Monday, April 5, 2010

پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائ

پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کے ایک گروپ نے یونیورسٹی کے ایک استاد  پروفیسر افتخار بلوچ کے آفس پہ ہلہ بولا اور انہیں زد و کوب کیا۔ یہی نہیں انہوں نے وی سی پنجاب یونیورسٹی کی رہائش پہ بھی حملہ کیا۔ انکے مشتعل مزاج کی وجہ جمیعیت سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کا یونیورسٹی سے انخلاء کا حکم تو جو انکے خلاف نظم و ضبط پہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے لایا گیا۔ پروفیسر بلوچ اسٹوڈنٹس ڈسیپلینری کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ 
پاکستانی یونیورسٹیز میںایسے واقعات پیش آنا کوئ غیر معمولی بات نہیں۔ مجھے خود محض ڈھائ سال کے عرصے میں کئ دفعہ اس قسم کے واقعات سے گذرنا پڑا کہ اسٹوڈنٹس کا ایک گروہ میرے سر پہ کھڑا ہو کہ کلاس فی الفور ختم کی جائے۔ وہ کسی واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ڈپارٹمنٹ میں اس وقت کوئ کلاس نہیں ہو سکتی۔۔ 
اسٹوڈنٹس کو غنڈہ گردی کی طرف مائل کرنے والی ہماری سیاسی پارٹیز ہوتی ہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز میں یہ اپنی بچہ پارٹی کو استعمال کرتی ہیں۔ اس عمر کے اسٹوڈنٹس جنکی ابھی زندگی میں نہ کوئ اچیومنٹس ہوتی ہیں نہ شناخت لوگوں کے ہجوم میں نمایاں ہونے اوراپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے انکے آلہ ء کار بن جاتے ہیں۔ اور عالم یہ ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کو اس بات پہ اعتراض نہیں ہوتا کہ کوئ استاد انہیں پڑھانے میں کتنی نااہلیت برتتا ہے۔وہ اسکے خلاف جا کر وی سی کے آفس کے باہر مظاہرہ نہیں کر سکتے مگر یونیورسٹی کے اندر کسی پول پہ سے انکی پارٹی کا جھنڈا ہٹنا ہنگامے کا باعث بن سکتا ہے۔
ان واقعات میں اسلامی جمیعیت طلبہ کے اسٹوڈنٹس شامل بتائے جاتے ہیں۔ ویسے تو جماعت اسلامی کے سر کردہ رہنماءووں نے اس واقعے میں کسی بھی اسلامی جمعیت کے طالب علم کے ملوث ہونے کو جھٹلایا ہے۔ لیکن تمام واقعات اور شواہد انکے اس دعوی کے خلاف جاتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں ہنگامہ آرائ کے متعلق اسلامی جمیت طلبہ کی تاریخ کوئ زیادہ اچھی نہیں ہے۔  ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ عمران خان کی درگت بھی اسلامی جمیعت طلباء کے سپوتوں کے ہاتھ بنی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی ویسے بھی جمیعت کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔  یہ وہ جماعت ہے جسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی دفعہ یونیورسٹیز میں اسلحے کی سیاست متعارف کرائ۔
اس صورتحال سے اسلامی جمیعیت کے کچھ طلباء خاصے ناراض ہوئے اور انکا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ انتقامی کارروائ کا حصہ ہے اور ایسا اس لئے کیا گیا کہ انکے طلباء نے مارچ کے مہینے میں  یونیورسٹی میں امریکہ کے خلاف ریلی منعقد کرائ تھی۔ جمعیت کے پاس یہ وہ ٹانک ہے جو اپنے ارکان کے اندر توانائ کی لہریں دوڑا دینے کا باعث بنتا ہے اور۔جس سے انکے مزاج کی  آتش صفتی بڑھ جاتی ہے۔ گو امریکہ گو۔ امریکہ مردہ باد۔ عالمی دہشت گرد کون، امریکہ، امریکہ۔ اس سے تو میرے بھی خون کا دوران بڑھ جاتا ہے۔
سادہ دل وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی  نے وزیر اعلی ہنجاب ، میرا مطلب خادم پنجاب جناب شہباز شریف سے درخواست کی کہ وہ ان طلباء کے خلاف تادیبی کارروائیوں میں انکا ساتھ دیں۔ تاکہ یہ واقعات پھر نہ دوہرائے جا ئیں۔  لیکن یہ تو اب کوئ بھی شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ دائیں بازو کی سیاست کرنےوالے شہباز شریف دائیں بازو کے حامی عناصر کے خلاف کیسے کارروائ کر سکتے ہیں۔
  ایک زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو استاد کے حوالے یہ کہہ کر کرتے تھے کہ ہڈی ہماری چمڑی تمہاری۔ اوراب استاد یہ کہہ کر تعلیمی اداروں کے حوالے کیا جاتا ہے کہ تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر۔ اگرچہ مناسب کارروائ نہ ہونے تک اساتذہ نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے لیکن کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
اب رہ گئے پروفیسر افتخار بلوچ تو انکے لئے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں سے کیا ڈرنا۔ پٹ پٹ کر ایک دن پٹنے کی عادت ہو ہی جائے گی۔  استاد ہونے کے لئے اور خاص طور پہ اسٹوڈنٹس ڈسیپلینری کمیٹی کا سربراہ ہونے کے لئےاسکی عادت ہونا بہت ضروری ہے۔

 



51 comments:

  1. پنجاب یونیورسٹی ہو، کراچی یونیورسٹی ہو کہ زرعی یونیورسٹی سب جگہ "بھائی" لوگ کی ہی چلتی ہے۔ کہیں باریش بھائی ہیں کہیں مے نوش لیکن اصل سب کی ایک ہے۔

    ReplyDelete
  2. خرم، اور وہ اصل کیا ہے؟؟؟؟؟
    جواب ضرور دیجیئےگا!

