Tuesday, January 4, 2011

جگسا پزل

کچھ لوگ دسمبر اور جنوری کی درمیانی رات کو سال بھر کا جوش نکال کر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اب سارا سال بھنگ ملے یا چرس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا پیٹرول کی قیمت اور بجلی کی قیمت میں کانٹے کا مقابلہ چل پڑے، انکے لئے سب برابر ہے۔ لیکن کچھ لوگ ہرروز کچھ نیا کے چکر میں  نئےسال کی قرار داد بناتے اور پھر سارا سال اس قرارداد کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں۔میں نے بھی کچھ قراردایں بنانے کی کوشش کی مگر آخر میں اللہ مالک ہے کہہ کر اپنی بیٹی کے ساتھ جگسا پزل بنانے بیٹھ گئ۔
جب اپنے غم سے یوں فراغت ہو گئ تو دوسروں کے خیال بھی دل میں آئے، اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ ہمارے محبوب صدر نے کیا قرارداد بنائ اپنے لئے۔ کہنے لگے آپکو معلوم نہیں نجومیوں نے اس سال انکی دوسری شادی کی پیشن گوئ کی ہے۔ تو اب انکے پاس ایک نہیں کئ قراردادیں ہونگیں۔  اچھا خدا مسبّب الاسباب ہے  یعنی اس سال اس بہانے ہم خوشی کے شادیانے بجائیں گے۔
ادھررحمان ملک کے بارے میں تو شرطیہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سورہ اخلاص سمیت چاروں قل ،سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی اور دعائے قنوت   کے حفظ کے کریش کورس پہ لگ جائیں گے۔ مبادا گیلانی صاحب اسی طرح سال کے اخیر میں دستیاب رہے تو کیبنٹ کے اجلاس میں ایکدوسرے کی پھبتی اڑانے کے لئے وہ نشانے پہ نہ آ سکیں۔
لیکن لگتا یوں ہے کہ 'قدرت' کو  گیلانی صاحب کے ہاتھوں انکی یہ توہین پسند نہیں آئ۔ اور صورت حال کچھ اس طرح سامنے آئ کہ گیلانی صاحب کو اخلاص چھوڑ کرجل تو جلال تو آئ بلا کو ٹال تو کی تسبیح گھمانا پڑ رہی ہے۔
سال کے شروع میں پٹرولیئم مصنوعات پہ یکدم نو فیصدی کا اضافہ ،عوام کو اشارہ ہے کہ باقی سال سورہ یس حفظ کر لیں موت کی سختی کم کرتی ہے۔
مذہبی جماعتیں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ گاتے ہوئے توہین رسالت کے قانون کے زیر زبر پیش کی حفاظت میں لگی رہیں گی یہ انکی بڑی امید اور سہارا ہے۔ اور اگلے کئ سالوں کے لئے 'اہم ملکی معاملات' پہ انکی گرفت مضبوط رکھے گا۔
نواز شریف جمہوریت کی  ریل کو ڈی ریل ہونے سے بچانے میں مصروف رہیں گے انہیں ڈی ساخت پسند نہیں بلکہ اپنے چہرے کی طرح گول' او ' ساخت چاہئیے تاکہ  جمہوریت کی ریل ایک دائرے میں گھومتی رہے ۔
طالبان خاتون کے کامیاب خود کش حملے کے بعد پاکستان میں مردوں کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ لوگ جو اپنی کم جہیز لانے والی بہوءووں سے نالاں ہیں اور چولہے وغیرہ پھٹنے کا انتظار کرتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی بیٹیوں کو ونی کرنے یا کاروکاری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں یا جائداد کے بٹوارے میں پڑنے کے بجائے قرآن سے شادی کروا دیتے ہیں۔  اب طالبان کے مراکز کے آگے لائن بنا کر کھڑے ہونگے۔ لوگوں کے ہجوم میں خواتین کا پھٹنا، بالکل مناسب ہوگا۔ کیونکہ اسکے بعد اعضاء میں وہ تناسب نہیں رہتا جن سے ہارمونز کا کھیل شروع ہو سکے۔
ادھر ایم کیو ایم ، حکومت سے اپنے  نعرہ ء علیحدگی پہ  رقص بسمل  کرے گی ۔   حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد امید ہے کہ انہیں ریہرسل کا زیادہ وقت ملے گا۔ یہ بھی امکان ہے ک ایک پیس کے رد و بدل ، اور کچھ  معلوم و نا معلوم لوگوں کے مقامات بعد از حیات طے کرنے کے بعد حکومت دوبارہ انہیں اپنے اتحادیوں میں شامل کر لے۔
مولانا فضل الرحمن کے متعلق لوگوں نے اڑائ ہے کہ انکی صدر صاحب سے ڈیل ہو گئ ہے۔ وہ وزارت عظمی مانگ رہے تھے۔ بالآخر عظمی پہ معاملہ ٹہر گیا۔
وزارت میں سے عظمی کے نکل جانے کے بعد گیلانی صاحب کیا کریں گے؟  سن رہے ہیں کہ پچھلے ہفتے کا سارا کھڑاگ انہیں لائن حاضر کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ یعنی ذوالفقار مرزا کے سندھ میں ایم کیو ایم مخالف بیانات کا سلسلہ زرداری صاحب کی وفاداری سے جا کر مل رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نجومیوں نے غلطی سے دوسری تبدیلی کو دوسری شادی سمجھ لیا ۔ واللہ اعلم۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔
جگسا پزل بھی بناتے بناتے آتا ہے۔ اب آپکی باری ہے۔

6 comments:

  1. عنیقہ تحریر بہت اچھی لگی :)

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم
    شجرکاری مہم میں حصہ لیجیے اور اپنے حصے کا درخت لگائیے۔

    ReplyDelete
  3. بی بی!

