میں نے اپنی دوست کے فیس بک اسٹیٹس پہ لکھا دیکھا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ انکا تجزیہ ہر طرح سے درست ہے۔ حالانکہ وہ اسے اپنے عدسے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے اس تجزئیے کو دوسروں پہ نافذ کر دیتے ہیں'۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ انکا تجزیہ ہر طرح سے درست ہے۔ حالانکہ وہ اسے اپنے عدسے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے اس تجزئیے کو دوسروں پہ نافذ کر دیتے ہیں'۔
یہ جملہ میں نے یا آپ نے پہلی دفعہ نہیں پڑھا ہوگا۔ بلکہ اگر آپ بلاگنگ کرتے ہیں تو ہر روز نہیں تو ہر دوسرے روز اس قسم کی بات ضرور نظر سے گذرے گی۔ اور اگر آپ ٹی وی کے سارے چینل ایک دن میں دیکھ لینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تو روزانہ ہی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہوگا۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب لوگوں کا مجازی طور پہ ملنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈفر کی دیکھنے میں کیا شکل ہے، جعفر کی بات کاٹی جائے تو انکے چہرے پہ کیا تائثر آتا ہے، عبداللہ ایک بیس پچیس سال کا معاشی طور پہ خوشحال شخص ہے یا محنت کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی سپورٹ کرنے والا شخص۔
اور اگر آپ اپنے اطراف میں نظر ڈالیں تو ہر طرف لوگ باتوں میں مصروف ہیں مگر ان لوگوں سے جن سے وہ طبعی طور پہ واقف نہیں یہ مجازی سائے ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر جنہیں ہم نہیں جانتے۔ گفتگو بہت زیادہ ہو گئ ہے مگر جان پہچان کا عمل کم۔ ہر طرح کے لوگ، ہر سطح کے لوگ ایکدوسرے سے بات کر رہے ہیں۔
اب پہلے کی طرح ایسا نہیں ہے کہ میں مخاطب کا انتخاب کر کے اس سے بات کروں۔ اس صورت میں مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ مجھے کیا کہنا چاہئیے اور جوباً مجھے کیا سننے کو ملے گا اور نتیجتاً میں اپنی پڑوس کی خاتون سے صرف سبزی دال اور بڑھتی ہوئ مہنگائ پہ بات کرتی ہوں آریاءووں کے برصغیر کے اوپر اثرات کی بات نہیں کرتی۔
سبزی اور گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں سے ہم دونوں ایک ہی طرح نالاں ہیں اور ایک ہی جیسے پریشان۔ اور اس طرح ہمارے مستحکم تعلقات برسوں سے ایک جیسے چلے آرہے ہیں۔ میں انہیں آریاءووں کے تذکرے سے خراب نہیں کرنا چاہونگی۔
لیکن اب اگر میں ان سے اقبال کی شخصیت پہ بات شروع کروں، اکبر بادشاہ کی پالیسیوں کا دفاع پیش کروں، یونیورسٹی میں طالب علموں کے مسائل تو وہ ایکدم ہکا بکا ہو کر یہی سوچیں گی کہ میں انہیں مرعوب کرنا چاہ رہی ہوں۔ مگر ، میں سمجھتی ہوں اور ہمیشہ یہ باتیں اپنے ایک اور حلقے میں کرتی ہوں۔ جہاں ہم سب لڑجھگڑ کر ایکدوسرے کے نظریات کی دھجیاں اڑا کر، اپنے دل کو ہر کلفت سے خالی کر کے بالآخر آرام سے چائے شربت پیتے ہیں۔
ان محدود حلقوں میں یہ سوال نہیں اٹھ کھڑا ہوتا کہ کوئ اپنا مءوقف دوسرے پہ نافذ کر رہا ہے۔ یا وہ سمجھتے ہیں کہ بس انہی کی بات صحیح ہے۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے مشاہدے، اپنے علم اور اپنے شخصی رجحان کی وجہ سے وہ یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ ہم ایکدوسرے کے لئے نرمی رکھتے ہیں، ہم ایکدوسرے کو کھونا نہیں چاہتے۔ یہ سب چیزیں اسی جگہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں جہاں تعلقات بالکل مجازی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہم چیزوں کی تفصیلات کو نہیں دیکھتے، مخاطب کی شخصیت سے کلی طور پہ واقف نہیں ہوتے اور نہ اسے اپنے سے الگ تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگلا شخص تو بالکل ہماری ہی سطح کا ہے پھر بھی اپنی افلاطونیت کیوں بھگار رہا ہے۔ یا اگلا شخص تو ہماری ہی سطح کا ہے پھر بھی ہماری بات کیوں نہیں تسلیم کرتا۔
