تیونس سے بھڑکنے والی آگ کے شعلے مصر تک جا پہنچے۔ تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے مشتعل عوام سے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لی۔ فرانس نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ادھر مصر میں ہزاروں لوگوں نے حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیکر ناراضگی کا جمعہ منایا۔ یوں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی ہجوم سے نبرد آزما صدر حسنی مبارک نے کرفیو کا نفاذ کر دیا۔
لوگوں کو اس احتجاج کے لئے جمع کرنے میں جدید ٹیکنالوجی نے بڑا حصہ لیا۔ پچھلے دو دنوں میں انٹر نیٹ سرگرمی مصر میں اتنی زیادہ رہی کہ حکومت نے انٹرنیٹ پہ پابندی لگا دی۔ اس سے پہلے سے متائثرکاروباری حلقے کو سخت نقصان پہنچا۔
دونوں ملکوں میں جو قدر مشترک ہے وہ آمریت کا ایک طویل عرصے تک اقتدار پہ قابض رہنا اور اسے قائم رکھنے کے لئے اپنی قوم کو ہر طرح کے دباءو میں رکھنا، بد ترین معاشی حالات اور ایک ہی ملک کے اندر مختلف طبقات کے اندر غیر متوازن فرق۔ عوام کو جاہل رکھا جا سکتا ہے مگر بھوکا نہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ عمل یمن اور اردن میں بھی دوہرائے جانے کا امکان ہے اور جلد یا بدیر سعودی عرب بھی اسکی لپیٹ میں آئے گا۔ یوں عرب دنیا ایک بڑی تبدیلی سے دوچار ہونے جا رہی ہے۔ طویل شخصی حکومتوں کے عادی نظام کس نئ سمت میں جائیں گے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
ان انقلابات کو دیکھ کر پاکستان میں کچھ لوگوں نے یہ امید لگائ ہے کہ شاید ہم بھی ایسے ہی کسی انقلاب کی طرف گامزن ہونے والے ہوں۔ لیکن کیا عوام کسی انقلاب کی طرف جانے کو تیار ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ ویڈیو۔
ملک کے نام کی تصحیح کر لیں اصل نام تونس ہے تیونس نہیں ہے، وکیپیڈیا دیکھیں:
ReplyDeletehttp://wa9.la/ykx
جناب ویڈیو دیکھ کر توانقلاب کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔۔۔ کیاکرارا تھپڑ ہے ہماری سیاست اور باشعور عوام کے منہ پر۔۔۔ پارٹی بازی اور اس سے بھی بڑھ کر انفرادی اور زاتی پارٹیوں کے نکمے رہنماوں نے تو گھٹیا پن کی حد کر دی۔۔۔
ReplyDeleteدیکھ لیں کہ ہماری بیوقوف قوم کس طرح ان کے زیر استعمال ہے۔۔۔ جہاں ایک چاول کی پلیٹ کے عوض قیمتی ووٹ خریدا جا سکتا ہے وہاں انقلاب کی اب کیا ہی بات کریں۔۔۔
ہم زندہ قوم ہیں ۔۔۔ پائندہ قوم ہیں۔۔۔
My Foot...
بہت عمدہ موضوع ہے اور امید ہے کہ اس پر روایتی طور پر روشن خیالی اور دوسرے مضوعات پر تبصروں سے گفتگو موضوع سے نہیں ہٹے گی
ReplyDeleteتمام سوالات حل کریں
ReplyDeleteجب ہندوستان بغیر کسی انقلاب کے ترقی کی سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے تو ہمسایہ ممالک کو کیا مسئلہ ہے؟
کیا پاکستان ہندوستان کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے یا تیونس ، مصر اور یمن جیسے ممالک کے ساتھ؟
کیا تیونس ، مصر اور یمن بھی پاکستان کی طرح کے اسی درجہ کے کثیرالنسلی و کثیرالسانی اور کثیر الثقافتی معاشرے ہیں؟
آمرنہ حکومتوں کے خلاف سیاسی انقلاب کی تو سمجھ آتی ہے۔ ایسے ہی ایک انقلاب سے پاکستان بھی چند سال پہلے گذر چکا ہے۔ لیکن جمہوری حکومتوں کے خلاف سیاسی انقلاب سے کیا مراد ہے؟
عثمان، جوابات حاضر ہیں۔
ReplyDeleteپہلا جواب، ذاتی طور پہ میں انڈیا کی ترقی کے دعوے کو اصل سے زیادہ پروپیگینڈہ سمجھتی ہوں۔ جس ترقی کا وہ دعوی کرتے ہیں اور اس میں کچھ عالمی قوتیں انکی پشت پناہی کرتی ہیں وہ انڈیا کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ اس طرح اس کا اثر دیر پا نہیں۔ جس ملک میں تیس فی صد عوام غربت کی شرح سے نیچے رہ رہے ہوں ، وہاں ترقی کہاں ہو رہی ہے۔ وہاں عام لوگوں کی زندگی انکے میڈیا پہ پیش کی جانے والی زندگی سے بے حد مختلف ہے۔
لیکن پاکستان کے مقابلے میں انڈیا نے خاصی ترقی کی ہے اسکی متعدد وجوہات ہیں۔
