میں آپ سے کہوں کہ اگر آپ اس سیارے زمین سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کل آپکے بچے اس پہ ایک محفوظ اور قدرتی وسائل سے مالامال زندگی گذاریں تو آپ پیدل چلنے کو ترجیح دیں بجائے گاڑی سے جانے کو، اپنے گھر کے کاکروچ، مچھر اور چیونٹیاں مارنے کے لئے مختلف اسپرے یا کیمیکلز کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ اپنے آپکو ہر وقت اسپرے والے پرفیوم سے مہکائے نہ رکھیں۔ دودھ دہی لینے جانا ہو تو اپنے ساتھ برتن لیکر جائیں۔ چیزیں خریدتے وقت بے تحاشہ پلاسٹک کے شاپرز استعمال نہ کریں۔ اپنے ساتھ کاٹن کا تھیلہ یا باسکٹ رکھیں، اور اگر یہ کرنے میں کوئ حجاب مانع ہے تو کم سے کم شاپرز استعمال کریں۔
یہ سن کر کچھ لوگ سوچیں گے , کیا مصیبت ہے۔ ہر وقت نصیحت، یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔ محبت میں بھی نصیحت۔ چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ۔ چلیں، پہلے آگے پڑھ لیں اور پھر سے سوچیں۔
زمین کے ماحول کے بنیادی حصے جس میں اسکی ساخت، فضا، پانی کے ذخائر اور زمین کو رنگینی عطا کرنے والے نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں ایک دوسرے سے ایک ماحولیاتی توازن اور کیمیائ توازن کی زنجیروں سے جڑے ہیں اس زنجیر کی ایک کڑی بھی متائثر ہونے سے ہر چیز اپنے توازن سے ہٹ جاتی ہے۔ اور نیا توازن بننے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ وہ نئے مطالبات بھی رکھتا ہے۔ اس تمام تعلق میں ہماری بے جا مداخلت اسے ہماری آنیوالی نسلوں کے لئے ناقابل رہائش بنا سکتی ہے۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری بے جا مداخلت کیا ہے، یہ کن تبدیلیوں کو جنم دیتی ہیں اور کیسے دنیا کو متائثر کرتی ہیں۔ اور پھر اس میں انسان کا کردار متعین کریں کہ وہ اسکے نتیجے میں تیزی سے ہونے والی تباہی کو کیسے روک سکتا ہے۔
۔جب ہم بہت زیادہ کیمیکلز استعمال کرتے ہیں تو ہم زمین کے ہر حصے کو آلودگی سے آشنا کر دیتے ہیں۔ یہ آلودگی اسکی فضا، سطح اور سمندر سے ڈھکے علاقے ہر ایک کو نقصان پہنچاتی ہے۔
زمین اس وسیع کائنات میں پھیلی وہ واحد جگہ ہے ، جہاں ہم اب تک کسی ذہین مخلوق کے آثار پاتے ہیں۔ یعنی ، ہم انسان۔ اور اسکی فضا اور ماحول اس وسیع کائنات میں وہ واحد توازن رکھتی ہے جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایک فضائ غلاف سے ڈھکی ہوئ ہے جسکی مختلف تہوں کے نام اور موٹائ مندرجہ ذیل تصویر سے واضح ہیں۔
اس تہہ کی وجہ سے سورج کی ضرر رساں شعاعیں زمین تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہیں اور زمین کا ایک مناسب درجہ ء حرارت قائم رہتا ہے۔ زمین کی فضا میں موجود کاربن ڈائ آکسائیڈ کی مقدار بھی اس حرارت کو کنٹرول کرتی ہے۔ زیادہ کاربن ڈائ آکسائڈ موجود ہونے کا مطلب زیادہ حرارت کا محفوظ رہنا یا گرمی کا بڑھنا ہے یہ سارا عمل اصطلاحاً گرین ہاءوس ایفیکٹ کہلاتا ہے۔ یہ کاربن ڈائ آلسائید ایندھن کے جلنے کے دوران پیدا ہوتی ہے چاہے وہ لکڑی کا ہو یا پٹرول کا۔
کاربن ڈائ آکسائڈ کے علاوہ اور بھی گیسیں ہیں جو گرین ہاءوس ایفیکٹ میں حصہ لیتی ہیں جیسے میتھین گیس۔ جی ہاں، وہی گیس جو ہمارے چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ پچھلی صدی میں زمین کے کل درجہ ء حرارت میں اضافہ ہوا ہے جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں اور جو ممکنہ طور پہ انسان کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں آئ ہے۔ یعنی فوسلزایندھن کا زیادہ استعمال اور جنگلات کا خاتمہ۔
