Thursday, June 4, 2009

مدد محمد بن قاسم مدد

پہلی گولی میں تینوں ایس لیے ماراں گا کہ توں میری بھین دا دوپٹہ کھنچیاں سیں---- آگے کی

گولیوں کی وجوہات مجھے یاد نہیں. ہو سکتا ہے کہ اس جملے میں پنجابی گرامر کی غلطیاں بھی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پنجابی دوستوں نے مجھ پہ کبھی پنجابی سیکھنے کے لئے دباءو نہیں ڈالا۔ میں ان کی گنگناتی ہوئ اردو میں چاہے جتنی خامیاں نکالوں، وہ میری اردو نما پنجابی سے خوش رہتے تھے۔ خدا انہیں اور خوش رکھے۔
لیکن ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ ہیرو کی غیرت جگانی ہو یا پاکستانیوں میں جذبہ پیدا کرنا ہو جب تک عورتون کی عزت اور ان کے دوپٹوں کا تذکرہ نہ ہو ایسا کرنا ممکن نہیں۔ یہ اوپر تھا کسی پنجابی فلم کا ڈائیلاگ جو میں نے لکھنے کی کوشش کی۔ لیکن اب جناب یہ ایک مضمون ہے جو زید حامد صاحب کے کسی ٹی وی پروگرام کو نثری شکل دینے پہ وجود میں آیا ہے۔
ان کی ویب سے حاصل کی گئ اطلاعات کے مطابق وہ بنیادی طور پہ ایک دفاعی مبصر اور تجزیہ کار ہیں۔ میرا ان سے تعارف بس اتفاقیہ طور پہ ہوا۔ اس کے لئے آزاد میڈیا کا شکریہ جو مشرف کی مہربانی سے ہمیں ملا۔ اب کچھ لوگ مجھے دیسی گالیوں سے نوازیں گے۔ گالیوں پہ مجھے کچھ شعر آتے ہیں جیسے غالب کا یہ شعر

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کہ بے مزہ نہ ہوا

میں باقاعدہ ٹی وی دیکھنے والوں میں سے نہیں۔ لیکن گھر میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اگر ٹی وی نہ دیکھیں تو دل جلانے کے لئیے کوئ واضح بہانہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے میں خاصی باخبر رہتی ہوں۔

تو ہوا یوں کہ ایک دن ایسے ہی ٹی وی لاءونج سے گذرتے ہوئے ایک صاحب کی تیز جذباتی انداز میں بولنے کی آواز آئ۔ میں نے یونہی اسکرین پہ نظر ڈالی یہ کون ہیں جو جماعتیوں کے انداز میں بول رہا ہے۔ خیر ان سے معزرت کے ساتھ کہ میں نے ان کا ناطہ اپنی کم علمی کی بناء پہ جماعت اسلامی سے جوڑا۔ اس وقت ان کا موضوع دنیا کو درپیش حالیہ معاشی صورتحال تھی۔ تو بس پھر میں انہیں سننے بیٹھ گئ۔ کافی سیر حاسل بات چیت تھی۔مزہ آیا۔

کچھ دنوں بعد کسی نے مجھے ان کا مضمون 'پاکستان ایک عشق ایک یقین' کا لنک بھیجا۔ اپنی دیگر مصروفیات کی بناء پر میں اسے اس وقت نہ پڑھ سکی۔ اب جو کچھ فارغ لمحات میسر آئے تو میں نے اس مضمون کو پڑھا۔ اور جیسے ایکدم پنجابی فلموں کی یاد تازہ ہو گئ۔

اس مضمون کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے مہاجرین کی قربانیوں کو سراہا ہے اور اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ ان مہاجرین کی بے غرضی اور بے انتہا قربانیوں کا نتیجہ ہے جو آج ہم اس مملکت خداد میں ایکدوسرے کو آرام سے بیٹھ کر طعنے تشنیع دیتے ہیں اور وہ ہتھیار جو متحدہ ہندوستان میں ہندءووں کے خلاف استعمال کرتے انہیں ایکدوسرے کے خلاف آزادانہ طور پہ استعمال کرنے میں نہیں جھجھکتے۔ وہ الفاط جس سے ہمارے دشمن کے دلوں میں سوراخ ہوجائیں ان سے اپنے ہم وطنوں کے سینوں کو ڈرل کرتے رہتے ہیں۔تو ان مہاجرین کے ایثار کو پہچاننے کا شکریہ۔ شکریہ زید حامد صاحب۔

دوسری طرف مجھے اس بات پہ ہنسی آئ کہ اس مضمون کا ایک تہائ سے زائد حصہ پاکستانیوں کی غیرت کو للکار رہا ہے کہ بے غیرتوں ان ہندءووں نے تمہاری عورتوں کے ساتھ یہ کیا، ان کے سروں سے دوپٹے چھینے ان کی عزتیں پائمال کیں، انہیں اپنے گھر کی باندیاں بنا کر رکھا مگر پھر بھی تم ان کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔ اب تو اٹھو۔ اور کہو پہلا بم میں تینوں اس لئے ماراں گا کہ توں میری بھین دا دوپٹہ کھنچیاں سیں------------------- دھائیں۔

