Monday, May 30, 2011

مستی

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے بے خود میں رہتے ہیں
بانکے ، ٹیڑھے، ترچھے، تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں
جبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا




Saturday, May 28, 2011

نیا پاکستان، آدھا طالبان

اگر آپ عنوان دیکھ کر یہاں آئے ہیں تو مایوسی ہوگی۔ میں اس پہ کچھ نہیں لکھ رہی۔ محض دل پشوری ہے۔ جسٹ اے مارکیٹنگ ٹِرک۔ مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگ یہ حرکت کر چکے ہیں۔ اس لئے اس میں کوئ تخیل کی پرواز نہیں ہے۔  کوئ وعظ بھی نہیں ہے۔
اور اگر اس عنوان کے سہارے کچھ بھی پڑھنے کے لئے تیار ہیں تو یقین رکھیں کہ آج آپکو کچھ مزے کا پڑھنے کو ملے گا۔ کیونکہ آج جن صفحات میں آپکو شریک کرنا چاہ رہی ہوں۔ وہ منٹو سے متعلق ہیں۔ لکھا ہے اسے منشا یاد صاحب نے ادبی سلسلے دنیا زاد کے  بائیسویں شمارے ،  سیاہ تارہ میں یہ شائع ہوا ہے۔ اسکے ایڈیٹر ہیں جناب ڈاکٹر آصف فرخی۔
یہ مضمون اپنے اسلوب میں مزاح اور طنز رکھتا ہے۔ لیکن جس چیز کی طرف میری توجہ زیادہ گئ۔ وہ منٹو کی ایک معصوم سی فرمائیش ہے ایک چھوٹےسے ایٹم بم کی۔ کس واسطے؟
اب دیکھیں منٹو صاحب نے جس سلاست اور روانی سے یہ فرمائیش کی ہے۔ اگر میں لکھوں تو، زن آزاد، روشن خیال کافر اور پڑھی لکھی جاہل قرار پاءوں۔ اس سے اشارہ سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ بڑا ادیب  آخر کیسے جنم لیتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ انیس سو اسّی سے پہلے کا پاکستان کیا زیادہ ترقی یافتہ تھا۔  ترقی یافتہ تھا یا نہیں، البتہ  اس زمانے میں مرد لکھاریوں کا پسندیدہ موضوع خواتین کا پردہ اورانکے شرعی فرائض  نہیں ہوتے تھے۔
منٹو صاحب کا یہ خط اس میں انگریزی میں موجود ہے۔ اسکے مطابق انہیں ایک چھوٹا سا ایٹم بم چاہئیے ان مردوں کے لئے جو سڑک کے کنارے قدرتی ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔ اسکے لئے وہ کیا اہتمام کرتے ہیں اسے میں اردو میں ترجمہ نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اپنے چند نامی گرامی بلاگرز سے جنہیں ان موضوعات سے دلچسپی ہے درخواست کرونگی کہ ایک نظر ادھر بھی۔  اس کا ترجمہ وہ اپنے بلاگ پہ شائع کر سکتے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والی شہرت پہ میں کوئ دعوی نہیں کرونگی۔ اس کا اعجاز منٹو صاحب کو جاتا ہے یا منشا یاد کو۔ میری حیثیت تو محض پیمبر کی سی ہے۔ وہ بھی وہ، جسکے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
  آئیے ، پڑھتے ہیں۔
۔



Wednesday, May 25, 2011

شہید تیرا قافلہ تھما نہیں رکا نہیں

اسی طرح رات کو ٹی وی چلا کر کسی بلاگ پہ تبصرہ لکھ رہی تھی کہ اطلاع ملی  شاہراہ فیصل پہ دھماکہ ہو گیا۔ آدھ گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ پی این ایس مہران میں بارہ ، پندرہ دہشت گرد گھس گئے۔ س سے آگے اب ایک دنیا واقف ہے کہ کیا ہوا؟
وہ بارہ پندرہ دہشت گرد جو ایک وقت میں بیس بائیس ہو گئے تھے محض تین نکلے باقی کے سب بھاگ گئے۔ انکی تعداد دو سے لیکر آٹھ تک ہے۔ اربوں روپے مالیت کے قیمتی جہاز تباہ ہوئے۔ دس فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ 
ایک طبقہ خوش ہے کہ  فوج نے پاکستانی عوام کو جس طرح تیس سال پہلے بے وقوف بنا کر ایک جنگ میں دھکیلا، ملک کی ثقافت اور مستقبل کو  داءو پہ لگایا آج اسے خود مزہ چکھنے کو ملا۔ دوسرا طبقہ خوش ہے کہ جس طرح ہمارے مجاہدین کے خلاف مہم چلائ گئ ، انہیں شہید کیا گیا، نتیجے میں اچھا تھپڑ پڑا۔ ایک اور طبقہ خوش ہے کہ کیونکہ لگتا ہے بالآخر ہمیں امریکہ سے دو بدو لڑنے کا موقع ملے گا۔ آہا، کندن بننے کے دن آنے والے ہیں۔ کندن بننے کے بعد یقیناً اقوام عالم میں ہم سونے کے بھاءو تولے جائیں گے۔
یہاں ہمارے کچھ ساتھی ایسے ہیں جو دو سال پہلے اس خیال کے شدید مخالفین میں سے تھے کہ کراچی میں طالبان اپنی جڑیں پھیلا رہے ہیں۔ آج وہ سب خاموش ہیں۔ یہاں ہمارے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جنہیں پنجابی طالبان کی اصطلاح پہ کف آنے لگتا تھا۔ آج وکی لیکس کہہ رہی ہیں کہ پنجاب میں طالبان کو جمانے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے۔ آج وہ بھی  خاموش ہیں۔
ایسے ہر واقعے کے بعد ٹی وی پہ مبصرین کی ایک بڑی فوج دستیاب ہو جاتی ہے۔
 ایسے ہی ایک ٹاک شو میں ، فوج کے ایک اعلی ریٹائرڈ افسر اتنے جذباتی ہوئے، فرمانے لگے پاکستان کی حفاظت دو قوتیں کر رہی تھیں۔ پھر کچھ سوچ کر انہوں نے اس میں ایک اور قوت کا اضافہ کیا ۔ یہ قوتیں فوج، پٹھان اورخدا ہیں۔  اندازہ ہے کہ آخر میں شامل ہونے والی قوت خدا کی ہوگی۔ لیکن پچھلے دس سال میں فوج اور پٹھان کو لڑا دیا گیا اور اس طرح ملک کے دفاع کو کمزور کر دیا گیا۔ 
چلیں فوج تو پاکستانی انسٹی ٹیوشنز میں شامل ہے۔ لیکن کسی قوم کو جاہل اور معاشی طور پہ کمزور رکھ کر۔ ملک میں بسنے والی دیگر قوموں سے الگ کر کے دین و ملت کی حفاظت پہ معمور کر دینا، کہاں تک درست ہے؟
اگر ہم اس بات کو  من وعن تسلیم کر لیں کہ دہشت گردی کی اس فضا کی ساری جڑ امریکہ ہے۔  تب بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں اور استعمال ہوتے ہیں وہ ہمارے ہی لوگ ہیں۔ کیا امریکہ میں ہونے والی کسی دہشت گردی میں کوئ امریکی شامل ہوتا ہے۔ حتی کہ ممبئ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے میں بھی پاکستانی یہاں سے وہاں پہنچے۔ لیکن افسوس، ہمارے یہاں دہشت گردی کے ہر واقعے کوانجام دینے والا ایک پاکستانی ہی ہوتا ہے۔ اسکے باوجود کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی موجود ہیں یہ فریضہ سر انجام دینے کے لئے انہیں پاکستانی مل جاتے ہیں۔ آج تک کسی خود کش حملے میں کوئ امریکی نہیں پھٹا نہ ہی کوئ انڈین۔
یہ لوگ کیوں ان لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ اسکی دو واضح بنیادی وجوہات ہیں۔ تعلیم کی کمی اور بے روزگاری۔ اسکی تیسری سب سے اہم وجہ ہمارے شمالی علاقہ جات کے عوام کو اس فریب میں مبتلا رکھنا کہ وہ بہادر اور جنگجو ہیں۔ ان پہ دین اور ملک کی کڑی ذمہ داری ہے۔  اس خوبی کے بعد انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، وہ بہادر ہیں بچے کے کان میں اذان سے پہلے گولی کی آواز جاتی ہے۔
کیا ایک قوم بننے کے عمل کے لئے یہی نظریات کارآمد ہوتے ہیں؟ یہ بات ہمیں آدھا پاکستان گنوانے کے بعد بھی سمجھ نہِیں آسکی۔ بنگالیوں کو انکی جسامت اور مذہب کے بارے میں  کے طعنے دینے والے ان سے شکست کھا گئے۔
آزاد علاقوں کے پشتونوں کو ایک پر فریب احساس برتری میں مبتلا کر دیا گیا۔ اور اپنی اس آزادی میں وہ کسی قانون کے پابند نہیں رہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ آزادی کے بعد انہیں پاکستان کی دیگر اقوام کے ساتھ مین اسٹریم میں لانے کی کوششیں غیر محسوس طریقے سے شروع کی جاتیں۔ تاکہ تبدیلی کا عمل آہستگی سے شروع ہو جاتا۔ لیکن کسی نے اس صورت کو تبدیل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔  البتہ انکی اس حالت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ اس طرح کے انہیں  کوئ دور رس  فائدہ نہیں پہنچا۔  حتی کہ جنت تک پہنچے اور پہنچانے کے لئے بھی یہی راستہ استعمال کیا گیا۔
انکی اس آزاد حیثت کا فائدہ اٹھا کر دنیا بھر کے جنگجو وہاں پہنچ کر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اسلحہ کا آزادنہ استعمال ، آزادنہ تیاری، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ اگر اس میں کوئ کمی تھی تو وہ عوامی پذیرائ کی۔ وہ ماشااللہ سے پچھلے تیس سالوں کی شبانہ روز محنتوں سے انہیں ایسی ملی کہ ، تیس سال کی داستان تو ایک طرف، پچھلے دس سالوں میں پینتیس ہزار عام پاکستانیوں کے انکے ہاتھوں ختم ہونے کے باوجود ختم نہ ہوئ۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کروا رہا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ امریکہ لیبیا میں تو القاعدہ کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے دوسرے ملک میں کیسے اسکے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر ایک ملک میں وہ اسکی مدد کر رہا ہے تو دوسرے ملک میں القاعدہ کے رہنما اس کے دشمن ہونگے۔
آج سے تیس سال پہلے فوج نے امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے جہاد کا فلسفہ پھیلایا، اور جہادی کاروبار میں خوب پھلی پھولی، آج سے پندرہ سال پہلے فوج کی سرپرستی میں، امریکہ کی آشیرباد سے طالبان کو افغانستان میں داخل کیا گیا، آج سے دس سال پہلے فوج کی مرضی سے پاکستان امریکہ کی مدد کر کے جنگ کے کاروبار میں شامل ہوا۔ دراصل ہماری فوج اور امریکہ ایک دوسرے کے حلقہ ء اثر میں تین دہائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ کس لئے ایک اپنے رسوخ کے لئے دوسرا ڈالرز کے لئے۔ 
اس لئے جب جنرل کیانی نے کہا کہ خوشحالی کے لئے عزت و وقار پہ سودانہیں کریں گے تو مجھے یہ سوچنا پڑا کہ انکا مخاطب فوج کے اعلی عہدے دار ہیں۔ عوام کے پاس نہ خوشحالی ہے نہ عزت اور نہ وقار۔
آج مرنے والا بھی شہید ہے مارنے والا بھی شہید ہے۔ پی این ایس مہران ، کراچی کے واقعے میں  دس شہید فوج کے اور تین شہید دہشت گردوں کے۔ عام پاکستانی  کنفیوز ہے۔ اسے خودکش حملہ آور کا کاز انتہائ نیک لگتا ہے۔ مرنے والوں کا بھی کوئ قصور نہیں۔ یوں شہیدوں کا قافلہ نہ تھمتا ہے نہ رکتا ہے۔

