Thursday, February 25, 2010

میرا پیغمبر عظیم تر ہے

میں یہاں اس نبی کا تذکرہ کرنے نہیں جا رہی، جسکا سایہ نہ تھا، جو اپنے لعاب دہن سے امراض کو اچھا کر دیتا تھا  جس کی انگلیوں سے پانی کی دھاریں بہیں، جس کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور جسکی پیدائش پہ  ایوان کسری کے چودہ کنگورے گر گئے، مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا، بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اسکے گرجے منہدم ہو گئے۔
یہ ایک انسان کے بارے میں ہے جسے قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے درمیان سے نبوت کے عہدے پہ فائز کیا گیا۔ تاکہ دوسرے  انسان اسکی تعلیمات سے اسی طرح سیکھیں جیسے اور انسانوں سے سیکھتے ہیں اور انہیں یہ اعتراض نہ ہو کہ  یہ تو ہے ہی ایک مافوق الفطرت شخص ہم بھلا کہاں اسکے جیسے کام کر سکتے ہیں۔
یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہونگی  جسکے مصنف مائیکل ہارٹ ہے یہ میرے کتابوں کے مجموعے میں دس سال پہلے شامل ہوئ۔ انیس سو اٹھتر میں شائع ہونے والی اس کتاب میں دنیا کی تمام تاریخ سے سو افراد کو چنا گیاہے۔ سو ایسے افراد جنہوں نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل دیا اور جنکے اثر سے دنیا آج بھی آزاد نہ ہو سکی ان سو افراد کو ترتیب دیتے ہوئے مائیکل نے جس شخصیت کو سب سے پہلا نمبر دیا وہ رسول اللہ کی ذات ہے۔
وہ کہتا ہے میرا یہ انتخاب کچھ پڑھنے والوں کو حیران کر دیگا۔ لیکن در حقیقت محمد[صلعم]  دنیا کی تاریخ میں وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے  مذہبی اور سیکولر دونوں سطحوں پہ بے انتہا کامیابی حاصل کی۔ محمد [صلعم] نے دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کی تبلیغ کی اور ایک انتہائ پر اثر سیاسی رہ نما ثابت ہوئے۔
 تاریخ کی بہت اہم شخصیات کے بر عکس محمد[صلعم] کو دنیا کے کسی اہم  تہذیبی مرکز یا ثقافتی سطح پہ یا سیاسی طور پہ اہمیت کی حامل قوم میں موجود ہونے کا فائدہ نہیں ملا۔ بلکہ وہ علاقہ جہاں وہ موجود تھے اس وقت دنیا کا ایک پسماندہ علاقہ تھا۔ انکی اپنی زندگی آسانیوں سے مرقع نہ تھی اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ عرب کے مختصر حالات یہ تھے کہ وہ بہت سارے خداءووں پہ یقین رکھتے تھے۔ کچھ یہودی اور عیسائ بھی وہاں موجود تھے لیکن وہ بھی اتنا اثر نہ رکھتے تھے۔ عرب قبائل آپس کی جنگوں میں الجھے رہتے تھے اور انہیں  بے تحاشہ معاشی مسائل کا سامنا تھا۔
 وہ مزید کہتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے تقریباً دوگنی ہے تو یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر محمد [صلعم] کو نمبر ایک کیوں دیا۔  اسکی وجہ اسکے مطابق  یہ ہے کہ اسلام کو مرتب کرنے میں اور اسے پھیلانے میں محمد[صلعم] نے جتنا کام کیا۔  وہ کرائسٹ یعنی حضرت عیسی نے نہیں کیا۔

حتی کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کو لکھوانے  اور محفوط رکھنے کا جو کام محمد[صلعم] نے کیا
وہ حضرت عیسی بلکہ انکے نائیبین  نے بھی نہیں کیا۔
 اسی طرح کی اور مثالیں دیتے ہوئے مائیکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کی سب سے زیادہ کامیاب اور پر اثر شخصیت قرار دیتا ہے۔
مائیکل وہ واحد شخص نہیں جو اس چیز کا اعتراف کرتا ہے۔ یہ اعتراف ہر وہ شخص کرتا نظر آتا ہے جو رسول اللہ کی جدو جہد کی داستان کو بغیر کسی جانبداری اور عقیدت کے پڑھتا ہے۔ انہیں اپنے ماحول کے لحاظ سے اتنے انقلابی فیصلے کرتے دیکھتا ہے۔ انہیں جنگیں لڑتے دیکھتا ہے۔ حاصل ہونے والی فتح سے بردباری سے نبٹتے دیکھتا ہے۔ اور شکست ہونے پہ اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دیکھتے ہے۔ انہیں اپنی خاندانی زندگی گذارتے دیکھتا ہے، خوشی اور غم کو برتتے دیکھتا ہے اور لوگوں  کیساتھ دیکھتا ہے اور پھر خلوت میں دیکھتا ہے۔ اپنے عزم پہ جمے دیکھتا ہے اور لوگوں کی ہمتیں باندھتے دیکھتا ہے ، ایک سپہ سالار کو دیکھتا ہے اور ایک واعظ کو دیکھتا ہے، مسلمانوں کیساتھ دیکھتا ہے اور غیر مسلموں کیساتھ دیکھتا ہے اور ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد انکی ذات سے متائثر ہونا ، پھر ان دیکھے خدا پہ ایمان لے آنا کتنا ہی آسان اور صحیح کام  لگتا ہے۔ محمد مصطفی سے آشنا ہونے کے بعد کیا کوئ خدا سے نا آشنا رہ سکتا ہے۔
کشف الدجی بجمالہ 
حسنت جمیع خصالہ
صلو الیہ وٰاٰلہ

