ادھر میری بیٹی کو تو باغیوں کا سرغنہ بننے کا شوق ہے اُدھر باقی چار بچے کل ہی سات سمندر پار سے ایک لمبا سفر طے کر کے یہاں پہنچے۔ ابھی سفری تھکن اور جیٹ لیگ سے باہر بھی نہیں نکلے کہ ہم انہیں ساتھ لے گئے۔
یوں میں ایک اسٹال پہ، میری ساتھی خاتون دوسرے اسٹال پہ، میری بیٹی صاحبہ اپنی ہم عمر بچی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بڑوں کی سرپرستی سے آزاد رہ کر میلہ دیکھنے کی خواہش مند۔ باقی بچے نیم حالت نیند اور تھکن میں۔
اب یہ خاصہ چیلینجنگ کام بن گیا تھا کہ کتابیں بھی دیکھتے جائیں اور بچوں کی حدود بھی متعین کرتے جائیں۔
ایک وقت مشعل نے کہیں سے ایک کتاب لا کر ہاتھ میں تھما دی کہ وہ انہیں لینا ہے کیونکہ اس میں بہت بیوٹی فل اسٹیکرز ہیں اور ایک مر میڈ کی تصویر بھی موجود ہے۔ یہ کتاب ٹیچرز کے لئے تھی، یا بڑے بچوں کے لئے۔ پھر ایک بحث و مباحثے کے بعد ان سے لیکر واپس رکھنے لگے تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ چاروں طرف اسٹالز تھے اور اب انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ کہاں سے اٹھائ ہے۔ خیر جناب، اس طرح کے حالات سے گذرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ جلدی جلدی ایک نظر ڈال کر نکل چلیں۔
اس دفعہ ایک بات جو میں نے محسوس کی کہ اردو کتابوں کا خاصہ بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ ان میں روائیتی اردو ناول یا فکشن کی کتابیں یا اسلامی کتابیں ہی نہیں تھیں بلکہ بچوں کے لئے اردو میں بڑی کتابیں موجود تھیں کہانیوں سے لے کر عام معلوماتی اور سائینسی کتابیں بھی۔ شاید پچھلے کچھ عرصے میں ان کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں انگریزی کتابیں اتنی نہیں تھیں جتنی کہ پہلے نظر آتی تھیں۔ کتابوں پہ رعایت کچھ خاص نہیں اس سے زیادہ تو اردو بازار میں مل جاتی ہے۔
اس بھاگ دوڑ میں، میں نے بھی یونہی کچھ کتابیں لے لیں۔ ان میں ایک کتاب شاہ بلیغ الدین کی روشنی ہے۔ دوسری تہذیبی نرگسیت، حالانکہ میں اسے نیٹ پہ پڑھ چکی ہوں مگر مصنف کو کاپی رائیٹ کا حق دیتے ہوئے خریدی۔ اس سے یقیناً راشد کامران صاحب کو خوشی ہوگی۔
شہرزاد پبلشر پہ تمام ادبی کتابوں پہ پچاس فی صد رعایت تھی۔ وہاں سے خالد جاوید کا ایک ناول 'تفریح کی ایک دوپہر' لیا نجانے کیوں مجھے اسکا عنوان دلچسپ لگا۔ ایک مجموعہ کشمیری کہانیوں کا لیا جو حمرہ خلیق نے بیان کی ہیں۔ لیکن وہاں مجھے ایک کتاب اور ملی، جو اپنے عنوان سے بہت دلچسپ لگی اسکا نام ہے نوجوان ناول نگار کے نام خط۔
مشعل کے لئے میں نے پچھلے مہینے کافی ساری کتابیں لیں بلکہ اس دفعہ انکی سالگرہ پہ انکے کلاس فیلوز کو تحفے میں ایک ایک کتاب دی۔ لیکن فیروز سنز پہ بچوں کی کہانیوں کا خزانہ موجود تھا۔ ہر کتاب تیس روپے کی اور ان پہ کچھ رعایت بھی۔ سو، کچھ کتابیں انکے لئے پھر لیں لیکن اس بار، یہ سب اردو میں تھیں۔
گھر آکر سب سے پہلے کتاب 'نوجوان ناول نگار کے نام خط' نکال کر سرسری سی دیکھی۔
یہ ایک کتاب کا ترجمہ ہے۔ جس میں ناول نگاری کے اجزائے ترکیبی بیان کئے گئے ہیں۔ ابتدائیے میں مترجم لکھتے ہیں کہ
یہ اجزائے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب یہ ہیں، اسلوب، راوی اور بیانیہ مکان، زمان یا وقت، حقیقت کی سطحیں، انتقالات اور کیفی زقندیں، چینی ڈبے یا روسی گڑیاں، پوشیدہ حقیقت اور کم یونی کیٹنگ وے سلز۔