ان میں سے ایک جمہوری نظام کا سلسلہ چلتے رہنا ہے۔ دوسراانکا تعلیمی نظام ہم سے بہتر ہے۔ تیسرے وہ اپنی زمین اور ثقافت سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں جبکہ ہم اپنی ثقافت کی جڑیں اپنی زمین سے دور تلاش کرتے ہیں۔ یوں وہ ذہنی طور پہ اس الجھن کا شکار نہیں جس سے ہم آئے دن دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شدت پسندی وہاں بھی اتنی ہی ہے جتنی ہمارے یہاں پائ جاتی ہے۔
دوسرا جواب، اگرچہ اسلام پسند طبقے ہماری مماثلت عرب مملکتوں میں تلاش کرتے ہیں۔ اور یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ ہماری مماثلت انڈیا سے ہے۔ ہمارے بیشتر مسائل بھی ایکدوسرے سے ملتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم نہ صرف جغرافیائ طور پہ بلکہ ثقافتی طور پہ ایکدوسرے کا حصہ رہے ہیں۔ ہماری نفسیاتی الجھنی بھی ایک جیسی ہیں۔ یوں ہم ایکدوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اور اپنے مسائل کو حل کرنے میں ان اسباق کو استعمال کر سکتے ہیں۔
تیسرا جواب،یہ سوال ایک بہت اہم سوال ہے۔ اب تک ہم انقلابات کی جو داستانیں پڑھتے ہیں۔ یہ ان جگہوں پہ زیادہ موءثر ہوتا ہے جہاں ایک نسل یا ایک ثقافتی گروہ رہتا ہو۔ جیسے انقلاب فرانس، یا ایران۔ ہمارا ملک ان مثالوں سے بالکل الگ ہے۔ اس لئے اانقلاب کی یہ داستان یہاں نہیں دوہرائ حا سکتی۔ ہم ایک کثیر الثقافتی گروہ ہیں۔ یہاں ایک گروہ کے لئے جو چیز باعث غیرت ہوتی ہے وہ دوسرسے کے لئے باعث جہالت ہے۔ ایک جسے گالی سمجھتا ہے دوسرا اسے محاورہ۔ ایک جس پہ جان دینے کو تیار ہو اس پہ دوسرا جان لینے کو تیار ہے۔
آکری سوال بھی اہم ہے، میری دانست میں سیاسی انقلاب سے مراد ہماری بنیادی سوچ میں انقلاب ہے۔ اول کسی طرح ہم انڈیا کی طرح پاکستانیوں میں یہ سینس پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہم ایک قوم ہیں اور ہمارے وسائل اور مسائل ہم سب کے مشترکہ ہیں۔ اور ان پہ کسی ایک یا چند طبقوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔
پاکستان میں طاقت کے تین ستون ہیں۔ فوج، فیوڈلز اور مذہبی عناصر۔ عوام کہیں نہیں آتے۔ انقلاب کا مطلب ہے کہ چیزوں کا اپنی پرانی ترتیب سے اس طرح ہٹ جانا کہ جو پہلے سیاہ تھا وہ اب سفید ہو جائے جو پہلے حق تھا وہ اب باطل ہو جائے۔ جو پہلے کمزور تھا وہ اب طاقتور ہو جائے۔
تو پاکستان میں انقلاب کا مطلب یہ نکلنا چاہئیے کہ طاقت کا ستون عوام بنیں۔
باقی باتیں باقی سوالوں میں۔ یہ میرے ذاتی خیالات ہیں۔ فتوی نہیں۔ کوئ بھی قاری اپنے مزید خیالات سے موازنا چاہے تو خوش آمدید۔ مگر خدارا یہ مت کہئیے گا کہ یہ سب روشن خیالون کی کہانیاں ہیں۔
عمران اقبال، ہمم، دراصل یہ ویڈیو اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ نظام میں کسی بھی تبدیلی کی خواہش رکھنے کے لئے سب سے پہلے عوام کے اندر شعور پیدا کرنا ضروری ہے۔
محب علوی صاحب، امید ہے کہ آپ بھی اپنے خیالات کا حصہ ڈالیں گے۔
مکی صاحب،
:)
میں نے کہیں اور آپکا یہ تبصرہ پڑھا تھا مگر اسے اسی طرح رہنے دیا کہ اس بہانے آپ ضرور تبصرہ کریں گے۔
:)
بہت سارے الفاظ پہ اس طرح کی بحث چھڑ جاتی ہے کہ اسے یوں نہیں یوں ہونا چاہئیے۔ یہی مسئلہ کچھ ناموں کے ساتھ بھی ہے۔ مثلاً پیرس فرانس میں ہے اس کو کو فرنچ میں پخی کہا جاتا ہے انگلش میں پیرس اور اردو میں بھی پیرس کہا جاتا ہے۔
قبرص کو عربی میں قبرص اور انگلش میں سپرس کہا جاتا ہے۔ شام کو سیریا کہتے ہیں۔ یونان کو گریس۔ تو اگر انگلش زبان ایک الگ تلفظ رکھ سکتی ہے تو ہم اردو میں بالکل اسی تلفظ پہ اصرار کیوں کرتے ہیں۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہيں بدلی نا ہو جس کو خيال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا‘۔ اب جلد ہی پاکستان کے لوگ بھی اس پر عمل کرنے والے ہيں کيوں کہ يہ ملک و قوم کو لوٹنے اور تباہ کرنے والے لوگ جب سے پاکستان بنا ہے ظلم کر رہے ہيں۔ مگر اب ان کو شايد بھاگنے کا بھی موقع نا ملے۔
ReplyDeleteعامر ہاشم خاکوانی کا یہ کالم اسی موضوع پر پڑھنے کے قابل ہے۔
ReplyDeletehttp://express.com.pk/images/NP_LHE/20110124/Sub_Images/1101152963-2.gif
