Friday, February 12, 2010

فلائینگ کوئین، نسیم حمید

مجھے انڈین فلم چک دے انڈیا بہت پسند ہے۔ وجہ اسکی فلم میں شاہ رخ خان کی موجودگی نہیں ہے بلکہ فلم کی کہانی ہے جو انڈیا کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھلاڑیوں  کی کہانی ہے۔ جن میں ایک مرد کوچ اپنی تربییت سے  وہ مہارت اور جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ وہ ہاکی کے ورلڈ کپ میں ایک ٹیم کے طور پہ اپنے ملک کی پہچان بن جاتی ہیں اور دنیا بھر میں اسکے فخر کا باعث۔
یہ کہانی شاید فلمی ہی لگتی، اگر نسیم حمید یہ ثابت نہ کر دیتی کہ دراصل دنیا میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا اور اگر انسان اپنے ہدف جانتا ہو اورانکے حصول کی کوشش کرے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اپ پاکستان جیسے ملک کے پسماندہ علاقے میں رہتے ہیں۔ جہاں خواتین کی تعلیم کو عیاشی سمجھا جاتا ہے اور انکے کھیلنے کو غیر اسلامی۔
مجھے یاد ہے کہ اب سے چند سال پہلے لاہور میں ایک میراتھن ہونے والی تھی جس میں بھاگنے والوں کے تمام اہل خانہ کی شرکت متوقع تھی۔ لیکن اسکے خلاف ایک مہم چلادی گئ۔ معاشرے کے ایک طبقے کے نزدیک یہ وطن میں اخلاقی قدروں کے لئے لڑنے والا جہاد بن گیا۔ حالانکہ یہ صرف ایک دوڑ تھی۔ معاشرے میں اگر صحتمندانہ سرگرمیوں کے لئیے جگہ نہ چھوڑی جائے تو یہ توانائیاں نہ صرف کسی غیر پیداواری سرگرمی میں خرچ ہونے لگتی ہیں۔ بلکہ نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتی ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں کھیل تعلیم کا حصہ ہوتے ہیں اور ہر طالب علم کو کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لینا ہوتا ہے۔
 کھیل انسانی توانائیوں کو نہ صرف مثبت طریقے سے سے خرچ کرنے کا نام ہے۔ بلکہ یہ انسان میں دیگر خواص بھی پیدا کرتے ہیں جیسے جہد مسلسل، برداشت، باہمی تعاون،اور باہمی میل جول کے طریقے۔
بہر حال کراچی سے تعلق رکھنے والی اس فلائنگ کوئین نے نہ صرف اس شہر کے باسیوں کا سر اونچا کیا ہے بلکہ وہ پاکستانی خواتین کے لئیے کامیابی کا ایک نیا نشان بن کر ابھری ہیں۔ انہیں ہم سب کی طرف سے اس کامیابی کی مبارکباد۔ اسکے ساتھ ہی وہ تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس بائیس لڑکی کو وہ آسانیاں فراہم کیں کہ وہ ہم سبکی فخر کا باعث بنی۔
 اگرچہ کہ یہ حق نسیم حمید کا ہے کہ وہ پیغامات دیں۔ میں انکی کامیابی کی ترجمان بن کر نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں  کہ کچھ کرنے کا موقع آج ہی کا ہے۔ ہر عہد اپنے نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ ہم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے کا کام کر گئے۔ یہ ہمارا عہد ہے اور ہمیں یہ ثابت کر دینا چاہئیے کہ ہم تمام ترمشکلوں کے باوجود اسے بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم انسانی فکر کی اس آزادی پہ یقین رکھتے ہیں جو انسانوں کو اپنے ماحول سے آگاہ کرتی ہے اور جو اسے دوسرے انسانوں کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ہم اس قابل ہیں کہ اپنے لوگوں کو اپنے ملک کو ایک نئ پہچان دیں۔
تندی ء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ توچلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئیے
تو پھر اپنے پر، پرواز کے لئیے کھول دیں۔ بلندی کی کوئ حد نہیں ہے۔

حوالہ؛
نسیم حمید

نسیم حمید کی کہانی

22 comments:

  1. بہت قابل قدر کام کر دکھايا ہے جسکی جتنی بھی تعريف اور سپورٹ کی جائے کم ہے-

    البتہ يہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ اگر نسيم پہ بھی جہادی کا ٹھپہ لگا ہوتا تو ہمارے پنجابی اور مولوی بلاگر بھی نسيم کی مدح ميں ٹوٹ ٹوٹ کے پڑ رہے ہوتے جہاں فالوقت خاموشی چھائی ہوئ ہے-

