اگرچہ مشتاق احمد یوسفی کے دوست عبد القدوس کی طرح میں بھی جھیل سیف الملوک کی چڑھائیاں کسی ٹٹو کی پیٹھ پہ چڑھ کر طے کرنے کے بجائے پا پیادہ ہی طے کرنا پسند کروں کہ کسی دوسرے کی غلطی کے بجائے اپنی غلطی سے مرنا بدرجہا بہتر ہے ۔ مگر کبھی کبھی اقبال کے فرمودات پہ بھی عمل کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یعنی اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل۔ لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔
تو ایکدن جبکہ ایک اپائنٹمنٹ پر پہنچنے میں خاصہ کم ٹائم رہ گیا تھا میں نے باقی لوگوں سےفارغ بیٹھے ڈرائیور کو مصروف کرنے کے لئیے گاڑی چلانے کی ذمہ داری اسے دیدی۔ وہ حسب معمول تیز لین میں گاڑی اڑا رہے تھے کہ طارق روڈ کے پل پہ پہنچ کر میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں انہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ ہمیں پل پہ ہمیں الٹے ہاتھ پہ مڑنا ہے تو سگنل پہ دو لائنوں کو کاٹ کر نکلنے سے بہتر ہے کہ درمیانی لائن میں چلا جائے یا پھر پہلی لین میں آجایا جائے۔ جیسے ہی جملے کا فل اسٹاپ آیا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین اسی لمحے آگے پیچھے دیکھے بغیر لین تبدیل کی اورساتھ ہی ایک ہلکی سی ٹکر کی آواز آئ۔ گاڑی رکی اور اب وہ آگے والی گاڑی سے ٹکرا کر کچھ ترچھی حالت میں اس طرح کھڑی تھی کہ دو لینز بلاک ہو گئیں۔ ٹکر اتنی ہلکی تھی کہ بظاہر سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ اور میں نے سوچا کہ دونوں ڈرائیورکچھ منہ ماری کے بعد چل پڑیں گے۔ لیکن سب ٹھیک نہ تھا۔
آگے والی گاڑی کا دروازہ کھلا اس میں سے ڈرائیور نکلا اور آکر ہمارے ڈرائیور کے پاس کھڑا ہو گیا۔ یہ صاحب پہلے ہی اپنا دروازہ کھول کر خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا اس ڈرائیور نے گاڑی میں ہاتھ ڈالا اور اگنیشن میں سے چابی نکال کر قبضے میں کرلی۔ میں نے پیچھے بیٹھے یہ سارا تماشہ دیکھا اور سر پکڑ لیا کہ لاٹھی تو گئ اب بھینس کا کیا ہوگا۔ دونوں ڈرائیورز کے درمیان الزام تراشی جاری تھی۔ لیکن ظاہر سی بات تھی کہ غلطی ہمارے ڈرائیور کی ہی تھی۔ وہ اکثر ایسا ہی کرتا تھا۔ میں نے سوچا اب اسے بھگتنے دو۔
بات اس نکتے پہ پہنچی کہ پانچ ہزار دینا ہونگے۔ اب یہ صاحب منہ پھاڑے کھڑے تھے کہ کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے کس بات کے پانچ ہزار۔ کچھ دنوں پہلے اسے وارننگ دی گئ تھی کہ روڈ پہ بے احتیاطی دکھانے کی صورت میں خرچہ اسکے ذمے ہوگا۔اس موقع پہ آگے والی کار کا دروازہ ایکبار پھر کھلا اور ایک تقریباً ساٹھ پینسٹھ سال کے صاحب تھری پیس سوٹ میں بر آمد ہوئے اور آتے ہی ڈرائیور سے کہنے لگے کہ گاڑی کے کاغذات میرے حوالے کرو ورنہ پانچ ہزار دو۔ اس موقع پہ فلم میں ان خاتون نے اپنی مداخلت ضروری سمجھتے ہوئے مس بنکاک کی طرح اینٹری دینے کی کوشش کی۔ اور وہ گاڑی سے اتر کر آگے والے ڈرائیور کے پاس پہنچیں اور اسکے ہاتھ میں لٹکی چابی پہ زور لگاتے ہوئے کہا۔' فوراً چابی واپس دو ورنہ'۔ اسکے بعد انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کہا 'ورنہ میں قریبی پولیس اسٹیشن پہ جا کر اطلاع کرتی ہوں کہ میری گاڑی چوری کر رہے تھے تم'۔ ڈرائیور اور ان صاحب نے غضبناک ہو کر ان بالشت بھر کی خاتون کو دیکھا۔ 'ہاں چلیں کہاں جانا ہے۔ اب تو بات دس ہزار تک جائیے گی'۔ اپنے تئیں انہوں نے انکو مزید خوفزدہ کربے کی کوشش کی۔ یا اللہ، کیا مصیبت ہے۔ کیسے اس سے جان چھٹے گی۔ پل پر اور اسکے پیچھے تک ٹریفک جام ہوچکا تھا۔ اور مسئلہ حل ہونے کی کوئ صورت نظر نہ آرہی تھی کہ خاتون کے پاس ایک بائک آکر رکی۔ اس پر سے ایک چوبیس پچیس سالہ مضبوط جثّے اور درمیانے قد کے شخص نے چھلانگ لگائ۔ اور قریب پہنچتے ہی ڈرائیور کو چیخ کرحکم دیا کہ چابی ان خاتون کو دو۔ اتنی دیر سے تم سے کہہ رہی ہیں۔ سنتے نہیں ہو تم کیا۔ اتنی دیر سے سارا ٹریفک روک رکھا ہے۔ اسکا تحکمانہ انداز دیکھ کر وہ ابھی شش وپنج ہی میں تھا کہ اس نے ایک تھپڑ اسکو رسید کیا۔ اگلے ہی لمحے چابی میرے ہاتھ میں تھی۔ دوسرا تھپڑ پڑا تو ڈرائیور گاڑی کے اندر۔ سوٹ میں ملبوس صاحب ہکلائے 'یہ کیا ہو رہا اس گاڑی نے میری گاڑی کو ٹکر ماری تھی'۔ 'کچھ نہیں ہوا انکل، اب جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھیں۔ آپکی گاڑی بالکل صحیح ہے۔ روڈ پہ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے '۔ وہ گھگھیائے ہوئے اپنی گاڑی میں جا بیٹھے۔ میرا ڈرائیور اپنی جگہ سنبھال چکا تھا۔ اس غیبی مددگار نے مجھے دیکھا، مسکراتی آنکھوں سے آگے چلنے کا اشارہ کیا اور یہ جا وہ جا۔
کیا دہشت گردی کو دانشوری نہیں، دہشت گردی ہی شکست دے سکتی ہے؟
دہشت گردی؟
ReplyDeleteکس کی؟؟
ٹریفک کے قوانین کے کی خلاف ورزی کی۔
دوسرے کی گاڑی کو ٹکر ماری ۔
پاکستانی معاشرے میں روائتی طور پہ کمزور اور مظلوم خاتون کا کردار ادا کیا کہ عام دیکھنے والے کو اصل حقائق الٹ نظر آئیں ، اور جس کے نتیجے میں ۔
زرتلافی کی بجائے بے قصوروں کو تھپڑ مروایا ۔
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موقعہ واردات سے بھاگ لئیے۔
عام عوام کو پاکستانی معاشرے کے روز مرہ کے عام سے واقعے کو بنیاد بنا کر دہشت گردی قرار دیا ۔
عام سے جھگڑے میں قصوروار ہونے کے باوجود دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کی غلط ترغیب دی۔
اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ ):