اس سارے واقعے کے بعد جس چیز سے مجھے شدید تکلیف پہنچی وہ لیفٹیننٹ یاسر عباس کی والدہ کی حکومت سے یہ درخواست کہ انکے شہید بیٹے کو نشان حیدر دیا جائے۔
یہ صحیح ہے کہ نوجوان اکلوتے بیٹے کی موت والدین کے لئے ایک بڑا سانحہ ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسے واقعے میں جس میں مزید نو لوگ شہید ہوئے ہیں جد وجہد کرتے ہوئےآخر وہ بھی تو کسی کے بیٹے ہیں۔ یاسر عباس شہید کا خاندان فوج کے اعلی افسران کے لوگوں پہ مشتمل ہے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ اس راستے میں یہ کڑے امتحان آتے ہیں۔ پھر ایسی کم بات کیوں کی؟ مجھے نجانے کیوں یقین سا ہے کہ انکی والدہ کو کسی اور نے یہ درخواست کرنے کے لئے کہا ہے۔ ایک ماں کا دل اتنا چھوٹا اور خود غرض نہیں ہو سکتا کہ وہ صرف اپنے بیٹے کے بارے میں سوچے۔
ابھی اس واقعے کی انکوئری نہیں ہوئ۔ ہم تک جو میڈیا کے ذریعے اطلاعات پہنچی ہیں۔ اگر ان سب کو درست تسلیم کیا جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ اس میں فوج کے اعلی افسران کی کوتاہی شامل نہیں، اس واقعے کا باعث انکی کوتاہ اندیشی  اور نکما پن نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں اسکے بر عکس انہوں نے  دہشت گردوں کو ناکام کر دیا۔ اور انہیں لعنت ملامت کرنے کے بجائے انکا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے۔  اسکے بعد بھی اگر نشان حیدر کا مستحق کوئ شخص نظر آتا ہے تو ایک کرنل کا بیٹا یاسر عباس شہید نہیں بلکہ وہ رینجراہلکار خلیل ہے جس نے یہ جان کر بھی کہ دہشت گرد کے ہاتھوں میں گرینیڈ موجود ہیں اسے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا۔
کیا ہم اسکی اس قربانی اور جوانمردی سے اس لئے گریز کریں کہ وہ اعلی  دولت مند خاندان سے تعلق نہیں رکھتا اور اپنی حیثیت میں کم رینک پہ تھا۔
شہید تیرا قافلہ تھما نہیں رکا نہیں۔ مگر اسے اب رکنا چاہئیے، شہادت سے پہلے مقام بصیرت پہ۔