 نوٹ؛ سیرت طیبہ پہ آج ڈان میں اصغر علی انجینیئر صاحب کی ایک تحریر چھپی ہے۔ اسے ضرور دیکھیں۔ لنک یہ ہے
حوالہ؛


                                                               

19 comments:

  1. قدرت اللہ شہاب سے کسی نے پوچھا کہ میں اپنی ذاتی زندگی میں کیسے اسلام پر عمل کر سکتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ تم یہ سوچا کرو کہ اگر محمد صل اللہ علیہ سولم کو اگر یہ مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ کیسے عمل کرتے ۔ بس یہی اسلام ہے ۔
    چند دن قبل ایک دوست ایک واقعہ بیان کر رہے تھے کہ ایک مغربی ملک کی عیسائی خاتون جرنلسٹ پاکستان کے دورے پر آئی اس کی رپورٹس پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف تعصب سے بھری ہوتیں تھیں ۔ شمالی علاقہ جات کے دورے کے دوران ایک سرکاری افسر سے اس خاتون کی ملاقات طے ہوئی ۔ ملاقات میں اس افسر نے پوچھا کہ پاکستان کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے ۔ خاتون نے کہا کہ میری رائے شاید آپ کو پسند نہ آءے ۔ اس پر اس افسر نے کہا کہ اسلام کے بارے میں اس کی رائے کیا ہے ۔ خاتون نے پھر وہی جواب دیا ۔ اس افسر نے کہا اچھا تو تمہارا اپنے خاوند کے بارے میں کیا رائے ہے تو اس خاتون نے کہا کہ میں اس باسٹ۔۔۔۔۔ کو چھوڑ چکی ہوں اور ایک بیوی اپنے میاں کے کردار سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے ۔ اس پر اس سرکاری افسر نے سیرت النبی پر ایک کتاب اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو پڑھءے ۔ ہمارے نبی صلاللہ علیہ وسلم کی بیویاں ان کے بارے مین کیا کہتیں ہیں اور اس نبی صلاللہ علیہ وسلم کی امت کیسے بری ہو سکتی ہے ۔ اس پر اس خاتون نے چپ سادھ لی ۔
    آج ہم اپنے آپ کو تو شاید دنیا کے سامنے ایک عمدہ مثال کے طور پر پیش نہ کر سکیں مگر نبی اکرم صلاللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہی وہ ذات ہے جو مغرب کو ایک رول ماڈل مہیا کر سکتی ہے ۔
    میرا ارادہ بھی ایک پوسٹ اسی موضوع پر تھا مگر آپ نے حق ادا کر دیا ہے ۔ اب اس پر مزید نہیں لکھا جا سکتا ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے

    ReplyDelete
  2. بہت اچھی تحریر لکھی آپ نے۔ آپ نے درست فرمایا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے بے حد متاثر ہیں۔ میں نے اس سے قبل بھی کئی بار یہ پڑھا لیکن یہ چیز سمجھ نہیں آئی کہ اگر وہ انہیں اتنا ہی عظیم انسان تسلیم کرتے ہیں کہ جتنا میں اور آپ تو یہ دائرہ اسلام میں داخل کیوں نہیں ہوجاتے؟
    وقت ملے تو اس پر بھی بلاگ لکھیے گا۔ شکریہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. ایک انتہائی ادنٰی مثال:

      خواجہ نصرالدین بخارا کے معزز امیر کی خدمت میں پیش تھے۔ ماہانہ یوم مدح سرائی تھا۔ امیر نے سب کی تعریفیں سن کر پوچھا کہ اگر ہم مابدولت اتنے ہی عظیم الشان ہیں تو پڑوسی ممالک کے حکمران تحفے تحائف کے ساتھ ہماری اطاعت کے لئے کیوں نہیں پیش ہوئے؟

      خواجہ نصرالدین نے جواب دیا (واضح رہے کہ ان کے سوا کسی اور نے جواب نہیں دیا تھا) کہ اے عظیم الشان امیر (جھوٹی تعریف کر رہے تھے) کہ ہمسائیہ ممالک کے حکمران ہمارے آقا سے لرزاں رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر وہ اچھے تحائف لے کر اطاعت کرنے آئے تو معزز امیر ان پر حملہ کر دیں گے اور اگر برے تحائف لائے تو امیر ناراض ہو کر اپنی افواج بھیج دیں گے

      تفنن برطرف، جو بات ہمیں اچھی لگتی ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں ہماری شخصی آزادی مجروح ہوتی ہے، وہاں سے ہم چپ کر کے نکل لیتے ہیں۔ اپنے ہر اچھے برے کام کو ہم مذہب کی طرف سے جواز دے کر جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر مذہب کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ شاید وہ مذہب کے بغیر ہی اچھے انسان ہوں۔ ایک اور بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ انہیں اسلام پسند ہے لیکن مسلمانوں کا کردار پسند نہیں۔ اس لئے وہ اپنے آپ پر لیبل لگوانے سے گھبراتے ہیں

      Delete
  3. نہایت عمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ایک ایک لفظ سے متفق ہوں۔