    ReplyDelete
  3. پنجاب یونورسٹی میں جو کچھ ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ جمعیت کے بطور تنظیم ملوث ہونے کا انکار کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جعمیت کا کارکن لازمی ملوث ہے۔ یہ جمعیت جامعہ پنجاب کا مزاج یا جو کچھ بھی اس کا کڑا احتساب ہونا چاہیے، جمعیت اور انتظامیہ دونوں کی طرف سے۔
    لیکن مجھے حیرت ہے کہ یہی کام پی ایس ایف ، پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور کراچی کی داد تنظیم اے پی ایم ایس او اکثر کرتی رہتی ہے لیکن نا تو اس کی مذمت کی جاتی ہے اور نا ہی کسی ٹیچر کو توفیق ہوتی ہے کہ وہ سامنے آکر اس کے بارے میں کچھ کہہ سکیں۔

    ReplyDelete
  4. ویسے میری طرح بعض مرتبہ آپ بھی تحقیق نہیں کر پاتی مصروفیت کی بناء پر تو الگ بات ہے شہباز کے گزشتہ ادوار میں اپنی پارٹی کی طلباء یونین کے کالف ایکشن کا کہیں سے پڑھ لیجئے گا نیٹ پر لنک نہیں ہے۔۔۔
    ویسے بندہ کافی ظالم ہے۔
    دوئم میں نے خود کبھی طلباء کی سیاست میں حصہ نہیں لیا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں انہیں تعلیمی اداروں کے لئے موت سمجھتا ہوں مگر یہ بھی دیکھا گیا ہے ان طلباء سیاست کی پیداوار قیادت میں سمجھ بوجھ کافی ہوتی ہے اور ملکی میدان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی میدان میں بھی اچھے رول ادا کرتے ہیں۔۔۔۔

    ReplyDelete
  5. خرم صاحب اور تلخابہ، میں نے کراچی یونیورسٹی میں ایک طویل عرصہ گذارا ہے۔ مجھے کبھی پنجاب یونیورسٹی جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن پی ایچ ڈی کے دوران میری بہت سارے ساتھی ایسے تھے جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا اور ان لوگوں کے بقول پنجاب یونیورسٹی پہ اسلامی جمیعت طلبہ کا بہت زیادہ اثر ہے جسے وہ اسٹرونگ ہولڈ کہتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں آپ اے پی ایم ایس او یا جمعیت دونوں کے بارے میں ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اے پی ایم ایس او کے ابھرنے سے پہلے کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کا اسٹرونگ ہولڈ تھا اور سنتے ہیں کہ حالات یوں تھے کہ ایک لڑکا اور لڑکی کے ساتھ بیٹھنے پہ پابندی تھی۔ اور یہ صرف انکے ساتھ بیٹھنے کی پابندی نہیں بلکہ پورے ادرے میں انکے بنائے ہوئے ضابطہ ء اخلاق کو چلانے کی اتھارٹی تھی۔ یونیورسٹی کی طرف سے نہیں، جمعیت کی طرف سے۔ کسی بھی صورت میں اگر ایسی صورت حال سامنے آتی تو ان سے جا کر پوچھا جاتا کہ انکا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ یہ صورت حال اے پی ایم ایس او کے میدان میں آجانے کے بعد تبدیل ہوئ۔ اور طاقت کا میدان بھی تقسیم ہوا۔ لوگوں کو اس طرح ہراساں کرنے کی کارروائیاں ختم ہوئیں۔ جمعیت اپنی سابقہ حیثیت میں کمی برداشت نہیں کر سکتی تھی اور اے پی ایم ایس او اس وقت سیلابی ریلہ بن چکی تھی۔ اسکے علاوہ پی ایس ایف اور این ایس ایف اور آئ ایس او سب ہی اپنی جگہ سرگرم تھے اور نئ پارٹی کو قبول کرنا مشکل ہورہا تھآ۔ طاقت کی جنگ اتنی بڑھی کہ تین طالب علموں کے ایک ساتھ مارے جانے کے بعد یہاں ریجرز بلانی پڑی۔
    لنک دیکھئے گا
    http://www.interface.edu.pk/students/Aug-08/Karachi-University-Killing.asp
    اور پچھلے تقریباً بیس سال سے کراچی یونیورسٹی میں رینجرز تعینات ہے۔
    تلخابہ کیا آپکو اس بات پہ حیرت نہیں ہوتی کہ پورے پاکستان میں کراچی یونیورسٹی ملک کی شاید وہ واحد یونیورسٹی نہے جہاں پچھلے بیس سال سے رینجرز تعینات ہیں۔ آنکی اجازت کے بغیر یونیورسٹی کی حدوں میں آپ داخل نہیں ہو سکتے اپنی گاڑی اندر نہیں لیجاسکتے۔ اندر جانے کے لئیے آپکو پاس بنوانا پڑیگا۔اور بغیر پاس کے گاڑی اندر چھوڑ کر ڈیڑھ کلومیٹر اندر پیدل چلنا پڑیگا۔ ان رینجرز نے نجانے کتنی ہی دفعہ اساتذہ کو مارا پیٹا، اسٹوڈنٹس کو مارا پیٹا اور حتی کہ انکے اوپر طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی تک کے الزامات ہیں لیکن انہیں یہاں سے پھر بھی نہیں ہٹایا گیا۔
    دوسری طرف اسلامی جمعیت طلبہ کا پنجاب یونیورسٹی پہ اسٹرونگ ہولڈ ہے۔ اور میرے انہی کولیگز کے مطابق چند ایک ماڈرن ڈپارٹمنٹس کو چھوڑ کر جیسے انگلش ڈپارٹمنٹ اور فائن آرٹس کے ڈپارٹمنٹ کے جہاں امراء کے بچے زیادہ ہیں باقی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ضابطہ ء اخلاق چلتا ہے۔ میرے ایک کولیگ کے مطابق وہ انکے کارکن رہے اور ایک دور میں وہ انکے لئے اسلحے کی خریداری بھی کرنے گئے۔ بعد میں انہوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
    محض چند کی ورڈز ڈالنے سے آپکو جمعیت کی پنجاب میں دہشت گردی کے پچھلے کئ سالوں کا ریکارڈ مل جائیےگا۔ آخر پنجاب یونیورسٹی میں رینجرز کیوں نہیں لگائ جاتی۔
    شعیب صفدر صاحب، اپنی اولاد کو تو آنکھیں دکھانا آسان ہوتا ہے کہ آپ درپردہ انکے لئے کچھ اور بند و بست کر لیتے ہیں۔ لیکن جمعیت کی پنجاب یونیورسٹی میں یہ حیثیت کوئ آجکی بات نہیں۔ ماضی میں انہیں قابو میں رکھنے کے لئیے انہوں نے کیا اقدامات کئے تھے۔
    میں طلباء کے سیاست میں حصہ لینے کے خلاف نہیں۔ اس طرح انکی تربیت ہوتی ہے اور وہ اگلی نسل کے طور پہ ذمہداری سنبھالنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان میں پختگی پیدا ہوتی ورنہ وہ اپنے آپکو تا عمر بچہ سمجھ کر زندگی گذارتے رہتے ہیں۔ تمام دنیا میں طلباء یونین ہوتی ہیں۔ لیکن ان یونیز کا مقصد اسٹوڈنٹس کو اپنے مسائل حل کرنے کا ہنر سکھانا ہوتا ہے۔ نہ کہ ہر جگہ اپنی اتھارٹی دکھانا۔ اور مار پیٹ کو کسی مسئلے کا واحد حل سمجھنا۔
    یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم تعمیری سیاست کے بجائے اپنی طاقت کے مظاہرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور یہ ہمارے طلباء کی لاپرواہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ترجیحات کا تعین نہیں کرتے۔

