ہوا یوں کہ میں نے ایک سفر نامہ لکھا۔ لکھنے کے بعد میں جنگ اخبار کے میگزین سیکشن کے مدیر کو بھیجا کہ کیا وہ اسے اپنے اخبار کے میگزین میں چھاپ سکتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے چھاپ دیں گے آپکے پاس جو تصویری مواد ہے وہ بھی بھیج دیں۔ میں نے انہیں وہ بھی بیج دیا۔ انہوں نے وہ چھاپنا شروع کر دیا۔ انکے میگزین کے ایک فل صفحے پہ وہ سفر نامہ نو اقساط میں شائع ہوا۔
لیکن یہ دیکھ کر مجھے شدید صدمہ ہوا کہ انہوں نے چھ سات قسطوں تک تو ایک لفظ کی بھی ایڈیٹنگ نہیں کی لیکن جس صفحے سے مشرف کا نام آیا اس سے انہوں نے انتہائ بھونڈی ایڈیٹنگ کی اور مجھے مطلع تک نہ کیا۔ مجحے سمجھ نہیں آیا کہ اس لائن کو اڑانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہاں مشرف کے نام کی افتتاحی تختی لگی ہوئ تھی۔ لیکن یہ شاید جنگ گروپ کی پالیسی کا حصہ تھا۔ اسی طرح انسانی اسمگلنگ میں شامل ایک شخص کا قصہ جس سے میری ملاقات ہوئ غائب کر دیا۔ چند اور دلچسپ باتیں کٹ گئیں۔
مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں آئ، ان کے/کی ایڈیٹر کی ایڈیٹنگ کا معیار یہ تھا کہ یہ سفر ہم دو لوگوں نے ایک رینج روورگاڑی سے کیا تھا مگر آخری قسط میں انہوں نے ہم دونوں کو جہاز سے واپس بھجوا دیا اور گاڑی کا قصہ ہی گول ہو گیا کہ گاڑی کہاں گئ۔ جبکہ اس گاڑی کی وجہ سے ہمیں سفر میں بہت ایڈوینچر سے گذرنا پڑا اور اس پوری تحریر میں اس کا بڑا بیان تھا۔
حیرت ہے ایک شخص آپکو، چھپنے سے پہلے پورا پلندہ ایک ساتھ دے دیتا ہے آپ اسے دو مہینے سے اوپر اپنے میگزین میں ایک بڑی جگہ دیتے ہیں اور آپ اسے یہ تک نہیں بتاتے کہ آپ اس میں کیا ترمیمات کرنا چاہتے ہیں۔ اس بد ترین ایڈیٹنگ سے پڑھنے والے قارئین کے ذہن میں اگر کسی خامی کا خیال آیا تو یقیناً وہ اس نے مصنف کے کھاتے میں ڈالی ہوگی۔ حالانکہ یہ ان ایڈیٹر کی اہلیت کا اظہار تھا۔ اس وقت میں نے تہییہ کیا کہ آئیندہ اپنی تحاریر یوں ضائع نہیں کرنی۔ کوئ بھی عقل سے خالی شخص کسی کی بھی تحاریر کی ایڈیٹنگ کرنے بیٹھ جائے اس لئے کہ اس ادارے نے اسے ملازمت دی ہوئ ہے یا اس ادارے کی یہ پالیسی ہے۔ میرے پاس اگر موقع ہے تو ایسے لوگوں پہ کیوں انحصار کروں۔
کچھ دنوں بعد مجھ سے کسی نے کہا کہ آپ بلاگنگ کیوں نہیں کرتیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اس طرف سوچا ہی نہ تھا۔ جناب یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا اردو میں بلاگنگ ہوتی ہے سرچ ورڈذ ڈالے تو بلاگستان تک پہنچے۔ مگر یہاں پہنچ کر شدید مایوسی ہوئ۔ یوں لگا کہ اردو بلاگنگ دائیں بازو والوں کے قبضے میں ہے۔ اور لبرل تو دور یہاں تو موڈریٹ ویوز کا قحط ہے۔
سوچا یہاں تو بڑا زلزلہ پیدا کرنے کی گنجائیش ہے اور لکھنا شروع کر دیا۔
نوٹ؛
