ایک بطخ گئ ایک سکنجبین بیچنے والے کے پاس ۔ ٹخ ٹخ ٹخا ٹخ کرتی ہوئ اور کہنے لگی، کیا تمہارے پاس ہیں انگور۔ سکنجبین والے نے کہا کہ میرے پاس نہیں ہیں انگور، لیکن سکنجبین ہے میرا مشہور۔ یہ ہے تازہ، فرحت والا، جھوم اٹھے گا پینے والا۔
بطخ نے اک پر ہلایا اور نخرے سے یہ فرمایا ،کٹھا لیموں، کٹھا شربت، کٹھے کی ہے یہ ذات، مجھے تو رکھو اس سے معاف، ۔ پھر چلی وہ کرتی، ٹخ، ٹخ، ٹخا، ٹخ۔
اگلے دن وہ پھر آگئ اور دوکاندار سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہیں انگور۔ اس نے کہا 'کل تو کہا تھا، بات نہیں یہ دور۔ میرے پاس نہیں ہیں انگور ، لیکن سکنجبین میرا ہے مشہور۔ پیو نہ پیو، مرضی تمہاری، کرتے نہیں ہم مجبور۔ بطخ نے کچھ سوچا اور کہنے لگی 'نہیں چاہئیے، نہیں چاہئیے، لیموں شربت نہیں چاہئیے' اور چل پڑی واپس۔ ٹخ، ٹخ، ٹخا، ٹخ۔
اگلے دن بطخ پھر آ گئ اور پھر پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہیں کچھ انگور۔ اب تو دوکاندار ہوا ناراض کہنے لگا' اب جو نام لیا انگور کا تو پتہ دونگا دور کا۔ لگا کے گوند تمہاری کمر پہ۔ لٹکا دونگا کسی درخت سے۔ سارا دن جب بنی رہوگی لنگور۔ پھر پوچھوگی، کیا تمہارے پاس ہیں کچھ انگور۔ بطخ نے تحمل سے اسکی یہ بات سنی اور گئ واپس پلٹ۔ ٹخ، ٹخ، ٹخا، ٹخ۔
حیران کن طور پہ اگلے دن بطخ پھر آدھمکی۔ لیکن آج اس نے پوچھا۔ کیا تمہارے پاس ہے کچھ گوند۔ دوکاندار نےدیا رکھائ سے جواب۔ گوند نہیں ہے میرے پاس، یہاں ہے صرف شربت لیموں۔ اب سوچو تمہیں دوں یا نا دوں۔ بظخ ایک ثانئیے کے لئے ہوئ خاموش اور کہنے لگی کیا تمہارے پاس ہیں انگور۔ دوکاندار کا چہرہ بالکل بگڑ گیا۔ بطخ نے یہ دیکھ کر فوراً واپسی کا لیا راستہ۔ ایسے میں دوکاندار نے دی اسکو ایک آواز۔ بطخ پھر جو مڑی دیکھ کے حیران ہوئ۔ اک تبسم سے وہ یوں گویا ہوا، آءو میری پیاری آءو، آج کچھ انگور کھاءو۔ یہ کہہ کر اس نے بطخ کو ساتھ لیا اور قریب کے ایک اسٹور لے گیا۔ وہاں اس نے خریدے کچھ انگور اور دئیے بطخ کو ہو کے مسرور۔ بطخ نے دیکھے انگور اور پھر کیا انہیں اپنے سے دور۔
دوکاندار حیراں ہوا اور پریشان ہوا۔ بطخ ہچکچاتی ہوئ یہ کہنے لگی۔ آجکا دن یہ میرا، لگتا ہےگذرے گا اچھا ذرا، مجھے آیا ہے ایک خیال ، میرے ذہن میں ہے ایک سوال، تم بتاءو نہیں ہے یہ محال
۔
۔
۔
۔
کیا اس اسٹور میں تمہارے، ملتا ہے شربت لیموں پیارے؟
۔
۔
۔
میرا سوال یہ ہے فراز
پھر دوکاندار نے کیا دیا جواب؟
اسکی ویڈیو کے مزے لینا چاہیں تو حاضر ہے۔ چھوٹے بچوں کو یقیناً پسند آئے گی۔ ویسے کبھی کبھی بڑوں کے لئے بھِی چھوٹا بن جانے میں کوئ حرج نہیں۔ یہ احساس خاصہ توانا رکھتا ہے کہ کبھی ہم خوبصورت تھے۔
فراز موصوف سے سے اس تخاطب کے پیچھے کیا راز ہے یہ تو ہماری بوڑھی کھوپڑی میں نہیں سما سکا حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہ یہ کون سے فراز تھے۔ بہر کیف ویڈیو بڑی دلچسپ تھی اپنی بھتیجی کو بھیجتا ہوں اس ویڈیو کا ربط۔
ReplyDeleteبہت ہی اچھے! اردو ادب کا ذیادہ پتہ تو نہیں مگر جس برانچ سے بھی تعلق ہو، نہ نجانے کیوں لگا کہ انداز بیاں سے کسی کیلئے جل جانا بھی مشکل ہی ہوگا ۔ کچھ کچھ مکڑا اور مکھی سے مماثلت بھی ہے اور ایک بار پھر بچوں کیلئے ہی کیوں؟
ReplyDeleteمیں آپکی تحریر کے ساتھ اس وڈیو کو دیکھا واقعی بہت لطف آیا۔ھم ابھی بچے ھیں۔کیا خوبصورت تھا ھمارا بچپن۔ آہ
ReplyDeleteیہ تو آپ نے "کوئز" ہی پوچھ لیا۔
ReplyDelete:)
انیقہ یہ تو آپنے جمہوریت اور آمریت کی کہانی سنادی ہے!
