Monday, February 1, 2010

غالب اور بہتّر حوریں

غالب نے کہا کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری، کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے۔   تحریراً، انہوں نے بھی مغل بچہ ہونے کی وجہ سےاسی بات پہ اکتفا کیا کہ یا تو مارو یا مار رکھو۔ لیکن افسوس تلوار اپنے ہاتھ میں کبھی نہ اٹھائ کہ خانہ ء دل میں مژگاں کی تلواریں تو گڑی رہتی ہیں، دستی تلواروں کا کام نہیں۔ ویسے بھی جو گڑ سے مر رہاہو اسے تلوار سے کیا مارنا۔ اگرچہ کہ فی زمانہ گڑ سے مارنے کا طریقہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن اس زمانے کے بارے میں کیا کہیں ہر غیر مستعمل طریقہ مرنے اور مارنے کے لئیے استعمال ہو رہا ہے۔ جدت شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ خیر بات غالب کی ہو رہی تھی۔ایک واضح وجہ جو سمجھ میں آتی ہے اپنے  آباء کے پیشے سے انحرف کی۔وہ انہوں نے کچھ اس طرح پیش کی کہ،
ایسی جنت کا کیا کر ے کوئ
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
قیاس کہتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میدان جنگ میں مارے جانے کے بعد انعام میں جو حوریں ملیں گی وہ اسٹاک میں ایک دفعہ بنا لی گئ ہیں اور بس ان میں سے ہی بہتّر  اب ہر مرد مجاہد کے حصے میں آتی رہیں گی۔ ایسی بہتّر حوروں کے اپنے پہلو میں رہنے سے وہ اتنے خائف تھے کہ شاعری اور شوق خمار کے بعد انکساری سے کچھ اور تدبیروں پہ غور کیا کرتے تھے۔
مرنے کی اے دل، اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی ہی ایک تدبیر کے نتیجے میں انہوں نے قرض کی مے پینے کی لت پالی۔ لیکن  بعد میں اس معاملے کو بروز ابر مہتاب کبھی کبھی پہ چھوڑ کے  علم بغاوت بلند کیا اور  شدت جذبات میں حوروں کی تحقیر کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔ کچھ بی جمالو صفت لوگوں کا کہناہے کہ معاملہ کو اس نوعیت پہ پہنچا دیا کہ خاکی خواتین اور حوروں کو آمنے سامنے کر کے خاکی خواتین کے پاءوں دھوتے رہے اور اہل تماشہ کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش میں اس طرح کی اطلاعات پہنچائیں کہ
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لینگے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
یوں ایسی مغرور خاکی خواتین سے بیزار ہونے والوں کا  ایک حلقہ وجود میں آگیا جو آج حیرانی سے پوچھتا ہے کہ خاکی ناپاک عورتوں کا دنیا میں کیا کام ہے۔ انہی لگائ بجھائ کرنے والوں کا فرمانا ہے کہ محترم شاعر نے اپنی شاعری کے ہنر کو اس جنگ میں بخوبی استعمال کیا اور خاکی خواتین کا دماغ خراب کرنے میں کو ئ کسر نہ چھوڑی۔
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حوران خلد میں تیری صورت مگر ملے
ان عناصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے انہوں نے آج پیش آنیوالے واقعات کا میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جنت کو بھی بس ایسی ویسی جگہ قرار دینے کی کوشش کی، اور کہا
کم نہیں جلوہ گری میں، ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے، ولے اسقدر آباد نہیں
یہاں میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ وہ دوزخ کی آبادی کو جنت میں تلاش کر رہے تھے ، اور اسکا سرا کسی کے کوچے سے ملا دیا۔ لیکن یہ بھی انکی ادا ہی تھی ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ
سنتے ہین جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو
انکی اس قسم  کی باتوں پہ کچھ بد بختوں نے جب  انہیں کافر قرار دینے کی کوشش کی تو انہوں نے اس الزام کو ایک جنبش قلم سے پرے کر دیا کہ ہوں ولی پوشیدہ اور کافر کھلا۔ امتداد زمانہ سے اب اس بات پہ فخر کیا جانے لگا ہے کہ پوشیدہ طور پہ کافر ہوں مگر کھلے ولی ہوں۔ جناب گئے زمانے کے بزرگ بھی کیا طبیعت رکھتے تھے۔
کچھ دشمنوں نے یہ بھی پھیلانے کی کوشش کی یہ سب انہوں نے پریزادوں سے انتقام لینے کے لئیے کیا تھا۔ اور اسی لئیے انہوں نے کہا کہ
ان پریزادوں سے لینگے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی، حوریں اگر واں ہو گئیں
لیکن جیسا کہ کوئ بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس شعر میں بھی حوروں سے انکی مراد یہی خاکی خواتین ہیں۔انکی خاکی خواتین سے یہ انس و محبت دیکھ کر یہ حقیر، انجمن آزدی ء نسواں سے یہ التماس کرنا چاہتی ہے کہ انہیں حقوق خاکی خواتین کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھا جائے اور تمام رپورٹس اورخبروں میں انکی شاعری کی ترویج کی جائے۔مملکت خداداد میں جہاد کیخلاف چلنے والی تحریکوں میں اس بات کا تذکرہ بار بار کیا جائے کہ حاصل ہونے والی بہتّر حوریں کس قدر پرانی ہیں کہ اماں حوا کی نانی ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ دنیا میں ایک مخلوق عورت نامی بھی بستی ہے اور اسکے ساتھ رہنے سے لڑائ بھڑائ کی صلاحیتیں گھر کی گھر میں ہی خرچ ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں قابو میں رکھنے کی فکر میں،مرنے کے بعد کیا ہوگا کی فکر سے نجات مل جاتی ہے۔
مخالفین سے درخواست ہے کہ اس قسم کے شعر لا کر غالب کے صحیح الدین ہونے اور جانبداریت پہ مسئلہ نہ کھڑا کریں کہ
چھوڑونگا نہ میں بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
یہ سب دشمنوں کی اڑائ ہے۔ وہ بہرحال خاکی مسلمان خواتین کے قدردانوں میں سے تھے اور  اپنی اس غلطی سے یہ کہہ کر رجوع کر چکے  تھے کہ
دل دیا جان کے کیوں اسکو وفادار اسد
غلطی کی جو کافر کو مسلماں سمجھا
تو پیاری بہنوں ہمیں مرد حق غالب کے خلوص نیت پہ شک نہیں کرنا چاہئیے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا۔

