Thursday, February 11, 2010

فروری اے فروری

کل رات مجھے پتہ چلا کہ گوادر میں بھی بسنت کا اہتمام پتنگ اڑا کر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سنگھار میں واقع پی سی ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سات آٹھ خاندانوں نے شرکت کی۔ اسکے علاوہ گوادری بلوچوں نے بھی اپنے میدانوں میں پتنگیں اڑائیں۔ ویسے بلوچیوں کو فٹبال کھیلنا پسند ہے۔ اور میں نے گوادر میں اکثر کھیل کے میدانوں میں  اس کے لئیے لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ تو اب چشم تصور سے انہی گوادریوں کو پتنگ اڑاتے دیکھتی ہوں تو بڑا مزہ آتا ہے۔
میں ایک ناکام پتنگ باز ہوں۔ بچپن میں کئ دفعہ پتنگ اڑانے کی کوشش کی۔ لیکن ایک تو پتنگ سطح زمین سے میری بلندی سے زیادہ نہیں اٹھ پاتی تھی جسکی وجہ اسکا میرے ہاتھوں میں ہی رہنا تھا۔ دوسرا  مانجھے یا ڈور کی وجہ سے میری انگلیوں کا کٹ جانا تھا۔ یہ ایسا باریک کٹاءو ہوتا ہے جو اوپر سے اتنا نظر نہیں آتا جتنی تکلیف دیتا ہے۔ ان دو وجوہات کی بناء پہ میں نے اس کھیل کو خیر باد کہہ کر کنچے اور گلی ڈنڈا کھیلنا کی کوشش کی لیکن آگے کیا ہوا۔ یہ پھر کبھی سہی۔ البتہ آخر میں جو ہوا وہ آپکے سامنے ہے۔
فروری کا مہینہ ہمارے ملک میں اگرچہ شروع تو کشمیر پر احتجاج سے ہے لیکن بسنت اور ویلینٹائنز ڈے کی وجہ سے منظر ایکدم تبدیل ہو جاتا ہےاور کچھ لوگوں کی عید ہو جاتی ہے۔ جس میں  قانون بنانے والے، ،کارڈز بنانے والے، پتنگ نانے والے، کارڈز، پھول , اسٹفڈ ٹیڈی بیئر,  چاکلیٹ بیچنے والے، پتنگ بیچنے والے، عشاق اور پتنگ باز سجنا کے علاوہ لکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دینی فتووں کا بھی موسم آجاتا ہے۔ 
سچ ہے یہ رنگا رنگی اپنے وطن میں ہی نظر آسکتی۔ ایک طرف چھجو کے چوبارے پہ بو کاٹا ہو رہا ہے دوسری طرف شہر کے کسی گمنام گوشے میں کچھ بھاری بھاری ہاتھ کچھ نازک نازک ہاتھوں کو گجرے پہنا رہے ہیں اور سرگوشی کر رہے ہیں کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا، کاش  اے کاش میں تیرے کان کا بالا ہوتا۔ جی چاہتا ہے ان نازک نازک ہاتھوں والی گوریوں کے کان میں ایک سرگوشی اور کہوں کہ یہ بالا آخر بلا کیوں بن جاتا ہے۔ مگر نہیں ان خلوت کدوں میں یہ سرگوشیاں اچھی نہیں لگتیں۔ کچھ لوگ اس سودے میں حاصل ہونے والی کمائ گن رہے ہیں۔ اور کچھ قلم اس عوامی ہنگامے کو بدعت قرار دیکر  مصروف جہاد۔
ہمارے ملک میں بسنت کی 'بدعت'  پنجاب کے پیلے سرسوں سے کھلے میدانوں سے شروع ہوئ اور اسے باقی ملک کے ان لوگوں نے جنکا تذکرہ اوپر موجود فہرست میں ہے اپنے اپنے علاقوں میں رائج کرنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن اسے وہ پذیرائ نہیں مل سکی جتنی کہ ویلینٹائنز ڈے کو ملی۔
آج بھی کراچی میں  ڈیفینس کے پوش علاقوں میں شاید کچھ  پتنگیں اڑتی نظر آئں۔ لیکن سرخ گلابوں کے کارڈز ہر دوکان پہ سجے ہیں۔ پھول والوں کے درمیان دوڑ لگی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اسٹاک جمع کر لیں۔  پھولوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ ذہنوں میں خیالی پلاءو پک رہے ہیں۔ کیا پہنیں گے، کیا کہیں گے اب کیا ہوگا۔ دل کو دھڑکانے اور اسے اس طرح مصروف رکھنے کے لئے ہی یہ سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ورنہ شاعر کیوں کہتا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی، اب یاد آیا
 
میں اپنی انگلیوں کو دیکھتی ہوں ان پہ مانجھے کی ڈور سے کٹنے کے نشان موجود نہیں۔ ان پہ گلاب کے پھول کے ساتھ موجود کانٹے کی چبھن کے نشان بھی نہیں، مگر پھر بھی سوچتی ہوں،  یہ کیا ہوا دل بے قرار بھر آیا۔

11 comments:

  1. انیقہ آپکو اور تمام خواتین کو نسیم حمید کے ایشیاء کی تیز ترین خاتون کا اعزاز جیتنے کی مبارکباد!:)
    یہ پاکستان اور کراچی کے لیئے ایک بڑا اعزاز ہے

    ReplyDelete
  2. ab to pabandi lag choki hai punjab mai
    basant mai patang orany pr
    acha hi hoa

    ReplyDelete
  3. میں بھی ناکام پتنگ باز ہوں.. بلکہ کھیل کوئی بھی ہو میں ناکام ہی رہا ہوں..