یہ تحریر پوسٹ کرنے کے بعد جب اردو سیارہ پہ گئ تو اندازہ ہوا کہ وہاں مشہوری کے لئے ایک نیا مقالہ موجود ہے۔ کیونکہ میں یہ کہانی کسی تبصرے میں انکے حوالے کر چکی ہوں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بلاگستان میں کس شخصیت کے اوپر سب سے زیادہ مقالے حتی کہ تھیسس تک لکھا گیا ہے۔ اور بلاگ ٹریفک بڑھانے کے گُروں میں ایک گُر یہ بھی ہے کہ اس قسم کا مقالہ لکھ ڈالیں۔
:)
قارئین؛ چونکہ یہ دونوں مضامین باہمی مشاورت اور رونمائ حاصل ہوئے بغیر لکھے جا چکے ہیں اس لئے اب آپ ان دو تحاریر کا مزہ ایک ساتھ لیں۔
بلا شبہ آپ ایک بہترین بلاگر ہیں۔ آپ سے ہم نے سائنسی، معاشرتی اور خاص کر پیرینٹنگ کے بہت گر سیکھے ہیں۔ رہا سوال اختلاف رائے کا تو وہ تو بہت ہی صحت مند بات ہے اگر لوگوں کے اپنے حدود کا پاس رہے۔
ReplyDeleteآپ سؤروں کے آگے موتی کيوں پھينکتی رہتی ہيں؟
ReplyDeletehttp://jafar.wordpress.pk/?p=1006
معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کی بلاگنگ ہی آپ کی وجہ سے چل رہی ہے۔ میرے خیال سے یہ آپ کے گھوسٹ مرید ہیں۔
ReplyDeleteاور وہ آپ کے افسانوں کا کیا بنا؟ کہاں چھپے؟ مجھے کب ارسال کریں گی؟ میں اس کے انگریزی ترجمے کرکے اپنے نام سے چھپواؤں گا۔
یہ بات واقعی بہت تکلیف دہ ہے کہ کوئی آپ کی تحریر میں ایک لفظ کی بھی تبدیلی کرے وہ بھی بغیر بتائے۔ اس لئے بلاگ لکھنا قدرے بہتر ہے کہ وہ آپ کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔
ReplyDeleteاس بات کا مجھے بھی بہت قلق ہے کہ ناصرف اردو بلاگستان میں بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی معتدل رویّوں کا فقدان ہے۔
شکریہ ابن سعید صاحب۔
ReplyDeleteعثمان، میرے افسانوں کا مجموعہ، آہ۔ سوچتی ہوں اسکے لئے بلاگنگ کا سلسلہ منقطع کر کے دل جمعی سے کچھ لکھوں۔ بھیج دونگی، بھیج دونگی۔
محمد احمد، میرا خیال ہے کہ اگر ایک مسودہ پوری حالت میں دیا جائے تو ایڈیٹر کو پبلش کرنے سے پہلے یا تو یہ بتانا چاہئیے کہ ہم اس میں جو دل چاہے تبدیلیاں کریں گے اس پہ آپکو اعتراض نہیں ہونا چاہئیے یا پھر انہیں پورے مسودے کو ایک دفعہ پڑھ کر قابل اعتراض مقامات کی نشاندہی کر دینی چاہئیے تاکہ قلمکار اسے اپنے حساب سے تبدیل کر سکے۔ میں نے اڈیتر کے نام خط نہیں بھیجا تھا بلکہ ایک تحریر بھیجی تھی۔ اسکے بعد انکی ایڈیٹنگ کے معیار پہ سر پیٹ لیا۔ جن لوگوں نے اسے دلچسپی سے پڑھا انہوں نے بھی ہم سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہوا۔
ایڈیٹر صاحب کو اس بات کی فرصت تھی کہ اس مضمون کے چھپنے کے بعد انکے آفس میں ہمارے نام سے آنے والے ایک پیغام کو ہمارے گھر کے نمبر پہ فون کر کے مطلع کریں۔ مگر انہیں اس بات کا خیال نہیں آیا کہ وہ رسماً ہی بتا دیں کہ ہم آپکے مسودے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔
آپ بلاگننگ جاری رکھیں، اسی میں سبجیکٹیویٹی پاسیبل ہے ۔ پبلشنگ میں تو پبلشر اور رائٹر دونوں کی ٹارگٹ اورئنٹڈ آبجیکٹیویٹی میٹر کیا کرتی ہے ۔
ReplyDeleteبلکل آپ کی وجہ سے بلاگستان میں شدید زلزلہ آیا ہے جس کی وجہ سے خودساختہ ڈاکٹر ، علامہ ، مفتیان کے بھرم ریزہ ریزہ ہوگئے آجکل یہ حضرات صدمے سے اپنا دماغی تاوازن برقرار نہیں رکھ پارہے اور گند اچھارہے ہیں جس میں وہ خوب مہارت رکھتے ہیں
ReplyDeleteعنیقہ مجھے آپ کی آدھی تحریر سمجھ میں آئی آدھی نہیں آئی :( لیکن خیر آپ سے ایک بات پوچھنی تھی کہ "میں کیوں بلاگ لکھتی ہوں" یہ تحریر آپ نے میرے سوال کے جواب میں لکھی ہے؟ اگر نہیں بھی لکھی تو اس میں مجھے اپنے سوال کا جواب تو مل ہی گیا ہے :) تو پلیز ایک چھوٹی سی مہربانی کردیں۔۔۔آپ اپنے نِک سے میرے بلاگ پر اس پوسٹ کا لنک رکھدیں۔۔۔۔اس طرح میری سوال کے جوابات کا تسلسل رہے گا۔
ReplyDeleteليں جی چور کی داڑھی ميں تنکا؛
ReplyDeletehttp://urdu.inspire.org.pk/?p=652
ان حضرات کو اب حضرت مسيح کے اس مشہور مقولہ پہ بھی اعتراض ہو گيا۔
عنقیہ پہلے شاید جلدی میں آپ کی تحریر پر جوابات میں سے ایک اسکپ ہوگیا۔۔۔۔جس میں ایک انتہائی برا طرز تخاطب ہے۔۔۔یہ ایک گالی ہے۔۔۔آپ اگر مناسب سمجھیں تو اسے ہٹا دیں پلیزز۔۔۔میں نے اس تبصرے کا ذکر ایک بلاگ سے پڑھا ہے۔
ReplyDeleteہذب دنيا ہم سے دور بھاگتی ہے، دنيا کو ہم ميں صرف ايک ہی دلچسپی ہے کہ کہيں ہم اپنی فتنہ پرور فطرت سے باقی دنيا کو بھی نہ ڈس ليں۔ مر تو ہم کب کے چکے، اب تو لاش گل سڑ رہی ہے اور کوئی دفنانے کو بھی تيار نہيں۔ کوئی ہے جو ہميں اتنا گہرا دفن کر دے کہ کسی تک ہمارے تعفن کے اثرات نہ پہنچيں اور باقی دنيا کو سکون اور امن سے رہنے کا موقع مل سکے؟
ReplyDeleteامن ایمان، کچھ بلاگ میں نے پڑھنا چھوڑ دئیے ہیں ۔
ReplyDeleteمیں آپکی درخواست پہ اس تبصرے کو ڈیلٹ کردوں؟ کچھ دنوں پہلے ایک بلاگ پہ تبصرے کے دوران تیس سے زائد دفعہ لفظ کنجر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے تو اسے نہیں ہٹایا۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو کنجر ہونا سوءر ہونے سے زیادہ برا ہے۔ پہلا لفظ زیادہ بری گالی ہے۔ اب موضع کھلا ہے کہ کون سے الفاظ گالیوں میں شمار ہونے چاہئیں۔ مجے تبصرے میں استعمال کیا گیا محاورہ دلچسپ لگا۔ البتہ مجھے اس بات پہ اعتراض ہے کہ اس میں لنک نہیں ڈالنا چاہئیے تھا۔
اب اگر تین اور ووٹ آپکے حق میں ہوں جن میں سے دو مرد ہوں تو میں اس تبصرے کو ڈیلیٹ کر دوں گی۔
سفرنامہ انٹاکٹیکا:
ReplyDeleteہوائی جہاز انٹاڑکٹیکا کے بین القوامی ہوائی اڈے پر اترنے والا ہے، فضائی میزبان کے اس اعلان کے ساتھ ہی ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ جہاز کا عملہ جہاز میں رکھے سامان کی سیٹ بیلٹ باندھنے لگا کیونکہ مسافروں میں انٹارکٹیکا کی سیاحت کے لیے اس فلائیٹ سے صرف میں ہی سفر کررہا تھا۔ بہرحال جہاز بحفاظت برف سے بنے رن وے پر اترا تو ہم نے سکھ کا سانس اور خراماں خراماں ائرپورٹ کی عمارت کی طرف چل پڑے کیونکہ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔
میں ہوائی اڈے سے متصل ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا میں اپنے آئندہ سفر کے لائحہ عمل پر سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے منفی 35 درجہ حرارت میں بھی شدید گرمی کا احساس ہوا۔ میں نے خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کہیں حرارت ایمانی سے سرشار مرد مومن تو یہاں نہیں پہنچ گئے؟ لیکن یہ دیکھ کر اطمینا ن ہوا کہ نہیں انٹارکٹیکا ابھی ان کی دسترس سے باہر ہے ، معلوم ہوا کہ درجہ حرارت ریسٹورنٹ میں چلنے والے ہیٹر کی وجہ سے بڑھ گیا تھا۔ میں نے قریب سے گذرنے والے ویٹر کو بلایا اور اس سے ہیٹر کا تھرمواسٹیٹ کم کرنے کو کہا۔ لیکن میرے اشاروں کے باوجود وہ کچھ بھی نہ سمجھ پایا۔ میں نے مدد کے لیے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی اسے انٹارکٹیکائی زبان میں میرا مدعا سمجھا دے۔ اسی دوران میری نظریں ڈاکٹر ڈینگا سے چار ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب پینگوئن کی افزائش نسل اور فیمیل پینگوئن پر اس کے اثرات پر تحقیق کرنےکے لیے ہر سال موسم سرما میں یہاں آتے ہیں۔ وہ فورا میری مدد کو آگے بڑھے یوں منفی 35 درجہ حرارت میں بھی شدید گرمی سے جان چھوٹی۔
تھوڑی دیر بعد ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر نکل کرمیں سڑک کے کنارے کھڑا ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا۔ برف سے بنی شیشے کی طرح چکمدار سڑک تھی ہر طرح کے داغ دھبوں کے بغیر۔میں نے دل ہی دل میں یو۔ این۔ او کا شکریہ ادا کیا جو ان جاہل اور اجڈ پاکستانیوں کو یہاں کا ویزہ نہیں دیتے ورنہ یہ سڑک بھی پان کے پیکوں سے رنگین ہوتی یا پھر خون سے۔ آس پاس نظر دوڑانے سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کو برف کی انتہائی دبیز تہہ سے ڈھانپ کر پردے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بہت افسوس ہوا کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رجعت پسندانہ نظریات یہاں بھی پہنچ گئے تھے۔ بہت دیر گذرنے کے باوجود بھی جب کوئ ٹیکسی نہیں آئی تو میں دوبارہ ہوائی اڈے کی عمارت میں گیا ، پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہاں کوئی ٹیکسی سروس نہیں ہے۔ مجبورابرفیلی گاڑی [آئس ویہیکل] کرائے پر حاصل کی ،اپنا قطب نما نکالا اور پھر جنوب مشرق کی سمت 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے برفیلی گاڑی کے انگیشن میں چابی گھمادی۔۔۔