    ReplyDelete
  6. افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔ استاد کے رتبے کا ہی خیال کیا ہوتا حضرت علی باب علم کا خطاب رکھتے ہیں جو حضورصل اللہ علیہ وسلم نے دیا وہ فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا استاد ہے ۔۔۔۔۔۔ اورر ہم لعنت ہے بھای۔۔۔۔
    کامران اصغر کامی

    ReplyDelete
  7. شعیب صفدر اور تلخابہ جیسے لوگ اصل میں یہ چاہتے تھے کہ ان کے چاہنے والے جس کی چاہتے گردنیں اتارتے رہتے اور لوگ یا تو گردن اٹھاتے ہی نہ یا اٹھادی تھی تو اس کی سزا میں چپ کر کےگردن اتر والیتے بغیر کسی چوں چرا کے،
    اسی لیئے تو اس ذہنیت کے لوگوں کو اپنے سوا سب غدار اور دہشت گرد نظر آتے ہیں!!!!!

    ReplyDelete
  8. اس طرح کے خون خرابوں میں زیادہ تر وہی لوگ ملوث ہوتے ہیں جو تعلیم میں صفر ہوتے ہیں اور اپنی جسامت اور سیاسی بیک گراؤنڈ کے زور پر دادا گیری دکھا کر پاس ہوتے رہتے ہیں اور سونے پر سہپاگہ ان کے گھروں کا ماحول ہوتا ہے جہاں والد محترم حقوق غصب کرنے اور جبر سے حاکمیت قائم رکھنے میں ماہر ہوتے ہیں سو یہ دونوں تربیت مل کر انہیں جو بناتی ہے وہ ایک دنیا بھگتتی ہے،

    ReplyDelete
  9. پنجاب یونیورسٹی کو کراچی کا ماڈل سمجھ لیں اور جمعیت کو ایم کیو ایم کا اپ کو سارے فساد کی جڑ سمجھ آ جائے گی۔ یہ لوگ بالکل غنڈہ گردی کرتے ہیں اور اسلام کے نام پر کرتے ہیں اور نسلوں سے یہ اطوار ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جیسے کچھ احمق کراچی میں لاشیں گراتے ہیں یا کچھ احمق بلاگز پر فضول تبصرہ نگاری کرتے ہیں ویسے ہی یہ ابا جان نما اسٹوڈنٹس بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں آج کل ہر ایک ہی اس ریس میں ہے کہ حد سے گزر جائے۔ چاہے کوئی بلاگ نما رپورٹنگ کرتا ہو یا پروفیسر کا سر پھاڑنے والا

    ReplyDelete
  10. کسی بدتمیز کے منہ سے حد سے گزر جانے کا لفظ کچھ عجیب سا لگتا ہے مگر یہ دنیا ایک عجائب خانہ ہے،یہاں دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت ٹائپ لوگ زیادہ نظر آتے ہیں :(
    منے اب بڑے ہوجاؤ کب تک ایسی بے وقوفانہ باتیں کر کے لوگوں کو ہنساتے رہو گے!

    ReplyDelete
  11. کچھ عجیب سا معاملہ ہے لوگوں کو اختلاف رائے برداشت نہیں ہوتا تو عجیب عجیب سے جواز تراشنا شروع کردیتے ہیں کسی کو بلاگ لکھنے پر اعتراض ہے کہ ایسے کیوں لکھا ایسے کیوں نہیں لکھا تو کسی کو ان پر ہوئے تبصروں پر اعتراض اب کوئی پوچھے بھائی لوگ آپ کی پوسٹ پر تو کوئی تبصرہ نہیں فرمارہا پھر آپکے پیٹ میں اس قدر درد کیوں؟؟؟؟
    اور کسی کو اس بات پر اعتراض کہ تبصروں میں کالم کیوں پیسٹ کرتے ہیں اب اگر کوئی پورے کالم کو اپنے الفاظ میں لکھ دے تو یہ اس کے ذاتی خیالات اور اگر کوئی وہی کالم پیسٹ کر کے لگا دے کہ یہ ایک اور نقطئہ نظر ہے تو کیونکہ ان کے خیالات کی تردید ہونے لگتی ہے اس لیئے یہ تو بڑا گناہ ہوا ایسا کرنا قطعی غیر اخلاقی ہو جاتا ہے!
    حالانکہ خود انہی اخباری خبروں کو بنیاد بنا بنا کر بے حساب کہانیاں گھڑی گئی ہیں اور ان پر ایسا یقین ہے کہ قرآن اور حدیث پر بھی نہ ہوگا!!!!

    ReplyDelete
  12. ویسے بدتمیز آپس کی بات ہے،لگتا ہے کہیں بہت زور سے لگی ہے!!!!!