کاربن ڈائ آکسائڈ کے علاوہ اور بھی گیسیں ہیں جو گرین ہاءوس ایفیکٹ میں حصہ لیتی ہیں جیسے میتھین گیس۔ جی ہاں، وہی گیس جو ہمارے چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ پچھلی صدی میں زمین کے کل درجہ ء حرارت میں اضافہ ہوا ہے جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں اور جو ممکنہ طور پہ انسان کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں آئ ہے۔ یعنی فوسلزایندھن کا زیادہ استعمال اور جنگلات کا خاتمہ۔
حرارت کی مناسب مقدار وہ ہے، جس میں حیات پھلتی پھولتی ہے۔ اگر زمین کا یہ مقررہ درجہ ء حرارت بڑھ جائے تو پہاڑوں پہ موجود برف پگھل جائے گی جو شروع میں تو دریاءووں میں زیادہ پانی آجانے کی وجہ سے سیلاب کا باعث بنے گی اور بعد میں ان برفافانی ذخائر کے ختم ہو جانے کی وجہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ بن جائے گی۔ جس سے خشک سالی اور قحط جنم لے سکتے ہیں۔
جیسے اگر ہمارے ہمالیہ کے پہاڑ اپنی برف کھو دیں تو پاکستان کا کیا ہوگا۔ اسکے تمام دریا بنجر ہوجائیں گے۔ اسی طرح دنیا کے پول پہ موجود برف کے ذخائر اگر پگھل جائیں تو ساری دنیا میں سمندر کے پانی کی سطح بہت زیادہ بلند ہو کر، دنیا کے بیشتر علاقے کو زیر آب کر دے گی۔
زمین کو سورج کی ضرر رساں شعاعوں سے بچانے والی اوزون کی تہہ اسٹریٹو اسفیئر میں پائ جاتی ہے، جسے آپ شکل نمبر ایک میں دیکھ سکتے ہیں، صنعتی اداروں سے پیدا ہونے والی گیسوں کا فضا میں اخراج، دنیا بھر میں چلنے والی گاڑیوں کے دھویں کا فضا میں شامل ہونا اور گھریلو سطح پہ کلوروفلورو کاربن مرکبات والی اشیاء کا بے تحاشہ استعمال اس اوزون کی قدرتی حفاظتی تہہ کو تباہ کر رہا ہے۔ کوپن ہیگن میں کچھ عرصے پہلے ہونے والی ایک ماحولیاتی کانفرنس میں چین اور بھارت سمیت کچھ ممالک نے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنے کارخانوں سے ان زہریلی گیسون کے اخراج کو ایک مناسب سطح پہ لائیں۔ اس پہ کوئ قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ کیونکہ کارخانوں سے ان گیسوں کی پیداوار کم کرنے کے لئے یا تو پروڈکشن لیول کو کم کرنا ہوگا یا پھر جو احتیاطیں کیجائیں گی انکے نتیجے میں انکی پروڈکٹس کی لاگت بڑھ جائے گی۔
عوامی سطح پہ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ جمع ہونے والے کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے اسے آگ لگادی جاتی ہے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور یہ بھی ماحوللیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔،
ان گیسوں کی وجہ سے بعض جگہ آلودگی اتنی زیادہ ہو گئ ہے کہ وہاں بارش میں بھی ان کیمیاَئ مرکبات کا اثر پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ آلودہ فضا انسانی صحت کے لئے جو مسائل پدا کرتی ہے وہ الگ۔ ان میں سر فہرست مختلف اقسام کے کینسرہیں۔ اسکے علاوہ مختلف کیمیائ مرکبات مختلف پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً ہوا میں لیڈ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پہ کمزور بچوں کی پیدائش میں اضافہ، دماغی امراض اضافہ یا نروس سسٹم میں خرابی ہونا۔ یہ آلودگی عورتوں اور مردوں میں بانجھ پن بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اس لئے شہروں کی سطح پہ مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔
صنعتی کارخانوں کا فضلہ جسے پانی میں بہا دیا جاتا ہے اور یہ زمین کی اوپری سطح کو تباہ کرتے ہوئے زمین کے نیچے موجود میٹھے پانی کے ذخائر کو آلودہ کرتے ہوئے سمندر میں پہنچتا ہے اور وہاں کے ماحولیاتی نظام کو ختم کر کے اسے بنجر بنا دیتا ہے۔
شاید آپکو یاد ہو کہ سن دو ہزار آٹھ میں کراچی کے ساحل پہ ایک اطالوی جہاز جو خام تیل لیکر جا رہا تھا۔ تیل بہہ نکلا اور پندرہ سو ٹن تیل کراچی کے چودہ کلومیٹر ساحل پہ پھیل گیا۔ تیل کے اس طرح پھیلنے سے ایک تو اوپر کی سطح سے جانوروں کو آکسیجن نہیں مل پاتی اور دوسرے اس میں موجود بھاری عناصر سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں موجود سمندری قشرئیوں جیسے سیپ، گھونگھے اور مرجان کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور اس طرح سے اس ماحول کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ تیل اور دیگر مرکبات ساحل پہ پانی کے جہازوں کی آمد ورفت سے بھی سمندر میں شامل ہوتا ہے
صرف صنعتی اداروں کے کیمیکلز ہی نہیں گھریلو سطح پہ استعمال ہونے والے کیمیکلز بھی پانی کے راستے بالآخر سمندر میں نہیں پہنچتے ہیں۔ بلکہ اسکے ذرائع ہمارے گھر میں ہو سکتے ہیں۔ جیسے گھروں میں بچی ہوئ دوائیں نالی میں بہا دینا، صفائ کے لئے مختلف کیمیکلز استعمال کرنا۔ تعلیمی یا تحقیقی اداروں میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کو صحیح سے ضائع نہ کرنا بلکہ بغیر سوچے سمجھے پانی میں بہا دینا۔
یہ پانی میں موجود کیمیلز کی آلودگی کا شکار ایبنارمل مینڈک ہیں۔
پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال, جبکہ پلاسٹک کو قدرتی طریقے سے ختم ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا ہے کہ پچاس کی دہائ میں پلاسٹک نے عام زندگی میں قدم رکھا اور اب تک اسکی ایک بلین ٹن مقدار پیدا کی جا چکی ہے۔ یہ پلاسٹک کچرا جو ہم نے پھینکا ہے اسے ختم ہونے میں ہزاروں برس کا عرصہ درکار ہوگا۔ پلاسٹک کی مصنوعات پانی راستے سمندر میں بھی پہنچ جاتی ہیں اور سمندری مخلوقات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کی وہ مصنوعات زیادہ بہتر ہوتی ہیں جو بیالوجیکلی تیزی سے ختم ہو جاتی ہیں۔
نیوکلیئر پاور پلانٹ ہوں یا ایٹمی دھماکے ہر صورت میں تابکار فضلہ جمع ہوتا ہے جو نہ صرف انسانی صحت کے لئے مہلک ترین ہے بلکہ زمین کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔ اس تابکار فضلے کو عام طریقے سے ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ اور انہیں مخصوص کنٹینرز میں بند کر کے یا تو دور افتادہ مقام، جیسے کسی بیابان صحرا میں دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر سمندر کی تہہ میں دبا دیا جاتا ہے۔ ہر صورت میں یہ ایک محفوظ حالت نہیں ہے ، کیونکہ بہر حال تابکار فضلہ اس میں موجود ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں ارد گرد کے ماحول کو آلودہ کر دیگا۔ اور اس سے زمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس تصویر میں ایٹمی فضلے کے کنٹینرز کسی صحرا میں دفن کئے جا رہے ہیں۔
تابکاری کا شکار ہونے والے جاندار جنیاتی تبدیلیوں کے باعث عجیب الخلقت بچوں کو جنم دے سکتے ہیں اور انتہائ صورت میں وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ تصوراتی تین آنکھوں والی مچھلی۔