Sunday, May 22, 2011

عِمّی ڈارلنگ

 میں سگنل کے سرخ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئ اپنی لین کے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی کہ میرے کانوں سے میگا فون پہ ابھرنے والی آواز ٹکرائ۔ آج ہمیں پاکستان کو بچانے کے لئے نکلنا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت پہ حملہ ہیں۔ تقریباً دس گز لمبائ پہ پھیلے شامیانے، چار میزوں اور آٹھ کرسیوں کے ساتھ تین افراد موجود تھے۔ پیغام دینے والا، پشتون لب و لہجے میں عوام کے جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور رات کے ساڑھے آٹھ بجے سگنل کے اطراف میں موجود درجنوں منی بسوں میں اور انکی چھتوں پہ سوار  چند افراد اسے خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ سب دن بھر کی تھکن لے کر گھر جا رہے تھے اور اس خیال سے لرزاں تھے کہ گھر میں ایک مہیب اندھیرا، بچوں کا رونا دھونا، پانی کا نہ ہونا، کھانے کی فکرات یہ سب انکی آمد کی منتظر ہونگیں۔
میرے سامنےبالکل آگے ایک سوزوکی میں کسی گارمنٹ فیکٹری سے واپس آنے  والی مفلوک الحال خواتین  بھی اسی اس فکر میں غلطاں تھیں۔ تھکن انکے چہرے کا مستقل حصہ تھی۔ ان میں سے کسی نے جھانکنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ کیا اعلان ہو رہا ہے کون پاکستان کی سالمیت پہ سودا نہیں ہونے دے گا۔ انکا مسئلہ یہ نہیں ہے۔
اس سے ایکدن پہلے بھی میں اس سگنل پہ موجود تھی۔ اس دن جیسے ہی میں نے سگنل کھلنے پہ اپنا راستہ لیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آگے ٹریفک جام ہے۔ اس روڈ پہ عام طور پہ کم ٹریفک ہوتا ہے اس وقت۔ میں نے خطرہ محسوس کرتے ہی گاڑی کو روڈ کے بائیں جانب کیا۔ اور جو پہلی گلی نظر آئ اس میں لے لی۔ آگے جا کر پتہ چلا کہ آگے بنارس چوک پہ شدید احتجاج جاری ہے۔ بنارس چوک کے چاروں طرف پشتون آبادی ہے۔ وہ احتجاج کر رہے تھے  پاکستان کی سالمیت  یا ڈرون حملوں کے لئے نہیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف۔ چوبیس گھنٹوں سے بجلی نہیں تھی۔
لوڈ شیڈنگ، کراچی جیسے صنعتی شہر کے لئے ڈرون حملوں جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہ حملے امریکہ کی طرف سے نہیں ہماری معیشت کی بد حالی اور ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔
چونکہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ پیشن گوئ شدو مد سے کی جا رہی ہے کہ اگلا الیکشن عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔ خود عمران خان بھی اس بارے میں خاصے پُر یقین ہیں کہ وہ بھٹو کی طرح الیکشن کا منظر نامہ تبدیل کر دیں گے۔ اب یہ تو مستقبل بتائے گا۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ  بھٹو کے بر عکس عوام سے زیادہ خواص میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ وجہ انکی غیر دیسی شہرت ہے۔ خواص کو دیسی نہیں غیر دیسی چیزیں زیادہ پسند آتی ہیں۔
 میری دلچسپی بھی اس میں تھی کہ عمران خان کراچی میں کیسا دھرنا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اس بات پہ بھی حیرت ہوتی ہے کہ ڈرون حملوں پہ دھرنا دینے والے رہنما خودکش حملوں پہ ایک بھی ریلی نہیں نکال پاتے۔
میرے ایک عزیز فیصل آبادی  دوست نے پوچھا کہ آخر آپ عمران خان کو کیوں ووٹ نہیں دینا چاہتیں۔ نیو جنریشن، آجکی یوتھ اسکے ساتھ ہے۔؟ نیو جنریشن، میں نے ان سے کہا۔ نیو جنریشن اگر پرانی جنریشن کی ڈکٹو کاپی ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئ ابا جی، چا چا جی موجود ہیں یا کوئ  علی  اور عِمّی موجود ہے۔ ابا جی اور چاچا جی کو جماعت اسلامی اور نواز شریف پسند تھے ، اپنے دینی رجحان کے باعث۔ بچوں کوعمران خان پسند ہے اسی قسم کے دینی رجحان کے باعث البتہ یہ کہ وہ ظاہراً ایک ماڈرن حلیہ رکھتے ہیں۔ آخر یہاں یوتھ ، زید حامد پہ بھی اسی وجہ سے فدا ہے۔
اچھا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو پھر کس چیز سے فرق پڑتا ہے۔؟  فرق پڑتا ہے پارٹی ایجینڈا سے۔ اور معاف کیجئیے گا کہ انکے پاس سوائے اس نعرے کہ کہ یوتھ ہمارے ساتھ ہے اور کوئ قابل ذکر نعرہ نہیں۔
وہ کرپٹ نہیں ہے'۔ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ابھی انہیں اتنا اختیار کہاں ملا ہے۔  سوائے اسکے کہ وہ اپنا ذاتی ہسپتال کامیابی سے چلاتے ہیں. اور کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنا کاروبار بہترین طریقے سے چلاتے ہیں۔  اپنی انفرادی حیثت میں کرپٹ نہیں ہیں اور معاشرے کے پریشان حال لوگوں کے لئے کوشاں ہیں مثلاً ایس آئ یو ٹی کے ڈاکٹر ادیب رضوی۔
کہنے لگے کہ ایجینڈا کیا ہوتا ہے؟ وہ امریکہ کے خلاف ہیں، اسلام کے نفاذ میں دپچسی رکھتے ہیں، کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں ۔ آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں، دنیا دیکھی ہے۔ میں ہنستی ہوں، آکسفورڈ کی پڑھی ہوئیں تو بے نظیر بھی تھیں انکا بیٹا بھی وہیں پڑھ رہا ہے ہمارے طبقہ ء اشرافیہ کے بچے ملک سے باہر ایسے ہی اداروں میں پڑھتے ہیں۔
دنیا دیکھنے کے باوجود انکی ذہنی کیفیت ایک ٹین ایجر لڑکے جیسی ہی ہے۔ پیغمبری حاصل کرنے والی عمر میں انہیں اسلام یاد آیا وہ بھی وہ اسلام جو انکی والدہ نے انکے اندر بچپن میں ڈالا تھا۔ اور اب پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ سے نفرت بھی کر رہے ہیں کچھ اس طرح کے اپنے ہسپتال کے لئے فنڈ وہیں سے جمع کر کے لاتے ہیں۔ امریکہ سے نفرت کا اظہار دائیں بازو کی سیاست کا اہم حصہ ہے۔ اس میں کوئ ویژن نہیں ہے۔ ملک میں اس وقت اتنے زیادہ لوگ اسلام کے نفاذ کے لئے کام کر رہے ہیں اس میں سے ایک وہ بھی سہی۔ چلیں سب ذاتی اعمال، کمزوریاں اور جھکاءو ایک طرف رکھ دیں۔ ان کا پارٹی ایجنڈا کیا ہے؟ کیا آپکو معلوم ہے؟
اسکے بعد ہماری گفتگو ایک دوسرے کو کچھ اخلاقی پند و نصائح پہ ختم ہو جاتی ہے۔
میں دھرنے والے دن کافی منتظر رہی کہ کوئ اطلاع آئے۔ چینلز خاموش رہے اگر اطلاع آئ تو یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں واحد دھرنا جس میں ڈیزائینر کے کپڑے پہننے والوں نے سب سے زیادہ شرکت کی۔ لیکن انکی یہ شرکت بھی مغرب کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔
کل کراچی میں چوالیس ڈگری درجہ ء حرارت تھا۔ ہماری یہ مار ڈالنے والی مرطوب گرمی بڑی شہرت رکھتی ہے۔ اس میں ڈیزائینر کے کپڑے پہننے والے اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے  مغرب کے بعد بھی اپنے ایئر کنڈیشنڈ گھروں کو چھوڑ آنا اہمیت رکھتا ہے۔ ادھر سنی تحریک نے بھی اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ اسکے علاوہ مذہبی جماعتوں  مثلاً جماعت اسلامی  نے بھی شرکت کی۔ اور یوں اندازہ ہے کہ رات دس بجے دھرنے میں پانچ سے آٹھ ہزار لوگوں موجود تھے۔ یہ اندازہ ڈان چینل نے لگایا۔ صبح دس بجے پنڈال خالی تھا ایک دم غریب کی جیب کی طرح۔ اطلاع ہے کہ شام کو چار پانچ بجے گرمی کم ہونے پہ دھرنا دوبارہ شروع ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی زندگی ، دھرنا دینے والوں کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
پونے دو کروڑ آباد رکھنے والا شہر، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ چالیس لاکھ کی پشتون آبادی رکھتا ہے۔ وہ پشتون آبادی جو ڈرون حملوں سے براہ راست متائثر ہے۔ وہ پشتون آبادی جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ مذہبی رجحان رکھتی ہے وہ پشتون آبادی جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ امریکہ مخالف ہے۔ اس میں سے اگر ایک فیصد لوگ بھی اس میں شامل ہوتے تو مجمع چالیس ہزار سے زائد کا ہوتا۔
اگر دھرنا دینے والے سنجیدہ ہوتے تو دھرنا نیٹِو جیٹی کے پل پہ نہیں نیٹو سپلائ کے راستے پہ ہوتا۔ جو اس پل سے زیادہ دور نہیں۔ 
عمی ڈارلنگ کا بیان آیا کہ آج ثابت ہو گیا کہ پاکستان کے عوام خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کون ہیں وہ جو منی بسوں کی چھتوں پہ سفر کرتے ہیں جنکے گھروں میں چوالیس ڈگری کی گرمی پہ دو دن سے بجلی نہیں ہے یا وہ جنکے متعلق یہ کہا جائے کہ تونے دیکھے ہیں کہاں لوڈ شیڈنگ کے رنگ، تو کبھی میرے گھر اتر شام کے بعد۔ وہ جنکے لئے دھرنا ایک ایڈوینچر ہوگا۔ یا وہ مزدور جنہوں نے دھرنے میں کرسیاں لگا کر مزدوری نہ ملنے پہ ٹھیکے دار کی پٹائ لگادی۔

 عِمّی ڈارلنگ کہتے ہیں کہ عوام خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔
جبکہ  عِمّی ڈارلنگ عوام اس وقت اس عورت کی طرح ہو گئے ہیں جو زندگی کی جنگ میں اپنی عزت اور عصمت بیچنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ جو خودکشی کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہو اسے ڈرون حملوں میں مرنے پہ کیا اعتراض۔ 

Friday, May 20, 2011

نو مور گھپلا

تم ہر غلیظ کام کرنے کو تیار رہتی ہو۔ اس لئے بار بار بیمار پڑتی ہو'۔ میں نے ڈاکٹر کے پاس واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھر مشعل کو صفائ کی اہمیت کے بارے میں بتانا چاہا۔ وہ اے سی کے ایکدم نزدیک ہو کر اس  سے آنے والی ہوا کے سامنے منہ کھول کر بیٹھی ہوئ تھیں۔ 'اب دیکھو، کھانسی ہو رہی ہے تمہیں اور تم اے سی کے سامنے منہ کھول کر بیٹھی ہوئ ہو'۔
میری اس بات پہ وہ ذرا پیچھے ہو کر بیٹھ گئیں۔ 'تم سُوں سُوں کر رہی ہو ناں۔ تمہاری ناک دوبارہ بہنا شروع ہو گئ ہے۔ مگر تمہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا'۔ میں نے انہیں ناک سکوڑتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ جواب ملا 'ناک تھوڑی بہہ رہی ہے۔ میں تو ہوا سونگھ رہی ہوں۔ اس لئے سُوں سُوں کر رہی ہوں'۔ پھر انہوں نے اپنے موءقف مضبوطی پیدا کرنے کے لئے مصنوعی سُوں سُوں کی آواز نکالی۔
 نو مور گھپلا۔  اب تم خاموشی سے ہاتھ سے ناک صاف کروگی۔ ٹشو لو فوراً''۔ ٹریفک اتنا ابتر ہو رہا تھا کہ میں نے اپنی توجہ روڈ پہ کر لی۔ گاڑی میں خاموشی ہو گئ۔
مشعل کو لگا کہ میں ناراض ہو گئ ہوں۔ 'ماما، کیا میں ایک اچھی بچی ہوں'۔ انہوں نے میرے جذبات کا اندازہ لگانے کے لئے ایک آزمودہ جملہ بولا۔ ماما کیا کہہ سکتی ہیں۔ در حقیقت ایک چار سالہ بچے کی اس بات پہ دنیا کی کوئ بھی ماں کیا کہہ سکتی ہے۔ میں نے بھی جذباتی جواب دیا۔ 'بالکل، آپ ایک اچھی بچی ہیں ، مگر کبھی کبھی گھپلا کرتی ہیں'۔ 'کیا اللہ میاں مجھے گناہ دیں گے۔ وہ میرے ہاتھ پہ زخم لگا دیں گے۔ پھر میں آپکو کیسے چھو سکوں گی'۔  اگر ایک طرف اللہ میاں ہوں اور دوسری طرف مسلمان ماں تو وہ کیا کرے گی؟
میں نے فوراً اللہ میاں کا دفاع کیا۔ 'نہیں وہ بچوں کو گناہ نہیں دیتے'۔ 'پھر وہ بچوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں'۔  ہمم، میں نے ایک گاڑی کو اوور ٹیک کیا۔ اسکے پیچھے کافی دیر سے پھنسے ہوئے تھے۔ 'بچوں کی ماما کو کہتے ہیں کہ بچوں کا سمجھا دیں'۔ ' کیا سمجھا دیں؟'۔ 'یہی کہ بچوں کو اپنی ماما کی بات سننی چاہئیے اور جیسا وہ کہیں ویسا ہی کرنا چاہئیے'۔ 'کیا میں آپکی بات سنتی ہوں'۔ انہوں نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا۔ 'آپ بتائیے آپ میری بات سنتی ہیں؟'۔ میں نے سوال کیا۔  وہ خاموش ہو گئیں۔ 'سوری ماما، میں آئیندہ آپکی ہر بات سنونگی ۔ جیسا آپ کہیں گی میں ویسا ہی کرونگی'۔ ہمم'۔ ایسے وعدے روز ہی ہوتے ہیں۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ 
'تو کیا آپ یہ اللہ میاں کو بتا دیں گی؟'۔' ہاں میں انہیں بتا دونگی'۔ 'کیا اللہ میاں آپکی بات سنتے ہیں'۔ 'ہاں وہ ماما کی بات سنتے ہیں'۔ اور آپ سے بات بھی کرتے ہیں'۔ 'ہاں وہ ماما کو بتاتے ہیں کہ بچوں کو کیا بتانا ہے'۔ میرے اوپر ایک پیغمبرانہ سرشاری طاری ہو گئ۔  گاڑی میں ایک دفعہ پھر خاموشی۔ 
ماما،  میں دادا جی کو بہت مِس کرتی ہوں'۔ ایسے جذباتی ڈائیلاگز بولنے میں وہ بہت ماہر ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کارٹونز دیکھنے کا اثر ہے۔ مگر کارٹونز تو آجکل سب بچے دیکھتے ہیں۔ انکے یہاں پریکٹیکل ایپلیکیشن زیادہ ہے۔ 'ماما، میں انہیں بہت لو کرتی ہوں'۔ 'ہاں مجھے معلوم ہے'۔ میں نے فضا میں خطرے کی بو سونگھی، میرے لئے کوئ ٹریپ کوئ چاہِ خس تیار ہو رہا ہے۔ 'ماما، آئ پرامس میں آپکی ہر بات مانونگی۔ آپ اللہ میاں سے کہیں وہ دادا جی  کو واپس کر دیں'۔
ساری الہامی فضا، دھڑ دھڑ دھڑام ہو گئ۔ گربہ کشتن روز اول۔ اچھا تو یہ وجہ ہے کہ جھوٹی نبوت کے دعویدار مرد اتنے زیادہ اور  انکے مقابلے میں عورتیں برائے نام۔ عورتوں کی ابتدائ  آزمائیش انکے  بچے کرتے ہیں۔ میں نے گھر کے آگے گاڑی روکتے ہوئے سوچا۔ توبہ میری۔
دل سے نکال دیجئیے احساس پیغمبری
مرجائیے، الہام کا دعوی نہ کیجئیے