میں اپنی دوست کو اسکے اس اسٹیٹس پہ لکھتی ہوں کہ
یہ جملہ آجکل کتنی دفعہ دہرایا جاتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ یہ جملہ ایک علم رکھنےوالاشخص بھی کہتا ہے اور ایک لا علم شخص بھی،
یہ جملہ ایک تجربہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے اور نا تجربہ کار بھی،
یہ جملہ ایک گہرامشاہدہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے اور سرسری مشاہدہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے،
یہ جملہ وہ شخص بھی کہتا ہے جس نے دنیا دیکھی ہے اور وہ بھی کہتا ہے جس نے اپنے آپکو بھی صحیح سے نہیں دیکھا ہوتا۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
ہر ایک کی سونچ سمجھ کی ایک سطح ھوتی ہے-- اور وہ اس سطح سے دیکھتا ہے اپنے مین مکمل سمجھتا ہے -- اپنے موقف اور انکے زھینی سطح کومنوانے کے لئے اپنی اولاد ملازم، بیوی کو تختہ مشق بناتے ہین-- یہ ایک ایگو کا مسئلہ ہے-- بہت عام ہھے-- جیسا کہ مین کہتا ہون کہ مجھ پر شاعری نازل نہی ہوتی میرے دوستون مین کوئی ایسا نہی کہتا کیونکہ وہ نرگیسیت مین مبتلا ہے-- جو لوگون کا مزاج طالبانہ ہوتا ہھے وہ اس بیماری سے دور ہینآآ
ReplyDeleteلوگ سمجھتے ہیں کہ انکا تجزیہ ہر طرح سے درست ہے۔ حالانکہ وہ اسے اپنے عدسے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے اس تجزئیے کو دوسروں پہ نافذ کر دیتے ہیں
ReplyDeleteBht bht muskurahat ky sath...akhir my dear friend ap ko is jumly pr itna aitraz ku hy. Phr ye nateja ksy nikala jaye ke ye technology ka kamal hy jis tarha ar sb muta'la ar mushahida krty hn ye jumla likhnay wala bhe muta'la ar mushahida kr sakta hy.
ar ye rha ik jumla ar na jany kitny ik jaisy jumly hen jo beshumar logon ki zabani sunny mn aty hn.
Yaqeenan bht sy loog jin sy jaan pehchan nhe hoti bht si ik si baatain ar jumly kehty hn laikin jin sy jaan pehchan ho wo koe baat kahen tu yaqenan us baat ki ehmiyat ya sachae ya haqeeqat pata chal he jati hy........
Jb apny apny blog ar apni apni FB pr jis ka jo dil chah rha hy kuch na kuch likh rha hy tu agr ye jumla likha gya tu itni kya bari baat??
rhi baat apna nazriya rkhny ki tu zaror rkha jay manadi kahan hy ar izhar bhe kiya jay bs ye k us nazrya ky kamil hony ki baat zara dosri hy....apna nazrya apny tk....koe bhe apna nazraya sirf byan kr skta hy dosron pr nafiz nhe....hunnnnn agr kisi ko ye ta'sur milta hy ky nazrya batany wala shaks apna nazrya dosron pr nafiz kr rha hy tu bhe kya..ye us ka mushahida hoga jo ho skta hy ghalat bhe ho.... baat tu hr sorat ho sakti hy....
"baghair smjhy nateja nikal laina bhe ik adat si ho gaye hy"......haaaha waisy ik tehrer is jumly pr bhe ho sakti hy......