آخری تین جوابات سے متفق ہوں۔ لیکن پہلے سوال کے جواب میں آپ نے کچھ جلد بازی سے کام لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک انتہائی وسیع اور متغیر سماجی، ثقافتی ، قومی ، مذہبی اور سیاسی عناصر پرمشتمل ایک نہایت پیچیدہ مرکب معاشرہ ہے۔ پھر جس آہستہ آہستہ بتدریج آتی ترقی کی بات ہورہی ہے اسے شروع ہوئے بھی غالباً بیس برس ہی ہوئے ہیں۔ ایسے میں مکمل اور بڑی تبدیلیوں کی فوری توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ ان کے گھر آنے والی تبدیلیاں .. وہاں آنے والا " انقلاب " ہندوستانی نوعیت کا ہے۔ جس طرح وہاں آنے والی تبدیلی کو انقلاب فرانس ، انقلاب ایران یا ماؤ انقلاب سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح وہاں حاصل ہونے والے ثمرات کا موازنہ بھی دوسروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ میرے خیال سے ہندوستان کو وقت لگے گا۔ شائد پچاس سال ...شائد اس صدی کے آخر تک۔ نجانے آپ نے یہ کیوں کہا کہ ہندوستان میں آنے والی تبدیلی کا اثر دیر پا نہیں۔ میرے نزدیک ایک جھٹکے سے چند سالوں میں آنے والی تبدیلی کی بجائے آہستہ آہستہ چند نسلوں پر محیط تبدیلی تو بہت دیرپا اور بہت دور رس نتائج کی حامل ثابت ہوگی۔ یورپ میں آنے والی تبدیلی اور انقلاب محض انقلاب فرانس تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ یہ کئی نسلوں اور کئی صدیوں میں بیدار ہونے والے شعور کے ثمرات تھے۔
ReplyDeleteآپ نے کہا کہ وہاں آنے ولی تبدیلی محض چند شہروں تک محدود ہے۔ جی ہاں .. ایسا ہی ہوتا ہے۔کسی گمنام دیہات کے کسانوں میں یکلخت بیدار ہونے والا شعور .. دیہاتی معاشرے میں رونما ہونے والی اچانک تبدیلی فلموں میں تو ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کے برخلاف تبدیلی کا آغاز بڑے شہروں ہی سے ہوتا ہے۔ پہلے کسی معاشرے کی انٹیلیجنسیا میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ پھر کہیں جا کر اثرات نیچے تک پہنچتے ہیں۔
آپ نے ہندوستانی ترقی میں "عالمی طاقتوں کی پشت پناہی" کا تذکرہ کیا۔ گلوبلائزیشن کے منفی اثرات اپنی جگہ لیکن میرے نزدیک اس میں تمام کا تمام غلط بھی نہیں ہے۔ ان " عالمی طاقتوں " میں سے ایک طاقت دنیا بھر کی ملٹی نیشنل تجارتی کمپنیاں ہیں جس میں ہندوستان کا بھی حصہ ٹاٹا گروپ جیسے اداروں کی صورت میں موجود ہے جو کہ ظاہر ہے ہندوستان کی ترقی ہی کا ایک ثبوت ہے۔
بلاشبہ ہندوستان میں اب بھی کروڑوں کی تعداد میں لوگ کیڑوں طرح زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہاں متوسط ، پڑھے لکھے اور پروفیشنل طبقے کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان میں آتی تبدیلی کے نشان صرف ہندوستان ہی میں نہیں .. بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر نکل کر دنیا کے ترقی یافتہ بین الاقوامی شہروں میں بھی دیکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ یہاں کہ پروفیشنل لائنز میں ، یہاں کی منڈیوں میں ، یہاں کے میڈیا میں .. یہاں کی سیاست میں آہستہ آہستہ بڑی خوبی سے سرایت کرتے جا رہے ہیں (غیر ممالک میں مقیم لوگ اپنے آبائی وطن کے لئے کیا مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں یہ ایک الگ اور نہایت دلچسپ موضوع ہے جس پر بات پھر سہی)۔ میں یہاں بھارتی پنجاب سے آئے سکھ ، گجرات کے ہندو ، بہار سے لے کر تامل ناڈو سے آئے رنگ رنگ کے ہندوستانیوں سے ملتا ہوں۔ ان کی باتوں ، اطوار اور طرز زندگی سے انداز ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر ترقی پسند اور اہم معاملات میں کس قدر مرتکز ہیں۔
اس پوسٹ کا سوال شائد پاکستان کے انقلاب سے متعلق تھا۔ میں ہندوستان کی کہانیاں شروع ہوگیا۔ لیکن میرا اصرار ہے کہ پاکستانیوں کے پاس ہندوستانیوں سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ دور دراز کی دنیاؤں سے رومانوی آئیڈیل تراشنے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے پہلو میں پنپتی ایک دیسی ساختہ ترقی سے سبق سیکھیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کا نام سنتے ہیں یار لوگوں کی بھویں تن جاتی ہیں .. ہونٹ سکڑ جاتے ہیں۔ تو ایسے جذبات اور تعصبات کے آگے یہ سب محض "روشن خیالی" ہی رہ جاتی ہے۔
ہم زندہ قوم ہیں ۔۔۔ پائندہ قوم ہیں۔۔۔
ReplyDeleteانقلاب زندہ باد
میاں منافق شریف !!!
