.ایک بلاگ پہ سے گذری تو اس سوال پہ نظر پڑی
کتنے لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ایک اکیلا بندہ کچھ نہیں کر سکتا ؟ اور کتنے لوگ اس کے برعکس سوچ میں یقین رکھتے ہیں ؟
مختلف تبصروں پہ سے گذرتے ہوئے کچھ خیال آیا کہ کافی عرصے پہلے ڈاکٹر مبارک علی کی ایک کتاب پڑھی تھی، تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ۔ کتاب کوچھانا پھٹکا اور اس سوال سے قطع نظر مندرجہ ذیل تحریر کا باعث بن گیا۔ڈاکٹر مبارک علی تاریخ کے استاد ہیں اور اس موضوع پہ کئ کتابیں لکھ چکے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ انسان اور اسکے مقاصد کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک نظریہ یہ پیدا ہوا کہ فطرت کسی ایک شخص کو مافوق الفطرت طاقت دیتی ہے تاکہ وہ اس مقصد کے لئے جدو جہد کرے اس میں وہ عوام کی اکثریت کو لیکر چلتا ہے۔ وہ قانون اور اخلاق سے بالاتر ہوتا جو کچھ کرتا ہے صحیح ہوتا ہے۔ تاریخ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ان شخصیات کے عمل کا نتیجہ ہے۔ تاریخ ان لوگوں کی سوانح عمری کے علاوہ کچھ نہیں
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ افراد تاریخ ساز ہوتے ہیں، انکے عمل سے تاریخ کا بہاءو تیز ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افراد تاریخ کا راستہ متعین کرتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ کا ہر واقعہ گذشتہ واقعات اور ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور وہ افراد جو تاریخ کی تعمیر میں نمایاں کردار دا کرتے ہیں محض اک آلہ ءکار ہوتے ہیں۔
پلیخانوف کہتا ہے کہ
'بارسوخ افراد اپنے کردار اور اپنے ذہنوں کی مخصوص صفات کی بدولت واقعات کو اور انکے مخصوص نتائج کو تو بدل سکتے ہیں لیکن وہ واقعات کے عمومی رجحان کو نہیں بدل سکتے جو دوسری قوتوں سے متعین ہوتے ہیں۔
وہ یہ کہتا ہے کہ جب بھی عظیم افراد کے ارتقاء کے لئے سازگار حالات موجود ہوئے یہ لوگ ہر جگہ نمودار ہوئے۔ یعنی صاحب صلاحیت شخص کا نمودار ہونا معاشرتی تعلقات کی پیداوار ہوتا ہے۔ ایک عظیم انسان دوسروں کے مقابلے میں واقعات کی رفتار کو سمجھتا ہے یہی اسکی عظمت ہے۔
تاریخِ میں معاشی و سیاسی و معاشرتی قوتیں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ تاریخ کو مسلسل تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ دنیا میں انقلابات ان قوتوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ شخصیتیں صرف ان کے عمل کو تیز کر دیتی ہیں۔ ورنہ انکے بغیر بھی وہی کام ہوگا مگراس کام کی تکمیل میں زیادہ وقت اورزیادہ لوگ چاہئیے ہونگے۔ شخصی حکومت کے زمانے میں شخصیات کو اہمیت دی جاتی تھی اور انکے کارنامے لکھے جاتے تھے اس لئے اس میں حکمراں طبقے کی تاریخ تو ہوتی ہے لیکن عوام کی نہیں۔ مذہبی علماء کی تو ہوتی ہے لیکن انکے پیروکاروں کی نہیں، زمینداروں کی تو ہوتی ہے لیکن کسانوں کی نہیں، فوجی جرنیلوں کی ہوتی ہے سپاہیوں کی نہیں، صنعت کاروں کی ہوتی ہے مزدوروں کی نہیں۔
اس طرح روائتی تاریخ میں اس بات پہ زور دیا گیا ے کہ تاریخ صرف عظیم شخصیتوں کے کارناموں کا مرقع ہے۔ قدرت انہیں خاص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتی ہے اور یہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرہ کی ترقی اور تمدن کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تاریخ کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ شخصیتوں کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب انکے کام کے کے لئے حالات سازگار ہوں اور معاشرہ کا ذہن ان کے پیغام اور تسلیمات کو سننے کے لئے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو اگر وہ سازگار ماحول سے ہٹ کر پیدا ہوتے ہیں تو انکی عظمت ختم ہو جاتی ہے۔
بقول 'ٹالسٹائ۔'عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ۔ بلکہ یہ واقعات ہیں جو انکا روپ اختیار کر لیتے ہیں'۔
