جدہ میں؛
جس طریقے سے مسافروں کے سامان کی جانچ پڑتال کی گئ وہ ذلت آمیز اور شرمناک تھا۔ سرکاری ملازم لوہے کی سلاخیں ہاتھوں میں لئیے گھومتے تھے اور ہر مقفل صندوق کو توڑ ڈالتے تھے۔ ہر بنڈل کی جانچ کرتے اور سامان پر من مانا محصول لگاتے۔ بعض صورتوں میں تو کُل کا کُل سامان نکال پھینکا۔ اگر ایک ہی قسم کی دس چیزیں تھی تو ان میں سے ایک خود لے لی اور باقی واپس کر دیں۔ اگر مختلف چیزیں ہوتیں تو ہر چیز پر ایک خاص رقم دینی پڑتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے پاس محصول لگانے کا کوئ قاعدہ قانون نہ تھا بلکہ بلا تفریق لوٹ مار کا اندھا دھند نظام تھا۔ بھڑک دار ، خوشنما اور گہرے رنگ کی چیزوں پر بھاری محصول لگاتے۔ اپنی جہالت کی وجہ سے جو چیز ظاہر میں زیادہ خوش نما ہوتی اسے زیادہ قیمتی سمجھتے۔ صندوقوں اور پلندوں کی چیزوں کو الٹ پلٹ کے کے ادھر ادھر پھینک دیتے۔ یہ کام اتنی بری طرح کرتے کہ لوگوں کو غصہ آجاتا۔ سامان کو قرینے سے لگا کر دوبارہ باندھنے اور بند کرنے میں کافی وقت لگتا اور خاصی محنت کرنی پڑتی۔
شریف مکہ نے دس اچھی طرح مسلح شتر سوار ہمارے خرچ پر عنایت فرمائے۔ نائب الشریف کے بھی چار پانچ قوی الجثہ اور مضبوط غلام ساتھ تھے۔ نواب صاحب کے ملازموں میں سے بہت سوں کے پاس ہتھیار تھے۔ چونکہ ہمارے قافلہ کی شہرت عام ہو گئ تھی اس لئے اور بھی کچھ آدمی جو مدینہ جانا چایتے تھے شریک قافلہ ہو گئے۔ ان میں تین ایسی حیثیت کے آدمی تھے کہ ہر ایک کو دس سواروں کا حفاظتی دستہ شریف مکہ نے دیا تھا۔ اس طرح انہوں نے تیس خوب مسلح اور اچھے شتر سوار عنایت فرمائے۔ اب ہماری ایک مضبوط جماعت ہو گئ جو لٹیروں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکتی تھی۔
شریف محسن نے یہ نائب الشریف کا نام ہے، جو ہماری حفاظت کے ذمے دار تھے، مندرجہ بالا تدابیر کے علاوہ حفاظت کے ایک اور ذریعے سے، جو اتفاق سے راستہ میں مل گیا تھا فائدہ اٹھانا مناسب سمجھا۔
اس وقت مکہ میں ایک شخص تھا جس کا لقب 'شیخ الحرامی' تھا اور وہ ڈاکوءوں اور چوروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ شخص لٹیرے قبائل کے شریر ترین قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اسکا اثر اتنا زیادہ ہے کہ قافلہ میں محض اسکی موجودگی ، حملے سے حفاظت کی ضامن ہوگی۔ یہ عمر رسیدہ آدمی تھا اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے تھا۔ اسکی شرکت قافلے کی حفاظت کے ذریعوں میں ایک اہم اضافہ تھا
مجھے اس بات کابڑا احساس ہے کہ بدو لٹیروں کے قبائل ، عرب کے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان انکی وحشیانہ عادات کو دبانے اور انکو صحیح راہ پہ لانے کے لئے کوئ قدم نہیں اٹھائیں گے۔ کیونکہ انہیں قابل احترام خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک مختصر سی مسلح فوج بلا کسی دقت کے انکو ٹھیک کر سکتی ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ ملک کے تجارتی اور زراعتی وسائل کو ان پر اور سلطان کے عقیدت مندانہ مذہبی جذبے پر قربان کیا جا رہا ہے۔ اگر ان قبائل کو زندگی کا صحیح راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو ملک کے تجارتی اور زرعی مرکز بن جانے میں کوئ رکاوٹ نہ ہو جس سے عام طور پر ساری دنیا کو اور خاص طور سے اس ملک کی اچھی اور امن پسند رعایا کو بہت فائدے پہنچیں۔
اشٹوری دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ReplyDelete