Tuesday, October 9, 2012

مفاد سے آگے

شادی کے کارڈز بانٹنا اور شاپنگ ، اس میں اتنی مصروف رہی کہ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ آج آسٹریلیا اور پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی میچ ہے۔ میں اپنی ساتھی خاتون کو نارتھ ناظم آباد چھوڑنے کے لئے جب فائیو اسٹار کے سگنل پہ پہنچی تو ٹریفک رکا ہوا تھا۔ رات کے سوا دس بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شادیوں کی ٹریفک کا رش ہے۔ کیونکہ اس طرف درجنوں شادی ہالز ایک قطار میں موجود ہیں۔ لیکن سگنل کھل کے ہی نہ دے رہا تھا۔
 پندرہ منٹ بعد مجھے فضا میں پاکستان کے جھنڈَے لہراتے نظر آئے اور کچھ لڑکے ادھر ادھر بھاگتے دکھائ دئیے۔  تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی چوک پہ لڑکوں کے ایک ہجوم کے درمیان، دوسری گاڑیوں کے ساتھ پھنسی ہوئ تھی۔ لڑکوں کی تعداد یہی کوئ ایک ڈیڑھ ہزار ہوگی۔ آتشبازی ہو رہی تھی، لڑکے ہارن بجا رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ انکے ذہن میں کوئ خاص پروگرام نہیں۔ بس ٹریفک کو روک کر انہیں مزہ آرہا تھا۔ اس اثناء میں ایک لڑکے نے عین گاڑی کے سامنے آکر پستول نکالا اور ہوائ فائرنگ شروع کر دی۔ آج بچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے سوچا، اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اس طرف کا رخ نہ کرتے۔
چالیس منٹ کے اس ہنگامے میں پھنسے رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پہ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ لیکن ایک چیز جس نے میری توجہ لی وہ یہ کہ نوجوانوں کے اس منتشر، چارجڈ لیکن بے مقصد ہجوم میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔ صرف پاکستان کے تین چار جھنڈے نظر آئے۔ عجیب یوں لگی کہ اس سے پہلے نوجوان کوئ بھی موقع ہو ایم کیو ایم کا جھنڈا لانا فرض عین سمجھتے تھے۔
یہی نہیں اس سے دو دن بعد جب میں عزیز آباد کے قریبی علاقے میں گئ تو وہاں ایک پارک میں لوگوں کا ہجوم ایک بڑی سی اسکرین پہ میچ دیکھ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہجوم نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا لیکن یہ جھنڈے صرف پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کراچی میں ایسا ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟
الیکشن ، مستقبل قریب میں متوقع ہیں۔ اس لئے اکثر لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوتی ہے۔ کس جماعت کو ووٹ دینا چاہئیے اور کیوں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سیاستداں چور ہیں اس لئے ہم الیکشن والے دن بیلٹ پیپر پر مہر اس طرح لگائیں گے کہ وہ خراب ہو جائے اور کوئ ہماری جگہ جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔
میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ ووٹ کی گنتی ہوگی تو وہ امیدوار جیت جائے گا جسکے سب سے زیادہ ووٹ ہونگے چاہے اسے پانچ سو ووٹ ملیں۔
ایم کو ایم کو اس صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
 اس کی وجوہات اتنی واضح ہیں کہ  عقل و خرد سے عاری شخص بھی بتا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے حامی کو اب ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئ فرق نظر نہیں آتا۔  سب چور ہیں ، سب اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت پہ مفاد پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ یہ مفاد پرستی، ذاتی مالی مفاد سے جڑی ہے۔  جب ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو بابر غوری جیسے نام آتے ہیں جو پارٹی میں شامل ہوئے تو کیا تھے اور آج انکی جائدادیں امریکہ میں موجود ہیں۔ 
یوں جاگیرداری اور معاشرے کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے خود جاگیر داری کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی ہر دوسری سیاسی جماعت کی طرح، ایم کیو ایم نے بھی اپنے تھنک ٹینک یعنی حلقہ ء دانشوراں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصی سیاست کی راہ اپنا لی۔ یہ سیاست کا اگرچہ ایک آسان راستہ ہے لیکن بھونڈا راستہ ہے اور جمہوری روح سے دورہے۔ مفاد پرست طبقہ ایک شخصیت کو خوش کر کے فائدے اٹھاتا ہے۔ اس طرح سے جمہور کی آواز کہیں دور رہ جاتی ہے۔
تنظیم نے جس شخصیت کومرکزی شخصیت کے طور پہ چنا وہ اس ملک کی سرحدوں میں ایک طویل عرصے سے نہیں آیا۔ انہیں یہاں کے بارے میں جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ کسی کے ذریعے سے ملتی ہے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کے بنائے ہوئے پلوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اڑتی خبریں ملتی ہیں کہ وہ خود ہوش و خرد سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور در حقیقت اس وقت تنظیم کو پاکستانی ایجنسیز چلا رہی ہیں۔
اس وقت تنظیم کو لائق اور عالم افراد کے قحط کا سامنا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت کو دیکھا جانا چاہئیے جو کہ زندگی کے مختلف میدانوں مِن مہارت رکھتے ہوں تاکہ ہمیں امید ہو کہ افراد کا یہ مجموعہ ہمارے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔  زیادہ تر افراد جو تنظیم کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے اس سے بہتر امیدیں رکھتے تھے اب اس سے دور ہو چکے ہیں۔ اس طرح سے ایم کیو ایم بحیثیئت ایک سیاسی جماعت کراچی کے نوجوانوں کو کوئ مثبت امید ، راستہ اور سرگرمی دینے میں آہستہ آہستہ ناکام ہو رہی ہے۔ اور اسکی یہ ناکامی، نوجوانوں کو دوسری انتہا کی طرف لے جارہی ہے جو کہ مذہبی انتہا پرستی ہے۔
تنظیم کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے مثبت سمت میں کام کرنا چاہئیے۔ انہیں اب اس چیز کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ محض پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات استوار کر کے یا صدر زرداری کو خوش رکھ کر یہ ممکن ہے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں اسمبلی کے اندر اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، ممکن ہے انہیں مالی مفادات مل جائیں لیکن اس سے وہ عوامی سطح پہ اپنی حیثیئت کم کرتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنے سیاستدانوں کی اس کوتاہ اندیشی پہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے مالی مفاد کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے  زیادہ فائدہ مند مستقبل کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے مالی مفاد میں تھوڑی سی کمی لے آئیں اور اسے عوامی فلاح پہ خرچ کریں تو وہ ایک لمبی مدت تک عوامی پذیرائ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زیادہ کما سکتے ہیں۔
بہر حال، باقی سب سے قطع نظر ایم کیو ایم کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ایسے ملک میں جہاں سیاست پہ جاگیردار کا سب سے بڑا حق ہے اور جہاں یہ جاگیردار، ملک کی مضبوط طاقت یعنی فوج سے بھی مضبوط روابط رکھتا ہے۔ وہاں وہ اپنی بقاء کی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی۔ لیاری امن کمیٹی، اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے۔  جو منظر پہ اچانک ابھری اور اب کراچی کے امن و امان میں اپنا حصہ رکھتی ہے یعنی جب چاہے اس شہر کا امن ہلا سکتی ہے حالانکہ اسکا اثر لیاری سے آگے نہیں۔ 
سو انہیں عوام کے لئے کام کرنا پڑے گا، انہیں ترجیح دینی ہوگی اور تنظیم کو مفاد پرست طبقے سے ہی نہیں شخصی سیاست سے بھی باہر نکالنا ہوگا۔ انہیں دلجمعی سے ایک حلقہ ء دانشوراں قائم کرنا ہوگا جسے سوچ وبچار کی آزادی دینی ہوگی۔ لیکن  اگر وہ ریاستی قوتوں سے ہڈی لے کر اس سے خوش ہیں تو یاد رکھیں کہ کل وہ باہر ہونگے جبکہ دیگر طاقتیں اسی طرح کھیل میں شامل رہیں گی جیسے وہ پچھلے تریسٹھ سال سے ہیں۔

