میں گھر میں داخل ہوئ تو صرف فرد حاضر ہی میسر تھے کہ انہیں آجکی پیش آنیوالی داستاں سنائ جائے۔ چنانچہ میں نے سامان اٹھا کر کچن میں رکھا اور فرد حاضر کو سنانا شروع کیا۔
میں؛ آج جب میں گھر سے نکل کر نکڑ والے راءونڈ اباءوٹ پہ پہنچی تو وہاں تو ٹریفک پولیس والوں کا پوار جلوس موجود تھا۔ ایک ٹریفک کار کھڑی تھی ، چار پانچ ٹریفک پولیس والوں کی موٹر سائیکلز اور آٹھ دس ٹریفک پولیس والے۔
فرد حاضر جو اپنے کام میں مصروف تھے میری بات میں ایک مصنوعی دلچسپی لیتے ہوئے بولے، کیوں کوئ وی آئ پی گذرنے والا تھا۔
میں؛ ہاں، پہلا خیال تو مجھے یہی آیا پھر میں نے دیکھا کہ وہ اکثر گاڑیوں کو روکے کھڑے تھے۔ اور تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دیہاڑی بنانے سے لگے ہوئے ہیں۔
فرد حاضر؛ آپکو تو کچھ نہیں کہا ہوگا۔ خواتین کی تو ایسے موقعوں پہ بچت ہوجاتی ہے۔
میں؛جی میرا بھی یہی خیال تھا۔ لیکن ان میں سے ایک نے انتہائ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے سائیڈ میں لگنے کا اشارہ کیا۔
فرد حاضر؛ ڈونٹ ٹیل می، پھر کیا ہوا۔ آپ نے کسی ٹریفک رول کی خلاف ورزی کی ہوگی۔
میں؛ جی نہیں، یہی میں نے اس سے پوچھا تو اس نے اسی سنجیدگی سے ونڈ اسکرین کے اوپر والے حصے پہ لگی ایک تین انچ چوڑی پٹی کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ آپکا اسکی وجہ سے چالان ہوگا۔
مجھے تو یہ سن کر غصہ آ گیا۔ اتنے عرصے میں پہلی دفعہ مجھے پتہ چلاکہ ونڈ اسکرین پہ ایک ایسی پٹی لگی ہے جو قانوناً جرم ہے۔
فرد حاضر؛ اسے معلوم نہیں ہوگا کہ پی ایچ ڈی کی کیا نشانیاں ہوتی ہیں۔ حالانکہ اسے آپکو رعایت دینی چاہئیے تھی۔
میں انکی اس بات کو نہیں سنتی اور قصہ جاری رکھتی ہوں۔ وہ کہنے لگا مجھے گاڑی کے کاغذات اور اپنا لائسنس دکھائیں۔
فرد حاضر؛ اسے معلوم نہیں ہوگا کہ پی ایچ ڈی کی کیا نشانیاں ہوتی ہیں۔ حالانکہ اسے آپکو رعایت دینی چاہئیے تھی۔
میں انکی اس بات کو نہیں سنتی اور قصہ جاری رکھتی ہوں۔ وہ کہنے لگا مجھے گاڑی کے کاغذات اور اپنا لائسنس دکھائیں۔
میں نے تو صاف کہہ دیا۔ یہ پیسہ بنانے کا دھندہ ہے۔ نہ میں اپنے کاغذات دکھا رہی ہوں اور نہ آپ میرا چالان کر سکتے ہیں۔ کہنے لگا ایسا کیسا ہو سکتا ہے۔ اگر چالان کا ڈر ہے تو چالان تو ہوگا۔
فرد حاضر؛ آپکے پاس لائسنس نہیں ہوگا اس لئیے اتنا طیش دکھا رہی تھیں۔ اکثر آپکا موبائل فون اور لائسنس گھر میں ہی پڑے ملتے ہیں۔