عامر ہاشم خاکوانی کا کالم ایک آئی اوپنر ہے اور اس کا آخری جملہ
ReplyDeleteکنزیومر معاشرے انقلاب نہیں لایا کرتے
ایک کڑوی سچائی ہے
اسی حوالے سے ایک بات ،
ReplyDeleteہمارے ایک رشتہ دار پچھلے دنوں ہندوستان سے پاکستان ملنے کے لیئے آئے،
موصوفبہت پیسے والے زمین جائداد کے مالک اور ملکی سیاست میں بھی نام رکھتے ہیں اپنے حلقے سے انتخاب لڑ کرمنتخب بھی ہوتے رہے ہیں،
ہم مڈل کلاس پاکستانیوں کا رہن سہن دیکھ کر کہنے لگے آپ لوگ آپ لوگ اپنا رہن سہن مین ٹین کرنے میں جتنی توانائیاں صرف کرتے ہیں میں تو دیکھ کر بے حد حیران ہوا ہوں ہم لوگوں کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی سادگی سے زندگی گزارتے ہیں اور آسانی سے جیتے ہیں!!!!!!!!!!!
یہ انقلابات نہیں بلکہ مہرے بدلنے کا وہ طریقہ ہے جس سے دوبارہ غلاموں کو حکمران بنا دیا جاتا ہے اور عوام بھی چند سال کیلیے بہکاوے میں آکر خاموش ہو جاتے ہیں۔
ReplyDeleteبات انگریزی یا لہجے کی نہیں ہے، بات ایک ہی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبانوں کا ایک اصول ہے جس کے تحت لفظ کے ہجے نہیں بدلے جاتے، اگر لہجہ بنانا ہی مقصد ہے تو آپ نے مصر کو مصر کیوں لکھا؟ کیا آپ نے اردو وکیپیڈیا دیکھا؟.. توجہ دلانے کا مقصد اپنی برتری جمانا نہیں ہے بلکہ عربی الفاظ کی املاء کی درستگی ہے جو اکثر اردو میں انگریزی سے متاثر ہوکر روا رکھی جاتی ہے، مثلاً ہمارے اخبارات میں انگریزی سے متاثر ہوکر فلسطین کے ایک لیڈر کا نام صائب ارکات لکھا جاتا ہے جبکہ اصل نام صائب عریقات ہے.. باقی جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے..
ReplyDeleteمکی صاحب، میں نے یہ بات آپکی برتری کے بور پہ نہیں لی۔ آپکے توجہ دلانے پہ میں نے وکیکپیڈیا کا وہ لنک جا کر دیکھا تھا اور جب وہاں اسکے عرنی اور انگریزی تلفظ دیکھے تو ہی میرے ذہن میں آیا کہ اردو میں بہت سارے الفاظ ہیں جو دوسری زبانوں سے آئے ہیں مگر اب اسی طرح نہیں ہیں جیسے وہ اپنی اصل زبانوں میں تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیلی کے ضمن میں رکھنا چاہئیے یا اسے غلطی کہہ کر اسکی تصحیح کرنی چاہئیے۔جیسے پیرس اپنے اصل تلفظ پخی کے بجائے پیرس ہو گیا ہے۔
ReplyDeleteیا توتا اب طوطا لکھا جاتا ہے۔ مشعل عربی میں زیر سے بولا جاتا ہے اور اردو میں زبر سے۔ استنبول ترکی کا ایک شہر ہے جسے ہم لمبے واءوو سے بولتے ہیں خود استنبول میں صرف پیش کی چھوٹی لمبائ سے بولا جاتا ہے اور اگر ہمیں اسے درست طریقے سے اردو میں لکھنا ہو تو ایسے لکھنا چاہئیے۔ استنبُل۔
مہں سوچتی ہوں کہ کسی ماہر اردو زبان سے پوچھنا چاہئیے کہ کیا یہ غلطی ہے؟
ابھی ایک دو روز پہلے فیس بک پہ دیکھ رہی تھی کہ لفظ عورت نہیں استعمال کرنا چاہئیے عربی میں اسکے وہ معنی نہیں جو اردو میں لئے جاتے ہیں۔ اور یہ غلط ہے۔ لیکن اس پہ بھی میں یہی سوچتی ہوں کہ کیا وہ غلطی ہے یا اردو زبان کا اس لفظ پہ عکس۔ کیونکہ ہم اپنی درسی کتابوں سے لے کر اخبارات تک میں آج تک تیونس پڑھتے آئے ہیں۔ کیا اسے غلطی کہنا چاہئیے یا یہ کہ اردو زبان نے اسے یہ لہجہ دیا ہے۔
سو یہ میرا حسب کرشمہ ساز نہیں رہا بلکہ ایک نسل اسے اسی طرح پڑھتی چلی آ رہی ہے۔ اس پہ اردو ڈکشنری بورڈ والوں سے معلومات ہونی چاہئیں۔
اردو وکیپیڈیا والے کس طرح ایک لفظ اور اصطلاح کو اخذ کرتے ہیں یہ مجھے نہیں معلوم۔ مجھے نہیں معلوم کہ جو اصطلاحیں وہ بناتے ہیں انکی سند کیا ہوتی ہے۔
یہ سب میری لا علمی ہے اور میں اسے کسی مستند طریقے سے دور کرنا چاہتی ہوں۔
