دیکھیں آپکو یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ مارنا پیٹنا اچھا نہیں ہے۔ فرض کریں کہ آپ خواتین پہ ہونے والے تشدد کا تذکرہ کرتی ہیں تو اکثریت اسے ریجیکٹ کر دے گی کہ یہ ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ یا ہم نے تو کبھی کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ کوئ آپکو صحیح جواب نہیں دے گا۔ آپ اسی خیال کو ذرا اور طریقے سے کر سکتی ہیں۔ مثلا کیسے؟ میں نے اپنی آنکھیں اس روشن چہرے والی لڑکی کے چہرے پہ جمائیں۔ جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد فل برائیٹ کے اسکالر شپ پہ امریکہ روانہ ہوئ اور وہاں سے سوشل ہیلتھ سائینس پر ڈگری لے کر لوٹی۔ اور اب پاکستان کے دیہاتوں اور شہروں میں اس حوالے سے مختلف پروجیکٹس پہ کام کر رہی ہے۔ مثلاً آپ ان سے پوچھیں کہ تشدد کیا ہوتا ہے؟
آپ میری بات سمجھ رہی ہیں ناں۔
میں خاموشی سے اسکی باتیں سنتی رہی۔ وہ لوگ جو نئ وسعتیں دیکھ کر لوٹتے ہیں انکی باتیں خاموشی سے سننی چاہئیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری پرانی سرحدیں نئ وسعتوں سے مل پائیں۔
تشدد کیا ہوتا ہے؟ یہ ہے آج کا سوال۔
میں نے آج کل میں ایک کتاب پڑھی۔ یہ کتاب ابھی حال ہی میں کراچی میں منعقدہ، کتاب میلہ سے لی تھی۔ میں نے اسے خالد جاوید کا ناول سمجھ کر لیا لیکن یہ انکے افسانوں کا مجموعہ نکلا۔ خالد جاوید ایک ہندوستانی ادیب ہیں۔ انکے دو افسانے میں نے پہلے پڑھے تھے اور ان سے کافی متائثر ہوئ۔ مجموعہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ خالد جاوید موت کے کہانی کار ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریبا ہر کہانی میں موت کو مختلف انداز سے زندگی سے جوڑا ہے۔
مگر یہاں انکی ایک کہانی 'روح میں دانت کا درد' کے چند اقتباسات حاضر ہیں۔ کہانی میں سے اقتباسات کو الگ کرنا خاصہ بے رحمی کا کام ہے، یعنی یہ بھی ایک تشدد ہے۔ یہ اقتباسات ہمارے موضوع تشدد سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہم نفرت کر سکتے ہیں، ہم کسی کو بھی نفرت کا موضوع بنا سکتے ہیں۔ یہ تشدد ہے۔ دانتوں کا کیڑا اندر ہی اندر نہ جانے کون سی سرنگ بنا رہا تھا۔ ایک منہ سے دوسرے منہ تک بدبودار آندہیاں چل رہی تھیں۔ انکے آلودہ جھکڑوں میں کیا کیا نہ مٹ جائ گا۔ مگر زندہ رہنے کے لئے نفرت کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اگر تشدد ہی ہر مسئلے کا حل تھا تو سڑی ہوئ داڑھ نکلوا کر پھینک دینے سے زیادہ اسے سینت سینت کر پیوند لگا لگا کر رکھنا زیادہ معنی خیز تشدد تھا۔
یقیناً یہ سب جاہلانہ تھا۔ جہالت، بد ذوقی، نا سمجھی اور بد دماغی، یہ سب کتنی حقیر اور نظر انداز کر دینے کے قابل چیزیں تھیں۔ مگر جب یہ چیزیں تمہاری زندگی میں منظم طریقے سے داخل ہوتی ہیں اور باقاعدگی سے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہوئ تمہارے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہو جاتی ہیں تب تشدد اور نفرت کی یہ قسم پیدا ہوتی۔ خطرناک، چالاک اور ٹچا تشدد جو اپنی طرف اٹھی ہوئ ایک خشمگیں آنکھ کا بدلہ بھی دوسرے سے چہرے پر دعا پڑھوا کر لیتا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی تشدد الگ الگ شے نہیں ہیں۔