 

18 comments:

  1. میں سن دو ہزار میں صوبہ کے پی کا ہونے کے باوجود یہ سمجھتا تھا کہ اردو سپیکر یا مہاجرین دوسرے صوبے والوں کے تعصب کا شکار ہیں اور اب بھی بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں۔۔لیکن اس وقت وہ پہلی شدت دیکھنے میں نہیں آتی۔۔
    اصل بات کی طرف آوں تو سن دو ہزار میں جاپان کی پولیس کی ساتھ ترجمان کی طور پر کام کرنے موقع ملا اور کیس ایم کیو ایم والون کا تھا ۔۔ایم کیو ایف کی وصولی کیلئے جاپان میں مقیم لوگوں کے آٹھ سالہ بھتیجے کا اغوااور نا ملنے کی صورت میں جنسی زیادتی کے بعد قتل ۔۔۔اس کیس کے بعد میرے خیال میں مجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں کہ میں ایم کیو ایم کو کوئی سیاسی جماعت سمجھوں۔۔اور جناب چیئر مین ساب کے قانون سے بچ کر ذومعنی حکم نامے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ بحرحال پاکستانی سیاست چاھے کوئی بھی ہو میں کسی کو بھی اعتبار کرنے کے قابل نہیں سمجھتا،چاھے وہ عمران خان ہو یا مولوی فضلو

    ReplyDelete
  2. امت مسلمہ خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے مفاد، نظریہ ضرورت اور مصلحتوں سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔
    میرے حساب سے پاکستانی قوم کی تین بڑی بدنصیبیاں ہیں۔
    اول، پاکستانی کبھی ایک قوم نہیں رہے۔
    دوم، انہیں قائد اعظم کے بعد قومی سطع کا کوئی لیڈر نہیں ملا جس میں یہ صلاحیت ہو کہ علاقے اور مفادات سے اوپر اٹھ کر میرٹ اور صلاحیت کی بنا پر ایمانداری اور انصاف کو فروغ دے سکتا
    سوم، جس چیز میں جوڑنے کی زبردست صلاحیت ہے یعنی دین اسے ہم نے عبادات اور ایک خاص قسم کی وضع و قطع سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔
    آج ایک میچ کی وجہ سے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں کل کو زمینی حقائق اور مایوسیاں دیکھیں گے تو پھر سے وہیں لوٹ جائیں گے جہاں کی خاک ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. کیا جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتیں جو دین کو لے کر چلیں اور جنہیں اپنے دین کے فہم پہ بہت ناز بھی ہے، قوم کو جوڑنے میں کامیاب ہو سکیں؟

      Delete
  3. اچھا لکھا آپ نے ...

