Sunday, January 30, 2011

انصاف کا راستہ

تین پاکستانی شہریوں کو پاکستان کے ایک بڑے شہر لاہور میں دن دھاڑے موت کی نیند سلا دینے والے امریکی شہریوں کو امریکہ نے اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس پورے واقعے میں عینی شاہدین کے بیانات اور مرنے والوں کے خاندان والوں، امریکی سفارتخانے سے تعلق رکھنے والوں کے بیانات سے مختلف ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل سوار ڈاکو تھے جبکہ دیگرشواہد اس بات کے حق میں نہیں جاتے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ قانون کو اسکا کام کرنے دیا جائے۔ واقعے کی تحقیق ہو، امریکی  ملزم شہری اس الزام سے اپنی بریت ثابت کر لیں تو رہائ پائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو قرار واقعی سزا۔
ہمیں یقین ہے کہ جرم ثابت ہونے پہ پاکستانی عدالت زیادہ سے زیادہ انہیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے یا بہت ہمت کر کے کوئ انقلابی فیصلہ کر لے تو سزائے موت، مگر چھیاسی سال کی قید نہیں۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر امریکن کوشش کریں اور پاکستانی طریقے استعمال کریں تو ملزموں کا بری ہونا بھی کوئ ایسا مشکل نہیں۔ پھر یہ حوالگی والی بات خاصی غیر انسانی لگتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے آپکو بے گناہ ثابت کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پائے تو اسے اپنی سزا کا سامنا کرنا چاہئیے۔ امریکی حکومت کو صدر باراک اوبامہ کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جس میں انہوں نے کہا کہ

اس دنیا میں بہت دکھ، درد، بدی اور شر موجود ہے۔ لیکن ہمیں نیک نیت اور منکسر المزاج ہو کر یہ یقین رکھنا چاہئیے کہ ہم دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلا سکتے ہیں۔

لوگوں کو اس انصاف تک پہنچنے سے روکنا جس سے انکو ذہنی و روحانی اطمینان اور تسلی ہو کہ انکے ساتھ انصاف کیا گیا ، بدی کی ہی ضمن میں آتا ہے۔  اوبامہ حکومت کو پتہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں نہ صرف انکی نیک نیتی اور منکسر المزاجی پہ شک ہے بلکہ انکے اس قسم کے مطالبات سے ہمیں اس پہ بھی شک ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلانا چاہتے ہیں یا اس میں شیر کا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

Friday, January 28, 2011

انقلاب اے انقلاب

تیونس سے بھڑکنے والی آگ کے شعلے مصر تک جا پہنچے۔  تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے مشتعل عوام سے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لی۔ فرانس نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔  ادھر مصر میں ہزاروں لوگوں نے حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیکر ناراضگی کا جمعہ منایا۔ یوں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی ہجوم سے نبرد آزما صدر حسنی مبارک نے کرفیو کا نفاذ کر دیا۔
لوگوں کو اس احتجاج کے لئے جمع کرنے میں جدید ٹیکنالوجی نے بڑا حصہ لیا۔ پچھلے دو دنوں میں انٹر نیٹ سرگرمی مصر میں اتنی زیادہ رہی کہ حکومت نے انٹرنیٹ پہ پابندی لگا دی۔ اس سے پہلے سے متائثرکاروباری حلقے کو سخت نقصان پہنچا۔

  دونوں ملکوں میں جو قدر مشترک ہے وہ آمریت کا ایک طویل عرصے تک اقتدار پہ قابض رہنا اور اسے قائم رکھنے کے لئے اپنی قوم کو ہر طرح کے دباءو میں رکھنا،  بد ترین معاشی حالات اور ایک ہی ملک کے اندر مختلف طبقات کے اندر غیر متوازن فرق۔ عوام کو جاہل رکھا جا سکتا ہے مگر بھوکا نہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ عمل یمن اور اردن میں بھی دوہرائے جانے کا امکان ہے اور جلد یا بدیر سعودی عرب بھی اسکی لپیٹ میں آئے گا۔  یوں عرب دنیا ایک بڑی تبدیلی سے دوچار ہونے جا رہی ہے۔  طویل شخصی حکومتوں کے عادی نظام کس نئ سمت میں جائیں گے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

ان انقلابات کو دیکھ کر پاکستان میں کچھ لوگوں نے یہ امید لگائ ہے کہ شاید ہم بھی ایسے ہی کسی انقلاب کی طرف گامزن  ہونے والے ہوں۔ لیکن کیا عوام کسی انقلاب کی طرف جانے کو تیار ہیں۔  آئیے دیکھتے ہیں یہ ویڈیو۔

Wednesday, January 26, 2011

مرض، مریض اور مسیحا-۲


ابھی چند دن پہلے عرصہ ء پانچ سال کے بعد مجھے اس ہسپتال میں جانے کا دوبارہ اتفاق ہوا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئ کہ ہسپتال اسی طرح صاف ستھرا تھا جس طرح چارسال پہلے جبکہ یہ اپنی تعمیر کے ابتدائ مراحل میں تھا۔

جتنی دیر  ہم موجود رہے انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ چار خواتین کا آپریشن کیا۔ ایک کا پہلے ہو چکا تھا۔ اور اس دوران  مختلف کام بھی نبٹاتے رہے۔

ہسپتال میں محض فسچولا کا علاج ہی نہیں ہوتا بلکہ عورتوں کے جملہ امراض کا علاج بھی کیا جاتا ہے جن میں  حمل ، زچگی، ،سن یاس اور بانجھ پن شامل ہیں۔
شاید اسی لئے اسکا نام 'عورتوں کا ہسپتال' رکھا گیا ہے۔



علاج کی غرض سے آنے والی خواتین کا علاج مفت کیا جاتا ہے ۔ صرف مریض ہی نہیں بلکہ تیماردار کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ یوں یہاں ایک کینٹین بھی ہے جہاں سے ہسپتال کا عملہ ہی نہیں ڈاکٹر صاحبان بھی وہی کھانا کھاتے ہیں۔

فسچولا کے مریضوں کے لئے ایک علیحدہ وارڈ ہے
یہاں  مڈوائفری کا کورس کرانے کے انتظامات بھی ہیں اور نرسنگ کی تربیت کا بھی انتظام بھی۔ یوں مقامی گوٹھوں کی بلوچ لڑکیوں کو کافی تعداد میں اس میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ ان تربیتی کورسوں کے علاوہ مقامی گوٹھ کی دلچسپی رکھنے والی خواتین کی مفت ابتدائ تعلیم کے لئے بھی ایک گوشہ مختص کیا گیا ہے جسے سندھ ایجوکیشن فاءونڈیشن چلا رہا ہے۔

سندھ ایجوکیشن فاءونڈیشن کی استاد اپنے کمرہ ء جماعت میں
  
بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا پارک










اگر آپ کے نزدیک کوئ خاتون محض  پیسوں کی وجہ سے علاج کرانے سے ہچکچاتی ہیں تو انہیں اس ہسپتال کا پتہ ضرور دیجئیے۔ ہسپتال مختلف ڈونیشنز سے چلتا ہے اگر آپ بھی دینا چاہیں تو اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ایک پسماندہ ملک کی پسماندہ خواتین کے لئے یہ ہسپتال ترقی کی ایک علامت ہے۔ مزید معلومات کے لئے یہ ویڈیو دیکھئیے۔

ہسپتال کے مختلف حصوں سے گذرتے ہوئے میری نظر ایک زمین کے نیچے جاتے ہوئے راستے پہ پڑی۔ بتایا گیا کہ اس کا نام ہم نے مصطفی کمال بائ پاس رکھا ہے۔ کیونکہ مصطفی کمال اتنی تیزی سے بائ پاس بنوا رہے تھے جس زمانے میں ہمیں اسے بنانا پڑا۔ مگر ضرورت کیا پڑی تھی اسے بنانے کی؟ دراصل مقامی گوٹھ کے لوگوں نے  اعتراض کیا تھا کہ اس ہسپتال کی وجہ سے گوٹھ کے اندر چلنا انکے لئے مشکل ہو گیا ہے۔ اس لئے ہسپتال کی زمین میں سے انہیں راستہ دینا پڑا۔ یوں دو ٹکڑے ہونے کے بعد دوسرے ٹکڑے سے رابط کے لئے یہ بائ پاس بنانا پڑا۔

ہمم، یہ دلوں کے درمیان بائ پاس بنانے سے پہلے زمین میں بھی بائ پاس بنانا پڑتے ہیں۔ 
:)

مرض، مریض اور مسیحا-۱

گل بانو، بلوچستان کے دور افتادہ گاءوں کی رہنے والی  لڑکی مقامی روایات کے تحت تیرہ سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دی گئ۔ اگلے سال وہ ماں بننے کے مراحل میں تھی۔ اسکی زندگی میں افسوسناک صورت حال نے اس وقت جنم لیا جب وہ بچے کی پیدائیش کے عمل سے گذر رہی تھی۔ کم عمری اور نا تجربے کار دائ  کی وجہ سے  کی اس نے چار دن اس تکلیف میں گذارے ۔ 
بچے کی پیدائیش کے بعد گل بانو کو احساس ہوا کہ پیشاب اور پائخانہ اسکے جسم سے بغیر کسی کنٹرول کے ہر وقت رس رہے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ ہی نہیں شرمندہ کر دینے والی صورت حال تھی۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے اور اسکا کیا علاج ہے۔ 
گل بانو اپنی جھونپڑی میں قید ہو کر رہ گئ۔ تین سال اس حالت میں گذرے۔  اس مایوسی میں امید کی کرن اسکا شوہر تھا۔ وہ خوش قسمت تھی کہ اس کے شوہر نے اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ ایک دن اسکے شوہر کو کراچی میں موجود ایک ہسپتال کا پتہ چلا جہاں نہ صرف اسکی بیوی کا علاج مفت ہو سکتا تھا بلکہ تیماردار کی حیثیت سے اسکو بھی سپورٹ حاصل ہوجاتی۔
گل بانو کو چارپائ پہ ڈالا گیا تاکہ اسے اٹھا کر گاءوں کے قریب سے گذرنے والی سڑک تک پہنچایا جا سکے۔ دو دن اور رات کے سفر کے بعد وہ سڑک تک پہنچے۔ جہاں سے ایک ٹویوٹا ہائ لکس پک اپ میں آٹھ گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد وہ کراچی کے نزدیک کوہی گوٹھ پہنچے۔ جہاں وہ ہسپتال تھا۔
یہاں نو مہینے کے دوران گل بانو کے چھ آپریشن ہوئے اور وہ اپنے جسم پہ  شرمندگی کے سوراخ بھرنے میں کامیاب ہو گئ۔  
فسچولا وہ پیچیدگی ہے جو بچوں کی ڈلیوری کے دوران پیدا ہو سکتی ہے خاص طور پہ اس وقت جبکہ ڈیلیوری میں زیادہ وقت لگ جائے۔ یوں بچے کی حرکت کی وجہ خواتین کے اندرونی اعضاء پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سوراخ ہو جاتے ہیں۔ ان سوراخوں سے پیشاب پائخانے کا اخراج اندرونی اعضاء میں ہونے لگتا ہے اور ان پہ سے ایک عورت کا جسمانی کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔
مسلسل اخراج کی وجہ سے جسم کے اوپری حصے پہ آبلے پڑ جاتے ہیں۔ بچہ دانی سوکھ سکتی ہے، بانجھ پن پیدا ہو سکتا ہے ، مایوسی، ڈپریشن اور سٹریس بڑھتا ہے۔ اکثرعورتوں کو انکے شوہر لا وارث چھوڑ دیتے ہیں اور گھر والے یا دیگر لوگ مسلسل بدبو کی وجہ سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔
کوہی گوٹھ میں واقع یہ ہسپتال جس کا نام عورتوں کا ہسپتال ہے۔  ڈاکٹر شیرشاہ سید کی زیر نگرانی چلنے والا ایک ہسپتال ہے اس کے قیام کے لئے انہوں نے فنڈز اکٹھے کئیے۔ انہوں نے کوشش کی کہ کمیونیٹی کی بنیاد پہ خواتین کی صحت کے 
  مسائل کے بارے میں احساس پیدا کیا جائے