جنگلات کو اپنے استعمال کے لئے بے دریغ کاٹنا، اپنے آپکو ایک قدرتی دولت سے محروم کرنا ہے۔ جیسے کراچی کے ساحلوں کے نزدیک مینگروز نامی درخت کے جنگلات جوساری دنیا میں مینگروز کے جنگلات میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ خاصے کم ہو گئے ہیں کیونکہ ان درختوں کو مقامی آبادی نے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا۔
اسکی وجہ سے انکی جڑوں کے ساتھ پائے جانیوالے جھینگے، کیکڑے اور دیگر جاندار اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور یوں ایک ماحولیاتی توازن تباہی سے دو چار ہوا۔
اگر ہم دیگر جانداروں کے ماحول کی حفاظت نہ کریں ، انکے رہائشی جنگلات اپنے استعمال کے لئے کاٹ دیں، اپنے شہروں کو بڑھاتے چلے جائیں اورانکے سمندر میں اپنی آلودگی انڈیلتے رہیں تو وہ نایاب نسل میں شامل ہوکر دنیا سے غائب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اور آج بہت سے جانور جو ہم دیکھتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ کل ہم اپنی اولادوں کو صرف تصویر میں ہی دکھا پائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے ماحول میں وہ جس حیاتیاتی توازن کو قائم رکھتے ہیں وہ انکی غیر موجودگی میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔
اسکی وجہ سے انکی جڑوں کے ساتھ پائے جانیوالے جھینگے، کیکڑے اور دیگر جاندار اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور یوں ایک ماحولیاتی توازن تباہی سے دو چار ہوا۔
اگر ہم دیگر جانداروں کے ماحول کی حفاظت نہ کریں ، انکے رہائشی جنگلات اپنے استعمال کے لئے کاٹ دیں، اپنے شہروں کو بڑھاتے چلے جائیں اورانکے سمندر میں اپنی آلودگی انڈیلتے رہیں تو وہ نایاب نسل میں شامل ہوکر دنیا سے غائب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اور آج بہت سے جانور جو ہم دیکھتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ کل ہم اپنی اولادوں کو صرف تصویر میں ہی دکھا پائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے ماحول میں وہ جس حیاتیاتی توازن کو قائم رکھتے ہیں وہ انکی غیر موجودگی میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔
اسکی ایک مثال انڈیا اور پاکستان میں پایا جانیوالا گدھ ہے جو پہلے ایک بڑی تعداد میں ملتا تھا ۔ گدھ مردہ جانوروں کوکو کھا کر ماحول کی صفائ کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔ مگرپندرہ سال کے اندر انکی تعداد میں ستانوے فی صد کمی آئ۔ تحقیق پہ پتہ چلا کہ مویشیوں کو دی جانیوالی دوا ڈکلوفینیک کے باقیات انکے جسم میں رہ جاتے ہیں۔ ان مویشیوں کا گوشت کھانے سے یہ دوا گدھ کے جسم میں پہنچ جاتی ہے ۔ گدھ اس دوا سے گردے کے امراض کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔
اس لئے ، ہمیں اپنی تمام ترقی اور سرگرمیوں کے دوران یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ زمین پہ ان دیگر جانداروں کا بھی حق ہے جنہیں ہم اپنے مقابلے میں کمتر جانتے ہیں۔
اب اس مختصر جائزے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ اس سیارے کو اپنے لئے اور آئندہ آنیوالے انسانوں کے لئے محفوظ بنانے کے واسطے ہمیں اس طرز زندگی کو اپنانا ہوگا جہاں زمین اور اسکے ماحولیات کا حق سب سے پہلے ہونا چاہئیے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
نوٹ؛ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ارتھ ڈے، بائیس اپریل کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن، زمین کے ماحول کے متعلق علم دینے اور اسے بچانے کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے مقرر کیا ہے۔ اسکی تجویز سن انیس سو انسٹھ میں امن کے کارکن جون میک کونیل نے دی تھی۔ اور یہ اپنے ایک قاری کی فرمائش پہ لکھی گئ ایک تحریر ہے۔