    میرے خیال سے تو یم کیو ایم نے اپنی روش نہیں بدلی یہ شروع دنوں سے ایسی ہی تھی ...

    لوگ بیوقوف بن گئے تھے لیکن کب تک بیوقوف بنے رہ سکتے ہیں ... ایم کیو ایم کی کامیابی میں زمینی حقائق کا دخل تھا اور ہے ...

    جب تک ہماری نام نہاد "قومی جماعتیں" اپنی روش جاری رکھیں گی الطاف حسین جیسے لوگ کامیاب ہوتے رہیں گے ....

    رہی بات ایم کیو ایم کی ناکامی کی، تو ایم کیو ایم کو قوم پرستی کی سیاست بھی نہ کرنا آئ.... جتنے اپنے ہم زبان/ہم قوم ایم کیو ایم والوں نے مارے ہیں ... اتنے تو شاید ایم کیو ایم کے دشمنوں نے مشترکہ طور پر بھی نہیں مارے ہوں گے ...

    ان کو دوسرے قوم پرستوں سے سبق لینا چاہیے برداشت کا ... خاص طور پر اے این پی سے .. کٹی پہاڑی کے سانحے پر تو خاص طور پر .. کس طرح انہوں نے طالبان سے ہاتھ ملایا ...
    خیر ایم کیو ایم کی غلطیوں پر جتنا بھی لکھا جاے کم ہے ...

    لیکن کم از کم ان کی سیاست میں کچھ ""سیاست "" بھی تو ہو .. یہ تو نری قتل و غارت گری ہے ...

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے اے این پی کی مثال دی جو انت۰ہائ غلط ہے درحقیقت کراچی میں اے این پی پٹھانوں کی نمائندگی کرتی ہے اور ساری دنیا ایک طرف ہو جائے جب بھی کراچی میں اسی کی دہائ میں جینے والے اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ ایم کیو ایم کی غلطی تھی۔ یہ پٹھآن مافیاز تھے جنہوں نے کتاچی میں بربریت کا بازر گرم کیا۔ یہ ایم کیو ایم تھی جو پٹھان مافیاز کے خلاف میدان میں اتری۔ اور کراچی شہر میں انکی درندہ صفت سرگرمیوں کے خلاف سامنے آئ۔
      سیاست میں قتل و غارت گری اگر جماعت اسلامی نے متاعرف کرائ تو کراچی میں اس کا آغاز پیپلز پارٹی اور پٹھانوں نے کیا۔
      برسوں اس جنگ میں ملوث رہنے کے بعد ، پٹھانوں نے سبق سیکھا کہ وہ اپنے روائیتی قبائلی انداز سے کراچی میں نہیں رہ سکتے انہیں دوسری قوموں کیا اور بالخصوص مہاجروںکو تسلیم کرنا ہوگا۔ لیکن اس دوران مہاجروں نے اپنی شرافت کی داستان کھوئ۔
      درندوں سے مقابلہ کرنے کے لئے وہ خود بھی جانور بن گئے۔ یہ وہ کراچی نہیں جو ستر کی دہائ میں تھا لیکن یہ بھِ دھیان میں رہنا چاہئیے کہ اب اس شہر میں چالیس لاکھ پشتون آبادی ہے جنکی اکثریت ان پڑھ ہے، ، شہر کی ناجائز تجاوزات میں سے بڑا حصہ انکا ہے، شہر میں منشیات اور اسلحے کے بڑے بڑے کاروبار انکے ہیں شہر میں اکی بڑی بڑی بستیاں ہیں جہاں کسی اور قومیت کے لوگ قدم بھی نہیں رکھ سکتے یا نہیں رکھتے۔
      ہو سکتا ہے کہ آپ اسے میرا تعصب سمجھیں، لیکن اس شہر میں پٹھانوں کی اوور آل سچوایشن اس سے مختلف نہیں۔
      یہی نہیں لیاری گینگز جو پہلے لیاری میں دفن تھے، موجودہ حکومت کی مہربانی سے وہ بھی اب دندناتے ہیں۔
      شہر میں اس وقت غنڈہ عناصر کا راج ہے اور اس میں ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے غنڈے سر فہرست ہیں۔
      میں چونکہ مہاجر پس منظر سے ہوں اس لئے مجھے افسوس ہے کہ ایم کیو ایم اپنے آغاز سے بالکل الگ ہو چلی ہے۔
      دیگر اقوام کو بھی غیر جانبداری کے ساتھ اپنی اپنی دلی وابستگیوں پہ نظر ڈالنی چاہئیے اور محض ایم کیو ایم کو نشانہ بنانے کے بجائے حقائق کو تسلیم کر کے ان قوتوں کو سپورٹ کرنے کے بجاَ دباءو میں لانا چاہئیے کہ وہ صورت حال کی بہتری کے لئے مجبور ہوں۔