): ): ) :) :): ):
:( :(
ہمیں بھی دوستوں نے یہی بتایا تھا کہ کبھی گاڑی سے کوئی حادثہ یا غلطی ہو تو مقابل کے سامنے کوئی بھی موقف کمزور نہ پڑنے دو اور بات کرنے میں بلکہ چڑھ دوڑنے میں پہل کرو۔ افسوس ہم سے آج تک نہ ہو سکا۔ اور اب جہاں ہوں وہاں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ReplyDeleteہمیں تو گاڑی ہی چلانی نہیں آتی نئی نئی موٹر سائیکل چلانی سیکھی تھی کے ایک بابے کو دے ماری ماما جی سے سوری کی تو انھوں نے بس اتنا ہی کہا سوری کے بچے اور خاموش ہو گے
ReplyDeleteایم کیو ایم کے مدد گار ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ReplyDeleteمیں ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنے سرتاج سے پاکستان کی صورت حال کے بارے میں بات کر رہی تھی کہ ہمارا ملک کیسے ٹھیک ہو گا ہم کیسے اپنے ملک میں قانون نافذ کریں گے۔ اور کیسے لوگ عمل پیرا ہوں گے۔ کیسے سب سے بڑا آفسر لائن میں لگے گا ۔کیسے غریب کو انصاف ملے گا ۔ کیونکہ ابھی تک تو کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
ReplyDeleteاور پھر ہمیشہ کی طرح سیارہ پر بلاگ دیکھنے لگی سب سے پہلی پوسٹ ہی ایسی تھی کہ روک گی ۔بات صرف اتنی ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ہم بہت جذباتی لوگ ہیں پہلے غلط کرتے ہیں پھر سوچتے ہیں
ماشاٗاللہ میری دعائیں رنگ لارہی ہیں
ReplyDeleteآپ کو الطاف انکل کی جانشینی کے لئے سنبھال کر رکھا جارہا ہے۔۔۔
چلیں اس کو چھوڑیں
دانشورانہ دہشت گردی بھی تو ہوتی ہے ایک
اس کا مقابلہ کیسے کرنا چاہئے۔۔۔۔
جاوید صاحب، تو آپکا خیال ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے کسی کی گاڑی کسی دوسری گاڑی کے بمپر سے جا ٹکرائے جسکے نتیجے میں دونوں میں سے کسی گاڑی کو ذرہ برابر نقصان نہ پہنچے تو اسکے نتیجے میں گاڑی کی چابی اپنے قبضے میں کرنا اور پھر پانچ ہزار روپےہرجانے کا دعویدار بن جانا ایک بالکل صحیح طرز عمل ہے۔ کس قانون کے تحت ان صاحب کو یہ حق حاصل ہوا کہ میری گاڑی کی چابی اپنے ہاتھ میں کرتے۔ ایسا ہونے کی ایک وجہ مد مقابل ایک خاتون اور انکا بے وقوف ڈرائیور ہونا بھی ہے۔۔یہ پوسٹ اسی مقصد کے لئیے لکھی گئ ہے۔ روڈ پہ پیش آنیوالا کراچی کی حد تک ایک بیحد معمولی واقعہ اور اس پہ آپ سب کے تائثرات۔
ReplyDeleteاچھا تو موقع سے بھاگا کون۔ سب ہی موقع پہ موجود رہے حتی کہ وہ صاحب نازل ہو گئے۔ ارد گرد گاڑیوں کا ایک ہجوم جمع ہو رہا تھا اور ان میں سے کسی نے آگے بڑھ کر معاملہ کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔
اب دیکھیں، کون اس مسئلے کا صحیح حل پیش کرتا ہے۔
ابن سعید صاحب، اس واقعے سے میں نے بھی یہی سیکھا۔
