اخوان الصفاء نے اپنے فرقے میں شامل لوگوں کو اس بات کا پابند کیا کہ انکی خاص مجالس ہوں۔ اوقات معینہ پہ ہونے والی ان مجالس میں کوئ اجنبی شرکت نہ کرے۔ اس میں وہ اپنے علوم پہ بحث کریں اور انکے اسرار پہ گفتگو ہو۔انکی بحث کے موضوعات علم نفس، حس محسوس، عقل معقول کے علاوہ کتب الہٰیہ، تنزیلات نبویہ کے اسرار اور مسائل شریعت کے معنی نیز ریاضی، عدد ہندسہ، نجوم، تالیف ہوا کرتے تھے۔
اپنے پیروکاروں کے لئیے انکا کہنا تھا کہ کسی علم سے نفرت نہ کریں، کسی کتاب کا مطالعہ ترک نہ کریں اور نہ کسی مذہب سے تعصب برتیں۔ کیونکہ اخوان الصفاء کا مذہب تمام مذاہب پہ حاوی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اس فریبی دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو علماء کا جامہ پہن کر اہل دین کا دھوکا دیتے ہیں وہ نہ فلسفے سے واقف ہوتے ہیں اور نہ شریعت کی انکو تحقیق ہوتی ہے۔ آگے ان لوگوں کی مزید خصوصیات بیان کرتے ہوئے جو کہ اس مضمون کو طویل کر دیں گی وہ کہتے ہیں ان لوگوں سے احتراز کیا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ فرسودہ بوڑھوں کی اصلاح میں کوشاں نہ ہوں۔ یہ لوگ بچوں جیسے فاسد اور ردی خیالات رکھتے ہیں اور تمہیں پریشان کریں گے۔ اور اپنی حالت کی اصلاح بھی نہ کریں گے۔ نصیحت سلیم الطبع نوجونوں کے لئے ہے۔ اللہ نے ہر نبی کو نوجوانی میں نبوت عطا فرمائ اور اپنے ہر بندے کو اس وقت حکمت دی جب وہ عالم شباب میں تھا۔
اخوان الصفاء نے اپنے پیروکاروں کے عمر کے حساب سےچار درجے متعین کئیے۔
اہل صنعت؛ انکی عمر پندرہ سال کے قریب، یہ پہلے مرتبے کے لوگ ہیں جنکی خصوصیات، نفس کی صفائ، حسن قبول، اور سرعت تصور ہے۔ انہیں 'ابرار'کہا جاتا تھا۔
اہل سیاست؛ انکی خصوصیات بھائیوں کی مراعات، سخاوت نفس، شفقت، رحم ہیں۔ یہ خصوصیات تیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس مرتبے کے لوگوں کو 'اخیار اور فضلاء' کہا جاتا تھا۔
بادشاہ؛ یہ تیسرا مرتبہ تھا جو چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا تھا اسکا تعلق امر و نہی امداد، دفع عناد اور دشمن سے مقابلے کے وقت اسکی مخالفت کو نرمی، لطف اور مدارت کے ذریعہ دفن کرنے پہ ہے۔ انہیں 'فضلائے اکرام' بھی کہا جاتا تھا۔
نبی اور فلسفی؛ یہ تسلیم اور تائید الہی کو قبول کرنا اور حق تعالی کا اعلانیہ مشاہدہ کرنا ہے۔ چونکہ معراج کا واقعہ لگ بھگ اسی عمر میں ہوا تھا تو یہ پچاس برس کی عمر والوں کو تفویض کیا گیا۔ اسکے ذریعے انسان عالم ملکوت کی جانب پرواز کرتا ہے اور قیامت کے حالات جیسے نشر، حشر، حساب، میزان، صراط، دوزخ اور خدائے تعالی کے قرب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انکو ملائکہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ فیثا غورث نے اپنے رسالہ ذہبیہ کے آخر میں اسی طرف اشارہ کیا کہ۔'اگر تو میری ہداہت پہ عمل کرے تو جسد سے علیحدہ ہونے کے بعد ہوا میں باقی رہیگا۔ نہ تو پھر اس دنیا میں لوٹے گا نہ تجھ پہ موت کا حملہ ہو گا'۔