      Delete
  4. جی ہاں اپنے دائرہ کار اور دائرہ اثر میں بہت زبردست طریقے سے جوڑا ہے۔ اور اسکی ایک تاریخ ہے۔ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر یعنی اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنی علاقائی اور قومی تعصبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کی بقا کی جنگ لڑی۔ آج بھی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ میں علاقائی تعصب ایک انتہائی نامانوس چیز سمجھی جاتی ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اپنے اپنے دائرہ ء کار میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دعوی تمام جماعتیں کر سکتی ہیں۔
      مشرقی پاکستان میں جماعت کے بول اس نے پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑی لیکن بنگالیوں کے نزدیک انہوں نے غداری کی جنگ لڑی۔ جماعت اسلامی بنگالیوں کو انکا حق دلانے میں ناکام رہی لیکن جیسا کہ جماعت اسلامی کو ہتھایروں اور جہاد لڑنے کا والہانہ شووق ہے تو انہوں نے ہتھیار لے کر مشرقی پاکستان میں بقائے پاکستان کی نام نہاد جنگ لڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کے دنوں میں جماعت ناکام رہتی ہے لیکن جنگ کے دنوں میں جماعت سرگرمی سے سامنے آتی ہے۔ جبکہ کسی بھی قوم کی مضبوطی امن کے دنوں میں قائم کی جاتی ہے تاکہ وہ کسی جنگ میں بھی مضبوط رہ سکے۔ لیکن چونکہ جماعت اسلامی کا حال اس ڈاکٹر کی طرح ہے جسے بخار کا نہیں نمونیا کا علاج آتا ہے تو یا تو وہ بخار کو نمونیا بناتی ہے یا پھر اس وقت کا انتظار کرتی ہے کہ بخار نمونیا بن جائے۔
      یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی جہاد کے نظرئیے کو پھیلانے مِن سرگرم رہتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کے دائرے میں محدود رہتی ہے جن کے خون میں جوش جنگ کے نام سے پیدا ہوتا ہے جو جنگی ترانے سن کر جیتے ہیں اور جنہیں امن کے اور تہواروں کے اور محبت کے نغمے سمجھ میں نہیں آتے۔
      پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ یہ جماعت اسلامی ہے جس نے پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
      جی ہاں علاقائ تعصب نامانوس چیز ہے لیکن مذہبی تعصب کے لئے جان لینے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں رہتا۔

      Delete
  5. اور آپ ناسور کا علاج دوا سے کرنا چاہتی ہیں۔
    بنگلہ دیش کی محرومیوں اور بے چینیوں کا سبب جماعت اسلامی یا دینی جماعتیں ہر گز نہیں تھیں۔ لیکن انہوں نے یہ فرض ضرور سمجھا کہ ملک کو بچانے کے لیے جنگ ضرور لڑی جائے۔ جنگ جنگ ہوتی ہے ۔ اس کی آرزو نہیں کرنی چاہیے یہ ایک پاگل پن ہے۔ مگر آپ پر اگر یہ مسلط کردی جائے تو پیچھے بھی نہیں ہٹنا چاہیے کہ یہ انتہائی درجے کی بزدلی ہے جو انسان کو انسان کے درجے سے گرا کر چرندو پرند کے درجے پر لے جاتی ہے۔اگر جماعت اسلامی ایسی ہی جنگجو جماعت ہوتی تو اس کے کارکن آج افغانستان اور قبائلی علاقے میں لڑ رہے ہوتے۔جماعت اسلامی کیوں لڑنے کی ترغیب دیتی ہے اسے سمجھنے کے لیے آپکو دین میں جہاد کی تاکید اور اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور اس کے لیے مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ کی الجہاد فی السلام سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہے ۔
    لیکن ہمارا موضوع یہ نا تھا۔ بات کو آپ ایک دوسری سمت لے گئی ہیں۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ جماعت اسلامی نے علاقائی تعصب کو اپنے دائرہ اثر سے اس طرح سے ختم کیا ہے کہ یہ جماعت اسلامی کے اندر ایک انتہائی نامانوس سی چیز سمجھی جاتی ہے۔ اور یہی ہمارا شکویٰ ہے کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت نے خود کو اس دائرہ اثر سے باہر رکھا ورنہ آج یہ صورتحال نہیں ہوتی جس کا مظاہرہ ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. کیا جماعت اسلامی کے عام کارکن افغانستان لڑنے نہیں گئے؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو حیرت ہے۔
      جس وقت روس نے افغانستان پہ حمل کیا اس وقت جماعت اسلامی نے اتنی بے تابی سے جہاد کا راگ پڑھنا شروع کیا کہ جماعت جو محافل میلاد پہ یقین بھی نہیں رکھتی اس نے خواتین کے محافل میلاد جیسے اجتماعات میں خواتین کو جہاد کی اہمیت سے روشناس کرایا تاکہ عورتیں اپنے بیٹوں کو جہاد پہ بھیجتے ہوئے نہ گھبراءیں۔ انیس سو اناسی، افغانستان پہ روس کا حملہ پاکستان کی جنگ کیوں قرار پایا اور کس لئے جماعت اسلامی نے اس میں جہاد کا پروپیگینڈہ کیا؟
      جماعت کو امن سے نہیں جنگ سے دلچسپی ہے۔ یہ ہے میرا مءوقف۔ جماعت چاہتی ہے کہ چھوٹی موٹی صورت حال بھی جب تک جنگ کی طرف نہ چلی جائے اس میں دلچسپی لینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ الگ بات کہ آجکل جماعت کو اب حجابی مہم چلانے سے بھی دلچسپی ہو گئ ہے۔