کبھی کبھی وہ اپنے مرے ہوءوں سے مدد مانگتا۔ اور یقیناً یہ بھی تشدد ہے۔ دنیا جہاں سے ماوراء ان پاک روحوں کو دوبارہ گھسیٹ کر کھینچ کر دنیا میں لانا ان سے دنیا کے کاموں کی مدد لینا انکی روحوں کو شدید کرب اور چڑچڑاہٹ میں مبتلا کر دینے کے علاوہ اور کیا تھا ؟ یہ تشدد کا حصار تھا جو اپنی ماہیت میں دنیا کے رنگ و ریشے میں سما گیا تھا۔
باقی جو کچھ بھی ہے آپ نپٹتی رہيئے ۔ مجھے صرف دو غير متعلقہ باتيں بتا ديجئے
ReplyDeleteدہ کی جمع ہے ديہات ۔ تو ديہاتوں کيا ہوا ؟
وہ امريکہ سے پڑھ کر آنے والی لڑکی کا کيا بنا ؟
آپ نے تو موت کی کہانياں شوع کر يں زندگی ہی ميں ؟
انجمن اتحاد کھوتاز کے چیرمین ؛ ہسپانوں بابا فرام وائین فارم بآرسیلونا ،
ReplyDeleteحاضر ھو
مذکورہ خاتون اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور غالبا کسی این جی او سے وابسطہ ہیں یا کم از کم این جی او ٹائپ کے کام میں مصروف ہیں. لیجئے۔۔لوگوں کے منہ کا مزا تو آپ نے یہیں کرکرا کردیا۔ باقی جو مشورہ انہوں نے دیا ہے وہ میں پہلے ہی ایک تحریر میں ذرا بھونڈے انداز میں آپ کے گوش گذار کرچکا ہوں کہ الفاظ اور اصطلاحات بدلتے رہیں۔ صرف "تشدد" ہی نہیں۔۔بلکہ لفظ "عورت" کا استعمال بھی ترک کردیں۔ اس کی جگہ "سبجیکٹ" کا استعارہ استعمال کریں۔ باقی آپ کی یہ تحریر اور اس کا فلسفہ تھوڑا مشکل ہے۔ جہاں لوگوں کو سیدھی بات سمجھ نہ آئے وہاں ایسا اوکھا فلسفہ کیا کام دے گا؟
ReplyDeleteیہ بھی ایک طرح کا تشدد ہی ہے۔
افتخار اجمل صاحب، اردو میں بعض الفاظ کی کوئ ایک جمع نہیں مثلاً سال کی جمع سالوں بھی ہوتی ہے اور سالہائے بھی۔ اسی طرح ایک قاعدہ جمع الجمع بھی کہلاتا ہے یعنی جمع کی جمع۔ دیہہ کی جمع دیہات اور دیہات کی جمع دیہاتوں۔ خبر کی جمع اخبار اور اخبار کی جمع اخبارات یا اخباروں۔
ReplyDeleteوہ لڑکی سوشل ہیلتھ سائینسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے اسکالرشپ کی تلاش میں ہے۔
لوگ تو عملی طور پہ زندگی میں موت کو شامل کر رہے ہیں۔ میں نے تو صرف کہانیاں بیان کی ہیں۔ موت کی کہانیاں زندگی میں ہی بیان کی جا سکتی ہیں۔ مرنے کے بعد تو ہم سب جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔
عثمان، مذکورہ خاتون کراچی کے ایک مشہور ہسپتال کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں ہیں۔ کچھ لوگوں کے منہ کا مزہ تو صرف اتون کا معمول سے زیادہ پڑھ لینے کی وجہ سے ہی کرکرا ہو جاتا ہے۔ یہ تو ہے۔
الفاظ ہماری زندگی بھر کی کمائ ہوتے ہیں۔ جب ہم مرنے لدتے ہیں تو شاید اس بات کاافسوس بھی ہمیں ہوتا ہے کہ ہم الفاظ کے ذخیرے سے محروم ہو جائیں گے۔ سو کسی لفظ کو اتنی آسانی سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔
بی بی ۔ ميری بات کا برا نہ منايئے گا ۔ آپ کے قلم کو اخباری اُردو زيب نہيں ديتی ۔ جمع الجمع کی مثال جبر سے اخبار اور اخبار سے اخبارات درست ہے ۔ مگر ديہاتوں درست نہيں ہے ۔ يہ احبار والوں نے بنا ديا ہے جو آجکل طلباء کو طلبہ لکھتے ہيں
ReplyDeleteپھر آپ نے سالہائے لکھ ديا ہے ۔ يہ بھی غلط ے ۔ لفظ سالہا ہے