تانیہ رحمان، جی ہاں قانون کسی کو یاد نہیں آتا اور نہ اسے کوئ استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ سارا ہنر اس میں ہے کہ موقع سے جتنا فائدہ اٹھالیا جائے اتنا بہتر ہے۔ اور اگر کوئ دب رہا ہے تو اسے اور دبایا جائے۔
جعفر، مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئ کہ آپ اپنا قیمتی وقت پاکستان کی کسی خاتون پہ تو خرچ کر رہے ہیں۔ اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپکی دعاءووں میں میری حد تک تو اثر ہے۔ لیک الطاف حسین کی جانشینی کا فیصلہ آپ تو نہیں کریں گے۔ پھر آپ نے سنبھالنے کی بات کیوں کی۔ لکھتے وقت ہوش و حواس مجتمع رکھا کریں۔ میں نے اسے چھوڑا نہیں پکڑا ہوا ہے۔
کیوں درہ آدم خیل والے اس سلسلے میں مدد نہیں کرتے۔
دانشوارانہ دہشت گردی کا مقابلہ اسی طرح کرنا چاہئیے جیسے میں کرتی ہوں۔
;)
اگر آپکو یہ طریقہ پسند نہیں تو ماضی سے رابطہ کریں۔ اقبال کو دیکھیں، حبیب جالب اور جوش ملیح آبادی سے فائدہ اٹھائیں، ایک دفعہ آپ نے وولٹئیر کا تذکرہ کیا تھا۔ انہوں نے تو فرانس کی بنیادیں ہلا دی تھی انکی سوانح پڑھیں۔ افاقہ ہوگا۔ میں بھی آپ سے مشورے لیا کروں گی۔ سچّی۔
خاور صاحب، آپکا تبصرہ نہ ہوتا تو میری توقع اور اندازہ پورے نہ ہوتے کہ کچھ تبصرے یوں ضرور آئیں گے۔ یہ میرے اندزے اتنے زیادہ صحیح کیوں ثابت ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو اندازہ لگاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ "غیبی مدد" ۔
ReplyDeleteجعفر الطاف بھائی کی جانشینی کی بات نہ کرو، ہمیں ابھی عنیقہ صاحبہ کو بہترین بلاگ کا ایوارڈ دلوانا ہے، کیوں ان کی جان کے پیچھے پڑے ہو؟ اگر الطاف بھائی کو بھنک بھی پڑ گئی کہ ان کا کوئی جانشیں میدان میں آ گیا ہے (یا آ گئی ہے) تو اس کی زندگی کا تو وہی آخری دن ہو جانا ہے۔
ویسے عنیقہ صاحبہ کی اس تحریر سے میں بہت کچھ سمجھ گیا۔ مذہبی شدت پسندی اور لبرل شدت پسندی دونوں کا مطلب انتہائی واضح ہے۔
ابو شامل، ایک ایسی مدد جس کے لئیے میں نے کسی کا فون نہیں کھڑکایا۔ نہ تماشبینوں سے درخواست کی اور جس میں، میں نے اپنی طرف سے ہونیوالی غلطی کی وضاحت بھی کر دی۔ وہ غیبی نہیں تو کیا ہے۔ جبکہ ہم سب بحیثیت مسلمان اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئ شے حاصل کرنے کے لئیے ہم کوئ جد وجہد نہ کریں تو وہ نعمت خداوندی ہی ہوتی ہے۔ میں آج دو سال گذرنے کے بعد بھی اس شخص کا چہرہ نہیں بھول سکتی۔ اور ان صاحب کی رعونت جو انہوں نے گاڑی سے اترتے ہی ظاہر کی تھی۔ اور پھر انکا آخری تائثر جسے لئے ہوئے وہ گاڑی میں جا بیٹھے۔