    ReplyDelete
  4. بہت خوبصورت لکھا ہے اور آج کے دور کے لیے ایک بہت ضروری پوسٹ۔

    اسد صاحب نے پوچھا کہ تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل کیوں نہیں ہوجاتے تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہدایت اور ایمان اللہ تعالی کی نعمت ہے اسے کوئی مشقت سے حاصل نہیں کرسکتا اسی لیے نبیوں نے ہمیشہ دعوت ایمان دی ہے او راللہ سے ہدایت کی دعا۔

    ReplyDelete
  5. اسد ۔ پروفیسر شفیق جالندھری پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمونکشن کے پروفیسر ہیں ۔ ایم ایس سی کرنے نوے کی دہائی کے آخر میں امریکہ گئے ۔ ان کا پروفیسر جوزف ایک صاحب علم شخص تھا ۔ ایم ایس سی مکمل کرنے کے بعد آخری دفعی وہ پروفیسر سے ملنے گئے تو پروفیسر نے انہیں اپنے گھر کھانے کی دعوت دی ۔ کھانے کے بعد بات چیت کے دوران اس پروفیسر نے کہا کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے ۔ تو شفیق نے آپ والا سوال اس سے پوچھا تو اس پروفیسر نے کہا کہ اندر سے تو میں مسلمان ہو چکا ہوں مگر اس معاشرے میں رہ کر اگر اپنا ایمان ڈکلئر کروں گا تو مجھے امتیاز کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ مجھے اپنی پروفیسرشپ سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں ۔

    ReplyDelete
  6. "میرا پیغمبر عظیم تر ہے"صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
    سبحان اللہ ۔ بہت خُوب !
    بی بی!اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین۔ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے بارے میں لکھ کر عید میلاد النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کیا ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۃ حسنہ پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    جن احباب کو جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کسی غیر مسلم کے نقطہ نظر سے جاننے کا شوق ہو ،وہ مائیکل ایچ ہرٹ کی مشہورِ زمانہ تصنیف
    The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History
    جس کا ذکر آپ نے بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے،اس کتاب کے علاوہ حال ہی میں بھارت میں چھپنے والی پنڈت پرکاش وید کی کتاب "کالکی اوتار" بھی دیکھ لیں ۔ جس کی اشاعت نے بھارت میں ہلچل مچادی ہے۔ اس کتاب یعنی ”کالکی اوتار“میں یہ کہا گیا ہے کہ ہندوﺅں کی مذہبی کتابوں میں جس کالکی اوتار کا تذکرہ ہے وہ آخری رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پنڈت وید پرکاش برہمن ہندو ہیں اور الہ آباد یونیورسٹی کے ایک اہم شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کا رہنما رکھا ہے۔ پنڈت وید پرکاش سنسکرت کے معروف محقق اور اسکالر ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور و معروف محققین پنڈتوں کو پیش کیا ہے جو کہ اپنے شعبے میں مستند گردانے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد یہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کیے گئے حوالہ جات مستند اور درست ہیں۔ ہندوستان کی اہم مذہبی کتب میں جس عظیم رہنما کا ذکر ہے اور جسے ”کالکی اوتار“ کا نام دیا گیا ہے۔ اور اس سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔جو مکہ میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ تمام ہندو جہاں کہیں بھی ہوں ان کو مزید کسی کالکی اوتار کا انتظار نہیں کرنا چاہئیے بلکہ محض اسلام قبول کرنا ہے اور آخری رسول کے نقش قدم پر چلنا ہے جو بہت پہلے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندوﺅں کی مذہبی کتاب مقدس کتاب وید سے حوالے دلائل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔

    نیز آپ نے مولانا شبلی نعمانی رحمتہ ا للہ علیہ کی تصنیف جس سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ دیا ہے ،وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور عرب محقیقن اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ سب سے میری استدعا ہے کہ اسے ایک بار ضرور پڑھیں ، اندر کی دنیا میں ایسا تغیر آئے گا کہ سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔

    بی بی! اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے ۔آمین ۔اتنی اچھی تحریر پہ مبارک باد قبول کریں۔