      Delete
    2. مشکل یہ ہے کہ آپکے ذہن میں جو جماعت اسلامی کا تصور بن چکا ہے وہاتنی شدت سے راسخ ہو چکا ہے کہ آپ اس کے برخلاف کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکیں گی۔ باوجود اسکے میں یہ کہون گا کہ آپ جماعت اسلامی کا مطالعہ و مشاہدہ غیر جانبداری اور خالی الذہن ہو کر کریں گی تو فوری طور پر آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ جماعت اسلامی اور تحریک طالبان پاکستان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ جماعت اسلامی کسی عسکریت پسندی کو فروغ دینے کی بات نہیں کرتی۔ یہ وہ چیز ہے جو مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے شروع دن تاکیداً اپنے اراکین کو سمجھائی اور جسے جماعت اسلامی نے اخوان المسلمین کی تاریخ سے بہت اچھی طرح سمجھاجسے پہلے عرب اسرائیل جنگ میں استعمال کیا گیا اور پھر اس پر عسکریت پسندی کا الزام لگا کر اسے کچلنے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی کی ایک پر امن جدوجہد کی تاریخ ہے جو دو چار سالوں پر نہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ کے عرصے پر محیط ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ جماعت اسلامی پر عسکریت پسندی کا الزام کوئی کیسے لگا سکتا ہے۔
      عسکریت پسندی اور جہاد میں بہت بڑا فرق ہے ۔عسکریت پسندی وہ عفریت ہے جو اپنے پرائے کسی کو نہیں بخشتا جبکہ جہاد بہت ساری حدود و قیود کا مطالبہ کرتا ہے۔ افغانستان کے جہاد میں جو ایک چیز صحیح نہیں تھی وہ یہ تھی کہ اس لڑائی میں مجاہدین، پاکستانی فوج اور امریکہ تینوں کا دشمن ایک ہی تھا اگرچہ مقاصد الگ الگ تھے۔ میں پھر کہوں گا کہ جس دن آپ کو یہ فرق سمجھ میں آگیا اسی دن سے آپکی جماعت اسلامی سے متعلق بدگمانی ختم ہوجائے گی۔

      Delete
    3. اس لئے طالبان کے کسی عمل کی مذمت کرتے جماعت اسلامی کی زبان میں چھالے پڑتے ہیں۔ جماعت اول دن ضرور ایک پر امن جماعت ہوگی لیکن اس وقت اقتدار کا حصول جماعت کا منشاء بھی نہ تھا۔ جس دن مودودی صاحب نے اپنا قبلہ بدلا اس دن اسکی پر امن حالت بدل گئ۔

      Delete
  6. Afganion ka gerh Karachi

    04.03.2010

    افغانیوں کا گڑھ ، کراچی کا علاقہ سہراب گڑھ
    طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملا آغا جان کو کراچی کے سہراب گوٹھ نامی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان عسکریت پسند کب سے پناہ لینے لگے ؟

    طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملا آغا جان کو کراچی کے سہراب گوٹھ نامی علاقے سے گرفتار کیا گیا
    ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان عسکریت پسند کب سے پناہ لینے لگے اور کس طرح یہ علاقہ عسکریت پسندوں کا مرکز بنتا گیا؟

    کہنے کو تو وہ علاقہ بھی سہراب گوٹھ ہے جو راشد منہاس روڈ پر بنائے گئے نئے flyoverکے نیچے پایا جاتا ہے۔ اس سے آگے الآصف اسکوائر اور معمار اسکوائر بھی سہراب گوٹھ ہی کہلائے جاتے ہیں۔مگر یہ نام لیجئے اور جو علاقہ سب سے پہلے ذہن میں آئے گا وہ ہے جرائم کی ایک ایسی دنیا جہاں مجرموں کی سرکوبی کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے جاتے ہوئے بھی سو بار سوچتے ہیں۔ یہ ہے وہ سہراب گوٹھ جہاں جرم بستا ہے اور جہاں اس خطے کے کئی نامی گرامی دہشتگردوں نے پناہ حاصل کی۔

    یہاں رہنے والوں میں ایک بڑی تعداد محسود قبائلیوں کی ہے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو وزیرستان میں پاکستانی افواج کے خلاف نبرد آزما ہے۔ سہراب گوٹھ کے رہنے والے محسود اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں سے اس جنگ میں لڑنے والے محسود قبائلیوں کیلئے مالی امداد بھی بھیجی جاتی ہے اور وہاں زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ ان زخمیوں کیلئے رہائش کا بھی یہاں انتظام ہے۔

    سیکورٹی امور کے تجزیہ کار جمیل یوسف ان لوگوں کی یہاں موجودگی کو افغان جنگ کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ جو سنہ 80 کی دہائی میں لڑی گئی، اپنے پیچھے ایک تکلیف دہ تاریخ چھوڑ گئی ہے اور یہ لوگ اسی دکھ کی باقیات ہیں۔


    اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے تمام داخلی راستوں پر یہ لوگ بیٹھے ہیں اور سرنگوں سے انہوں نے ایک دوسرے سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے ان جرائم پیشہ کو پنپنے کا خود موقع دیا صرف اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے۔ ہر بار ان کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کی بات کی گئی لیکن پھر فیصلہ موقوف کردیا گیا کہ کسی سیاسی حلیف کویہ بات راس نہ آتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی اگر ان کو یہاں سے نہیں ہٹایا گیا تو صورتحال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔اور یہ عمل پولیس یا رینجرز کے بس کا نہیں۔ جمیل یوسف کہتے ہیں کہ یہ عسکری کارروائی تو اب فوج کی نگرانی میں ہی ہو سکتا ہے۔