ReplyDeleteپھر آجکی بات کہ یہ اپنے طور پہ یہ فرض کر لیا کہ وہ ایم کیو ایم کا کوئ بندہ ہوگا۔ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر ایم کیو ایم سے اس شہر کے لوگوں کو کیا شکایت اور آپکو کیوں حیرانی کہ لوگ انکے پیچھے جاتے ہیں۔
بر سبیل تذکرہ، میں کسی ایوراڈ کی دوڑ میں شامل نہیں۔ میں نے منظر نامہ والون کو اس چیز کے لئیے منع کر دیا تھا کہ وہ مجھے اس میں شامل رکھیں اور نہ ہی یہ میرا مقصد ہے۔ میں شہرت کے سوالیوں میں سے نہیں ہوں۔ اور میں کوشش کرونگی کہ اسے اپنے آپ سے دور رکھوں۔ لیکن میں ایک چیز جانتی ہوں کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور اسکا حق یہ ہے کہ اسے زندہ رہ کر گذارا جائے۔ آپ میں سے جو اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ وہ کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو اسکا موقع ابھی کا ہے۔ کل کی کس کو خبر، کل ہو یا نہ ہو۔ جو سمجھتا ہے کہ اس میں کوئ اہلیت نہیں تو اسے سب سے پہلے اپنے آپکو کھوجنا چاہئیے۔ یہ نا ممکن ہے کہ آپ میں کچھ نہ ہو۔
جب زندگی ایک ہی بار ملتی ہے تو اسے میں اپنی آزدی سے جینا چاہونگی۔ میں کیوں کسی ایوارڈ کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ اٹھا لوں۔
سوال وہیں پہ ہے کیا دہشت گردی کو دانشوری شکست دے سکتی ہے یا اسکا مقابلہ صرف دہشت گردی ہی کر سکتی ہے۔
میں نے آپ کو ملنے والی غیبی مدد کو ہر گز کسی سے منسوب نہیں کیا۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے ک آپ کسی بڑی مصیبت میں پھنسے ہوتے ہیں اور آپ کی مدد ایک ایسے رستے سے ہو جاتی ہے جس کی طرف آپ کا دھیان بھی نہیں جاتا۔ آپ کا کہنا درست ہے کہ اسے غیبی مدد ہی کہا جائے گا۔
ReplyDeleteدوسری بات آپ چاہیں یا نہ چاہیں میری خواہش ہے کہ اچھے بلاگرز منظرنامہ ایوارڈ حاصل کریں۔ اور آپ کے بلاگ کو میں اردو کے بہترین بلاگز میں سے ایک سمجھتا ہوں۔
آپ کے سوال کا یک سطری جواب کہ دہشت گردی کو دہشت گردی سے شکست نہیں دی جا سکتی۔
ایم کیو ایم کے دہشت گرد اور کراچی میں طاقتور ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹنےوالوں کی آنکھیں آج بھی بند ہیں اور انہیں یہ نظر نہیں آرہا کہ ان کے تمام تر دعووں کے باوجوداسے اپنے 26 لاپتہ کارکنوں کا مقدمہ درج کروانے کے لیئے بھی 2010 تک انتظارکرنا پڑا!
ReplyDeleteاور اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم نامی جماعت سے کسقدر خوفزدہ ہے کہ آج بھی اس کے کارکنوں سازشوں میں ملوث کیا جارہا ہے اور اسے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ٹکرانےکی سازشیں تیار کی جارہی ہیں جس کا اعتراف خود پیپلز پارٹی کے لیڈر نے کیا!
یہ سازشیں تیار کرنے والے ہی اس ملک اور اسکی عوام کے اصل دشمن ہیں!