    ہمیشہ کی طرح کھلاڑیوں کو نیا کھیل رٹایا جا چکا ہے۔ نئے چئمپنز طے ہو چکے ہیں۔ سیٹی بجانے والوں کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ کسے کامیاب قرار دینا ہے۔

    ہم، آپ، اور پاکستان کے عوام محض تماشائی ہیں جن کا ایک ہی کام ہے کہ طے شدہ کھیل کے ہر ایکٹ پہ جی بھر کر داد دینی۔ تالیاں بجانی۔ بھنگڑے ڈالنے۔ ہے جمالو ہے جمالو کرنا۔ اور یہ تصور کرنا کہ جو ہو رہا ہے بہت خوب ہورہا ہے۔ طے شدہ کھیل کو حقیقی رنگ دینے کے لئیے عوام جی بھر کر عمدہ تاثر دیں گے۔

    پاکستان کے مکروہ پاور کھیل کو جگسا پزل سے مشابہت دینی کسی بھی پزل کی توہین ہے۔

    ReplyDelete
  4. سب غازی سب شہید

    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110104_hanif_taseer_piece_zs.shtml

    ReplyDelete
  5. نئے سال میں کیا بدلے گا اور کیا نہیں یہ تو وقت بتائے گا فی الحال تو شدت پسندوں کا زور بڑھتا نظر آرہا ہے ۔ ہر روز کی اتنی خبریں ہیں جس کے لیے اخبار کم پڑھ رہے ہیں۔ ابھی نیا سال ٹھیک سے شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ مذہب بیزاروں کو اوپر تلے کئی صدمے سہنے پڑ گئے ۔ اگر یقین نہ آئے تو آج کے اخبارات ہی دیکھ لیجیے جو ختم نبوت کا قانون ختم کرنے والے کے قصیدوں سے بھرا ہوا ہے
    زیادہ دکھ [ اور ہمارے لیے خوشی ] کی بات تو یہ ہے کہ مذہبی جنون تہوں تک اتر گیا ہے ۔ سرکاری اہلکاروں تک کو اندر سے گھلا چکا ہے ۔۔۔۔۔اپنا خیال کرنا عنیقہ باجی ۔۔۔ ۔ گرد بہت اٹھ رہی ہے ۔۔۔۔۔

    جاوید صاحب آپ تو واقعی تماشائی ہیں ۔ اسپین میں پاکستان کے لیے سونے کی کانیں تو نہیں کھودنے گئے ہوں گے

    اچھا چلتا ہوں دو رکعت شکرانے کے پڑھنے ہیں ۔
    بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔۔۔۔

    ReplyDelete
  6. عرفان بلوچ صاحب بے شک تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور وہ جسے چاہے ہدایت دے اور بعض دل ایسے ہوتے ہیں کہ ان پہ وہ مہر لگا دیتا ہے ۔ بے شک اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔ بے شک وہی موت اور زندگی پہ قادر ہے۔ بے شک، وہی علیم و خبیر ہے بے شک وہی اس دن کا بھی مالک ہے جس دن لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا جائے گا اور بے شک وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ لیکن دنیا میں اللہ کے انصاف کو لوگوں کی موت اور زندگی سے جج نہیں کیا جا سکتا۔ خدا نے کہیں نہیں کہا کہ وہ اپنے نیک بندوں کو اذیت کی موت نہیں دیتا۔ یاد رکھنا چاہئیے کہ تبلیغ اسلام کے ابتدائ سالوں میں ظلم کرنے والوں نے نو مسلموں پہ بے انتہا ظلم کئے جس پہ رسول اللہ کو انہیں دلاسے کے لئے کہنا پڑا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ گذرے ہیں جنہیں آرے سے چیر دیا گیا مگر پھر بھی وہ حق سے نہیں ہٹے۔ تو جناب آپ نے جو یہ دھمکی نما تبصرہ لکھا ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ موت بر حق ہے اور جو لمحہ خدا نے مقرر کیا اس سے پہلے یا اسکے بعد نہیں آسکتی۔
    اور ہاں شکرانے کے نفل ادا کرنے سے پہلے غور کیجئیے گا کہ یہ آپ نے اس اللہ کی خوشنودی کے لئے کئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے یا اپنے کو خدا مان کر خود ہی کو سجدہ کرنے چل پڑے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