متعلقہ ویڈیو یہاں حاضر ہے۔

Sunday, January 23, 2011

ازموں کی دھند یا دھندہ

ستمبر کی ستمگر گرمی کے دن، میں منی بس میں خواتین کے رش کے درمیان گھسی خدا سے اس دعا کی قبولیت کی منتظرکہ اپنا بس اسٹاپ جلدی سے آجائے۔ اچانک کانوں میں قرآن کی تلاوت کی آواز ٹکراتی ہے۔ دیکھتی ہوں ایک کونے میں ایک حجاب دار برقعے میں ملبوس خاتون  کے برابر ایک چھ سات سال کا بچہ سیپارہ کھولے بیٹھا ہے اور پڑھ رہا ہے وہ خاتون اسکی تصحیح کراتی جاتی ہیں۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد اس بچے کی چھٹی ہوتی ہے اور اسکے فوراً بعد وہ خاتون اپنے پڑوس میں بیٹھی ہوئ خاتون سے مخاطب ہوتی ہیں۔
کیا آپ مسلمان ہیں؟ وہ خاتون اس حملے کے لئےتیار نہ تھیں ایک شش و پنج میں انکے حجاب دار چہرے کو پڑھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ جی ہاں میں مسلمان ہوں۔ فرمایا، سچ سچ، پورے یقین سے بتائیے کیا آپ مسلمان ہیں؟ جی ہاں الحمد للہ میں مسلمان ہوں۔ تو پھر، حجاب والی خاتون نے کہا ، آپ نے ناخن کیوں بڑھائے ہوئے ہیں اور نیل پالش کیوں لگائ ہوئ ہے۔ مسلمان عورت کو اس طرح نہیں کرنا چاہئیے۔ وہ خاتون انہیں ہکا بکا دیکھتی رہیں۔ پھر انہوں نے ان سے کہا وعدہ کیجئیے کہ ابھی آپ گھر جا کر اپنے ناخن کاٹ کر نیل پالش صاف کر لیں گی۔
وہ کہنے لگیں لیکن آپ کا اس سے کیا تعلق؟ جواب،  دوسروں کو برائ سے روکنا چاہئیے۔ ایک مسلمان کو دوسروں کو برائ سے روکنا چاہئیے۔ وعدہ کریں، آپ مجھ سے وعدہ کریں۔ آپ میری بہت اچھی بہن ہیں میں آپکی بہت اچھی دوست ہوں مجھ سے اللہ کے نام پہ  وعدہ کریں کہ آپ گھر جا کر جو میں نے کہا وہی کریں گی۔ کہیئے ہاں ایسا ہی کریں گی۔ یہ بات انہوں نے اتنے تسلسل سے کہی کہ ان دوسری خاتون نے کہا اچھا، میں ایسا ہی کرونگی۔
بس رکی اور وہ حجاب دار خاتون اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتر گئیں۔ وہ دوسری خاتون میری دوست تھیں۔
اگلے دن انکے ناخن کٹے ہوئے اور صاف تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا چلیں آپ نہ صرف  مسلمان ہو گئیں بلکہ کاسمیٹکس کا خرچہ بھی بچا۔ انہوں نے مجھے حیرانی سے دیکھا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ گھر جاتے ہی کاٹ دونگی اور صاف کر لونگی۔ گھر آتے ہی میں نے پہلا کام یہی کیا۔ میں نے ان سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ اب ساری زندگی ناخن نہیں بڑھاءونگی یا نیل پالش نہیں لگاءونگی۔ میری مسکراہٹ معدوم ہو گئ۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں میں، مجھے کون بہتر لگا۔ اس نے جس نے وعدے کی پاسداری کی یا وہ حجاب دار خاتون جو نمود و نمائش کی دلدادہ نظر آئیں اور انہوں نے محض ایک معمولی چیز پہ اگلے شخص کا ایمان جانچنا شروع کر دیا۔ 
  ناخن بڑھانا یا اسے نیل پالش سے رنگنا، اس کا مسلمان ہونے سے کوئ تعلق نہیں۔  میراروشن خیال ذہن کہتا ہے کہ نیل پالش سے وضو نہیں ہوتا۔ اس لئے نماز ادا کرنے میں مسئلہ ہوگا۔ سو اگر کوئ خاتون اس حالت میں ہو کہ اس پہ نماز ساقط ہو جائے تو وہ نیل پالش لگا سکتی ہے۔ یا اگر وہ یہ اہتمام کر سکتی ہے کہ ہر نماز سے پہلے نیل پالش ہٹا لے تو کوئ قباحت نہیں۔ اسی طرح ناخن بڑھانا صحت اور صفائ کے اصولوں سے تعلق رکھتا ہے۔
میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ ایک چھ سات سال کے بچے کو دوران سفر اپنے ماحول اور ارد گرد کی دنیا میں دلچسپی لینے کے بجائے تلاوت قرآن میں مصروف رکھنا شدت پسندی کے سوا کچھ نہیں۔
 میری اس طرح کی تحاریر پڑھ کر ایک روایت پسند صاحب کسی اور فورم پہ جاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس عورت کو جب چار شوہر کرنا پڑیں گے تو اسے پتہ چلے گا کہ روشن خیالی کیا ہوتی ہے۔ اُس روشن خیال مرد کی بیٹی جب ہر روز ایک نیا بوائے فرینڈ پکڑ کر گھر لائے گی تو پتہ چلے گا کہ روشن خیالی کیا ہوتی ہے۔ ہم خیال پیٹھ ٹھونکتے ہیں کیا اعلی ارشاد ہے۔
میں انکے اس روئیے کوبھی شدت پسندی میں ڈالتی ہوں۔ ایک ایسی شدت پسندی جو حقائق اور مسائل کو منطقی نظر سے دیکھنے کے بجائے اپنے ثقافتی پس منظر یا وراثتی پس منظر سے نہ صرف دیکھنا چاہتی ہے بلکہ اسکے خلاف کسی بھی خیال کو بزور طاقت یا زبان ایکدم ختم کر دینا چاہتی ہے۔ چاہے وہ اس شخص کو ذاتی سطح پہ جانتے بھی نہ ہوں۔ لیکن وہ اس سے ذاتی انتقام کے خواہش مند ہیں۔
   یہاں سے میں اس سوال کے جواب میں اپنا حصہ ڈلنا چاہونگی کہ روشن خیالی یا شدت پسندی کو میں کیسے لیتی ہوں۔
روشن خیالی کا الٹ روایت پسندی ہے۔ مگر مطلق روایت پسندی کوئ چیز نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہم اب بھی غاروں میں رہتے۔ دنیا یوں نہیں ہوتی، جیسی اب ہے۔
ہمارے بزرگ لال اینٹوں کے پکے مکانات میں رہتے تھے ہم کنکریٹ اور سیمنٹ کے بنے مکانات میں رہتے ہیں۔ ہمارے پرکھ ہل چلاتے تھے ہم ٹریکٹر چلاتے ہِیں، ہمارے آبائ گھر ہوتے تھے جہاں نسلیں پلتی تھیں۔  آج ہم ٹک کر ایک ملک میں نہیں رہ پاتے، ہمارے گھروں میں صحن ضرور ہوتا تھا مگر آج صحن ہونا ایک عیاشی ہے۔ محض پچاس برس پہلے کی دنیا دیکھئیے اور آج کی،  روایات ہی نہیں رہن سہن ، طور طریقے اور اقدار سب تبدیل ہو گیا ہے۔
یہ تبدیلیاں یوں لگتا ہے کہ خاموشی سے آتی ہیں مگر دراصل یہ انسانوں کی ضرورت کی وجہ سے آتی ہیں۔ ضرورت اگر شدید ہو تو تبدیلی میں بھی شدت ہوتی ہے۔ 
تبدیلی مختلف الخیال گروہوں کے آپس میں ملنے سے بھی آتی ہے۔ ایک گروہ جب دوسرے گروہ کو زیادہ خوشحال یا آسان زندگی گذارتے دیکھتا ہے  تو شعوری یا لاشعوری طور پہ  تبدیلیوں کو اپنانے لگتا ہے۔
تبدیلی اگر خاموشی یا ہمواری سے آئے تو معاشرے کے بنیادی اجزاء اپنی جگہ باقی رہتے ہیں۔ لیکن یہی تبدیلی اگر اچانک آئے تو بہت ساری چیزیں کھو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جیسے زلزلہ آجائےتو کیا ہوگا؟ بالخصوص اگر رات کے وقت آجائے تو ہم زیادہ نقصان سے دوچار ہونگے۔
اگر ایک معاشرہ لمبے عرصے تک آہستگی سے ہونے والی تبدیلوں کا خوگر نہ رہے تو پھر تبدیلی زلزلے کی صورت آتی ہے۔
جب بھی کوئ تبدیلی اپنا رستہ بناتی ہے تو اسے پہلے سے بے ہوئے رستے سے الگ ہونا پڑتا ہے چاہے یہ عمل آہستہ ہو یا تیز۔ اسی طرح لا شعوری تبدیلیاں تو بہت بعد میں پتہ چلتی ہیں مگر شعوری تبدیلیوں کے لئے معاشرے کو کڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔
یوں انسانوں میں دو بنیادی گروہ پیدا ہو جاتے ہیں ایک وہ جو اسی پرانے طریقے پہ قائم رہنا چاہتا ہے کیونکہ اسے  نئے راستوں کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ نئ چیلینجنگ صورت حال کے سامنے سے ڈرتا ہے۔ دوسری طرف وہ گروہ ہوتا ہے جو اس نئ صورت حال کو آزما کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔اور وہ اس کے لئے مختلف خطرات سے نبردآزما ہونے سے نہیں ڈرتا۔
مطلق روایت پسندی کوئ چیز نہیں۔ آپ میں سے بیشتر لوگ اپنی آبائ زمینوں کو چھوڑ کر نئ زمینوں پہ نئے آشیانے بنائے بیٹھے ہیں۔ آپ میں سے بیشتر لوگ اب اپنے پرکھوں کی زمینوں کو پلٹ کر نہیں جانا چاہتے۔ یہ کوئ بری بات نہیں ۔ انسانوں کو جامد نہیں رکھا گیا۔ یوں جمود کا تعلق روایت پسندی سے بنتا ہے۔
جب ہم  نئ چیزوں سے آشنا ہوتے ہیں تو ہمیں بہت احتیاط  اور تفکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسی سے ہماری بقاء وابستہ ہوتی ہے۔ 
اگر ہم جنگل میں موجود ہوں اور کسی ایسی طرف موجود ہوں جہاں سے ہمیں اپنا راستہ خود متعین کرنے کی ضرورت پڑے تو ہم اپنے پچھلے تمام تجربات اور آگے پیش آنے والے امکانات کے ساتھ راستہ بناتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک ایسی صورت میں، آپ اور میں ساتھ ہوں۔ آپ روایت پسند ہوں اور چاہتے ہوں کہ جو پگڈنڈی  ملی ہوئ ہے اسی پہ چل کر اگر کچھ ملے تو ملے ورنہ خالی ہاتھ رہنا بہتر ہے۔
میں اس چیز پہ راضی نہیں ہوتی اور سوچتی ہوں کہ اب تک زندگی میں جتنا علم اور تجربہ حاصل کیا ہے اسکو استعمال کرتے ہوئے اس سمت بھی دیکھناچاہئیے جسے نہیں دیکھا، لگتا ہے کہ اس طرح ہم پہلے سے بہتر حالت میں ہونگے۔ لیکن نہیں آپ میرے اس خیال کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ پہلے مجھے  پیش آنے والے ممکنہ نتائیج سے ڈراتے ہیں، پھر زبانی کلامی برا بھلا کہتے ہیں،   ہو سکتا ہے کہ دل ہی دل میں دعا بھی کریں کہ ایسے برے حالات سے سابقہ پڑے کہ دماغ ٹھکانے آجائیں۔
اسکی الٹ ایک صورت حال  یہ ہوتی کہ میں  بھی آپکو ممکنہ نتائج  سے ڈراءوں،آپکو  سخت اور سست، ڈرپوک اور بزدل کہوں اور ضد پہ آءوں تو آپکو آپکی حالت پہ چھوڑوں اور خود قصد سفر کر لوں۔
سو خیالات کے اس بنیادی فرق سے آپ اور میں  ہم سفر نہیں رہتے بلکہ دو علیحدہ راہوں کے راہی بن جاتے ہیں۔
اگر صورت حال اتنی سادہ رہے تو کیا برائ ہے؟
لیکن یہاں  کہانی میں ٹوئسٹ آتا ہے اور کہانی لکھنے والا ہم دونوں کے بیچ ایک ایسی چیز ڈال دیتا ہے جس سے ہم دونوں کا مفاد یا زندگی کی بنیادی شرائط وابستہ ہوتی ہیں۔
 ہر چیز کہانی نہیں ہوتی اور فکشن کہانی سے زیادہ تلخ اور سنگین ہوتا ہے۔ یوں ہم دونوں کے بیچ ایک نہیں کئ جہتیں نکل آتی ہیں جس کی وجہ سے ہم ایکدوسرے کو دفع دور نہیں کر پاتے۔
جنگل میں ہم ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
مطلق روایت پسندی کوئ چیز نہیں۔ کسی چیز کو پرانی عینک سے دیکھتے رہنے کے بجائے نئ عینکوں کا استعمال ہو سکتا ہے کہ وہ گوشے سامنے لے آئے جو ہم نے پہلے محسوس نہیں کیئے۔ ہمم، اس بات کا ڈرتو ہوتا ہے  کہ نئ عینکوں سے ہمیں جو نظر آئے گا ہو سکتا ہے وہ بہت مہلک ہو۔ لیکن نظر آنا اور چیز ہے اور اس  نظر آنے والی چیز کو ذہانت سے اپنے فائدے اپنے استحکام کے لئے استعمال کرنا اور چیز ہے۔ یہی میرے نزدیک روشن خیالی ہے۔ روشن خیالی صرف دیکھنے کے انداز کا نام ہے اس لئے یہ کہنا کہ مطلق روشن خیالی کیا ہوتی ہے لا یعنی بات ہے۔
ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ مطلق لبرلزم یا آزدی کیا ہوتی ہے؟
مطلق لبرلزم اپنا وجود نہیں رکھتا بالکل ایسے ہی جیسے مطلق روایت پسندی اپنا وجود نہیں رکھتی۔ اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان کو جب اس کا دل چاہے قتل کر کے کھانا شروع کر دے تو  ایسی آزادی کوئ معنی نہیں رکھتی۔
چونکہ میرے اور آپکے بیچ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو مشترکہ ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے اثر سے آزاد نہیں ہونے دیتیں تو ہم مطلق آزادی کا تصور نہیں کر سکتے۔ اسی لئے انسانی معاشروں میں قانون نام کی چیز وجود میں آتی ہے۔ تاکہ ہر شخص آزادی کے مزے سے اس طرح آشنا ہو سکے کہ دوسرے کی آزادی متائثر نہ ہو۔
جب پاکستانی معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں کی بات ہوتی ہے اسے کسی طرح لبرلزم سے جوڑ دیا جاتا ہے اور پھر مغرب کی مثالیں پیش کرنا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان میں لبرلزم کا وجود نہیں ۔ یہاں معتدل یا موڈریٹ خیالات رکھنے والا طبقہ مٹنے کے مراحل میں ہے اس لئے لبرلزم کا شور مچانے والے اسے صرف فیشن کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک ڈراوا ، ایک وہم  کہ اگر آپ روایت پسندوں کی پسند پہ نہیں چلتے تو یہ ہے وہ المناک انجام جو سامنے آ ئے گا۔ یوں اصل مسائل مختلف ازموں کی دھند میں لپیٹ دئیے گئے ہیں۔ یہ دھند کچھ لوگوں کا دھندہ چلانے میں خاصی مددگار ہوتی ہے۔ اگر یہ دھند ہٹ جائے تو کچھ دھندے مندے ہو جائیں۔      