متحدہ ہندوستان کے اندر جس میں موجودہ پاکستان بھی شامل ہے ۔ عزتیں لٹنے اور دوپٹوں کے کھینچنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا جس کے نتیجے میں لوگوں کا ایک سیلاب اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اور پاکستان وجود میں آیا۔ لیکن اس میں اتنی سنسنی نہیں کہ وہ غیرت کو جگا سکے۔

پھر اسکے بعد انہوں نے موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا ہے اور اس میں انہوں نے ایکدفعہ پھر زور دیا مسلمان عورتوں کی عزتوں کا۔ کسطرح وہاں مسلمان اپنی بیٹیوں کی شادیاں ہندءووں سے کرنے پہ مجبور ہیں اور ایکدفعہ پھر وہ جیسے کہتے ہیں کہ اے بے غیرت پاکستانیوں ااب بھی تمہیں شرم نہ آئ تو کب آئیگی۔ تمہاری مسلمان بہنیں ہندءووں سے شادیاں کر رہی ہیں۔ یہاں میں ان سے تعظیماً ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ ایسا تو وہاں موجود مسلمان لڑکے یعنی مسلمان مرد بھی کر رہے ہیں یعنی ہندو عورتوں سے شادی کر رہے ہیں۔ آخر انہوں نے ان مسلمان مردوں کی غیرت کو کیوں نہیں للکارا۔

خیر جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور عورتیں اور بچےجسمانی طور پہ اور سماجی طور پہ کمزور ہونے کی وجہ جنگ کو زیادہ جھیلتے ہیں۔ اور انکے وجود کو بس اسی طرح کے مقاصد کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اچھا اب اسی بات پہ آگے سوچتی ہوں ۔ قیام پاکستان کے بعدکئ ایسے واقعات حدود پاکستان کے اندر ہوئے جن میں عورتوں کو برہنہ کر کے سر بازار پھرایا گیا، اسی پاکستان میں سالانہ نجانے کتنی عورتوں کے ساتھ گینگ ریپ ہوتا ہے۔ کتنی عورتیں ویسےہی مردوں کی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ عورتوں کی ایک بڑی تعداد جاگیرداروں، وڈیروں سرداروں اور دوسرے مردوں کے تصرف میں بغیر کسی مذہبی، سماجی یا قانونی حیثیت کے ساتھ رہنے پہ مجبور ہے۔ ان عورتوں کو زبان کے مزے کے لئیے یا یا نفس کی تسکین کے لئیے کوئ بھی نام دیدیں ۔ ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لئیے خدا جانے کتنی عورتیں کاروکاری اور اسی قماش کے مظالم کا شکار ہوتی ہیں۔ زندہ عورتوں کو سبق سکھانے کے لئے ان پہ شکاری کتے چھوڑ دئیے جاتے ہیں ان کے چہروں پہ تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ اور اسی پہ بس نہیں اسلام کا نام لیکر اسی عورت کو سر عام چار مرد اپنی ٹانگّوں میں دبا کر کوڑے بھی لگاتے ہیں۔ یہاں میں ان بنگالی خواتین کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتی جو بنگلہ دیش بننے سے پہلے اپنے ہم مذہب لوگوں کی ظلم زیادتی کا شکار ہوئیں اور جن کا تذکرہ حمود الرحان رپورٹ میں بھی ہے۔ زید حامد صاحب کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ سارے مظالم پاکستانی عورتوں پہ کسی غیر مسلم مرد نے نہیں مسلم مرد نے کئے اور کرتا ہے۔

اب میں ان سے یہ پوچھنا چاہونگی کہ اگر ایک غیر مسلم مرد مسلمان عورت کے ساتھ یہ کرتا ہے تو اس کے خلاف جہاد کرنا چاہئیے اور اس کی نسلوں کو سبق سکھا دینا چاہئے کہ تو نے ہماری عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو تیری آنکھیں نکال کر ان میں بم رکھ دیں گے۔ لیکن اگر ایک مسلمان مرد یہ کرتا ہے تو کیا کرنا چاہئیے۔

میں ایک عورت ہونے کے ناطے یہ سوچ سکتی ہوں کہ اگر عورت کے ساتھ یہ زیادتی کوئ غیر مسلم مرد کرے یا مسلم مرد۔ وہ ان دونوں سے ایک جیسی نفرت کرے گی۔ نفسیات کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلم مرد سے زیادہ کرے گی۔

اگر آپ مسلم عورت کی پکار پہ محمد بن قاسم بننے کے لئیے تیار ہیں جس کا حوالہ اس مضمون میں موجود ہے تو آپ سب سے پہلے کس کے خلاف جہاد کریں گے۔ غیر مسلم مرد سے یا مسلم مرد سے۔ میں آپ کا جواب جاننا چاہتی ہوں۔ جناب محمد بن قاسم ----- ؛



