Friday, January 14, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۶


مارسیلز کی ظاہری حالت دیکھ کر بہت متائثر ہوا۔ یہ یوروپ کا پہلا شہرتھا جو میں نے دیکھا۔ اس جگہ مغربی تہذیب و تمدن کی پہلی جھلک دیکھنے میں آئ۔ سڑکوں سے گذرتے ہوئے نئے نئے اور طرح طرح کے نظارے سامنے آئے۔ جی بہت خوش ہوا۔ قدم قدم پر کوئ نہ کوئ نمایاں اور نئ دلچسپی کی چیز ملتی ہر عمارت شاندار تھی۔ ایک محل کے دروازے سے گذر ہوا۔ اس پر خوبصورت جھاڑیوں کی نظر افروز روشنی ہو رہی تھی، کوئ آرائیش ایسی نہ تھی جو باقی رہ گئ ہو۔ یوروپ کے طور طریق سے نا واقفیت  کی بناء پہ میں پہلے یہ سمجھا کہ یہ محل کم از کم مارسیلز کے گورنر کی رہائیش گاہ ہوگا ۔ اصل میں وہ ایک مسافر خانہ اور عوامی تفریح کا ہوٹل تھا۔ دوسری جگہ ایک بڑی عمارت کے سامنے آدمیوں کا ہجوم نظر آیا۔ خیال گذرا کہ کسی عوامی یا قومی اہم واقعے کی یاد منانے کے لئے لوگ جمع ہیں۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ کہ دن بھر کے کام کے بعد لوگ تفریح کے لئے آئے ہیں۔
گھوم  گھوم کر شاندار سڑکیں، گلیاں، چوراہے اور تفریح گاہیں دیکھتا رہا۔ نہ جی گھبرایا نہ تکان محسوس ہوئ۔ یہاں پہلی بار مجھے تھیٹر دیکھنے کا موقع ملا۔ اگرچہ موسیقاروں اور اداکاروں کی زبان نہیں سمجھتا  تھا، پھر بھی پردوں کے مناظر اداکاروں کے لباس ، روشنی اور موسیقی نے حیرت میں ڈالدیا۔
پہلی بات جو محسوس ہوئ وہ یہ ہے کہ یہاں اور ہندوستان میں انگریز کے مزاج اور برتاءو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہندوستان میں جن انگریزوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے وہ سرکاری ملازم ہیں۔ ہر طبقے کے آدمی بشمول شرفاء انکے برتاءو میں ایک حد تک رعونت ، درشتی اور استحقار کی آمیزش محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات انگلستان میں کسی جگہ دیکھنے میں نہیں آئ۔ ہندوستان میں دیسی باشندوں کے ساتھ انگریز کا برتاءو ایسا نہیں ہے جیسا کہ ایک مہذب ترین ملک کے شہریوں کا ہونا چاہئیے۔ بلکہ اس برتاءو سے قریب تر ہے اور زیادہ لگّا کھاتا جو رومیوں کا مفتوح کارتھج والوں کے ساتھ تھا۔ اگر میں اپنے ہم وطنوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی کر رہا ہوں تو بلا خوف و تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ برطانوی راج کی غیر  ہر دلعزیزی اور اس سے نفرت جو برطانیہ کے زیر نگیں ملکوں میں پیدا ہو گئ ہے وہ انگریزوں کے نظم و نسق کے محض ان طریقوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے گذشتہ چند برسوں سے حکومت کرنے کے لئے اختیار کر رکھے ہیں۔
آخری قسط اسکے بعد 

No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