی نفرت کرے گی۔ نفسیات کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلم مرد سے زیادہ کرے گی۔

اگر آپ مسلم عورت کی پکار پہ محمد بن قاسم بننے کے لئیے تیار ہیں جس کا حوالہ اس مضمون میں موجود ہے تو آپ سب سے پہلے کس کے خلاف جہاد کریں گے۔ غیر مسلم مرد سے یا مسلم مرد سے۔ میں آپ کا جواب جاننا چاہتی ہوں۔ جناب محمد بن قاسم ----- ؛



حمودالرحمن رپورٹ
محمد بن قاسم
محمد بن قاسم حالات زندگی

زید حامد کامضمون دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں

Wednesday, June 3, 2009

صلائے عام

آپ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کی فیس آپ کے لئے ایک مسئلہ ہے تو میں آپ کو مایوس نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہیں لوگ وہی اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے آپ کی مشکل آسان کرنے کے لئے ایک آن لائن یونیورسٹی قائم کی ہے ان کا دعوی ہے کہ آپ کو معمولی رجسٹریشن فیس جو کہ صرف پندرہ ڈالر ہے اس کے علاوہ کچھ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا فوراً اس لنک پہ جائیے۔ کام کی ہے تو دیگر لوگوں کو بھی بتائیے اور خود کام کے انسان بن جائیں۔کسی کام کی نہیں تو اقوام متحدہ والوں کو برا بھلا کہئیے۔ اور مجھے بھول جائیے گا۔


http://www.uopeople.org/Default.aspx