Tuesday, May 17, 2011

روایت، مشرق اور خواتین

ایک دفعہ میں نے اپنے سسر صاحب سے پوچھا، ابّی ، آپ کو  امی کی کیا چیز اچھی لگی کہ آپ نے ان سے اس دور میں پسند کی شادی کی۔ جب والدین کی پسند کی شادیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس پہ انہوں نے انکی کوئ خصوصیت بتانے کے بجائے کہا کہ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ وہ میری سول میٹ ہیں یعنی روح کی ساتھی، اور مجھے ان سے شادی کرنی چاہئیے۔ ایک روح نے دوسری روح کو پہچان لیا۔
میں انکی زندگی میں بہت بعد میں آئ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ اعتماد کے رشتے میں جڑے ہوئے تھے۔ شاید ہی کوئ بات ہو جو وہ ایک دوسرے کو نہ بتاتے ہوں، شاید ہی کوئ جگہ ہو جہاں وہ ایک ساتھ نہ جاتے ہوں۔ شاید ہی انکی زندگی میں کوئ ایسا شخص ہو جسے وہ دونوں نہ جانتے ہوں۔ وہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ اسکے باوجود کے ان دونوں میں عمومی اختلافات پائے جاتے تھے جو ہر دو انسان میں ہوتے ہیں۔ مگر وہ انکے تعلق کی گرہ پہ کبھی اثر انداز نہیں ہوئے۔ 
میری ساس اپنے وقت کی ذہین طالبہ، کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی ایک ورکنگ خاتون، زندگی میں بھی کامیاب رہیں۔ میرے عزیز اور دوست سب ان دونوں پہ رشک کرتے تھے۔ اور پھر مجھ پہ، ساس سسر اچھے ملے ہیں تمہیں۔ جب دیکھو ایک ساتھ، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے۔
کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے کئ عورتوں کا ہاتھ۔  یہ عورت یا عورتیں کوئ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر خواتین کی کامیابی کا ایسا کوئ تصور ہو تو خواتین کی کامیابی صرف دو مردوں پہ منحصر ہوتی ہے۔ اور وہ ہیں انکے باپ یا شوہر۔
کامیاب مردوں سے ہٹ کر کامیاب عورتوں کے بارے میں  معیار خاصے مختلف ہوتے ہیں۔ حسین عورت کامیاب ہے، ناز ادا دکھانے والی عورت کامیاب ہے،  کسی کی نظر میں آنکھ کے آنسو کو منہ میں جمع کر کے رکھنے والی  خاموش عورت کامیاب ہے، باپ، بھائ اور شوہر کی رضا پہ سر تسلیم کرنے والی عورت کامیاب ہے، بیٹوں کے اوپر راج کرنے والی عورت ، شوہر کو ہر جا و بے جا اخلاقی ہتھکھنڈوں سے کاٹھ کا الو بنا کر رکھنے والی عورت کامیاب ہے، جس عورت کو ساری زندگی  کچھ نہ کرنا پڑے اور گھریلو یا کرائے کے خادم اسکی سبزی نما حالت کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرتے رہیں  وہ کامیاب ہے، سونے سے لدی پھدی عورت کامیاب ہے۔
خواتین کے ساتھ کامیابی کی کچھ ایسے ہی حکائیتیں ہیں۔
یہ حکائیتیں جن پہ اکثر مرد بڑی دلجمعی سے اپنی رائے دیتے ہیں۔ اتنی دلجمعی سے کہ  رائے دیتے وقت اپنی ماءووں کو بھول جاتے ہیں اور بعض چاند سے رومانس کرنے والی سادہ یا حقائق سے نا آشنا  خواتین مذہبی جوش و خروش کے ساتھ یقین رکھتی ہیں جب تک کہ انہیں اسی نا آشنائ میں خود کسی اندوہناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔
خیر، وہ عورتیں جنہیں ہم دنیا کے افق پہ چمکتے دیکھتے ہیں اور ایک عالم جنہیں جانتا ہے، کیا انہیں کامیاب کہنا چاہئیے یا نہیں؟ مثلاً اندرا گاندھی یا برما کی نظر بند سیاسی خاتون آنگ ساں سو کائ، بیگم بلقیس ایدھی یا ارون دھتی رائے، بے نظیر بھٹو یا مارگریٹ تھیچر   ، قراۃ العین حیدر یا عصمت چغتائ، پروین شاکر یا ملکہ ء ترنم نورجہاں,۔
مجھے تو مصر کی ملکہ قلو پطرہ خاصی پسند آتی ہے ایک ایسے وقت میں جب بادشاہت صرف خاندان کے مردوں کا حصہ تھی اس نے سلطنت حاصل کی اور اسے قائم رکھا، ایک سحر انگیز ملکہ۔ بھوپال کی ولی عہد شہزادی عابدہ سلطان، حیران کن خاتون۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ایک عورت جو تہتّر شیروں کا شکار کر لے، لائیسنس یافتہ پائلٹ جو اپنی گاڑی کے ہر پرزے کو بدل سکتی ہو۔ خیر بھوپال کی کیا بات ہے، ہندوستان کی واحد ریاست جہاں یکے بعد دیگرے پانچ مسلمان خواتین کامیابی سےحکمراں رہیں۔ پانچویں خاتون نے برطانیہ کے بادشاہ کے آگے رو  کر، بے ہوش ہو کر اس بات کو منوایا کہ اگلا حکمران اس کا پوتا نہیں سب سے چھوٹا بیٹا ہوگا۔ جھانسی کی رانی یا رضیہ سلطان، عزم اور ہمت کی داستان۔
اور اگر اسلامی تاریخ دیکھیں تو حضرت خدیجہ ایک کاروباری خاتون جو اپنی شادی کے لئے رشتہ دیتی ہیں اور نبی کو وحی کے وقت حوصلہ۔ حضرت عائشہ جنہوں نے جنگ بھی لڑی۔
میں روایت پسند ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف قورمے کی ترکیب کی حد تک۔ اگر کوئ قورمے میں  دہی کی جگہ ٹماٹر ڈال دے تو اسے کڑاہی گوشت کہونگی قورمہ نہیں۔ اگر کوئ خاتون شیر کے شکار کی شوقین ہو تو کسی روایت پسند کی طرح اسے زن آزاد یا عورت نما مرد نہیں بلکہ چیلینج قبول کرنے والی مہم جُو خاتون کہونگی۔  
میں مشرقی بھی ہوں لیکن صرف اتنی جتنا مشرق پسند ہے۔ یعنی محبوبہ کی گلی کے کتے سے راہ ورسم بڑھانا،  سارے زمانے کو رازداں کرلینا، جب وہ سامنے آئیں تو عمران ہاشمی کی طرح تنہائ کا فائدہ بھی اٹھالیں اور پھر گھبراہٹ کے مارے بھاگ کر اماں کی پسند کی ہوئ شمائلہ کو خاتون خانہ بنا لیں۔ جتھے دا کھوتا اتھے آ کھلوتا۔ یہ گھبرایا ہوا ہیرو اور وہ الہڑ سادہ مٹیار۔ خاتون خانہ کا شرما کر کہنا اللہ وہ بہت اچھے ہیں اور سادہ مٹیار کا در فٹے منہ کہنا۔ آہ ، مشرق۔ آہ مشرق۔ مغرب میں یہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔
روایت، مشرق اور خواتین پہ یاد آیا کہ میرے ذاتی خیال میں، اس وقت بہترین روائیتی، مشرقی پاکستانی خاتون کی خصوصیات رکھنے والی، کوئ صاحبہ نہیں صاحب ہیں۔  اور وہ ہیں، ہمارے اور آپکے یوسف رضا گیلانی ۔ ان دونوں میں مماثلت نکالنا آپکا ہوم ورک ہے۔
آج کا دوسرا ہوم ورک۔  آج کی دنیا میں جبکہ خواتین ہر منظر پہ موجود ہیں اپنی پسندیدہ خاتون کا نام بتائیے۔  اس میں آپکی قریبی رشتے دار خواتین شامل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ وہ کوئ بھی ہو سکتی ہیں، ہو سکتا ہے ہم انہیں نہ جانتے ہوں ، ایک تعارف آپکی طرف سے اس پہ ہم آپکے شکر گذار ہونگے۔ باقی ہم اندازہ کریں گے کہ وہ آپ کو کیوں پسند ہیں۔
فی امان اللہ۔

