تازہ ترین احکامات کے مطابق کراچی میں رینجرز کو پولیس کے اختیارات دے دئیے گئے ہیں۔ اس سے قبل انیس سو چھیاسی سے لیکر نوے کی دہائ تک کراچی میں رینجرز کا راج رہا۔ اور انہوں نے اس سونے کی چڑیا سے خوب کمایا۔ اس وقت کراچی کا ہر نوجوان ایم کیو ایم کا غنڈہ تھا۔ جسکے ساتھ رینجرز جو دل چاہے سلوک کرتی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت کراچی کے نوجوانوں کو یہ کرنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔ اس عرصے میں رینجرز کے اختیارات اتنے زیادہ تھے کہ وہ جسکو چاہتے پکڑ کر لیجاتے۔ اور عام لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ پولیس تو ایک دو ہزار میں مک مکا کرتی ہے۔ رینجرز کے پاس جانے کا مطلب بیس پچیس ہزار سے کم نہیں ہوتا۔
انہی وقتوں میں مجھے یاد ہے ایک دفعہ ڈبل سواری پہ پابندی ہٹائ گئ تو ٹی وی پہ یہ اعلان سننے کے بعد میرا ایک انیس بیس سالہ رشتےدارلڑکا موٹر سائیکل پہ اپنے دوست کے ساتھ نکل گیا۔ رینجرز والوں نے اسکا پیچھا کیا، اور پکڑ کر بیچ روڈ پہ اتنا مارا کہ اسکی کلائ کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ اور بیہوشی کی حالت میں وہیں پھینک کر آگے روانہ ہوگئے۔ اسکا دوسرا ساتھی موقع سے فرار ہوا اور تب گھر والوں کو اسکی زبانی اطلاع ملی۔
ایسا اگر مقبوضہ کشمیر میں ہوتا تو تمام پاکستانی لیڈران مذمتی بیانات جاری کرتے۔ کیونکہ وہ انکے مسلمان بھائ ہیں۔ قصور ان مسلمان بھائیوں کا یہ تھا کہ رینجرز والوں کو اس حکم کی کاپی نہیں ملی تھی۔ یہ تو ایک معمولی سا قصہ ہے۔ جانے کتنے نوجوانوں کو روندا گیا کہ اب ان جوانوں کو ہتھیار اٹھاتے کوئ افسوس نہیں ہوتا۔ اور اب اس حکم کے بعد مزید کتنوں کی باری آتی ہے۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے جیو پہ حامد میر کا پروگرام دیکھا۔ جس میں ایم کیو ایم کے حیدر رضوی، پی پی کے نبیل گبول اور اے این پی کے شاہی سید صاحب سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ نبیل گبول صاحب نے اپنے جیالے انداز میں ایک نہایت'کارآمد' تجویز پیش کی کہ کراچی کے سب منتخب ممبرز کو اپنے علاقوں کا ذمہ لینا چاہئیے۔ اور میں لیاری اور ملیر کا ذمہ لیتا ہوں کہ وہاں ایسا نہیں ہوگا۔
میرے ایک جاننے والے کو نبیل گبول صاحب کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہوئے بیس دن پہلے مار دیا گیا۔ وہ صاحب اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ دوران سفر انکے علاقے کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے مسجد سے نکلے تو چار افراد انہیں پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور شام کو ایدھی والوں کا فون آیا کہ آکر لاش پہچان لیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹرز کے حلقوں کو کچھ نہیں دیا سوائے مجرمانہ سرگرمیوں کی پشت پناہی کے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوسرے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ ہتھیار ہاتھ میں اٹھائیں۔ اور آج بھی وہ اپنی داداگیری میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے راول پنڈی میں مرنیوالی بے نظیر کا بدلہ کراچی کو جلا کر لیا۔ اس سارے واقعے میں کراچی والوں کا کیا قصور تھا۔ اور کیوں اس وقت پکڑے جانیوالے ملزمان چھوڑ دئیے گئے۔ اس وقت نبیل گبول یا انکی پارٹی نے اپنے علاقے کا ذمہ نہیں لیا تھا۔ یا شاید زرداری صاحب پاکستان کھپے کا نعرہ تخلیق کرنے کے مراحل میں تھے۔
وہ لوگ جو ایم کیو ایم کے وجود پہ ناک منہ چڑاتے ہوئے اہل کراچی پہ پھٹکاریں بھیجتے ہیں کہ وہ انہیں کیوں سپورٹ کرتے ہیں کیا انہیں اب بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اپنے ہاتھوں میں ہتھیار کیوں اٹھاتے ہیں۔
کل رات کو ساڑھے نو بجے جب میں شہر کی سڑک سے گذر رہی تھی تو اس مصروف ترین سڑک پہ پھیلے ہوئے سناٹے اور اندھیرے کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ جیسے آپکے دوست ہوں آپ بھی ویسے ہی ہوجاتے ہیں یا جیسے آپکے دشمن ہوں ویسا ہی بننا پڑتا ہے۔ کیا اس شہر کے رہنے والوں کو مجبور کر کے اپنا جیسا بنانے کی سازشیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ کیا ہمیں بھی اب ہتھیار کی بالادستی کو مان لینا چاہئیے۔
میرے آگے ایک ٹھیلے پہ کینو سنبھالتا ہوا ایک مایوس پٹھان جا رہا تھا ۔ عام دنوں میں وہ شاید رات بارہ بجے تک کھڑا رہتا لیکن اس وقت ایسا ممکن نہیں تھا۔ کچھ پٹھان بھی تو مارے گئے ہیں۔ اسلحے کی سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئ نہیں بچتا۔
کراچی میں ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ کی عدالتی تفتیش ہونی چاہئیے۔ نہ صرف یہ بلکہ عدالت کو ازخود اس بات کا نوٹس لینا چاہئیے کہ یوم عاشور پہ آگ لگانے والے لوگ کون تھے۔ جبکہ ایک بڑی تعداد عینی شایدین کی یہ کہتی ہے کہ لوٹ مار کرنیوالے لیاری سے تعلق رکھتے تھے۔ رینجرز کو یہ اختیار دینے کا مطلب ایک اور مکروہ تاریخ لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حوالہ؛
اور اگلا قدم فوج کو بلانے کا ہوگا اور پھر امن و امن کے متعلق سارے معاملات فوج کے حوالے کر کے یہ سمجھ کر کہ فوج ایک امرت دھارا ہے یہ جانے اور کراچی جانے، ہمارے لیڈران کرام اپنے پسندیدہ کھییل میں مصروف ہو جائیں گے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج اور قوم کی بدقسمتی ہوگی ۔ پولیس کا وہ تھانیدار ہو اپنے علاقے میں پر مارنے والی چڑیا تک سے واقف ہوتا ہے اس کو استعمال کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے ، .
ReplyDeleteکمی قوت کی بجائے عزم کی ہے
The fault, dear Brutus,
lies not in our stars,
but in ourselves
“if we are underlings.
"Shakespeare"
مجھے يہ تو نہيں پتہ کہ ايسا کون اور کيوں کر رہا ہے اور اتنی جانوں سے کھيلنے کا کسی کو آخر کيا فائدہ ملتا ہے پر ميری ہمدردی کراچی کے عام لوگوں کے ساتھ ہے ميں سمجھ سکتی ہوں عام عوام خود کو ايکبار پھر کتنا غير محفوظ محسوس کر رہے ہوں گے
ReplyDeleteمگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ زرداری کے صدر بننے کی سب سے پہلے حمایت بھی الطاف بھائی نے ہی کی تھی "کہ صدارت کی کرسی کے لئے اس سے بہتر آدمی میدان میں کوئی ہے ہی نہیں"۔۔ ۔
ReplyDeleteاور بیچارا ٹھیلے والا پٹھان اس لئے مایوس ہو کر جا رہا تھا کیوں کہ کچھ پٹھان نہیں زیادہ تر پٹھان ہی مرے ہیں۔۔ ۔
سگے بھائی بھی جانی دشمن بن جاتے ہیں جائداد کے جھگڑے پر
ReplyDeleteاور جہاں جائداد بھی کھربوں کی ہو تو وہاں تو قبضے کے لئے سب کچھ جائز ہوتا ہے
وہی بات جنگ اور محبت والی۔۔۔
ویسے یہ انگریز بھی بڑی سیانی قوم ہے، کیا کہہ گیا ہے ان کا ایک سیانا کہ
who live by the sword, die by the sword
یہ ہے شوخئی تھریر
ReplyDeleteمیں اس وقت جب کراچی میں رینجر راج تھا تقریبا٘ سارا کراچی گھوما کرتا تھا
کرفیو میں رات کے گیارہ بارہ بجے گھر آتا تھا اور وہ بھی شاہ فیصل کالونی
اب تفصیل میں جاوں گا تو شاید ایک اور اخبار بن جاءے گا ، رینجرز کو مجبور کیا گیا ، کیونکہ اس میں زیادہ تر پنجابی اور پٹھان تھے ۔ ۔
بس اور کیا کہوں ، کوءی کتنی بھی تاویلیں پیش کرے مگر جو آنکھوں دیکھا ہے اور خود پر بیتا ھے اس سے انکار ممکن نہیں
بی بی!