آخر میں وہ نوجوان کو نصیحت کرتا ہے کہ
میرے عزیز دوست، میں جو کہنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تم نے ہر وہ چیز جو میرے خطوں میں ناول کی وضع کے بارے میں پڑھی ہے اسے بھول جاءو، بس کمر باندھ کر بیٹھ جاءو اور لکھنا شروع کردو۔
یہ آخری کتاب یقینا آپ نے میرے لئے خریدی ہے۔ لیکن کیا کروں۔ میرے سارے عظیم ترین ناول پہلے باب پر ہی ٹھس ہوجاتے ہیں۔ اور دنیا ہے کہ ایک عظیم ترین ادب پڑھنے سے متواتر محروم ہے۔
ReplyDeleteفی الوقت میں نے ناول نگاری سے مایوس ہوکر چاچے تارڑ کے چول نامے پڑھنا شروع کردیے ہیں۔ ایک نیا ہاتھ لگا ہے: "نیویارک کے سورنگ"۔ سنٹرل لائبریری سے پکڑا ہے۔ آپ نے تو کوئی گر سکھانا نہیں۔ شائد مجھے وہیں سے کچھ گوہر دانش مل جائے۔
میرے خیال میں لکھنے کے معاملے میں آخری بات ہی کام کی بات ہے ۔اگر لکھنا شروع کر دیا جائے تو پھر تحریر کبھی نہ کبھی بہتر ہو ہی جاتی ہے ۔ ہم زندگی میں لکھنے کےعلاوہ بھی بہت سارے کام محض اس لئے نہیں کر پاتے کہ ہم کام بہت پرفیکٹ دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں ۔ انگریزی کا ایک فقرہ کہیں پڑھا ہوا یاد آ رہا ہے کہ
ReplyDeleteIf you want to write something , just stick to a chair and start writing it.
کچھ دن قبل ایک دوست نے کمپیوٹر پروگرامنگ کے بارے میں ایک ٹوئیٹ کیا تھا، حرف بحرف تو یاد نہیں البتہ ملتا جلتا ریپلکا بھی دلچسپ ہو گا
ReplyDeleteLearn all the foundation of computer sciences, develop a programming style, finally forget it all and go hack.
کتب دوستی کی عادت کا بیچ بچپن سے ڈالا جائے تو بڑے ہوکر بھی یہ تعلق برقرار رہتاہے۔ ہمارے تین سالہ صاحبزادے تو 'بک اسٹور' جانے کی مستقل رٹ لگائے رکھتے ہیں، تاکہ وہاں بچوں کی نیم لفظی و نیم تصویری کتابیں چھانیں اور کافی 'ہاٹ چاکلیٹ کا کوڈ نیم' پی سکیں۔
ReplyDelete'نوجوان ناول نگار کے نام خط' کی تلاش کی تو پتا چلا کہ یہ محمد عمر میمن صاحب[1] کا ترجمہ ہے جو کہ جامعہ وسکانسن میڈیسن میں پروفیسرالامارت ہیں۔
ان کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو قحط الرجال کے دور میں اس نہایت قابل اور نابغہ روزگار شخصیت کی تحاریر دیکھ کربے پایاں مسرت ہوئی۔ ان کی تصنیف 'کہانی اور يوسا سے معاملہ - مکاتيب'اردو فکشن کے حوالے ایک نہایت دلچسپ مکالمہ ہے [2] جو ماريو برگس يوسا کي تصنيف "نوجوان ناول نگار کے نام خطوط" پر لکھا گیا ہے۔ لہذا اس کتاب سے آگاہی دلانے کا شکریہ، فالحال تو اسکے انگریزی ترجمے پر ہی کام چلانا پڑے گا الا کہ برادرم راشد کامران کسی نشست میں اپنی ہسپانوئی زبان کی قابلیت سے اس کے فی البدیہ ترجمے کا التزام کریں۔
[1] http://sites.google.com/site/muhammadumarmemon/
[2] http://docs.google.com/fileview?id=0B6MrkMcVU868MDdlMjVkMDMtNjFhNy00YTgxLWFhNDgtMDdiY2EyMjk1ZjE3&hl=en
awesome... I think I should write about my visit to book fair too. I went there with my niece and we both had fun. Though I didn't buy anything for myself since I mostly buy my books online now on kitabain.com and libertybooks. But over all it was an evening well spent.