میں انکی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے۔ پھر وہ اپنے افسر بالا کو بلا لایا۔
فرد حاضر؛ اچھا پھر۔ اب آپکو مزہ آنا شروع ہوا ہوگا۔
میں ایک دفعہ پھر انکی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے۔ افسر بالا نے آکر یہی کہا کہ چالان ہوگا۔ میں نے کہا کس بات کا ۔ اس پٹی کے لگے ہونے کا۔ اسے اتار لیں۔
افسر بالا نے کہا کہ نہیں یہ تو اب آپ گھر جا کر اتارئیے گا۔ اب تو مجھے اور غصہ آنا ہی تھا۔ میں نے کہا دہشت گرد اپنے زخمی لیڈر کو وزیرستان سے لیکر کراچی تک پہنچ جاتے ہیں آپ لوگوں کو نظر نہیں آتے۔ میری گاڑی کے اندر کا منظر دیکھنے میں اس پٹی کی وجہ سے کوئ رکاوٹ ہے کیا؟ یہی قانون ہے ناں کہ میری گاڑی کے اندر کا منظر صاف نظر آنا چاہئیے۔ اس سے آپکو کوئ مشکل ہے۔ میری گاڑی میں کوئ بم یا اسلحہ ہے۔ میں نے ٹریفک کا کوئ اصول توڑا ہے۔اس پہ وہ چڑ گیا اور کہنے لگا اچھا جی آپکا چالان نہیں کرتے۔ صرف اپنا لائسنس دکھا دیں۔ اپنے طور پہ انہوں نے اب میری دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔
فرد حاضر نے بھی اپنا کام چھوڑ کرمسکراتے ہوئے ہاتھ اپنے سینے پہ باندھے۔ اور اس منظر کو سننے کی تیاری کرنے لگے جس میں میرے پرزے اڑنا متوقع تھے۔
میں نے انکے تجسس کو دیکھتے ہوئے ایک ادائے بے نیازی دکھائ اور بیان جاری رکھا۔ 'میں نے اپنا والٹ کھولا اور لائسنس نکال کر اسے دکھا دیا۔ بس اسکا چہرہ اتر گیا۔ کھسیانی مسکراہٹ کیساتھ کہنے لگا۔ ٹھیک ہے بس آپ جائیں۔ اتنی سی بات تھی'۔
فرد حاضر؛ ڈونٹ ٹیل می۔ قسمت سے پڑا رہ گیا ہوگا۔
میں؛ جی نہیں،آپ جانتے نہیں خواتین کی چھٹی حس تیز ہوتی ہے۔ میں نے جاتے وقت سوچا کہ پرس لینے کی کیا ضرورت ہے صرف والٹ سے کام چل جائے گا۔ اور میرے والٹ میں اکثر لائسنس ہوتا ہے البتہ موبائل فون کی اس میں جگہ نہیں۔
فرد حاضر؛ اچھا چلیں، آپکے لئیے ایک مزے کی خبر ہے۔
میں؛ وہ کیا؟
فرد حاضر؛ پشاور میں ویلنٹائن ڈے ایکدن پہلے یعنی اتوار کے بجائے ہفتے کو منایا گیا۔
میں انتہائ حیرانی سے انکا چہرہ دیکھتی ہوں۔ لیکن کیوں؟
فرد حاضر؛ کیونکہ سعودی عرب میں ہفتے کو ویلنٹائن ڈے تھا۔
حوالے کے لیے دیے گئے لنک پر تحریر تو سطحی سی تھی لیکن تبصروں نے کمی پوری کردی اب نا معلوم طنزیہ تھا کہ عمدا لیکن سوال کرنے والے نے پوچھ ہی لیا کہ کیا سعودی عرب میں بھی مناتے ہیں۔۔۔ وہ بھی چاند دیکھ کر ۔۔