ReplyDeleteاس وقت میں حقائق کی تفضیلات بیان نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی اس تحریر پہ صرف اتنا کہوں گا کہ یہ "یکطرفہ تحریر"۔ ہمیں آپ سے اسے بہتر منصفانہ الفاظ کی امید تھی۔ آپ نے غالباََ ایم کیو ایم سے اپنی ہمدردی کا حق بناھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یوں ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات کو معتبر جانا جائے، آپ کے الفاظ سننے کے لئیے منتظر ہوں، آپ کی رائے جاننے کا بے تابی سے انتظار کریں ۔ تو اس کے لئیے پہلا عمل ذاتی ہمدردیوں سے سے بلند ہو کر عقلِ سلیم اور دلِ معصوم سے منصفانہ تجزئیہ کرنا ہوتا ہے۔
ریڑھی والے بے چارے پٹھان کا تذکرہ تو آپ نے تو از راہ تذکرہ کر دیا ہے۔ دراصل آپ کہنا یہ چاہتی ہیں کہ کراچی کو "انھی" لوگوں کے رحم کرم پہ رہنے دیا جائے جو محض مالی اور سیاسی مفادات کے لئیے انسانی جانوں کا چڑھاوا دینا نہ صرف درست بلکہ اسے ایک عام سیاسی حربہ جیسے ووٹ کاسٹ کرنا یا کسی کو اپنی حمایت میں تحریر تقریر سے قائل کرنے جیسا عام سا طریقہ ہو۔
آپ نے محض لسانی جذبات میں آکرہتیار اٹھانے کی بات لکھ کر ہمیں سخت مایوس کیا ہے اور مکھیوں کو توپوں سے شکار کرنے کی سنہری تجویز دی ہے۔
بی بی! جب ہتیار اٹھتے ہیں تو پھر شر اور خیر کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ اور ان سے چلنے والی گولی کو پنجابی یا بلوچی، سندھی یا مکرانی ،اردو یا پشتو بولنے والے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ۔
بی بی!
ماضی کی کئی بڑی بڑی شر انگیز تہذیبوں اور وحشی معاشروں کو اہل علم اور اہل فہم نے یکسر بدل کر رکھ دیا اور آج وہ تہذیبیں دنیا کے لئیے نظیر ہیں۔ ایسے میں کراچی کے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کی سوچ گلی محلے کے دادا گیری کرنے والے جیسوں کی ہو تو پھر کراچی کے لئیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔اور یہ سوچ بھی محض لسانی فرق کی وجہ سے ہو ۔
جب بستی کے کچے گھر جلتے ہیں تو پکی حویلیاں بھی راکھ ہو جاتی ہیں۔
۔۔۔۔کو معتبر جانا جائے، آپ کے الفاظ سننے کے لئیے منتظر ہوں، ۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔کو معتبر جانا جائے،لوگ آپ کے الفاظ سننے کے لئیے منتظر ہوں۔۔۔
ReplyDeleteپڑھا جائے یعنی اس میں لفظ" لوگ" شامل سمجھا جائے ، ۔۔۔
۔۔نیز ۔۔۔
۔۔۔جو محض مالی اور سیاسی مفادات کے لئیے انسانی جانوں کا چڑھاوا دینا نہ صرف درست بلکہ اسے ایک عام سیاسی حربہ جیسے ووٹ کاسٹ کرنا یا کسی کو اپنی حمایت میں تحریر تقریر سے قائل کرنے جیسا عام سا طریقہ ہو۔۔۔
کو
جو محض مالی اور سیاسی مفادات کے لئیے انسانی جانوں کا چڑھاوا دینا نہ صرف درست بلکہ اسے ایک عام سیاسی حربہ جیسے ووٹ کاسٹ کرنا یا کسی کو اپنی حمایت میں تحریر تقریر سے قائل کرنے جیسا عام سا طریقہ سمجھتے ہوں۔۔۔۔۔۔کو یوں پڑھا جائے۔
آپ کے یہاں رائے دینی تکنیکی لحاظ سے بہت پیچیدہ عمل ہے۔
ہماری پالیسیوں، سیاست اور منافقت کے منطقی نتائج نکل آنے پر واویلا کرنا اور ہر ایک کا اپنے ذاتی تجربے کو ہی اصل بات ہونے پر اصرار کرنا ۔۔
ReplyDeleteحیراں ہوں، دل کو روؤں کے پیٹوں جگر کو میں۔
اسید، میں ذاتی طور پہ شخصیت پرستی کے شدید خلاف ہوں۔ لیکن پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا المیہ یہی ہے۔ یہی نہین بلکہ پاکستان کے ہر انسٹیٹیوٹ کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی شخصیت کے اوپر انحصار کرنے لگتا ہے۔ اور دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہر شخص جسے اتھارٹی حاصل ہوتی ہے وہ اپنے پیچھے باصلاحیت لوگوں کی کھیپ تیار کرنے کے بجائے یہ بہتر سمجھتا ہے کہ کوئ بھی ابھر کر سامنے نہ آئے۔ سوائے میرے۔ اسکے تانے بانے ایک اور چیز سے جا ملتے ہیں جسے ٹوٹمزم کہتے ہیں۔ فی الحال میں اسکی تفصیل میں جانا نہیں چاہتی۔
ReplyDeleteجہاں تک الطاف حسین کی صدر زراداری کی حمایت کا اعلان ہے تو دریا میں رہ کر کسی کو مگر مچھ سے بیر رکھنا چاہئیے۔ میرے ذاتی خیال میں ستائیس دسمبر دو ہزار آٹح کو بینظیر کے قتل پہ کراچی میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی ایک وارننگ تھی کہ کراچی میں آنیوالے دنوں میں سیاست کو کس رخ پہ جانا چاہئیے۔
جہاں تک پٹھانوں کو مارنے کا سوال ہے۔ میں ابھی اپنے ایک دوست سے بات کر رہی تھی۔ انکا گھر جس جگہ ہے وہ پٹھانوں کے علاقے سے کافی قریب ہے۔ انکا شہر سے باہر جانے کا پروگرام تھا۔ لیک ساری ساری رات شدید فائرنگ کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھر والوں کو اکیلے چھوڑ کر جانا مناسب نہیں سمجھا۔ تو حالت یہ ہے کہ ہر شخص خوفزدہ ہے۔
اظہر الحق صاحب، نہیں شوخی ء تحریر تو یہ ہے کہ ایک علاقے کے نہتے لوگوں پہ دوسرے لوگ چڑھائ کر دیں انکے گھروں کا جلا دیں اور انہیں کاٹ دیں، ماردیں مگر پولیس اور ریاستی حکام آرام سے سارا تماشہ دیکھتے رہیں۔ پھر اسکے دو سال بعد جن لوگوں کو مارا کاٹا اور جلایا گیا ہو، انہی کے لوگ ملک اور ملک سے باہر فوج اور رینجرز سے جان بچاتے پھریں۔ اور آپ کہیں کہ آپ تو ان دنوں ساری ساری رات شاہ فیصل کالونی میں پھرا کرتے تھے۔ میں صرف شاہ فیصل کالونی نہین باقی کراچی کی بات کر رہی ہوں اور رات کی نہیں دن کی بات کر رہی ہوں۔
میری آنکھوں سے زیادہ آپ پہ کیا بیتا ہوگا۔ آپ اخبار کی بات کرتے ہین میں تو ایک ناول لکھنے کا اردہ رکھتی ہوں۔ مگر دھیرج، ابھی اسکا وقت نہیں۔ نگاہ ابھی منتظر ہے بہت سارے پردوں کے اٹھنے کی۔
جاوید صاحب، آپ نے خیال کیا کہ یہ میں نے ایم کیو ایم کی حمایت میں لکھا۔ نہیں یہ میں نے اس تعصب میں لکھا، جو مجھے اپنی اس قوم کے اس حصے سے ہے جو ہجرت کر کے اس ملک کے اس حصے میں آئ۔ جس کے آگے اسکے لئیے سمندر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ اس وقت ایم کیو ایم کے ساتھ ہے تو میں انکے ساتھ ہوں۔ میرے پاس سوائے کراچی کے کہیں کا ڈومیسائل نہیں۔ میری چھٹیاں ہوں تو تب بھی یہیں رہتی ہوں اپنے وطن اور ملک نہیں جاتی۔ جب مروں گی تو میرا جسم اسی خاک میں پناہ لیگا۔ میرا جسد کسی تابوت میں روانہ ہو کر کہیں اور نہیں یہی ہوگا۔
لیکن، ان سب تعصبات سے ہٹ کر کبھی یہ حساب لگائیے گا اور اپنے پڑھنے والوں کو بتائیے گا کہ کراچی میں اسلحہ اور منشیات کون سپلائ کرتا ہے۔ شہر میں ناجائز اسلحے کی سپلائ مارکیٹ کن کن جگہوں پہ واقع ہے اور اسے کون چلاتا ہے۔
اور جب آپ یہ سب معلوم کرنے بیٹھیں گے تو یہ سارے نتائج آپکے لئیے خاصے حیران کن ہونگے۔ ان کو شائع کرنے سے پہلے سوچئیے گا کہ یہ شائع کر کے آپ متعصب تو نہیں ٹہریں گے۔