باقی اگلے شمارے میں۔۔۔
نوٹ: یہ سفر نامہ تائم میگزین کے ان وزیبل شمارے میں شائع ہوا۔۔۔
سفرنامہ انٹاکٹیکا:
ReplyDeleteہوائی جہاز انٹاڑکٹیکا کے بین القوامی ہوائی اڈے پر اترنے والا ہے، فضائی میزبان کے اس اعلان کے ساتھ ہی ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ جہاز کا عملہ جہاز میں رکھے سامان کی سیٹ بیلٹ باندھنے لگا کیونکہ مسافروں میں انٹارکٹیکا کی سیاحت کے لیے اس فلائیٹ سے صرف میں ہی سفر کررہا تھا۔ بہرحال جہاز بحفاظت برف سے بنے رن وے پر اترا تو ہم نے سکھ کا سانس اور خراماں خراماں ائرپورٹ کی عمارت کی طرف چل پڑے کیونکہ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔
میں ہوائی اڈے سے متصل ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا میں اپنے آئندہ سفر کے لائحہ عمل پر سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے منفی 35 درجہ حرارت میں بھی شدید گرمی کا احساس ہوا۔ میں نے خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کہیں حرارت ایمانی سے سرشار مرد مومن تو یہاں نہیں پہنچ گئے؟ لیکن یہ دیکھ کر اطمینا ن ہوا کہ نہیں انٹارکٹیکا ابھی ان کی دسترس سے باہر ہے ، معلوم ہوا کہ درجہ حرارت ریسٹورنٹ میں چلنے والے ہیٹر کی وجہ سے بڑھ گیا تھا۔ میں نے قریب سے گذرنے والے ویٹر کو بلایا اور اس سے ہیٹر کا تھرمواسٹیٹ کم کرنے کو کہا۔ لیکن میرے اشاروں کے باوجود وہ کچھ بھی نہ سمجھ پایا۔ میں نے مدد کے لیے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی اسے انٹارکٹیکائی زبان میں میرا مدعا سمجھا دے۔ اسی دوران میری نظریں ڈاکٹر ڈینگا سے چار ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب پینگوئن کی افزائش نسل اور فیمیل پینگوئن پر اس کے اثرات پر تحقیق کرنےکے لیے ہر سال موسم سرما میں یہاں آتے ہیں۔ وہ فورا میری مدد کو آگے بڑھے یوں منفی 35 درجہ حرارت میں بھی شدید گرمی سے جان چھوٹی۔
تھوڑی دیر بعد ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر نکل کرمیں سڑک کے کنارے کھڑا ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا۔ برف سے بنی شیشے کی طرح چکمدار سڑک تھی ہر طرح کے داغ دھبوں کے بغیر۔میں نے دل ہی دل میں یو۔ این۔ او کا شکریہ ادا کیا جو ان جاہل اور اجڈ پاکستانیوں کو یہاں کا ویزہ نہیں دیتے ورنہ یہ سڑک بھی پان کے پیکوں سے رنگین ہوتی یا پھر خون سے۔ آس پاس نظر دوڑانے سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کو برف کی انتہائی دبیز تہہ سے ڈھانپ کر پردے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بہت افسوس ہوا کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رجعت پسندانہ نظریات یہاں بھی پہنچ گئے تھے۔ بہت دیر گذرنے کے باوجود بھی جب کوئ ٹیکسی نہیں آئی تو میں دوبارہ ہوائی اڈے کی عمارت میں گیا ، پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہاں کوئی ٹیکسی سروس نہیں ہے۔ مجبورابرفیلی گاڑی [آئس ویہیکل] کرائے پر حاصل کی ،اپنا قطب نما نکالا اور پھر جنوب مشرق کی سمت 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے برفیلی گاڑی کے انگیشن میں چابی گھمادی۔۔۔
باقی اگلے شمارے میں۔۔۔
نوٹ: یہ سفر نامہ تائم میگزین کے ان وزیبل شمارے میں شائع ہوا۔۔۔
عنیقہ جیسے آپ چاہییں۔۔۔۔۔میرا دل آپ سے کچھ باتیں کہنے کو چاہ رہا ہے۔۔میرا خیال ہے ای میل لکھنا زیادہ مناسب رہے گا۔۔۔میں آج کسی وقت میں لکھوں گی۔۔آپ کے پاس جب وقت ہو جواب ضرور دیجیئے گا۔
ReplyDeleteالسلام علیکم،
ReplyDeleteعنیقہ، میں آپ سے درخواست کروں گا کہ پلیز اس پوسٹ سے غیر شائستہ تبصروں کو حذف کر دیں اور اپنے بلاگ سے گمنام تبصروں کو ڈس ایبل کر دیں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گی۔
محمد وقار اعظم، تو آپکی تسلی ہو گئ کہ یہ میں نے پڑھ لیا۔ اب،،،،،،،،،،،،۔ میرے اوپر لکھنے کے بجائے اصل چیزوں پہ لکھئیے۔ اگر آپ میں اسکی صلاحیت ہو تو۔
ReplyDeleteنبیل صاحب، یہ تعاون کی درخواست کیا آپ نے دیگر لوگوں سے بھی کی ہے۔ مجھے اس تبصرے کو ہٹانے میں کوئ پریشانی نہیں میں نے تو امن ایمان سے بھی کہا کہ ایک دفعہ یہ طے ہو جانا چاہئیے کہ کون سے الفاظ غیر شائیستہ ہیں اور کون سا انداز۔ یا بعض مخصوص لوگوں کے لئے ہر غیر شائستگی گوارا ہے اور بعض کے لئے نہیں۔
جہاں تک گمنام کے نام سے تبصروں کا سوال ہے۔ کوئ شخص جاہل سنکی، اے او ہائے اور عبداللہ کے فرضی ناموں سے کرتا ہے یا گمنام رہتا ہے دونوں برابر ہیں۔ میرے ایک دوست نے ایک فرضی نام سے تبصرہ کیا اور چھ مہینے بعد مجھ سے کہا کہ میں بھی آپکے بلاگ پہ تبصرہ کر چکا ہوں۔ اگر وہ مجھے نہیں بتاتے تو مجھے قطعًا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ تبصرہ ان کا تھا۔آپ ان میں صرف ایک کو ڈس ایبل کرنا کیوں چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہی نہیں پاکستان کے بڑے بڑے بلاگرز کے بلاگ پہ فرضی نام کے تبصرے بھی ہوتے ہیں اور گمنام تبصرے بھی موجود ہوتے ہیں کوئ اعتراض نہیں کرتا یہ حتی کہ بلاگرز کی اکثریت فرضی ناموں سے بلاگنگ کرتی ہے۔ یہاعتراض اردو بلاگنگ میں کیوں اتنی شد و مد سے کیا جاتا ہے۔
عنیقہ سمجھا کریں! آپکی تحاریر بہت دنوں سے بہت سے لوگوں کو تپا رہی ہیں اور اب یہ بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں آپکو بھی اردو سیارہ سے باہر کرنے کا،اسی لیئے ان صاحب کے ایسے کسی تعاون کی اپیل کسی اور بلاگ پر آپکو نظر نہیں آئے گی!!!!!!!!!