میرا پاکستان صاحب، یہاں پہ بھی بہت سے سوال ہیں۔ امریکہ خود اپنے اندرونی نازک حالات میں ہے کیا تندیلی کی اس لہر کو وہ قابو میں رکھ سکے گا۔ ممکن ہے کہ وہ خود انگشت بدنداں ہوں۔ اب وہ یہ خواہش کر سکتے ہیں کہ نئے حالات بدلیں تو بھی انکے حق میں ہی جائیں۔ ایک ایسے موقع پہ جب وہ افغانستان اور عراق میں پھنسے ہوئے ہیں اس ہنگامے سے بالکل بھی ضروری نہیں کہ نتائج ایسے نکلیں جیسے وہ چاہتے ہیں آخر وہ یہ رسک کیوں لیں گے۔
عثمان، میں نے کہا کہ دیر پا نہیں۔ اس لئے کہ ایک تو انکے معاشرے میں بھی شدت پسندی تیزی سے بڑھی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ شدت پسندی، ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسرا انڈیا میں غربت خوفناک ہے۔ اپنی تمام تر بد حالی کے باوجود جس میں ہم اس وقت ہیں ایسی غربت کا سامنا فی الحال ہمیں نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی نا عاقبت اندیشیوں کی وجہ سے ہم اس درجے پہ پہنچ جائیں۔
ReplyDeleteیہ البتہ ہے کہ جہاں شدت پسندی انکے یہاں بڑھ رہی ہے وہاں آزاد خیالی بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ وہ بہت زیادہ ویسٹیرنائز ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں مغربی معاشرے میں آسانی سے ضم ہو جاتے ہیں۔
میں ویسٹرنائز کی بجائے انٹرنیشنلائز یا گلوبلائز کی اصطلاح مناسب سمجھتا ہوں۔ عالمگیریت کے اس دور میں دنیا کی قومیں اور ان کی تہذیبیں ایک دوسرے کے قریب آتی جارہی ہیں۔ اشیاء ، فکر ، رواج ، زبان کا ایک مسلسل تبادلہ جاری ہے۔ اس عالمگیریت میں جس کا جتنا حصہ ہے اس کا اتنا ہی اثر ہے۔ اگرچہ فی الوقت مغربی تہذب غالب ہے اس کا حصہ ذیادہ ہے لیکن جیسے جیسے بھارت اور چین سامنے آتے جارہے ہیں صورتحال میں فرق آرہا ہے۔ آپ یورپی ممالک کی مثال لیجئے۔ آج سے سو برس پہلے تک یورپ کے ان تمام ممالک کی اپنی اپنی منفرد اور جداگانہ تہذیبیں تھیں۔ لیکن دوسری جنگ عظیم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد کس قدر تبدیلی آئی ہے۔ وہ صرف سفارتی ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ ایک ہی رنگ میں رنگتے چلے جارہے ہیں۔ تو محض "ویسٹرنائز" نہیں ہورہے بلکہ گلوبلائز ہورہے ہیں۔ یہیں صورتحال بھارت ، چین ، جاپان اور جنوبی امریکہ کے ساتھ بھی ہے۔
ReplyDeleteمیرے کچھ دوستوں کا تعلق تونسیہ سے ہے۔ وہ اپنے ملک کا نام یونہی پکارتے ہیں۔ تونس وہاں کا دارالحکومت ہے، جس کی نسبت سے ملک کا نام بھی تونسیہ (تونس والا دیس) پڑ گیا۔ ایسا اور کئی ملکوں کے معاملے میں بھی ہوا ہے جیسے الجزائر،کویت، مراکش (جس کا عربی نام المغرب ہے)، میکسیکو وغیرہ۔
ReplyDeleteجہاں تک تونسی انقلاب کا تعلق ہے تو یہ یقینا ایک عہد آفرین عوامی تبدیلی ہے۔ میں عہد آفرین پر دوبارہ زور دوں گا کیونکہ اس انقلاب نے اس لفظ سے وابستہ تمام سابقہ تھیوریوں کو فیل کر دیا ہے۔ اور اب اس کا جادو مصر، اردُن اور یمن میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آتا،کیونکہ اس کا بنیادی تعلق کسی مذہب یا ثقافت یا رنگ و نسل سے نہیں ، بلکہ انسان کی نہایت بنیادی ضروریات یعنی آزادی اور روٹی سے ہے۔سیاسی تبدیلی کے لیے خود کو دستیاب تیکنالوجی کااستعمال اس انقلاب کی ایک نئی اختراع ہے۔