میری تجویز آپکو مکھیوں کو توپوں سے شکار کرنے کی تجویز لگی تو کیا اس نئ تجویز کو آپ سمجھتے ہیں کہ مکھیوں کو انسیکٹیسائڈز سے مارا جا رہا ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ لوگ یہ دو مختلف طرح کی باتیں کیوں کرتے ہیں ایکطرف طالبان جب ننگ انسانیت کام کرتے ہیں تو آپ اسے رد عمل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسے لسانی تعصب۔ کیا اب وہ موقع نہیں آگیا کہ مزہبی تعصب کی بھی بات کی جائے انہی خطوط پہ جن پہ آپ دوسروں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کوئ بھی شخص اس بات کے مزے لینے کے بعد آرام سے بیٹھ جائے کہ دیکھا آپکے ساتھ اب وہی ہو رہا جو ایسا ہوتا آیا ہے۔ اور اسکے بعد آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ لوگ آپکی بات نہ صرف سنیں گے بلکہ جوابا آپکو متعصب نہ کہیں۔ آپ کو صورتحال میں مزہ آرہا ہے کیونکہ اس صورت سے آپکو تکلیف کبھی بھی نہیں پہنچی۔ میرے ایک ساتھی نے لکھا کہ رینجرز والے خود مجبور تھے کیونکہ وہ تو پنجابی اور پٹھان تھے۔ کیا یہ جملہ کہنے کے بعد وہ متعصب نہیں کہلائیں گے۔ نہیں کسی نامعلوم لکھے ہوئے قانون کے تحت وہ متعصب نہیں ہیں۔
نظام کو اپنی منافقت سے نکل کر سوچنا ہوگا، یہ کہنا کہ عوام دراصل ایک ہیں اور ان میں تعصب نہیں ہے۔ یہ مجھے عوامی سطح کی منافقت لگتی ہے۔ حقیقت میں عوامی سطح پہ بھی تعصب اتنی ہی رفتار سے پایا جاتا ہے۔ اور یہی چیز انکے رہنماءوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔
کراچی کے کچھ حصوں میں تو رینجرز کا مستقل راج دکھائی دیتا ہے۔ کراچی یونورسٹی میں ایک طویل عرصہ سے رینجرز ہی رینجرز دکھائی دیتی ہے۔ ایک بار وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ReplyDeleteاس بار تو غالباَ ایم کیو ایم نے خود حکومت سے رینجرز کو طلب کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس سے قبل فوج کی طلبی کا مطالبہ تو رد کردیا گیا، لیکن اس بار ان کی بات نہیں مانی جاتی تو فساد بڑھنے کا خدشہ تھا۔
ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ جب دونوں حکمراں جماعتیں اسمبلی میں بھڑتی ہیں اسی وقت ٹارگٹ کلنگ کیوں ہوتی ہے؟ اور جب گورنر ہاوس میں معاملات طے پاجاتے ہیں تو ٹارگٹ کلنگ کیوں رک جاتی ہے؟
اسد، میں نے کراچی یونیورسٹی میں ایک طویل عرصہ گذارا ہے۔ اور اس دوران بے شمار واقعات رینجرز کی بدتیمزیوں کے ہوئے۔ رینجرز کی تعداد خاصی محدود ہو کر اب یونیورسٹی کے گیٹس تک محدود ہو گئ ہے۔ لیکن انہیں وہآن رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئ۔ اس لئیے کہ ہر سیاسی پارٹی کی بچہ پارٹی وہاں موجود ہے۔ اس پہ کسی کو اعتراض نہیں ۔ مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کو اپنے سیاسی نظام اور اسکے مسائل سے آگاہی ہونی چاہئیے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ ان سب لوگوں کے پاس اسلحہ آجاتا ہے جسے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ انکے ذاتی مسائل بھی جماعتی مسائل بن جاتے ہیں۔ اسلحے سے کوئ سیاسی جماعت پاک نہین۔ چاہے وہ اسلامی جعیت طلبہ ہی ہو۔ مذہبی جماعتوں کا یہ ہے کہ وہ اسلحے کے بل پہ سیاست کو جہاد سمجھتے ہیں۔ اور انتہائ افسوس کے ساتھ طلباء سیاست میں اسلحہ کا تعارف جماعت کے سر جاتا ہے۔۔
ReplyDeleteیونیورسٹی میں رینجرز اس وقت آئے جب تین طالب علموں کو یونیورسٹی کے اندر گولی سےاڑا دیا گیا۔ خود میرا ایک ہم جماعت اغواء کیا گیا اور ایسا غائب ہوا کہ کبھی نہ ملا۔
کراچی میں اسلحہ جو سپلائ کرتے ہیں وہ سیاسی نظام کا حصہ بھی ہیں۔ کراچی میں جب بھی کسی قسم کا سیاسی، انتظامی، یا معاملاتی مسئلہ ابھرتا ہے وہ لسانی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں پہ ہر گروہ اپنی لسانی شناخت کے ساتھ موجود ہے۔ اس میں اردو بولنے والے یا مہاجر اس لحاظ سے کمزور ہیں کہ پیچھوں انکے آباء اجداد کا اس زمین سے تعلق نہیں ہے۔ بقول میرے ایک پنجابی دوست کے آپ لوگوں کا کوئ مستقل پتہ بھی ہوتا ہے۔ آج اس گھر میں کل اس گھر میں۔ یہ بات تو انہوں نے مجھ سے محبت میں کی تھی۔ کیونکہ ہمارے درمیان تعلقات کی نوعیت ایسی ہی تھی۔ تو وہ اکثر ایسی مخبریاں کرتے تھے۔ لیکن بنیادی سوچون کے دھارے کچھ اسی قسم کے رہتے ہیں۔ جہاں ہر کسی کے پاس اسلحہ ہو۔ وہان کسی ایک قومیت پہ زور ڈالنا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ کیونکہ آپ تو 'پڑھے لکھے' ہیں۔
جی ہاں آپکا سوال خاصہ اہم ہے۔ لیکن اس سوال کے ڈانڈے ہمارے سیاسی نظام میں طاقت کے شو آف سے ملتے ہیں۔ اور اسکا ذمہدار کسی ایک کو نہیں قرار دیا جاسکتا۔ میں اگر منصفانہ رائے دوں تو یہی کہہ سکتی ہوں کہ ایسا تسلسل کے ساتھ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے ماحول سے لاپرواہ، امن اور آشتی کا راگ الاپتی رہوں۔ پاکستان نے ایٹم بنایا تاکہ خطے میں طاقت کا توازن رہے۔ لوگ اسلحہ طاقت میں توازن رکھنے کے لئیے اٹھاتے ہیں۔ سیاست سے اسلحہ کا استعمال ختم کر دیں۔ اور سب کو اسکا پابند بنائیں اور پھر جو نہ کرے اس کے خلاف جنگ کرے۔ نظام میں قانون کی بالادستی قائم کرے اگر میرے اوپر ظلم ہوتا ہے تو مجھے قانون سے انصاف ملنے کی امید ہو۔ جب تک یہ نہیں ہوگا وہی یہی ہوگا۔
بدمعاش، سیاسی پارٹیوں کا حصہ بنے رہیں گے اور ان سے تحفظ حاصل کریں گے کیونکہ ان سیاسی پارٹیوں کو اپنی طاقت اور حفاظت کے لئیے یہ چاہئیں۔
اور سیاسی پارٹی تو ایک غلط اصلاح ہے جو میں استعمال کر رہی ہوں۔ یہ تو دراصل فیوڈل نظام کی ایک شاخ ہے جو شہروں میں اس طرح نافذ ہے۔
ایم کیو ایم نے رینجرز کا مطالبہ کیا، کیونکہ اس دفعہ انکی حلیف زرداری کی جماعت ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ شاید رینجرز کی وجہ سے انہیں کچھ سپورٹ مل جائے۔ اور انہیں خّود اسلحہ استعمال نہ کرنا پڑے۔ بادی النظر میں وہ اپنی سیاست کا رخ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسکی معاشی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اپنی معیشت کی بہت فکر رہتی ہے۔ اور انہیں صحیح سے بٹوارہ کرنا نہیں آتا۔ اگرچہ انکا سیاسی نشان شیر نہیں لیکن وہ شیر کا حصہ چاہتے ہیں۔
مجھ سمیت تمام عوام سیاسی پارٹیوں کو یہ حق دینے کو تیار ہے کہ وہ حکومت چلانے کے عمل میں اپنا کمیشن مقرر کر لیں اور کھائیں۔ لیکن عوام کو اتنا دیتے رہیں کہ وہ بھی زندہ رہیں۔ انہیں اتنا تو سمجھنا چاہئیے کہ انڈے دینے والی مرغی کو ذبح نہ کریں۔ مگر خزانے کا مالک بننے کے بعد انہیں اس میں سے ہر وہ پیسہ جو انکی ذات کے علاوہ کہیں جائے پیسے کا زیاں لگتا ہے۔
میں شہر میں رینجرز کی تعینات کی خلاف ہوں۔ چاہے وہ کسی کی بھی مرضی سے آئ ہو۔ میں سیاست میں اسلحے کے استعمال کے خلاف ہوں کیونکہ اس طرح میرے جیسا کوئ شخص سیاسی عمل کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوتا۔
لیکن ایسا ملک جہاں، عمران خان جیسا سوشل ورکر، تعلیم یافتہ انسان، مایہ ناز کھلاڑی اپنی کمر سے پستول باندھے پھرتا ہو۔ جو کہ میری آنکھوں دیکھی ہے۔ وہاں کیا اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ سیاست اس عمل سے پاک ہو جائے گی۔
آپ بہت اچھا لکھتی ہیں مگر ۔ ۔ ۔
ReplyDeleteجب تحریر میں کسی ایک گروپ کی حمایت یا مخالفت کی جائے تو تحریر بے اثر ہو جاتی ہے، سارے لکھے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا، جب اصل حقائق کی بجائے ذاتی مشاہدات، پسند و ناپسند کی بنا پر ایک تحریر لکھی جائے چاہے جیسے بھی ذہن کا آدمی ہو وہ اس پر زیادہ سے زیادہ ہمدردی کا اظہار کر سکتا ہے لیکن آپکی تحریر سے اتفاق نہیں کر سکتا۔
بی بی!
