فلسفہ ، اگر انسانی مشاہدات کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنے کا نام ہے تو سائینس ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور اس میں تجربے کو بھی شامل کر دیتی ہے ۔
دور عباسی میں فلسفے کو بڑی اہمیت حاصل ہوئ خلیفہ مامون ا لرشید نے فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کرایا۔ اطباء نے اس میں بالخصوص دلچسپی لی۔ اس زمانے میں فلسفیوں کو الحاد کا الزام دیا جاتا تھا اور فلسفہ اس قدر کفر کے مماثل تھا کہ ابن تیمیہ نے اسکے متعلق لکھا کہ' میں نہیں سمجھتا کہ خدائے تعالی مامون سے غافل رہیگا۔ بلکہ اس نے امت پہ جو مصیبت نازل کی ہے اسکا ضرور اس سے بدلہ لیگا'۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل فلسفہ اپنے خیالات کوچھپانے لگے اور یوں کئ خفیہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک اخوان الصفاء ہے۔ جن لوگوں کو جاسوسی کہانیوں سے دلچسپی ہے انہیں یہ ساری حقیقت بھی خاصی دلچسپ لگے گی کہ انکے اجلاس پوشیدہ ہوا کرتے تھےجن میں فلسفے کی مختلف اقسام پہ گفگتگو ہوتی تھی۔ اس میں یونان، فارس اور ہند کے فلسفوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد انہیں اسلام کی روح میں ڈھالا گیا تھا۔
انکا خیال تھا کہ شریعت اسلامیہ جہالت اور گمراہی سے آلودہ ہو گئ ہے۔ اور اسکی صفائ صرف فلسفے سے ہی ممکن ہے۔ اور جس وقت فلسفہ ء یونان اور شریعت محمدیہ میں امتزاج پیدا ہو جائیگا تو اس وقت کمال حاصل ہوجائے گا۔
ان تمام خیالات کا مجموعہ باون رسائل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جنکا نام ' رسائل اخوان الصفاء' رکھا گیا۔ البتہ ان فلسفیوں کے نام پوشیدہ رکھے گئے۔
یہ رسائل اپنے مولفین کی کامل غوروفکر اور انہماک کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان میں اتنے جدید خیالات بھی پائے جاتے ہیں جنکی اس زمانے میں بڑی شہرت ہے جیسے نشو ونما اور ارتقاء کے نظرئیے۔
یہ رسائل معتزلہ اور انکی تقلید کرنیوالوں نے بھی استعمال کئیے، بعد ازاں یہ قرطبہ لیجائے گئے۔
یہ رسائل بمقام لینبرگ ۱۸۸۳ میں طبع ہوئے اور بمبئ میں ۱۸۸۶ اور مصر میں ۱۸۴۹ اور لندن میں ۱۸۶۱ میں طبع ہوئے۔ انکا ہندوستانی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
ان رسائل کی چار بنیادی قسمیں ہیں۔
اول: چودہ رسالے ریاضی کے متعلق
دوئم: سترہ رسالے طبعی جسمانییت سے متعلق
سوم: دس رسالے عقلی نفسیات سے متعلق
چہارم: گیارہ رسالے احکام الہی سے متعلق
میں انکی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتی ہوں لیکن یہ بتاتی چلوں کہ ان باون رسالوں میں انتہائ تفصیل سے دنیا کے تقریباً ہر موضوع پہ گفتگو کی گئ ہے۔
انہوں نے اپنے علوم کے ماخذ چار قسم کی کتابوں کو قرار دیا۔ ایک تو وہ کتب جو ریاضی اور طبیعیات میں حکماء اور فلاسفہ کی تصنیف کردہ ہیں۔ دوسری وہ جو انبیاء علیہ السلام پہ نازل ہوئیں۔تیسری طبیعیات کی وہ کتابیں جن میں کائنات میں موجود چیزوں کی اشکال اور انکی مختلف قسموں پہ بحث کی جاتی ہے اس مین فلک سے لیکر نباتات، حیوانات اور انسان بھی شامل ہے۔ اور چوتھی وہ کتب الہی جنکو صرف پاکیزہ سرشت ملائکہ ہی چھو سکتے ہیں اور جو بزرگ نیکوکار فرشتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اور ان میں انسان کی تقدیر و تدبیر و تحریک سے لیکر اسکے اعمال تک بحث میں آتے ہیں۔
یہاں تک آتے آتے میں حیران ہوتی ہوں کہ آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کسی گروہ نے اتنے نظم وضبط کے ساتھ اتنے نا مصائب حالات میں کیسے کیسےعقلی کارنامے انجام دئیے۔
اخوان الصفاء پہ گفتگو جاری ہے۔
حوالہ؛
کتاب، 'تاریخ فلاسفۃ السلام ' مصنف محمد لطفی جمعہ۔
محترمہ عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteمعلومات دلچسپ ہیں ۔ بارشوں کی وجہ سے انٹرنیٹ کاے مسائل کا سامنا رہا ہے ۔ اخوان الصفا کے بارے میں معلومات دلچسپ ہیں ۔ امید ہے اس پر مزید مواد بھی پڑھنے کو ملے گا
بہت شاندار ہے۔۔ بہت ہی مزہ آرہا ہے یہ سلسلہ پڑھنے میں۔
ReplyDelete