    ReplyDelete
  7. جاوید گوندل صاحب
    اسلام علیکم
    ان معلومات کا شکریہ ۔ جس ہستی سے محبت کا دعوی میں اور آپ کر رہے ہیں ان صلی علیہ کی شان میں ایک توہین آمیز سائٹ کا لنک میں نے جب آپ کو روانہ کیا تھا تو آپ نے اسے محض اسلام دشمنی پر مبنی ایک سائٹ کہ کر رد کر دیا تھا ۔
    محترم مسئلہ اس سے زیادہ گھمبیر ہے ۔ آج مغرب کے لوگ قرآن پر تو کوئی ٹھوس اعتراض نہیں کر سکتے مگر وہ ہماری ان مذہبی کتابوں سے جسے ہمارے علماء دین کا مغز قرار دیتے ہیں ان کے اندر سے حوالے نکال نکال کر اسلام اور نبی اکرم صلی علیہ کی ذات میں نقص نکالتے ہیں اور اپنے لوگوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر تم مسلمان بن گئے تو تمھارے اور تمہارے بچوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا ۔ مثلا شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کے مسئلے کو لے لیں کہ وہ محض نو سال کی تھیں ۔ ماضی ہمارے علماء نے کبھی اس الزام کی تردید کرنے کی کوشش نہیں کی اور جب ہمارے چند دیوانے مسلمان لوگوں نے تحقیق کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ بالغ تھیں تو ہمارے علماء نے اسے در خور اعتنا نہ سمجھا بلکہ ان کی تعلیمات کو اسلام کے خلاف سازش سے تعبیر کیا کیونکہ اس طرح سلف صالحین کا ایک حوالہ اور ان کے اپنے عقیدے کی عمارت دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے چاہے نبی صلی علیہ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والے اسے استعمال کرتے رہیں ۔ آج اتنے عرصے بعد مغرب میں چند پڑھے لکھے حضرات نے کوشش کر کے اس کا جواب دیا ہے ۔ اسی طرح اور دوسرے مسائل پر بھی ہمارا رویہ تقلیدی ہے اور ہم مغرب کے اعتراضات کو ان کی محض اسلام دشمنی کہ کر رد کر دیتے ہیں ۔
    آپ کی رسائی علم کے سوتوں تک ہے آپ ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہیں مگر آپ کا رویہ بھی دین کے معاملات میں تقلیدی ہے *یقیننا یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے * اور آپ نے ابھی تک ایسی کوئی علمی کوشش اپنے مغربی قارئین کے لئے نہیں کی جس سے آپ کی محبت کا عملی ثبوت مل سکے ۔ مجھے یقین ہے کہ نبی اکرم صلی علیہ کو آج صرف ہماری لپ سروس کی ضرورت نہیں ۔

    ReplyDelete
  8. صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    دنیا کی ہر فضا میں ہے اجالا رسول کا
    یہ ساری کائنات ہے صدقہ رسول کا
    خوشبوئے گلاب ہے پسینہ رسول کا
    آپ سب کو ہو مبارک مہینہ رسول کا

    ماہ ربیع الاول مبارک

    ReplyDelete
  9. محترم محمد ریاض صاحب!۔
    بہتر ہوتا آپ وہ"شکوہ" براہِ راست بیان کر دیتے ۔جس وجہ سے آپ متواتر مجھ سے شاکی ہیں۔
    ۔میاں محمد بخش مرحوم کا ایک شعر عرض ہے ۔
    اوکھی کار فقیری آلی، تے چڑھ سولی تے بھینا
    در در دے ٹوڑے منگنے ،تے مائیے پہنے کہنا
    آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میری" رسائی علم کے سوتوں تک ہے"محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو میرے بارے میں شدید غلط فہمی ہے۔ حضور ۔ میں تو ابھی تک بحر علوم کے اس کنارے کھڑا ہوں اور سفینہ علم کی کھوج میں ہوں۔ میں بھی آپ کی طرح عام سا انسان ہوں۔ علم کے سُوتوں تک رسائی تو فقیری (فقر والی) کے بغیر ناممکن سی بات ہے۔جبکہ شائدمیری قبائلی جبلت اس میں حائل ہے۔اور میاں محمد بخش رح نے اپنے کسی شعر میں کہا ہے کہ جٹ اور گجر گورسی قبیلے کے افراد فقیر نہیں ہوتے کہ وہاں فقر کا گزر نہیں۔اسلئیے بحر علوم میں غوطہ زن ہونے کے لئیے فقر ضروری ہے ۔ فقر کے بغیر علم کا دعواٰی تصنع ہے ، بناوٹ ہے۔

    جسطرح ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئیے باقی سب مسلمان جذبہ رکھتے ہیں ویسے ہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئیے جذبہ عقیدت اور محبت میرے دل میں بھی ہے۔اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ تو کُجا میں ابھی تک اپنے آپ کو اُنکی سنت و حدیث کے صحیح مفہوم کی درست ادائیگی کو اپنے پہ روا نہیں کرسکا ۔اور ناموسِ رسالت کے لئیے احتجاج ریکارڈ کروانا اپنے سمیت ہر مسلمان پہ فرض سمجھتا ہوں۔ اور اسمیں بھی شائستگی کا دامن پکڑے رہنے کو بہتر سمجھتا ہوں۔ ورنہ دوسری صورت میں ہم وہی فعل کر رہے ہوتے ہیں جس سے ہمارے مذھب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایاہے اور جس کی توقع ہم سے شرارتی لوگ کرتے ہیں ، تانکہ ہمارے ایسے اقدامات کو جواز بنا کر دین اسلام کو مزید بدنام کرنے کی اپنی سی سعی کر سکیں۔غالباََ اس بارے میں اپنے کسی گذشتہ تبصر ہ میں وضاحت کر چکا ہوں۔ گُمان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اُس تبصرے میں میرے الفاظ پہ غور نہیں کیا ہوگا ورنہ میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگا کہ آپ نے مجھے سربازار کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے ۔:)