ReplyDeleteآپ کی تحریر سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ الجھی ہوئی ہیں۔
علم معاشریات کا ایک سادہ سا اصول ہے ۔ کہ ریاست کا مسلح ہونا امن کی ضمانت ہوتا ہے۔ جبکہ متحارب گروپوں اور افراد کا مسلح ہونے سےبد امنی کا شاخسانہ رہتا ہے، آپ دلائل کے زور پہ دو متضاد صورتوں کو یکجا نہیں کرسکتیں۔
میرا قبیلہ اور میرے اجدادء ہندوستان سے بذریعئہ سندھ پنجاب آئے تھے ۔ اسی طرح پ پاکستان کی بہت سی مختلف قومیتیں ھندؤپاک سے بھی بیرونی ممالک سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ اگر آپ کی اسی بات کو دلیل مان لیا جائے کہ چونکہ اردو بولنے والوں کا آبائی علاقہ جو بہت دور ہے اور آپ کی ہمیشہ کی جذباتی تُک" میرے آگے سمندر ہے وغیرہ وغیرہ" تو مجھے عرض کرنے دی جئیے کہ اگر پچھلے باسٹھ سالوں میں ابھی تک آپ کراچی کے جغرافیہ سے الجھی ہوئی ہیں جبکہ سارا پاکستان یہ جانتا ہے کہ کراچی میں بہترین وسائل کے مالک اہل اردو ہیں۔ تو پھر آپ اپنی اسی دلیل سے یہ بھی بتائیں کہ وہ پٹھان جو بسا اوقات اپنے بیوی بچوں اور خاندان کو چھوڑ کر اُن سبھی سمیت ہزاروں کلومیٹر دو سے محض دو وقت کی روٹی کی خاطر یا معیار زندگی قدرے بلند کرنے کے لئیے کراچی آتا ہے ۔ جس کا نہ کراچی کے وسائل پہ کوئی خاص حق ہے بلکہ وہ کراچی میں آپ جیسے لوگوں کے گھروں میں ملازمت کرتا ہے۔ آپ لوگوں کو نہائت قلیل معاوضے پہ اپنی خدمات مہیاء کرتا ہے اسکا پورا خاندان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سے کراچی کی ترقی میں حصہ لیتا ہے ۔ جبکہ کہ وہ اس پوزیشن میں میں نہیں کہ آپ کی جگہ لے لے کیونکہ اسکی تعلیم بھی واجبی ہے ۔ وہ آپ سے بڑھ کر کراچی میں غریب الوطن ہے۔ اسکے مالی وسائل بھی بہت محدود ہیں۔ اسے سیاست کی سوجھ بوجھ بھی نہیں ۔ اسکے پاس کسی طرح کا جائداد کا کلیم بھی نہیں جس سے وہ کچھ جائداد لے سکے۔ وہ اپنی خاندانی روایات کا بھی کچھ اسطرح پابند ہے کہ وہ اسے کھل کھیلنے کا موقع بھی نہیں دیتیں۔ )خاندانی روایات جو کراچی میں فرسودہ سمجھی جاتی ہیں) ۔ اور وہ جوسب سے کم معاوضے پہ کراچی کی ترقی کا معمار ہے ۔ وہ نہ ہو تو ذرا سوچیں کہ ایست سیدھے سادے ڈرائیور جو قلیل معاوضے پہ آپ کی ذو معنی باتوں کو اپنی سادگی یا مجبوری میں برداشت بھی کریں اور اسی معاوضے میں خدمت دوگنی کریں ۔ زرا تصور کریں آپ کو اپنے طبقے سے یا وہ لوگ جن کے آگے آپ سمندر بیان کرتی ہیں کتنے لوگ ایسی کم اجرت میں اس طرح کی خدمات دینے کو تیار ہیں۔؟ وہ پٹھان جسے سیاست کے الف بے کا بھی علم نہیں،بے یقینی کے سائے میں جیتا ہے اور ابتدائے افرینش سے تسلیم شدہ حقوق کے تحت محنت کرتا ہے اور ایک دن اسے گولی سے محض اسلئیے اڑا دیا جاتا ہے کہ شہر پہ قبضہ کے لئیے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں ٹھن گئی ہے۔
نہائیت احترام کی ساتھ عرض ہے کہ آپ کو اپنے سامنے جزباتی سمندر نظر آتا ہے ۔ آپ کو اپنا وطن )مجھے آپ کی عمر کا ایک اندازہ سا ہے اگر آپ بیاہنے کے بعد بھارت سے تشریف نہیں لائیں تو پھر آپ وطن اور اسی طرح صد لائق احترام اہل اردو کا وطن بھی اب بھارت نہیں بنتا اور نہ ہی صرف انکے سامنے آپ کا مذکورہ جزباتی سمندر ہے ۔ انکا وطن اب یہی ہے جس کی خاطر آج سے تین چار نسل پہلے انکے اجداد ہر چیز چھوڑ چھاڑ کر کراچی تشریف لائے ۔ اگر تو وہ ایک نئے وطن کی خاطر بخوشی تیار ہوئے تو انھیں نئے وطن کو اپنا وطن تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئیے۔ اگر وہ دال نخواستہ ہندؤوں کی لوٹ مار مچانے پہ بھارت چھوڑنے پہ مجبور ہوئے تو بھی انھیں کراچی یا پاکستان کو اپنا وطن تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئیے کہ اس صورت میں پاکستان اور کراچی نے انھیں ہندوؤں کے ظلم ستم سے بچایا اور جگہ دی ۔ تو بھی اب پاکستان کراچی کے آگے کا سمندر اسی طرح سبھی کے لئیے یکساں ہے جس طرح دوسری قومیتوں کے لئیے۔
البتہاگر آپ کاجذباتی سمند ر کا اگر کسی کے لئیے کالا سمندر کہا جاسکتا ہے تو اس پٹھان کے اہل اعیال کےلئیے کہا جاسکتا ہے جس کے انتہائی محدود وسائل کی تگ و دور کرنے والے کفالدار کو انتہائی بے رحمی سے کراچی کی مالی مفادات کی سیاست میں گولی مار دی گئی ۔
بی بی !
علم شعور بخشتا ہے جو ذاتی المیے کو قومی المیہ نہیں سمجھتا ۔جذباتی اور ذاتی مفاداتی باتیں علم کا رستہ روکتی ہیں۔اہل علم کسی خطے یا شہر کا انسانی ضمیر ہوتے ہیں۔جذبات سے حقائق نہیں بدلے جاسکتے۔ اگر کراچی کے سبھی باشعور اور اہل علم چاھیں تو اپنے زیر اثر طبقات کو خیر اور فلاح کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ ورنہ جذباتی آگ بھڑکانے سے کراچی دنیا کا پہلا شہر نہیں ہوگا جو بیروت بنے(اللہ نہ کرے) اور ایسی ناگفتہ حالت میں کسی کا معایر زندگی و زندگی کی ضمانت مسکل ہوتی ہے۔
نوٹ۔، مذکورہ بالا پٹھان کی جگہ پنجابی بلوچ سندھی مکرانی سرائیکی پوٹھاری بہاری یا اہل اردو کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
یاسر، لکھنے والا ہی نہیں پڑھنے والا بھی اگر جانبدار ہو تو تحریر کوئ معنی نہیں رکھتی۔
ReplyDeleteجاوید صاحب، آپ بہت ساری باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور وہ بنیادی انسانی نفسیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں جن جھونپڑی نما گھروں میں کتابوں کے ذخائر دیکھے تھے۔ تحوڑا ہوش سنبھالنے پہ انہی لوگوں کے گولیوں سے چھلنی بدن ان کتابوں پہ پڑے دیکھے۔ آپ صرف ایک دنیا کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ دنیا وہاں کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ میری پیدائش اور بچپن اس علاقے میں گذرا جسکے ایک طرف پٹھآنوں کی بستیاں آباد تھیں اور دوسری طرف بنگلہ دیش سے آنیوالے مہاجرین کی آبادیاں۔ میں جس محلے میں آباد تھی اس میں پنجابی بھی رہتے تھے اور انڈیا کے مختلف علاقون سے آئے ہوئے لوگ بھی۔ میں نے چونکہ کسی لینڈ لارڈ کے گھر میں جنم نہیں لیا تو اپنے گھر سے اپنے تعلیمی ادارے تک جانے کے لئیے بسوں میں بھی سفر کیا۔ محض یونیورسٹی تک پہنچنے کے لئیے مجھے تین بسیں تبدیل کرنا پڑتی تھیں۔ تو میرا مشاہدہ کسی بند دنیا کا نہیں ہے۔
جہاں تک کراچی کو وطن تسلیم کرنے کا سوال ہے تو یہاں آپ خاصے الجھے لگتے ہیں اور صرف آپ ہی نہیں اور بھی دیگر لوگ اس بارے میں بے حد الجھی باتیں کرتے ہیں۔ اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ نام وہ کراچی والوں کا مہاجر، اردو اسپیکنگ، یا بھیا لوگ رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ جناب آپ اپنے آپکو اس وطن کا نہیں سمجھتے۔ جناب یہ سارے نام آپ ہی کے دئیے ہوئے ہیں۔ اس سارے مسئلے میں اس نام کا بھی تو بڑا چکر ہے۔ اس لئیے کہ آپ لوگوں نے ابھی تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ جو لوگ انڈیا کو چھوڑ کر یہاں آ بسے اور وہ جنکا تعلق مشرقی پنجاب سے نہیں ہے۔ وہ بھی پاکستانی ہو سکتے ہیں۔ ان سے تو زیادہ تر لوگوں کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ یہ اپنے آپکو بڑا پڑھا لکھا سمجھتے ہیں۔