    ReplyDelete
  2. گمنام، دراصل اس طرح پوسٹس بھی ایک امتحان ہوےی ہین۔ لکھنے والے کا نہیں پڑھنے والے کا۔ اور اگر محض اس بلاگ پہ لکھی جانیوالی تحریروں کے تبصرے سے گذرا جائے تو معاشرے کی ایک عمومی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور میرا اب تک کا اندازہ یہ ہے کہ اگر خواتین کے بارے مین کوء بھی سنجیدہ بات کی جائے تو ایسی ہی خاموشی ہوتی ہے۔ البتہ اگر کترینہ سے عشق کی داستانیں سننی ہوں یا خواتین کی مشہور عادتوں کے متعلق جاننا ہو تو پھر بڑی سرگرمی نظر آتی ہے۔ اگر نسیم نے یہ ریس سر پہ اسکارف پہن کر جیتی ہوتی تو کوئ بات ہوتی۔ ابھی تو زیادہ تر لوگ کنفیوز ہونگے کہ کہیں یہ غیر اسلامی امر تو نہیں تھا اور کہیں ہم اسکی تعریف کر کے دوزخی نہ ہوجائیں یا کہیں ہمارے اس عظیم تبصرے سے ملک میں بے حیائ اور فحاشی کے نئے باب نہ کھل جائیں۔ احتیاط اچھی چیز ہے۔ خاص طور پہ خواتین کے متعلق اور خاص طور پہ ایسی چیز کے متعلق جو روایات سے ہٹ کر ہو۔ کیونکہ مسلمان قوموں کی عزت کی رکھوالی صرف خواتین اور انکا اسکارف ہے۔

    ReplyDelete
  3. بہت ہی اعلی کارکردگی۔۔ اور اگر ٹاپ ایتھلیٹس کے سو میٹر سے مقابلہ کریں اور ان کو دستیاب سہولیات کا جائزہ لیں تو حیرت سے زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔۔ لیکن میرے ذہن میں حسین شاہ کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے۔۔ بہر صورت جب کہ ہمارے مین اسٹریم کھیل میں ہاتھوں کے بجائے دانتوں کا استعمال ہورہا ہے اس بچی کی کامیابی امید کی کرن ہے کہ کرکٹ کے علاوہ بھی کھیل ہیں جنہیں کھیلا جاسکتا ہے اور جن پر توجہ دینی ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  4. نسیم حمیدنے ثابت کردیاہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، اگراسے تعصب اورامتیازسے بالاترہوکرآگے لایاجائے توغریب بستیوں کے کچے گھروں میں موجودٹیلنٹ بھی ملک کووکٹری اسٹینڈپر لاسکتاہے اورپوری دنیا میں ملک کانام روشن کرسکتاہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ ساوٴتھ ایشین گیمزمیں ملک کو تاریخی کامیابی سے ہمکنارکرنیوالی ایتھلیٹ نسیم حمیدکوخصوصی انعامات سے نوازاجائے اور نسیم حمیداوران جیسے تمام کھلاڑیوں کی مالی معاونت اورحوصلہ افزائی کی جائے۔

    ReplyDelete
  5. ہمت ہو تو انسان بہت کچھ کر سکتا ہے

    ReplyDelete
  6. بی بی !
    آپ نے ایک اچھی تحریر لکھی۔ ورنہ میں سمجھا تھا آپ اسمیں بھی لیاری کا ذکر لے بیٹھیں گی۔تحریر اچھی تھی۔ بہت سی مثبت باتوں کو آپ نے مثت انداز میں بیان کیا ۔ خاص کر نوجوانوں کے لئیے ، مثبت طریقے سے ، کچھ کر کے دکھانے کا پیغام ، بہت عمدہ تھا مگر غیر ضروری طور پہ اس میں لاہور کی میراتھن کا سیاق و سباق سے ہٹ کرذکر کرنا مناسب نہیں تھا۔

    آپ کی اپنی اس تحریر کے تبصرے میں آپ کے یہ الفاظ "ابھی تو زیادہ تر لوگ کنفیوز ہونگے کہ کہیں یہ غیر اسلامی امر تو نہیں تھا اور کہیں ہم اسکی تعریف کر کے دوزخی نہ ہوجائیں یا کہیں ہمارے اس عظیم تبصرے سے ملک میں بے حیائ اور فحاشی کے نئے باب نہ کھل جائیں۔ " کسی طور پہ زیب نہیں دیتے۔ بی بی نسیم حمید کو فلائینگ کوئین قرار دیتے ہوئے بلاوجہ غیر ضروری طور پہ سیاق و سباق سے ہٹ کر اکثریت کی سوچ کا ٹھٹھا اڑایا ہے۔ جسے کسی طور درست نہیں کہا جاسکتا۔ آپ مسلمانوں کو یعنی پاکستانی مسلمانوں کو جو حجاب ،نقاب اور پردے پہ یقین رکھتے ہیں، خواہ وہ آپ کی نظر میں کس قدر ہی غلط اور فرسودہ ہوں۔ مگر وہ پاکستان کی بہت بڑی اکثریت ہیں اور آپ جیسی "روشن خیال " سوچ رکھنے والے نہائت قلیل تعداد میں معمولی سی اقلیت ہیں ۔ اور جمہوریت کے زریں اصولوں کے تحت بھی ، اقلیت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اکثریت کا مذاق اڑائیں اور علم کا بوجھ اٹھانے کا دعواہ رکھنے والوں کو تو قطعی طور پہ یوں نہیں کرنا چاہئیے۔ ایک سادے سے موضوع پہ لکھتے ہوئے ہر صورت انکی ٹانگ کھینچیں ۔ اگر آپ کی نظر میں لاہور میراتھن اور اسکارف و حجاب کا مطالبہ کرنے والا "طبقہ" درست نہیں اور صرف آپکی خالص اپنی سوچ ہی درست ہے تو بھی آپ اس" طبقہ" کو ہر وقت ہر بہانے سے انھیں موضوع بنا کر اور لگے ہاتھ اسلامی اقدار کا ٹھٹھا اڑانا فرض سمجھتی ہیں۔ ممکن ہے آپ کی ذہن میں اسلام کی کوئی "خاص تعریف "ہو مگر جب آپ ایک اکثریت کے رہن سہن کے انداز کو مشق سخن بناتی ہیں تو یقن مانئیے آپ بھی وہی قدم دہرا رہی ہوتی ہیں جس قدم کی آپ ایسے "طبقہ" سے شاکی ہیں ۔ اگر آپ کی نظر میں وہ اکثریتی " طبقہ" اپنی اقدارکی حفاظت کے لئیے فرسودہ حرکتیں کرتا ہے تو آپ کا ہر وقت "اسلامی" کہہ اور لکھ کر سب کو رگیدنا بھی متحسن قدم نہیں ۔ اس وجہ سے آپ کی تحریر سے وہ تاثر زائل ہوجاتا ہے جوتاثرپیدا ہونا چاہئیے تھا۔