ReplyDeleteمحترمہ یہ میرا تبصرہ نہیں ہے۔ یہ میرے بلاگ پر ہی اچھی لگ رہی ہے۔ آپ اسے ڈیلیٹ کردیں۔ اور کم از کم آئی پی ہی چیک کرلیا کریں کے یہ صاحب بلاگ نے ہی کیا ہے یا کسی دوسرے کرم فرما نے۔ میرے پاس اپنا بلاگ موجود ہے اور مجھے اسے ہر جگہ پوسٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ReplyDeleteآپ کو تو ویسے بھی میں نے استانی جی کے مرتبے پر فائز کیا ہوا ہے۔ ویسے تو بلاگنگ میں بہت کچھ سیکھا ہے آپ سے تو اصل چیزوں کی نشاندہی بھی کردیں۔۔۔
میں نے بھی اردو پواءنٹ کے رویے سے تنگ آ کر اپنا بلاگ بنایا تھا۔
ReplyDeleteامن ایمان کی طرح مجھے بھی آپکی تحریر کا آخری حصہ سمجھ میں نہیں آیا۔
وقار اعظم صاحب، اول تو یہ میرا فرض نہیں کہ ہر تبصرہ نگار کی آئ پی چیک کرتی پھروں۔ نہ ہی میرے پاس اتنا وقت ہے کہ ہر مبصر کی آپی دیکھ کر اسکا تبصرہ شامل کروں۔
ReplyDeleteاتفاق سے جس طرح مجھے چیک کرنا آتا ہے اسکی آئ پی آپکے بلاگ پہ پہنچ رہی ہے۔ اب اپنے بلاگ کے صاحب تو آپ ہی ہیں میں نہیں۔ میں یہاں اسے پیسٹ کروں کسی کی سمجھ میں اسکی معقول وجہ نہیں آ سکتی۔
اگر آپکی اصل چیز مجھ پہ لکھتے رہنا ہے تو یہ مشق جاری رکھئیے۔
فیصل صاحب ، تحریر کے آخری حصے سے اگر آپکی مراد وہ نوٹ ہے تو وہ میں نے اس میں اس لئے ڈالا کہ یہاں بے کار کی فہمیاں پالنے والوں کی کمی نہیں۔ لوگوں کو یہ نہ لگے کہ میں کسی اور صاحب کا حال دل دیکھ کر اپنی صفائیاں لکھ رہی ہوں۔
عبداللہ اگر اردو سیارہ والے یہ چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ۔ میں بلاگستان کے لئے نہیں لکھتیں۔ لیکن اس سے بلاگستان صرف ایک طرح کے مائینڈ سیٹ رکھنے والے لوگوں کا مرکز بن جائے گا۔ انہیں اس پہ دھیان دینا چاہئیے۔
اُؤں گمنام صاحب یہ ہوئ نہ بات سو سُونار کی تے ایک لوہار کی ،، :dance: :dance:
ReplyDeleteگواہوں کے بیانات اور ثبوتون کی روشنی میں عدلیہ اس نتیجے پہ پہنچی ہے کہ دو معروف بلاگران (جاہل استاد اور پڑھی لکھی استانی) ایک ہی شخصیت کے دو پہلو ہیں
ReplyDeleteعبداللہ اگر اردو سیارہ والے یہ چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ۔ میں بلاگستان کے لئے نہیں لکھتیں۔ لیکن اس سے بلاگستان صرف ایک طرح کے مائینڈ سیٹ رکھنے والے لوگوں کا مرکز بن جائے گا۔ انہیں اس پہ دھیان دینا چاہئیے۔
ReplyDeleteاور وہ یہی چاہتے ہیں اسی لیئے آپکے آنے سے پہلے انکا راوی چین ہی چین لکھتا تھا!!!!!
جس کی چاہتے عزتیں اچھالتے پھرتے تھے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا،جس طرح کی چاہتے غلط بیانیاں کرتے رہتے جس پر چاہتے جھوٹے الزامات کی بوچھار کرتے رہتے،اپنی ناقص معلومات کو دنیا بھر کا علم ظاہر کر کے نئی نسل کو بے وقوف بناتے رہتے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا،
اور جہاں کوئی ان سے اختلاف کرتا سب مل کراس کا جینا مشکل کردیتے!!!!!
کوششیں تو اب بھی جاری ہیں مگر آپ بار بار ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہیں اور آپکا یہ جرم ناقابل معافی ہے!
جماعتی کسی تعارف کا محتاج نہیں ھوتا، اسکا سیاہ دل، غلیظ زبان اور دوغلی چالیں ھی اسکی اصلیت کا پردا چاک کردیتی ھیں۔
ReplyDeleteتحریر تو خیر عامیاتہ ہے تاہم پیروڈی بہت اعلی کی گئی ہے۔ اور پیروڈی بھی ہمیشہ مشہور لوگوں کی ہی کی جاتی ہے۔
ReplyDeleteیہ دنیا میں جہاں کہیں اردو لکھی جائے گی اب وہ اردو محفل والوں سے پوچھ کر لکھی جائے گی؟