اس برتری کے باوجود جو انگریز خواتین کو اپنی مشرقی بہنوں پر تعلیم اور شستہ کمالات کی وجہ سے حاصل ہے، میں مشرقی خواتین کے حسن کو ترجیح دینے پر مجبور ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ میرے انگریز قارئین میرے ذوق سلیم کو قومی عصبیت پر محمول کریں گے۔ ہم سب اپنے اپنے ملک ، آب و ہوا، رسم و رواج، مجلسی آداب اور اداروں کو جانبدارانہ نظر سے دیکھنے کا میلان اور رجحان رکھتے ہیں۔اانگریز میری اس کمزوری کو، اگر یہ کوئ کمزوری ، تو اچھی نگاہ سے دیکھیں گے اور مجھے معاف فرما دیں گے۔ خالص چٹّا رنگ، نیلگوں آنکھیں، سنہرے بال جو انگلستان میں بہت پسند کئے جاتے ہیں، مشرق کے مذاق میں خوبی کے بجائے نقص سمجھے جاتے ہیں۔ مشرق میں رنگ کی صلاحیت سیاہ چمکدار آنکھیں اور کالے بال عورت کے محاسن میں داخل ہیں اور انہیں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انگریز خواتین مصنوعی حسن کاری میں جو تعلیم اور ذہنی نشو نما کا نتیجہ ہے، مشرقی خواتین سے اس قدر آگے بڑھی ہوئ ہیں کہ دونوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تعلیم کا اثر ہے کہ انگلستان کی خواتین ستھری تمیز ، مجلسی آداب کی شستگی اور اہلیت کار سے مزین ہیں اور انہیں اوصاف کی وجہ سے انہوں نے معاشرے میں اپنی جگہ حاصل کر لی ہے اور خانگی اور سماجی حلقوں میں صنف نازک کے فرائض ادا کرنے کی ذمے داری سنبھال لی ہے۔ لیکن جتنی تعریف میں دیگر معاملات میں انکی خوش ذوقی کی کرتا ہوں انکے شام کے لباس کی وضع قطع کی جو انہوں نے اختیار کر رکھی ہے نہیں کر سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ عادت، قومی رواج اور تعلیم کا ہے مگر مشرق کا رہنے والا لباس کی اس ننگی وضع میں شرم و حیا کی کمی محسوس کرے گا۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں میں ایک اس زمانے کی یورپی خاتون کی تصویر ڈال رہی ہوں۔ یہ تصویر اس کتاب کا حصہ نہیں ہے۔ یہ یاد رہے کہ یوروپ میں مختصر کپڑوں کے فیشن نے پچاس کی دہائ کے بعد جنم لیا۔
میں نے انگلستان میں دیکھا کہ یہاں ہر بے انصافی کا مداوا ہے۔ ہر شخص کو اپنے حقوق طلب کرنے کا استحقاق ہے اس کے علاوہ کوئ بھی آدمی خواہ سماج میں اسکی حیثیت کچھ ہی کیوں نہ ہو بلا مقدمہ چلائے مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا نہ سزا پا سکتا ہے۔ جن حالات کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ان سے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ایک بڑے حصےمیں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہندوستان میں بلا کسی سوال کے ایک ایسی عدالت کا قیام ضروری ہے جہاں ان لوگوں کو جو انگریزی قانونی عدالتوں کے حلقہ ء اثر میں نہیں آتے کسی جرم کے عائد کئیے جانے پر یا برطانوی افسران کے ہاتھوں اپنے حق کی پامالی پر غیر جانبدارانہ اور کھلی عدالتی کارروائ کا مطالبہ کرنے یا اپنے نقصان کی تلافی کے لئے ثبوت دینے کا موقع مل سکے۔ ایسی عدالت کا نہ ہونا برطانوی ہند کے نظم و نسق پر ایک طرح کا دھبہ ہے۔ مجھے علم ہے کہ لوگوں میں گہری بے اطمینانی اور بے چینی کی وجہ یہی ہے۔
یہ بات مجھے عجیب سی معلوم ہوتی اور اس اصول کے خلاف بھی جس کے تحت برطانوی ہند کے نظم و نسق کے ہر محکمے اور ہر شاخ میں مساوی اور مناسب کارکردگی پیدا کرنے کے لئے مسلمہ قابلیت کے آدمی اور عدالتوں میں بہترین تربیت یافتہ قانون داں جج رکھنا تو ضروری سمجھا جائے مگر ایک بڑی تعداد کے مشکل اور اہم معاملات کے لئے قانونی کارروائیوں کا انصرام گورنر جنرل کے ایجنٹ جیسے شخص کے ہاتھ میں چھوڑ دیا جائے جو بیشتر فوجی ملازمت کا آدمی ہوتا ہے۔ اگرچہ اسے عام طور پر سیاسی امور کا تجربہ ضرور ہوتا ہے مگر وہ قانون کی تعلیم سے بے بہرہ اور نابلد ہوتا ہے۔