Friday, January 21, 2011

تشدد

دیکھیں آپکو یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ مارنا پیٹنا اچھا نہیں ہے۔   فرض کریں کہ آپ خواتین پہ ہونے والے تشدد کا تذکرہ کرتی ہیں تو اکثریت اسے ریجیکٹ کر دے گی کہ یہ ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ یا ہم نے تو کبھی کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ کوئ آپکو صحیح جواب نہیں دے گا۔ آپ اسی خیال کو ذرا اور طریقے سے کر سکتی ہیں۔ مثلا کیسے؟ میں نے اپنی آنکھیں اس روشن چہرے والی لڑکی کے چہرے پہ جمائیں۔ جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد فل برائیٹ کے اسکالر شپ پہ امریکہ روانہ ہوئ اور وہاں سے سوشل ہیلتھ سائینس پر ڈگری لے کر لوٹی۔ اور اب پاکستان کے دیہاتوں اور شہروں میں اس حوالے سے مختلف پروجیکٹس پہ کام کر رہی ہے۔ مثلاً آپ ان سے پوچھیں کہ تشدد کیا ہوتا ہے؟
 آپ میری بات سمجھ رہی ہیں ناں۔
 میں خاموشی سے اسکی باتیں سنتی رہی۔ وہ لوگ جو نئ وسعتیں دیکھ کر لوٹتے ہیں انکی باتیں خاموشی سے سننی  چاہئیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری پرانی سرحدیں نئ وسعتوں سے مل پائیں۔
تشدد کیا ہوتا ہے؟ یہ ہے آج کا سوال۔
 میں نے آج کل میں ایک کتاب پڑھی۔ یہ کتاب ابھی حال ہی میں کراچی میں منعقدہ، کتاب میلہ سے لی تھی۔ میں نے اسے خالد جاوید کا ناول سمجھ کر لیا لیکن یہ انکے افسانوں کا مجموعہ نکلا۔ خالد جاوید ایک ہندوستانی ادیب ہیں۔ انکے دو افسانے میں نے پہلے پڑھے تھے اور ان سے کافی متائثر ہوئ۔ مجموعہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ خالد جاوید موت  کے  کہانی کار ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریبا ہر کہانی میں موت کو مختلف انداز سے زندگی سے جوڑا ہے۔ 
مگر یہاں انکی ایک کہانی 'روح میں دانت کا درد' کے چند اقتباسات حاضر ہیں۔ کہانی میں سے اقتباسات کو الگ کرنا خاصہ بے رحمی کا کام ہے، یعنی یہ بھی ایک تشدد ہے۔  یہ اقتباسات ہمارے موضوع تشدد سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم نفرت کر سکتے ہیں، ہم کسی کو بھی نفرت کا موضوع بنا سکتے ہیں۔ یہ تشدد ہے۔ دانتوں کا کیڑا اندر ہی اندر نہ جانے کون سی سرنگ بنا رہا تھا۔ ایک منہ سے دوسرے منہ تک بدبودار آندہیاں چل رہی تھیں۔ انکے آلودہ جھکڑوں میں کیا کیا  نہ مٹ جائ گا۔ مگر زندہ رہنے کے لئے نفرت کو برداشت کرنا پڑے گا۔

اگر تشدد ہی ہر مسئلے کا حل تھا تو سڑی ہوئ داڑھ نکلوا کر پھینک دینے سے زیادہ اسے سینت سینت کر پیوند لگا لگا کر رکھنا زیادہ معنی خیز تشدد تھا۔
 
یقیناً یہ سب جاہلانہ تھا۔ جہالت، بد ذوقی، نا سمجھی اور بد دماغی، یہ سب کتنی حقیر اور نظر انداز کر دینے کے قابل چیزیں تھیں۔ مگر جب یہ چیزیں تمہاری زندگی میں منظم طریقے سے داخل ہوتی ہیں اور باقاعدگی سے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہوئ تمہارے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہو جاتی ہیں تب تشدد اور نفرت کی یہ قسم پیدا ہوتی۔ خطرناک، چالاک اور ٹچا تشدد جو اپنی طرف اٹھی ہوئ ایک خشمگیں آنکھ کا بدلہ بھی دوسرے سے چہرے پر دعا پڑھوا کر لیتا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی تشدد الگ الگ  شے نہیں ہیں۔

کبھی کبھی وہ اپنے مرے ہوءوں سے مدد مانگتا۔ اور یقیناً یہ بھی تشدد ہے۔ دنیا جہاں سے ماوراء ان پاک روحوں کو دوبارہ گھسیٹ کر کھینچ کر دنیا میں لانا ان سے دنیا کے کاموں کی مدد لینا انکی روحوں کو شدید کرب اور چڑچڑاہٹ میں مبتلا کر دینے کے علاوہ اور کیا تھا ؟ یہ تشدد کا حصار تھا جو اپنی ماہیت میں دنیا کے رنگ و ریشے میں سما گیا تھا۔

Wednesday, January 19, 2011

جہاں عورتوں کے لئے ڈاکٹر نہ ہو

ایک زمانے میں جب بر صغیر پاک و ہند میں صرف اعلی طبقات کی خواتین کو اتنی تعلیم دینے کا رواج تھا کہ وہ شوہر کو خط لکھ لیں یا گھر کا حساب کتاب کر لیں تو ان تعلیم یافتہ لڑکیوں کو بابل کے گھر سے وداع ہوتے وقت بہشتی زیور کتاب کی ایک جلد بھی ہمراہ دی جاتی تاکہ وہ فرمانبرادر بیوی کی حیثیت سے اپنا گھر بنانا سیکھیں۔
خیر جناب، زمانے کے انداز بدلے گئے، مسائل بھی بدل گئے ہیں۔
میری نظر سے ایک کتاب گذری۔ جس کا نام ہے 'جہاں عورتوں کے لئے ڈاکٹر نہ ہو'۔یہ کتاب صحت کارکنوں اور عورتوں کے لئے ایک رہ نما کتاب ہے۔ اگر آپ کسی خاتون کو ایسی کتاب دینا چاہتے ہیں جو اسکی زندگی میں آسانی پیدا کرے اور اسے اپنے آپ سے آگہی دے اور دیگر خواتین کے لئے مددگار بنائے تو یہ کتاب ایک بہترین تحفہ ہوگا۔ 
یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ کی گئ ہے۔ اصل مصنفین اے آگسٹ برنز، رونی لووچ، جین میکسویل، کیتھرائین شاپیرو ہیں۔ شہری خواتین کو تو عام طور پہ طبی امداد مل جاتی ہے مگر دیہی خواتین کے لئے بر وقت طبی امداد ملنا مشکل ہوتا ہے جبکہ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ خواتین کی صحت مند زندگی خاندان کی تنظیم اور خوشحالی کے لئے بے حد ضروری ہے۔
اس منفرد کتاب کی تیاری میں تیس ملکوں کی خواتین نے حصہ لیا ہے۔ دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ کتاب کے کنوینر ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ اس کتاب کی مدد سے آپ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی عورتوں کی صحت ہی کی دیکھ بھال نہیں کر سکتیں بلکہ اپنے محلے اور برادری کی دوسری عورتوں کی بھی مدد کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایسی کتاب نہیں جسے صرف ایک عورت استعمال کر سلے۔ یہ ہر عورت کی کتاب ہے سب عورتوں کی کتاب ہے۔
کتاب ملنے کا پتہ ہے۔
پاکستان نیشنل فورمز آن ویمینز ہیلتھ 
نیشنل سیکریٹیریٹ، پی ایم اے ہاءوس
گارڈن روڈ، کراچی
ای میل
 pnfwh@yahoo.com
مجھے بھی انہوں نے اس کتاب کی دو جلدیں دیں کیونکہ یہ کتاب دو حصوں پہ مشتمل ہے۔ ایک کتاب کا سیٹ انہوں نے پڑھنے کے لئے دیا اور دوسرا میں نے ان سا مانگا۔ اپنے عزیز گھرانے کو تحفے میں دینے کے لئے۔
سو آئیندہ چند مہینوں  میں آپکو اس کتاب سے بھی کچھ پڑھنے کے لئے ملے گا۔ آئیے آج کا اقتباس دیکھتے ہیں۔