Basad khulos ar muhabbat
شکریہ زین، لیکن میں تو یہ دیکھتی ہوں کہ جو نہیں منواتا وو بھی یہی کہہ رہا ہے اور جو منواتا ہے وہ بھی یہی کہہ رہا ہے۔ ہے ناں دلچسپ بات۔
ReplyDeleteہوں تو طلعت، آج آپ نے میرے بلاگ کے تبصرے میں حصہ لے ہی ڈالا۔ خوش آمدید۔
:)
اب آپ ذرا ملاحظہ فرمائے کہ میں نے اس جملے پہ کہیں آعتراض کیا ہے۔ نہ اسے تختہ ء مشق بنایا ہے ، میں نے تو اسکا صرف حوالہ دیا ہے۔ جہاں تک ٹیکنالوجی کا تعلق ہے یہ اسی کا تو کمال ہے کہ ایک طویل عرصے سے ہم بہ نفس نفیس نہیں ملے اور سامنے بیٹھ کر جو بات ہوتی ہے ہم ایکدوسرے کے اس سحر سے دور ہو چکے ہیں۔
میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ ہر شخص یہ بات کہتا ہے،خاص طور پہ یہ بات نیٹ کی مجازی دنیا میں بہت نظر آتی ہے۔ ہر طرح کا شخصص اس ایک جملے کو دوہراتا رہتا ہے۔ تو اس جملے کو اختیار کرنے والی نسل کیا سوچ رہی ہہے۔
اوپر ذکر کردہ اشخاص ميں سے کچھ کی تصويريں ميں نے ذہن ميں بنائی ہوئی ہيں پر آپ کو نہيں دکھا سکتی کارٹون بنانے نہيں آتے مجھے
ReplyDeletehuun, Aniqa phr tu ap ko kuch tehqeq krni paray gee. ap apni tehqeq jari rkhen ap ko pata chal he jay ga ky is jumly ko ikhteyar krny wali nasal kya soch rhee hy............
ReplyDeleteالسلام علیکم آنٹی۔
ReplyDeleteتحریر کو بھاڑ میں ڈالیں، میں یہاں ایک شکایت درج کروانے آیا ہوں۔
آج میں نے آپ کا بلاگ شریف اس امید پر کھولا کہ شاید کیمیا کے متعلق کوئی مضمون پڑھنے کو مل جائے لیکن کچھ بھی نہ ملا۔ البتہ لڑائی جھگڑے والی تحاریر (خصوصاً مرد بمقابلہ عورت والی) تھوک کے حساب سے پڑی ہیں۔ 22 اپریل کو زمین کا عالمی دن آ رہا ہے۔ اگر ایسے اہم موقع پر بھی کوئی سائنسی مضمون پڑھنے کو نہ ملا تو پھر اچھا نہیں ہوگا ہاں۔۔۔
X-(
یہی درخواست دیگر بلاگؤوں سے بھی کروں گا کہ اپنی مہارت کے موضوع پر ذرا زیادہ توجہ دیا کریں تاکہ لوگوں کو آپ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ بظاہر تو سائنس پڑھنے والے اتنے زیادہ ہیں لیکن اردو کی ویب سائٹس دیکھی جائیں تو اول تو سائنسی تحاریر ملتی ہی انتہائی کم ہیں اور زیادہ تر جو چیز سائنس کے نام پر ملتی ہے، اسے پڑھ کر دل کرتا ہے کہ اسے لکھنے والے کی پنجاب پولیس سے چھترول کروائی جائے۔ صحیح معنوں میں سائنس پاکستان میں بجلی، گیس اور چینی کی طرح ناپید ہے۔
پیارے بھتیجے یا بھانجے،
ReplyDeleteمیرے بلاگ پہ تو کہیں نہیں لکھا کہ یہ ایک تعلیمی بلاگ ہے۔ شروع کرنے سے پہلے میرا ارادہ صرف کیمیا پہ لکھنے پر تھا۔ لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ انگریزی ہم سے کہیں زیادہ سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو اس لیول کی کیمسٹری سمجھنے میں دلچسپی ہوگی وہ انگریزی سائیٹس کو ترجیح دیں گے اور جن لوگوں کا لیول کم ہے وہ کوچنگ سینٹر یا اسکول کے نوٹص سے کام چلانا زیادہ پسند کرتیں گے تو میں نے یہ ارادہ ڈراپ کر دیا۔
جہاں تک مرد بمقابلہ عورت کا تعلق ہے اسے ہمارے بلاگرز مرد بمقابلہ عورت بنا دیتے ہیں اگر اس پہ وہ صرف کام کی بات کریں تو کچھ نہ ہو۔ جیسے میاں بیوی ہم پیشہ ہو تو کیا مسائل ہو سکتے ہیں۔ جواباً اس طرح کی چیز سسنے کو ملے کہ عورت کو خدا نے کم درجے کا بنایا ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ اسے نبی نہیں بنایا۔