اگر میری تحریر نے میرے ہم وطنوں میں ، انگلستان اور عام طور پہ یوروپ کے سفر کا شوق پیدا کیا تو مجھے بڑی خوشی ہوگی ان ممالک کو دیکھے بغیر مغربی تہذیب کا ٹھیک ٹھیک تصور ممکن نہیں۔ اس تہذیب نے یوروپ کی اقوام کے لئے کیا کیا اور کر رہی ہے اور ان قوموں کے ذریعہ سے مشرق اور مغرب میں کیا فائدے پہنچا رہی ہے اس کا علم بھی بلا دیکھے نہیں ہو سکتا۔ غیر ممالک اور دوردراز مقامات کے سفر اور مختلف مذاہب کے رسم و رواج اور اخلاق و آداب کی حامل قوموں کے میل ملاپ اور ان میں گھل مل کر رہنے سے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور تعصب جو نا واقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے ، دور ہوتا ہے۔ میرے بیشتر ہم وطن اور ہم مذہب اس وہم میں ہیں کہ مذہبی اصول لازماً توڑنا پڑیں گے، یوروپ کے سفر پر معترض ہوتے ہیں جبکہ ترکی ، عرب اور مصر کے مسلمان یوروپ آتے ہیں۔ عیسائیوں کے شہروں میں رہتے اور یوروپ کے معاشرے میں گھلتے ملتے ہیں مگر انکے مذہب کو ٹھیس نہیں لگتی۔ پھر ہندوستان کے مسلمان کو اس قسم کے شکوک اور شبہات کیوں ہونے چائیں۔ یہ لوگ بھی ایسے ہی کٹّر مسلمان ہیں جیسے ہندوستانی مسلمان، مگر اس قسم کے وہم میں مبتلا نہیں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یوروپ کے قیام میں انہیں کوئ دشواری پیش نہیں آئے گی۔ انہیں صرف شراب سے جسے پینے پر بغیر مرضی کے مجبور نہیں کیا جاتا اور سوءر کے گوشت سے بچنا ہوگا۔ ہندوستان کی طرح یوروپ میں بھی اسلامی احکام کے ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں جتی کہ اسلامی طریقہ پہ ذبیحہ کا انتظام بھی ہو سکتا ہے۔
اسکے ساتھ ہی اقتباسات کے اس سلسلے کا اختتام ہوتا ہے۔
[غیر ممالک اور دوردراز مقامات کے سفر اور مختلف مذاہب کے رسم و رواج اور اخلاق و آداب کی حامل قوموں کے میل ملاپ اور ان میں گھل مل کر رہنے سے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور تعصب جو نا واقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے ، دور ہوتا ہے۔]
ReplyDeleteعمومی طور پر یہ بات درست ہے لیکن کچھ شیدائی ایسے بھی ہیں جن پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ وہ آدھی دنیا گھوم کر بھی ذہنی پسماندگی کا شکار ہی رہتے ہیں۔ بات ان کے منہ سے ویسے ہی نکلے گی کہ گویا کسی اندھے کنوئیں میں رہ رہے ہوں۔
عثمان، آپکا کہنا صحیح ہے۔ ویسے ہم اکثر کہتے ہیں کہ فلاں کا ایکسپوژر نہیں ہے اس لئے وہ ایسی بات کرتا ہے لیکن لوگ ایک دنیا گھوم کر آتے ہیں مگر ویسے کے ویسے ہی ہوتے ہیں۔
ReplyDeleteہاں اور یہ بات کافی حیران کن ہے۔ میری سوشل تھیوری آف انٹلیکچوئل ایولوشن کے مطابق علم ، مشاہدہ اور تجربہ بتدریج انسانی خیالات ، فکر و فہم میں نمایاں تبدیلیاں لاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں پر یہ ثابت نہ ہوئی۔ ذاتی طور پر میرا خیال یہی ہے کہ یہ لوگ زومبی ہیں۔ لیکن زومبی کیسے بنے؟ اور بہتر انسانی ماحول میسر ہونے کے باوجود زومبیت سے باہر کیوں نہیں آسکے؟۔۔ زومبی کثیرالاقومی ، کثیر السانی اور کثیر لامذہبی جگہوں میں رہ کر بھی ، اپنی عادات ، فرسودہ خیالات، تعصبات اور سٹیریؤٹائپ سے چھٹکارا کیوں نہیں پا سکے؟ ان میں اور ایک گنوار ناتجربہ کار شخص میں تمام تر علم ، مشاہدے اور تجربے کے باوجود فرق کیوں نہیں آسکا؟
ReplyDeleteکیا بچپن کی زومبی تربیت اسقدر کارگر ثابت ہوئی کہ انسانی ماحول بھی اس میں کوئی فرق نہ لا سکا؟
کیا انسانی ذہن اپنی بعض حالتوں میں جامد بھی رہ سکتا ہے؟
انفرادی ذہنی ارتقاء کچھ میں واقع کیوں نہیں ہوا؟
مجھے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ میری تھیسز ایڈوائزر بن جائیں۔
Please correct the name of the author:
ReplyDeleteHafiz Ahmad Hasan
(not حافظ حامد احسن )
salami
imalas7@gmail.com
سلامی صاحب، آپکی آمد اور توجہ دلانے کا شکریہ۔
ReplyDelete