Monday, May 16, 2011

ایک ادیب کے مشورے

لکھنا ایک فطری صلاحیت ہے؟
ہو سکتا ہے۔ در حقیقت میں بھی اس چیز پہ یقین رکھتی ہوں کہ انسان کرنے پہ آئے تو کیا نہیں کر سکتا۔ بس یہ کہ اگر آپ فطری رجحان نہیں رکھتے تو آپکو محنت زیادہ کرنی پڑے گی فطرت پہ حاوی ہونے کے لئے۔
لکھنے کی کوشش کریں تو لکھاری بن ہی جاتے ہیں لیکن کیا آپ اچھے لکھاری بن سکتے ہیں۔ 
اگر آپ لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ آپ میں یہ فطری رجحان موجود ہے۔  اکثر لکھنے والے اس بلاک کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انکے اندر لکھنے کا محرک نہیں رہتا۔ اگر اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ جذباتی طور پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہے تو امید ہے کہ اس جذباتی دباءو کے ہٹتے ہی آپ دوبارہ رواں ہونگے بلکہ پہلے سے زیادہ رواں ہونگے۔  اسکی ایک اور وجہ ہے اور وہ یہ کہ ٹوپی میں سے خرگوش نکالنے کے لئے ٹوپی میں خرگوش کا موجود ہونا ضروری ہے۔ یعنی جس طرح شہد کی مکھی پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتی ہے۔ اب وقت ہے کہ کچھ جمع کیا جائے۔
 لکھنا صرف انگلیوں کا کمال نہیں کہ انگلیاں کرائے پہ بھی لی جا سکتی ہیں۔ اس کا تعلق بصیرت سے ہے بلکہ بصیرت سے زیادہ شہادت سے۔ اس شہادت سے جسکے نتیجے میں آپ یا تو شاہد ہوں یا مشہود، شہید نہیں۔ شہید ہونے کے بعد اگر آپ کچھ لکھیں تو اسکی جہت اتنی الگ ہوگی کہ عام انسان اسے سمجھنے سے قاصر ہوگا۔ اس لئے ہم عزت اور احترام سے شہید کو دفناتے ہیں خود شاہد یا مشہود بنتے ہیں پھر  رمز بھرے بھید لکھتے ہیں  جو حکائیتیں، داستانیں یا شاعری وغیرہ کہلاتے ہیں۔
ہوا یوں کہ آج ایک کتاب تلاش کرتے کرتے ایک اور کتاب ہاتھ آگئ۔ تلاش کا عمل بس اسی وجہ سے آسان نہیں رہتا بلکہ اس میں ایک عجیب اسرار اور رنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ کچھ اور چیزیں بھی اپنے آپکو تلاش کروالیتی ہیں۔ 
اسے یونہی کھولا تو سامنے  مصری ادیب نجیب المحفوظ کی تحریر موجود تھی۔ ایک اچھا لکھاری کیسے بنا جائے۔ نوجوان ادیبوں کے نام یہ کام کے مشورے ہیں۔  اسے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا کہ فرصت ملتے ہی اسکین کیا جاوے اور اپنے بلاگ پہ چپکایا جاوے۔
نجیب محفوظ ایک نوبیل انعام یافتہ ادیب ہیں۔ مصر سے تعلق ہے۔ یوں ایک خیال اور آیا کہ ہمارے یہاں اچھے ادیبوں کا کتنا قحط ہے۔ لیکن پھر رّدِ خیال آیا کہ جب محدود زمین اور آسمان کا تعارف ہو تو پرندوں کو اونچی اور وسیع اڑانوں کی عادت بھی تو نہیں رہتی۔
یہ کتاب دراصل ایک ادبی مجموعہ ہے جو ڈاکٹر آصف فرخی ہر سہ ماہی پہ نکالتے ہیں۔ انکے ان ادبی مجموعوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کسی موضوع کا احاطہ کرتے ہیں۔ نام ہے انکے اس سلسلے کا 'دنیا زاد' اور چھاپتے ہیں اسے شہر زاد والے ۔ اس مخصوص مجموعے کا عنوان ہے 'قدیم حسن'۔



Friday, May 13, 2011

لُک آنجن

مکی صاحب کی ایک پوسٹ پڑھی جسکے اخیر میں وہ لکھتے ہیں کہ
ایک بات یقینی ہے کہ میں کسی ” ہستی ” کو تلاش کر کے اس کا شکریہ ضرور ادا کروں گا کہ مچھلی، بندر یا کسی کیڑے کی 
 بجائے میرا ارتقاء انسان کی صورت ہوا
یاد آیا کہ ایک شکریے سے وابستہ  خیال کہیں اور بھی تو کچھ سال پہلے پڑھا تھا۔ آپ کے مطالعے کے لئے حاضر ہے۔ بھولے قارئین یہ نہ سمجھیں کہ یہ مصنف کی آپ  بیتی ہے۔ یقین دلادوں کے جس وقت لکھاری نے یہ لکھا وہ صاحب اولاد نہیں تھا۔ کراچی کے ایک ادبی پرچے میں شائع ہونے والا  فکاہیہ یہ رہا۔
بہتر دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئے۔



 

Wednesday, May 11, 2011

سونا، اک جنوں

سائینس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔  انسان نے اسے تجسس، خوف، لالچ اور ضد جیسے جذبوں سے گوندھا ہے۔ کچھ نے اس میں خدا کو ڈھونڈھنے کے لئے اپنا حصہ ڈالا اور کچھ نے رد کرنے کے لئے۔ کہانی کسی بھی ارادے سے شروع کی گئ۔ انجام  یہ ہوا کہ خدا انسانوں کے ساتھ جوا ہی نہیں کھیلتا بلکہ کبھی کبھی اپنے پانسے ادھر ادھر بھی ڈال دیتا ہے۔
  یہ کہانی ہیمبرگ کے ہیننگ برینڈ  کی ہے۔ برینڈ فوج میں ایک جونیئر آفیسر تھا۔ کیمیاء سے لگاءو رکھتا تھآ۔ اسکی پہلی  بیوی کا جہیزاتنا تھا کہ فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد وہ الکیمیا پہ کام کر سکتا تھا۔ الکیمیا ، کیمیاء کی وہ ابتدائ شکل ہے جس میں ایک کیمیاداں کا مقصد عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ہوتا تھا یا پھر کوئ ایسی دوا جو تمام امراض کا علاج کر دے جسے اکسیر کہا جائے۔ یہ شاید خضر کے آب حیات سے متائثر خیال تھا۔ وہ الکیمیسٹ تھا۔ عربوں کو سونےسے بڑی انسیت تھی ۔ یوں  انہوں نے سونے کی تلاش میں کیمیاء میں خاصی دلچسپی لی اور کیمیائ تعاملات کے بنیادی طریقے متعارف کرائے۔
سونا انسان کو ہمیشہ مسحور کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائ انسان سوچتا تھا کہ خدا کی جلد یقیناً سونے سے بنی ہوگی یا وہ سونے کی طرح چمکیلا ہوگا۔ انسانی خدا بھی اپنے لباس  اور اشیائے استعمال مِیں سونے کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔
قدیم انسان تو یہ بھی سوچتا تھا کہ سورج پگھلا ہوا سونا ہے جسکی سنہیری چمک زمین تک پہنچتی ہے۔ یوں یہ خیال کیا جانے لگا کہ جو چیزیں سنہری نظر آتی ہیں ان کا کوئ نہ کوئ تعلق سونے سے ضرور ہوگا۔
برینڈ بھی اس پتھر کی تلاش میں تھا جو کسی عام دھات کو سونے میں تبدیل کر دے۔ فلاسفرز اسٹون یا جسے ہم اردو میں پارس کہتے ہیں۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کی ساری جائداد اس میں جھونک دی۔ مگر کچھ بھی نہ ملا۔
اس کے مرنے کےبعد برینڈ نے دوسری شادی کی ایک مالدار عورت سے۔ ایک دفعہ پھر وہ سونے کے تعاقب میں تازہ دم تھا۔ لیکن اس دفعہ اس نے پچھلے تمام تجربات سے ہٹ کر ایک نئ چیز پہ اپنی توجہ مرکوز کی۔ یہ تھا سنہرا، پیلا انسانی پیشاب۔
کہا جاتا ہے کہ برینڈ نے اس کے لئے ہزاروں لٹرز پیشاب استعمال کیا، پچاس بالٹیاں ، ساڑھے پانچ ہزار لٹر پیشاب۔
اسکے بعد مختلف کہانیاں ہیں۔ مستند یہ ہے کہ برینڈ نے اس پیشاب کو خوب اچھی طرح ابالا۔ اس میں سے دھواں نکلنا شروع ہوا۔ جسے اس نے ڈسٹل کر کے الگ کر لیا۔ بچ ہوئے پیسٹ میں  ٹھنڈا ہونے پہ  ایک مادہ جم گیا جس میں سے سبز رنگ کی روشنی نکل رہی تھی۔ یہ روشنی آگ سے نکلنے والی روشنی کے برعکس ٹھنڈی روشنی تھی۔  یہ سولہ سو تیس میں پیدا ہونے والے کیمیاداں کے لئے ایک حیران کن مشاہدہ تھا۔
یہ سبز روشنی خارج کرنے والا مادہ 'فاسفورس' تھا۔ انسانی پیشاب میں فاسفورس موجود ہوتا ہے فاسفیٹ آئین کی شکل میں۔ اندازاً ایک لٹر میں ایک گرام فاسفورس ہوتا ہے۔ جی یہ وہی فاسفورس ہوتا ہے جو ہماری ہڈیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسے دیا سلائ سے لیکر دھماکہ خیز اشیاء بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔


سائینس میں دو طریقے ہیں تحقیق کے۔ یا تو نظریہ پہلے جنم لیتا ہے اور اسکا مشاہدہ عملی سطح پہ بعد میں جانچا جاتا ہے۔ یا  مشاہدات پہلے موجود ہوتے ہیں اور انہیں جوڑ کر ایک نظریہ تخلیق کیا جاتا ہے تاکہ حقائق کے لئَے دلیل لائ جا سکے۔
برینڈ نے انجانے میں جو کیمیائ طریقہ نکالا اسکی دلیل سائینسی سطح پہ یہ بنی کہ پیشاب میں موجود فاسفیٹ کو جب خوب اچھی طرح گرم کیا جاتا ہے تو آکسیجن پیشاب میں ہی موجود کاربن کے دیگر مرکبات سے تعامل کر کے فاسفیٹ میں سے خارج ہو جاتی ہے اور اس طرح فاسفورس عنصر کی حالت میں بچ جاتا ہے۔ دو سو اسی ڈگری درجہ ء حرارت پہ یہ پگھلی ہوئ حالت میں ہوتی ہے جبکہ ٹھنڈا ہونے پہ چوالیس ڈگری کے قریب یہ ٹھوس حالت میں آجاتی ہے۔
فاسفیٹ کی کچ دھات سے فاسفورس حاصل کرنے کے لئے آج بھی یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے فرق یہ ہے کہ کاربن سے تعامل کرانے کے لئے کاربن کوک استعمال کی جاتی ہے۔

1. (NH4)NaHPO4 —› NaPO3 + NH3 + H2O
2. 8NaPO3 + 10C —› 2Na4P2O7 + 10CO + P4

دوسری جنگ عظیم میں برینڈ کے ہیمبرگ پہ گولہ باری کی گئ۔ ان بموں میں وہی ظالم فاسفورس تھا جسے برینڈ نے انجانے میں دریافت کیا تھا۔
برینڈ کا کیا ہوا؟ وہ اسی طرح ناکام و نامراد رہا۔ دنیا آج تک پارس حاصل نہیں کر سکی۔ البتہ کیمیاء اس ترقی پہ پہنچ گئ کہ آج انسان کی زندگی میں اسکی پیدائیش سے لیکر موت تک ہر چیز میں اس کا دخل ہے۔  اس سفر میں کیمیاء خود پارس بن گئ۔
  مزید معلومات کے لئے یہ دستاویزی فلم دیکھئیے۔


Monday, May 9, 2011

یاد کا جادو

ہمارے گھر کے مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پہ جنات کا سایہ ہے'۔ 'تو آپ اسے بدل کیوں نہیں دیتے'۔ نجمہ خالہ نے اپنے ماموں کی اس بات کو جیسے کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا۔ 'ارے بھئ، ہمارے دادا کا گھر ہے وہ۔ اب اس میں ہماری چوتھی پشت رہ رہی ہے'۔ ماموں نے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی۔ 'ائے چھوڑیں، ہردوسرا شخص کسی بیماری کا شکار ہے ہر تیسرا شخص ذہنی طور پہ بیمار ہے چوتھی پشت رہ رہی ہے۔ پانچویں پشت باقی بچے گی تو رہے گی۔ ہمیں دیکھیں، تیس سال کے عرصے میں چار گھر خریدے اور ان میں رہے پھر بدل دئیے'۔  خالہ نے پرس میں اپنا موبائل فون تلاش کرتے ہوئے کہا۔
'یہ جائیداد کا خریدنا بڑا مشکل کام ہے'۔  ماموں نے جان چھڑانی چاہی۔ 'ماموں آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ میں ایک عورت ہوں، شوہر کے انتقال کو بھی سترہ سال ہو گئے۔ انکے بعد بھی دو گھر میں نے  یکے بعد دیگرے خریدے۔ انہیں تلاش کیا، اس چکر میں اسٹیٹ ایجنٹس کے ساتھ درجنوں گھر دیکھے۔ پھر جا کر پسند آئے۔ اسکے بعد وہاں جانے سے پہلے انکی مرمت، رنگ و روغن اور ان میں کچھ تبدیلیاں بھی کرائیں۔ یہ سب کام میں نے اکیلے کیا'۔ خالہ نے فخر سے کہا۔ 'کرنے پہ آئے تو انسان کیا نہیں کر سکتا'۔ میں خاموشی سے گفتگو سنتی رہی۔ خیال تھا کہ بات کسی طرح گھوم کر جنات پہ پہنچے گی۔ اور ہم جان سکیں گے کہ اس گھر میں جنات کا کیسے پتہ چلا؟ وہ کیا کرتے ہیں؟ کس نے انہیں دیکھا؟ اور یہ سارے مصائب انکی وجہ سے کیوں ہیں؟؟؟؟؟؟
یہ خالہ ہماری سگی خالہ نہیں۔ بس ہماری اماں سے کچھ بچپن کی دوستی کا تعلق  ہے۔ سو ہمارے بچپن میں بھی ساجھا کر لیا ۔
تو تم بڑی عقلمند سمجھتی ہو اپنے آپکو'۔ ماموں نے ایک بھولپن سے اپنی بھانجی سے کہا۔
اس مرحلے پہ کسی نے گفتگو کا رخ موڑ دیا۔ 'ہماری اماں کا انتقال ایک سو سات سال کی عمر میں ہوا'۔ ماموں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ بس اب میری باری تھی۔ جنات ہاتھ نہیں آئے تو کیا ہوا عمر کا حساب بھی کچھ کم نہیں۔ 'ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟'  'ہاں آپ لوگوں کو کیسے یقین آ سکتا ہے آپ نے انہیں کہاں دیکھا؟ پھر آجکی نسل کو ایسی باتوں پہ یقین کہاں آتا ہے' 'میں نے انہیں دیکھا تھا۔ اپنے بچپن میں، وہ ایک بہت کام کاجو خاتون تھیں'۔ میں نے نکتہ ء اعتراض کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ 'پہلی دفعہ لکھنوء سے پاکستان آئیں تو گھر بھر کی رضائیاں کھلوا کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔ اتنی تندرست اور صحیح تھیں کہ  خود بیٹھی ان میں ڈورے ڈال رہی تھیں یا ڈلوا رہی تھیں۔ میں تو یقین نہیں کر سکتی کہ وہ ایک سو سات سال کی تھیں'۔
ہم ہیں ان کے بیٹے اور بتا رہ ہیں کہ ایک سو سات سال کی تھیں۔ ہم صحیح ہوں گے یا آپ'۔ وہ اپنے دھیمے لہجے میں گویا ہوئے۔
انکی سب سے بڑی بیٹی یعنی خالہ کی امی کی عمر اس وقت پچھتر سال کے قریب ہے۔  آپکی امی یعنی خالہ کی نانی ، انکی شادی میں نے سنا ہے کہ اس وقت کے مروجہ طریقے کے مطابق چودہ پندہ سال کی عمر میں ہو گئ تھی۔ اب اگر آپکی امی زندہ ہوتیں تو زیادہ سے زیادہ نوے سال کی ہوتیں۔ اب جبکہ انکے انتقال کو پانچ سال ہو گئے ہیں میرا اندازہ ہے کہ انکی عمر پچاسی سال ہوگی'۔ میں نے حساب کتاب کے تیز رفتار گھوڑے دوڑا دئیے۔
یہ تم سے کس نے کہا کہ انکی بیٹی کی عمر اس وقت پچھتر سال ہے۔ وہ میری بہن ہیں۔ مجھ سے پندرہ سال بڑی۔ میں اس وقت پچھتر سال کا ہو چکا ہوں۔ ماموں نے ایک اور اعتراض کیا۔
لیجیئے جناب عمر کا ایک نیا چکر شروع ہوا۔ میں نے کہا خالہ آپکی بھانجی ہیں۔ یہ لوگ سن چونسٹھ میں پاکستان آئے ہیں ۔ خالہ کی امی یعنی آپکی بڑی بہن کہتی ہیں کہ جس وقت وہ یہاں آئیں تو آپ گیارہ بارہ سال کے تھے۔ اب یہ بات تو ہم نے اتنی تسلسل سے سنی ہے کہ  غلط نہیں ہو سکتی' ۔ تائید کے لئے میں نے انکی بھانجی اور بڑی بہن کی طرف دیکھا ان لوگوں نے گردن ہلائ، تائید میں۔' اب آپ بتائیے ، اگر آپ اس وقت پچھتر سال کے ہیں تو سن چونسٹھ میں آپکی عمر، ایک سادہ سے حساب سےپچیس سال کے قریب بنتی ہے۔ پھر تو آپکو ہر چیز  خاصی  یاد ہونی چاہئیے'۔
ماموں ، میری شکل دیکھنے لگے۔ بہن کی ہجرت کے حوالے سے انکا خاکہ زیادہ واضح نہیں تھا۔ یہ بات تو ماننی پڑتی کہ ایک پچیس سال کے شخص کو یہ چیزیں درستی سے یاد ہوں۔ خاص طور پہ اپنی بڑی بہن کے متعلق۔' نہ آپ پچھتر سال کے ہیں اور نہ آپکی امی کا انتقال ایک سو سات کی عمر میں ہوا۔ آپکی عمر اس وقت ساٹھ سال کے قریب ہے، آپکی بڑی بہن پچھتر سال کی اور امی کا انتقال پچاسی سال کی عمر میں ہوا'۔
بڑی عجیب خواتین ہیں آپ۔  یہ کراچی میں گندم کہاں سے آتا ہے؟'۔ یہ کہہ کر ایک بھولپن سے مسکرانے لگے۔ شاید سوچ رہے ہوں کہ عمر رفتہ کا حساب تو بڑا آسان ہے پھر ہم کاہے کو ایک گورکھ دھندے میں پھنسے رہے۔
دو ہفتے بعد میں نے سنا کہ واپس جا رہے ہیں اپنے وطن بھارت۔ 
سوچا ایک دفعہ پھر ملاقات کی جائے۔ ایک دفعہ پھر اسی کمرے میں لیکن اس دفعہ مختلف لوگ بیٹھے تھے۔ گفتگو کچھ ماضی اور مستقبل کے دو نہ چھونے والے دائروں میں گھوم رہی تھی۔ کبھی چھلانگ کر اس طرف کبھی چھلانگ لگا کر اس طرف۔ ایسے میں اسے حال کے کرداروں کی انگلی پکڑنی پڑتی۔ ماموں نے ایک آہ بھری۔ 'پینتالیس سال ہو گئے ہماری بہن کو ادھر آئے تو ہم پہلی دفعہ آنے میں کامیاب ہوئے۔ اب دیکھیں آ پاتے ہیں یا نہیں'۔ 'ارے نہیں صاحب، خدا آپکو لمبی عمر دے۔ سنا ہے آپکی والدہ  نے بھی کافی لمبی عمر پائ تھی'۔
اسی بچوں جیسی سادگی سے کہنے لگے، 'جی ہاں ماشاءاللہ ایک سو سات سال کی عمر میں انتقال ہوا انکا'۔
وہ جھوٹ نہیں کہہ رہے تھے۔ یادداشت کے طلسم ہوش رُبا میں کہیں کہیں انسان پتھر کا ہو جاتا ہے۔ نہ اس سے آگے دیکھ پاتا ہے نہ پیچھے۔