یہ بات کچھ تاریخی واقعات کو دیکھنے کے بعد صحیح بھی لگتی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں کہ گلیلو جب یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ زمین نہیں بلکہ سورج اس کائنات کا مرکز ہے تو پابند سلاسل ٹہرتا ہے اور دس سال قید و بند میں گذارنے کے بعد اسے عدالت میں اپنے اس بیان کی معافی جمع کرانے کے بعد رہائ ملتی ہے۔ لیکن یہی بات جب کپلر کہتا ہے تو فلکیات کی دنیا میں انقلاب آجاتا ہے۔
اس طرح روائتی تاریخ میں اس بات پہ زور دیا گیا ے کہ تاریخ صرف عظیم شخصیتوں کے کارناموں کا مرقع ہے۔ قدرت انہیں خاص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتی ہے اور یہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرہ کی ترقی اور تمدن کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تاریخ کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ شخصیتوں کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب انکے کام کے کے لئے حالات سازگار ہوں اور معاشرہ کا ذہن ان کے پیغام اور تسلیمات کو سننے کے لئے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو اگر وہ سازگار ماحول سے ہٹ کر پیدا ہوتے ہیں تو انکی عظمت ختم ہو جاتی ہے۔
بقول 'ٹالسٹائ۔'عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ۔ بلکہ یہ واقعات ہیں جو انکا روپ اختیار کر لیتے ہیں'۔
یہ بات کچھ تاریخی واقعات کو دیکھنے کے بعد صحیح بھی لگتی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں کہ گلیلو جب یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ زمین نہیں بلکہ سورج اس کائنات کا مرکز ہے تو پابند سلاسل ٹہرتا ہے اور دس سال قید و بند میں گذارنے کے بعد اسے عدالت میں اپنے اس بیان کی معافی جمع کرانے کے بعد رہائ ملتی ہے۔ لیکن یہی بات جب کپلر کہتا ہے تو فلکیات کی دنیا میں انقلاب آجاتا ہے۔
کولونیل نظام کے خاتمے کے بعد ایشیا و افریقہ سمیت دیگر ممالک میں شخصیت پرستی کا فروغ ہوا۔ ، ہر نئے آزاد ملک نے شخصیتوں کے بت تراشے اور انکے گرد ایسی روایات کا ہالہ تیار ہوا کہ انکی حیثیت انتہائ مقدس و متبرک ہو گئ۔ آزادی کی تحریکوں میں انکی جدوجہد کو اس قدر مبالغہ کے ساتھ پیش کیا کہ عوام کی قربانیوں اور انکے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
جاری ہے۔
جاری ہے۔
میلکوم گلیڈول اپنی کتاب ‘آوٹلایرز’ میں اسی نظریہ کے بطلان پر بہت خوبی سے روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسے نہایت کامیاب شخص کو جسے ‘آوٹلایر’ یا غیر معمولی سمجھا جاتا ہو کی تمام کامیابیوں کی فہرست تیار کرتا ہے ۔ پھر ایک ایک کرکے اس بات پر استدلال کرتا ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے کن عوامل کا ہاتھ تھا اور اس چیز میں معاشرہ، گھر والے، دوست، ماحول غرضیکہ جس ماہ یا دہائی میں وہ پیدا ہوا تھا وہ کس قدر اہم تھے (نہیں، اسکا کسی خاص برج میں پیدا ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ نہایت عمدہ کتاب ہے اور اس بات پر قاطع کہ افراد کے غیر معمولی ہونے مٰیں انکی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دیگر سیکڑوں عوامل موجود ہوتے ہیں۔ اسلام تو ویسے ہی شخصیت پرستی کے بت کو جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر فرمایا
ReplyDeleteلوگو سنو! جو شخص محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرنا تھا (وہ جان لے کہ) محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ زندہ ہے۔ وہ کبھی نہیں مرے گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل
ابن ابی شیبہ میں ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان آیات کو تلاوت فرمایا۔
انک میت وانھم میتون٭ وما جعلنا لبشر من قبلک الخل
بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اور بے شک وہ (سب لوگ) بھی مرنے والے ہیں۔ اور آپ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشگی و دوام نہیں ہے
عظیم لیڈر اپنی ہمت اور عزم و استقلال سے تاریخ کے دھارے کو بدل دیا کرتے ہیں ۔ وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں ۔ عظیم لیڈر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ موقع خود کبھی تمہارے پاس نہیں آئے گا تمہیں آگے بڑھ کر خود اسے پیدا کرنا ہو گا