    یہ سب صورتحال کراچی پولیس اور امن عامّہ کے ذمہ دار اعلیٰ حکّام کے علم میں ہے۔ مگر ان سب کو جانتے ہوئے بھی وہ اس علاقے میں کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرائم پیشہ افراد کی بستی میں گھس جانا ویسے بھی کوئی آسان کام نہیں۔ یہاں اسلحہ بہت بھاری تعداد میں پایا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی میں سندھ حکومت نے سہراب گوٹھ پر ہی واقع منشیات کے اڈّوں اور زمین کے ناجائز قبضوں کو ختم کرنے کیلئے جو آپریشن کلین اپ کیا تھا اس کے نتیجے میں دوسرے ہی دن بد ترین لسانی فسادات نے شہر کو خون سے رنگ دیاتھا۔ شاید حکومت ایسی ہی کسی صورتحال سے خائف ہے۔

    دوسرے یہ کہ سہراب گوٹھ کے رہائشی مالی طور پر بہت مستحکم ہیں۔ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ شہر میں چلنے والے ڈمپروں میں سے تقریبا پانچ سو ان کی ملکیت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک لگ بھگ 54سے 50 لاکھ روپے کی مالیت کا ہوتا ہے۔ جہاں روپے پیسے کی اتنی ریل پیل ہو وہاں مزید اسلحہ حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوجاتا ہے۔

    قانون نافذ کرنے والے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کیا یہاں ہاتھ ڈالنا کوئی عقلمندی ہوگی بھی کہ نہیں۔ پھر کچھ یوں بھی ہے کہ پاکستان کی پولیس بالکل دودھ سے دھلی ہوئی بھی نہیں۔ خود پولیس والے اس بات کے معترف ہیں کہ ان کے یہاں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بھی اس علاقے میں کارروائی کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ گڈاپ ٹاﺅن جہاں سہراب گوٹھ پایا جاتا ہے وہاں کے ٹاﺅن پولیس آفیسر (TPO) کا کہنا ہے کہ اس علاقے کا ایک سابقہ چوکی انچارج اعظم محسود جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کے حوالے سے بدعنوان رہا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ایسے مجرموں کی پشت پناہی کرتے رہے جو اسلحہ اور منشیات کا کاروبار کرتے، اغواء برائے تاوان میں ملوث ہوتے، اور غیر پشتونوں کو دھمکا کر ان کی جائیداد ہڑپ کرجاتے تھے۔ اعلیٰ حکام نے ان کا تبادلہ تو کردیا لیکن ان کو پولیس فورس سے برطرف کرنا اتنا آسان نہیں۔
    ۔


    ReplyDelete
  7. Afganion ka gerh Karachi

    04.03.2010

    افغانیوں کا گڑھ ، کراچی کا علاقہ سہراب گڑھ
    طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملا آغا جان کو کراچی کے سہراب گوٹھ نامی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان عسکریت پسند کب سے پناہ لینے لگے ؟

    طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملا آغا جان کو کراچی کے سہراب گوٹھ نامی علاقے سے گرفتار کیا گیا
    ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان عسکریت پسند کب سے پناہ لینے لگے اور کس طرح یہ علاقہ عسکریت پسندوں کا مرکز بنتا گیا؟

    کہنے کو تو وہ علاقہ بھی سہراب گوٹھ ہے جو راشد منہاس روڈ پر بنائے گئے نئے flyoverکے نیچے پایا جاتا ہے۔ اس سے آگے الآصف اسکوائر اور معمار اسکوائر بھی سہراب گوٹھ ہی کہلائے جاتے ہیں۔مگر یہ نام لیجئے اور جو علاقہ سب سے پہلے ذہن میں آئے گا وہ ہے جرائم کی ایک ایسی دنیا جہاں مجرموں کی سرکوبی کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے جاتے ہوئے بھی سو بار سوچتے ہیں۔ یہ ہے وہ سہراب گوٹھ جہاں جرم بستا ہے اور جہاں اس خطے کے کئی نامی گرامی دہشتگردوں نے پناہ حاصل کی۔

    یہاں رہنے والوں میں ایک بڑی تعداد محسود قبائلیوں کی ہے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو وزیرستان میں پاکستانی افواج کے خلاف نبرد آزما ہے۔ سہراب گوٹھ کے رہنے والے محسود اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں سے اس جنگ میں لڑنے والے محسود قبائلیوں کیلئے مالی امداد بھی بھیجی جاتی ہے اور وہاں زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ ان زخمیوں کیلئے رہائش کا بھی یہاں انتظام ہے۔

    سیکورٹی امور کے تجزیہ کار جمیل یوسف ان لوگوں کی یہاں موجودگی کو افغان جنگ کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ جو سنہ 80 کی دہائی میں لڑی گئی، اپنے پیچھے ایک تکلیف دہ تاریخ چھوڑ گئی ہے اور یہ لوگ اسی دکھ کی باقیات ہیں۔

    ReplyDelete
  8. اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے تمام داخلی راستوں پر یہ لوگ بیٹھے ہیں اور سرنگوں سے انہوں نے ایک دوسرے سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے ان جرائم پیشہ کو پنپنے کا خود موقع دیا صرف اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے۔ ہر بار ان کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کی بات کی گئی لیکن پھر فیصلہ موقوف کردیا گیا کہ کسی سیاسی حلیف کویہ بات راس نہ آتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی اگر ان کو یہاں سے نہیں ہٹایا گیا تو صورتحال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔اور یہ عمل پولیس یا رینجرز کے بس کا نہیں۔ جمیل یوسف کہتے ہیں کہ یہ عسکری کارروائی تو اب فوج کی نگرانی میں ہی ہو سکتا ہے۔