حمودالرحمن رپورٹ
محمد بن قاسم
محمد بن قاسم حالات زندگی

زید حامد کامضمون دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں

6 comments:

  1. انیقہ بی بی شکر ہے کہ یہ مسلہ حل ہوگیا غالبایہ گڑ بڑ میرے کمپیوٹر کی ہی تھی،سب سے پہلے تو اس بہترین تحریر پر دلی مبارک باد، پٹھے چک دیئے ہیں آپ نے تو :grin:
    ارے آپ اب بھی گالیوں سے ڈرتی ہیں 62 سال میں تو آپ کو عادی ہوجانا چاہیئے تھا،آپنے سنا نہیں سچ بولنے والوں کے حصے میں ہمیشہ پتھر ہی آتے ہیں،اور یہی ان کی سچائی کی دلیل ہوتی ہے اسی لیئے تو انہیں پاگل دیوانہ کہا جاتا ہے بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ،کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
    Abdullah

    ReplyDelete
  2. یہ جملہ معترضہ میں نے اس لئیے ڈالا ہے کہ لوگوں کو خبر رہے کہ میں صرف اپنے ذہن سے نہیں انکے ذہن سے بھی سوچ سکتی ہوں۔ آخر میں انکے پیدا کئے ہوئے سماج کا ایک حصہ ہوں اور اس خطہء خاک کے لئے نئ نہیں۔
    مبارک ہو آپ کا سسٹم صحیح ہو گیا۔

    ReplyDelete
  3. یہ کچھ جذباتی قسم کی بلیک میلنگ ہوتی ہے :) تاکہ لوگوں کو اپنے ‍گرد جمع کیا جا سکے۔ امت کا حقیقی درد رکھنے والے کبھی بھی جذباتیت سے کام نہیں لیں گے بلکہ ہمیشہ صبر و تحمل سے معاملات کو آگے بڑھانے کا درس دیں گے۔
    میرے خیال میں تو اگر کوئی مسلمان اس فعلِ قبیح کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے زیادہ سخت سزا دینی چاہیے۔

    ReplyDelete
  4. حیرت ہے کہ جو لوگ مذہب اور غیرت کے نام پہ بلیک میل کرتے ہیں ان کو تو آپ شہد سمجھ کر چھوڑتے نہیں۔ ایسا کیا ہے سر، کبھی خدا کے لئے اس پس منظر سے نکل کر بھی دیکھیں یا ہر وقت اپنے اور اپنے محبوبوں کے علوہ دوسروں پہ شک ہی کرتے رہیں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے صبر کرنے کے لئے ساٹھ سال کافی نہیں ہیں۔اور آپنے خیال کی آپ نے خوب کہی ذرا مجھے اس بلیک میلر کو آپ ان لوگوں کے ناموں کی کوئ مستند لسٹ فراہم کر سکتے ہیں جنہیں ان جرائم پہ سزا دی گئ ہو۔ عالم تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کا نام لیتے ہوئے آپ کی زبان رک جائے گی۔ مشرف جیسے بزعم خود لبرل، روشن خیال حکمران تو انہیں پکڑ کر سامنے لا نہ سکے ۔ وہ لوگ ضرور ایسا کریں گے جو یہ سوچتے ہیں کیا پاکیستان میں ایسا کچھ ہوتا ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا اور مزید یہ کہ
    خدا تجھے کسی طوفاں سے ہمکنار کرے
    کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

    ReplyDelete
  5. ارے محترمہ لگتا ہے آپ بات کو الٹا سمجھی ہیں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ زید حامد جیسے لوگ جب بار بار اس طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں تو دراصل وہ نوجوانوں کو جذباتی کر کے اپنے گرد جمع کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی میں نے وضاحت کر دی کہ جو اصل لوگ ہیں وہ کبھی جذبات کو نہیں استعمال کرتے بلکہ صبر و تحمل اختیار کرنے کا درس دیتے ہیں۔ میرے خیال میں آپ میرے جملوں سے مدعا نہیں سمجھ پائیں۔
    امید ہے اب بات واضح ہو گئی ہوگی۔
    ویسے اگر آپ ایسے ہی بلاگ قارئین پر جرح کرتی رہیں تو مجھے لگتا ہے کہ یہاں آنے والوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی (مذاق) ۔

    ReplyDelete
  6. جی آپ صحیح سمجھے میں نے غلط سمجھا تھا ۔ مجھے خوشی ہوئ کہ کچھ لوگ ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔
    مذاق بر طرف ،
    آپ تو ابھی تک آ رہے ہیں۔۔ ہی ہی

    کچھ غالب نے بھی دماغ خراب کیا ہوا ہے۔کہتے ہیں
    ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاءّو وہ بے وفا سہی
    جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں
    یہ غالب ہر بات میں ٹانگ کیوں اڑاتے ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