ایک بہتر دنیا کے لئے اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں

زندگی کے پہلے لمحے سے ہم اپنے بچوں کی جس طرح تربیت کرتی ہیں، وہی، اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہمارے بچوں کی سوچ کیا ہوگی اور بڑے ہونے پہ انکی عملی زندگی کیسی ہوگی۔
ماں ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے بچوں کو ہر روز تعلیم دیتی ہیں
جب ہم اپنے شوہروں اور بیٹوں کو کھانا پہلے دیتی ہیں تو ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ لڑکیوں اور عورتوں کی بھوک کی کم اہمیت ہوتی ہے۔
جب ہم صرف اپنے بیٹوں کو اسکول بھیجتی ہیں تو ہم اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتی ہیں کہ لڑکیاں ان مواقع کی مستحق نہیں جو جو تعلیم حاصل کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔
جب ہم اپنے بیٹوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ سخت اور تند و تیز مزاج مردانگی کی علامت ہےتو ہم تند و تیز مزاج والے مرد تیار کرتی ہیں۔
جب ہم اپنے پڑوسی کے گھر میں ہونے والے تشدد اور مار پیٹ کے خلاف نہیں بولتیں تو ہم اپنے بیٹوں کو تعلیم دیتی ہیں کہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور بچوں کو مارنا جائز ہے۔


ماں ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے بچوں کی فطرت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ہم اپنے بیٹوں کی اس طرح تربیت کر ہیں کہ وہ مہربان، رحم دل اور درد مند بنیں تاکہ وہ بڑے ہو کر مہربان، نرم دل اور درد مند باپ اور بھائ ثابت ہوں۔
ہم اپنی بیٹیوں کو یہ تعلیم دے سکتی ہیں کہ وہ اپنی قدر و قیمت اور اہمیت  پہچانیں۔ اسی طرح وہ دوسروں سے بھی یہی توقع کریں گی کہ وہ انکی قدر کریں گے اور اور انہیں اہمیت دیں گے۔
ہم اپنے بیٹوں کی تربیت کر سکتی ہیں کہ وہ گھر کے کام کاج میں حصہ لینے میں فخر محسوس کریں تاکہ ان کی بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں پر بہت زیادہ کام کا بوجھ نہ پڑے۔
ہم اپنی بیٹیوں کی یہ تربیت کر سکتی ہیں کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کریں یا کوئ ہنر سیکھ لیں تاکہ وہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔
ہم اپنے بیٹوں کو یہ تعلیم دے سکتی ہیں کہ وہ تمام عورتوں کا احترام کریں اور ذمہ دار ازدواجی رفیق ثابت ہوں۔
ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لئے ہم اپنے بچوں کی تربیت کر سکتی ہیں۔

Monday, January 17, 2011

میں کیوں بلاگ لکھتی ہوں

ہوا یوں کہ میں نے ایک سفر نامہ لکھا۔  لکھنے کے بعد میں جنگ اخبار کے میگزین سیکشن کے مدیر کو بھیجا کہ کیا وہ اسے اپنے اخبار کے میگزین میں چھاپ سکتے ہیں۔  انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے چھاپ دیں گے آپکے پاس جو تصویری مواد ہے وہ بھی بھیج دیں۔ میں نے انہیں وہ بھی بیج دیا۔ انہوں نے وہ چھاپنا شروع کر دیا۔ انکے میگزین کے ایک فل صفحے پہ وہ سفر نامہ نو اقساط میں شائع ہوا۔
لیکن یہ دیکھ کر مجھے شدید صدمہ ہوا کہ انہوں نے  چھ سات قسطوں تک تو ایک لفظ کی بھی ایڈیٹنگ نہیں کی لیکن جس صفحے سے مشرف کا نام آیا اس سے انہوں نے انتہائ بھونڈی ایڈیٹنگ کی اور مجھے مطلع تک نہ کیا۔ مجحے سمجھ نہیں آیا کہ اس لائن کو اڑانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہاں مشرف کے نام کی افتتاحی تختی لگی ہوئ تھی۔ لیکن یہ شاید جنگ گروپ کی پالیسی کا حصہ تھا۔ اسی طرح انسانی اسمگلنگ میں شامل ایک شخص کا قصہ جس سے میری ملاقات ہوئ غائب کر دیا۔ چند اور دلچسپ باتیں کٹ گئیں۔
 مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں آئ، ان کے/کی ایڈیٹر کی ایڈیٹنگ کا معیار یہ تھا کہ یہ سفر ہم دو لوگوں نے ایک رینج روورگاڑی سے کیا تھا مگر آخری قسط میں انہوں نے ہم دونوں کو جہاز سے واپس بھجوا دیا اور گاڑی کا قصہ ہی گول ہو گیا کہ گاڑی کہاں گئ۔ جبکہ اس گاڑی کی وجہ سے ہمیں سفر میں بہت ایڈوینچر سے گذرنا پڑا اور اس پوری تحریر میں اس کا بڑا بیان تھا۔
حیرت ہے ایک شخص آپکو، چھپنے سے پہلے  پورا پلندہ ایک ساتھ دے دیتا ہے آپ اسے دو مہینے سے اوپر اپنے میگزین میں ایک بڑی جگہ دیتے ہیں اور آپ اسے یہ تک نہیں بتاتے کہ آپ اس میں کیا ترمیمات کرنا چاہتے ہیں۔ اس بد ترین ایڈیٹنگ سے پڑھنے والے قارئین کے ذہن میں اگر کسی خامی کا خیال آیا تو یقیناً وہ اس نے  مصنف کے کھاتے میں ڈالی ہوگی۔ حالانکہ یہ ان ایڈیٹر کی اہلیت کا اظہار تھا۔  اس وقت میں نے تہییہ کیا کہ آئیندہ اپنی تحاریر یوں ضائع نہیں کرنی۔  کوئ بھی عقل سے خالی شخص کسی کی بھی تحاریر کی ایڈیٹنگ کرنے بیٹھ جائے اس لئے کہ اس ادارے نے اسے ملازمت دی ہوئ ہے یا اس ادارے کی یہ پالیسی ہے۔ میرے پاس اگر موقع ہے تو ایسے لوگوں پہ کیوں انحصار کروں۔
کچھ دنوں بعد مجھ سے کسی نے کہا کہ آپ بلاگنگ کیوں نہیں کرتیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اس طرف سوچا ہی نہ تھا۔ جناب یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا اردو میں بلاگنگ ہوتی ہے سرچ ورڈذ ڈالے تو بلاگستان تک پہنچے۔ مگر یہاں پہنچ کر شدید مایوسی ہوئ۔  یوں لگا کہ اردو بلاگنگ دائیں بازو والوں کے قبضے میں ہے۔ اور لبرل تو دور یہاں تو موڈریٹ ویوز کا قحط ہے۔
سوچا یہاں تو بڑا زلزلہ پیدا کرنے کی گنجائیش ہے اور لکھنا شروع کر دیا۔

نوٹ؛
یہ تحریر پوسٹ کرنے کے بعد جب اردو سیارہ پہ گئ تو اندازہ ہوا کہ وہاں مشہوری کے لئے ایک نیا مقالہ موجود ہے۔  کیونکہ میں یہ کہانی کسی تبصرے میں انکے حوالے کر چکی ہوں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بلاگستان میں کس شخصیت کے اوپر سب سے زیادہ مقالے حتی کہ تھیسس تک لکھا گیا ہے۔ اور بلاگ ٹریفک بڑھانے کے گُروں میں ایک گُر یہ بھی ہے کہ اس قسم کا مقالہ لکھ ڈالیں۔
:)
قارئین؛ چونکہ یہ  دونوں  مضامین باہمی مشاورت اور رونمائ حاصل ہوئے بغیر لکھے جا چکے ہیں اس لئے اب آپ ان دو تحاریر کا مزہ ایک ساتھ لیں۔ 

Sunday, January 16, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۷


اس برتری کے باوجود جو انگریز خواتین کو اپنی مشرقی بہنوں پر تعلیم اور شستہ کمالات کی وجہ سے حاصل ہے، میں مشرقی خواتین کے حسن کو ترجیح دینے پر مجبور ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ میرے انگریز قارئین میرے ذوق سلیم کو قومی عصبیت پر محمول کریں گے۔ ہم سب اپنے اپنے ملک ، آب و ہوا، رسم و رواج، مجلسی آداب اور اداروں کو جانبدارانہ نظر سے دیکھنے کا  میلان اور رجحان رکھتے ہیں۔اانگریز میری اس کمزوری کو، اگر یہ کوئ کمزوری ، تو اچھی نگاہ سے دیکھیں گے اور مجھے معاف فرما دیں گے۔ خالص چٹّا رنگ، نیلگوں آنکھیں، سنہرے بال جو انگلستان میں بہت پسند کئے جاتے ہیں، مشرق کے مذاق میں خوبی کے بجائے نقص سمجھے جاتے ہیں۔ مشرق میں رنگ کی صلاحیت سیاہ چمکدار آنکھیں اور کالے بال عورت کے محاسن میں داخل ہیں اور انہیں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انگریز خواتین مصنوعی حسن کاری میں جو تعلیم  اور ذہنی نشو نما کا نتیجہ ہے، مشرقی خواتین سے اس قدر آگے بڑھی ہوئ ہیں کہ دونوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تعلیم کا اثر ہے کہ انگلستان کی خواتین ستھری تمیز ، مجلسی آداب کی شستگی اور اہلیت کار سے مزین ہیں اور انہیں اوصاف کی وجہ سے انہوں نے معاشرے میں اپنی جگہ حاصل کر لی ہے اور خانگی اور سماجی حلقوں میں صنف نازک  کے فرائض ادا کرنے کی ذمے داری سنبھال لی ہے۔ لیکن جتنی تعریف میں دیگر معاملات میں انکی خوش ذوقی کی کرتا ہوں انکے شام کے لباس کی وضع قطع کی جو انہوں نے اختیار کر رکھی ہے نہیں کر سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ عادت، قومی رواج اور تعلیم کا ہے مگر مشرق کا رہنے والا لباس کی اس ننگی وضع میں شرم و حیا کی کمی محسوس کرے گا۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں میں ایک اس زمانے کی یورپی خاتون کی تصویر ڈال رہی ہوں۔ یہ تصویر اس کتاب کا حصہ نہیں ہے۔ یہ یاد رہے کہ یوروپ میں مختصر کپڑوں کے فیشن نے پچاس کی دہائ کے بعد جنم لیا۔

 میں نے انگلستان میں دیکھا کہ یہاں ہر  بے انصافی کا مداوا ہے۔ ہر شخص کو اپنے حقوق طلب کرنے کا استحقاق ہے اس کے علاوہ کوئ بھی آدمی خواہ سماج میں اسکی حیثیت کچھ ہی کیوں نہ ہو بلا مقدمہ چلائے مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا نہ سزا پا سکتا ہے۔ جن حالات  کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ان سے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے  کہ ہندوستان کے ایک بڑے حصےمیں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہندوستان میں بلا کسی سوال کے ایک ایسی عدالت کا قیام ضروری ہے جہاں ان لوگوں کو جو انگریزی قانونی عدالتوں کے حلقہ ء اثر میں نہیں آتے کسی جرم کے عائد کئیے جانے پر یا برطانوی افسران کے ہاتھوں اپنے حق کی پامالی پر غیر جانبدارانہ اور کھلی عدالتی کارروائ کا مطالبہ کرنے یا اپنے  نقصان کی تلافی کے لئے ثبوت دینے کا موقع مل سکے۔ ایسی عدالت کا نہ ہونا برطانوی ہند کے نظم و نسق پر ایک طرح کا دھبہ ہے۔ مجھے علم ہے کہ لوگوں میں گہری بے اطمینانی اور بے چینی کی وجہ یہی ہے۔
یہ بات مجھے عجیب سی معلوم ہوتی اور اس اصول کے خلاف بھی جس کے تحت برطانوی ہند کے نظم و نسق کے ہر محکمے اور ہر شاخ میں مساوی اور مناسب کارکردگی پیدا کرنے کے لئے مسلمہ قابلیت کے آدمی اور عدالتوں میں بہترین تربیت یافتہ قانون داں جج رکھنا تو ضروری سمجھا جائے مگر ایک بڑی تعداد کے مشکل اور اہم معاملات کے لئے قانونی کارروائیوں کا انصرام  گورنر جنرل کے ایجنٹ جیسے شخص کے ہاتھ میں چھوڑ دیا جائے جو بیشتر فوجی ملازمت کا آدمی ہوتا ہے۔ اگرچہ اسے عام طور پر سیاسی امور کا تجربہ ضرور ہوتا ہے مگر وہ قانون کی تعلیم سے بے بہرہ اور نابلد ہوتا ہے۔ 