مجھ پر بھی حملہ ہوگا اور الزام ایم کیو ایم پر آئے گا،نبیل گبول
http://ejang.jang.com.pk/2-10-2010/pic.asp?picname=1412.gif
معلوم نہیں کہ اس طرح کی غیبی امداد صرف خواتین کو ہی کیوں موصول ہوتی ہیں؟ رہای بات آپ کے سوال کی تو دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے صرف شدت پسند دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ہی موقف ہوتا ہے:
ReplyDeletewe will fight terror with terror
معتدل مزاج لوگ دہشت گردی کو ایک بیماری سمجھتے ہوئے اس سے ہر ممکن طریقہ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور اس بچنے بچانے میں خود بھی کسی دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں،یہ ہے پڑھا لکھا اور معتدل مزاج ہونے کی سزا،
ReplyDeleteجہاں جنگل کا قانون رائج ہو وہاں انسانیت اور شرافت صرف حماقت نظر آتی ہے اور ہم پھر بھی یہ حماقت کرتے رہتے ہیں،کیا کریں شریف جو ٹہرے :(
اسد صاحب،غیبی امداد مردوں کی اکثریت کو ملتی ہے مگر وہ اسے اپنی قدرتی ذہانت اور محنت پہ محمول کرتے ہیں۔ کیا بے نظیر کا مرنا ایک غیبی امداد نہیں۔ اور صرف ایک مرد کے لئیے نہیں، کئ مردوں کے لئیے ہے۔ مردوں کو میسر غیبی امداد کی ایک لمبی فہرست ہے جسے وہ اپنی صلاحیتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔۔ میں کسی فارغ وقت میں اسے تحریر کرونگی۔
ReplyDeleteآپکی معتدل مزاج والی بات پہ ایک سوال اور سر اٹھاتا ہے کہ کیا معتدل مزاج ہونا انسان کی اصل فطرت ہے یا اس نے اسے اپنے اوپر طاری کیا ہے تاکہ ایک مہذب اور متوازن معاشرہ قیام میں آسکے۔
جی عبداللہ، اسی لئیے اس سوال کی اہمیت ہے ۔ میں اس پہ تفصیل سے پھر کسی وقت لکھونگی۔ فی الحال تو یہ پیش آنیوالا ایک واقعہ ہے۔ اگر اس میں سے کچھ نتائج نکالنے ہوں تو اسکے توڑ کر کچھ حصے کرنے پڑین گے اور پورے واقعے کا معاشرتی نفسیات کو سامنے رکھ کر جائزہ لینا پڑیگا۔ ورنہ پھر ایسا سطحی سا نتیجہ نکل آئیگا کہ چوری اور سینہ زوری۔ انفرادی روئیے ہی اجتماعی رویوں کو جنم دیتے ہیں۔
آپ نے جو واقعہ تحریر کیا اور بعد میں بے نظیر کی مثال دی اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور ہٹ دھرمی کا دوسرا نام غیبی امداد ہے۔ چلیں اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ بدمعاشی دراصل غیبی امداد ہے تو بھی یہ خواتین کو بلا امتیاز رنگ و نسل ہمہ وقت مہیا رہتی ہے۔ طارق روڈ پر کبھی ٹریفک کے علاوہ بھی کوئی حادثہ پیش آئے تب بھی اس طرح کی امداد مل سکتی ہے۔ لیکن مردوں کی غیبی مدد کرنے والے پہلے ان کے لہجہ، شکل و صورت کو جانچتے ہیں اور پھر مدد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گر وہ ان کا ہم زبان ہوا تو ٹھیک ورنہ تماشائی بنے رہتے ہیں۔
ReplyDeleteرہی بات عبداللہ صاحب کی تو عرض ہے کہ برائی کا مقابلہ کرنے کے دس طریقہ ہوتے ہیں۔ گر انفرادی سطح پر بات کی جائے تو ضروری نہیں کہ گالیوں کا جواب گالیوں سے دیں۔ آپ کا یہ شیوا ہو تو ہو، لیکن برائے کے بدلہ برائی کرنے کا درس کوئی دانشور نہیں دیتا۔