یا عورتوں کی تعلیم پہ توجہ دینی چاہئیے۔ اسکا جواب اس طرح ہوگا کہ عورتوں کو بس ضرورت کی تعلیم حاصل کرنی چاہئیے انکا بنیادی کام نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے اسکا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ خدا نے کسی عورت کو نبی نہیں بنایا۔
ہر سال پاکستان میں زچگی کے دوران تینتیس ہزار عورتیں مر جاتیں ہیں۔ جواب ملے گا کہ زچگی کے دوران مرنا شہادت ہے۔ آزادی ء حقوق نسواں کی حامی خواتین چاہتی ہیں کہ عورتوں کی جگہ مرد بچے پیدا کریں۔ حالانکہ خدا نے عورت کو اتنی فضیلت دی ہے لیکن عورتیں مغربی معاشرے متائثر ہو کر ایسی باتیں کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ یہ---- اور وہ وہ----۔
جب لوگوں کے دماغ اس حد تک ایک کولہو کیساتھ بندھے ہوں تو یہ زیادہ ضروری لگتا ہے کہ انہیں پہلے انسانی طریقے سے سوچنے کی ترغیب دی جائے۔ کیمسٹری کس کھیت کی مولی ہے۔ کل کہیں گے کہ ایک عورت کیسے مردوں کو کیمسٹری سمجھا سکتی ہے۔ عورت تو ناقص العقل ہوتی خدا نے خود کہا ہے کہ مرد عورتوں پہ قوام ہیں۔
اور پھر آپ کہیں گے آپکے بلاگ پہ مرد بمقابلہ عورت کا جھگڑا ہوتا ہے۔ میرے عزیز بھتیجے یا بھانجے۔ میرے اپنے بھانجے اور بھتیجے تو ابھی اس قابل نہیں کہ اس گہرے دکھ کو سمجھ پائیں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ اگر آپ میرے بلاگ پہ زیادہ حاضری دیں اور کوئ اللہ کا بندہ آپ سے کہے کہ آپ بڑی عورتوں کے بلاگ پہ حاضریاں لگاتے ہیں تو آپ کیا کریں گے۔
تو جناب جہاں کی الف اس چیز سے شروع ہو کے یہ عورت کا بلاگ ہے اور وہ مرد کا تو وہاں ہر موضوع کیساتھ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ میں کوشش کرونگی کہ زمین کے دن پپہ کچھ لکھوں جس میں سب کی دلچسپی ہو۔ مجھے عوام الناس کے لئے لکھنے سے دلچسپی ہے بہ نسبت واص کے لئے۔
آنٹی حضور، جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ان کا جواب نہایت آسان ہے کہ مختلف ہونے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہوتا کہ ایک برتر درجے کا ہے اور ایک کمتر درجے کا۔ اللہ تعالیٰ انصاف پسند ہے۔ وہ بھلا کیوں کسی کو پیدائشی طور پر کمتر اور کسی کو پیدائشی طور پر برتر بنائے گا۔ اب مثال کے طور پر میں طبیعیات اور ریاضی جیسے موضوعات میں اچھا ہوں لیکن کوئی مجھے کہے کہ مجھے چونکہ اکاؤنٹنگ نہیں آتی لہٰذا میں کم تر درجے کا ہوں تو اس کی بات کو زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے۔ اگر ایسی باتوں پر زیادہ توجہ دیں گی تو ٹینشن ہوگی اور ٹینشن سے بھرا ہوا انسان ہر ایک کو رگڑا لگانے میں اپنی صلاحیتیں ضائع کر دیتا ہے۔ غالباً یہی ٹینشن ہے جس کی وجہ سے کئی بار بے ضرر سی تحاریر بھی آپ کو اپنی ذات پر یا پھر دنیا بھر کی عورتوں پر حملہ محسوس ہوتی ہیں۔