ReplyDeleteگذشتہ تین دن سے تو میں کراچی سے باہر تھا، آپ کے بلاگ سے اس کتابی میلے کے بارے میں پتہ چلا جو اب ختم ہوگیا ہے ورنہ ایک آدھ چکر ضرور لگا لیتا۔
ReplyDeleteتحریر کے آخر میں اقتباس واقعی خوب ہے اور شاید یہی وہ طرزِ تحریر ہے جو مصنف کو اورں سے ممتاز کرتا ہے۔
عدنان مسعود صاحب، یہی مسئلہ مشعل کا ہے۔ وہ پورا اسٹور خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن اسٹور والوں سے مالی معاملات کی گھمبیرتا کی وجہ سے معاملہ ہمارے حق میں ہونے کے امکان نہیں ہوتے۔ یوں یہ جھگڑا ہم دونوں کے درمیان ہی رہتا ہے۔ جس کتاب کو ہم یہ کہہ کر رکھ دیتے ہیں کہ یہ بڑے بچوں کی ہے اس کے لئے وہ کہتی ہیں کہ آپکو معلوم نہیں میں اب بڑی ہو گئ ہوں۔ اور اس سے زیادہ مجھے بڑا نہیں ہونا۔ میرا خیال ہے کہ اگر کام جلدی جلدی نبٹانا ہو تو انہیں ساتھ نہیں ہونا چاہئیے۔ آپکے دئیے ہوئے لنک کا شکریہ۔ میں نے تو کافی جلدی میں اسے لکھا کہ جو لوگ وہاں جانا چاہیں ایک چکر لگا لیں۔ خیال ہی نہیں رہا کہ یہ میلے کا آخری دن تھا۔
ReplyDeleteنعمان، اب آپکی تحریر کا انتظار ہے۔
عثمان، وہ دن کبھی تو آئے گا۔
:)
جب ایک مایہ ناز ادیب بنیں گے۔ لیکن اس وقت تک کچھ دھکا کھآنا ضروری ہے۔ اگر آپ تمام فنکاری جان لیں تب بھی زاتی مواد کا ہونا ضروری ہے۔
محمد احمد صاحب، اب اگلے سال کا انتظار کریں۔ مترجم کا کہنا بھی یہی ہے کہ محترم ادیب کا طرز تحریر اہمیت رکھتا ہے۔
ریاض شاہد صاحب، ایک طویل عرصے کے بعد آپکو دیکھ کر خوشی ہوئ۔ امید ہے اب آپ اپنے بلاگ کے جالے بھی صاف کریں گے۔
:)
ذاتی مواد ہے نا۔ میری آپ بیتیاں
ReplyDeleteسوچتا ہوں کہ اسے ہی تڑکہ لگا کر ناول تیار کرلوں۔ لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی۔ ویسے مجھے پتا ہے کہ جیسے آپ ایم بی بی ایس سے جیلس ہیں ویسے ہی میری افسانوی صلاحیتوں سے بھی جیلس ہیں۔ دراصل آپ کو ڈر ہے کہ ہونہار شاگرد آگے ہی نہ نکل جائے۔ لیکن آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اپنا پہلا ناول آپ ہی کے نام کروں گا۔ بلکہ اگر کہتی ہیں تو مرکزی کردار ہی آپ کا بنا دوں گا۔
تو پھر ڈیل ڈن ہے؟ میری گھوسٹ رائٹر بن جائیں۔
عثمان، شان کے خلاف ریمارکس کو نظر انداز کرتے ہوئے، ڈیل ڈن کرتی ہوں۔ اب جلدی سے 'ذاتی آپ بیتیاں' روانہ کریں۔ ایسا نہ ہوں کہ وہ بھی گھوسٹ ہوں۔
ReplyDeleteاس کتاب میلے میں بچوں کے لیے واقعی بہت کچھ موجود تھا۔ صرف کتب ہی نہیں، بلکہ اینی میٹڈ ویڈیوز اور ڈیجیٹل اسباق۔۔۔ اور یہ شہر زاد کا اسٹال کہاں تھا :( مجھ سے رہ گیا۔۔۔ اس کی کتب تو بہت اچھی ہوتی ہیں اور پچاس فیصد رعایت۔۔۔ :( کہیں سے ٹائم مشین کا آسرا ہو تو بات ہے۔
ReplyDelete