    آپ نے ایک عدد انٹرنیٹ ویب سائٹ کا تذکرہ کیا ہے میں آپ کو بیسوں ایسی سائٹس گنوا سکتا ہوں جہاں بہت سے قادیانی ، ہنود و یہود مسلمانوں کے نام اپنا کر مکروفریب سے دین اسلام کو اپنے تئیں مسخ کرنے کی لعین حرکات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لاہور جیسے شہر سے ایسے مجلے اور جرائد چھپتے رہے ہیں جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر قرآنِ کریم سے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے حوالے سے نصرانیت کو بہ حق ثابت کرنے کی مذموم کوششوں کے ساتھ پاکستان کے مسلمانوں کو اردو وغیرہ میں نصرانیت اپنانے کی ترغیب تبلیغ کی جاتی رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ ہماری "مومن" حکومتوں کی عین ناک کے نیچے ہوتا آیا ہے۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ اُم مشنری اداروں کے پیچھے اُنکی پشت پناہی کے لئیے غیر مسلم عالمی اور پاکستان کی نسبت نہائت مظبوط طاقتیں ہیں۔ جبکہ پاکستان جیسے مسلمان ممالک کے مسلمان اپنے ہی ملکوں میں اپنے جائز انسانی بنیادی حقوق کے لئیے یتیم ہیں۔تاریخ شاہد ہے جب کسی مذھب یا قوم کی طاقتور قوم کے افراد سے کوسوں دور زیادتی ہوئی انہوں نے اپنے شہریوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ انکی دادرسی کے علاوہ انکے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ بھی لیا اسکی ایک مثال آج کا امریکہ اور یوروپ کے ممالک اور ماضی کی ایک مثال عرب تاجروں کا دیبل کی بندرگاہ پہ لٹنے کا وہ واقعہ ہے جس کی وجہ سے حجاج نے دیبل پہ لشکر کشی کی۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی بات بجا ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ بدقسمتی سے "کافر ممالک" کی طرف سے حجاج بن یوسف کی طرف سے دیبل پر حملے کے لئے محمد بن قاسم روانہ کرنے کے بعد اس چیز پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے کہ حجاج بن یوسف کا ذاتی کردار اور بطور حکمران کردار کیا تھا اور محمد بن قاسم کے ساتھ اس نے بعد میں کیا سلوک کیا تھا۔ یہ بات انہیں ڈراتی ہے کہ قول و فعل کا تضاد کتنا گہرا ہے

      Delete
  10. اگر مسلمانوں کی پشت پناہی کے لئیے دنیا میں کوئی ایک بھی مسلمان عالمی طاقت ہوتی تو اسطرح کی اسلام دشمن سائٹس بنانے کی اول تو کسی کو جرائت نہ ہوتی اگر کوئی اس طرح کی حرکت کرتا بھی تو اسے ایسی مسلمان عالمی طاقت اپنے حربوں سے باز رکھنے کی توفیق و طاقت رکھتی اور دنیا بھر کے مسلمان آزادی اظہار رائے کے نام پہ اسلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پہ انگلی اٹھانے والوں کے جواب میں ٹھنڈے پیٹوں خون کے گھونٹ پی کر نہ رہ جاتے بلکہ وہ اپنا جائز مطالبہ تسلیم کرواتے۔ اسکے لئیے مجھ پہ آپ پہ اور ساری دنیا کے تمام مسلمانوں پہ فرض بنتا ہے کہ وہ کوشش کریں مگر پاکستان کی حڈ تک پاکستان میں دانش و علم کا دعواٰی کرنے والوں پہ یہ زیادہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ایسی شمعیں روشن کریں جس سے پوری قوم مستفید ہو اور روشنی پھیلتی چلی جائے۔ ممکن ہے وہ وقت ہمارے بعد آئے مگر ہماری نسلیں ضرور دیکھیں گی۔تو محترم اسلئیے بھی ضروری ہے کہ سبھی کو اپنی اپنی جگہ پہ یہ کوشش متواتر کرتے رہنا چاہئیے کہ ہم بہ حیثیت ایک قوم اور بہ حیثیت مسلمان ایک دن اس دنیا میں باعزت مقام پاسکیں اپنا آپ منوا سکیں تانکہ کسی کو ہمارے مذھب اسلام اور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پہ انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہو ۔ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہار محبت کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ اور جہاں تک اپنی اپنی حد تک کوشش کرنے کا ذکر ہے تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کس نے اس راہ پُر خار پہ کسقدر کھویا ہے ۔کسقدر قربانی دی۔ دلوں کے حال وہ بہتر جانتا ہے۔