خود پاکستان اور بھارت بھی ایسے ہی تبدیلیوں کی زد میں ہیں ۔دہشت گردی کے شکار بدحال پاکستان سے زیادہ پر امن و ’’خوشحال‘‘بھارت۔۔۔۔ کیونکہ گدھوں کی طرح کام کرنے والی نام نہاد مڈل کلاس کے عروج کے باوجود وہاں امیر و غریب میں فرق زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور انڈین آئین، پارلیمنٹ، میڈیا اور عدلیہ کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔ جبھی وہاں کےتقریبا ایک تہائی رقبے پر نکسل باڑیوں کا عمل دخل ہے۔ در اصل تمامتر آئینی و جمہوری لیپا پوتی کے باوجود وہاں کی اصل حکومت ٹاٹا،برلا اور امبانی جیسے کچھ بنیوں اور نہرو جیسےچند برہمن گھرانوں کے پاس ہے۔ حال ہی میں افشاہونے والے موبائل فون کنٹریکٹ سکینڈل نے اس جمہوریت کی قلعی مزید کھول کر رکھ دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اپنی تعمیر میں مضمر ایک بنیادی خرابی ۔۔۔ذات پات کی بنا پر انسانوں میں تفریق۔۔ کی وجہ سے کبھی مکمل جمہوری ریاست نہیں بن سکے گا، اور یہی بنیادی خرابی بالآخر اس کی بربادی کا باعث بنے گی۔
ویسے شاید یہ جان کر بعض لوگوں کو حیرت ہو کہ ہندوستان کی موجود ہ ظاہری اقتصادی چمک دمک کی ابتدا ۱۹۹۰ کی دہائی کے شروع میں پاکستانی حکومت کی معاشی لبرلائزیشن کی پالیسیوں کو نقل کرنے سے ہوئی۔ تب منموہن سنگھ وہاں کے وزیر خزانہ تھے۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور ہمیں ہیکت سیاسی محاذ آرائی اور پھر مشرفی مارشل لااور اس کی عطا کردہ دہشت گردی نے آلیا۔ (یہ حقیقت ہے کہ تب ہمارے ہاں دہشت گردی کا کوئی نام و نشان نہ تھا)۔
مایوسی گناہ ہے۔ حالیہ سالوں میں پاکستان میں ایک اہم سیاسی تبدیلی ایک عوامی تحریک کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کیصورت میں سامنے آئی ہے۔آپ کے بیان کردہ تقریبا تمام عناصر جمع ایم کیو ایم ( اور وکی لیکس کی رو سے امریکا بھی ) اس تبدیلی کےخلاف تھے۔ مذہبی عناصر کے ایک سرخیل مولانا فضل اسے چند افراد کی بحالی کی تحریک قرار دے کر مسترد کر چکے تھے۔ بلکہ انھوں نے اس قومی تحریک کو صوبائی رنگ دینے کی بھی کوشش کی تھی ۔ لیکن اس سب کے باوجود سیاہ سفید ہو گیا اور سفید سیاہ ۔ اس پر آپ کیا کہیں گی؟ میرے خیال میں ہم اس تحریک کی کامیابی کےاصل اثرات ابھی آنا باقی ہیں اور وہ آ کر رہیں گے۔ہم دیکھیں گے۔۔۔۔ اِن شا اللہ!!!!!!!
الفاظ کےہجوں کے حوالے سے مکی صاحب کی بات میں بڑا وزن ہے۔ ہمیں عربی و فارسی الفاظ کے ہجے وہی رکھنے چاہییں جو ان زبانوں میں رائج ہیں ، چاہے ہم انھیں درست طورپر ادا بھی نہ کرسکیں ۔ مثلا میں اپنا نام ٹھیک سے ادا نہیں کر سکتا ، نہ ہی دوسرے لوگ لفظِ مرتضیٰ میں موجود ۔۔ض۔۔ کا صحیح تلفظ کرتے ہیں ، لیکن مجھے اپنا نام عربی میں ہی لکھنا پسند ہے۔ غلام یا گلام مرتزا الی ہر گز ہیں۔ یقینا آپ بھی اپنا نام عنیقہ ہی لکھنا چاہیں گی انیقہ یا انیکہ ہر گز نہیں۔
مَشعل عربی میں بھی میم پر زبر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اردو میں بھی درست شین قاف والے لوگ اسے زبر کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں ۔ ہاں عربی میں یہ نام مردوں کےلیے مخصوص ہے۔ موجودہ سعودی بادشاہ کے ایک بھائی کا نام بھی یہی ہے۔حماس کے ایک لیڈر کا نام بھی خالد مَشعل ہے۔
اسی اصل (root)کے ساتھ عورتوں کا نام مشاعل ہوتا ہے یا شُعلہ۔ شہزادہ مَشعل کی ایک بیٹی کا نام بھی مشاعل ہے۔
استنبول ہمارے ہاں بذریعہ عربی رائج ہو اہے۔ عربی میں اسے ط کے ساتھ ’’اسطنبول‘‘ لکھتے ہیں۔ جبکہ تُرک لوگ اسے ’’اِستانبُل‘‘ پکارتے ہیں استنبُل بھی نہیں۔ میرے خیال میں ماضی کے غلط مُروّجات کی درستی میں کوئی مضائقہ نہیں۔
طوطا کے صحیح ہجےتوتا ہی ہیں۔ اردو کی ایک مشہور داستان کا عنوان توتا کہانی ہے۔ اسی نام کو لے کر جب اشفاق احمد صاحب نے ڈرامہ سیریز لکھی تو تب بھی لوگوں نے اعتراض کیا تھا۔