حوالہ؛

7 comments:

  1. کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے اردو شاعری جتنا نذکرہ مئے کا ملتا ہے اتنا کسی اور کا نہیں ملتا ۔ تو مخاطب نے جواب دیا کہ چودہ سو سال تک طاق عصیاں پر رکھے رکھے مزہ سہ آتشہ ہو گیا ہے بس یہی وجہ ہے ۔
    مغرور خاکی خواتین سے بیزار لوگوں کے بیزار حلقے کا کچھ تعلق شاید طلب اور رسد کے توازن کے مسائل سے بھی ہے ۔
    امریکہ میں بھی رسد کا توازن بگڑ گیا ہے اور افغانستان اس توزن کے دوسرے سرے پر ہے

    ReplyDelete
  2. اقتباس:
    امتداد زمانہ سے اب اس بات پہ فخر کیا جانے لگا ہے کہ پوشیدہ
    طور پہ کافر ہوں مگر کھلے ولی ہوں

    تبصرہ:
    وہ کیا کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ایسے فقرے پڑھنے کو ملتے ہیں جس کے لیے کسی خاکی خاتون نے روح تک تاثیر اترنے کی بات کی تھی۔۔ خیر خاتون کی بات پر کون کان دھرتا ہے لیکن اس فقرے کی چسکیاں دیر تک چلیں گی۔

    ReplyDelete
  3. کمال کا غالب نامہ ہے۔ ہم تو اس پر تبصرہ کرنے کی حیثیت و صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

    ReplyDelete
  4. مرزا کی کیا بات ہے۔ وہ تو خود فرما گئے کہ
    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