:)
:)
مزید تفصیلات کے لئے دئیے گئے لنکس دیکھیں یا سوال کریں۔ آپکی دی ہوئ مزید معلومات کے منتظر۔
حوالہ جات؛
سبحان اللہ ! بہت اچھا مضمون ہے اور یقیناً بے حد عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔ ایبنارمل مینڈک کی تصاویر دیکھ کر دکھ ہوا باقی معاملات بھی تشویش کا باعث ہیں۔
ReplyDeleteاللہ ہمارے حال پر رحم کرے اور اس سیارے کے رہنے والوں کو یہ توفیق بھی دے کہ وہ اسے واقعتاً اپنا گھر سمجھیں۔
بہت شکریہ اس اچھی اور معلوماتی تحریر کا۔
بہت اچھی اور لاجواب تحقیقی پوسٹ۔ اگر ایسے ہی مضمون کتابوں میں ہوتے تو مجھ جیسا نالائق سانس سے کبھی دور نہ بھاگتا۔ اتنی اچھی معلومات آسان الفاظ میں بیان کرنا کا ایک بار پھر شکریہ۔
ReplyDeleteترقی یہ قیمت تو شاید انسان کو ضرور ادا کرنا ہو گی کیونکہ ترقی کا نشہ اسے لگ چکا ہے اور اس نشے میں مغلوب انسان اب واپس لوٹنے کی خواہش کھو چکا ہے ۔ اپنے انجام کا علم البتہ اسے ضرور ہے ۔ پتہ نہیں کیوں مجھے انور مسعود کی نظم " ہن کیہ کریے " کیوں یاد آ رہی ہے
ReplyDeleteبہت عمدہ اور متاثر کن تحریر ہے
ReplyDeleteمحمد احمد، محمد اسد اور ڈفر صاحبان، آپ سب کا بے حد شکریہ۔ امید ہے کہ اسکے بنیادی پیغآم پہ آپ نہ صرف عمل کریں گے بلکہ آگے بھی بڑھائیں گے۔
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب، آئینسٹائن کے حوالے سے ایک مقولہ ملتا ہے کہ ممکن ہے کہ کائنات کے تمام اسرار کسی بے حد آسان طریقے سے کھل جائیں۔ لیکن فی الوقت انسان ان سے واقف نہیں۔
ترقی کی یہ قیمت ہمیں دینی ہی ہوگی۔
بظاہر تو یہ بہت اچھی بات لگتی ہے کہ ہمارا کوئ پیارا موت کی دہلیز سے اس لئے واپس آجائے کہ ہماب ادویات کا علم جانتے ہیں۔ لیکن ان سب ادویات کو اپنے تخلیق کے مراحل میں ان تمام راستوں سے گذرناپڑتا ہے جو دوسروں کے لئے صحت کے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
یہ طبعی ترقی بھی دو دھاری چھری ہے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ ریس نہیں ہے جہاں ہم کسی فرد واحد کو جیتتا دیخھنے کے لئے سب کچھ کر رہے ہیں۔ انسان کی بقاء کے لئے سب انسانوں کو مل جل کر ہی کام کرنا ہوگا۔ آج اوزون تہہ کے تباہ ہونے سے چند ممالک یا کسی خاص گروہ فکر کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ سبھی کے لئے مسئلہ ہوگا۔
انور مسعود کی نظم کیا آپ لکھ سکتے ہہیں؟
بہت اچھی اور معلوماتی تحریر ہے** ،کلائمیٹ چینج یا آب ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے اس صدی میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ بھوک و افلاس کی صورت میں نمودار ہوگااس عمل کے نتیجے میں زمین کا درجۂ حرارت بتدریج بڑھ رہا اور آب و ہوا پر اثر انداز ہو رہا ہےگر درجۂ حرارت میں اس اضافہ پر قابو نہ پایا گیا تو زمین پر تباہ کن موسمی تبدیلیاں پیدا ہوں گی جن میں سیلاب، سمندری طوفان اور خشک سالی شامل ہے۔
ReplyDeleteیعنی آپ فرمائشی تحریریں زیادہ اچھا لکھ لیتی ہیں۔ ذرا اس پر بھی لکھیں۔
ReplyDeletehttp://www.youtube.com/watch?v=r61drkN8aGM
محمد صابر، یہ تو اپنی پسند کی بات ہے ورنہ کچھ لوگوں کو شعیب اور ثانیہ والی تحریریں زیادہ پسند آتی ہیں۔
ReplyDeleteمیں اس ویڈیو کو دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ آپکا شکریہ۔
چلیں ان لوگوں کے لئے بھئی کبھی کبھی لکھ لیا کریں۔