    بی بی! پتہ نہیں ہمیں اپنے بارے میں کیوں یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ لوگ ہم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں پا رہے۔اور ہمیں "تبصرہ جات"اسلئیے نہیں نواز رہے کہ اس سے انھیں الزام تراشی کا سامنا وغیرہ ہوگا۔ دیکھنے والے نہ ہوں تو حسن کا دعوایٰ کرنے والے دیواروں سے سر پھوڑ لیں۔ بلاگ پہ تبصرہ کرنے والے نہ ہوں تو چار چھہ پوسٹوں کے کے بعدبلاگ کی دکان بڑھا لی جاتی ہے۔ اپنے مبصروں کی قدر کریں۔
    اپنے بلاگ کی رونق بڑھانا چاتی ہیں تو مثبت انداز اپنائیں۔بی بی سی کی طرح مسلمانوں کی ہر شئے کو عمومی اور پاکستان کے مسلمانوں کی سوچ ، انداز، رہن سہن، ثقافت ورثہ ، مذہب ہر شئے کو ہر صورت خصوصی طور پہ متنازعہ بنائے بغیر بھی بلاگ کے قاری بڑھائے جاسکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے ۔ آپ مثبت انداز اپنا کر تو دیکھیں۔ آپ دیکھیں گی کہ انٹر نیٹ کی مختصر سے دنیا کے گنتی کے باسی کس طرح آپ کے خاموش قاری بنیں گے اور بہت سے آپ کی تائید و حمایت بھی کریں گے۔

    ReplyDelete
  7. ۔۔۔ انٹر نیٹ کی مختصر سے دنیا ۔۔۔
    سے مراد ۔۔۔ انٹر نیٹ کی۔۔اردو کی۔۔ مختصر سی دنیا ۔۔۔ ہے
    ازراہِ کرم ،مندرجہ بالا میں ۔۔ اردو کی۔۔ الفاظ کا اضافہ شامل کر کے پڑھا جائے

    ReplyDelete
  8. جاوید صاحب، اپ نے کہا کہ ملک کی اکثریت حجاب چاہتی ہے۔ ملک کی اکثریت ان دیہاتوں میں رہتی ہے جہان زمینوں پہ ہل چلتے ہیں اور جہاں خواتین اس کھیتی باڑی مین اپنے مردوں کے ہمراہ میدانوں کی سختیاں اٹھاتی ہیں۔ میں نے آج تک حجاب پہنی ہوئ خاتون کو ہل چلاتے نہیں دیکھا۔ یہ آپ اور آپ جیسے لوگوں کی خواہش ضرور ہو سکتی ہے لیکن یہ انکے دلوں کی آواز نہین۔ کیونکہ آپ اسی علامت کو اختیار کرنے پہ زور دیتے ہیں جہان اسکارف پہننے والی خاتون کی شرم کو سلام کرنے والے مرد انہین سلام کرتے ہیں اور پھر گوگل سرچ پہ بیٹھ کر فحش ترین سائیٹس کا دیدار کرتے ہیں۔
    مجھے اپنے اس خاموش قاری سے کچھ نہیں چاہئیے جس کی انگلیاں صرف اس وقت حرکت میں آئیں جب اسکے اسلام کو خطرہ ہو۔
    جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ میں اسی چیز پہ لکھنا پسند کرونگی جسے پس
    ند کرتی ہوں۔ جو اپنے نظریات کی ترویج چاہتے ہیں وہ تبصرہ کریں یا خود اپنا بلاگ بنائیں۔ در حقیقت اس وقت بھی آپنے تو میرے تبصرے کے بعد لکھنا ضروری سمجھا، اسکی رد میں۔ ورنہ اس ٘وضوع سے آپکی کوئ دلچسپی نہیں تھی۔
    یہ بات کہ پاکستانی مسلمانوں کی ثقافت اور انکے رہن سہن کو میں متنازعہ بناءووں ، انکا یہ انداز پہلے ہی متنازعہ ہے اور وہ اسکی قیمت اچھی طرح وصول کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے اس ثقافتی فخر سے باہر نکل کر اگر مذہب کو اپنانا ہے تو اس پہ سے ثقافت کی چھاپ ختم کرنا ہوگی۔ اور اس طرف سے سبق شروع کرنا ہوگا جہاں سے مسلمانوں نے اپنا زوال شروع کیا۔ اس تمام زوال کی بالکل صحیح وجوہات کو جاننا ہوگا اور اس جمود کو جو تقلید پسندوں نے نافذ کیا ہے اسے ہٹانا ہوگا۔ ورنہ میرے ساتھ اور میرے بعد بولنے والوں کی کمی نہیں ہوگی۔ یہ یاد رہے کہ میں اس بولنے والوں میں کوئ پہلی نہیں، یہ وہ موضوع ہے جس پہ ہر دور میں لوگوں نے آواز اٹھائ، بالخصوص وہ جنہوں نے مذہب کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی وہ نہیں جنکی دوڑ اپنے گھر سے مسجد تک رہی راستے میں بے پردہ خواتین پہ لا حول بھجتے ہوئے۔