ReplyDeleteویسے یہ ایک بتہرین طریقہ ہے ویلنٹائن منانے کا کہ اسے مذہبی رنگ دے دیا جائے جیسے کرسمس منانے کے لیے ہم نے اسے مذہبی رنگ دے دیا ہے۔۔ پھر کوئی اسے غلط نہیں کہے گا اور منبرومحراب سے بھی اس کی حمایت میں آوازیں لگا کریں گی ۔۔ عظیم الشان ویلنٹائن اجتماع۔۔۔ خواتین کے لیے پردے اور لڑکے کا خاص انتظام ہے۔۔ معافی چاہتا ہوں۔۔
ارے آپ کے چالان کاچکر تھا اور بات کہاں پہنچی ویسے کالی پٹی کے لیے میں بھی چالان کٹوا چکا ہوں اور اتنا ہی حیران تھا کہ ہمارے ٹریفک قانون کتنے اچھے ہیں کہ ہر اس چیز پر چالان ہے جس سے سہولت ہو۔
راشد کامران صاحب، آپکے تخیل کی پرواز بہت سارے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔
ReplyDelete:)
سعودی عرب میں تو چونکہ پوری کہکشائیں بنانے کی اجازت ہے اس لئیے ایک آدھ چاند کو نہیں پوری گیلیکسیز کو دیکھ کر مناتے ہونگے۔ ویسے یہاں بھی میں نے ایک صاحب کو کوریئر سروس کے آفس میں دو ٹیڈی بیئرز بھیجتے دیکھا۔
ٹریفک کا دراصل قانون نہیں ہے۔ اب سے تین سال پہلے صدر کے مختلف علاقون سے میری گاڑی لفٹ کی گئ وہ بھی چار مہینے میں پانچ دفعہ۔ ہر دفعہ انکے ساتھ دماغ کھپانا پڑتا کہ وہاں نو پارکنگ نہیں لکھا تھا۔ حتی کہ ایک دفعہ تو صدر میں ہی ایک گلی سے اٹھالی۔ اب میں وہاں صرف فیس والی جگہ پہ گاڑی پارک کرتی ہوں اور اگر وہاں جگہ نہ ہو تو صدر سے دور کسی جگہ گاڑی کھڑی کر کے بس سے وہاں پہنچتی ہوں۔ صدر ایسی جگہ ہے جہاں روڈ پہ ڈبل پارکنگ ہونا معمول کی کاررواء ہے۔ لیکن ایک تو قانون سب کے لئے نہیں ہوتا اور دوسرا قانون کو عمل در آمد کرنے کے لئیے حالات نہیں بنائے جاتے۔ جسیسے پارکنگ کے لئیے جگہ نہیں دیں گے البتہ گاڑی اٹھا لیں گے۔ تیسرا یہ کہ قانون نافذ کرانے والوں کا موڈ بھی تو ہوتا ہے۔ طاور سب سے بڑی وجہ، اپنے سے متعلقہ منسٹری کو ہر مہینہ ایک مقررہ رقم بھی پہنچانی ہوتی ہے۔ آخر کچھ منسٹریز پہ اتنا جھگڑا کیوں ہوتا ہے۔
اتنی لمبی کہانی لکھنے کی کیا ضرورت تھی.. بس آخری والا لطیفہ ہی سنا دیتیں تو حق ادا ہوجاتا..
ReplyDeleteگدھے..
اگر گاڑی سائڈ پر لگانے کی بجائے ایک نوٹ اس کو دکھا دیا جاتا تو آپ اس کوفت سے بچ سکتی تھیں
ReplyDeleteعنیقہ ، "سعودی عرب میں تو چونکہ پوری کہکشائیں بنانے کی اجازت ہے"۔ سمجھ میں نہیں آیا۔
ReplyDeleteبڑا زبردست لکھا ہے ابن خلدون امام غزالی ابن رشد والی خشک تحريروں کے
ReplyDeleteساجد کیا آپ واقعی اتنے بھولے ہیں شرع تو چار کی اجازت دیتی ہے باقی کہکشاں کنیزوں سے پوری ہوجاتی ہے اب یہ مت پوچھیئے گا کہ کنیزیں اس دور میں کہاں !