اگر میری تحریر نے میرے ہم وطنوں میں ، انگلستان اور عام طور پہ یوروپ کے سفر کا شوق پیدا کیا تو مجھے بڑی خوشی ہوگی ان ممالک کو دیکھے بغیر مغربی تہذیب کا ٹھیک ٹھیک تصور ممکن  نہیں۔ اس تہذیب نے یوروپ کی اقوام کے لئے کیا کیا اور کر رہی ہے اور ان قوموں کے ذریعہ سے مشرق اور مغرب میں کیا فائدے پہنچا رہی ہے اس کا علم  بھی بلا دیکھے نہیں ہو سکتا۔ غیر ممالک اور دوردراز مقامات کے سفر اور مختلف مذاہب کے رسم و رواج اور اخلاق و آداب کی حامل قوموں کے میل ملاپ اور ان میں گھل مل کر رہنے سے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور تعصب جو نا واقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے ، دور ہوتا ہے۔ میرے بیشتر ہم وطن اور ہم مذہب اس وہم میں ہیں کہ مذہبی اصول لازماً توڑنا پڑیں گے، یوروپ کے سفر پر معترض ہوتے ہیں جبکہ ترکی ، عرب اور مصر کے مسلمان یوروپ آتے ہیں۔ عیسائیوں کے شہروں میں رہتے اور یوروپ کے معاشرے میں گھلتے ملتے ہیں مگر انکے مذہب کو ٹھیس نہیں لگتی۔ پھر ہندوستان کے مسلمان کو اس قسم کے شکوک اور شبہات کیوں ہونے چائیں۔ یہ لوگ بھی ایسے ہی کٹّر مسلمان ہیں جیسے ہندوستانی مسلمان، مگر اس قسم کے وہم میں مبتلا نہیں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یوروپ کے قیام میں انہیں کوئ دشواری پیش نہیں آئے گی۔ انہیں صرف شراب سے جسے پینے پر بغیر مرضی کے مجبور نہیں کیا جاتا اور سوءر کے گوشت سے بچنا ہوگا۔ ہندوستان کی طرح یوروپ میں بھی اسلامی احکام کے ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں جتی کہ اسلامی طریقہ پہ ذبیحہ کا انتظام بھی ہو سکتا ہے۔

اسکے ساتھ ہی اقتباسات کے اس سلسلے کا اختتام ہوتا ہے۔

Friday, January 14, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۶


مارسیلز کی ظاہری حالت دیکھ کر بہت متائثر ہوا۔ یہ یوروپ کا پہلا شہرتھا جو میں نے دیکھا۔ اس جگہ مغربی تہذیب و تمدن کی پہلی جھلک دیکھنے میں آئ۔ سڑکوں سے گذرتے ہوئے نئے نئے اور طرح طرح کے نظارے سامنے آئے۔ جی بہت خوش ہوا۔ قدم قدم پر کوئ نہ کوئ نمایاں اور نئ دلچسپی کی چیز ملتی ہر عمارت شاندار تھی۔ ایک محل کے دروازے سے گذر ہوا۔ اس پر خوبصورت جھاڑیوں کی نظر افروز روشنی ہو رہی تھی، کوئ آرائیش ایسی نہ تھی جو باقی رہ گئ ہو۔ یوروپ کے طور طریق سے نا واقفیت  کی بناء پہ میں پہلے یہ سمجھا کہ یہ محل کم از کم مارسیلز کے گورنر کی رہائیش گاہ ہوگا ۔ اصل میں وہ ایک مسافر خانہ اور عوامی تفریح کا ہوٹل تھا۔ دوسری جگہ ایک بڑی عمارت کے سامنے آدمیوں کا ہجوم نظر آیا۔ خیال گذرا کہ کسی عوامی یا قومی اہم واقعے کی یاد منانے کے لئے لوگ جمع ہیں۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ کہ دن بھر کے کام کے بعد لوگ تفریح کے لئے آئے ہیں۔
گھوم  گھوم کر شاندار سڑکیں، گلیاں، چوراہے اور تفریح گاہیں دیکھتا رہا۔ نہ جی گھبرایا نہ تکان محسوس ہوئ۔ یہاں پہلی بار مجھے تھیٹر دیکھنے کا موقع ملا۔ اگرچہ موسیقاروں اور اداکاروں کی زبان نہیں سمجھتا  تھا، پھر بھی پردوں کے مناظر اداکاروں کے لباس ، روشنی اور موسیقی نے حیرت میں ڈالدیا۔
پہلی بات جو محسوس ہوئ وہ یہ ہے کہ یہاں اور ہندوستان میں انگریز کے مزاج اور برتاءو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہندوستان میں جن انگریزوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے وہ سرکاری ملازم ہیں۔ ہر طبقے کے آدمی بشمول شرفاء انکے برتاءو میں ایک حد تک رعونت ، درشتی اور استحقار کی آمیزش محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات انگلستان میں کسی جگہ دیکھنے میں نہیں آئ۔ ہندوستان میں دیسی باشندوں کے ساتھ انگریز کا برتاءو ایسا نہیں ہے جیسا کہ ایک مہذب ترین ملک کے شہریوں کا ہونا چاہئیے۔ بلکہ اس برتاءو سے قریب تر ہے اور زیادہ لگّا کھاتا جو رومیوں کا مفتوح کارتھج والوں کے ساتھ تھا۔ اگر میں اپنے ہم وطنوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی کر رہا ہوں تو بلا خوف و تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ برطانوی راج کی غیر  ہر دلعزیزی اور اس سے نفرت جو برطانیہ کے زیر نگیں ملکوں میں پیدا ہو گئ ہے وہ انگریزوں کے نظم و نسق کے محض ان طریقوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے گذشتہ چند برسوں سے حکومت کرنے کے لئے اختیار کر رکھے ہیں۔
آخری قسط اسکے بعد 

Thursday, January 13, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۵

 گذشتہ سے پیوستہ؛

لندن  پہنچنے پر اول اول مجھے یقین نہیں آیا کہ ہم دنیا کے عظیم ترین دارالحکومت میں ہیں۔ مجھے باور کرا دیا گیا تھا کہ لندن ایک بڑا اور عالی شان شہر ہے مگر
'اے بسا  آرزو کہ خاک شدہ'
یہاں کالے کلوٹے مکانوں اور دود کش چمنیوں کے سوا کچھ  کچھ نہیں پایا۔
چیرنگ کراس اسٹیشن پر پہنچے۔ کسٹم کے افسروں نے اسباب کی جانچ کی۔ حقہ کے تمباکو پر قیمت کا سولہ گنا محصول لگایا۔ تمباکو تقریباً اکیس پونڈ تھا جس کی قیمت ہندوستان میں چار شلنگ کے قریب ہوتی  مگر قیمت کا سولہ گنا محصول دینا پڑا۔ چاندی کی جو چیزیں ہمارے پاس تھیں انکی قیمت کا ایک تہائ محصول لیا گیا۔

پہلی منزل میں چند گھنٹے ٹہرنے کے بعد تیسری منزل پر کمرے مل گئے۔ جہاں جھولے کے ذریعے پہنچائے گئے۔ ہمیں اس ایجاد کا پہلے سے کوئ تجربہ نہ تھا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں، جو خود بخود چلنے لگی اور خدا جانے کہاں لئے جا رہی تھی بیٹھ کر اوپر جانے سے جو حیرت ہوئ اسکا اندازہ قارئین شاید کر سکیں۔ ہم میں سے ایک صاحب پر، یہ دیکھ کر کہ ایک متحرک کمرے میں بند ہیں جس میں نکلنے کی بظاہر کوئ امید نہیں اور بے بسی کی حالت  میں بند ہیں، خوف طاری ہو گیا۔ 
جھولے کے رکنے اور اس سے جلدی نجات  پانے پر دماغ کو کچھ سکون ہوا۔ اوپر پہنچ کر دیکھا کہ بالائ منزل کے آدمی نہ خود نیچے جاتے ہیں نہ نچلی منزل منزل کے آدمیوں کو اوپر بلاتے ہیں، مگر ایک نلکی کے ذریعہ آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ یہ دوسری چیز تھی جس نے ہمیں اچنبھے میں ڈال دیا۔ ان سب چیزوں سے واقف قارئین اس بات پر کہ میں نے ان کا ذکر خاص طور سے کیوں کیا، اتنا ہی تعجب کریں گے جتنا مجھے ان چیزوں کو پہلی مرتبہ دیکھ کر ہوا تھا لیکن انہیں یہ بات ملحوظ رہے کہ میں مشرق کے ایک ایسے باشندے کے تائثرات بیان کر رہا ہوں جو تمام عمر مغرب کے تمدن اور ایجادات سے نا آشنا رہا اور انہیں پہلی بار دیکھے۔
یوروپ میں صنف نازک کی خدمات سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاتا ہے اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ مثلاً مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہو اکہ چیرنگ کراس ہوٹل میں دفتری اوردوسرے تمام کام مکمل طور پر مستورات کے ہاتھ میں ہیں۔ میرے ملک میں اگرچہ اعلی طبقے کی خواتین کو باستثنائے خاص لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے مگر انہیں تعلیم اس اس غرض سے قطعی نہیں دلائ جاتی کہ وہ کسی دفتر میں کام کریں یا کسی اور حیثیت میں ملازمت کریں جہاں انہیں مردوں سے خلط ملط ہونے کا موقع پیش آئے یا عوام کے سامنے چہرہ کھولنا پڑے۔ انکو صرف مذہب یا عربی، فارسی ادب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ تعلیم عام زندگی کے لئے بہت کم مفید ہے تاہم مشرقی خواتین کی تنہائ کی گھریلو زندگی میں انکے  لئے مسرت اور سکون کا خاصہ سامان مہیا کر دیتی ہے۔ پردے کے متعلق انگریزی اور مشرقی خیالات ایکدوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں۔ مسلمان خاوند اپنی بیوی کو کسی مجمع میں شرکت کی اجازت کبھی نہیں دے گا۔ مسلمان خاتون اگر کبھی اپنے خاوند یا قریبی رشتے دار کے علاوہ کسی غیر مرد کے سامنے  چہرہ کھول کر آجائے تو وہ رشتے دار مردوں ، عورتوں دونوں کی نظر میں ذلیل و خوار ہو جائے گی۔ کوئ بھی لالچ اسے غیر مرد کے سامنے آنے پر آمادہ نہیں کر سکتی، نہ ہی خاوند یہ گوارا کرے گا کہ اسکی بیوی اسکی زندگی میں روزی کمائے۔
جہالت اور بے علمی کے جس گھڑے میں ہندوستانی خواتین کی اکثریت گری ہوئ ہے اسے لکھے بغیر آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ رواج کے مطابق انکی بڑی تعداد تعلیم سے قطعی محروم ہے۔
نیچے طبقے کے لوگوں کی ذہانت اور عام معلومات پر بڑا تعجب ہوا۔ ہندوستان میں اسکے بالکل بر عکس ہے۔ یہاں کوچوان اور ٹیکسی چلانے والے اپنی نشست پر بیٹھے اخبار پڑھتے ملیں گے۔ عام واقعات اور معاملات پر اپنی رائے بھی بتائیں گے۔ یہ بات اور ہے کہ انکی رائے کسی قابل بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ آپ اس ملک کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے جہاں گھریلو خادمائیں جنگ فرانس پہ گفتگو کر سکتی ہوں اور جغرافئیے کی کافی معلومات رکھتی ہوں۔