    یہ سب صورتحال کراچی پولیس اور امن عامّہ کے ذمہ دار اعلیٰ حکّام کے علم میں ہے۔ مگر ان سب کو جانتے ہوئے بھی وہ اس علاقے میں کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرائم پیشہ افراد کی بستی میں گھس جانا ویسے بھی کوئی آسان کام نہیں۔ یہاں اسلحہ بہت بھاری تعداد میں پایا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی میں سندھ حکومت نے سہراب گوٹھ پر ہی واقع منشیات کے اڈّوں اور زمین کے ناجائز قبضوں کو ختم کرنے کیلئے جو آپریشن کلین اپ کیا تھا اس کے نتیجے میں دوسرے ہی دن بد ترین لسانی فسادات نے شہر کو خون سے رنگ دیاتھا۔ شاید حکومت ایسی ہی کسی صورتحال سے خائف ہے۔

    دوسرے یہ کہ سہراب گوٹھ کے رہائشی مالی طور پر بہت مستحکم ہیں۔ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ شہر میں چلنے والے ڈمپروں میں سے تقریبا پانچ سو ان کی ملکیت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک لگ بھگ 54سے 50 لاکھ روپے کی مالیت کا ہوتا ہے۔ جہاں روپے پیسے کی اتنی ریل پیل ہو وہاں مزید اسلحہ حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوجاتا ہے۔

    قانون نافذ کرنے والے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کیا یہاں ہاتھ ڈالنا کوئی عقلمندی ہوگی بھی کہ نہیں۔ پھر کچھ یوں بھی ہے کہ پاکستان کی پولیس بالکل دودھ سے دھلی ہوئی بھی نہیں۔ خود پولیس والے اس بات کے معترف ہیں کہ ان کے یہاں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بھی اس علاقے میں کارروائی کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ گڈاپ ٹاﺅن جہاں سہراب گوٹھ پایا جاتا ہے وہاں کے ٹاﺅن پولیس آفیسر (TPO) کا کہنا ہے کہ اس علاقے کا ایک سابقہ چوکی انچارج اعظم محسود جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کے حوالے سے بدعنوان رہا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ایسے مجرموں کی پشت پناہی کرتے رہے جو اسلحہ اور منشیات کا کاروبار کرتے، اغواء برائے تاوان میں ملوث ہوتے، اور غیر پشتونوں کو دھمکا کر ان کی جائیداد ہڑپ کرجاتے تھے۔ اعلیٰ حکام نے ان کا تبادلہ تو کردیا لیکن ان کو پولیس فورس سے برطرف کرنا اتنا آسان نہیں۔

    ReplyDelete
  9. اس علاقے میں قانون بھی پھر وہی لوگ ہیں جو جرم بھی کرتے ہیں اور جرم کی اعانت بھی ۔حکومت کی کوئی رٹ نظر ہی نہیں آتی۔ پولیس کسی مفرور مجرم کو پکڑنے یہاں داخل نہیں ہوسکتی۔کچھ سال پہلے انسداد تشددسیل برائے جرائم کے سربراہ فاروق اعوان کچھ جرائم پیشہ افراد کی وہاں موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارنے وہاں گئے تھے لیکن وہاں موجود مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہوکر واپس چلے گئے تھے۔ ان کے ساتھ دو پولیس اہلکار جاں بحق بھی ہوئے تھے۔

    افغان طالبان کا ایک اہم کمانڈر ملا حسن رحمانی اسی علاقے کے ایک مدرسے میں کافی عرصے مقیم رہے۔ ملا برادر کی گرفتاری سے قبل پولیس نے چاہا تھا کہ ان کو گرفتار کیا جائے لیکن پھر ایک حسّاس ادارے نے دخل اندازی کی اور گرفتاری رک گئی۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ جس علاقے میں یہ مدرسہ پایا جاتا ہے اس کی پاسداری بلوچستان کے بگٹی قبائل کرتے ہیں۔ اور ان سے جھگڑا مول لینا بلوچستان کی سیاست میں ایک نئی چنگاری ڈالنے کے مترادف سمجھا گیا۔


    سابق وزیرِ داخلہ معین الدین حیدر اس بات کو مانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہاں ہونا بہت خطرے کی بات ہے۔ نہ صرف یہ جرائم پیشہ ہیں بلکہ دہشتگردی کو ہوا اور پناہ دینے والے بھی۔ معین الدین حیدر کہتے ہیں ’کراچی میں اسلحہ واقعی بہت موجود ہے، اور متحرب دھڑے جب موقع ملتا ہے اس کا استعمال بڑی آزادی سے کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ جب وزارتِ داخلہ ان کے ہاتھ میں تھی تو وہ ہتھیاروں سے پاک معاشرے کے لئے کئی مہم چلاتے رہے تھے، لیکن ان مہمات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ کیوں نہیں نکلا تو انہوں نے کہاکہ اس وقت کی حکومت کی ترجیحات مختلف تھیں۔