ReplyDeleteاس سلسلے میں بنی امیہ کے شہزادے عبدالرحمن الداخل کی زندگی کا مطالعہ دلچسپ ہے ۔ بنو عباس جب بر سر اقدار آئے تو انہوں نے چن چن کر بنو امیہ کے ہر فرد کو مار ڈالا ۔ عبدالرحمن کو جب اطلاع ملی تو وہ بھاگ نکلا ۔ عباسی گھڑ سوار اس کے تعاقب میں تھے اور کئی دفعہ وہ ان کے گھیرے میں آنے کے بعد بچ نکلا ۔ اس کے ہمراہ اس کا غلام بدر تھا ۔ افریقہ وغیرہ میں مصیبت کے ایک بڑا عرصہ گذارنے کےے بعد وہ اسپین میں داخل ہوا اور اپنے حامیوں کی ایک مختصر سی جماعت کی مدد سے اسپین کے گورنر یوسف فہری کی چالیس ہزار فوج کو شکست دی اور دارالحکومت قرطبہ پر قبضہ کر لیا ۔ بغدا میں خلیفہ منصور کو جب اس کی خبر ہوئی تو بہت غضبناک ہوا ۔ اس نے اپنے امراء کو عبدالرحمن کی حکومت ختم کرانے کا فریضہ سونپا
منصور کے آدمیوں نے اسپین کے اندر کسی ایسے آدمی کی تلاش شروع کر دی جو عبدالرحمن کا قلع قمع کر سکے ۔ یہ آدمی انہیں اعلی بن مغیث الیعسوبی کی شکل میں میسر آیا جو بیجا نامی شہر کا رہنے والا تھا (آجکل پرتگال کا حصہ) اور اسپین کے ایک بڑے عرب یمنی قبیلے کا سردار تھا اور اپنے کام کے سلسلے میں افریقہ وغیرہ آتا جاتا رہتا تھا (یمنیوں اور شمالی عربوں کی مخاصمت بہت پرانی تھی اور اس دشمنی نے تاریخ کے صفحات کو کئی دفعہ بے مقصد جنگوں کے ذریعے خون سے رنگین کیا ہے ) ۔ افریقہ میں خلیفہ منصور کے آدمیوں نے اس سے رابطہ کیا اور خیلفہ منصور کی طرف سے اسپین کی امارت کی پیشکش کی ۔ اسے خلیفہ کی طرف سے امیر مقرر کرنے کا خط ، علم اور رقم بہم پہنچائی گئی تاکہ وہ ایک بڑی فوج کھڑی کر سکے حتی کہ افریقہ سے کچھ فوج اس کے زیر کمان دینے کی بھی پیشکش کی گئی مگر اعلی کو یقین تھا کہ وہ یہ کام اسپین میں موجود اپنے حامی قبیلوں کی مدد سے انجام دے سکتا ہے ۔
763 عیسوی کے آخر میں اعلی نے سپین پہنچ کر بغاوت کا علم بلند کیا اور عبدالرحمن کو ایک باغی اور اپنے آپ کو خلیفہ کا مقرر کردہ امیر ہونے کا اعلان کیا ۔ عرب ، بربر اور اسپین کے مصری لوگوں نے بڑے جوش اور قبائلی عصبیت سے اس کا ساتھ دیا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تمام قبائل اس کے ساتھ مل گئے ہیں ۔ اعلی نے قرطبہ کی طرف مارچ کیا اور امیر عبدالرحمن جو اس وقت طلیطلہ ایک بغاوت فرو کرنے میں مشغول تھا کی غیر موجودگی میں امیر کے غلام بدر کی فوج سے اس کی کئی لڑائیاں ہوئیں جس میں بدر نے شکست کھائی ۔ امیر عبدالرحمن بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بدر سے جا ملا اور آخر کار اس کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی اور وہ اشبیلیہ کے قریب واقع قلعہ قرمونہ میں محصور ہو گیا ۔ دو ماہ کے محاصرے کے دوران اس کے ساتھی بھوک اور پیاس کی شدت سے مرنا شروع ہو گئے ۔ اب اس کے ساتھ صرف سات سو ساتھی تھے اور قلعے کے باہر دشمن تقریبا پچاس ہزار فوج موجود تھی۔ مگر عبدالرحمن کسی اور مٹی کا بنا ہوا تھا اور زندگی کے آخری سانس تک جدو جہد کرنے پر یقین رکھتا تھا ۔
ایک رات اس نے قلعے کے صحن میں آگ کا ایک بڑا الاو جلایا اور اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے کہا
"میں ذلت کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں ۔ میرے ساتھ وہ آئے جو موت کو زندگی سے زیادہ عزیز رکھتا ہو"
وہ اور اس کے ساتھیوں نے اپنی نیامیں توڑ کر آگ میں پھینک دیں اور صبح صادق کے وقت اپنے سے کئی گنا بڑی فوج پر حملہ کیا اور آخر کار انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ اعلی کے سر کو کاٹ کر اسی کے سیاہ علم میں لپیٹا گیا اور اس کے ساتھیوں کے سر کے ہمراہ خلیفہ منصور کو بھجوا دیا گیا ۔ مکہ میں حج کے موقع پر ایک دن صبح کے وقت خلیفہ منصور کے سامنے چند ٹوکریاں لائی گئیں ۔ اعلی کا سر اس کے اندر دیکھ کر منصور کے منہ سے بے ساختہ یہ کلمہ نکلا
خدا کا شکر ہے کہ اس شیطان(عبدالرحمن) اور ہمارے درمیان وسیع سمندر حائل ہے ۔