    اہل دانش اسلام میں تقلدیت یا جدیدت وغیرہ کی لفظا لفظی کو تقسیم کا ایک حربہ مانتے ہیں جیسے انتہاء پسند مسلمان، اصلاح پسند مسلمان، رُجعت پسندمسلمان،جدت پسندمسلمان،شدت پسند مسلمان، قدامت پسندمسلمان، وغیرہ وغیرہ اصطلاحات کو ماضی میں مسلمانوں پہ تھوپنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ حقیقت یوں ہے کہ مسلمان اپنی فطرت میں نہ انتہاء پسند ہوتا ہے نہ جدت پسند مسلمان ہوتا ہے وہ صرف اور صرف مسلمان ہوتا ہے اور مسلمان کے علاوہ کچھ نہیں۔اسلئیے میرے نذدیل آپ کا میرے بارے میں یہ ارشاد کہ میں تقلید پسند ہوں بے معنی ہے جس کے میرے نزدیک کوئی مفہوم نہیں نکلتے اور اس ارشاد کے بے معنی ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ حتی الوسع میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ذات پہ ہوئے کممنٹس پہ در گزر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔اسلئیے آپ بے فکر رہیں آپ کے اس "تقلید پسند" خطاب سے میری ذات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    خوش رہئیے ۔ وما علینا الاالبلاغ
    جاوید گوندل۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ReplyDelete
  11. محترم جاوید صاحب
    اسلام علیکم
    جواب کا شکریہ ۔ علم کے سوتوں سے میری مراد اپنے آباء کی وہ کتابیں ہیں جو آپ کے نزدیک ہی غیر مسلموں نے محفوظ کر کے رکھی ہیں ۔اور جن کو دیکھ کر اقبال کا دل سی پارہ ہو گیا تھا ۔ بس تحقیق کا ذوق ہونا چاہیے ۔
    اگر غیر مسلموں کو اپنی مشنری سرگرمیاں مسلمان حکومتوں کے اندر جاری رکنے کی آزادی ہے تو مسلمان بھی یورپ اور امریکہ میں اپنے دین کو پھیلا سکتے ہیں اور میرے خیال میں وہاں مسلمان حکومتوں سے زیادہ تحریر و تقریر کی آزادی ہے ۔
    اگر مسلمان حکومتوں کی کوششوں سے مراد آپ اس طرح کی حرکتیں مراد لیتے ہیں جس طرح ترکی کے سلطان نے ایک عیسائی ملک کے ڈپلومیٹ کو اس کے اپنے عمال کی عیسائی رعایا پر ظلم کی شکایت پر بحری جہاز پر سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا تھا تو میرے خیال آج اس طرح کی حرکتوں کی گنجائش شاید نہ ہو ۔
    جدت پسند اور تقلید پسند کی اصطلاحیں آج کی گھڑی ہوئی نہیں بلکہ ان کی جڑیں ہماری اسلامی تاریخ میں گڑی ہوئی ہیں ۔ اور ہمارے فکری انتشار کی مظہر ہیں ۔

    دیبل کا حملہ حجاج بن یوسف کی تزویراتی حکمت علمی کا حصہ تھا ۔ سندھ پر حملہ کا پلان اس سے پہلے بھی خلیفہ کو پیش کیا گیا تھا مگر خلیفہ نے اسے رد کر دیا تھا چنانچہ حجاج نے کچھ عرصہ ٹھہر کر پھر یہی منصوبہ خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ ناکامی کی صورت میں اس مہم پر آنے اخراجات کا دوگنا حصہ وہ خزانے میں جمع کروائے گا ۔ اسی اثنا میں تاجروں کے لٹنے کا واقعہ بھی پیش آیا ۔ سندھ اور بلوچستان پر چھوٹے چھوٹے حملے خلافت حضرت عثمان کے دور سے ہی جاری تھے ۔

    محترم آج کی دنیا میں آپ طاقت سے اپنے دین کو نہیں پھیلا سکتے ۔ میرے خیال میں اسلام کے اندر اتنی حقانیت موجود ہے کہ وہ عقل شعور رکھنے والے انسانوں کو مسخر کر لے بشرطیکہ کوئی قرآن اور اسلام کی عقل و شعور کی باتیں انہیں ان کی زبان میں بتانے کی ہمت کر سکے ۔
    میں نے آپ کو سربازار کھڑا نہیں کیا بلکہ جب کوئی انٹر نیٹ پر اپنا بلاگ بناتا ہے یا اس پر تبصرہ کرتا ہے تو اس کے خیالات اور نظریات خود بخود بحث کے لئے عوامی عدسے کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔
    آپ میرے الفاظ کو ذاتی توہین سمجھنے کی بجائے اگر مثبت معنی میں لیں گے تو ہی اس پوسٹ اور اس پر تبصروں کا مقصد پورا ہو سکے گا دوسری صورت میں میں وہی سمجھوں گا جو بی بی سی بلاگ پر محمد حنیف نے آپ کے بارے میں سمجھا * حالانکہ مجھے اس کے خیالات اور طریقہ کار سے سخت اختلاف ہے ۔*

    ReplyDelete
  12. جاوید صاحب
    ایک بات بھول گیا ، میں آپ سے آپ کی علم دوستی اور تحقیق کے ذوق کی وجہ سے عزت کرتا ہوں اور آپ کو دوست سمجھتا ہوں ۔ بقیہ بحث آپ کے اندر چھپی بے پناہ صلاحیتوں کا ایک ارفع اسلامی مقصد کی خاطر استعمال ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش کا اظہار ہے ۔

    ReplyDelete
  13. صلی اللہ علیہ وسلم،
    میں آج کے دن یہ سوچ رہا ہوں کہ آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان آجائیں تو ہم میں سے کتنے ہوں گے جو انہیں منہ دکھاسکیں گے؟

    ReplyDelete
  14. اسد صاحب، آپ نے پوچھا ہے کہ آکر لوگ رسول اللہ سے متائثر ہونے کے بعد بھی اسلام مین داخل کیوں نہیں ہوتے۔ ایک جواب تو راشد کامران صاحب نے دے دیا، ہدایت من جانب اللہ ہوتی ہے۔ دوسرا جواب ریاض شاہد صاحب نے دیا کہ معاشرت دباءو کی وجہ سے ڈرتے ہیں۔ کچھ اور نکات میرے ذہن میں بھی آتے ہیں۔ کسی شخص کی اخلاقی خوبیوں سے متائثر ہونا اور اسکے پیغام کو تسلمی کر لینا دو مختلف امور ہیں۔ جیسے میں مودودی صاحب کی صلاحیتون سے کافی متائثر ہوں خاص طور پہ جب یہ دیکھتی ہوں کہ وہ محدود تعلیمی قابلیت رکھتے تھے۔ مگر انہوں نے خوب کام کیا لیکن مین انکی جماعت میں شامل نہیں ہوں۔ اور مستقبل قریب میں ایسا کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔ تو شخصی خوبیوں کو تسلیم کرنا بھی وسعت قلب ہی کی بات ہے جبکہ وہ آپکا ہم نظریہ بھی نہ ہو۔
    مسلمانوں کی اکثریت، اپنی عقیدت اور محبت کے دعووں کی وجہ سے انکی شخصیت کی عظمت اور خوبیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