    ReplyDelete
  13. میں یہاں سنجیدگی سے اپنے کچھ تجربات اور باتیں شئیر کرنے آیا تھا
    لیکن یہاں پھر وہی رنڈی رونا چالو ہے

    ReplyDelete
  14. ویسے تعلیمی اداروں میں یونین/پارٹی وغیرہ کی چنداں ضرورت نہیں دکھائی دیتی۔ مِل،فیکٹری وغیرہ میں تو چلو مزدوروں،کارکنوں نے آجر سے اپنی تنخواہ وغیرہ کے لیے لڑنا ہوتا ہے لیکن طالبعلموں کو حقیقت میں ایسی کوئی صورتحال درپیش نہیں ہوتی جس سے یونین وغیرہ بنانے کی تائید ہو سکے۔کئی پرائیویٹ تعلیمی ادارئے بِنایونینز بہت خوب چل رہے ہیں۔ نہیں؟

    ReplyDelete
  15. ہی ہی ہی
    استاد سیریس نہیں ہونے کا
    :D

    ReplyDelete
  16. بد تمیز ، میں آپکو یہ بتا دوں کہ کراچی یونیورسٹی میں ایم کیو ایم کا وہ ہولڈ نہیں ہے جو پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں پاور تقسیم شدہ ہے۔ موقع ملنے پہ سب اپنا آپ دکھاتے ہیں پنجاب یونویورسٹی کی طرح صرف جمیعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ سب ہی غنڈہ گردی کر لیتے ہیں۔ جھگڑے زیادہ تر کارکنان کے درمیان ہوتے ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ ہم تین چار لوگ بیٹھے چھولوں کی چاٹ اڑا رہے ہوں اور کوئ ہم سے آکر کہے کہ لڑکے اور لڑکیاں الگ بیٹھیں یا آپ لوگوں کے درمیان کیا تعلق ہے اگر کوئ خونی رشتہ نہیں تو الگ ہو جائیں۔ امتحانی عمل کے اندر مداخلت یا لوگوں کو نقل کرانے میں معاونت، ایسا نہیں ہوتا۔ جس زمانے میں جماعت اسلامی کا ہولڈ تھآ اس وقت کے اساتذہ بھی یہاں موجود ہیں اور انکی اپنی لابیز ہیں تو جو کوئ سمجھتا ہے کہ یہاں ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او والوں کو کھلی چھٹی ہے وہ غلط سمجھتا ہے۔ ایک دوسری وجہ جو میں آپ کو بتا چکی ہوں وہ کراچی یونیورسٹی میں بیس سال سے بھی زائد عرصے سے رینجرز کی تعیناتی ہے۔
    رینجرز کے اس طویل مزے سے ملک کی کوئ یونیورسٹی آگاہ نہیں ہے۔
    جعفر، ہم تو آپکے تجربات کو سننے کے مشتاق ہیں۔ باقی باتیں تو چلتی رہتی ہیں۔ میری بٹی جب دو سال کی تھی تو اسکی خواہش ہوتی تھی کہ سب خاموش ہو کر اسکی بات سنیں۔ تو وہ اپنی بات کہنے سے پہلے شور مچاتی تھی کہ سب خاموش ہو جائیں۔ مگر تین سال کی عمر تک اس نے یہ سیکھ لیا کہ جب سب باتیں کر رہے ہوں تو درمیان میں زور سے بولنا انتہائ کارگر ہے۔ اور اگر پھر بھی کوئ توجہ نہ دے تو شور مچا دیں کہ مجھے پوپو آرہا ہے، جلدی کریں۔
    آپ نے بھی اب تک کچھ تو سیکھا ہوگا۔

    ReplyDelete
  17. احمد عرفان شفقت صاحب، طالب علموں کے بھی بے پناہ مسائل ہوتے ہیں۔ اب چونکہ میں نے کراچی یونیورسٹی سے پڑھا ہے تو میں آپکو بتاءووں کہ یونورسٹی پہنچنا ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثر طالب علموں کو یونیورسٹی پہنچنے کے لئے دو دو تین تین بسیں تبدیل کر نی پڑتی ہیں اور اپنے گھروں سے ڈیڑھ ڈیڑھ ، دو دو گھنٹے کا فاصلہ طے کر کے پہنچنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کی اپنی بسز کا بیڑا ہے۔ جو کبھی بہت بڑا ہوتا تھآ آجکل اس میں شاید پچیس تیس بسیں شامل ہیں۔ جو یونیورسٹی میں لگ بھگ بارہ ہزار طلباء کے لئے ناکافی ہیں۔ اور طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو پرائیویٹ بسز لینی پڑتی ہیں۔ رینجرز کی تعیناتی سے پہلے یہ بسیں شہر کے مختلف علاقوں سے چلتی تھیں اور طلباء کو انکے مقررہ ڈپارٹمنٹ پہ اتار دیتی تھیں۔ یونیورسٹی کے زیادہ تر ڈپارٹمنٹس مین گیٹ سے کم ازکم ایک کلومیٹر کے فاصلے پہ ہیں۔ رینجرز کے لگانے کے بعد اب تمام اسٹوڈنٹس کو گیٹ پہ اتر کر اپنے شناختی کارڈ اور بیگز چیک کرانا ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس گاڑی ہے تو اسے اپنی گاڑی کا پاس رینجرز آفس سے بنوانا ہوتا ہے۔ اگر آپ یونورسٹی کی مرکزی لائبریری سے جو خاصی بڑی ہے مستفید ہونا چاہتے ہیں لیکن آپ جامعہ کے طالب علم نہیں ہیں تو آُکو اپنا شناختی کارڈ وہاں جمع کرانا ہوگا۔
    اب دیکھیں محض یونیورسٹی کے اندر داخلہ ہی ایک ممنوع چیز بن گیا ہے۔ طالب علم پرائیویٹ بسوں میں جتنا کرایہ دا کر کے پہنچتے ہیں اس سے کہیں کم میں وہ پہلے یونیورسٹی سکون سے پہنچ جاتے تھے۔ کسی بھی یونین نہ ہونے کیوجہ سے آہستہ آہستہ ان بسوں کی تعداد بہت کم کر دی گئ ہے۔ اسی طرح سائینس کی لیبز میں سامان کی فراہمی ہے۔ مختلف اساتذہ پہ چیک اینڈ بیلینس رکھانا ور لا تعداد مساءل ہوتے ہیں جو ایک طالب علم کو ہی پتہ ہوتے ہین۔ اور اسکا حل ایک اسٹوڈنٹ ایڈوائزری کمیٹی نہیں ہوتی ہے۔
    دوئم بات یہ ہے کہ ذہنی پختگی کا عمل نہیں پیدا ہو پاتا۔ آپ بہت سارے پرائیویٹ داروں کی بات کرتے ہیں۔ ابھی بھی اگر آپ ایک یونیورسٹی اسٹوڈنٹ اور کسی کالج میں ایک ہی جیسی دگری لینے والے شخص کا مقابلہ کریں تو یونیورسٹی کا ماحول انسان کو زیادہ کھلے ذہن کا اور زیادہ پخترہ بناتا ہے۔ اور میں ہر طالب علم سے کہونگی کہ اگر وہ انٹر کے بعد مزید پڑھنا چاہتا ہے تو اسے ضرور یونیورسٹی کے تجربے سے گذرنا چاہئیے۔
    ایک کھلے ماحول میں جب اس طرح کی سرگرمیان ہوتی ہیں تو اسٹوڈنٹس بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں آج سے تیس سال پہلے کے طلباء کے روئیے کے بارے میں جو سنتی ہوں وہ آجکے طلباء کا رویہ نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے ذہن سے بہت کم سوچنا جانتے ہیں۔ زندگی کے عملی تجربات کی حیثیت تقریباً صفر ہوتی ہے۔ اور آج کا طلب علم ایک آئیڈئیل دنیا میں زیادہ رہتا ہے۔ ٹیچر ایک بنا بنایا لیکچر دے دیں۔ چند مخصوص سوالات آجائیں، چند مخصوص کتابیں پڑھ لیں۔ اپنے ملک کی تاریخ اور جغرافیہ سے لا علم، اپنے ہی ملک کے دیگر لوگوں کی ثقافت سے ناآشنا، قوت برداشت صفر البتہ مروجہ کتابیں اخلاق کا شو آف۔ اپنے ذاتی نظرئیے کے علاوہ کچھ نہیں معلوم وہ بھی کچھ ہی لوگوں کا ہوتا ہے۔ یونیورسٹیز کوئ اسکول اور کالجز نہیں ہوتی ہیں۔ یہاں کھلے ذہنوں کی پیداوار ہونی چاہئیے ۔ لیک اس سارے عمل کو آگے بڑھنے سے روکنے والے عناصر میں ہمارا کرپٹ نظام تعلیم کو محض ڈگری کا حصول جاننا، نا اہل اساتذہ، کم فہم والدین اور محنت سے جی چرانے والے طالب علم سبھی شامل ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہماری سیاسی نظام کی ہے۔ اس لئے اگر آج کوئ شخص یہ کہتا ہے کہ اسے ملکی سیاست سے دلچسپی نہیں اور نہ دوسروں کو رکھنی چاہئیے تو اس سے بڑا مجرم کوئ اور نہیں ہو سکتا۔