    ReplyDelete
  9. اتنی اچھی خبر پر بھی آپ نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ ہی لئے
    :mrgreen:
    اتنا مت کڑھا کریں کہ آپ کے گھر دیواریں دھویں سے بالکل سیاہ ہوجائیں
    D:

    ReplyDelete
  10. جعفر صاحب، اتنی اچھی خبر آپکے لئیے نہیں ہے انکو سنا رہی ہوں جنہیں ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ خواتین دوپٹہ سر پہ نہیں اوڑھتیں، گھر میں نہیں رہتیں، دل میں پھپھولے کیوں پالتی ہیں۔ جبکہ قدرت نے دل انہیں نہیں صرف ہمیں دیا ہے۔ بات صرف اتنی کہنی تھی کہ آکے یہ اندازے کتنے غلط ہیں اور اسکا ایک ثبوت نسیم حمید ہے۔
    آپ اتنا نہ ہنسا کریں کہ گھر کی دیواروں میں شگاف پڑ جائیں۔ دھواں تو پینٹ کرنے سے، رگڑنے سے صاف ہوجاتا ہے مگر شگاف بڑی مشکل سے بھرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  11. بی بی!

    نیچے ایک تصویر جو جنگ کے بارہ فروری کے ایڈیشن میں چھپی ہے ۔ اسکا رابطہ لنک بھیج رہا ہوں۔ جس میں بی بی نسیم! کی اماں نے سر پہ دوپٹہ جما رکھا ہے اور اپنی بیٹی کی جیت کی خوشی میں انکا منہ چوم رہی ہیں۔ گو کہ فرطِ جذبات میں انکا دوپٹہ کچھ نیچے دھلک آیا ہے مگر تصویر میں وہ دوپٹہ جسے آہ فرسودہ روایات اور غیر اسلامی قرار دینے پہ مصر ہیں۔ وہ دوپٹہ سر پہ جما نظر آتا ہے۔ اب ذرا اس بارے بھی آپ کوئی فتویٰ صاد فرما دیں کہ نسیم حمید نے تو خوب کیا مگر انکی اماں کو آپ والا اصلی اسلام سمجھانے کی ضرورت ہے۔

    بی بی! آپ نے ایک نیا لطیفہ بیان کیا ہے کہ "ملک کی اکثریت ان دیہاتوں میں رہتی ہے جہان زمینوں پہ ہل چلتے ہیں اور جہاں خواتین اس کھیتی باڑی مین اپنے مردوں کے ہمراہ میدانوں کی سختیاں اٹھاتی ہیں۔ میں نے آج تک حجاب پہنی ہوئ خاتون کو ہل چلاتے نہیں دیکھا۔ یہ آپ اور آپ جیسے لوگوں کی خواہش ضرور ہو سکتی ہے لیکن یہ انکے دلوں کی آواز نہین۔ " بی بی! پاکستان کی تقریباََ اسی فیصد آبادی زراعت پیشہ ہے۔ اور انکو گوگل سرچ انجن میسر نہیں کہ وہ اپنی عزت مآب خواتین سے اسطرح کی خواہشیں نہیں کرتے اور نہ ہی انھیں اسطرح کی خواہشیں اٹھتی ہیں وہ سیدھے سادے لوگ ہوتے ہیں اے کاش یہ سادگی ہماری عیار اور مکارانہ فطرت رکھنے والی ایلیٹ کلاس میں بھی ہوتی جس نے ہماری قوم کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔ اور آپ کی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ خواتین ہل نہیں چلایا کرتیں خواہ وہ حجاب پہنیں یا نہ پہنیں یہ خالصتاََ مرد حضرات کا کام ہے اور وجہ اسکی یہ نہیں کہ اس سے مرد کا دُبدبہ قائم ہوتا ہے بلکہ یہ خاصا مشقت طلب اور حوصلہ آزماء کام ہے اور خواتین کی قدرتی طور پہ کم جسمانی طاقت کی وجہ سے تقریباُُ ناممکن ہے۔ یہ وضاحت اسلئیے کردی ہے کہ کہیں اگلے الفاظ میں آپ مردوں کی شان میں دبددبے کے حوالے سے اپنے زریں فرمودات نہ بیان فرما دیں۔
    اب تصویر دیکھیں۔
    http://www.jang.com.pk/jang/feb2010-daily/12-02-2010/topst/pic01.gif
    ۔۔۔جاری ہے،۔۔۔