    ReplyDelete
  15. محترم ریاض صاحب!
    ۔ آپ نے اعتراض کرنے سے پہلے پورے جملے پہ غور نہیں کیا۔جہاں تک پاکستان میں اقلیتوں کی مذھب کے بارے آزادی کا تعلق تو یہ آزادی انھیں پاکستانی آئین کے تحت حاصل ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن اپنے کسی عقیدے کو ایک ایسے مسلم ملک میں جہاں چھیانوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور اپنے مذھب کے بارے میں اسکے احساس ہونے کی تاریخی وجوہات ہیں۔ اس ملک میں غیر مسلم عقیدے کو قرآن کریم کی آیات سے انکے معانی کو اپنے انداز میں توڑ مروڑ کر نصرانیت کو بر حق قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو نصرانیت پہ ایمان لانے کی دعوت دینا درست عمل نہیں ۔اس سے فسادِ خلق خدا کا اندیشہ ہوتا ہے۔اور یہ غیر آئینی عمل ہے۔

    آپکے یہ "خیال کہ یوروپ میں مسلمانوں کو مسلمان حکومتوں سے زیادہ تحریر و تقریر کی آزادی ہے۔ " میں اس پہ اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں۔

    دیبل پہ حملے کی سیاسی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں اس پہ بحث نہیں ۔ مگر عرب تاجروں اور انکے جہازوں کو راجہ دیبل کے ہاتھوں لُوٹنے کا واقعہ پیش آیا اور اسکے جواب میں اس وقت کی مسلمان حکومت نے کاروائی کی۔ اسکے علاوہ بھی دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں کسی ریاست نے جائز یا ناجائز اپنے باشندوں کی گرفتاری ، مصیبت یا قتل کا بدلہ لیا اور ایسے اقدام کیے کہ ہما شما مزید اسطرح کے واقعات سے باز رہے ۔ بہتر ہوتا آپ انگریزوں کی کمپنی ایسٹ انڈیا کی مثال دیتے کہ جب مسلمان جنگِ آزادی میں بوجوہ بری طرح ناکام رہے تو انگریزوں نے حسبِ ہمیشہ ہر قسم کی اخلاقیات کو طاقِ نسیاں پہ رکھتے ہوئے زندہ بچ جانے والے مسلمانوں کے گلے میں کتوں کی طرح پٹے ڈال کر لڑائی میں مر جانے والے انگریزوں کا خون چٹوایا۔ شاید اسطرح کی اپنی تاریخ اور خطے کی کوئی مثال دینے سے ہمارے لوگ اس لئیے بھی ڈرتے ہیں کہ اسطرح شاید انھیں روائتی مسلمان نہ سمجھ لیا جائے یا اُن کی رواداری اور جانبداری نہ مشکوک ہوجائے۔جبکہ تاریخ صرف تاریخ ہوتی ہے۔

    سر بازار کھڑا کرنے کی بات ازراہِ تفنن یعنی مذاق کے طور پہ کی تھی۔ اسے اسقدر سنجیدہ مت لیں۔

    آپکی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ بلاگ یا کسی خاص موضوع پہ لکھا گیا کوئی مضمون پہ رائے دینا ، تنقید کرنا عوامی حق ہوتا ہے۔ حالانکہ اولاََ بلاگ ای ذاتی دائری کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ یاد رہے یہ بات ان بلاگز یا سائٹس کے بارے میں لکھ رہا ہوں جن پہ لکھنے کی حدود و شرائط مقرر نہ ہوں اور وہ ممبر شپ کے تحت نہ ہوں۔

    دنیا میں کوئی بھی مذھب یا نظریہ محض حقانیت یا سچائی کی وجہ سے دلوں کو تسخیر نہیں کر سکتا جب تک اسکے بارے میں کوئی ماڈل نہ ہو جو ذاتی کردار سے لیکر ایک ریاست تک مختلف نوعیت میں حسبِ معاملہ ہوسکتا ہے۔ ایسا کوئی ماڈل مسلمانوں میں فی الحال مفقود ہے۔ بہ حیثیت مجموعی نہ مسلمانوں کا فی زمانہ کردار اور نہ ہی کوئی مسلمان ریاست اس طرح کا دعوایٰ کرنے سے قاصر ہے۔