Saturday, May 7, 2011

علم اور عمل

جب حضرت سفیان ثوری کی والدہ نے ان سے فرمایا کہ بیٹے علم حاصل نہ کرو تو صرف اتنی ہی بات انہوں نے نہیں کہی۔ انہوں نے فرمایا کہ بیٹے علم حاصل کرو تو اس پہ عمل کرنے کی کوشش کرو ورنہ قیامت کے دن یہ تمہارا علم تمہارے لئے حساب کتاب کے دروازے کھولدے گا۔ حضور اکرم صلعم کے ایک ارشاد کا مطلب ہے کہ دو آدمیوں نے میری کمر توڑ دی ایک جاہل دیندار نے دوسرے بے عمل عالم نے۔
علم اگر برتا نہ جائے تو پھر ایسے علم سے کیا فائدہ۔ اللہ نے انبیاء کو علم عطا کیا تو انہوں نے علم کو برتا اور اس پہ عمل کر دکھایا۔ علم اگر آدمی میں اچھے برے کی تمیز اور عمل کی تحریک نہ پیدا کر سکے تو ایسا علم بے کار ہے۔ قرآن علم کا سرچشمہ ہے۔ اللہ کے رسول کو جب یہ علم وحی کے ذریعے عطا ہوا تو آپ نے اسکے ایک ایک لفظ پہ عمل کر کے دکھایا اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ آپ مومنوں کے لئے نمونہ ہیں۔
علم اور عمل میں فرق ہو تو ایک طرح کی منافقت ہےبلکہ کھلی منافقت۔ علم سکھاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو۔آدمی اللہ سے ڈرنے کے بجائے سرکش ہو جاتا ہے۔سیدھی راہ چھوڑ کر الٹی راہ چلنے لگتا ہے۔ علم دھوکے اور ریاکاری سے روکتا ہے اور اگر کوئ علم حاصل کرنے کے بعد بھی ریاکار ہوجائے تو کیا کہا جائے۔
حضرت حسن بصری، تاریخ اسلام کی ایک بڑی شخصیت اکثر اپنے نفس پہ خفا ہوتے اور اپنے آپکو جھڑک کر کہتے حسن بصری، تو  پرہیز گاروں اور اطاعت گذاروں جیسی باتیں کرتا ہے مگر تیرے کام تو جھوٹوں ، منافقوں اور دکھاوا کرنے والوں کے سے ہیں۔ سن لے اور خوب اچھی طرح سن لے کہ یہ اللہ سے محبت  رکھنے والوں کی صفت نہیں کہ وہ سراپا اخلاص اور تمام تر ایثار نہ ہوں۔
یحیی بن معاذ سے پوچھا گیا کہ آدمی اخلاص والا کب ہوتا ہے۔ فرمایا جب اسکی عادت دودھ پیتے بچے کی سی بن جائے۔ کوئ اسے اچھا کہے تو خوش نہ ہو۔ برا کہے تو برا نہ منائے۔
حضرت ابراہیم ادھم کہتے ہیں کہ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اسے اچھا کہیں وہ نہ اللہ سے ڈرنے والا ہے نہ صاحب اخلاص۔
جسکی نیت نیک ہوگی اس کا عمل بھی ویسا ہوگا۔علم وہ جوہر ہے جو نیت کو نیک اور عمل کو بہتر بناتا ہے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ علم اللہ کی صفات میں سے ایک ہے ۔
جو صاحب علم ہوتا ہے اسکی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ حضرت عیسی نے لوگوں سے پوچھآ۔ جانتے ہو ولی اللہ کون ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں آپ بتائیے۔
فرمایا کہ وہ جو اپنے علم پہ عمل کرے۔


یہ ایک تحریر ہے جو شاہ بلیغ الدین کی کتاب روشنی سے مستعار لی گئ۔ میرے بچپن میں ہماری صبح کا آغاز ریڈیو سے مثنوی مولانا روم کے ترجمے سے ہوتا تھا اور اسکے بعد شاہ بلیغ الدین کا پانچ دس منٹ کا پروگرام روشنی چلا کرتا تھا۔ مولانا صاحب اپنے دھیمے لہجے میں اپنی بات کرتے جاتے اور ہم اپنے اسکول کی تیاری۔
علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو یہ منافقت ہے۔ یہ بات میں نے اپنی سوچ سے کہیں لکھی تھی۔ لیکن آج جب میں نے اس کتاب کو دوبارہ کھولا تو لگا کہ شاید میں نے لا شعوری طور پہ یہ جملہ محفوظ کر لیا تھا۔ میرے شعور نے مجھے بتایا کہ دراصل یہ جملہ  اپنی پوری معنویت میں یہاں استعمال کرنا ہے۔
عالم بے عمل، کیا تبلیغ کا حق رکھتے ہیں؟