اب دیکھیں کہ انیس چھیاسی تک کسی مہاجر کے پاس کوئ اسلحہ نہیں۔ اسلحہ اگر ہے تو پٹھانوں کے پاس، سندھیوں کے پاس، بلوچوں کے پاس۔ کیونکہ وہ ایک ایسی ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں جس میں یہ ایک لازمی حصہ ہے۔ شہر میں پٹھانوں اور بلوچوں کے غیر قانونی اسلحے اور منشیات کے اڈے ہیں۔ لیکن سال انیس سو چھیاسی کراچی کی تاریخ میں وہ سال ہے جب نعرہ ء مہاجر اٹھتا ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ اپنے ٹی وی اور وی سی آر بیچ دو اور اسلحہ خریدو۔ کیوں اس لئیے کہ ریاست اپنے شہریوں کو غیر متعصب اور غیر جانبدار تحفظ دینے میں ناکام رہی۔
یہ جو ہموطن، وطن یا ملک اس طرح کی جو اصطلاحات ہوتی ہیں انکی بالکل صحیح تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں مجھے چند اچھی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ میں ضرور آنیوالے دنوں میں شیئر کرنا چاہونگی۔
سمجھے آپ یا اب بھی نہیں سمجھے۔ جب ریاست اپنے عمل میں جانبدار ہو تو شہری کب تک غیر جانبدار رہیں گے۔
یہ بتا دوں کہ کراچی میں ہونیوالے پچھلے پچاس سال کے واقعات سے مجھے کبھی کوئ ذاتی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا۔ کچھ تکلیفین اٹھانی پڑیں وہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔ لیکن میں بنیادی طور پہ بے حس نہیں اور نہ ہی صرف اپنے ذاتی دکھ کو ہی تکلیف سمجھتی ہوں۔ اگر کوئ اور تکلیف میں ہو تو مجھے اسکے لئیے بھی آواز اٹھانا پسند ہے۔
تو یہ جھگڑا صرف ایم کیو ایم یا پی پی کا تو نہیں۔ اس میں دیگر مافیاز بھی شامل ہیں۔ کراچی میں اس وقت سیاسی، اسلحے کی، منشیات کی اور لینڈ مافیا بھی کام کر رہی ہیں۔ تو آپ یہ اتنی سادہ بات کراچی سے باہر بیٹھ کر ہی کر سکتے ہیں۔ کوئ پٹھان بھی اسی سلسلے میں مارا جاتا ہے۔
اب اگر آپ اس مسئلے کے نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی پہلوءوں پہ غور نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں۔ کچھ قدرتی قوانین بھی ہوتے ہیں وہ اپنے آپکو منوا لیں گے۔ مگر ان میں قیمت زیادہ دینی پڑتی ہے اور اکثر اوقات گیہوں کیساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
اب آجکی خبر سن لیں، کراچی میں دو دھماکوں کیساتھ اب تک ستائیس لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ دھماکہ کیوں کیا گیا، کس نے کروایا، اس سے کراچی میں جو بد امنی پھیلے گی اسکا فائدہ کس کو پہنچے گا؟ اب آپ ان سوالات کے جوابات دیجئیے۔ میں اپنی نئ پوسٹ پہ کام کروں۔ اگر کوئ اور تحیر خیز بات نہ ہوئ تو میں ان چیزوں پہ کام کرنا چاہونگی جو مجھے پسند ہیں۔ لوگوں کو یہ بات سمجھانے میں مجھے کوئ دلچسپی نہیں ہوتی کہ کراچی میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ جنہیں کراچی کی تاریخ سمجھنے سے زیادہ ایم کیو ایم کے خلاف بولنے کا شوق ہوتا ہے۔ مجھے اپنے حصے کا کام کرنا زیادہ پسند رہا ہے۔
اگرچہ بحث کے درمیان کودنا کوئی قابل تعریف حرکت تو نہیں ہوتی مگر چند الفاظ دل میں ہیں تو سوچا انہیں لکھ دوں
ReplyDeleteمجھے مہاجر ، پنجابی ،پشتون اور سندھی جیسے الفاظ سے الجھن ہوتی ہے کیونک میں ایسے ماحول میں جنم نہیں لے سکا جہاں یہ الفاظ ایک طعنہ بن جائیں
میری بیگم کے آباو جدا نے قیام پاکستان کے بعد لکھنو کے قریب شاہجہاں پور سے ہجرت کی اور بہاولپور آکر ملتان ، لاہور اور کراچی منقلی کا سفر مکم ل کیا ۔ میری بیگم شین قاف سے مرصع اردو بولتی ہیں تو میرے والد ٹھیھ پنجابی اور میں اردو اور پنجابی کے درمیان ایک خوش و خرم میاں۔ میرے دو عم زادوں نے دو سکہ بند مہاجر خواتین کے ساتھ شادی کی اور ان کے گھر میں آج تک ایسی بحث سننے کا اتفاق نہیں ہوا ۔
میں نے زندگی کا ایک عرصہ کراچی میں گذارا مگر ہمارے ملنے والے جو کہ تمام لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ہمیشہ آپس کی محبت کو مقدم جانا اور آج بھی جانتے ہیں ۔ اگر ہم ایک دوسرے کو گلظ اور اور خود کو اسی طرح معصوم کانتے رہے تو کراچی خدا نہ کرے ایک دفعہ پھر بیروت بن سکتا ہے ۔ خدا نہ کرے ایسا ہو
کراچی کو لبنان کی تاریخ سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے
لبنان کی اصل آگ عالمی اسلحہ فروشوں کی بھڑکائی ہو تھی لبنان میں ملا جلا کر کوئی سترہ کے قریب گروہ موجود تھے ۔ تاہم تین گروہ طاقطتور تھے ۔ یہ گروہ میرونی عیسائیوں ، شیعہ مسلمانوں اور سنی مسلمانوں کے تھے ۔ 1943 مین جب ملک آزاد ہوا تو ایک غیر تحریر شدہ معاہدے کے مطابق تین بڑے عہدے ان کو دیے جانے لگے ۔ صدر عیسائی ہوا کرتا تھآ ۔ اسمبلی کا سپیکر شیعہ اور وزیر اعظم سنی ۔ بظاہر یہ فارمولا کامیابی سے چلتا نظر آتا رہا مگر اندرون خانہ ہر گروپ کا "مجاہدانہ" عنصر نفرت بھی پھیلاتا رہا ۔ مجاہدوں کے پٹھے پر بڑی طاقتیں ہمیشہ بے چین رہتی ہیں بلکہ جہاں مجاہد نہ ہوں پیدا کرنے میں بھی مصروف ہو جاتی ہیں ۔ اس سے پہلے سے حساس معاشرے میں جب کرد ، ارمنی اور فلسطینی بھی بڑی تعداد میں آگئے تو شکوک و شبہات مزید بڑھے ۔ چناچہ ہر گروہ نے اندر ہی اندر اسلحہ بندی شروع کر دی ۔ اسلحہ اگر اشیائے خوردو نوش اور پناہ و پوش کی طرح استعمال نہ ہو تو پچھلے کارخانے بند کرے پڑتے ہیں ۔ کارخانے بند ہوں تو بے کاری بڑھے گی لہذا غریب مزدور کو بر سر روزگار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مال کھپتا رہے اور کارخانے چلتے رہیں
اس تمام جدو جہد کے نتیجے میں جو گروہ ٹکرنے کی استعداد رکھتے تھے ان کی شکل کچھ یوں تھی
لبنانی افواج: ان جمائل خاندان کی تیار کردہ فوج ، کامل شمعون کے آدمی ، لبنان کی سرکاری فوج کے وفادار یونٹ ، سلیمان فرنجی کے پیروکار اور ایک ہزار کے قریب چھوٹے چھوٹے ہم خیال گروہ شالم تھے
متحدہ فوج:اس میں الفتح کی چھوٹی تنظیمیں ، بائیں بازو کے لبنانی ، جنبلات کے آدمی ، احمد فاروق مقدم اور معروف اسد کے لوگ شامل تھے ۔
پہلا گروپ تعداد میں کم اور اسلحہ کے لحاظ سے بر تر تھا کیونکہ ان کی پشت پر امریکہ اور یورپ تھے
دوسرے کے پاس نفری زیادہ تھی اور اوزار کم ان کا تکیہ صرف روس پر تھا ۔
13 اپریل کو عیسائی علاقہ عین رمانہ میں عیسائی رہنما پیٹر جمائل ایک نئے چرچ کا افتتاح کر رہا تھا ۔ دوسری طرف اس عالقے میں سے ایک بس گذر رہی تھی جس پر فلسطینی اور فدائین سوا تھے ۔ اچانک اس بس پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ستائیس مسافر مارے گئے ۔ اس کے بعد کا حال ساری دنیا کو معلوم ہے ۔صرف اگلے اٹحارہ مہینوں میں چالیس ہزار لوگ اپنی موت کی وجہ جانے بغیر مر گئے ۔