    ReplyDelete
  18. جعفر,,براہ مہربانی، تبصرہ کرتے وقت شائستگی کا مظاہرہ کریں

    ReplyDelete
  19. جی اچھا جی
    کوریا صاحب یا صاحبہ
    اور بھی کوئی نصیحت یا مشورہ یا دھمکی ہو تو
    وہ بھی عنایت کردیں
    ہمہ تن گوش ہوں
    بلکہ مودب کھڑا ہوں۔۔

    ReplyDelete
  20. ’سندھ کے لوگوں پر رینجرز کا بہت بڑا بوجھ ہے جو کئی سالوں سے ہے جب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رینجرز واپس جائے تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جسے رینجرز کی موجودگی کا جواز بنایا جاتا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو ماضی میں اس کی مخالفت کرتیں تھیں اب وہ بھی اس کی حمایت کر رہی ہیں۔‘

    ReplyDelete
  21. جعفر، کوریا صاحب ہیں۔ صاحبہ نہیں۔

    ReplyDelete
  22. یار تم بھی لکیر کے فقیر ھو ،،خواب میں بھی ہر طرف صاحبہ ھی نظر آتی ھوگئ،،

    ReplyDelete
  23. ہاں جی لکیر کا فقیر ہی ہوں
    تھوڑے لکھے کو بہت جانیں

    ReplyDelete
  24. میں یہاں سنجیدگی سے اپنے کچھ تجربات اور باتیں شئیر کرنے آیا تھا
    لیکن یہاں پھر وہی رنڈی رونا چالو ہے

    انیقہ جعفر نے بس یہی سیکھا ہے جس کا ذکر فرمایا ہے!:(
    اور سنجیدگی کی انتہا تو تبصرے میں نظر آہی رہی ہے!

    ReplyDelete
  25. اپنا کوریا آپنے صحیح کہا کہ سندھ پر رینجرز کا بہت زیادہ بوجھ ہے ،مگر کیا کیا جائے کہ یہاں کی پولس پر بھی تو انحصار نہیں کیا جاسکتا اور پولس کی نفری بڑھانے کی اوپر سے اجازت نہیں ملتی،اور دنیا بھر کے مجرموں کا ٹھکانہ کراچی ہی بنتا ہے تو اب ایسے میں اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟

    ReplyDelete
  26. عنیقہ صاحبہ، میں آپ کا مشکور ہوں آپ نے تفصیلی جواب دیا۔کچھ وہ باتیں میرے علم میں آئیں جو میرے دھیان میں نہ تھیں۔

    ReplyDelete
  27. اتنا لمبا تبصرہ کیا تھا سب غارت ہو گیا ۔۔۔۔

    بہر حال اب مختصر یہ کہ شہباز نے اپنی اولاد کو آنکھیں دیکھانے والا رویہ نہیں اپنایا تھا۔ علم ہونے پر آپ کو شہباز مزید برا لگنے لگے گا۔
    عبداللہ یار کچھ اپنے نام کا ہی اثر لے لو شخصی و تعصبی طنز کو سائیڈ پر رکھ دیا کرو۔