ReplyDeleteلہٰذا ٹینشن والے موضوعات کو چھوڑیں۔ کیمیا پر لکھنا شروع کریں جس کو آپ اپنے بہت سے قارئین کی نسبت بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ آپ دیکھیں گی کہ "مرد بمقابلہ عورت" کی سوچ والے قارئین کا رویہ (کم از کم آپ کے متعلق) خود بخود تبدیل ہونے لگ جائے گا۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ جن لوگوں کو اس سطح کی کیمیا سمجھنے میں دلچسپی ہوگی، وہ انگریزی سے کام چلا لیں گے تو آپ پوری طرح درست نہیں ہیں۔ مجھے اس سطح کی کیمیا میں دلچسپی ہے لیکن مجھے اگر اردو میں کوئی تحریر ملتی ہے تو میں اس کو ترجیح دوں گا کیونکہ اردو والی تحریر کو سمجھنے میں مجھے کم محنت لگے گی، نتیجہ یہ کہ میں کم وقت میں زیادہ علم حاصل کر پاؤں گا۔ زندگی چھوٹی ہے اور وقت بہت قیمتی۔ جتنے کم وقت میں جتنا زیادہ کام ہو اتنا بہتر ہے۔ یہ فرق بالکل مشین لینگویج اور ہائی لیول لینگویج جیسا ہے۔ اردو کی حیثیت میرے لیے ایسی ہے جیسے کمپیوٹر کے لیے مشین لینگویج جسے وہ براہِ راست سمجھ لیتا ہے۔ جبکہ انگریزی کی حیثیت انٹرپریٹڈ ہائی لیول لینگویج کی ہے جسے پہلے مشین لینگویج میں بدلنا پڑتا ہے جس میں کمپیوٹر کی اضافی طاقت لگتی ہے۔ اس کے بعد کہیں وہ اسے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔
اتنے طویل لیکچر کے بعد بھی اگر کوئی کیمیائی تحریر پڑھنے کو نہ ملی تو اچھا نہیں ہوگا۔ اتنی ٹینشن دوں گا کہ آخر تنگ آ کر بات ماننی ہی پڑے گی۔
اگر اس طرح نہیں مانتیں تو منوانے کے اور بھی طریقے ہیں۔ مثلاً:
ReplyDeleteپی ایچ ڈی کی ڈگری فریم میں سجا کر رکھنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اس ڈگری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے حامل شخص میں دوسروں کا علم بڑھانے کی صلاحیت ہے۔
دیکھیں اب میں نے آپ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری پر حملہ کر دیا ہے۔ اب تو کچھ پڑھنے کو ملے گا ہی ملے گا۔
:D
یا پھر یوں کر لیتا ہوں:
اگر 22 اپریل تک کیمیا پر کچھ پڑھنے کو نہ ملا تو آپ سڑیل۔
سعد سے متفق ہوں کہ اچھائیوں برائیوں پر لکھنے والے آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں لیکن سائنس پر لکھنے والے ایک طرح سے موجود ہی نہیں ہیں۔
ReplyDeleteاور ایک بندے کے بارے میں آپ کا تخیل ٹھیک کر دیتا ہوں۔ پہچان خود لیں۔
http://dl.dropbox.com/u/2823850/blogger1.jpg
ورنہ وہ خود ہی آکر بتا دے گا۔
صابر
محمد سعد، اب چونکہ آپ مجھے میری پی ایچ ڈی کی ڈگری کا ٹینشن دینے پہ تل گئے ہیں تو میں یہ کہنا چاہونگی کہ مجھے آپ پھر ڈاکٹر عنیقہ کہیں، تاکہ مجھے یاد آتا رہے کہ میں نے یہ اپنی زندگی کے مشکل مرحلے پہ کافی تگ و دو کے بعد حاصل کی تھی۔
ReplyDeleteاور بھئ، کہہ تو چکی ہوں کہ ارتھ ڈے میں لکھ دونگی۔ تھوڑا انتظار کریں۔
کیمیاء کے ساتھ جو اصل مسئلہ ہے وہ یہ کہ اردو میں ایک عام سی بلاگنگ کرنا تو آسان ہوتا ہے۔ لیکن کیمیا کی ساختین یا مساوت بنانا مجھے نہیں آتا۔ یہ کام تو میں صرف انگریزی میں کر سکتی ہوں۔ اگرچہ کہ ایک خیال مجھے یہ بھی آرہا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی اور پروگرام کی امیج بنالی جائے اوت پھر وہ یہاں ٹرانسفر ہو جائے۔ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ کیمیا میں ساختیں یا مساواتیں بنانے کے لئے جو سوفٹ ویئر ہم استعمال کرتے ہیں وہ کیم ڈرا کہلاتا ہے۔ مجھے یہ انداز بھی نہیں کہ کیا کیم ڈرا کی فائلوں کی امیج بنائ جا سکتی ہے۔
کیونکہ ان سب چیزوں کے بغیر محض ٹیکسٹ سے کیمیا سمجھانا مشکل ہے۔
صابر صاحب، یہ تو جعفر کی تصویر ہے۔ ڈفر کی نہیں۔ ذرا پھر سے میری تحریر پڑھئیے گا۔
ویسے انیقہ مجھے سعد کی تحریر پڑھ کر مزا آیا!