انسانی فطرت کی تخلیق میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کسی کے لیے ایک شخص معتدل ہو تو دوسرے کے لیے نہ ہو۔ اس چیز کو موجودہ گلوبلائزیشن کے ماحول میں سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ ورنہ شدت پسندی کا مقابلہ شدت پسندی سے کرنے سے ہم دانشوروں کو بھی کھو دیں گے۔
محمد اسد اب میں کیا کہوں سوائے اس کے کہ
ReplyDeleteآپ ہی اپنی اداؤں پے ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریںگےتوشکایتہوگی
میریایک سادہسیبات میں سے کس طرح آپنے طنز کا پہلو نکالاحالانکہ اگر یہی بات میرے علاوہ کوئی اور کہتا تو شائدآپ سنجیدگی سے ان عوامل پر غور کرتے جو ایک مہذب شخص کو دہشت گردی پر مجبور کرتے ہیں مگراے بسائے آرزو کہ خاک شد:(
دو لینوں کو کاٹ کر نکلنے سے بہتر ہے کہ درمیانی لین پہ چلا جائے۔
ReplyDelete۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرائیور کی بے احتیاطی اور ٹریفک کے مستند اصولوں سے اس کی روگردانی نے بیچ سڑک کے ایک مسئلہ پیدا کردیا۔ آپ نے لکھا دوسروں نے پڑھا بات گئی ایم کیو ایم تک ، پھر دہشت گردی اور دانشوری میں بھی تقابل ہوا۔
اللہ اللہ ۔۔۔۔۔ہم بھی کیا لوگ ہیں۔ بدکنے میں ہمارا جواب نہیں کہ کہاں سے چل کر کہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
قوانین ، اصول اور قواعد و ضوابط ۔۔۔۔جی ہاں ایک بنیاد تو ہے نا ہمارے پاس کہ ہم مسائل سے بچ سکیں یا ان کا اچھے طریقہ سے سامنا کر سکیں۔ اور ہم ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیں اس وقت یاد آتا ہے کہ جب ہماری اپنی گردن میں رسا ڈل رہا ہو بصورت دیگر یہ سب کتابی باتیں۔
ہاں ایک کتاب ایسی بھی ہے کہ جس کے شارح جس نے ہم انسانوں کو یہی بتایا کہ جو مشورہ آپ نے ڈرائیور کو اس وقت دیا کہ جب وہ ایک انتہا پہ تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اس نصیحت کو ہی انتہا سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے آج کی زندگی کے مطابق قابل عمل نہیں سمجھتے لیکن جب عملی زندگی میں اس روگردانی کے نتیجے میں کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو یا تو پھر سامنے والے طاقتور کو اپنی زندگی کی گاڑی کی چابی تھما دیتے ہیں یا پھر کسی "غیبی امداد" کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں۔ پھر اس شارع زیست کے لوگ اپنی گاڑیوں کو رواں رکھنے کے لئیے ہماری چابی تو ہمیں واپس دلوا دیتے ہیں لیکن اس سارے عمل کے بعد ہم لوگ اس مخمصے میں ضرور الجھ جاتے ہیں کہ دہشت گرد کون ہے اور نجات دہندہ کون؟۔
اب ہم کیا کہیں کہ آپ کی گاڑی کی چابی چھیننے والے دہشت گرد تھے یا واپس دلوانے والے یا آپ کا ڈرائیور کہ جس نے قواعد ، و ضوابط کے ساتھ ساتھ دور اندیشی سے بھی صرف نظر کیا۔ آپ کی یہ تحریر ایک معمہ ہے جو سمجھنا نا ممکن نہیں اور سمجھنے والوں کے لئیے فکر ، سوچ اور دانش کے در کھولنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔
ساجد، آپ نے بہت دلچسپ اور حقیقی تبصرہ کیا ہے۔ بلکہ تجزیہ کیا ہے۔ زندگی میں بعض دفعہ کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جو کہ دیکھنے میں بالکل معمولی لگتے ہیں اور ان میں شامل لوگوں میں سے بیشتر اسے بھول بھی جاتے ہیں لیکن یہ کسی کی کئ الجھنوں کی سلجھا دیتا ہے اور کسی کسی لمحے بیشمار تبدیلیوں کا باعث بن جاتا ہے۔
