گل بانو، بلوچستان کے دور افتادہ گاءوں کی رہنے والی لڑکی مقامی روایات کے تحت تیرہ سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دی گئ۔ اگلے سال وہ ماں بننے کے مراحل میں تھی۔ اسکی زندگی میں افسوسناک صورت حال نے اس وقت جنم لیا جب وہ بچے کی پیدائیش کے عمل سے گذر رہی تھی۔ کم عمری اور نا تجربے کار دائ کی وجہ سے کی اس نے چار دن اس تکلیف میں گذارے ۔
بچے کی پیدائیش کے بعد گل بانو کو احساس ہوا کہ پیشاب اور پائخانہ اسکے جسم سے بغیر کسی کنٹرول کے ہر وقت رس رہے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ ہی نہیں شرمندہ کر دینے والی صورت حال تھی۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے اور اسکا کیا علاج ہے۔
گل بانو اپنی جھونپڑی میں قید ہو کر رہ گئ۔ تین سال اس حالت میں گذرے۔ اس مایوسی میں امید کی کرن اسکا شوہر تھا۔ وہ خوش قسمت تھی کہ اس کے شوہر نے اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ ایک دن اسکے شوہر کو کراچی میں موجود ایک ہسپتال کا پتہ چلا جہاں نہ صرف اسکی بیوی کا علاج مفت ہو سکتا تھا بلکہ تیماردار کی حیثیت سے اسکو بھی سپورٹ حاصل ہوجاتی۔
گل بانو کو چارپائ پہ ڈالا گیا تاکہ اسے اٹھا کر گاءوں کے قریب سے گذرنے والی سڑک تک پہنچایا جا سکے۔ دو دن اور رات کے سفر کے بعد وہ سڑک تک پہنچے۔ جہاں سے ایک ٹویوٹا ہائ لکس پک اپ میں آٹھ گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد وہ کراچی کے نزدیک کوہی گوٹھ پہنچے۔ جہاں وہ ہسپتال تھا۔
یہاں نو مہینے کے دوران گل بانو کے چھ آپریشن ہوئے اور وہ اپنے جسم پہ شرمندگی کے سوراخ بھرنے میں کامیاب ہو گئ۔
فسچولا وہ پیچیدگی ہے جو بچوں کی ڈلیوری کے دوران پیدا ہو سکتی ہے خاص طور پہ اس وقت جبکہ ڈیلیوری میں زیادہ وقت لگ جائے۔ یوں بچے کی حرکت کی وجہ خواتین کے اندرونی اعضاء پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سوراخ ہو جاتے ہیں۔ ان سوراخوں سے پیشاب پائخانے کا اخراج اندرونی اعضاء میں ہونے لگتا ہے اور ان پہ سے ایک عورت کا جسمانی کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔
مسلسل اخراج کی وجہ سے جسم کے اوپری حصے پہ آبلے پڑ جاتے ہیں۔ بچہ دانی سوکھ سکتی ہے، بانجھ پن پیدا ہو سکتا ہے ، مایوسی، ڈپریشن اور سٹریس بڑھتا ہے۔ اکثرعورتوں کو انکے شوہر لا وارث چھوڑ دیتے ہیں اور گھر والے یا دیگر لوگ مسلسل بدبو کی وجہ سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔
کوہی گوٹھ میں واقع یہ ہسپتال جس کا نام عورتوں کا ہسپتال ہے۔ ڈاکٹر شیرشاہ سید کی زیر نگرانی چلنے والا ایک ہسپتال ہے اس کے قیام کے لئے انہوں نے فنڈز اکٹھے کئیے۔ انہوں نے کوشش کی کہ کمیونیٹی کی بنیاد پہ خواتین کی صحت کے
مسائل کے بارے میں احساس پیدا کیا جائے
متعلقہ ویڈیو یہاں حاضر ہے۔
پس ثابت ہوا کہ ہمارے ملک ميں ابھی انسان زندہ ہيں ۔ اللہ سب کو اچھے انسان بننے کی توفيق دے
ReplyDeleteميں واقعہ ميں اتنا محو ہوا کہ ايک چُوک ہو گئی جس کے ازالہ کيلئے دوبارہ حاضر ہوا ہوں
ReplyDeleteآپ نے بڑی جاندار تحرير بڑے اچھے انداز ميں لکھی ہے ۔ اللہ خوش رکھے
انیقہ خُوش رہو جیتی رہو ،،،
ReplyDeleteبہُت جاندار اور زبردست تحریر لِکھنے پر بِلا شُبہ آپ مُبارکباد کی مُستحِق ہو ایسی بہُت سی باتیں اور تکالیف جو کہی نہیں جا سکتیں صد شُکر کہ اُن پر نا صِرف یہ کہ کام ہو رہا ہے بلکہ آپ نے لِکھ کر بہُت اچھا کام کیا ہے ورنہ ایسی بہُت سی بیماریوں میں خواتین خُود کو گُھلا کر ختم کر لیتی ہیں شُکریہ،،،
عنیقہ صاحبہ۔۔۔ بہت معلوماتی تحریر ہے۔۔۔ بہت اچھی خدمت کر رہی ہیں آپ ایسی تحاریر کے زریعے۔۔۔ ہم جیسے بہت سے لوگ ایسے پیچیدیوں سے نا واقف ہیں۔۔۔
ReplyDeleteافتخار اجمل صاحب، شاہدہ اکرم اور عمران اقبال آپ سب کا شکریہ۔ اس ساری تحریر میں جان ڈاکٹر شیر شاہ صاحب کے کام کی وجہ سے ہے۔ ورنہ گرمی ء جذبات سے کیا ہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
ReplyDeleteشاہدہ اکرم صاحبہ، خواتین ہونے کے ناطے ہمیں خواتین کے مسائل کو سامنا لانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ بالخصوص ایسے مسائل جو بے جا شرم و حیا کی وجہ سے بیان نہیں کئے جاتے مگر ایک ہنستے بستے شخص کی زندگی کو ویران کر دیتے ہیں۔
ReplyDeleteمیرا خیال ہے کہ خواتین کو اپنے کمیونیٹی بلاگز بنانے چاہئیں تاکہ وہاں وہ اپنے ایسے مسائل بیان کر سکیں اور مختلف لوگوں کے تجربات یا معلومات حاصل کر سکیں۔ انٹر نیٹ تک کم از کم پڑھی لکھی عورتوں کی پہنچ تو ہے۔
خواتین کے موضوع پر جاندار معلوماتی تحریر ہے ۔ ڈاکٹر شیرشاہ کوئی صاحب کی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔جو کمیونٹی کی خدمت کررہے ہیں۔یقینا نفسا نفسی کے اس دور میں بھی وطن عزیز میں متعدد ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے کسی داد وتحسین یا طمع ولالچ کے بغیرخود کو انسانیت کے لئے وقف کیا ہوا ہے ۔ یہی لوگ ہمارے اصل ہیرو ہیں۔
ReplyDelete