تو جناب میں اخوان الصفاء کے فلسفے کی تفصیل میں جائے بغیر ان کی یہ دلچسپ کہانی یہاں ختم کرتی ہوں۔ لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان کی عقلی قوتوں کو کھنگالنے کا کام آ ج سے ہزاروں برس پہلے بھی کیا گیا اور خود مسلمانوں میں سے بھی کئ گروہ اس طرف تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود متوجہ ہوئے۔ اب ہمیں سرسید کی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے یوروپ کے دور تاریک اور وہاں پیدا ہونے والے رد عمل پہ ضرور نظر ڈالنی چاہئیے کہ یہ ہمارے ایک مبصر کی صائب رائے ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں سوچتی ہوں کہ اپنے کچھ قارئین کی دل پشوری کا سامان کروں کہ وہ تھک گئے ہونگے۔ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ دنیا آواتار دیکھ رہی ہے اور آپ اخیار کا تذکرہ کر رہی ہیں۔
کتاب 'تاریخ فلاسفۃ الاسلام'، مصنف محمد لطفی جمعہ۔
اوتار اور اخیار الفاظ کا اکٹھا استعمال حس مزاح کا ایک مزیدار اطہار ہے
ReplyDeleteآپ چلنے دیں جی۔۔ طوالت کی فکر نا کریں۔۔ دلچسپی کا کافی سامان ہے۔۔ اگر کتابیں اسطرح ہوں کہ آن لائن امیزون وغیرہ کے لنک یا آئی ایس بی این وغیرہ بھی دستیاب ہو جائیں تو ہم تن آسان لوگوں کے لیے مزید تن آسانیوں کا سامان ہوجائے گا۔
ReplyDeleteشکریہ ریاض شاہد صاحب۔
ReplyDeleteراشد کامران صاحب، میں سوچتی ہوں کہ کوئ ایسا طریقہ ہو سکتا ہے کہ کتابیں اسکین کر کے انکی پی ڈی ایف فائل بنا کر ایک ویب ساٹ پہ ڈالدیا جائے۔ لیکن فی الحال مجھے اس طرح کی اسکین کی ہوئ فائل کی پی ڈی ایف فائل بنانی نہیں آتی۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اردو بلاگرز اس طرح اپنی ایک لائبریری بنا لیں۔
یہ بالکل ممکن ہے لیکن صرف اس صورت میں جب کہ کتاب کو عوامی ملکیت تسلیم کرلیا گیا ہو ورنہ شاید مروجہ کاپی رائٹس کے قوانین وغیرہ آڑے آتے ہیں۔ کیونکہ اب تو کم و بیش تمام اسکینر براہ راست پی ڈی ایف اسکین کرلیتے ہیں لیکن یہ بڑا صبر آزما کام ہے۔۔
ReplyDeleteراشد کامران صاحب، تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم نیٹ پہ اپنی کوء ذاتی لائبریری بنا لیں اور اس میں صرف پاس ورڈ کے ذریعے ہی کوئ آ سکتا ہو۔ یا اس سے بھی کاپی رائٹ ایکٹ متائثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ مجھے یاد آیا کہ عمیرہ احمد کے ناول میں نے نیٹ پہ کسی انکے فین کے کلیکشن میں پڑھے تھے۔ کمرشل ناولز کے اوپر کون پیسے خرچ کرے۔ اور اگر وہ مفت میں پڑھنے کو ملیں تو کیا برائ ہے۔ البتہ سنجیدہ اور ادبی نوعیت کی کتابیں پاس رہیں تو حوالے چیک کرنے کے کام آتی رہتی ہیں۔ بہر حال کیا ایسا ممکن ہے۔
ReplyDeleteاس موضوع پر مزید تحریروں کا انتظار ہے
ReplyDelete