    ReplyDelete
  12. ۔۔گزشتہ سے منسلک ۔۔
    بی بی!
    آپ کے دلائل کے قربان جانے کو دل کرتا ہے ۔ آپ کہتی ہیں کہ جو لوگ باپردہ بیبیوں کی شرم کو سلام کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی گوگل پہ فحش ترین سائٹس دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بی بی! کبھی کبھار مردوں کے بارے میں بہحیثیت مجموعی اسقدر وثوق سے شرمناک الزامات سے یہ سوال اٹھتا ہے آخر وہ کونسی قسم کے مرد ہیں جن کے ساتھ آپ کا واسطہ رہتا ہے اور کیونکر وہ آپ کو اسطرح کے راز آشکارا کر دیتے ہیں۔ کیونکہ آپ کے وثوق اور اس قسم کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ آپ شاید اس سارے معاملے کی شاہد ہوں؟۔ ایک اور دلیل جس جسکا آپ نہائت شدومد سے اکثر ذکر کرتی ہیں اور بات کو خاص طور پہ الجھانے کے لئیے اکثر کرتی ہیں تانکہ خواتیں قاریوں کی ہمدردی سمیٹ سکیں اور وہ ہے سب مردوں کو بغیر کسی وجہ سے پھٹکارنا شروع کر دینا جبکہ کم ازکم میری نظر میں سے آپ کا کوئی ایک قاری کوئی ایسا تبثرہ کرتے ہوئے نہیں پایا گیا جس میں کسی پہلو سے خواتین کی اہانت ہو۔ اگر کسی نے کبھی لکھا ہوگا تو وہ نہائت قلییل تعداد کے لوگ ہونگے ۔، موضوع اگر" کالا شا کاکُو" کو صوبہ بنایا جانا یا نا بنایا جانا ہو اور آپ مردوں کو کوسنا شروع کر دیں تویہ دلیل بھی دلیل کے زمرے میں نہیں آتی۔ دلائل میں آپ کی ایک دلیل عموما یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ کراچی جانتے نہیں یا آپ نے کراچی کے پُل وغیرہ نہیں دیکھے یا مزید آپ یہ تصور کئیے بیٹھی ہیں کہ ہر کسی خاتون کی مدد کر والے مرد کے پیشِ نظر مدد کے بعد اس خاتون سے معاملات خصوصی انداز میں بڑھانے ہوتے ہیں جس کی خاطر وہ مرد مشکل یا پریشانی کی شکار خاتون کی مدد کرتا ہے۔ اللہ رے یہ خوش فہمی ۔المختصر اپکے مذید دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنا سا عرض کرنا ہے کہ اسطرح کی جذباتی باتیں کالج یونیورسٹی کی حد تک تو کچھ مخصوص قسم کے اپنے ساتھیوں کے جذبات کو تو اپیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی ایسے فورم پہ جہاں لوگ کسی بھی نامناسب سمجھنے والی بات پہ استفسار کے لئیے ہاتھ کھڑا کر دیں وہاں اسطرح کی باتوں کو نہائت جذباتی سمجھا جاتا ہے۔

    یہ ساری تفضیل کی ضرورت اسلئیے پیش آئی کہ آپ آجکل ابن رشد، رازی ، کندی وغیرہ پڑھ رہی ہیں اور غالبا ان سے انسپائر ہورہی ہیں اور اخوان الصفاء کے عقیدے کا بہت باریکی سے تجزیہ کر رہی ہیں ۔ شاید بہت سے قارئین کے علم میں نہ ہو کہ اخوان الصفاء عقیدے کی بہت سی تعلمیات اسماعیلی فرقے میں پائی جاتی ہیں ۔ اسماعیلی فرقے کی تعلیمات اور طریقے کا مشاہدہ کر لینے سے اخوان الصفاء کا مذہب آشکارا ہو جاتا ہے۔ بی بی! اور شاید اسی تناظر میں آپ نے عام مسلمانوں کو تقلید پسند کی نئی چھاپ لگا کر اپنے آپ کو جدت پسندوں میں شمار کرتے ہوئے مسلمانوں پہ صدیوں سے طاری جمود کو توڑنے کی کوشش کا دعوٰی کیا ہے۔ بی بی! اس ضمن میں نہائت احترام سے عرض ہے کہ ابن رشد کندی و رازی و رومی کو پانے کے لئیے ابھی آپ تربیتی مرحلے سے گزر رہی ہیں اور آپ کے قارئین بھی اپنے تلخ و تند تبصروں سے آپ کی تربیت میں حسہ لے رہے ہیں جس کے لئیے ابھی آپ نے تحمل کے بنیادی جز کا اپنایا نہیں باقی اجزاء صبر ، مشقت ، جہدِ ،مسلسل الغرض ریاض کی انتہاء تک تو اس ترکیب ِ خاص کے بہت سے مرحلے باقی ہیں۔ پھر جا کر لوگ آپ کی بات سننے کے لئیے بے تاب ہوتے ہیں ، اور تب بھی صرف وہی ہوتے ہیں جنہیں آپ اپنا آپ سمجھا سکتی ہیں۔

    ہمیں آپ سے بہت سے امیدیں وابستہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ آپ ایک بہت اچھی بلاگر ثابت ہونگی اور اچھی رائٹر بھی مگر آپ بھی اپنی بات لکھنے کے بعد اسے ایک مرتبہ پڑھ لیا کریں کہ کہاں کہاں آپ دوسروں پہ بغیر وجہ سنگباری کر رہی ہیں جبکہ ایک اچھے لکھنے والے یا اچھے خطیب کو تو وجہ ہوتے ہوئے بھی اس قدم سے باز رہنا چاہئیے۔ آپ نے وہ لطیفہ تو سن رکھا ہوگا کہ کسی اڑیل انسان کو اگر زبردستی کہا جائے چلو جنت میں تو وہ اڑ جائے گا کہ "کیوں زبردستی ہے کیا بس نہیں جاتا ایسی جنت میں"۔ تو بی بی! کچھ اسی طرح کا معاملہ اور ضد ہماری قوم کا ہے کہ اگر آپ اپنی دانست میں جائز بات بھی زبردستی ٹھونسیں گی تو لوگ اڑ جائیں گے کہ "نہیں مانتے اور جاؤ بی بی! کر لو جو کرنا ہے"۔ تو بی بی اگر ہمیں کچھ سکھنا چاہ رہی ہیں تو پہلے اپنی حکمت عملی بدلیں اور حلیمی ِ طبع اپنائیں، ورنہ ہم تو جائز بات پہ اڑ جاتے ہیں اور ناجائز؟ تو ہر گز نہیں۔