ميں اُردان نہ سہی ليکن حسب نسب کا کچھ تو اثر ہوتا ہے ميرے بزرگوں ک تعلق آگرہ ۔ دِلّی [دہلی} اور حيدرآباد دکن سے رہا ہے ۔ ميں اُردو ميں خراياں بہت محسوس کرتا ہوں
اصل بات یہی ہے کہ سچ کیا ہے ؟ مولویوں نے تو اُمت کو فرقوں میں تقسیم کردیا ہے۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگر ایک لاحاصل بحث کے ذریعے جیسا کہ رفع یدین وغیرہ کے نام پر ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں کو تقسیم کردیا گیا۔ اصل معاملہ جہالت سے جنگ ہے جو فردِ واحد کا کام نہیں ہے۔
ReplyDeleteافتخار اجمل صاحب، میں ماہر لسانیات نہیں۔ اردو میری مادری زبان ہے وہاں سے سیکھی ہے یا اردو ادب سے اپنے شغف کی بناء پہ۔
ReplyDeleteاس میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔
لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو گرامر اور صرف و نحو اپنی بنیاد میں بہت واضح نہیں۔ جس زبان سے ایک لفظ آیا ہے اسی زبان کی یمع کا طریقہ بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ اور زبان پہ مقامی اثرات بھی آجاتے ہیں یوںایک ہی لفظ کی کئ جمع استعمال ہوتی ہیں اور وہ غلط نہیں ہوتیں، بلکہ انکا انحصار جملے کی ساخت پہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً خبر کو ہی لے لیں اسکی ممکنہ جمع ہیں خبریں، خبروں، اخبار مزید الفاظ حاضر ہیں
ذریعہ، ذریعے، ذریعوں اور ذرائع
نمائندہ، نمائیندے، نمائیندوں
کتاب، کتابوں، کتابیں، کتب
بچہ، بچوں، بچے
رسالہ، رسالے، رسالوں، رسائل
وغیرہ وغیرہ
سالہا کی اصطلاح سوائے سال ہا سال کے میں نے کبھی استعمال ہوتے نہیں پڑھی۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ سال ہائے کی مختصر شکل ہے جو ایک مرکب اصطلاح بنانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ہائے لگا کر جمع بنانے کا قاعدہ فارسی سے لیا گیا ہے۔ یوں سال کی جمع ہوتی ہے سالہائے، گل کی گلہائے، بچہ کی بچہ ہائے، صد کی صد ہائے وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹر عنیقہ ناز صاحبہ
ReplyDeleteضروری نہیں کہ جسے ہم نیا سمجھ رہے ہوں وہ واقعی نیا ہو۔ ممکن ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں سال سے بھی زیادہ قدیم خیال سےبھی ازکار رفتہ اوربد ترین حد تک ہلاکت خیز کوئی چیزہو۔ بقولِ علامہ اقبال ’’دلیلِ کم نظری ، قصہ قدیم و جدید‘‘
اب تشدد ہی کو لیجیے۔ یہ انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے رہا ہے۔ قدیم زمانوں میں اس کی نوعیت کافی سادہ (مثلا آمنے سامنے بدکلامی، طعن و تشنیع، ہاتھا پائی، لاٹھی چھڑی یا کوڑے خنجر اور تلوار جیسے ہتھیاروں کے ساتھ جسمانی نقصان پہنچاناتھی۔ اس قسم کے تشدد سے دو چار افراد، یا جنگوں کی صورت میں زیادہ سے زیادہ چند سو یا چند ہزار افراد متاثر ہوتے تھے۔ دورِ حاضر میں نام نہاد علم، روشن خیالی اور ٹیکنالوجی کے عمل دخل سے تشدد کی نوعیت ، حالتوں، پھیلاو اور شدت میں بے پناہاضافہ اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ ہمارے جاہل معاشروں کو تو رکھیے ایک طرف، خود یورپ ، امریکہ جیسے نہایت علمی اور سائنسی بنیادوں والے معاشروں میں تشددکے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات و واقعات اظہر من الشمس ہیں۔آپ نے چند ہفتےقبل مائیکل مور کی فلم ’’بولنگ فار کولمبائن‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے کئی واقعات ان معاشروں میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن میں نو عمروں نے آتشیں اسلحے کا استعمال کرتے ہوے اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا ہو۔ کیا ایسے واقعات قدیم زمانے میں عام تھے؟