    ReplyDelete
  28. جعفر کا تعلق ہیرا منڈی سے ھے،،؟

    ReplyDelete
  29. ہر زبان کے اپنے محاورے اور اور روزمرہ ہوتے ہیں۔ انہیں اسی طرح لینا چاہئیے۔ رنڈی رونا، یہ ترکیب یا محاورہ میں نے اشفاق احمد، شاید بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی کے یہاں بھی پڑھا ہوگا۔ یہ میرا خیال ہے کہ ایک عام سا روزمرہ ہے پنجابی زبان کا۔
    لیکن میں تو خیر الو کے پٹھے کو بھی گالی نہیں سمجھتی۔ روزمرہ ہی سمجھتی ہوں۔ اس قسم کی صورتحال اکثر جنم لے لیتی نہے جب ہم ایکدوسرے کے کلچرل تضاد کو نہیں سمجھتے۔ ان سے آشنا نہیں ہوتے اور انہیں جاننا بھی نہیں چاہتے۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم ایک عمل کو صحیح نہیں سمجھتے تو جواباً اسی عمل کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔
    گمنام، آپ سمجھتے ہیں کہ جعفر نے ایک غلط ترکیب استعمال کی، لیکن جواباً آپ نے نہایت خراب رویہ اختیار کیا۔ یہ رویہ ذہنی پختگی کو ظاہر نہیں کرتا۔

    شعیب صفدر صآحب،
    میں ایک ایسی خاتون کو جانتی ہیں جو خود بہت اچھی تھیں۔ کبھی کسی نے انہیں اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔ نہ لڑنا نہ جھگڑنا اور نہ طعنے دینا۔ لیکن انکی بیٹیاں انکی زبان سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ کوئ معمولی سی بات بھی انکو مشتعل کر دیتی تھی۔ اکثر ایسے موقعوں پہ جب انکی بیٹیاں جو انکا دل چاہتا تھا کر لیتی تھیں تو وہ انہیں لوگوں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ دیتیں اور کچھ گالیاں سنا دیتیں۔ اگلا خوش رہتا کہ جناب انکی بیٹیاں ہی قابو سے باہر ہیں۔ وہ خود کس قدر اچھی ہیں۔ لیکن پھر کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ انکا یہ بھرم قائم نہ رہا۔ اور اندازہ یہ ہوا کہ اپنا امیج بچانے کے لئے وہ اپنی بیٹیوں کو شہہ دیتی ہیں۔ انکی بیٹیوں کو پتہ ہوتا تھا کہ ماں جو دوسرے لوگوں کے سامنے کر رہی ہیں یہ ایک وقتی مصلحت ہے اور کچھ نہیں۔ دراصل وہ ان سے ناراض تھوڑی ہیں۔ وہ تو انکی طاقت ہیں۔
    تو جناب یہ بناءوٹی ڈرامے سیاست کی دنیا میں بھی اسی تواتر سے چلتے ہیں۔

    ReplyDelete
  30. میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ایوب میڈیکل کالج میں حالات خراب کرنے والی یہی سیاسی جامعتوں کی بچہ تنظیمیں ہیں۔ اب جب کہ حکومت نے طلبا یونینز کی اجازت بھی دے دی ہے، مجھے حالات کچھ اچھے نظر نہیں آرہے۔

    اسلامی جمیعت طلبہ ہو، یا اے پی ایم ایس او۔ ائی ایس او ہو یا انصاف سٹعڈنتس یا پھر کوئی اور تنظیم۔ ان سب کو کالعدم قرار دے دینا چاہئے۔ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں۔ کتنے اچھے جوان اس سیاست کی بھینٹ چڑھے اور اپنے خاندان والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔ طلبا سیاست کی حمایت کرنے والوں نے سوچا یہ سب کیوں ہوا؟ کیا ان اچھے لوگوں کو واپس لایا جاسکتا ہے؟ ان کی ہلاکت سے کسی ایک تنظیم نے طلبا کے وسیع تر مفاد کا کوئی ہدف حاصل بھی کیا ہے یا یہ سب صرف "دشمن" کو مات دکھانے کا ایک بہانہ ہیں؟

    ReplyDelete
  31. منیر عباسی، کراچی یونیورسٹی میں بھی اس وقت

    طلباء یونینز پہ پابندی ہے۔ درحقیقت انیس سو انسی میں جب کئ طلبہ کے مارے جانے کے بعد رینجرز کو نافذ کیا گیا تب بھی طلبہ یونینز پہ پابندی تھی۔ میں نے اسے چیک تو نہیں کیا لیکن یہ پابندی شاید ضیا الحق کے زمانے سے ہے۔ اسکے باوجود یہ جماعتیں وہاں موجود ہیں۔ رینجرز کی تعیناتی کے باوجود وہاں ایسے ہنگامے ہو چکے ہیں جن میں کئ طالب علم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسری طرف کالعدم قرار دینے کی بات ہے تو یہ ہم بعض مذہبی انتہا پسند جماعتوں کی شکل میں دیکھ چکے ہیں کہ جب ایک جماعت کو کالعدم قرار دیا جائے تو وہ کسی اور نام سے جماعت بنا لیتے ہیں۔
    اس طرح صرف ظاہری سکون نظر آتا ہے۔ جامعہ کراچی کو رینجرز کی مد میں مصارف برداشت کرنے پڑتے ہیں اور اس سے یونیورسٹی کا امیج الگ عجیب سا لگتا ہے۔ اسکے علاوہ جو مسائل ہوتے ہیں وہ الگ ہیں۔
    ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ ہماری سیاسی صورت حال اس شعوری پختگی کو پہنچے جہاں جنگ صرف اپنے تعمیری کاموں کی بناء پہ جیتی جا سکے۔ اسکے لئے عوام کو بھی بدلنا ہوگا۔ لیکن اس وقت تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نہیں ہونا چاہئیے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہئیے کہ ایکدن ہم بھی مہذب قوموں کی طرح ان چیزوں کا اطلاق کک سکیں گے جو ہمیں ایک بہتر قوم میں تبدیل کر سکیں گے۔

    ReplyDelete
  32. شعیب صفدر،شخصی اور تعصبی طنز؟ آپکے تبصرے پر بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ لک ہو از ٹالکنگ،
    آپ میرے نام کی لاج کی فکر نہ کریں میں اپنے نام کی لاج رکھ کر ہی جو حق بات ہو وہ کرتا ہوں،اور کرتا رہوں گا کسی کے پیٹ میں چاہے کتنا ہی درد ہو سچ پڑھ کر!