عثمان، ہمم تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئیے کہ انڈیئنز ہم سے زیادہ لچکدار اور روشن خیال ہیں۔ ارے کوئ ہے جو اس پاکستانی نژاد کینیڈیئن سے مقابلے کے لئے میری مدد کو آئے۔
ReplyDelete:)
غلام مرتضی علی صاحب، مجھے تو عدلیہ کی بحالی کے بعد ایسے کوئ انقلابی فیصلے نظر نہیں آتے جو اس تحریک سے لوگوں نے جوڑے تھے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے اندرون خانہ عدلیہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئ ڈیل ہوئ اور معاملات اس دھڑے پہ چل پڑے جس پہ سارے فریق راضی بہ رضا رہیں۔
اس عدالتی انقلاب سے پہلے اور اب کے پاکستان میں کون سا ایسا سیاہ سفید کا فرق ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بہت سارے فیصلے ایسے کئے جنہیں انہوں نے واپس لیا۔
تلفظ پہ میں اپنا موءقف لکھ چکی۔ اشفاق صاحب ہی نہیں حکیم سعید اور مسعود احمد برکاتی بھی توتا لکھتے ہیں۔ لیکن بقول یوسفی، جب تک ط سے نہ لکھا جائے طوطا نہیں لگتا۔
انگریزی میں بھی بہت سارے الفاظ مختلف زبانوں سے آئے ہیں اور انکی زبان کے حساب سے تبدیل ہو گئے۔ اگر اردو میں ایسا ہوا تو مجھے اس میں کوئ قباحت نظر نہیں آتی۔
میرا نام عربی میں ع سے لکھا جاتا ہے اور فارسی میں الف سے۔ دونوں زبانوں میں اس کے معنی بھی مختلف ہیں۔
عنیقہ عثمان کی بات میں دم ہے!
ReplyDelete:)
دنیا گلوبلائز ہونے جارہی ہے مگر پوزیٹولی ہو تو بہتر ہے،روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے ساتھ!
غلام مرتضی انڈیا گلوبلائز ہوگا تو یہ ذات پات کی زنجیریں بھی خود بخود ٹوٹ جائیں گی،جوکہ اب پہلے کے مقابلے میں وہاں کافی کمزور ہوچکی ہیں!
اور ہاں انقلاب کی ابتداءتو ہوچکی ہے اب دعا کیجیئے کہ انجام بخیر ہو آمین
http://www.jang.com.pk/jang/jan2011-daily/30-01-2011/index.html
ویسے پاکستان میں انقلاب اگر آ بھی گیا تو کیا تبدیلی آئے گی
ReplyDeleteکیا پاکستان میں لوگ بسوں کوچِز میں سگریٹ پینا بند کردیں گے
ہماری مسجدوں کے ٹوائلٹ اتنے صاف ہوں گے کہ واقعی لگے کہ صفائی نصف ایمان ہے
مسجدوں، مذہبی اور شادی بیاہ کی تقاریب میں لاؤڈاسپیکر کی آواز اتنی کم ہوگی کہ برابر میں پڑوسی سکون سے سو سکے
اپنے گھر کا کچرا دوسروں کے گھر کے آگے نہیں ڈالا جائے گا
کیا ایک دوسرے سے خوش اِخلاقی سے بات کی جائے گی
کیا ہم ٹریفک قوانین کی پابندی اور ہارن کا استعمال کم کردیں گے
کیا ہم اپنی گلیاں محلے صاف ستھرا رکھ سکیں گے
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
کیا ہم قطار بنانا سیکھ جائیں گے
اوپر مذکور باتوں میں سے کسی میں بھی حکومت کے کرنے کا کوئی کام نہیں
یہ ساری چیزیں ہم خود کر سکتے ہیں اگر کرنا چاہیں تو ورنہ گلشن کا کاروبار تو چل ہی رہا ہے
یہ ہے میرا انقلاب
یہ اگر آجائے تو شاید ہم تارکینِ وطن بھی تھوڑا سا سَر اُٹھا کے جی لیں
باقی جہاں تک ہمارے جذباتی لوگوں کے انقلاب کی بات ہے تو
زار روس نکولس دوئم کی جگہ ولاڈی میر لینن آجائے گا
شاہ فرانس لوئی کی جگہ نپولین بوناپارٹ آجائے گا
الله الله خیر صلا
بلیک شیپ، ان چیزوں کے لئے بھی حلومت کو ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ تعلیم پہ توجہ دی جائے ایک پڑھے لکھے شخص تک پیغامات پہچانا آسان ہوتا ہے۔ محض روڈ کے کنارے ایک بل بورڈ لگانا کافی ہوتا ہے کہ خود کو صحت مند رکھنے کے لئے صفائ ضروری ہے۔ میڈیا پہ حکومت کی طرف سے ایسے اشتہارات بنائے جا سکتے ہیں جن سے لوگوں میں معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کیا جا سکے۔ اسکول کا نصاب ایسا رکھا جائے کہ جو ایک شخص کو بہتر انسان بننے میں مدد دے۔ نظام میں بنیادی اصلوں کی پاسداری ہونی چاہئیے تاکہ ایک عام انسان بھی ان پہ عمل پیرا ہونے پہ مجبور ہو جائے۔
