مسلمان اکابر فلسفہ کا سلسلہ کندی سے شروع ہوتا ہے اور ابن رشد پہ ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تحریک کا دور عروج ابن رشد سے بہت عرصہ پہلے اور عثمانی فتوحات کے فوراً بعد ختم ہو چکا تھا۔ دور زوال یعنی تیرھویں صدی میں ابن خلدون کے بعد یہ پھر نہ اٹھ سکا۔ اگر ان حکماء کا وجود نہ ہوتا تو یوروپ کا کوئ جدید فلسفی عالم وجود میں نہ آسکتا تھا۔ ان علماء کی کتابوں کے پوروپینز زبان میں ترجمے کئیے گئے اس طرح یوروپینز نے ان افکار کی نشر واشاعت کی اوراپنے اشتیاق سے اس میں مزید اضافہ کیا۔ انکی اس تجارت میں انہیں بے حد نفع ہوا۔
اسلام کے ابتدا ئ دور میں اسلام ایک مدنیت کا نام تھا۔ اور اسی قیاس کی بناء پہ اسرائیلی اور مسیحی فلسفیوں اور دوسرے آزاد خیال مفکرین کو اسلامی تمدن میں پھلنے پھولنے کے مواقع ملے اور عباسی، اموی اور فاطمی خلفاء نے غیر مسلم مصنفین، مفکرین، اور ادیبوں کو اپنا قرب بخشا ۔ انہیں حکومت کے اعلی عہدوں پہ فائز کیا۔اس سلسلے میں کچھ نام لئیے جا سکتے ہیں جیسے سعید بن یعقوب، ہموئیل بن حنفی جو یہودی تھےاور ایک اسرائیلی عالم موسی بن میمون جو میمونید کے نام سے مشہور ہے۔
اسلام کے ابتدائ سوا سو سال عروج کا زمانہ ہے جس میں جمودی فکر ختم ہوا اور لوگوں میں مطالعہ علم اور بحث نظر پیدا ہوا۔ عباسیوں نے اپنے عہد میں علم و ادب کی ترقی کے لئیے بے حد کام کیا۔ اور اس وجہ سے رعایا میں بھی علم سے محبت پیدا ہوئ۔ دور عباسی اس حدیث سے متائثر تھا کہ ایک عالم کے قلم کی سیاہی، مجاہد کے خون سے بہتر ہے۔ انکے عہد میں جو دراصل تین ادوار پہ مشتمل ہے۔ دوسری زبانوں سے مختلف علوم عربی زبان میں منتقل کئیے گئے۔ان خلفاء کے زمرے میں جنہوں نے اجنبی یا داخلی علوم کو یونانی، فارسی، سریانی اور ہندی زبانوں میں سے عربی میں ترجمہ کروایا۔ ایک تو منصور ہے جس نے فلکیات اور طب کی جانب توجہ کی۔ دوسرے ہارون رشید جسکے زمانے میں ریاضیات میں کتاب 'محیطی' کا ترجمہ ہوا۔ پھر مامون نے مختلف علوم بالخصوص فلسفے اور منطق کے ترجمے کا اہتمام کیا۔ اس طرح مختلف ادور میں جن کتابوں کا ترجمہ کیا گیا انکی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئ جن میں سے اکثر یونانی زبان سے منتقل کی گئیں۔ خود ان لوگوں کی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہے جنہوں نے ترجمہ کرنے میں حصہ لیا۔
یہ امر واضح ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عہد زریں میں تمام مروجہ علوم، فلسفہ، طب، فلکیات، ریاضیات اور اخلاقیات کو عربی میں منتقل کیا اور ہر قوم کا بہترین سرمایہ اپنے قبضے میں کیا۔ان تمام تالیفات، جنکا عربی میں ترجمہ کیا گیا، کی حیثت بیج جیسی تھی۔ ان سے بارآور درخت کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔عباسیوں کے پہلے دور میں ترجمہ کرنیوالوں کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ جب ترجمے کا کام مکمل ہو چکا تو مسلمانوں نے اصل کام کی طرف توجہ کی۔ اور اس مرحلے پہ اسلام کے پہلے فلسفی یعقوب کندی کی آمد ہوتی ہے۔ پھر اسکے بعد بہت سے فلاسفہ، حکماء، اطباء،علمائے ریاضیات، فلکیات اور کیمیا نے جنم لیا جنکی شہرت سے تمام عالم گونج اٹھا۔حکمت کا یہ سلسلہ گو کہ گیارہویں صدی تک چلا اور ابن خلدون کو شامل کریں تو تیرہویں صدی تک، لیکن اسکے اثرات آج بھی موجود ہیں۔