شب باشی کے کمرے میں ایک جلد انجیل کی رکھی تھی۔ سونے کے کمروں کا بند و بست اور انتظام کرنے والی خاتون نے میرے ایک ساتھی کو انجیل پڑھتے دیکھا اور یہ جان کر کہ ہم مسلمان  ہیں انکی طبیعت کے مذہبی میلان پر بہت شکر گذاری کا اظہار کیا، حالانکہ یہ حضرت استعجابًا ورق گردانی کر رہے تھے۔
 

Wednesday, January 12, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۴

 گذشتہ سے پیوستہ

قاہرہ کو دیکھ کر مایوسی ہوئ۔ میں نے اس کے متعلق سن رکھا تھا کہ دنیا کے بہترین شہروں میں سے ایک شہر ہے لیکن ہندوستان کے اچھے قسم کے  شہروں سے کسی طرح بہتر نہیں پایا۔ فرانسیسی بازار اس کا بہترین حصہ  ہے اور گھنا آباد ہے، شہر کا باقی حصہ پرانا، ٹوٹا پھوٹا اور گندہ تھا۔ نائب السلطنت کی شاہی عمارتیں مصریوں کے نزدیک بہترین عمارتوں میں ہوں تو ہوں مگر میری نظر میں ایسی نہیں ہیں۔ شاہان مغلیہ کی بنائ ہوئ دہلی، آگرہ، اور دیگر مقامات کی عمارتوں کے مقابلے میں بہت گھٹیا ہیں۔ انکی شان و شوکت انکے خوبصورت نقشے اور قابل تعریف تناسب اس زمانے کے بڑے بڑے ماہرین تعمیر کو بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نائیبین سلطنت کے مقبرے ، قلعہ کے اندر نائب السلطنت کا محل اور مسجد ، خود قلعہ اور شہر کا محل بہت شاندار عمارتیں ہیں۔ مسجد خاص طور سے خوبصورت ہے۔ اس کے نقش و نگار بہت عمدہ ہیں۔
سفر کرتے ہوئے اسکندریہ پہنچے۔ کرایہ پر خچر چلانے والے لڑکوں کی سینہ زوری سے بہت لطف اٹھایا۔ میرے دو دوست اول باہر نکلے اور دو لڑکوں کو اشارہ سے بلایا مگر انکے آس پاس اتنے جمع ہو گئے  کہ ان کے لئے کسی خچر پر بھی سوار ہونا مشکل ہو گیا۔ ہر لڑکا قریب کے خچر کو ہٹا کر اپنا خچر بڑھا لاتا۔ ممکن سے ممکن  جو افراتفری ہو سکتی تھی وہ تھی۔ لڑکے الٹی سیدھی انگریزی میں خچروں کی تعریف کرتے 'میرا خچر  انگریزی جانتا ہے۔' 'میرا خچر انگریز سر پٹ بھگاتا ہے'، 'خچر دلکی چال چلتا ہے' ، 'ہندوستانی جانتا ہے'۔

سلطان کی مملکت کے اس حصے کو دیکھ کر  سلطنت کی ترقی کے بارے میں ہمارے اعتماد میں اتنا ہی اضافہ ہوا جتنا عرب کو دیکھ کر کم ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سر زمین عرب کو مقدس سمجھنے اور اس کے تقدس کو لا دینی اثرات سے محفوظ رکھنے کے علاوہ اس ملک سے اچھی آمدنی کی بھی امید نہیں۔ غالباً اسی وجہ سے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ شریف اور مقامی سردار اپنے اسلاف کے طور طریق پر حکومت کرنے کے لئے آزاد  چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ مختلف خانوادے یا قبائل اب سے دس صدی قبل کے حقوق سے مستفید ہو رہے ہیں۔


جاری ہے

Tuesday, January 11, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۳


جدہ میں؛
 جس طریقے سے مسافروں کے سامان کی جانچ پڑتال کی گئ وہ ذلت آمیز اور شرمناک تھا۔ سرکاری ملازم لوہے کی سلاخیں ہاتھوں میں لئیے گھومتے تھے اور ہر مقفل صندوق کو توڑ ڈالتے تھے۔ ہر بنڈل کی جانچ کرتے اور سامان پر من مانا محصول لگاتے۔ بعض صورتوں میں تو کُل کا کُل سامان نکال پھینکا۔ اگر ایک ہی قسم کی دس چیزیں تھی تو ان میں سے ایک خود لے لی اور باقی واپس کر دیں۔ اگر مختلف چیزیں ہوتیں تو ہر چیز پر ایک خاص رقم دینی پڑتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان  کے پاس محصول لگانے کا کوئ قاعدہ قانون نہ تھا بلکہ بلا تفریق لوٹ مار کا اندھا دھند نظام تھا۔ بھڑک دار ، خوشنما اور گہرے رنگ کی چیزوں پر بھاری محصول لگاتے۔ اپنی جہالت کی وجہ سے جو چیز ظاہر میں زیادہ خوش نما ہوتی اسے زیادہ قیمتی سمجھتے۔ صندوقوں اور پلندوں کی چیزوں کو الٹ پلٹ کے کے ادھر ادھر پھینک دیتے۔ یہ کام اتنی بری طرح کرتے کہ لوگوں کو غصہ آجاتا۔ سامان کو قرینے سے لگا کر دوبارہ باندھنے اور بند کرنے میں کافی وقت لگتا اور خاصی محنت کرنی پڑتی۔

شریف مکہ نے دس اچھی طرح مسلح شتر سوار ہمارے خرچ پر عنایت فرمائے۔ نائب الشریف کے بھی چار پانچ قوی الجثہ اور مضبوط غلام ساتھ تھے۔ نواب صاحب کے ملازموں میں سے بہت سوں کے پاس ہتھیار تھے۔ چونکہ ہمارے قافلہ کی شہرت عام ہو گئ تھی اس لئے اور بھی کچھ آدمی جو مدینہ جانا چایتے تھے شریک قافلہ ہو گئے۔ ان میں تین ایسی حیثیت کے آدمی تھے کہ ہر ایک کو دس سواروں کا حفاظتی دستہ شریف مکہ نے دیا تھا۔ اس طرح انہوں نے تیس خوب مسلح اور اچھے شتر سوار عنایت فرمائے۔ اب ہماری ایک مضبوط جماعت ہو گئ جو لٹیروں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکتی تھی۔
شریف محسن نے یہ نائب الشریف کا نام ہے، جو ہماری  حفاظت کے ذمے دار تھے، مندرجہ بالا تدابیر کے علاوہ حفاظت کے ایک اور ذریعے سے، جو اتفاق سے راستہ میں مل گیا تھا فائدہ اٹھانا مناسب سمجھا۔
اس وقت مکہ میں ایک شخص تھا جس کا لقب 'شیخ الحرامی' تھا اور وہ ڈاکوءوں اور چوروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ شخص لٹیرے قبائل کے شریر ترین قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اسکا اثر اتنا زیادہ ہے کہ قافلہ میں محض اسکی موجودگی ، حملے سے حفاظت کی ضامن ہوگی۔ یہ عمر رسیدہ آدمی تھا اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے تھا۔ اسکی شرکت قافلے کی حفاظت کے ذریعوں میں ایک اہم اضافہ تھا

مجھے اس بات کابڑا احساس ہے کہ بدو لٹیروں کے قبائل ، عرب کے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان انکی وحشیانہ عادات کو دبانے اور انکو صحیح راہ پہ لانے کے لئے کوئ قدم نہیں اٹھائیں گے۔ کیونکہ انہیں قابل احترام خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک مختصر سی مسلح فوج بلا کسی دقت کے انکو ٹھیک کر سکتی ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ ملک کے تجارتی اور زراعتی وسائل کو ان پر اور سلطان کے عقیدت مندانہ مذہبی جذبے پر قربان کیا جا رہا ہے۔ اگر ان قبائل کو زندگی کا صحیح راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو ملک کے تجارتی اور زرعی مرکز بن جانے میں کوئ رکاوٹ نہ ہو جس سے عام طور پر ساری دنیا کو اور خاص طور سے اس ملک کی اچھی اور امن پسند رعایا کو بہت فائدے پہنچیں۔

Monday, January 10, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۲


اگلے دن دوپہر کو نائب الشریف، دس بہت بد شکل، بد ہیئت آدمی جنکی صورت پر بدمعاشی ٹپکتی تھی میرے پاس لائے۔ یہ آدمی پرانے کمبل یا پرانے قالین کے ٹکروں کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے تھا۔ انکے پاس توڑے دار بندوقیں اور خنجر تھے۔ اس اس ہیئت میں خطرناک غنڈے معلوم ہوتے تھے۔ مجھے انکے لٹیرے ہونے میں ذرا شک نہ تھا۔ میں سمجھا کہ نائب الشریف نے انہیں واردات کرتے ہوئے پکڑا ہے اور ہمیں دکھانے کے لئے لائے ہیں۔ میں نے ان سے اپنے شبہے کی تصدیق چاہی، انہوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ میرا شبہ غلط ہے یہ لٹیرے نہیں اسکے بر عکس اونچی حیثیت کے آدمی ہیں۔

میں نے ان سے پھر پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کے سب لٹیرے اور خونی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے خدا اور رسول کی قسم کھا کر کہا کہ میرا شبہ غلط ہے، یہ وہ حفاظتی دستہ ہے جسے محترم شریف مکہ نے بھیجا ہے۔ انکو حکم ہے کہ آپ کی ہر طرح کی خدمت انجام دیں۔ یہ ابھی مکہ سے آئے ہیں اور اونتوں کے چارے کے لئے دام مانگتے ہیں

مجھے اپنی غلطی پہ تعجب ہوا ، انکی ڈاکوءوں ایسی ہیئت پر۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے بہت سے ساتھی انہیں ڈاکو سمجھ کر گھبرا گئے۔

مکے سے مدینہ جاتے ہوئے؛
کبھی کبھی ریگستان کے نیم وحشی، ننگی پہاڑیوں پہ کھڑے یا گھومتے نظر آجاتے۔ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ ایسے ملک میں جہاں پتھروں اور ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ لوگ اپنے نیم سیر اونٹوں اور بھیڑوں کے لئے چارہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ریگستان کے یہ سپوت ان سر سبز مقامات کو جانتے ہیں جہاں انکے جانوروں کے لئے تازہ پانی اور ہریالی مل سکتی ہے۔ کبھی یہ بد نصیب پڑاءو اٹھ جانے کے بعد آتے اور جو بچی کھچی چیزیں ہم پھینک دیتے انہیں بین لیتے، خواہ حلال کئے ہوئے جانوروں کے فضلات ہوتے یا ہڈیاں اور چھیچھڑے یا روٹی اور سبزی کے ٹکڑے۔ میں نے دیکھا کہ جو کچھ ملتا اسے اٹھا لیتے اور ایسے شوق سے کھاتے کہ معلوم ہوتا کہ مہینوں سے انکے منہ میں کوئ چیز نہیں گئ۔ حقیقت میں یہ ریگستان کے مہتر تھے اور وہی کام کرتے جو گدھ مردہ جانوروں کو کھا کر کرتے ہیں۔

گھٹنوں تک لنگوٹی کے سوا انکے جسم پہ کوئ کپڑا نہ ہوتا، عورتیں بھی یہی پہنتی تھیں البتہ اسکے علاوہ سینے کو سہارا دینے کے لئےایک دوسرا چیتھڑا سینہ پر بھی باندھ لیتیں۔ یہ دھجّی اسی کام کے لئے باندھی جاتی تھی۔ انکے لباس کا جُز نہ تھی۔ انکے سر کے بال گرد میں اٹے اور الجھے ہوئے ہونگے۔ ایسے بال بجائے آرائیش اور سنگھار کے انکے لئے وبال ہوتے ہونگے۔ انکو سر پر جمائے رکھنے کے لئے کیچڑ تھوپ لیتیں یا کپڑے کی دھجّی سے باندھ لیتیں۔ یہ دھجّی کہاں اور کس طرح حاصل کرتیں یہ نہیں بتایا جا سکتا۔