ReplyDeleteتو اب ہم منتظر ہیں آپکی کیمیاوی تحریر کے، خیال رکھیئے گا زیادہ ٹاکسک نہ ہو!
اسلام آباد ميں ايک ٹريننگ کے دوران ايک ٹيچر نے بتايا تھا کہ رمضان ميں جسطرح ہم پکوڑے تلتے ہيں کہ ايک کڑاھی ميں خاصا تيل ڈالديا پھر دو چار روز اسی تيل ميں تلتے رہيں يہ سخت خطرناک ہے کيونکہ ايک دفعہ استعمال شدہ تيل کو دوبارہ گرم کرنے سے پتہ نہيں کيا ہو جاتا ہے جو صحت کے ليے خطرناک ہے لہذا ايک دفعہ پکوڑے بنانے کے بعد دوبارہ اس تيل ميں نہيں بنانے چائيے اس پر روشنی ڈالديں يہ صحيح ہے يا غلط شکريہ
ReplyDeleteاسماء، یہ بات باکل صحیح ہے۔ چیزیں تلنے کے دوران اپنے اجزاء تیل میں چھوڑتی ہیں، اسکے علاوہ مصلالحہ بھی ہوتا ہے۔ تو یہ سب مل ملا کر اتنے زیادہ ٹمپریچر پہ ایسے مرکبات بنا لیتے ہیں جو جسم میں کینسر کا سبببن سکتے ہیں ۔ جتنی دفعہ ہم ایک چیزیں اس میں ہم تلیں گے اتنا ہی وہ چیز نقصان دہ ہوتی جاتی ہے۔ اب اسکا انحصار اس بات پہ ہے کہ وہ چیز اپنے اجزاء کتنا زیادہ تیل میں چھوڑ رہی ہے۔ اس لئے ایک دفعہ کہ شرط تو نہ لگائیں بلکہ دو تین دفعہ کہہ لیں۔ اس لئے کڑاہی میں بس ضرورت بھر کا تیل لیں اور دو تین دفعہ تلنے کے بعد اسے پھیک کر کڑاہی صاف کر لیں۔ اسی طرح بعض خواتین ایک دفعہ کے استعمال کئے ہوئے تیل کو واپس تازہ تیل میں ملادیتی ہیں یہ بھی غلط ہے۔ اسے الگ رکھیں اور جتنی جلدی ممکن ہو اسے استعمال کر لیں۔
ReplyDeleteبہتر یہ ہے کہ تلی ہوء، بار بی کیو چیزوں اور بیک کی ہوئ چیزوں کو بہت زیادہ کھانے میں استعمال نہ کریں۔
اب اگرچہ میں لوگوں کو اس طرح کی نصیحتیں تو کرتی ہوں۔ لیکن اوروں کو چھوڑیں میرے گھر میں لوگوں کو ایسے کھانوں کی لت لگ چکی ہے۔ اور انہیں یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ جب ہم نے اسی طرح کحا کر اپنی اب تک کی زندگی گذار لی ہے اور اچھ خاصی گذار لی ہے تو کیا خطرہ ہے؟
یہ سب جدید علوم والے بس یونہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