نوٹ؛ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کے ، اگلے حصے میں، میں سرسید احمد خاں کی اس تحریک کا تذکرہ کرنا چاہونگی جو ہند کے مسلمانوں میں اجنبی علوم کی ترویج کا باعث بنی۔
حوالہ؛
اس تحریر میں موجود مواد کتاب تاریخ 'فلاسفۃ الاسلام' سے لیا گیا ہے جسکے مصنف عرب عالم 'محمد لطیفی جمعہ' ہیں۔اسکا اردو ترجمہ ڈاکٹر میر ولی الدین پروفیسر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن نے کیا ہے۔تحریر میں کچھ حصہ ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' سے بھی لیا گیا ہے۔
عباسی خلفاء
عباسی اور اموی عہد حکومت
عباسی خلفاء
عباسی اور اموی عہد حکومت
اردہ قابل تحسین ہے ۔ سر سید سے پہلے میرے خیال میں تاریخ اسلام میں مختلف مذہبی تحریکیں مثلا معتزلہ ، مراجعون ، یورپ کی نشاۃ ثانیہ ،اسللام پر شہنشاہیت کے اثرات اور مصر ،سوڈان اور الجیریا وغیرہ میں جدید اسلامی تحریکوں کا ذکر اگر کر دیا جائے تو سللسہ مربوط ہو جائے گا۔ ورنہ مکل تصویر حاصل نہیں ہو سکے گی ۔ اس سلسلے میں ان دی شیڈو آف پرافٹ اور کیرن آرم سٹرانگ کی اسلالام اے شارٹ ہسٹری ، اے ہسٹری آف گاڈ اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی کتاب تاریخ تصوف سے نوٹس مددگار ثابت ہوں گے ۔
ReplyDeleteہاں سید امیر علی کی سپرٹ آف اسلام کا تذکرہ کرنا تو میں بھول ہی گیا۔ ان کا بھی اس سلسلے میں اپنا ایک نقطہ نظر ہے
ReplyDeleteبہت عمدہ ہے جاری رکھیے۔۔۔
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب، آپ تو مجھے اتنا سارا ہوم ورک دے رہے ہیں۔ تاریخ فلاسفہ السلام پرحنے کے بعد اب میں بھی معتزلہ کے بارے میں تفصیلی طور پہ پڑھنے کی مشتاق ہوں۔ لیکن اس طرح سرسید صاحب تو انتظار کرتے رہ جائیں گے۔ میرے خایل میں اسے اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے جوڑ دینا چاہئیے۔ ابھی تو میں نے ان دی شیڈو آف پرافٹ خریدی بھی نہیں۔ اور میرے نزدیک جو لائبریری ہے اس میں یہ موجود بھی نہیں۔ سلیم چشتی صاحب کی یہ کتاب میں نے کافی عرصے پہلے پڑھی تھی۔ آپکے کہنے پہ پھر نکال کر دیکھا۔
ReplyDeleteایک اور شخصیت جس کے بارے میں آجکل معلومات اکٹھا کر رہی ہوں وہ جمال الدین افغانی کی ہے۔ کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پہ میڈیا میں اور ہمارے موجودہ حکماء بھی ان لوگوں کے تذکرے سے کتراتے ہیں جو اسلام میں ترقی پسند روح کے حامی بنے۔
ابھی ایک نزدیکی لائبریری میں کتابوں کی چھان پھٹک کرتے ہوئے میرے ہاتھ وارث میر کی ایک کتاب لگی نام ہے اسکا 'حریت فکر کے مجاہد'۔ جو کہ شاید انکے اخباری کالموں کا مجوعہ ہے اور جنگ پبلشرز کے زیر اہتمام شائع ہوئ۔ یہ خاصی معلوماتی کتاب ہے۔ اور اس میں ان تمام قوتوں کا جو کہ ترقی پسندی کے حامی رہے اچھا تذکرہ ملتا ہے۔۔
راشد کامران صاحب، اجازت کا شکریہ۔
سر سید سکول آف تھاٹ کا مخالف عنصر پاکستان میں بہت طاقتور ہے اور ان کی فکر اور ان سے متاثر لوگوں کی تحاریر پر مختلف الزامات لگا کر عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا ہے ۔ سر سید کی فکر کو اسلام کے ماضی کی تحاریک کے تناظر کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پوسٹ لکھنے کے بعد حسب ضرورت متعلقہ مواد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ جیسے آپ کی خواہش ۔ میں تو آپ کو سنگ باری کے خطرے سے آگاہ کر رہا تھا ۔
ReplyDeleteانیقہ و ریاض شاہد آپ دونوں کا میری معلومات میں مسلسل اضافہ فرمانے کا شکریہ،مزید کا منتظر ہوں!