پھر گھریلو تشدد میں بھی یہ جدید معاشرےاپنی تمامتر آزادیوں اور قانونی تحفظات کے باوجود کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
جہاں تک جنگی تشددکا تعلق ہے تو اس میں پوری انسانی تاریخ میں ٹاپ کرنے کا اعزاز بھی انہی روشن خیال معاشروں کو نصیب ہوا۔ ہٹلر، چرچل، مسولینی، قیصرولیم،سٹالن ، روزویلٹ ،آئزن ہاور،جانسن ، نکسن، بُش(سینیر وجونیر)، جان میجر، بلیئر اور اوباما وغیرہ وغیرہ میں سے کوئی بھی قدامت پرست ، مذہب پرست یا طالبان وغیرہ نہ تھا۔تقریبا سبھی بڑی بڑی یونیورٹیوں سے فارغ روشن خیال ، سیکولر یا سوشلسٹ تھے۔ لیکن سب سے زیادہ تشدد پسندی کے تمغے انھی کے سینوں پر سجے۔ بلا مبالغہ ان لوگوں نے صرف چند عشروں میں کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اور تاحال اوباما جیسے مہرے اسی کام میں مصروف ہیں۔
یہی بات وسعت کے حوالے سے بھی درست ہے۔ ممکن ہے کہ جسے آپ وسعت سمجھ رہے ہوں وہ بدترین تنگ نائے ہو۔خود آپ کا تعلق سائنس سے ہے۔ آپ یقینا مجھ سے بہتر جانتی ہیں کہ ہمارے جسم کے تمام اعضا کے اپنے اپنے مخصوص افعال ہیں، اور ہر عضوعلمی اور سائنسی اعتبار سے اپنے خاص فعل کے لیے ہی مختص ہے۔ اسے کسی اور کام کے کیے استعمال کرنا فطرت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ لیکن آج کی روشن خیالی اور وسیع النظری اسے کلی طور پر تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اوروسعت کے نام پر بدفعلی کی نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔یہ کہاں کی وسعت ہے؟اس سے انسانی خاندان یا معاشرے کی کونسی بہتری یا ترقی ہوتی ہے؟ بلکہ یہ تو فیملی کے رہے سہے بھرم کے خاتمے کا اعلان ہے۔ ع یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟
جہاں تک سوال کرنے کا تعلق ہے تو’’ تشدد کیا ہے ؟‘‘ کےعلاوہ بھی بہت سے سوالات ذہن میں آ سکتے ہیں مثلا
جمہوریت کیا ہے ؟ ۔۔۔۔۔ کیا یہ عوام کی حکومت ہے یا تاجرالملوکی (کارپوریٹوکریسی ) کا دوسرا نام ہے، جس میں امریکی صدر اور کانگرس بھی ان منافع خورقاتلوں کے ہاتھوں میں معمولی مہرے ہوتے ہیں؟
لبرلزم کیا ہے؟ کیا یہ واقعی دوسروں کے خیالات کو برداشت کرنے کا نام ہے، یا روشن خیالی کا جھنڈا اٹھا کر باقی سب کو علم و ہنر کے کوڑے دان میں پھینک دینا ہے؟
سب سے بڑھ کے ،آجکل کے تناظر میں کہ دہشت گردی کیاہے؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کئی سالوں کی بحث کے باوجود اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے بھی نہیں متعین کر سکے۔
میرا زبان دانی یا اہلِ زباں ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں۔ نہ ہی میرا نسبی تعلق آگرہ و حیدر آباد سے ہے۔ ہاں ان علاقوں کی اسلامی تہذیبی اہمیت اور قیامِ پاکستان کے لیےیہاں کے مسلمانوں کی بے لوث و لازوال قربانیوں اور کاوشوں کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں سے مجھے یک گونہ قلبی لگاوضرور ہے۔شاید اسی لیے میرے بہت سے دوستوں کا تعلق مسلم ہندوستان سے ہے۔