    محسود قبیلہ اپنے جرگہ نظام کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ ایک ایسے نظام میں جہاں حصولِ انصاف کے عمل میں خواتین کو حصہ لینے کا کوئی حق نہیں یہ سخت کٹر قبائلی نظام کسی جدید طور طریق کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔علاقے کی بااثر لوگوں پر مشتمل یہ جرگہ صرف محسود ہی نہیں بلکہ ازبک، تاجک، اور دری بولنے والے دوسرے افغانوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کی سرپرستی بھی کرتاہے۔ نہ صرف شہر کے جرائم پیشہ افراد یہاں پناہ حاصل کرتے ہیں بلکہ تاوان کیلئے اغواءکئے گئے لوگ بھی یہاں رکھے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کوپھر یاتو لیاری یا حب کے جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے یا پھر ان کے محفوظ عقوبت خانوں میں متقل کر دیا جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  10. ایسا نہیں کہ یہاں صرف یہی جرائم پیشہ گروہ پائے جاتے ہیں۔ عام آدمی بھی یہاں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر چند کہ وہ بھی یہاں کبھی غیر ملکیوں کی طرح افغانستان سے آئے تھے مگر اب ان کی دوسری نسل یہاں پل بڑھ رہی ہے اور وہ بھی اس ملک کے اسی طرح شہری ہیں جیسا کہ کوئی اور۔ یہاں کے ایک چائے خانے میں بیٹھے ازبک اور تاجک نوجوانوں نے بتایا کہ ان کے گھروں میں ریڈیو پر اب بھی ، افغانستان کی طرح، ڈوئچے ویلے کی نشریات سنی جاتی ہیں۔ یہ روایات بھی وہ اپنے وطن سے لے کر آئے ہیں۔ لیکن اب تو پاکستان ہی ان کا وطن ہے۔ اور رہی بات جرائم پیشہ کی، تو ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ کس معاشرے میں نہیں ہوتے۔

    رپورٹ: رفعت سعید

    ادارت:کشور مصطفیٰ

    ReplyDelete
  11. yeh to 2010 ki report hay 2saal baad in ki tadaad ko multiply kerlain(or multiply yeh kitni tezi say hotay hain is ka to sabhi ko andaza hoga ;)),to pata chal jaay ga kay Krachi or Krachi waloon ki tabahi ka asal zimadaar kon hay,or inki sab say beri tadaad kin do siasi jmatoon main paai jati hay,
    Ab to inki oladain net bhi istemaal kerti hain yon apnay gunahoon ka sara bojh MQM or peoples party per daal ker khod saaf buch nikaltay hain,
    Badmaash in partion main bhi paay jatay hain lekin jitni kaseer taadad main yeh crimnal krachi main bher chukay hain inka to koi muqabla hi naheen kersakta.

    ReplyDelete
  12. میرا بھی یہی کہنا ہے کے یم کو ایم اپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ گئی...

    ایم کو ایم سب سے لڑتی .. پھر بھی جیت سکتی تھی .. پرابلم تب ہوا جب انہوں نے ہر اس شخصیت کو مارا جو انکے خلاف ہوئی .. یہ دیکھے بغیر کے وہ اردو بولنے والا ہے ....

    اگر ایم کو ایم اردو بولنے والے کو مارے گی ... تو پھر ایم کو ایم اور اے این پی یا کسی اور جماعت میں کیا فرق رہ جاۓ گا ...

    اور یہ ایم کو ایم کا خاصہ ہی ہے کہ انہوں نے اردو بولنے والوں کو بے دریغ مارا ... بلکہ دوسروں سے مروایا بھی ...یعنی انکی حفاظت نہیں کی جب کے آگ ایم کو ایم کی لگائی ہوئی تھی...

    رہی بات دوسروں کے تعصب کی تو . میں ان نام نہاد قومی اور مذہبی رہنماؤں سے مایوس ہو چکا ہوں ...

    ایک جماعت اسلامی امید تھی .. لیکن جب سے جسارت میں مشتاق احمد قریشی صاحب کے انکشافات پڑھے ہیں ان سے بھی دل اٹھ گیا ہے ...

    کیا فرمائیں گے جواد صاحب .. جماعت اسلامی کے روویے کے متعلق...

    مشتاق صاحب فرماتے ہیں کے قاضی صاحب حیدرآباد تشریف لاۓ .. تو اہنوں نے مقامی مسائل کے متعلق معلوم کیا تو انھیں بتایا گیا کہ .. حیدرآباد میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے .. انہوں نے کہا قریبی شہر میں ہے تو ...

    فرمایا گیا وہاں ..حیدرآباد کے مقامی اردو بولنے والوں کا بات بات پہ داخلہ بند کر دیا جاتا ہے .....
    قاضی صاحب فرمانے لگے یہ تو کوئی حل نہیں ہوا ...
    بقول مشتاق صاحب .. انکو مقامی قیادت نے کافی یقین دلایا کے یہ حل متفقہ اور سوچ سمجھ کے نکالا گیا ہے .. آپ چاہیں تی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے یہ پرابلم ہمیشہ کے لئے حل ہو سکتا ہے ...

    قاضی صاحب نہ مان کے دیے..(خیال رہے کے یہ کالم مشتاق صاحب نے حالیہ بندش کا بعد لکھا تھا جس میں ایک دفعہ پھر اردو بولنے والوں کا یونیورسٹی میں نہ صرف داخلہ بند کیا گیا بلکہ خواتین کو بھی مارا پیٹا گیا... دروغ بر گردن جماعت کے رہنما )

    یہ رووےہ صرف قاضی صاحب کا ہی نہیں بلکہ ہر نام نہاد قومی رہنما کا ہے جو سمجھتا ہے .. کے اردو بولنے والے تعصب میں اندھے ہیں .. بیشک وہ طالب علم ہوں استاد ہوں یا مذہبی رہنما ...



    لہذا ایم کو ایم ایک ضرورت ہے .. لیکن موجودہ شکل میں نہیں .. با لکل بھی نہیں ...

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