    ReplyDelete
  33. عنہقہ آپ اپنی بات منانا چاہتی ہیں؟ مجھے آپ کی اوپر کی مثال اپنی بات کے تناظر میں سمجھ نہیں آئی۔ اگر آپ کو شہبار کے اُن اقدامات کا علم نہیں تو صاف صاف کہہ دیں یہ مثالیں اُس کے بعد کسی اور معاملہ میں پیش کر دیجئے گا۔ جو مثال آپ نے اوپر دی اُسے کے لئے پنجابی زبان کی ایک مثل کا ترجمہ ہے "سناؤ بہو کو اور کہوں بیٹی کو"۔

    منیر میں آپ کی بات سے متعفق ہوں۔

    ReplyDelete
  34. عبداللہ میں مختلف بلاگ پر موجود آپ کے تبصروں سے یہ بات ثابت کر سکتا ہوں کہ آپ کے لاشعور میں کہیں تعصب ہے۔ ممکن ہے آپ خود اس سے نا واقف ہوں۔ :) انکار آپ کا حق ہے مگر حقیقت تو حقہقت ہے ناں۔۔۔

    ReplyDelete
  35. کل لاہور میں تین خواتین کو ایک دہشت گرد نے جسے وہاں کی پولس کی سرپرستی حاصل تھی بھتہ نہ دینے پر دن دہاڑے گولیوں سے بھون ڈالا،اور آج جب ان کے ورثاء ان جنازوں کو لے کر احتجاج کرنے نکلے تو ان پر پولس نے بہیمانہ تشدد کیا،اب عباسی صاحب کے مشورے پر عمل کیا جائے تو پاکستان سے پولس کا محکمہ ہی ختم کردینا چاہیئے؟؟؟؟؟؟
    یہ تو صرف ایک واقعہ ہے ایسے ہزاروں واقعات ہیں اور ہزاروں بدمعاش جو پولس کی سرپرستی میں پلا کرتے ہیں!
    یہ پنجاب کی پولس اسی طرح کراچی کو بھی مقبوضہ علاقہ سمجھ کر اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر قتل و غارت گری مچاتی رہی ہے اور ایم کیو ایم کے نوجوانوں نے ان کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہوکر اپنی جانیں دے کر کراچی والوں کو ان کے ظلم سے بچایا ہے،آج ہم کراچی میں سر اٹھا کر چلتے ہیں یہ انہی شہیدوں کے خون کا صدقہ ہے،
    ان بدبختوں کی پشت پناہی کرنے والی ایجینسیوں نے الٹا انہیں ہی دہشت گرد بنا کر پورے پاکستان میں مشہور کیا،مگر اب سچائی سامنے آچکی ہے اور عقل سلیم رکھنے والے مزید اس زہریلے پروپگینڈے کا شکار نہیں ہوں گے،
    بے وقوف اور تعصبی لوگوں کی میں بات نہیں کررہا،کہ انہیں تو دن میں چمکتا سورج بھی اپنے تعصب میں نظر نہیں آتا!

    ReplyDelete
  36. جی شعیب صاحب جو تعصب میں سر تا پیر شرابور ہوں انہیں ایسا ہی لگا کرتا ہے جیسا جناب کو لگ رہا ہے،
    کبھی اپنے آبائی علاقے میں پھیلے جرائم کے بارے میں بھی کچھ لکھیئے یا کم سے کم جس ادارے میں آپ کام کرتے ہیں اسی کے کالے کرتوتوں کے بارے میں ہی لکھ ڈالیں تو شائد ہم بھی آپکو غیر تعصبی مان لیں !!!!!!

    ReplyDelete
  37. ویسے اپکو وکالت کی ڈگری پتہ نہیں کیسے مل گئی ہے کہ اکثر بالکل سامنے کی بات بھی آپکو سمجھ نہیں آتی، انیقہ نے تو بالکل واضح بات کی مگر وہ کہتے ہیں نا کہ عقل مند کے لییئے تواشارہ کافی اور نا سمجھ کے لیئے تو پوری داستاں بھی ناکافی!!!!:)

    ReplyDelete
  38. عبداللہ میں آپ کی بات سے متعفق ہوں۔

    ReplyDelete
  39. عبداللہ شکریہ۔
    آخری تینوں تبصروں کا۔
    اب مجھے کچھ کہنے اور ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔

    ReplyDelete
  40. شعیب صفدر صاحب، میں تو ایک سادہ سی بات کہنا چاہ رہی تھی کہ سیاسی بنیادوں پہ جب اپنے خاص بندے کے خلاف کارروائ کی جاتی ہے تو دنیا کو ایسا نظر آتا ہے کہ بڑا جگر ہے ایسا قدم اٹھایا۔ لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے ساتھ ہی انکو سنبھال بھی لیا جاتا ہے۔ صرف ایسے ہی ممبران کے خلاف کارروائ ہوتی ہے جو کسی بھی فائدے کہ نہ ہوں تو یہ رویہ ہمیں اپنی سماجی زندگی میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی بخوبی نظر آتا ہے۔ اب اگر شہباز شریف اس معالے کو بنبٹانا چاہتے ہیں تو ایسا بندو بست کریں کہ پنجاب یونیورسٹی کو جمعیت کہ سالہا سال قبضے سے نجات سے مل جائے۔
    اسکے علاوہ مجھے اس سے کوئ غرض نہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں یا کر چکے ہیں۔ میں انکی سوانح حیات لکھنے میں کوئ دلچسپی نہیں رکھتی اور نہ اس وقت یہ میرا موضوع ہے۔ یہ ایک موقع انکے پاس ہے اب دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں۔ اگرچہ کہ میری توقع یہ ہے کہ اس وقت بھی اوپری باتیں اور کچھ ایسے ہی اقدامات ہونگے اور اسکے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔وہ ہمیشہ سے دائیں بازو کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ یہی انکا نظریہ ہے۔

    ReplyDelete
  41. کسی اور کے بلاگ پر کسی تیسرے کے ساتھ بحث کرنا عجیب سا لگتا ہے، مگر، عبداللہ کیابراہ کرم آپ مجھے بتائیں گے کہ میری کس بات سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ پاکستان سے پولیس کا محکمہ ہی ختم کر دینا چاہئے؟