    اللہ آپ کو حوصلہ دے۔ آمین

    ReplyDelete
  13. گوندل صاحب برا نہ مانیئے گا لیکن ان تبصروں میں آپنے اپنی ذہنی غلاظت کا دل کھول کر مظاہرہ کیا ہے!
    آپ کی ان لغویات میں ایک بات بھی دلیل نہیں نری کج بحثی ہے اور گند،:( آپ جیسوں کے لیئے بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے دے انکو سمجھ اور یا دے مجھ کو زباں اور :sad:

    ReplyDelete
  14. ایک طرف تو ہماری لاڈلی کرکٹ ٹیم ہے اور دوسری طرف اس طرح کے لاوارث ایتھلیٹ جو بنا کسی سہارے کے خود کو منوا کر دکھا دیتے ہیں۔ اس سے پہلے باکسنگ میں حیدر علی نے بھی اپنے آپ کو منوایا تھا۔۔۔ پیاسے کے لئے پانی کی دو بوندیں ہی کافی ہوتی ہیں۔۔۔ شکر ہے ہمارا بھی کوئی کہیں سے جیت کر آیا۔۔۔

    ReplyDelete
  15. جاوید گوندل فرام بارسلونا صاحب
    اب آپ اپنا بلاگ بنا ہی ڈالیں ۔ آپ کی سائٹ دیکھی مگر نثر میں کچھ نظر نہیں آیا ۔ مجحے یقینن ہے کہ قارئین آپ کی تحاریر کو آپ کے "اپنے" بلاگ پر دیکھنا اور تبصرہ کرنا پسند کریں گے ۔
    مگر شاید آپ یہ نہیں کریں گے۔