ReplyDeleteاسد۔، مجھے آپکی اس دوسری بات سے بھی اتفاق نہیں۔ کہ مرد ایکدوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں کافی مثالیں دی جا سکتی ہیں، ابھی موڈ نہیں ہے۔ ایک میں نے لکھا اور پوسٹ ہونے کے بجائے غائب ہو گیا۔ دوباری ٹائپ نہیں کرنا چاہ رہی۔
خواتین کو اکثر اوقات مرد حضرات اپنا تعاون فراہم کرتے ہیں اسکی وجہ بنیادی طور پہ یہ ہوتی ہے کہ
صرف اسی شوق میں کی تجھ سے ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
لیکن اس طرح کے تعاون ایک درد سری سے کم نہیں ہوتے۔ اور انسان ایک مصیبت سے نکل کر دوسری میں پھنس جاتا ہے۔ لیکن اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ غیبی امداد اور میرے درمیان مکالمے کی نوبت نہیں آئ۔ اصل مسئلہ جیسا کہ ساجد صاحب نے کہا کہ ٹریفک کی روانی رکے رہنے کا تھا۔ معلوم نہیں آپکو کبھی کراچی کے ٹریفک جام میں پھنسنے کا اتفاق ہوا یا نہیں۔ خاص طور پہ اگر یہ پل کی چڑھائ پہ رک جائے تو روح قبض ہونے لگتی ہے۔ اکثر ٹریفک جام کے دوران اس طرح کے رضاکار کہیں سے برامد ہو کر الجھی ہوئ گاڑیوں کا سلجھاتے ہیں تاکہ انکا مسئلہ بھی حل ہو۔ کراچی میں اب بھی مرد ڈرائیورز خواتین سے کہیں زیادہ ہیں۔ تو اس طرح یہ غیبی امداد مردوں کو بھی حاصل ہوتی ہے۔
جی انیقہ رضاکاروں کی آپ نے خوب کہی، پچھلے دو تین سال سے خصوصاً رمضان میں کراچی کی سٹی گورنمنٹ کے رضا کار جس خوبی سے کراچی کا ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں کہ دل سے ان کے لیئے دعائیں نکلتی ہیں،پہلے تو بے چارے اپنے گھر کے کپڑوں میں ایک چھڑی ہاتھ میں لے کر ٹریفک کنٹرول کرتے تھے مگر اب انکا یونیفارم بھی ہےاور مزے دار بات یہ ہے کہ کراچی کے عوام ان کی ہدایات کو بخوشی فالو بھی کرتے ہیں ظاہر ہے اس میں ان کا اپنا ہی فائدہ ہوتا ہے کہ آرام سے اور وقت سے گھر پہنچتے ہیں،ویسے اس سال تو آئی اون کراچی والے کراچی آئیٹس کو بھی سڑکوں پر یہ کام رضا کارانہ طور پر کرتے دیکھا پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے شہریوں کی خدمت کرتے دیکھ کر دل کتنا خوش ہوا ناقابل بیان ہے!
ReplyDeleteدہشت گردی کا تو نام سنتے ہی عجیب عجیب خیال وسوسہ پیدا کرتے ہیں ۔ اگر اسے دھونس ، زبردستی یا پھر سینہ زوری کا نام دیتیں تو کچھ کہنے کی جسارت کرتا ۔ میری تحریر علم سے عالم یا عمل سے مسلمان پر عبداللہ صاحب کے اس تبصرہ سے مجھے خیال ہوا کہ غلطی سے دہشت گردی کی کہیں حمایت تو نہیں ہوگئی مجھ سے نا دانستہ مگر شکر ہے یہاں بات کچھ اور تھی میرے ساتھ بھی ایک دو ایسے ہی واقعات تریفکی دہشت گردی کے پیش آ چکے ہیں کبھی اس پر بھی ضرور لکھوں گا
ReplyDeleteAbdullah said...
ویسے مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اپنی اس پوسٹ میں انیقہ کے سوال کیا دہشت گردی کو دانشوری نہیں دہشت گردی ہی شکست ے سکتی ہے؟ پر بھی خاصی روشنی ڈالی ہے :)
مجبوری ہے کہ ہر بندہ اپنی اصل زبان میں ہی بات کو سمجھتا ہے :)
ReplyDelete