سر سید اپنی نو عمری سے یہ دیکھ رہے تھے کہ عیسائ مشنری کے علماء ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں سے مناظرہ اور مباحثہ کرتے پھرتے ہیں۔ مسلمان علماء بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسکی وجہ سے ایک جانب تو لوگ ان مشنریز کے زیر اثر آنے سے بچ گئے تھے مگر دوسری جانب یہ فریقین کے درمیان تلخی کا باعث بنتا تھا۔ جبکہ سر سید اپنے فہم پہ سمجھتے تھے کہ ان دونوں فرقوں کے عقائد میں فرق زیادہ نہیں ہے۔ جتنےدونوں طرف کے مولویوں نے بنا رکھے ہیں۔
اس پہ انہیں خیال آیا کہ ایسی کتاب لکھنی چاہئیے جس سے پتہ چلے کہ بائبل اورقرآن دونوں آسمانی کتابیں بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان علماء جو کہ تحریف کی وجہ سے بائبل کو سراسر غلط سمجھتے ہیں اور عیسائ علماء جو قرآن کو سرے سے آسمانی کتاب تسلیم کرنے کو تیار نہیں ان میں اس گمراہی کی اصلاح ہونی چاہئیے۔
اسے لکھنے کے لئے سرسید نے تفصیلی طور پہ بائبل کا مطالعہ کیا، عبرانی زبان سے واقفیت پیدا کی۔ تاکہ اسے اصل زبان میں پڑھ کر معلوم کریں کہ عیسائیوں نے کہاں کہاں تحریف کی ہے۔
عیسائ تین خداءووں کے قائل ہیں جبکہ بائبل میں تثلیث کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اسی طرح مسلمان نسخ آیت قرآنی کے قائل ہیں لیکن سر سید نےنے اپنی کتاب تبین الکلام اور خطبات احمدیہ میں ثابت کیا کہ قرآن حکیم کی کوئ آیت منسوخ نہیں ہوئ۔
بہر حال عیسائیت اور اسلام کے تعلق پہ انہوں نے کتاب تبیین الکلام لکھی۔ اس بارے میں مسلمانوں اورعیسائیوں دونوں میں شبہات اٹھے۔ سر آرنلڈ کے خط کے جواب میں سر سید لکھتے ہیں کہ
بایں ہمہ مجھ کو یقین ہے کہ میری زندگی میں عام مسلمانوں کی گالیوں اور نفرت سے مجھے نجات نہ ملے گی۔ عیسائ بھی میری تفسیر سے خوش نہیں ہو سکتے کہ جس طرح میں انجیل کی تعلیم کو صحیح اور درست سمجھتا ہوں اسی طرح تثلیث کے مسئلے کا قائل نہیں اس لئے کہ میں انجیل میں کہیں اسکی تائید یا وجود نہیں پاتا ہوں۔
مجھ کو یقین ہے کہ مذہب اسلام صحیح ہے اور اسکی صحت اور وجود دونوں انجیل سے ثابت ہیں۔ اس لئے مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ کسی گروہ کے لوگوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائ خوش کروں۔ میں حق پہ ہوں اور اس خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں جس کے روبرو سب کو ایک دن جانا ہے۔ البتہ یہ میری خواہش رہی ہے کہ مسلمان اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئ فرقہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے تو وہ عیسائ ہیں۔
وقت کے دھارے سے گذرتے ہوئے سر سید احمد خان کو یہ احساس ہوا کہ جب تک ہندوستان میں علم کی روشنی نہیں پھیلتی انکے ترقی کرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ادھر علوم جدیدہ، کے خزانے انگریزی میں دستیاب تھے۔ مسلمان انگریز سے نفرت کرتے تھے اور انگریزی سیکھنے کی طرف مائل نہ تھے۔ جبکہ ہندو بھی صرف اسی قدر انگریزی سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے جو ملازمت کے حصول کو آسان بنادے۔