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب، مہربانی۔ کچھ عرصے پہلے کسی تبصرے میں، میں سرسید کے خلاف فضا کی بو سونگھی تھی۔ تو جہاں حقیقت کے اتنے مخالفین ہوں وہاں تو آواز بلند کرنا فرض کفایہ ہو جاتا ہے۔
ReplyDeleteجی ہاں اپ نے درست فرمایا کہ اسلام کی ماضی کی تحاریک کا تذکرہ ضروری ہے۔ اس لئیے میں نے سوچا کہ اگلی پوسٹ اخوان الصفا پہ ہونی چاہئیے۔ دراصل یہ سارے موضوعات تو خاصے تفصیلی ہیں۔ ان سب پہ ہم سے پہلے لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ لیکن ایک خاص طبقے کی فکر نافذ ہونے کی وجہ سے یہ باتیں اب موجودہ نسل میں بیشتر لوگ نہیں جانتے۔ جیسے چند لوگ یہ جانتے ہیں کہ سرسید غیر اسلامی باتیں زیادہ کرتے تھے۔ مگر وہ کیا باتیں کرتے تھے اور کیوں یہ وہ نہیں جانتے۔ جیسے ایک زمانے میں مسلمان بہت زبردست سائنسدان تھے اور موجودہ سائنس انہی کی بدولت آئ۔ مگر خود مسلمانوں نے کس طرح یہ علم حاصل کیا یہ وہ نہیں جانتے۔ زیادہ تر لوگ ادھورے سچ سے واقف ہے، وہ جو صرف انکے گرد گھومتا ہے۔ تو میں تو صرف اشارے فراہم کر رہی ہوں۔ جنہیں جاننے کا شوق ہوگا وہ آگے بڑھیں گے۔ اور خود سے چیزیں ڈھونڈ نکالیں گے۔
عبداللہ، وعلیکم شکریہ۔
آپ نے ماضی کے نشاۃ ثانیہ سے علم و ادب کی ترقی کے تناظر میں اچھا مضمون پیش کیا ۔ سر سید احمد خان بنیادی طور پر ایک روشن خیال مسلمان تھے اور ان کی تعلیمی تحریک کا ذکر مکمل تبھی ہو گا جب تک آپ مسلمانوں کی زبوں حالی کا تزکرہ نہ کریں معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ، تمدنی ، اور مذہبی لحاظ سے انتقامی کاروائیوں کی شکار قوم کو اس اندھیرے سے نکالنے کی ضرورت تھی جو سر سید احمد خان نے بخوبی نبھائی ۔
ReplyDeleteچند لوگ یہ جانتے ہیں کہ سرسید غیر اسلامی باتیں زیادہ کرتے تھے۔ مگر وہ کیا باتیں کرتے تھے اور کیوں یہ وہ نہیں جانتے۔ جیسے ایک زمانے میں مسلمان بہت زبردست سائنسدان تھے اور موجودہ سائنس انہی کی بدولت آئ۔ مگر خود مسلمانوں نے کس طرح یہ علم حاصل کیا یہ وہ نہیں جانتے۔ زیادہ تر لوگ ادھورے سچ سے واقف ہے، وہ جو صرف انکے گرد گھومتا ہے۔
ReplyDeleteMore than agree with you!
نہیں جی میری نا مجال نا اوقات کے کسی کو اجازت دوں۔۔ وہ درخواست کے معنوںمیں تھا کیونکہ اچھا سلسلہ چل رہا ہے۔
ReplyDeleteراشد کامران صاحب، دل پکا رکھیں۔ آپ گھبرا کیوں گئے۔
ReplyDelete:)
محمود الحق صاحب، اب دیکھیں میں کیا کھچڑی پکاتی ہوں۔ آپ لوگوں کے تبصرے تو ویسے بھی موضوع کو مزید کھولنے کے کام آتے ہی ہیں۔
ہمم ۔۔۔ بہت شاندار سلسلہ ہے۔ آپ کا کہنا بالکل درست ہے کہ خلافت راشدہ و امویہ کے خاتمے کے بعد اسلام دراصل ایک مدنیت کا نام ہو ہو گیا تھا، جو بہت تیزی سے پھل پھول رہی تھی اور بغداد اور قرطبہ اس کے مراکز تھے۔ اس زمانے کے ان دونوں شہروں کو مذہبی رواداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ReplyDelete