ReplyDeleteفارسی میں ہائے لگا کر جمع بنانے کا کوئی قاعدہ نہیں۔مستثنیات سے قطع نظر فارسی میں جمع کے دو عام قاعدے ہیں۔ انسانوں کے مختلف گروہوں اور جانوروں کے لیے جمع کا صیغہ، واحد کے آخر میں الف نون کے اضافے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلا زن۔زنان، بد۔۔بدان، نیک۔۔۔نیکان،پاک۔۔پاکان، سگ۔۔۔سگان،شیر۔۔۔شیران۔ وغیرہ وغیرہ۔ بے جان چیزوں، اور جانوروں کے لیے بھی،جمع کا صیغہ ، واحد کے آخر میں ’’ہا‘‘ لگانے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ ’’ہائے‘‘۔آجکل کی ایرانی فارسی میں لوگوں کے لیے بھی ہا والی جمع مستعمل ہے۔ مثلا زنہا، خانمہا، مردہا، سگ ہا، وغیرہ۔
’’ہائےــ‘‘میں ئے یائے نسبتی ہے۔انگریزی میں آف اور اردو میں کا۔کے۔ کی کے معنوں میں۔ مثلا ریاستہائے متحدہ امریکہ۔ ترجمہ ہے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکا کا۔ اسی طرح گلہائے رنگ رنگ یعنی رنگ رنگ کے پھول، گنجہائے گراں مایہ وغیرہ وغیرہ۔
بچے اور بچوں وغیرہ جمع کی مختلف قسمیں نہیں بلکہ اسم کی مختلف حالتیں (کیسز) ہیں۔
ایک متوازن تجزیہ ،عطاءالحق قاسمی کے قلم سے،
ReplyDeletehttp://ejang.jang.com.pk/1-21-2011/Karachi/pic.asp?picname=06_09.gif
حصہ دوم
http://ejang.jang.com.pk/1-22-2011/Karachi/pic.asp?picname=06_09.gif
غلام مرتضی علی صاحب، یہ اس بلاگ کی ہر تحریر میں سے آپ روشن خیالی یا لبرلزم کیوں چحان پھٹک کر نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ شکر ہے آپ نے ہلاکو خان، چنگیز خان اور سکندر وغیرہ کو روشن خیال اور لبرل رہ نما قرار نہیں دیا۔
ReplyDeleteقدیم انسان تشدد کا عادی تھا۔ خاص طور پہ جسمنای تشدد۔ تاریخ کہتی ہے کہ ابتدائ انسان مردم خوری کا عادی تھا۔ صرف اصطلاحی ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انسان ایک دوسرے کا خون پیتے اور مفتوحین کی کحوپڑیوں کے مینار بناتے۔ تاریخ میں کوئ ایسا زمانہ نہیں گذرا جب انسان تشدد کی برف مائل نہیں رہا۔ انسان نے تشدد کی بڑی بھیانک اور درد انگیز تصویریں بنائ ہیں۔ عہد حاضر میں تشدد کی شکل بدل گئ ہے۔ انسان نے تمدن میں ترقی کے ساتھ جسمانی تشدد کے علاوہ بھی تشدد کے طریقے نکالے ہیں۔ ےشدد انسانی فطرت کی اس تصویر کا حصہ ہے جو ہم دیکھ نہیں پاتے۔ شاید۔
طاقت اور تشدد کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
یہ آپکی فارسی کی جمع والی بات صحیح لگتی ہے کہ ئے حرف اضافت کے طور پہ استعمال ہوتا ہے۔ میں فارسی نہیں جانتی۔
لیکن اردو میں جمع تو اسم ، فعل اور صفات سب کی ہوتی ہے۔ اس لئے اسم کی حالتیں کیا؟ لازمی طور پہ بچے زیادہ بچوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ آپکی متعلقہ معلومات کا شکریہ۔
آپکی کچھ باتوں کو میں نے اپنی اگلی پوسٹ کا موضوع بنایا ہے۔ اس لئے انکے تذکرے سے گریز کرتی ہوں۔ وقت ملنے پہ اسکی ایڈیٹنگ کر کے ڈالتی ہوں۔
Buss G ye kehna hay kay Bohot acha silsila hy yeeh.
ReplyDelete