    میں نے آپ کے رویے کی نشاندہی کی تھی جس کا غالبا آپ کو بھی اندازہ نہیں۔جبکہ اس نشاندہی کو آپ نے ناحق طور پہ میری توہین سے منسلک کر دیا۔ دن میں کئی تماشے دیکھتا ہوں اور چپکے سے وہاں سے نکل جاتا ہوں رکنا وہیں مقصود ہوتا ہے جہاں میری توانائی یا وقت سے کسی دوسرے کو کچھ سہولت یا فائدہ ہو، یا میرے علم میں اضافہ ہو اور میرے لئیے کچھ فائدہ مند ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بد قسمتی سے انٹر نیٹ کی دنیا میں بہت سے لوگ بہت مختلف وجوہات کی وجہ سے ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آتے اور جن کی باتوں کا جواب دینا محض وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور میں انکی بے سروپا ذاتیاتی باتوں کو توہین نہیں سمجھتا حالانکہ جن کا مقصد ہی کسی کی اہانت کرنا ہوتا ہے ۔جبکہ میرے نزدیک آپ اُن لوگوں میں شامل ہیں جن سے اختلاف رائے اپنی جگہ مگر میں انکا دلی احترام کرتا ہوں ۔میرے بارے میں لکھے گئے آپ کے الفاظ کو میں ذاتی توہین نہیں سمجھتا ،۔ ایسی کوئی بات نہیں اگر یوں ہوتا، تو اسوقت میں آپ کو مخاطب نہ کر رہا ہوتا۔ چپکے سے کسی اگلے موضوع یا بلاگ کو نکل جاتا۔ میری نظر میں وہ رائے معتبر یا مستند نہیں ہوتی جس پہ بغیر کسی بڑی وجہ کے سب لوگ متفق ہو جائیں۔ اختلاف برائے رحمت ہوتا ہے اور تنقید برائے درستگی ہوتی ہے۔

    ReplyDelete
  16. بی بی سی کے اردو شعبے کے سابق سربراہ محمد حنیف سے میرا سادہ سا سوال تھا کہ آخر وہ کونسی وجہ تھی کہ انہوں نے اسقدر اسلام و پاکستان بیزار دس بلاگ لکھنے کا ارادہ باندھا ۔ تو انکا جواب بھی اسی فورم پہ درجنوں دوسرے افراد کے سوالات کے جوابات کے ساتھ چھپا ہے، جس پہ انھوں نے غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کے امیج کے بارے میں فکر مند ہونا قرار دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ بآرسیلونا میں اردو نہیں پڑھی جاتی اور اسلئیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ، وغیرہ ۔یعنی مجھے ایسا سوال نہیں کرنا چاہئے۔در اصل اس جواب کے پیچھے انکی وہ تلخی چھپی ہوئی تھی جو ایک دوسرے مختلف سوال کی وجہ سے تھا اور وہ سوال کچھ الفاظ کے ہیر پھیر سے اور بھی بہت سے لوگوں نے پوچھا تھا اور ایک سنئیر اڈیٹر کے سوال کے جواب میں اور ایک دوسری جگہ پہ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ ان سے یہ پوچھ کر کہ آیا وہ قادیانی ہیں یا نہیں انھیں گالی دینے کی کوشش کی گئی ہے ، نیز وہ ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان کا عظیم ترین انسان سمجھتے ہیں اور وہ ایسے سوالات کا جواب نہات سوچ سمجھ کر دیتے ہیں (تانکہ ان کے اپنے مافادات پہ آنچ نہ آئے) اور میرا مختصر سا سوال جس کا جواب ہاں یا نہ میں دیا جاسکتا تھا اورجس کی وجہ سے چڑ کر انہوں مندرجہ بالا جواب دیا تھا اور جو بی بی سی کی اردو سائٹ پہ موجود ہوگا اور کوئی بھی قاری اس سے اتفادہ کر سکتا ہے وہ سوال تھا کہ "آیا وہ (محمد حنیف) پاکستان میں جاری قادیانی تحریک سے متاثر ہیں؟" اتنے آسان سے سوال کو موصوف نہائت آسانی سے ہضم کر گئے۔ کیونکہ ہاں کی صورت میں انھیں اقرار کرنا پڑتا جس سے برطانیہ میں اور انکے احباب میں انھیں ایک مختلف صورتحال کا سامنا ہوتا۔ اور نہ کی شکل میں انھیں ذاتی زندگی میں اپنے آدرشوں سے پیچھے ہٹ جانے والا سمجھا جاتا جس کا وہ پرچار کرتے ہیں ۔ یعنی ہر دوصورتوں میں کچھ حقیقتیں عام اور خاص لوگوں پہ واضح ہوتیں اور اس سے بعض اوقات بی بی سی کا عمومی اور اردو سروس کا پاکستان سے مخاصمت کا رویہ بہت سے لوگوں پہ آشکارا ہوتا اور انکی کریڈیبلٹی مشکوک ہوتی اور قارئین کی طرف سے ان شاکی میلز میں مزید اضافہ ہو جاتا،جو پہلے ہی صبح شام بی بی سی کی انگریز انتظامیہ کو اردو سروس کے بارے میں شکایات سے بھرپور ملتی ہیں جس سے اردو سروس سے متعلقہ زمہداران کو "ہتھ ہولا: رکھنے کی تنبیہ جاری ہوتی۔اسلئیے میں یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ وہ کونسا نکتہ جس کے بارے میں آپ نے موصوٖف محمد حنیف کو میرے سوال کے جواب پہ درست پایا ہے۔ ازراہِ کرم! اگر وضاحت فرمادیں تو نوازش ہوگی۔

    آپ نے مجھے دوست کہا ہے۔ جس کے لئیے میں آپکا ممنون ہوں ۔ آپ انشاءاللہ مجھے بھی اپنا دوست پائیں گے۔

    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    نوٹ۔: آخر میں عنیقہ بی بی !سے معذرت ،کہ انکے بلاگ پہ موضوع سے ہٹ کر یہ مکالمہ جاری کیا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