یہ نیم وحشی جو اس خوفناک ملک کے ریگستانی علاقے میں آباد ہیں،حبشی نسل کے معلوم ہوتے ہیں۔ جو کسی طرح عرب میں آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ انکی زبان بدءووں سے مختلف ہے۔ بدو خالص عربی بولتے ہیں اور نسبتاً ان سے زیادہ شریف ، خوش رو اور صاف رنگ کے ہیں۔

Sunday, January 9, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات

ایک سو اڑتیس سالہ پرانی کتاب کا ایک اردو ترجمہ ہاتھ لگا۔  ایک سو اٹھاَئیس صفحات پہ مبنی  بالشت بھر کی اس کتاب کا انگریزی نام ہے۔
Pilgrimage to the Caaba  and Charing Cross

اسکا نام اردو میں روداد سفر حج اور زیارت لندن رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوئ۔ کتاب کے مصنف حافظ احمد احسن صاحب ہیں اور اسکا اردو ترجمہ جناب مصطفی علی مارہروی نے کیا۔ کتاب کی اشاعت لندن کی ڈبلیو ایچ ایلن اینڈ کمپنی نے کی۔اردو ترجمہ، ورثہ والوں نے شائع کیا ہے۔
 مصنف ٹونک ریاست کے نواب کے معتمد و معاون تھے۔ قتل کے ایک مقد مے میں پھنسا کر نواب صاحب کو ریاست کی حکمرانی سے محروم کیا گیا۔ جلا وطن ہوئے۔ بعد ازاں انگریز حکومت سے اجازت حاصل کر کے حج کے سفر پہ روانہ ہوئے۔ نواب صاحب تو وطن لوٹ آئے لیکن مصنف حج کے بعد لندن  کے لئے روانہ ہوئے۔ تاکہ اپنے نواب صاحب پہ ہونےوالے ظلم کے خلاف توجہ انگریز حکومت کوتوجہ دلا سکیں۔ کتاب کاشروع کا حصہ اس سازش کے متعلق ہے جس کے ذریعے نواب صاحب کو ریاست سے محروم کیا گیا۔ مقدموں میں پھنسانا اور قانون سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرنا، طاقت کے کھیل میں ایسی سازشیں ہمیشہ بروئے کاررہی ہیں۔
اٹھارہ سو ستّتر میں یہ سفراختیار کیا گیا۔ کتاب میں سے کچھ دلچسپ اقتباسات حاضر ہیں۔

سمندر کے عجائبات کا حال کانوں میں پڑا ہوا تھا۔ میرے دل و دماغ ان سے اتنے متائثر ہو چکے تھے کہ باوجود اپنی تکلیف کے جنکا نقشہ کھینچنے کی کوشش بے کار ہے۔ میں مسلسل اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا کہ شاید سمندر کے دیوزاد اور عجیب و غریب شکل و صورت کی چیزیں نظر آجائیں۔ مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ سمندر ایسی چیزوں سے آباد ہیں۔ مگر مجھے پردار مچھلیوں کے علاوہ کوئ عجیب چیز نظر نہیں آئ۔ یہ مچھلیاں اسی عرض البلد میں پائ جاتی ہیں اور ٹکریاں بنا کر سمندر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی دکھائ دیتی ہیں۔ انکی پرواز عام طور پہ سے بیس فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ میں نے  ایک ایسی زندہ چیز بھی دیکھی جو سمندر میںپورے کھلے ہوئے گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہے۔ مگر جب نکالی گئ تو سفید رنگ کی نیم شفاف گودے دار چیز تھی۔ 

فوج ایک ترک افسر کے زیر کمان ہے جو مکہ کا پاشا کہلاتا ہے۔ انتظامی اور عدالتی امور شریف مکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ شریف، سلطان ترکی کے مقرر کردہ مکہ کے والی اور حاکم ہیں۔ ان کا نام عبداللہ ہے۔ انتہائ مہذب، شائیستہ اور وجیہہ آدمی ہیں۔ عرب کے تمام بدو انکا احترام کرتے ہیں۔ اور انکے حکم کے سامنے سر جھکاتے ہیں اپنا سردار اور مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو عرب کا والی کہا جا سکتا ہے۔
مکہ کو پانی ایک نہر سے ملتا ہے۔ یہ نہر بغداد کے مشہور خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ نے بنوائ تھی۔ انہی کے نام موسوم ہے۔ یہاں کے آدمی ریشمی اور اونی بھڑکدار کپڑے پہننے کے شوقین ہیں۔ کپڑا فرانس اور انگلستان  سے آتا ہے۔ مگر یہاں کے نا واقف لوگ قسطنطنیہ کا سمجھتے ہیں۔ کپڑے پر ملک اور کارخانہ کے نام کے باوجود انہیں یقین نہیں آتا کہ دوسرے ملکوں کا بنا ہوا ہے۔
اور قارئین اسکے ساتھ ہی لائیٹ چلی گئ۔ باقی اقتباسات بعد میں۔

جاری ہے۔ 

Thursday, January 6, 2011

جمہور یا جانور

دوپہر کا وقت تھا۔ میں بازار میں تھی۔ ایک پتھارے والے کے پاس ایک من پسند لیس دیکھ کر رک گئ۔ بھاءو تاءو کرنے کے بعد جب میں نے اپنا پرس کھولا تو اس میں ہزار کا نوٹ تھا۔  لیس پچھتر روپے کی بن رہی تھی جبکہ اسکے پاس ہزار کا کھلا نہیں تھا۔ چھان پھٹکنے پہ ایک پچاس روپے کا نوٹ برآمد ہوا۔ میں نے وہ دوکاندار کو دیا کہ زر ضمانت کے طور پہ رکھے میں واپسی میں باقی پیسے دیکر لیس لے لونگی۔
واپسی میں دیکھا تو اسکا پتھارا ایک چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ پڑوس کے دوکاندار سے پوچھا کہنے لگا نماز پڑھنے گیا ہے ابھی دس منٹ میں آجائے گا۔ تب اچانک میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے ارد گرد نظر ڈالی۔ تمام دوکاندار اپنے اپنے گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے۔ جن کے پاس نہیں تھے وہ چیزیں قرینے سے رکھ رہے تھے۔ یہ دوکانیں کپروں کی بھی تھیں، زیورات کی بھی اور پھل اور سبزی والوں کی بھی۔ اس عوامی ہجوم میں ہر ثقافتی گرو سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ مہاجر، پٹھآن، پنجابی، افغانی۔
اور پھر اسی تسلسل میں مجھے رات ٹی وی پہ آنے والا ایک پروگرام یاد آگیا۔ جس  کے میزبان حامد میر، اور مہمانوں میں ہارون رشید اور انصار عباسی شامل تھے۔ اور ہمارے دونوں مدبر صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اٹھانوے فی صد افراد شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں اور جو لوگ جمہور کی رائے کا احترام نہیں کرتے انہیں ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا یعنی اگر وہ گورنر ہے تب بھی اسکا اپنے محافظ کے ہاتھوں مارا جانا قابل صدمہ نہیں۔
اس وقت میں نے اپنے اس بازار کے تمام لوگوں کو دیکھا جو بازار کے بیچوں بیچ واقع مسجد میں نماز ادا کرنے کے بجائے اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ نماز دین کا سب سے اہم رکن اسکی ادائیگی سے جان چرانے والے ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ شاید لوگ صحیح کہتے ہیں اٹھانوے فی صد شماریات کے نتائج موقعے پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ جیسی ضروت ویسے نتائج۔
جمہور کون ہے؟ تھری پیس سوٹ میںملبوس نک سک سے ایک دم درست، زندگی کی تمام سہولتوں کو استعمال کرنے والے، ہر ممکنہ وسیلے کے نزدیک،  بغیر ریش اور باریش افراد جو میڈیا کی لائم لائٹ میں رہنے کے چسکے سے آشنا ہیں یا روزانہ کی بنیاد پہ کپڑا بیچنے والا، سبزی بیچنے والا ، کینو بیچنے والا۔
امریکہ میں ایک سروے کے مطابق ، کم از کم بیس فی صد امریکی افراد اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ صدر باراک حسین اوبامہ مسلمان ہیں۔ جبکہ ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ اوبامہ ہر اتوار کو چرچ اپنی ہفتے وارعیسائ عبادت کے لئے جاتے ہیں۔ اور در حقیقت وہ مسلمان نہیں بلکہ عیسائ ہیں البتہ انکے والد مسلمان تھے۔
میں نے ایک امریکی شہریت کے حامل پاکستانی سے پوچھآ، لیکن اتنے زیادہ امریکی اتنا غلط کیوں سوچتے ہیں جبکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ  امریکیوں کی بڑی تعداد سنجیدہ چیزیں نہیں پڑھتی بلکہ ریئلیٹی ٹی وی جیسے پروگرامز کی اسیر ہے۔ ایک امریکی گھر میں ہر وقت ٹی وی چلتا ہے۔  جو لوگ اس سے کوئ خبر حاص کرنا چاہتے ہیں وہ بھی نہیں حاصل کر پاتے کیونکہ میڈیا کی ترجیح لوگوں کو درست  خبریں دینا نہیں، انہیں ٹُن رکھنا ہے۔ ہمم، اسی لئے تو امریکی حیران ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ اور جب ہم میڈیا پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک اور چیز کا داراک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اردو میڈیا اور انگریزی میڈیا بالکل دو الگ قوموں کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ جنگ اخبار تھا جس میں، میں نے سب سے پہلے ایک کالم نگار کے کالم میں یہ بات پڑھی کہ اب جبکہ دنیا جان گئ ہے کہ پاکستان میں آنے والا زلزلہ اور سیلاب امریکہ کے ہارپ کی وجہ سے آئے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان سے معافی مانگنی چاہئیے۔
میں انگریزی اخبار بھی پڑھتی ہوں۔ جب  جنگ جیسے موءقر اردو اخبار میں اس چیز کا باعث ہارپ کو قرار دیا جا رہا تھا۔ اس وقت انگریزی اخبار ڈان میں ملک کے مایہ ناز دو سائینس کے عالموں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ہود بھائ کے درمیان اس بات پہ زوردار بحث چل رہی تھی کہ ہارپ ایک ہوّے کے سوا کچھ نہیں۔
حیرت تو ہوتی ہے کہ ان دو عالموں نے کسی اردو اخبار کو اس پہ بحث کرنے کے لئے اپنا میدان نہیں چنا۔
یہی نہیں، اگر ہم اتوار کے دن کا جنگ  اور ڈان میگزین اٹھائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اخبارات کس قدر کم معیار کے مضامین لکھتے ہیں اور انکی ہمیشہ ایک خاص سمت ہوتی ہے۔ 
یہی اردو اخبار، اس شدت پسندی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جو پاکستان کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ آخر یہ صحافی کیا کریں ۔ ان کی کیا پیشہ ورانہ تربیت ہے یہ کتنی ریسرچ کرتے ہیں ان میں سے کتنوں نے اپنے آپکو بیرونی دنیا کے علم سے جوڑا ہوا ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو بیرونی مواد کو ترجمہ کر کے اردو میں لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ کرایسس انگریزی صحافیوں کے ساتھ بھی ہے لیکن انہیں انگریزی مواد کو کٹ اینڈ پیسٹ کرنے کی آسانی حاصل ہے۔
ادھر انگریزی اخبار کا فوکس ہمارے ایلیٹس یعنی طبقہ ء اشرافیہ ہے۔ اگر ڈان میں ان دو سائینسدانوں کے درمیان بحث ہوئ تو اس سے ہمارا اردو داں طبقہ انجان ہے۔ انگریزی زبان جاننے کا ایک فائدہ ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اس وقت جتنا علم کا دھماکا آیا ہوا ہے وہ سب انگریزی میں دستیاب ہے۔ وہ چاہے ادب ہو یا سیاست یا سائینس۔
اردو داں طبقے کی اکثریت تو بم دھماکے کی ہی اصطلاح سے واقف ہے اور ان  تک وہی پہنچ پاتا ہے جو اردو میڈیا انہیں فراہم کر سکتا ہے۔ اردو میڈیا کو عوامی تبدیلی یا ترقی سے دلچسپی نہیں۔ انہیں سینسیشن چاہئیے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پہ ملے۔
کتنے ٹی وی اینکر ایسے ہیں جو جدید معلومات یا ریسرچ سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ شاید کوئ نہیں۔ جب ادھر ادھر کی چیزیں ہی اٹھانی ہوں تو آسانی سے جو ملے گا وہی حاضر ہوگا۔ اور اردو میں آسانی سے مذہب سے متعلق کتابیں ہی دستیاب ہیں چاہے وہ درست نکتہ ء نظر سے لکھی گئ ہوں یا غیر درست۔
ایلییٹس یا طبقہ ء اشرافیہ نہیں چاہتے کہ عام آدمی ان جیسا معیارزندگی رکھے یا ان جیسی معلومات ہی رکھ لے۔ وہ اس بات پہ ہنس سکتے ہیں کہ پاکستانی کتنے بے وقوف ہیں کہ زلزلے کو ہارپ کا لایا ہوا سمجھتے ہیں لیکن وہ اس قوم کو اردو میں ہارپ کے متعلق بتانے کی جدو جہد میں نہیں پڑیں گے۔
قوم اردو سمجھتی ہے اسے اردو میں جو مواد اور ذہن مل رہا ہے وہ اسی کے مطابق سوچتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر مذہبی لٹریچر دستیاب ہے۔ کوئ ایک معیاری سائینس کی کتاب نہیں۔ پاکستان میں گذشتہ دس سالوں میں اردو ادب میں کوئ معیاری ناول یا ادیب سامنے نہیں آیا۔ ہمارے آج کے نوجوان کو بھی اشفاق احمد کو ہی پڑھنا پڑ رہا ہے۔ فیس بک پہ دھڑا دھڑ اشفاق احمد کے اقتباسات دستیاب ہیں۔
آجکے عہد میں کون اردو ادب لکھے گا۔ شاید کوئ نہیں۔ کیونکہ معاشرہ جب اظہار کے خوف سے گذر رہا ہو اور لوگ ایک دوسرے کو زبان درازی سے رکنے کی تلقین کر رہے ہوں تو اس صورت میں کس میں جراءت ہوگی کہ حقیقت لکھے فکشن کی صورت میںُُ۔ انگریزی داں طبقے کی عوامیت اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان سے متعلق پُر اثر ادب شاید ہی لکھ پائے۔ اشرافیہ، بس نوم چومسکی، ڈکنس اور دستوووسکی اور دیگر فلسفہ ء حیات کو پڑھ کر اپنے ڈرائینگ رومز کی ڈسکشنز کو مزےدار بناتے ہیں۔
تو جب ایک شخص دوسرے کو قتل کرتا ہے۔ اور ملک میں جس طبقے کو یعنی عدلیہ کو عدل اور انصاف پھیلانے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے وہ اس قاتل پہ پھول نچھاور کرتے ہیں تو ہمیں کیوں حیرت ہوتی ہے۔
جب ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام چلے گا تو نتیجہ وہی ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔اردو میڈیا کہتا ہے کہ جب جمہور کی بات کے خلاف کام ہوگا تو کسی کا قتل ہونا کوئ ایسی بری بات نہیں۔ کیونکہ جمہور ہم ہیں اس لئے ہم جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ انگریزی میڈیا اپنے ڈرائینگ روم میں دنگ بیٹھا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ادھر میں  پتھارے والے کے مسجد سے واپس آنے کے انتظار میں بازار میں ادھر اُدھر گھوم کر جن  کو دیکھ رہی ہوں، یہ کون ہیں جمہور یا جانور؟