ابھی بیٹحے بیٹحے خیال آیا کہ اس دفعہ کونسی طاقت کراچی میں موجود کس کس گروہ کے پیچھے ہے ۔
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے گفتگو کو اسکے محدود خانے سے نکال کر کینوس کو وسعت دی۔
ReplyDeleteیہاں میں یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ مختلف گروہوں کے وجود میں آنے کی وجوہات ہوا کرتی ہیں۔ اور وجوہات کو تسلیم کئے بغیر کوئ نتیجہ خیز بات نہیں کی جا سکتی۔ آپ نے بین الصوبائ شادیوں کی بات کی۔ میرے بہت سارے رشتے داروں اور دوستوں کی شادی پنجابیوں میں ہوئ ہے۔ سب خو ش خرم رہتے ہیں۔ لیکن ہر چیز افراد تک تو محدود نہیں رہتی۔ اور بہ ہر حال بہترین تعلقات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب مفادات ٹکراتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہوتو تا عمر نہیں پتہ چلتا۔
مختلف گروہ کیسے وجود میں آجاتے ہیں اور انہیں عوام کی اتنی بڑی حمایت کیسے مل جاتی ہے۔؟ یہ ایک موضوع ہے جس پہ کوئ بحث کرنا چاہے تو اسے وسعت قلب کا مظاہرہ کرنا پڑیگا۔ اب میرا سادہ سا سوال ہے کہ کراچی میں اسلحہ کون سپلائ کرتا ہے؟ کیوں ایک وقت میں جب کچھ اور لسانی گروہ اسلحہ استتمال کرتے تھے تو اسے برا نہیں سمجھا جاتا تھا اور کیوں اب اسے صرف ایک لسانی گروپ کے حوالے سے برا سمجھا جاتا ہے؟ کیوں ایک زمانے میں کراچی کی قیمتی زمینوں پہ ایک گروپ کو ناجائز قبضے کی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئ اور کیوں اب ایک دوسرے گروہ سےیہ شکایت ہو رہی ہے؟
کیوں چودہ دسمبر انیس سو چھیاسی میں کھلے عام دہشت گردی کرنیوالے نہیں پکڑے گئے اور کیوں صرف بارہ مئ کے واقعے کو یاد رکھا جاتا ہے اور اسکا حوالہ دیا جاتا ہے؟ کیوں بے نظیر کے مرنے پہ کراچی میں ہنگامہ ہوا اور اسکے ملزمان کو چھوڑ دیا گیا؟ ان جیسے کیوں کی ایک لمبی لائن ہے۔ چلیں، مانا کہ اس وقت مختلف طاقتیں ان سب معاملات کے پیچھے ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ سب حالات کوئ ایکدن کی پیداوار تو نہیں۔ یہ ہماری مختلف پالیسیوں کا جو مختلف اوقات میں اپنائ گئیں انکا نتیجہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ علی گڑھ کالونی میں دہشت گردی کسی اور طاقت کے کہنے پہ ہوئ ہو۔ لیکن مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچانا تو حکومت کی ذمہ داری تھی یا نہیں۔
ویسے کیا پتہ چلا اس دفعہ کون سی طاقت کس کے پیچھے ہے۔
گروہ ابن خلدون کے الفاظ میں عصبیت سے وجود میں آتے ہیں اگر اس عصبیت کا کینوس وسیع ہو جائے تو قوموں کے حق میں رحمت بن جاتی ہے اگر محض نسلی بنیادوں پر استوار ہو تو بربادی
ReplyDeleteکراچی میں گروہوں کی عصبیت کی جڑیں قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ میں پیوست ہیں اور اس عصبیت کو بڑھاوا دینے میں تمام نسلی گروہوں بشمول مہاجر کا ہاتھ رہا ہے ۔ تمام گروہ اس کے ذمہ دار ہیں ۔
اور ہر گروہ ماضی میں دستیاب موقع سے فائدہ حاصل کرنے میں اپنی ہر "قسم" کی طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے ۔
فی الحال اتنا اشارہ ہی کافی ہے ۔
میں تمام وہ گروہ جو کراچی میں اسلحہ استعمال کرنے کے حامی ہیں ان کی مذمت کرتا ہوں ۔ کراچی میں اسلحہ تمام راستوں سے آتا ہے اور اس کے روٹ چاروں سمتوں میں ہیں ۔
ایم کیو ایم نے جو راستہ متحدہ بن کر بعد میں اپنایا اگر وہ شروع دن سے اپناتی تو آج پاکستان کی سب سے مضبوط سیاسی جماعت ہوتی۔ آج بھی اس کی راہ میں اس کا ماضی حائل ہے ۔ پنجابی یا پشتون متحدہ کے منشور کو صحیح سمجھتے ہیں مگر جب اس کے ماضی کو دیکھتے ہیں تو پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ووٹ دینے سے گھبراتے ہیں اور اپنی انہیں آمر جماعتوں سے چمٹے رہنے پر مجبور ہیں ۔ انہیں یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ متحدہ اب بدل چکی ہے ۔
رہی بات ماضی قریب میں قتل خون کو چھپانے کی تو متحدہ حکومت کا اتنا ہی حصہ تھی جتنا کوئی دوسری جماعت ۔ اور یقینا اصل مجرموں سے بھی آگاہ ہو گی ۔
میں ذاتی طور پر قانوں کی بالادستی ہر ایک کے لیے کا قائل ہوں اور اس میں کسی نسلی تعصب کا قائل نہیں ہوں ۔
کراچی میں وہی عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنے کے لیے اب تیار ہیں جو وزیرستان اور سوات کے پاکستانی طالبان کے پیچھے ہیں ۔
کراچی نسلی گروہوں کے تنوع کے اعتبار سے بڑا زرخیز علاقہ ہے اور اب اس میں قتل غارت کا کھیل بھڑکا کر پاکستان کی معیشت پر کاری ضرب لگانے کو تیار ہیں ۔ یہ گریٹ گیم کے اس کھیل کا حصہ ہے جو اس وقت اس خطے میں جاری ہے ۔ ہمیں بحیثیت ایک پڑھے لکھے اور باشعور انسان کے ہوشمندی سے کام لینا ہے اور اپنی بساط بھر کوشش سے اپنے درمیان اس عداوت اور نفرت کو روکنا ہے ۔
ریاض شاہد صاحب، آپکا شکریہ۔ ابن خلدون سے متعلق دیا گیا آپکا حوالہ میں ابھی دو دن پہلے ہی کہیں پڑھ رہی تھی۔ جب میں کراچی کی طرف دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہاں آکر بسنے والے لوگ انڈیا کے مختلف علاقوں سے آئے تھے اور ایکدوسرے سے خاصہ مختلف رہن سہن رکھتے تھے حتی کہ بعض صورتوں میں زبان کا بھی خاصہ فرق تھآ۔ لیکن اسکے باوجود وہ کیسے ایک گروہ میں ڈھل گئے؟
ReplyDeleteاس سوال کو الٹا کر کے یوں پوچھا جا سکتا ہے کہ صرف کراچی اور حیدر آباد میں کیوں ایک گروہ کی شکل میں ڈھلے باقی جگہوں پہ کیوں نہیں ۔ میرا اپنی ذاتی مثال دینے کا مقصد یہ اشارہ کرنا تھا کہ باقی جگہوں وہ مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل گئے ۔ پنجاب میں ایک ایسی کثیر آبادی ہے جو اپنے گھر میں اردو بولتی ہے مگر انہیں اپنے مہاجر ہونے کا احساس نہیں ۔
ReplyDeleteانہیں کراچی میں مہاجر ہونے کا احساس کس نے دلایا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے میرے پر جلتے ہیں ۔ اور مزید بحث شخصیات کی سطح پر اتر آئے گی جو کہ مناسب نہیں ویسے بھی وہ شخصیات اب مرحوم ہو چکی ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ متحدہ جیسے جاہلوں کے ریوڑ کی حمایت کرتے ہیں۔ مجھے متحدہ کا کوئی ایک ایسا شخص بتا دیں جو قومی سطح کا رہنما بننے کے قابل ہو۔ انہیں تو بات کرنے کی تمیز نہی ہے۔ فاروق ستار کا لہجہ دیکھیے، حیدر عباس رضوی کا انداز ملاحظہ کیجیے یا پھر مصطفی کمال کی باتیں سنیے۔ ان سب کی باتوں میں ایسا انداز جھلکتا ہے جو کسی رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ واضح رہے کہ میں نے الطاف حسین کا ذکر ابھی نہیں کیا ہے کیونکہ وہ ان سب کے گرو ہیں اور شاید یہ انداز گفتگو بھی ان سے ہی سیکھا ہے انہوں نے۔
ReplyDeleteباقی کراچی کو رینجرز کے حوالے کرنے میں انہی کا بڑا ہاتھ ہے، متحدہ تو اسے فوج کے حوالے کر کے اگلے بلدیاتی انتخابات سے کنارہ کشی چاہتی ہے اور موجودہ حالات میں لگ بھی ایسا رہا ہے کہ کراچی جلد فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔
ابو شامل، چلیں آپ مجھے ملکی سطح پہ کسی ایسے شخص کا نام بتا دیں جو قومی سطح کا لیڈر بننے کے قابل ہو۔
ReplyDeleteہاں آپ نے بجا فرمایا، جاہلوں کے ریوڑ کے پیچھے جانا حماقت ہے لیکن کوئ ایسا ریوڑ بتا دیں جو قابلوں پہ مشتمل ہو۔
میں اپنی ذاتی حیثیت میں پارٹی کے نظریات اور منشور کو اہمیت دونگی۔ کوئ بھی سیاسی پارٹی جو ملکی مسائل حل کر کے میری زندگی میں آسانیاں لاتی ہے میرے ماحول کو ایسا کر دیتی ہے جس میں رہنے سے مجھے اپنے اوپر فخر محسوس ہو، جو میرے اندر اپنے ماحول کو مزید بہتر کرنے کی امنگ پیدا کرے، جو مجھ سے اور اس زمین سے تعلق رکھتی ہو، جہاں مجھے اپنی آنیوالی نسلوں کا مستقبل محفوظ نظر آتا ہو۔ لائیے کسی ایک ایسی پارٹی کا نام مجھے بتا دیں جو مجھے یہ تمام چیزیں دینا چاہتی ہو۔
میرا نہیں خیال کہ متحدہ، بلدیاتی الیکشن سے فرار چاہتی ہے۔ البتہ مجھے یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ لوکل باڈیز کے نظام کو اتنے شدو مد سے ختم کرنے کے لئیے ہماری سیاسی پارٹیاں کیوں بے قرار ہیں۔ کیوں ہمارے باقی پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں نے اسکے خلاف واویلہ نہیں کیا کہ اسکو تبدیل کر کے کونسے عظیم انقلابی منصوبے لائے جا رہے ہیں۔
وہ لوگ جو اب سے کچھ عرصے پہلے اس بات کا مذاق ارا رہے تھے کہ کراچی میں طالبان کی موجودگی کا فسانہ اڑایا جا رہا ہے وہ اب موجودہ دھماکوں کے بارے میں کیا کہیں گے۔ مجھے توقع ہے کہ اب ایسے مزید دھماکے بھی ہونگے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ شہر کو اسلحے سے پاک کیا جائے اور تمام پٹھان آبادیوں اور بلوچ آبادیوں سے اسلحے کے اڈے ختم نہیں کئے گئے تو یہ دھماکوں کا سلسلہ نہیں رکنے والا۔ تو اسے ایک اور لسانی تعصب کا نام دے دیا جائے گا۔
اب شہر بنیادی طور پہ لسانی اکائیوں میں تقسیم ہے۔جنکی اپنی مافیاز ہیں اور جنکے ذریعے طالبان نے اپنا رسوخ حاصل کر لیا ہے تو اب آپ اور میں بیٹھ کر کراچی کے دھماکوں میں مرنیوالوں کی گنتی کریں گے۔
کیونکہ اس سے آگے کوئ بات تعصب کے زمرے میں آتی ہے۔
اگر آپ اس بات کی بھی وضاحت کرتے کہ کیوں متحدہ اگلے بلدیاتی الیکشن سے کنارہ کشی چاہتی ہے تو بحث کا صحیح رخ بنتا۔
کیونکہ اس تین سال کے عرصے میں، آپ نے، میں نے یا کسی اور سمجھدار شخص نے کوئ نئ پارٹی انقلابی نعروں اور منشور کے ساتھ نہیں بنائ۔ بساط پہ وہی پٹے ہوئے مہرے موجود ہیں۔ لوگ اب صرف دو وقت کی روٹی چاہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور سوچا جا سکتا ہے کہ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ آئندہ الیکشن میں پھر متحدہ اسی تناسب سے آجائے۔ یہ سب ویسے اسکی تیاری کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ ورنہ باقی سبکی تو کوئ اور تیاری نہیں۔
اگر تمام جماعتیں جاہلوں کا ریوڑ ہیں تو کسی جماعت کے پیچھے جانا بھی فرض نہیں ہے۔
ReplyDeleteدوسرا کیونکہ میں بھی فی الوقت کسی جماعت کی تقلید نہيں کر رہا اس لیے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ سیاسی جماعت بنائیں تو پھر کچھ سرگرمیاں شروع کریں :) ۔
پہلے یہ طے کرنا پڑیگا کہ چندہ کون اکٹھا کریگا۔
ReplyDelete:)
آئے ہائے
ReplyDeleteہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں کمنٹنے میں
" میں نے اس تعصب میں لکھا، جو مجھے اپنی اس قوم کے اس حصے سے ہے جو ہجرت کر کے اس ملک کے اس حصے میں آئ۔ جس کے آگے اسکے لئیے سمندر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ "
میں نے تو صرف اتنا کہنا ہے کہ سمندر کی طرف نہ جاؒئیں اس طرف آئیں
ہجرت کرنے والوں کی اس شہر سے زیادہ گنتی کروانے کی ذمہ داری میری
مزید یہ کہ جب آپ مانتی ہیں کہ آپ مہاجر ہیں تو پحر ھق کیسا جتا رہی ہیں؟
ہمرا مسئلہ ہی یہی ہے ہمارے دماغ میں سے یہ بات ہی نہیں نکلتی کہ ہم مہاجر ہیں
جسکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے وجود کو دل و دماغ سے تسلیم ہی نہیں کیا
q jee?
ReplyDeletemoderation laga d kia yahan?
آپ کمٹنے میں دیر کر دیتے ہیں۔ یا غصے میں میرے بلاگ کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ پھر کسی دن جب ویلے ہوتے ہیں اور کہیں سے کچھ نہیں ملتا تو پڑھنا پڑ جاتے ہیں۔
ReplyDeleteخیر،مہاجر ہونا تو ایک شناخت ہے۔ جیسے پنجابی ہونا ایک شناخت ہے۔ مختلف شناخت رکھنے کی وجہ سے اپنے حق سے دستبردار تو نہیں ہو سکتے۔
جہاں تک آپکے طرف والے مہاجروں کا تذکرہ ہے۔ اسکی دیگر وجوہات بھی ہیں جن سے آپ جذبات میں صرف نظر کرتے ہیں۔ انکی زبان اور ثقافت وہی ہے جو آپکی ہے۔ انکے ساتھ رہنے میں آپکو ثقافتی جھٹکا نہیں اٹھانا پڑتا۔ البتہ یہ جھٹکے آپکو میرے ساتھ رہنے سے اٹھانے پڑتے ہیں اور مجھے آپکے ساتھ رہنے سے۔ جو بات آپکے یہاں عزت اور غیرت کا مسئلہ بن جاتی ہے بہت ممکن ہے اسے میں بالکل کوئ اہمیت حاصل نہ دوں۔ لیکن جس بات پہ میں کسی کو بد تہذیب کہہ دیں اس میں آپ اچنبھے میں پڑجائیں اور آپ کو لگے کہ آپکی بے عزتی کر دی گئ ہے۔
یہی تہذیبون کا ٹکراءو ہوتا ہے۔ بہت ساری مختلف تہذیبوں کو ایکدوسرے کے ساتھ رچنے بسنے میں وقت لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج دو ملکوں کی سرحدیں کھینچ دی جائیں اور اگلے دن سے اس میں رہنے والے لوگ ایکدوسرے سے روحانی طور پہ الگ ہوجائیں۔ میں آج کراچی سے دور چلی جاءوں ، پھر کبھی یہاں نہ آسکوں تو کیا میرے دل سے یہ شہر نکل جائیگا۔ کیا یہاں کے ٹوٹے روڈ، منی بسیں، کنڈیکٹرز کی بدتمیزیاں، بارش مین ٹپکتی چھت، گھر میں گھس آنیوالے نالے کا پانی، یونیورسٹی کے پوائنٹس اور انکے رگڑے، یہاں کے تہوار منانے کا انداز، کھانے اور انکی مشہور جگہیں اور اس طرح کی لا تعداد یادوں کے خزانے سے میرا دل خالی ہو جائیگا۔ نہیں ہوگا۔
پاکستان کو تسلیم کرنا اور اپنی بنیادی جروں سے جڑے رہنا دو الگ چیزیں ہیں۔
میرے تمام تر رشتے دار آج بھی انڈیا میں ہیں۔ ان سے میں زندگی میں صرف ایکبار ملی ہوں۔ لیکن مجھے اچھا لگا جب میں وہاں گئ، اور ان زمینوں گھومے پھرے جن پہ ہمارے آبا ء اجداد کہیں اور سے آکر آباد ہوئے۔ وہ تذکرے جنہیں اب ہم صرف کتابوں میں پڑھتے ہیں انکو محسوس کرنے میں اب مجھے بے حد آسانی ہوتی ہے کیونکہ ایک دفعہ میں نے بھی اس ماحول میں سانس لی جہاں میرے بزرگوں نے اپنی زندگی کے ایام گذارے۔ میں اب انہیں زیادہ اچھی طرح سمجھتی ہوں۔
تو میرے ذہن سے یہ نہیں نکل سکتا کہ میرے والدین نے ہجرت کی تھی اور اپنی زمین سے ایک بالکل جدا تہذیب رکھنے والے علاقے میں آ کر آباد ہوئے۔
یہ وہ نازک فرق ہے جسے سمجھنے بلائ چاٹنے کی ضرورت نہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ بائیکاٹ کرنے والی بات الزام ہے اگر آپ ثابت کر سکیں تو ٹھیک ورنہ اس کو واپس لیں