ReplyDeleteکوئ بھی انقلاب لوگوں میں شعوری سمجھ لائے بغیر نہیں آ سکتا۔ اس کے لئے وہ تمام انجمنیں یا سیاسی پارٹیاں جو انقلاب لانا چاہتی ہیں انہیں پرائمری سطح پہ لوگوں کی تعلیم کا بند و بست کرنا چاہئیے۔
عنیقہ جی آپ بھی بہت بھولی ہیں۔۔۔۔۔
ReplyDeleteتعلیم بھی کچھ انسانوں کا کچھ نہیں بگاڑتی۔۔۔۔۔
محض روڈ کے کنارے ایک بورڈ لگانا ؟ پاکستان کی اکثریت کو ابتدائی مذہبی تعلیم میں ہی بتادیا جاتا ہے کہ صفائی نِصف ایمان ہے مگر۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں ایسے کتنے بورڈز کی ضرورت پڑے گی کسی کو معلوم ہو تو برائے مہربانی مجھے بھی مطلع کردینا۔۔۔۔
تعلیم کے بارے میں آپ کو ایک اپنا لطیفہ سناتا ہوں ویسے اس لطیفے پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے
جب کراچی کے بھائی کی شادی ہوئی میں یونہورسٹی کے سیکنڈ سمسٹر میں تھا خیر دوپہر کے وقت یونیورسٹی سے ہمارے طالب علم انجینئرز حضرات ایک ریلی نکلی جس نے آگے جاکر پوری سڑکیں بلاک کردیں
مزے کی بات وہ نعرے تھے جو ریلی کے شرکاء لگا رہے تھے
کہ ہم سب شادی کریں گے، ہم سب شادی کریں گے
یہ تو ہمارے مستقبل کے انجینئرز جو کہ ساتویں آٹھویں سمسٹر میں تھے۔۔۔۔۔
تعلیم کے ساتھ ہمیشہ میں نے تربیت کا لفظ ساتھ دیکھا ہے
اور آپ بھی بہت بہتر طریقے سے جانتی ہوں گی کہ تربیت ماں کی گود سے آس پاس کے لوگوں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔ تربیت انتہائی اہم ہوتی ہے کسی کی شخصیت بنانے میں بگاڑنے میں۔۔۔
اور جہاں تک انقلاب کی بات ہے تو میرے نزدیک اصل مسلئہ یہ ہے کہ ہم دراصل جذباتی اور جلدباز قوم(لوگ) ہیں۔ قوموں کی زندگی میں پانچ دس سال کوئی بڑی بات نہیں ہوتے مگر ہم لوگ ہر چیز کا بڑی جلدی حل چاہتے ہیں اور اسی جلدبازی میں ہر دفعہ اپنی عزت کبھی کسی ‘مرد مومن مرد حق’ کے ہاتھوں یا پھر کبھی ‘سب سے پہلے میں’ کے ہاتھوں پامال کراتے ہیں۔ آخر ہم لوگوں کو دائرے میں سفر کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے
ہر کوئی جلدی میں ہے کہ اگلے ایک دو سالوں میں سب کچھ تبدیل ہوجائے
اتنی جلدی تو درخت بھی پھل نہیں دیتا جِتنی جلدی ہمارے جذباتی لوگ اِس قوم کو بدلنے میں کر رہے ہیں
قوموں کی عادات صدیوں میں بنتی ہیں صدیوں میں بدلتی ہے
کافی سال پہلے کی بات ہے مجھے الیانز فرانسز کراچی کی ایک تقریب میں فرانس کے سفیر کی گفتگو سننے کا موقع ملا تھا۔ اس بندے نے ایک بڑی اچھی بات یہ کہی کہ آج آپ لوگ فرانس اور مغربی دنیا کی ترقی کو تو دیکھتے ہیں مگر اس ترقی کو حاصل کرنے کے لئے جو صدیوں محنت کی گئی اس کو نہیں دیکھتے۔
اگر آج ہم ١٩٤٧ میں ہوتے تو شائد پچیس تیس سال میں مغرب کے برابر پہنچ جاتے مگر ہم نے پچھلے ٦٣ سالوں میں پیچھے کی طرف سفر زیادہ اور آگے کی طرف کم تو شائد اب چالیس پچاس سال تو کہیں نہیں گئے
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ترقی صرف سڑکیں بلڈنگیں پُل بنانے سے نہیں ہوتی بلکہ اپنے اِخلاق رویوں معاشرتی ہم آہنگی کو بہتر بنانے سے ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو حقوق کو جاننے سمجھنے ادا کرنے سے ہوتی ہے
کئی لوگ مجھے کہتے ہیں کہ عرب دنیا بہت ترقی یافتہ ہے یقین کریں مجھے ہنسی آتی ہے یہ سُن کر
اگر آج عرب دنیا سے دولت کا عنصر نکال دیا جائے تو پھرشاید اِسٹون ایج سے تھوڑی بہتر صورتحال وہیں نظر آئے گی
مگر پھر بھی اپنے اِنقلابی بھائی بہنوں کا دِل رکھنے کیلئے کہہ دیتا ہوں
اِنقلاب زندہ باد
اِنقلاب پائِندہ باد