ReplyDelete:)
انیقہ کارٹون سے زیادہ آپکے ترجمے نے مزہ دیا!
ReplyDeleteخوش رہیئے، :)
ماشاء اللہ خوب محنت جاری ہے مشعل پر ، يہی تو فرق ہے ايک ايجوکيٹڈ اور ان ايجوکيٹڈ اماں ميں (کسی کو ميرے اس فقرے پر اعتراض ہو تو اپنے دل ميں دبا کر رکھيں ،جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے ليے جوابی کاروائی کی اجازت نہيں)
ReplyDeleteابن سعید، یہ وہی فراز ہیں جو آجکل ایس ایم ایس پہ بڑے ان ہیں اور عالم یہ ہے کہ
ReplyDeleteاب تو ڈر لگتا ہے کھولتے ہوئے دراز
کہیں اس میں سے بھی نکل نہ آئے فراز
جاہلستان سے، آپ لوگ اتنے اوکھے نام کیوں رکھ لیتے ہیں۔ بہر حال، اس مین ایک سازش ہے کہ اگر بچوں کو بھی دینا چاہیں گے تو خود تو پڑھنا پڑے گی۔ اور یہ خیال دل میں نہیں آئے گا کہ یہ بھی کیا بچہ سمجھ کر ہر چیز پڑھنے کو دے دیتی ہیں۔
محمد وارث صاحب، لیکن ابھی تک کسی نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے بھی نہیں۔
:(
شکریہ عبداللہ۔
اسماء، اب کیا کہوں۔
شکریہ یاسر صاحب۔
ReplyDeleteبہت خوب محترمہ۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ واقعی تعلیم یافتہ والدین کے بچوں کی تربیت پر مثبت اثرات نہایت واضع ہوتے ہیں۔ ان کو مختلف النواع کی چیزوں سے آشنائی 'کاگنیٹوڈیویلپمنٹ' کے زمن میں بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اس بوقلمونی اور بڑے بچوں کو بھی اس مزیدار ترجمے میں شریک کرنے کا شکریہ۔
ReplyDeleteلیکن ہر کوئی شاید اس طرح نہیں سوچتا۔ ہم نے اس مضمون کو تجزیہ کے لئے ایک دیسی 'تھنک ٹینک' کے پاس بھیجا جن کا جواب مندرجہ زیل ہے۔
"یہ نظم استعمار کی نشانی، عالمیت 'گلوبلایزیشن' کے فروغ اور تہذیبی نوآبادیاتی نظام کے لئے سامراجی کوششوں کی دلیل ہے۔ دکاندار ظاہر سی بات ہے کہ آی آیم ایف کا نمایندہ ہے جو کہ غریب کسان بطخ کی بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کرنا چاہتا اور اپنی گفتگو سے یہ ثابت کرتا ہے کہ بطخ کو خود اس بات کا ادراک نہیں کہ وہ کیا چاھتی ہے، یہ قوم کی خوابیدگی کی طرف اشارہ ہے۔ نیز 2012 میں دنیا کے ختم ہونے کی بھی پیشنگوی اس نظم میں کی گئی ہے۔۔۔۔۔"
ہم آپ کو مزیدموشگافیوں سے محفوظ رکھتے ہیں مگرتفصیلات کے لئے دیکھتے رہیے جیو نیوز
کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر عدنان کے تبصرے کے بعد میرا کچھ اور لکھنا بہت فضول ہوگا۔
ReplyDeleteعدنان بہت خوب ۔ راشد کامران کے تبصرے کاسا مزہ آ گیا
السلام علیکم بہت شکریہ عنیقہ آپی میں نے صرف ترجمہ ہی پڑھا ہے ویڈیو نہیں دیکھ سکا فلیش پلیر نہیں ہے نا :(
ReplyDeleteعدنان مسعود صاحب، آمد کا شکریہ۔
ReplyDeleteیہ تو ایک طرف کا نظریہ ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ بطخ آزادروی کی علامت ہے۔ لیکن جو اپنے روئیے میں اتنی پیچیدہ ہے کہ وہ اس چیز کو سادہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ وہ دوکاندار کے تحت الشعور کے اندر گھس کر اسکے شعور کو کمپیوٹر کے وائرس کی طرح کھا جانا چاہتی ہے۔ دراصل بطخ، موجودہ انسانی تہذیب کے زوال کی علامت ہے۔ اگرچہ کہ اس زوال کی علامت بہت پہلے سے نظر آنے لگی تھیں جبھی میر نے کہا کہ
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دوکان اپنی بڑھا گئے۔
لیکن یہاں چونکہ دوکاندار کے آخری جواب کا پتہ نہیں اس لئے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال دوکاندار کے اس آخری جواب سے انسانی تہذیب کی بقاء جڑی ہوئ ہے۔ یوں یہ نظم تجریدی آرٹ کا ایک عمدہ نمونہ کہلانے کی مستحق ہے۔
اس بحث کے نتائج آنے تک ہم سکنجبین کا ایک گلاس پیتے ہیں کہ موسم بھی ہے، دستور بھی ہے اور موقع بھی۔
لیکن کیا دوکاندار اپنی دوکان پہ واپس آچکا ہے۔
بہت خوب عنیقہ صاحبہ! کافی عرصے کے بعد بلاگنگ کی دنیا کا رخ کیا ہے۔ عدنان کا تبصرہ بہت جاندار ہے اسے پڑھ کر بہت مزا آیا۔
ReplyDelete