ReplyDeleteدوسری بات یہ کہ میں تو کبھی نہیں گیا وہاں پہ نہ جانا چاہا کہ جس کو میرے اجداد چھوڑ آئے اس میں میرے لیے کوئی رغبت نہیں لیکن یہ بات صرف میرے لئے ہے
اور تیسری اور سب سے اہم بات جو آپ نے ثقافت کی کی تو ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ثقافت میں کیا فرق ہے ہماری؟
اور مجھے سمجھ نہیں اآتی جیسا کہ اوپر ایک تبصرہ نگار نے بھی لکھا کہ کراچی کے علاوہ تو ہر جگہ پر لوگ ایڈجسٹ ہو گئے اور کسی کو اس مہاجر ٹرم کے استعمال کی ضرورت نہیں تو یہ ٹرم صرف ایک شہر سپیسفک کیوں ہو گئی ہے؟
بائیکاٹ کرنے والی بات محض میرا خیال یا بات برائے بات تھی چونکہ اسکا کوئ ثبوت نہیں اس لئیے میں اسے واپس لیتی ہوں۔
ReplyDelete:(
جیساکہ میں نے بتایا کہ میرے تقریبا سارے رشتے دار وہی ہیں تو میں وہاں گئ اور وہان پھر جانا چاہونگی۔ میرے والد صاحب نے پاکستان اس لئیے ہجرت نہیں کی تھی کہ وہ مسلمان تھے اور ہندو انہیں پریشان کر رہے تھے بلکہ انکے والدین نے انکی شادی خاندان میں ایک ایسی خاتون سے طرے کر دی تھی جنہیں وہ پسند نہیں کرتے تھے۔
تو اب میرے وہاں جانے پہ اخلاقی طور پہ تو ایسی کوئ قباحت نہیں۔ کیا خیال ہے؟
آپ پھر اپنی ہی بات کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پنجاب آءووں تو یہ میرے پنجابی میزبان ہیں جو کسی انجان جگہ پہ میراتعارف اردو اسپیکن اور اپنا پنجابی کی حیثیت سے کراتے ہیں۔ اب آپ بتائیں اردو تو آپ بھی لکھتے پڑھتے اور بولرتے ہیں۔ پھر میں کیوں اردو اسپیکنگ کہلاتی ہوں۔ اسکے بعد آج تک ایسا نہیں ہوا کہ پوچھنے والے نے یہ نہ پوچھا ہو کہ انڈیا میں آپکا تعلق کس جگہ سے ہے۔ یہ بات مجھے سمجھانے کی ضرورت تو نہیں آپ خود کو سمجھنی چاہئیے کہ لفظ مہاجر ہیان پہ دوسری قومیتوں نے ایک پہچان دی ہے۔ اب جبکہ کراچی میں لوگ آپکے کہنے سے پہلے خود کو مہاجر کہ دیتے ہیں تو آپکو اعتراض ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
سندھ میں وہ نہیں ہوا جو باقی جگہوں پہ ہوا۔ پنجاب میں زمینی ملکیت رکھنے والے پنجابی ہمیشہ زیادہ تعداد میں رہے اور ان میں کم لوگون کو شامل ہونا پڑا۔ نئے آنیوالون کے لئیے علحدہ سے کوئ قانون نہیں بنائے گئے۔ لیکن سندھ میں ایسا نہیں ہوا۔ سندھ کو اربن اور رورل ایریاز میں بانٹا گیا۔ کیونکہ نئے آنیوالے مہاجروں کے پاس یہ زمینِ نہیں تھیں۔ وہ دو شہرون کراچی اور حیدر آباد میں بس گئے۔ اربن اور رورل کی تقسیم پہ رورل ایریاز کو آسان قانون دئیے جاتے اور اربن کو مشکل۔ اسکا سب سے زیادہ واضح اثر گورنمنٹ ملازمتوں میں نظر آتا تھا۔ اس طرح کے تفریقی قوانین اور دیگر بہت ساری چیزوں نے مل کر اسے ختم نہیں ہونے دیا۔ اس پہ میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکی ہوں۔ بڑے لوگوں نے بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ آپکو اسے پڑھنا چاہئیے۔ ابھی میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے جسکا نام ہے آشوب سندھ اور اردو فکشن۔ اسے سید مظہر جمیل نے لکھا ہے۔ اور مجھے اسے ابھی پڑھنا ہے۔
ثقافت کا فرق بہت نمایاں ہے۔ میرے ایک پنجابی دوست نے ایک دفعہ میرے پاس سے اٹھ کر جانیوالے صاحب کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کون صاحب تھے کافی دیر آپکے پاس بیتھے رہے۔ میں نے بات ٹالنے کی غرض سے کہا۔ ان سے پرانی آشنائ ہے۔ وہ آنرز سے میرے کلاس فیلو رہے ہیں۔ کہنے لگے ہمارے یہان آشنا کا صرف ایک مطلب ہے۔ اس پہ ہم دونوں ہی ہنسے۔ ہمارے یہاں تو آشنا کے کء مطلب ہیں اسی لئے تو فیض نے کہا کہ
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کیا سمجھے؟
بائیکاٹ کرنے والی بات محض میرا خیال یا بات برائے بات تھی چونکہ اسکا کوئ ثبوت نہیں اس لئیے میں اسے واپس لیتی ہوں۔
ReplyDelete:(
جیساکہ میں نے بتایا کہ میرے تقریبا سارے رشتے دار وہی ہیں تو میں وہاں گئ اور وہان پھر جانا چاہونگی۔ میرے والد صاحب نے پاکستان اس لئیے ہجرت نہیں کی تھی کہ وہ مسلمان تھے اور ہندو انہیں پریشان کر رہے تھے بلکہ انکے والدین نے انکی شادی خاندان میں ایک ایسی خاتون سے طرے کر دی تھی جنہیں وہ پسند نہیں کرتے تھے۔
تو اب میرے وہاں جانے پہ اخلاقی طور پہ تو ایسی کوئ قباحت نہیں۔ کیا خیال ہے؟
آپ پھر اپنی ہی بات کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پنجاب آءووں تو یہ میرے پنجابی میزبان ہیں جو کسی انجان جگہ پہ میراتعارف اردو اسپیکن اور اپنا پنجابی کی حیثیت سے کراتے ہیں۔ اب آپ بتائیں اردو تو آپ بھی لکھتے پڑھتے اور بولرتے ہیں۔ پھر میں کیوں اردو اسپیکنگ کہلاتی ہوں۔ اسکے بعد آج تک ایسا نہیں ہوا کہ پوچھنے والے نے یہ نہ پوچھا ہو کہ انڈیا میں آپکا تعلق کس جگہ سے ہے۔ یہ بات مجھے سمجھانے کی ضرورت تو نہیں آپ خود کو سمجھنی چاہئیے کہ لفظ مہاجر ہیان پہ دوسری قومیتوں نے ایک پہچان دی ہے۔ اب جبکہ کراچی میں لوگ آپکے کہنے سے پہلے خود کو مہاجر کہ دیتے ہیں تو آپکو اعتراض ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
سندھ میں وہ نہیں ہوا جو باقی جگہوں پہ ہوا۔ پنجاب میں زمینی ملکیت رکھنے والے پنجابی ہمیشہ زیادہ تعداد میں رہے اور ان میں کم لوگون کو شامل ہونا پڑا۔ نئے آنیوالون کے لئیے علحدہ سے کوئ قانون نہیں بنائے گئے۔ لیکن سندھ میں ایسا نہیں ہوا۔ سندھ کو اربن اور رورل ایریاز میں بانٹا گیا۔ کیونکہ نئے آنیوالے مہاجروں کے پاس یہ زمینِ نہیں تھیں۔ وہ دو شہرون کراچی اور حیدر آباد میں بس گئے۔ اربن اور رورل کی تقسیم پہ رورل ایریاز کو آسان قانون دئیے جاتے اور اربن کو مشکل۔ اسکا سب سے زیادہ واضح اثر گورنمنٹ ملازمتوں میں نظر آتا تھا۔ اس طرح کے تفریقی قوانین اور دیگر بہت ساری چیزوں نے مل کر اسے ختم نہیں ہونے دیا۔ اس پہ میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکی ہوں۔ بڑے لوگوں نے بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ آپکو اسے پڑھنا چاہئیے۔ ابھی میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے جسکا نام ہے آشوب سندھ اور اردو فکشن۔ اسے سید مظہر جمیل نے لکھا ہے۔ اور مجھے اسے ابھی پڑھنا ہے۔
ثقافت کا فرق بہت نمایاں ہے۔ میرے ایک پنجابی دوست نے ایک دفعہ میرے پاس سے اٹھ کر جانیوالے صاحب کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کون صاحب تھے کافی دیر آپکے پاس بیتھے رہے۔ میں نے بات ٹالنے کی غرض سے کہا۔ ان سے پرانی آشنائ ہے۔ وہ آنرز سے میرے کلاس فیلو رہے ہیں۔ کہنے لگے ہمارے یہان آشنا کا صرف ایک مطلب ہے۔ اس پہ ہم دونوں ہی ہنسے۔ ہمارے یہاں تو آشنا کے کء مطلب ہیں اسی لئے تو فیض نے کہا کہ
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کیا سمجھے؟
کیا سمجھا؟
ReplyDeleteکچھ بھی نہیں
:D