ان علوم کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے سر سید نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سائینٹیفک سوسائیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جس کا اہم کام، اہم علمی و سائینسی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرا کے انکی اشاعت ہو۔
اس طرح سے ۱۸۶۳ میں غازی پور، جہاں سر سید بغرض ملازمت موجود تھے، میں یہ سوسائٹی وجود میں آئ۔ اس وقت کے وزیر ہند کو اسکا پیٹرن بنایا گیا، پنجاب اور یوپی کے گورنر اسکے وائس پیٹرن بنے۔ ملک بھر سے رئیس اور علم دوست لوگوں کو اسکا ممبر بنایا گیا۔
سر سید اگرچہ اس سوسائیٹی کے روح رواں تھے مگر انہوں نے خود کو اسکا سیکریٹری کہلوانا پسند کیا۔
اس سلسلے میں انہوں نے مختلف شہروں کا دورہ کیا تاکہ اسے متعارف کرایا جا سکے۔
انہی بنیادوں پہ انہوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔اسکی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کیا گیا اور اسّی ہزارروپے کی لاگت سے ایک شاندار عمارت تعمیر کی گئ۔ اس مدرسے کا موجودہ نام وکٹوریہ ہائ اسکول ہے۔ ۱۸۶۴ میں سر سید کا تبادلہ غازی پور سے علی گڑھ ہو گیا۔
علی گڑھ جاتے ہوئے وہ سائینٹیفک سوسائیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اور علیگڑھ میں علاقے کے رئیسوں سے چندہ اکٹھا کر کے اسکے لئےایک عالی شان عمارت تعمیر کروائ۔
اس انسٹیٹیوٹ میں ہر ماہ علمی اجلاس اور مذاکرے ہوتے۔ مختلف موضوعات پہ لیکچر کا اہتمام کیا جاتا۔ سائینسی آلات کی مدد سے مختلف سائینسی علوم کی وضاحت اور تشریح کی جاتی۔ بہت سی کتابوں کے تراجم ہوئے۔ مفید اور علمی کتابوں کی ایک لائبریری قائم کی گئ۔
حالی لکھتے ہیں کہ رئیسہ ء بھوپال نواب سکندر بیگم نے سر سید کی خدمات کے اعتراف میں ایک قیمتی انگوٹھی بطور تحفہ بھجوائ جسے سرسید نے ایک ہزارروپے میں بیچ کر ساری رقم انسٹیٹیوٹ کے فنڈ میں جمع کروادی۔ سر سید نے تبیین الکلام کی طباعت کے لئےآٹھ ہزار روپے اس زمانے کے لحاظ سے کثیر رقم خرچ کر کے اپنا پریس خریدا تھا۔ وہ بھی اس انسٹیٹیوٹ کے حوالے کیا اور یوں سوسائیٹی کی کتابیں، اخبار، رسالے اور اطلاع نامے اسی پریس سے چھپنے لگے۔
اس ادارے کے دارالمطالعہ میں لندن اور ہندوستان کے اطراف و جوانب کے اٹھارہ انگریزی اور چھبیس اردو اخبارات و رسائل آیا کرتے تھے جو اس وقت کے لحاظ سے ایک خاصی بڑی تعداد تھی۔ یوں اسکی روشنی ملک کے طول و عرض میں اہل بصیرت تک پہنچنے لگی۔
جاری ہے
بلا شُبہ سيّد احمد خان صاحب نے بہت محنت کی مگر ايک غلطی جو اُنہوں نے برطانوی حکمرانوں کی خوشنودی قائم رکھنے کيلئے کی اس نے ان کے سارے نيک اعمال پر پانی پھير ديا ۔ خواجہ الطاف حسين حالی صاحب سيّد احمد خان صاحب سے علم حاصل کرنے گئے اور کچھ حاصل بھی کيا مگر ناخوش لوٹے اور کہا "سيّد احمد خان صاحبِ علم تھے مگر بھٹک گئے"۔
ReplyDeleteاوجی سکندر بیگم نے جو انگوٹھی بھجوائی تھی۔ اس کے نتیجے میں کوئی سکینڈل منظر عام پر نہیں آیا؟
ReplyDeleteتحقیق ہونی چاہیے۔
now you are trying to do what Sir Syed could not do???????
ReplyDeleteالسلام علیکم۔
ReplyDeleteمیں بہت دیر سے تبیین الکلام ٹھونڈ رہا ہوں مگر انٹر نیٹ پہ اس کتاب کا نام ہی نظر آتا ہے، یہ کتاب پی ڈی ایف میں مل نہیں رہی۔
اگر کسی شخص کو علم ہو کہ انٹرنیٹ پہ کہاں سے یہ کتاب مل سکتی ہے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