    ReplyDelete
  4. سچ پوچھیے تو یہ رنگا رنگی ہی صحت مند معاشرے کی عکاس ہے۔۔ اگر ہم ایک دوسرے کو اپنی ذاتی سچائی تلے روندنے پر نا تلے ہوں۔۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ کسی کی پتنگ کسی کی گردن اڑانے لگتی ہے اور ہم اس مسءلے کو حل کرنے کے بجائے پتنگ اڑانے اور گردن رکھنے دونوں پر سزا دینے لگتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. کسی کی پتنگ کسی کی گردن اڑانے لگتی ہے اور ہم اس مسءلے کو حل کرنے کے بجائے پتنگ اڑانے اور گردن رکھنے والے، دونوں پر سزا دینے لگتے ہیں۔۔

    راشد کامران
    بہت خوب اور لاجواب انداز۔

    ReplyDelete
  6. دل کو بھر آنے دیا کریں ، یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ابھی تک انسانیت اس دل میں باقی ہے

    ReplyDelete
  7. روٹین سے ھٹ کر پڑھ کر اچھا لگا ۔۔۔۔۔ کامران اصغر کامی

    ReplyDelete
  8. http://www.jang-group.com/jang/feb2010-daily/11-02-2010/col3.htm

    ReplyDelete
  9. میں آپ سبکی اس بات سے متفق ہون کہ پتنگ بازی کو کسی کی جان نہیں لینا چاہئیے۔ لیکن جہاں ہمارے انفرادی عمل ہمارے اجتماعی عمل کی عکاسی کرتے ہیں وہاں ہمارے اجتماعی عمل بھی ہمارے انفرادی عمل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک انسانی جان کی قیمت اور دوسرے انسانوں کی آزادی تسلیم کرنے کا فقدان۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اسکے باقاعدہ فسٹیول ہوتے ہین لیکن وہاں لوگ پتنگون کو خوبصورت اور منفرد بنانے کی سعی میں لگے رہتے ہیں اور اس طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیک ہمارے یہاں یہ کھیل بھی طاقت کا شو آف بن جاتا ہے اور اس میں سے کھیل کی روح ختم ہو جاتی ہے۔ صرف قانون سازی اسکا راستہ نہیں ہے۔ اگر ایک چیز ایک طرف سے بند کی جا رہی ہو تو دوسری طرف اسکا کوئ مثبت راستہ کھول دینا چاہئیے۔
    اب جبکہ یہ کھیل پنجاب میں ایک حقیقت بن چکا ہے تو حکومتی سطح پہ اس میں کچھ اچھی باتیں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے ۔ جسیے ارائ جانوالی پتنگوں کی خوبصورتی کا مقابلہ ہو۔ اس سلسلے میں مخلتف کٹیگریز بنا لی جائےجن میں پتنگوں کے سائز سے لیکر شرکت کرنیوالوں کی عمر بھی شامل ہو۔ مختلف علاقوں کی ٹیمیں بنالی جائیں۔ اور ٹیموں کے درمیان یہ مقابلے کھلے میدانوں میں ہوں۔ انکے لئیے چھوٹے موٹے انعامات رکھ دئیے جائی۔ یہ انعامات اس رقم کو بچا لیں گے جو کسی ہلاک ہونیوالے کو دی جاتی ہے۔
    محض قانون سازی کی کوئ اہمیت نہیں ہوتی اسکے ساتھ لوگوں کو سدھار کر انہیں صحیح سمت میں لیجانا بڑا ضروری ہے۔ اسکے لئیے قانون داں نہیں بلکہ سماجی سائنسداں یہ کام کر سکتے ہیں یا حکومت کی ان معاملات میں دلچسپی۔ لوگوں کو کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف رکھنا ضروری ہے جسیے پڑوسی ملک نے اپنی فلموں یا ڈرامون میں اپنے لوگوں کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہئیے۔ اور لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور جنگجویانہ عادتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں استعمال میں لانا چاہئیے۔ تاکہ وہ سماج کے لئے ایک بہتر عامل ثابت ہوں۔

    ReplyDelete
  10. مکی صاحب، کھیل میں ناکام ہونا کوئ بات نہیں۔ لیکن زندگی میں ناکام نہیں ہونا چاہئیے۔ آپ اپنی دیگر کامیابیوں کے بارے میں تو ہمیں بتائیے۔ مجھے تو آپکی اس خوبی پہ رشک آتا ہے کہ آپ اردو، انگریزی اور پنجابی کے علاوہ عربی بھی بول اور سمجھ لیتے ہیں۔ میں نے تو ایک دفعہ فرنچ سیکھنے کی کوشش کی اور بہت زیادہ مصروفیت کی وجہ سے ایک ماہ بعد چھوڑ دیا۔ میرا پی ایچ ڈی جو چل رہا تھا۔ اب سوچتی ہوں کہ فارسی یا عربی میں سے کوئ ایک سیکھنے کی کوشش کروں۔ عربی میں نے تھوڑی بہت پڑھی ہے اسکول کے زمانے میں۔ اور فارسی اردو سے خاصی قریب لگتی ہے۔ لگتا ہے ٹاس کرنا پڑیگا اور ایک پڑھانے والا بھی تو تلاش کرنا ہوگا۔

    ReplyDelete
  11. راشد بھائی نے جو کہا لاجواب کہا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