    ReplyDelete
  5. یوں ایسی مغرور خاکی خواتین سے بیزار ہونے والوں کا ایک حلقہ وجود میں آگیا جو آج حیرانی سے پوچھتا ہے کہ خاکی ناپاک عورتوں کا دنیا میں کیا کام ہے۔
    آپکو نہیں لگتا کہ مغرور خواتین کا تو بس بہانہ ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کچھ ایسی ہی ذہنیت کی مالک تھی وہ قوم بھی جو اپنے لعنتی کاموں کے لیئے الٹے سیدھے جواز تلاش کیا کرتی تھی!
    اور مرض کی تشخیص تو آپنے کرہی دی ہے!
    امتداد زمانہ سے اب اس بات پہ فخر کیا جانے لگا ہے کہ پوشیدہ طور پہ کافر ہوں مگر کھلے ولی ہوں۔

    ReplyDelete
  6. موضوع تو "غالب اور بہتر حسینائیں فتنہ پرداز" بنتا ہے۔ حوروں کو تو ناحق بدنام کیا۔

    ReplyDelete
  7. ریاض شاہد صاحب، یہ جو آپ نے طلب و رسد کی بات کی ہے تو معاشیات کے قانون کی مطابق جسکی طلب زیادہ ہو اور رسد کم وہ چیز تو خاصی قدر و اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ اوراس پہ بڑے فساد ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اصل چیز کی کی تو کوئ قدر ومنزلت ہی نہیں رہی۔ فساد تو اس بات پہ کحڑا ہو جاتا ہے کہ یہ چیز کیوں موجود ہے اور اگر اسے قدرت پیدا ہی کئیے جا رہی ہے تو اس چیز کو نظروں سے دور ایسی جگہ ہونا چاہئیے کہ معلوم نہ ہو کہ قدرت یہ بھی بناتی ہے۔
    راشد کامران صاحب، یہ بھی ایک الجھن ہے کہ خاتون کے قدموں تلےجنت، زمانے بھر کی دولت، آنکھیں ، دل اور اس قماش کی تمام چیزیں دھرنے کو ایک خلقت تیار رہتی ہے۔ لیکن نہیں تیار ہوتے تو خاتون کی بات پہ کان دھرنے کو۔
    فہد اللہ خاں غالب صاحب، ایسا کیا، کچھ تو کۃءیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا۔
    خرم صاحب، جنگ آزادی اٹھارہ سو ستاون کے بعد ایک دن غالب صاحب کی بھی انگریز کے حضور پیشی ہو گئ۔ صاحب نے پوچھا کیا مسلمان ہو۔ مرزا نے جواب دیا، جی آدھا مسلمان ہوں۔ انگریز بڑا حیران ہوا، آدھا مسلمان ،کیسے۔ کہنے لگے شراب پیتا ہوں اور سور کا گوشت نہیں کھاتا ہوں۔
    سنتے ہیں کہ مغرب میں رہنے والے ایک قابل ذکر مسلمانوں کی تعداد اسی مذہب پہ قائم ہے۔ ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ امریکہ میں انکا مسلمان باس صبح دفتر میں آتے ہی قرآن پاک کی تلاوت پیئر پہ لگا دیتا تھا اور پھر بیٹھ کر پیئر پیتا۔ یہاں نپاکستان میں بھی ایک معقول تعداد ان لوگوں کی ہے جو بیئر کو حلال کہتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اس میں مانع شے کی مقدار صرف چار فیصد ہوتی ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہر شے جس سے نشہ ہو حرام ہے چاہے وہ محبوب کی آنکھ کا ہی نشہ ہو۔ تو شعر کچھ اس طرح ہونا چاہیے کہ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ عاشق زار ہوتا۔
    عبداللہ، میں نے ایک چھ سات سالہ بچی سے جو کہ بیرون ملک پیدا ہوئ اور پلی بڑھی، اس سے پوچھا کہ دودھ کس جانور سے ملتا ہے جواب ملا، جانور، دودھ تو سپر مارکٹ میں ملتا ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ ایسی سوچ رکھنے والے کیا کیا سوچ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کلوننگ کا طریقہ معلوم ہونے کے بعد انسانی نسل کی بڑحوتری کے لئیے ایک پارٹنر یعنی مرد کا ہونا کچھ ضروری نہیں رہا۔ لیکن اس دھماکے کی شدت کا شاید بہت دیر سے علم ہو۔
    جاوید صاحب، ویسے تو حوروں کے طرفدار بہت ہیں مگر آپ نے آواز بلند کی، پماری طرف سے خراج تحسین۔
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