    میرا ایسا کوئی خیال نہیں تھا، نہ ہی میں ایسے سوچتا ہوں۔

    ReplyDelete
  42. شعیب صفدر آپکی خاموشی کا شکریہ لگتا ہے کہ اب آپنے اس مشہور محاورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے!
    ؛)
    تو عباسی صاحب پھر اسٹوڈینٹ یونینز پر پابندی کی بات بھی فضول ہے،ہاں انکو ایک ضابطہ اور قانون کے اندر لانا چاہیئے اس میں کوئی دو رائے نہیں!
    آپ انیقہ کے بلاگ پر کسی تیسرے سے بات کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ان میں سے نہیں جنہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پرابلم ہونے لگتی ہے،کیون انیقہ صحیح کہا نا مینے:)
    ویسے اسماءاور دیگر خواتین بلاگر بھی اتنے ہی کھلے ذہن کی مالک ہیں!
    اس سے کیا ثابت ہوا؟؟؟؟؟؟؟؟
    :(

    ReplyDelete
  43. طلبہ یونینز بحال کردی جائیں۔تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔

    ReplyDelete
  44. عبداللہ :: سٹوڈنٹ یونین اور پولیس کا آپس میں کیا ناتا ہے؟

    مجھے آپ کی دلیل سمجھ نہیں آئی۔

    ReplyDelete
  45. عنیقہۛ گل اوہی۔ آپ بات سمجھے بغیر جواب دے جاتی ہیں اور اس کے بعد میری زبان پھسلنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔

    شعیب۔ اگر احمقوں کے سر پر سینگ ہوتے تو اپنا عبداللہ بارہ سنگھاہ ہوتا۔

    ReplyDelete
  46. بد تمیز، آپ اپنا تکیہ ء کلام بدل دیجئیے۔ تبدیلی اچھا اثر ڈالتی ہے ہر ایک پہ۔

    ReplyDelete
  47. یہاں چند لوگ ہیں جنہیں بات سمجھنے میں بہت دقت پیش آتی ہےان میں جناب بدتمیز سر فہرست ہیں،انہیں بدتمیزی کرنے کی اتنی جلدی رہتی ہے کہ غور کرنا بھول جاتے ہیں،:)
    انیقہ کی یا میری بات جن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی یاسمجھ کر انجان بنتے ہیں،انہیں سمجھانا ہماری ذمہ داری نہیں،:)
    کچھ لوگ جب کسی کو دلائل سے قائل نہ کر پائیں تو زچ کرنے کی پالیسی اپنا لیتے ہیں،اب اگر اس میں ان کی تربیت یا ماحول کا قصور ہو تو کیا کیا جاسکتا ہے سوائے ان کی ہدایت کی دعا کرنے کے:)
    ویسے بارا سنگھا گدھے سے زیادہ آزادی پسند ہوتا ہے کم سے کم دوسروں کی بیگار تو نہیں ڈھوتا رہتا!
    ؛)

    ReplyDelete
  48. عنیقہۛ میرا پیغام جہاں تک پہنچ سکے پہنچے دھڑکتے دلوں سنےتے کانوں وغیرہ وغیرہ

    بارہ سنگھا میرا مطلب ہے چاچی پسوڑی اوہ سوری عبد اوم
    یار یہ کیا کلپ بورڈ پر سیو کیا ہوا ہے ًمیری یا بلاگرً کی ؟ ہر عورت کے بلاگ پر تم ایسے ٹکی ہوئے ہوتے ہو۔

    ReplyDelete
  49. بد تمیز میرا خیال تھا کہ آپ شاید صرف بد تمیز اور منہ پھٹ ہیں۔ کچھ لوگوں کو اپنے آپکو منہ پھٹ برانڈ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ طبعاً وہ برے نہیں ہوتے۔ لیکن اب آپکی یہ بات پڑھ کر کہ عبداللہ صرف عورتوں کے بلاگ پہ نظر آتے ہیں مجھے خاصہ افسوس ہوا۔ میں بلاگ بحیثیت عورت نہیں لکھتی۔ اور نہ اپنی زندگی سرف بحیثیت ایک عورت گذارتی ہوں۔ بحیثیت ایک انسان بھی زندگی رکھتی ہوں اور گذارتی ہوں اور لوگوں سے بحیثیت انسان ہی ملنا چاہتی ہوں سوائے ایک ڈاکٹر کے جو میرا علاج کر رہا ہو۔ عبداللہ کو یا کسی بھی اور تبصرہ نگار کو میں نے کبھی بحیثیت مرد یا عورت نہیں لیا۔ وہ سب بس میری تحریروں پہ سوال اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ اور اس حوالے سے میرے ان سے گہرے تعلقات ہیں۔
    ایسی بدتمیزی کسی کام کی نہیں جسکا کوئ نظریہ نہیں جسکے ذریعے آپ کسی کو کوئ مثبت پیغام نہیں دے سکتے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ حق کی بالادستی کے لئے یہ سب کر رہے ہوں۔ آپکو بنیادی اخلاقیات سیکھنے کی بے حد ضرورت ہے اور عبداللہ میرا خیال ہے کہ آپ انہیں انکے حال پہ چھوڑ دیں۔

    ReplyDelete
  50. جی انیقہ آپنے بالکل درست فرمایا،
    دراصل میں ان تحریروں پر تبصرہ کرنا پسند کرتا ہوں جہاں آگے کچھ لکھنے کا موقع ہو اور وہاں میری دلچسپی یا فیلڈ کا موضوع ہو،جیسے تاریخ ،خصوصا اسلامی تاریخ ،سیاست، سماجیات وغیرہ،
    ہوسکتا ہے بدتمیز صاحب صرف خواتین کے بلاگز ہی وزٹ کرتے ہوں اسی لیئے انہیں یہ مغالطہ ہوا ہو ! :cool:
    انسان کا انداز گفتگو اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے، تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے! :cool:

    ReplyDelete
  51. http://talkhaabau.wordpress.com/2010/11/06/%D8%A2%D8%A6%DB%8C%D9%86%DB%81-%D8%AA%D8%B5%D9%88%DB%8C%D8%B1/
    ظفر اقبال

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