Tuesday, January 4, 2011

جگسا پزل

کچھ لوگ دسمبر اور جنوری کی درمیانی رات کو سال بھر کا جوش نکال کر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اب سارا سال بھنگ ملے یا چرس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا پیٹرول کی قیمت اور بجلی کی قیمت میں کانٹے کا مقابلہ چل پڑے، انکے لئے سب برابر ہے۔ لیکن کچھ لوگ ہرروز کچھ نیا کے چکر میں  نئےسال کی قرار داد بناتے اور پھر سارا سال اس قرارداد کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں۔میں نے بھی کچھ قراردایں بنانے کی کوشش کی مگر آخر میں اللہ مالک ہے کہہ کر اپنی بیٹی کے ساتھ جگسا پزل بنانے بیٹھ گئ۔
جب اپنے غم سے یوں فراغت ہو گئ تو دوسروں کے خیال بھی دل میں آئے، اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ ہمارے محبوب صدر نے کیا قرارداد بنائ اپنے لئے۔ کہنے لگے آپکو معلوم نہیں نجومیوں نے اس سال انکی دوسری شادی کی پیشن گوئ کی ہے۔ تو اب انکے پاس ایک نہیں کئ قراردادیں ہونگیں۔  اچھا خدا مسبّب الاسباب ہے  یعنی اس سال اس بہانے ہم خوشی کے شادیانے بجائیں گے۔
ادھررحمان ملک کے بارے میں تو شرطیہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سورہ اخلاص سمیت چاروں قل ،سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی اور دعائے قنوت   کے حفظ کے کریش کورس پہ لگ جائیں گے۔ مبادا گیلانی صاحب اسی طرح سال کے اخیر میں دستیاب رہے تو کیبنٹ کے اجلاس میں ایکدوسرے کی پھبتی اڑانے کے لئے وہ نشانے پہ نہ آ سکیں۔
لیکن لگتا یوں ہے کہ 'قدرت' کو  گیلانی صاحب کے ہاتھوں انکی یہ توہین پسند نہیں آئ۔ اور صورت حال کچھ اس طرح سامنے آئ کہ گیلانی صاحب کو اخلاص چھوڑ کرجل تو جلال تو آئ بلا کو ٹال تو کی تسبیح گھمانا پڑ رہی ہے۔
سال کے شروع میں پٹرولیئم مصنوعات پہ یکدم نو فیصدی کا اضافہ ،عوام کو اشارہ ہے کہ باقی سال سورہ یس حفظ کر لیں موت کی سختی کم کرتی ہے۔
مذہبی جماعتیں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ گاتے ہوئے توہین رسالت کے قانون کے زیر زبر پیش کی حفاظت میں لگی رہیں گی یہ انکی بڑی امید اور سہارا ہے۔ اور اگلے کئ سالوں کے لئے 'اہم ملکی معاملات' پہ انکی گرفت مضبوط رکھے گا۔
نواز شریف جمہوریت کی  ریل کو ڈی ریل ہونے سے بچانے میں مصروف رہیں گے انہیں ڈی ساخت پسند نہیں بلکہ اپنے چہرے کی طرح گول' او ' ساخت چاہئیے تاکہ  جمہوریت کی ریل ایک دائرے میں گھومتی رہے ۔
طالبان خاتون کے کامیاب خود کش حملے کے بعد پاکستان میں مردوں کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ لوگ جو اپنی کم جہیز لانے والی بہوءووں سے نالاں ہیں اور چولہے وغیرہ پھٹنے کا انتظار کرتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی بیٹیوں کو ونی کرنے یا کاروکاری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں یا جائداد کے بٹوارے میں پڑنے کے بجائے قرآن سے شادی کروا دیتے ہیں۔  اب طالبان کے مراکز کے آگے لائن بنا کر کھڑے ہونگے۔ لوگوں کے ہجوم میں خواتین کا پھٹنا، بالکل مناسب ہوگا۔ کیونکہ اسکے بعد اعضاء میں وہ تناسب نہیں رہتا جن سے ہارمونز کا کھیل شروع ہو سکے۔
ادھر ایم کیو ایم ، حکومت سے اپنے  نعرہ ء علیحدگی پہ  رقص بسمل  کرے گی ۔   حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد امید ہے کہ انہیں ریہرسل کا زیادہ وقت ملے گا۔ یہ بھی امکان ہے ک ایک پیس کے رد و بدل ، اور کچھ  معلوم و نا معلوم لوگوں کے مقامات بعد از حیات طے کرنے کے بعد حکومت دوبارہ انہیں اپنے اتحادیوں میں شامل کر لے۔
مولانا فضل الرحمن کے متعلق لوگوں نے اڑائ ہے کہ انکی صدر صاحب سے ڈیل ہو گئ ہے۔ وہ وزارت عظمی مانگ رہے تھے۔ بالآخر عظمی پہ معاملہ ٹہر گیا۔
وزارت میں سے عظمی کے نکل جانے کے بعد گیلانی صاحب کیا کریں گے؟  سن رہے ہیں کہ پچھلے ہفتے کا سارا کھڑاگ انہیں لائن حاضر کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ یعنی ذوالفقار مرزا کے سندھ میں ایم کیو ایم مخالف بیانات کا سلسلہ زرداری صاحب کی وفاداری سے جا کر مل رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نجومیوں نے غلطی سے دوسری تبدیلی کو دوسری شادی سمجھ لیا ۔ واللہ اعلم۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔
جگسا پزل بھی بناتے بناتے آتا ہے۔ اب آپکی باری ہے۔

Saturday, January 1, 2011

زمانے کی ہوا

لیجئیے ایک اور سال ہاتھ ہلا کر ، دامن جھاڑ کر رخصت ہو گیا۔ میں نے جب جاتے سمے اسکی انگلیوں کو چھونا چاہا تو یونہی رخ موڑے موڑے کہنے لگا۔

تو ہے گر مجھ سے خفا  خود سے خفا ہوں میں بھی
مجھ کو پہچان، کہ تیری ہی ادا ہوں میں بھی

یہاں کس کو اتنی فرصت کہ ایسی پہیلیوں میں پڑے۔
ایک کہانی کار نے ڈرامہ لکھ کر پروڈیسر کے حوالے کیا۔ انہوں نے ایک نظر اس پہ ڈالی اور گویا ہوئے۔ بہت خوب، بہت زبردست، بس ڈرامے کے انجام میں اگر ہیروئین کی موت پنکھے سے لٹک کر خود کشی کرنے کے بجائے پستول کی گولی سے دیکھائ جائے تو بہتر ہوگا۔ جو حکم آپکا، کہانی کار نے عاجزی کا اظہار کیا، مگر اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ پرڈیوسر نے انہیں دیکھا اور شان بے نیازی سے کہا، گولی کی آواز سے لوگ جاگ جائیں گے اور پتہ چل جائے گا کہ ڈرامہ ختم ہو گیا ہے۔
   یوں فضا میں ڈزا ڈز گولیوں کی آواز آئ اور پرانا  سال جلدی سے یہ کہتا ہوا اڑن چھو ہوا۔

ثبت ہوں دست خموشی پہ حنا کی صورت
نا شنیدہ ہی سہی ، تیرا کہا ہوں میں بھی

اس پہ گولیوں کی بوچھار تڑا تڑ۔ نہ دست خموشی ہوگا نہ یہ بک بک۔ سال نو نے جنم لیا۔ تاریخ بدل گئ اور کیا ہوا؟ حالات کے آئینے میں وہی عکس ہیں اور ارد گرد وہی حالات۔ میں پلٹ کر آخری سانس لیتے دست خموشی سے دریافت کرتی ہوں، اس جمود سے زندگی گذارنے کا کیا فائدہ جسے گولیوں کی آواز سے توڑنا پڑے۔ لیکن سب کیلینڈر کے نئے سال کو خوش آمدید کہنے میں مصروف ہیں۔ 
میں جب جذبہ ء خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کو اس نئے سال سے ہاتھ ملانا چاہتی ہوں تو فرماتا ہے کہ
جانے کس راہ چلوں، کون سے رخ مڑ جاءوں
مجھ سے مت مل ، کہ زمانے کی ہوا ہوں میں بھی
یہ تو اس نے چیلینج کردیا۔ کیا کروں سال کہن کا نوحہ بنوں یا زمانے کی ہوا؟