    ReplyDelete
  16. جاوید صاحب، آپ آزاد ہیں کہ اپنے ذاتی بلاگ کو جیسے دل چاہے چلائیں اور جو دل چاہے کہیں اور بالکل یہی آزادی مجھے اپنے بلاگ پہ حاصل ہے۔
    آپ لوگوں کو یہ بات کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ کسی کی ماں نے سر پہ دوپٹہ اسلامی احکامات کے تحت رکھا ہوا تھا۔ زیادہ تر تو اپنی ثقافت کے تحت ایسا کرتی ہیں انکے خاندان اور انکی عمر کی سب ہی خواتین ایسا کیا کرتی تھیں۔ تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گذرا جب خواتین اپنے نام کو اپنی تحریروں کے اوپر نہیں لکھ سکتی تھیں اور انکی تخلیقات پہ کسی مرد کا نام ہوتا تھا۔ لیکن میں تو اس زمانے میں نہیں پیدا ہوئ۔ میری نانی دو نقابوں کا برقع ڈال کر چلتی تھیں لیکن اپنی نواسی سے تو انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم کتنا عظیم کام کرتے تھے اور تم نہیں کرتیں اور تم کس قدر باغی ہو۔ انہیں اس پہ کوئ اعتراض نہیں۔۔ اس نکتے پہ ہی آ کر لگتا ہے کہ یہ کس قدر جبر کی چیز تھی۔ آپ لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتے ہیں لیکن دوسرون پہ یہ الزام دہرتے ہیں۔ آپکو برا لگا گوگل سرچ کی رپورٹ کے نتائج سن کر ۔ کس دنیا میں رہتے ہیں آپ۔ یہاں کراچی میں بہت سارے انٹر نیٹ کیفے چلتے ہیں جن کی خدمات سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جنکو صرف ماءوس گھمانا یا چند مخصوص بٹن دبانا آتا ہے۔ اسکے لئیے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور جو تعلیم یافتہ مرد کرتے ہیں کیا وہ اس معاشرے کا حصہ نہیں۔
    میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ اپنی محدود دنیا کو ساری دنیا سمجھتے ہیں اگر آپ کراچی کو جاننا چاہتے ہیں تو آئیے بارسلونا سے کراچی آئیے۔ بارسیلونا میں بیٹھ کر آپ اس ٹریفک جام کا اندازہ نہیں کر سکتے جس پہ ملک کے موقر اخبارات اپنے ایڈیٹوریلز لکھتے ہیں۔ مجھے اس پہ فخر ہے کہ میں نے اس شہر میں جنم لیا اور اسکی گلیوں سے سرسری نہیں گذری ہوں۔ اپنی زندگی میں اسے شامل کیا ہے۔ میں یہ دعوی پاکست ان کے کسی اور شہر کے بارے میں بالکل نہیں کرتی۔
    آپ اپنی جانبداری میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ آپ نے اس مبصر کی بات پہ اعتراض نہیں کیا جو اس بات پہ زور دے رہے ہیں کہ آخر خواتین کو ہی یہ امداد کیوں ملتی ہے اور اپنی جانبداریت کی وجہ سے آپکا دماغ اس حد تک بند ہے کہ آپ نے میرے جواب کی تفصیل کو نہیں پڑھا۔
    اگر آپ سب کو میں یہ بتاتی ہوں کہ میں آجکل یہ پڑھ رہی ہوں تو اسکا یہ قطعی مطلب نہیں ہوتا کہ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کتاب بلاگنگ لکھنا شروع کرنے کے بعد اٹھائ ہے۔ یہ میرا بچپن کا شوق ہے۔ جس کے لئیے میں نے ہمیشہ ہر طرح کی قربانی دی ہے اور اس میں ایک ہی پیغام ہوتا ہے کہ میں پڑھتی ہون آپ بھی پڑھیں انسان میں اگر کچھ کرنے کی خواہش ہو تو وہ کسی دوسرے کو کچھ کرتا دیکھ کر ہی تحرک پا جاتا ہے۔ لیکن آپ شاید اس باریکی سے ناواقف ہیں۔
    باقی رہا اخوان یا ان سے منسلک تحریریں پہ تبصرہ انہیں متعلقہ پوسٹوں پہ دیں تو بہتر ہے۔ میں یہاں انکی تفصیل دینے کی پابند نہیں۔
    اگر آپ اپنےآپکو کھلے دماغ سے کسی تحریر پر سے گذرنے سے قاصر پاتے ہیں تو انہیں نہ پڑھیں۔ میں بھی جس چیز سے بہت زیادہ بیزار ہوتی ہوں اسے نہیں پڑھتی۔ بے فکر رہئیے، میں کوئ ابن رشد یا اخوان نہیں جسکے فلسفے سے لوگ متائثر ہو کر کوئ عظیم انقلاب لے آئیں گے۔ ہر انقلاب اپنے وقت مقررہ پہ آتا ہے۔ اور جب تک آپ کا ذہن نہیں کھلے گا یہ ملک اسی طرح اپنے بننے کی سزا اٹھاتا رہیگا۔
    میں تو آجکل قارئین کو اسی لئیے تاریخ میں شامل کر رہی ہوں کہ ماضی میں لوگوں کی بڑی تعداد ایسی گذری ہے جنہیں لوگوں نے کہا کہ ہم تمہاری نہیں سنتے کیا ان شخصیات کو اس سے کوئ فرق پڑاسب نے تندہی سے اپنا کام کیا اور چلے گئے۔۔ علم ہر شخص اپنے حصے اور لگن کا حاصل کرتا ہے۔
    رہا مردوں سے نفرت کا معاملہ ، یہ بھی ایک خاص طبقے کے ذہن ہی میں ہے ورنہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ مردوں کو اس پہ بالکل اعتراض نہیں کونکہ وہ سمجھ کے اس درجے پہ ضرور ہیں جہاں میں ہوں۔ اور میری باتوں سے انہیں اختلاف ضرور ہوگا مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں کہہ کیا رہی ہوں۔ افسوس آپ اس سے محروم ہیں۔ تو آپ اپنے اس بند کمرے سے باہر آجائیں۔
    جہاں اڑنے کا سوال ہے فی الوقت تک تو میں نے ناجائز پہ ہی اڑتے دیکھا ہے، کیا یہ میری حسرت رہے گی کہ جائز پہ بھی اڑیں۔

    ReplyDelete
  17. آپ نے ثقافت کی بات بھی خوب کہی ۔ ہندو عورتیں ماضی قْریب تک دوپٹہ سر پر رکھتی تھیں ۔ مگر ہندو عورتوں کی نشانی یہ ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے برعکس الٹی طرف بکل مارتی تھیں ۔
    میرے نینھیال کے گاوں کی عورتیں محض چند سال قبل تک سر پر دو دو گھڑے رکھ کر کنوئیں سے پانی بھر کر سارے گاوں کے درمیان گذرا کرتیں تھیں ۔ پانی گر ان کے لباس کو شرابور کر جاتا تھا مگر گاوں کے مرد اپنی نظر نیچی کر لیتے تھے اور ہر ایک عورت کو ماں اور بہن کہ کر مخاطب کرتے تھے ۔
    سامی االنسل قوموں میں عورتوں کو ہمیشہ عزت و توقیر سے مخاطب کیا جاتا تھا ۔ گاوں میں ابھی تک لوگ مجھے میری ماں کے نام سے پکارتے ہیں ۔ "اوے توں نذیراں دا پتر ایں"
    حضرت موسی علہ السلام اپنے بھائی سے ناراض ہوتے ہیں تو حضرات ہارون علہ السلام کو " اے میرے ماں جائے " کہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔
    مجھے یاد ہے کہ گاوں میں جب لڑائی ہو رہی ہوتی تھی تو برستی لاٹھیوں اور کلہاڑیوں کے درمیاں اپنی یا مخالف پارٹی کی عورت آکر کھڑی ہو جاتی تھی تو اٹھی ہوئے کلہاڑیاں وہیں رک جاتیں تھیں اور اس خاتون سے درخواست کی جاتی تھی کہ وہ درمیان سے ہٹ جائے
    آج بھی سرحد کے پشتون معاشرے مین جب کوئ مرد اپنی پرانی دشمنی میں جان جانے کے خوف سے جان بچانا چاہتا ہے تو راستہ چلتے ہوئے وہ اپنی عورت کو اپنے سے آگے چلنے کو کہتا ہے ۔ دشمن اس عورت کے احترام میں گولی نہیں چلاتا اور کسی دوسرے مناسب موقع کا انتظار کرتا ہے ۔
    اسلام نہ سہی ہم اپنی ثقافت کے اندر موجود اعلی اقدار کا احترام ہی کر لیں تو شاید کچھ بہتری آ جائے ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اور وہی خاتون بعد میں اپنے ہی رشتہ دار کے ہاتھوں "جہنم واصل" ہو سکتی ہے۔۔۔