ReplyDeleteمکی صاحب، آپ نے تو گدھے کو ایک نئے معنی دے دئیے ہیں۔
ReplyDeleteسعد صاحب، نوٹ تو آخری حربہ ہوتا ہے جیسے کارٹی زونز آخری طریق علاج۔ تھوڑی درد سری تو ہوئ مگر میرا خیال ہے کچھ اور خواتین کی بچت ہوگئ ہوگی۔ یا انہوں نے کوئ نیا بہانہ سوچا ہوگا پیسے ہتھیانے کا۔
ساجد صاحب، یہ عبداللہ کچھ بتا رہے ہیں۔ پہلے ان سے سن لیں۔
اسماء، آپکو پسند آیا۔ شکریہ۔
:)
عبداللہ صاحب ، اس میں بھولے یا کھوچل کی بات نہیں ہے۔ میں نے ایک سوال کیا تھا عنیقہ سے اور انہوں نے مجھے آپ کا حوالہ دیا لیکن ان کے جواب سے بھی پہلے آپ مراسلہ لکھ چکے تھے تو میں پھر سے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کون سی کہکشاں کی بات ہے جس کی طرف عنیقہ نے اشارہ کیا ہے۔
ReplyDeleteگمان کرتا ہوں کہ آپ تحمل سے میرے سوال کو سمجھ کر حوصلے سے جواب دیں گے۔
ساجد صاحب،بھائی مینے تو بہت لائٹ وے میں لکھاتھا بس اسمائیلی بنانا بھول گیاتھا، مینے آپکو بھولا کہاتھا بے وقوف نہیں:(
ReplyDeleteباقی مینے آپکے سوال پر وہی کہا جو انیقہ بتانا چاہ رہی تھیں اب اس کے علاوہ آپکے سوال کا کوئی مقصد تھا تو اسے میری کم عقلی سمجھیں اور آپ خود وضاحت فرمادیں عین نوازش ہوگی!
عبداللہ بھائی ، میں نے کب کہا کہ آپ نے مجھے بیوقوف لکھا؟۔ عنیقہ بہن نے جو کہا اور جو آپ نے بتایا ، آپ کے الفاظ کے مطابق، وہ لائٹ وے میں تھا تو مزید کرید لگانے کی حاجت نہیں۔
ReplyDeleteبھائی جی ، کہکشاں والی بات کو اگر ویلنٹائن ڈے سے الگ کر کے دیکھیں تو شاید عرب معاشرے کی تصویر زیادہ واضح نظر آئے۔ سعودیہ میں فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرخ رنگ کے بھالو یا اس قسم کے اظہار عشق کے دیگر اسباب کو ضبط کرنے کے لئیے باقاعدہ دکانوں کی نگرانی شروع کر دی جاتی ہے اور بعض صورتوں میں دکانداروں کو تنبیہ اور خال خال شٹر ڈاؤن کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
رہی بات کہکشاؤں کی تو اس المیہ پہ کیا لکھا جائے کہ وہاں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ان کے جتنا پیسہ اور فراغت ہم پاکستانیوں کو مل جائے تو شاید عرب شیوخ "کہکشاں سازی" میں ہماری شاگردی کے لئیے یہاں آئیں۔
سچی مُچی پشاور میں ایک دِن پہلے ویلنٹائن ڈے منایا گیا تھا۔۔۔ ؟؟؟
ReplyDeleteلگاتار دوسری پوسٹ پڑح کر مزہ اآیا
ReplyDeleteایک یہ اور دوسری بسنت والی
kahan ghaib ho rahay hain mere tabsaray?
ReplyDeleteنعیم ملک صاحب، یہ آپکی سادہ دلی ہے یا سوال۔
ReplyDeleteڈفر، دو تبصرے تو حاضر ہیں، باقی کتنے کئیے تھے۔ میرے بلاگ پہ ایکدن میں اتنی بار کرم فرمانے کا شکریہ۔ مگر اب آپ کو پھر کب غصہ آئیگا۔
کس بات پہ غصہ؟
ReplyDeleteبس جی یہاں دفتر میں فراغت ہے اآج کل تو پچحلے دو تین مہینے کی ساری تحریروں پہ کمنٹنگ میں لگا وا
ReplyDelete