Thursday, May 5, 2011

آج یا کبھی نہیں؟

کل پہلی دفعہ جیو چینل پہ کامران خان کی زبانی سنا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستانی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ آج یا کبھی نہیں۔ 
یہ وہی چینل ہے جو انتہا پسندوں کو ہیرو بنانے کا شاید ہی کوئ لمحہ ضائع جانے دیتا ہو۔ ایک طرف امن کی آشا اور دوسری طرف انتہا پسندوں کی بھاشا۔ میڈیا نے انتہا پسندی کو پھیلانے میں بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ اور اب وہی اپنے اوپر لگے اس دھبے کو دھو سکتے ہیں۔
خیر، دیر آید درست آید۔ کامران خان کہتے ہیں کہ اب ہمیں سوچنا چاہئیے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کی بڑی کارروائ ہوتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دہشت گرد کا تعلق یا تو پاکستان سے ہوتا ہے یا پھر وہ پاکستان سے پکڑا جاتا ہے۔
اسکی وجہ بالکل سامنے ہے اور وہ یہ کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے سینتالیس کے قریب اسلامی ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پہ عوام ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کے لئے کمر بستہ ہے۔ یقین نہ ہو تو پچھلے چار مہینے کی بلاگستان کی پوسٹس اٹھا کر دیکھ لیں۔ خاص طور پہ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد تحاریر اور انکے تبصرے۔
ہر دہشت گرد اور انتہا پسند ہمارا ہیرو۔ ہم اسکے پیش کئے گئے نظرئے پہ جان دینے اور لینے کو بے قرار۔ جب وہ بم مار کر درجنوں لوگوں کو ایک ساتھ موت کی نیند سلا دیتا ہے تو اول ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے ہیرو کے کسی ساتھی نے کیا ہوگا یقیناً کسی نے اسے پھنسایا ہوگا۔ اور اگر دنیا کے دباءو پہ ہم یقین کر لیں تو ہم انا لللہ پڑھ کر دعا کرتے ہیں کہ  اللہ اسکی مغفرت کرے۔ جب وہ کسی کو قتل کر کے سرخرو ہوتا ہے تو ہم اس کا مقدمہ لڑ کر اسے رہا کرانے کو بےتاب۔ جب وہ کسی اور ملک میں گرفتار ہو تو ہم سجدے میں  کہ خدا کوئ چمتکار دکھائے اور وہ رہا ہو جائے۔ آخر کسی دہشت گرد اور انتہا پسند کو کیا چاہئیے۔  یہی عقیدت اور غیر مشروط محبت و وفاداری۔ جس میں دُھت ہمیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ تین سال میں تین ہزار سے زائد پاکستانی امریکیوں کے ہاتھوں نہیں انہی 'محبوبوں' کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوئے۔ ہمارے مستقبل کے متوقع حکمراں عمران خان بھی ڈرون حملوں کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مگر ان خود کش بمبار کے لئے کوئ ریلی نہیں نکالتے۔
لیکن دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ آئیے اسکے لئے ایک کہانی کے آخری دو صفحات پڑھتے ہیں۔ کہانی کے لکھنے والے ہیں ڈاکٹر شیر شاہ سید۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے ایک مایہ ناز گائیناکولوجسٹ  ہی نہیں ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے پاکستانی خواتین کی فلاح بہبود کے لئے اپنی زندگی کو ایک مشن بنایا ہوا ہے۔ اگر عمران خان کو شوکت خانم ہسپتال  بنانے اور چلانے پہ پاکستان کی حکمرانی پیش کی جا سکتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ بھی اسکے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔
انکی گوناگوں خوبیوں میں ایک خوبی ایک اچھا ادیب ہونا بھی ہے۔ انکی کہانیوں کے کئ مجموعے منظر عام پہ آچکے ہیں۔ یہ صفحات  انکے تازہ ترین مجموعے 'دل نے کہا نہیں' کی کہانی  'نفرت کی تصویر'  سے لی گئے ہیں۔
ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے کہ اس مجموعے کی تمام کہانیاں حقائق سے جڑی ہوئ ہیں۔ اور نرا فکشن نہیں ہیں۔ تمام کہانیاں ہمارے آجکے پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں۔ کتاب کے پبلشر ہیں شہر زاد اور قیمت ہے دو سو روپے۔
یہ دو صفحات حاضر خدمت ہیں۔
بہتر طور پہ پڑھنے کے لئے تصویر کو کلک کریں۔
 

Tuesday, May 3, 2011

سمندر سے آگے

ہر دفعہ ریسائکلنگ پہ دل جمعی کے ساتھ یکسو ہو کر کچھ لکھنے بیٹھ ہوتی ہیں۔ حالات حاضرہ میں کچھ ایسی ری سائکلنگ ہوتی ہے کہ دل جمع ہو تو ہو خیالات منتشر ہو جاتے ہیں۔ اور ہر انتشار سے گذرتا لمحہ کہتا ہے یہاں سے پہلے یہاں سے پہلے۔ میں ایک کمزور انسان ہوں ، ابھی کچھ عرصے پہلے تک چالیس کلو اور آجکل بیالیس کلو وزن پہ رہتی ہوں۔ اس صورت میں ہر چھٹانک بھر ترغیب بھی انتشار پھیلا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
یوں دن کے ساڑھے بارہ بجے جب پتہ چلا کہ اسامہ بن لا دین اب قصہ ء پارینہ بن چکے ہیں تو ایک مثالی مسلمان کی طرح اختتامیہ کلمہ پڑھنے کے بجائے یہ سوچنے بیٹھ گئ کہ آخر اس لمحہ ء موت کی مہورت کیسے نکالی گئ۔ کیوںکہ اس واقعے میں مقام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
حکومت پاکستان کا ایک کھوکھلا سا دعوی ہے کہ اسے اس آپریشن سے آگہی نہیں تھی۔ ایک معمولی سی ذہنی ورزش بھی اس ڈھول کا پول کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ 
خوش امید لوگ جنہیں اسامہ سے اسلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کی فتح کی امیدیں وابستہ تھیں وہ امید کرتے ہیں کہ ابھی کچھ دن گذریں گے اسامہ پھر ایک ویڈیو بیان جاری کر کے اس دعوے کی دھجیاں اڑا دے گا۔
میں ان خوش امیدوں میں نہیں ہوں۔ میرا تو خیال ہے کہ اسامہ  کافی عرصے پہلے مر چکا تھا۔  اب امریکنز اسکی باقیات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ڈی این اے ٹیسٹ سے جب یہ بات پایہ ء ثبوت کو پہنچ چکی تو انہوں نے ایک ڈرامہ اپنی قوم میں جان ڈالنے اور اپنے آپکو فاتح قرار دینے کے لئے انجام دے ڈالا۔ اب ان باقیات کو خاک بنا کر ماءونٹ ایورسٹ پہ اڑایا جائے یا سمندر کے حوالے کیا جائے لیکن اسکی تصاویر اور ویڈیو جاری نہیں کی جا سکتیں۔
اسامہ کے نجانے کب کے انتقال پہ میں نے اب شاعری کرنے کی کوشش کی۔ اساتذہ سے درخواست ہے کہ دل تھام کر پڑھیں اور چاہیں تو اس میں اصلاح کر دیں۔ شاعری میں،  میرے قابل اصلاح ہونے میں اتنے ہی شبہات ہیں جتنے اسامہ کے زندہ یا مردہ ہونے پہ۔ کلام حاضر ہے۔
اسامہ مر گیا لیکن ابھی بھی یاد آتا ہے
وہ ہر بات پہ کہنا کہ یہ ہوگا تو یوں ہوگا

پیدا ہوا عرب میں رہا امریکہ اور افغان میں
روٹھا جو امریکہ سے تو لڑا پھر جا کے افغان میں
مرنے میں اسکے ایک راز ہے چھپا ہوا
مدفن چنا سمندر کوجو مر گیا پاکستان میں
تم بھی مرے وہ بھی مرا، ہو گیا انصاف پر
ہم کیوں مرے ایسے صنم، ہم تھے وزیرستان میں


ادھر ایک گروہ کا خیال ہے کہ  دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تمام فریقوں کے درمیان ڈیل ڈن ہو گئ ہے۔ اسامہ ، امریکہ میں کہیں دنیا کی  جنت کے مزے لے رہے ہونگے ، افغان طالبان اب سکون کا سانس لیں گے دولت بھی ملی ہوگی، امریکہ فاتح کی حیثیت سے سرخرو واپس جائے گا۔ پاکستانی طالبان بھی اپنا حصہ پائیں گے۔ انکے حامی بھی خوش رہیں گے یہ سوچ کر کہ امریکہ جھوٹ کہہ رہا ہے اسامہ زندہ ہے اور اگر مر بھی گیا تو کیا ہوا شہادت کی موت ہوئ، لڑتے ہوئے مرا۔ پاک فوج بھی دامن پہ کوئ داغ نہ خنجر پہ کوئ خوں، ایک مستحکم حالت میں۔ انہوں نے یا آئ ایس آئ نے کچھ نہیں کیا۔ حکومت پاکستان سارے واقعے سے لا علم۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں ایک اور مظلوم حاصل کرنے میں کامیاب۔
اس سارے سلسلے میں کون نقصان میں رہا۔ وہ لوگ جنہیں ایک عام انسان کی طرح اولادوں کی شادیاں کر کے ان سے خدمت کرواکے طبعی موت مرنے کی خواہش تھی وہ شہید بالجبر نہیں ہونا چاہتے تھے۔ میں اور اس معاشرے کے وہ  لوگ نقصان میں رہے جو یہاں اقتصادی استحکام اور خوشحالی چاہتے تھے۔ اس لئے کہ وہ دنیا کے کسی بھی سہولت سے آراستہ ملک کے بجائے اپنے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔ جو  اپنے بچوں کے لئے ایک پر امن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں جہاں وہ سائینس، آرٹ اور انجینئرنگ پڑھیں اور اپنی صلاحیتوں کو اور اپنے آپکو خوف سے آزاد رہ کر جانیں۔ دنیا کی اور قوموں کے سامنے ثابت کریں گے پاکستانی مائیں بھی اپنے بچوں کی شاندار تربیت کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں وہ انکی صلاحیتوں کا اجاگر کرنا جانتی ہیں۔ وہ لڑکیاں نقصان میں رہیں جنکے اسکول اڑائے گے اور جنہیں انسانیت سکھانے کے بجائے نسوانیت سکھانے پہ زور رہا۔ یا وہ لڑکے نقصان میں رہے جنہیں ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کے بجائے بموں کی گرد بنا دیا گیا، جنکے دلوں میں امید کی جوت جگانے کے بجائے موت  کے رمز یاد کرائے گئے۔
وہ والدین نقصان میں رہے جنہوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو پھلتے پھولتے دیکھنے  کے بجائے قبر تک پہنچایا۔ اور آج اپنے ویران گھروں میں آسیب کی طرح پھرتے ہیں۔
رسم دنیا یہ ہے کہ جب کوئ مسلمان دنیا سے گذر جائے تو اختتامیہ کلمات کہے جائیں۔  لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر ہر صبح ہم اپنے آپکو کہیں ، اپنے آپ کے لئے اختتامیہ کلمات کہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔  بے شک ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے، تو ہمارے لئے کتنا آسان ہو جائے ہر مسلمان کے واسطے انہیں ادا کرنا۔ چاہے وہ اسامہ ہو یا سلمان تاثیر۔
لیکن ہمیں ایمان تازہ کرنے کی مصروفیت میں اسکی فرصت نہیں۔ خدا کو بھی اسکی فکر نہیں۔ ہم نہیں جانتے، ہمارا مدفن زمین ہو یا سمندر، اس سے آگے کیا ہے؟ صرف یہ معلوم ہے۔  اللہ الصمد۔ اللہ بے نیاز ہے۔