ابھی چند دن پہلے عرصہ ء پانچ سال کے بعد مجھے اس ہسپتال میں جانے کا دوبارہ اتفاق ہوا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئ کہ ہسپتال اسی طرح صاف ستھرا تھا جس طرح چارسال پہلے جبکہ یہ اپنی تعمیر کے ابتدائ مراحل میں تھا۔
جتنی دیر ہم موجود رہے انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ چار خواتین کا آپریشن کیا۔ ایک کا پہلے ہو چکا تھا۔ اور اس دوران مختلف کام بھی نبٹاتے رہے۔
ہسپتال میں محض فسچولا کا علاج ہی نہیں ہوتا بلکہ عورتوں کے جملہ امراض کا علاج بھی کیا جاتا ہے جن میں حمل ، زچگی، ،سن یاس اور بانجھ پن شامل ہیں۔
شاید اسی لئے اسکا نام 'عورتوں کا ہسپتال' رکھا گیا ہے۔
علاج کی غرض سے آنے والی خواتین کا علاج مفت کیا جاتا ہے ۔ صرف مریض ہی نہیں بلکہ تیماردار کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ یوں یہاں ایک کینٹین بھی ہے جہاں سے ہسپتال کا عملہ ہی نہیں ڈاکٹر صاحبان بھی وہی کھانا کھاتے ہیں۔
فسچولا کے مریضوں کے لئے ایک علیحدہ وارڈ ہے |
یہاں مڈوائفری کا کورس کرانے کے انتظامات بھی ہیں اور نرسنگ کی تربیت کا بھی انتظام بھی۔ یوں مقامی گوٹھوں کی بلوچ لڑکیوں کو کافی تعداد میں اس میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ ان تربیتی کورسوں کے علاوہ مقامی گوٹھ کی دلچسپی رکھنے والی خواتین کی مفت ابتدائ تعلیم کے لئے بھی ایک گوشہ مختص کیا گیا ہے جسے سندھ ایجوکیشن فاءونڈیشن چلا رہا ہے۔
سندھ ایجوکیشن فاءونڈیشن کی استاد اپنے کمرہ ء جماعت میں |
بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا پارک |
اگر آپ کے نزدیک کوئ خاتون محض پیسوں کی وجہ سے علاج کرانے سے ہچکچاتی ہیں تو انہیں اس ہسپتال کا پتہ ضرور دیجئیے۔ ہسپتال مختلف ڈونیشنز سے چلتا ہے اگر آپ بھی دینا چاہیں تو اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ایک پسماندہ ملک کی پسماندہ خواتین کے لئے یہ ہسپتال ترقی کی ایک علامت ہے۔ مزید معلومات کے لئے یہ ویڈیو دیکھئیے۔
ہسپتال کے مختلف حصوں سے گذرتے ہوئے میری نظر ایک زمین کے نیچے جاتے ہوئے راستے پہ پڑی۔ بتایا گیا کہ اس کا نام ہم نے مصطفی کمال بائ پاس رکھا ہے۔ کیونکہ مصطفی کمال اتنی تیزی سے بائ پاس بنوا رہے تھے جس زمانے میں ہمیں اسے بنانا پڑا۔ مگر ضرورت کیا پڑی تھی اسے بنانے کی؟ دراصل مقامی گوٹھ کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ اس ہسپتال کی وجہ سے گوٹھ کے اندر چلنا انکے لئے مشکل ہو گیا ہے۔ اس لئے ہسپتال کی زمین میں سے انہیں راستہ دینا پڑا۔ یوں دو ٹکڑے ہونے کے بعد دوسرے ٹکڑے سے رابط کے لئے یہ بائ پاس بنانا پڑا۔
ہمم، یہ دلوں کے درمیان بائ پاس بنانے سے پہلے زمین میں بھی بائ پاس بنانا پڑتے ہیں۔
:)
جزاک اللہ عنیقہ،،،
ReplyDeleteاللہ آپکو اس تحریر کا اجر دین، یہ ثواب جاریہ ہے، اس ہسپتال کا مکمل ایڈریس بمہ فون نمبرز اگر دیں سکیں تو مہربانی ہوگی آپکی۔
ReplyDeleteفکر پاکستان، یہ گوٹھوں کے ایسے پتے نہیں ہوتے جیسے شہروں کے ہوتے ہیں۔ کوہی گوٹھ، کراچی کے علاقہ لانڈھی میں واقع ہے۔ نیشنل ہائ وے پہ سفر کرتے ہوئے یہ آپکو ملیر میں روڈ کے بائیں جانب ملے گا۔ مین روڈ پہ ہسپتال کا نام اور سمت موجود ہے۔
ReplyDeleteیہ دوسری ویڈیو میں جناب ڈاکٹر شیر شاہ کا ای میل ایڈریس اور کانٹیکٹ نمبر موجود ہے۔ آپ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
بہت معلوماتی تحریر ہے عنیقہ آپ کی ۔۔ یقینا بہت سی خواتین کو معلومات فراہم کرنے مین مدد مل سکتی ہے ۔
ReplyDeleteامید
عنیقہ سب سے پہلے تو اس بات پر مبارکباد قبول کریں کہ اس وڈیو پر آپکو سو کالڈ مومنین کے آپکے اسلام پر فتوی نصیب نہیں ہوئے ،اور معاشرے کے ٹھیکے داروں نے آپ پر معاشرے میں بگاڑ ،بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا الزام عائد نہیں کیا!
ReplyDeleteہم لوگ اُس پاکیزہ دھرتی پر رہتے ہیں جہاں پاسدارانِ مذہب نے ڈاکٹر شیر شاہ سید تک کو اپنے فتاویٰ کی بابرکت روشنی سے منور کیا ہوا ہے
ReplyDeleteآپ لوگوں نے اگر ڈاکٹر صاحب کی مختصر کہانیاں نہیں پڑھی ہوں تو پہلی فرصت میں پڑھ لیں
شاید کچھ پرانا کراچی ہی پتا چل جائے کہ کیا تھا کیا ہوگیا۔۔۔ ہمارے مذہبی معاشرے کے تضادات پر جتنی گہری نظر ڈاکٹر صاحب کی ہے اتنی شاید کسی اور کی نہیں۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کیلئے میں کیا کہوں الفاظ نہیں ہیں میرے پاس
شِکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمَع جلاتے جاتے
وہ اپنے حصے کی شمع تو جلا ہی رہے ہیں مگر کچھ کچھ ہماری بھی
اِک ضروری وضاحت : اوپر مذکور بکواس میں مذہب کا لفظ استعمال ہوا ہے اسلام کا نہیں۔ چنانچہ سب احباب سے گذارش ہے کہ دونوں کو گڈمڈ نہ کریں۔ شکریہ
اِک ڈر : میں نے ڈاکٹر صاحب کیلئے بلاگ میں کچھ جگہ سیاہ تو کردی پَر اب دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کب مجھ پر فتاویٰ کا نور ٹوٹ کر برسے گا۔۔۔۔۔۔۔
بلیک شیپ، جی ہاں ڈاکٹر شیر شاہ بہت اچھے لکھاری بھی ہیں۔ انکی مختصر کہانیوں کا تازہ مجموعہ آ چکا ہے جسکا نام ہے دل نے کہا نہیں۔ وقت ملنے پہ اس میں سے کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لکھنے کے لئے بہت زیادہ کچھ ہے اور وقت محدود۔ اف۔
ReplyDelete