      مذاق برطرف، اگر خواتین کا اتنا احترام کیا جاتا ہے تو مذہب سے زیادہ ثقافت کی وجہ سے ہے۔ مذہب ہمیں اعتدال سکھاتا ہے نہ کہ خواتین کو اپنے سے آگے بھیج کر "اپنی" جان بچانے کا۔ تاہم یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ آپ کی اکثر باتوں سے اتفاق ہے۔

      تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ خواتین کو مرد کے برابر درجہ دینا چاہیئے، نہ زیادہ اور نہ ہی کم

      Delete
  18. ریاض شاہد صاحب کی بات سے مکمل متفق ہوں،
    مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہمیں نظر جھکانا اور اپنی نظرمیں حیاپیدا کرنامشکل لگتا ہے !:(

    ReplyDelete
  19. بی بی!
    اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
    میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ یہ آپ کا بلاگ ہے اور آپ کو پوری آزادی سے اس پہ لکھنا چاہئیے۔میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ میرے آپ کے درمیان مباحثہ بعض اوقات غیر ضروری طور پہ طُول پکڑ جاتا ہے ۔ آپ کے حوصلے اور ظرف کی داد دیتا ہوں، مگر کچھ لوگوں کو اس سے ذہنی اذیت ہوتی ہے ۔جبکہ اس اذیت کا باعث کم ازکم میری طرف سے نہیں ہونا چاہئیے۔ اور وہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جس کے تحت یہ ساری مشق کی جاتی ہے، کہ اختلاف رائے باعث بہتری اور کاملیت ہوتا ہے۔ آپ یہ بات سمجھتی ہیں ، مگر شاید کچھ وہ پڑھنے والے جو یہ نہیں جانتے اُن پہ اسکا الٹ اثر ہوتا ہے اور یوں ساری مشق بیکار جاتی ہے۔اگر کسی وجہ سے میری طرف سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو مجھے اس بات کا نہائت افسوس ہے حالانکہ میرا ارادہ مطلق ایسا کرنے کا نہیں تھا۔
    اللہ آپ کو خوش رکھے۔

    ReplyDelete
  20. محترم ریاض شاہد صاحب!
    بلاگ بنانا چنداں مشکل نہیں مگر اسے پالنا بہر طور مشکل ہے۔ مجھے اسطرح کی مصروفیات پالنے کا تجربہ رہا ہے اور فی الحال میں بلاگ کو وقت نہیں دے سکتا۔
    ویسے بھی ماشاءاللہ اردو بلاگ میں بہت سے قابل لوگ بلاگ لکھ رہے ہیں اور اپنا قیمتی وقت اردو کو دے رہے ہیں تو ایک اور بلاگر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔ ماشاءاللہ آپ ، بی بی عنیقہ ناز، ابوشامل،اردو سيارہ،اردو لطائف،اردودان،اسماء مرزا،اظہرالحق،افتخار اجمل بھوپال، امن ایمان،باذوق،بدتميز،پاکي بلاگ،تانیہ رحمان،جعفر،جہانزيب اشرف،حجاب،حیدرآبادی،خاور کھوکھر،دائرہ،ذکريا،راشد کامران،راہبر،رضوان نور،شاکر عزيز،شاہدہ اکرم،شعيب،شعيب صفدر،عادل جاوید چوہدری،عارف انجم،عارم،عمارضیاء خان،عمربنگش،غبارِخاطر،فرحان دانش،قدیر احمد،القمر،کامران اصغر کامی ،ماوراء،محمد وارث،منیراحمد طاہر،میرا پاکستان،نبيل نقوي،نعمان علی،نعمان کي ڈائري،ڈاکٹرمنیرعباسی،یاسر عمران مرزا ۔ اگر کسی ساتھی کا نام رہ گیا ہو تو دلی معذرت۔ تو یہ سب بلاگر یا بلاگز اختلاف رائے سے قطع نظر اردو کی نہائت خدمت کر رہے ہیں ، اور میں سمجھتا ہوں مجھ سے اچھی خدمت کر رہے ہیں اور ایسے میںمیرا اردو بلاگز میں کود پڑنا اچھی بات نہیں ہوگی ۔ ویسے بھی آپ نے دیکھا ہوگا کسی بھی پوسٹ پہ بلاگرز کے تبصرہ جات کے علاوہ ایک عبداللہ اور میرے ہی تبصرے ہوتے ہیں یا پھر بی بی اسماء پیرس والی ہیں۔ ورنہ سب خامُشی چھائی ہے۔

    عبداللہ اور میں بھی بلاگ بنا کر بیٹھ گئے تو پھر ہماری قیمتی آراء سے کون مستفید ہوگا؟
    ):
    :(
    اب مذاق سے قطع نظر گزارش ہے کہ ابھی بلاگ بنانے اور پالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔اجنبی سائٹ کا دورہ کرنے پہ آپ کا مشکُور ہوں ):

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