ReplyDeleteویڈیو سے ملحقہ ربط
http://epaper.dawn.com/ArticleText.aspx?article=02_04_2010_003_008
بہت زبردست تحریر۔ میرے خیال میں اسکول میں پڑھنے والا ایک بچہ بھی اس کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات کو سمجھ سکتا ہے۔ بہت خوب۔
ReplyDeleteاگر آپ نے اینیمیٹڈ فلم WALL-E نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیں۔ اس کا موضوع بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ زمین انسان کی غیر ذمہ داریوں اور کنزیومرازم کے فروغ کے باعث رہنے کے قابل نہیں رہی اور انسان کو زمین چھوڑنا پڑ جاتی ہے۔ بہرحال اگر نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیے گا، صاحبزادی کو بھی پسند آئے گی :) ۔
جنگلات اور قدرتی وسائل کا محفوظ استعمال آج کے انسان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں اس معاملہ میں بہت کم کام ہوا ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ دنیا بھر امریکہ کو صنعتی فضلے کے اخراج پر گالیاں نکالتی ہے لیکن یہاں کی مقامی آب و ہوا صاف اور نتھری ہوئی ہے۔ وجہ؟؟؟ بے شمار جنگلات۔ میرے اپنے گھر کے پیچھے ایک جنگل ہے جسے کبھی کاٹا نہیں جائے گا اور وہاں ہرن اور دیگر چرند رہتے ہیں جو قریباً ہر روز رات کو ہمارے لان میں چہل قدمی کرتے پھرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اہلیہ پاکستان میں جس روز بازار کا رُخ کرلیں، شام کو آواز بند ہوجاتی ہے۔ درخت لگانا، جانداروں کے قدرتی ماحول کو بچانا ازبس ضروری ہیں اور یہ دنیاوی ہی نہیں دینی فریضہ بھی ہے۔ فہد بھائی نے Wall-E کی مثال دی ہے، نہایت شاندار فلم ہے اور ضرور دیکھنی چاہئے۔ یہاں امریکہ میں تو اب تھیلے گھر سے لے جانے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے بلکہ ڈی سی میں تو غالباً انہوں نے پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرنے پر ٹیکس بھی لگا دیا ہے۔
ReplyDeleteخرم صاحب، ماحولیاتی توازن ایسا طرز فکر ہے جو ہمارے یہاں لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔ میں جب اپنی ماسی سے کہتی ہوں کہ ڈسٹ بن کی پلاسٹک کی تھیلیاں روز بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یا نل کو آدھا کھول کر بھی اتنی ہی صفائ سے کام ہو سکت اہے جتنی صفائ سے پورا کھول کر شرڑ شرڑ پانی بہانے سے یا جب لان کے پودوں پہ مہینوں کیڑے مار ادویات کا اسپرے نہیں کرواتی تو یہ سب لوگ مجھے خاصہ کنجوس سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میں تو صرف یہ کوشش کرتی ہوں کہ اپنے طور پہ جو قدرتی ذرائع کی حفاظت کر سکتی ہوں کر لوں۔ اسکے نتیجے میں کراچی کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں میں سے میں ان معدودے چند لوگوں میں شامل ہونگیں جو ساحل سمندر سے اپنے حصہ کا کچرا اپنے گھر کے ڈسٹ بن میں ڈالتے ہیں۔
ReplyDeleteمیں جب آسٹریلیا گئ تو وہاں دیکھا کہ کوئ درخت اگر زیادہ پرانا ہو جائے تو اسے کاٹا نہیں جاتا۔
پلاسٹک صرف ماحول کے لئے ہی نہیں صحت کے لئے بھی نقصاندہ ہے پلاسٹک کے برتنوں میں گرم کھانا کھانا، لانا یا مائکرو ویو میں گرم کرنا کینسر پیدا کرنے والے مرکبات کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ منرل واٹر کی وہ بوتلیں جو باہر دھوپ میں پڑی ہوں انہیں نہیں خریدنا چاہئیے۔ پلاسٹک کی پیکنگ والی کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط کرنی چاہئیے۔ ہوٹل سے روٹی لانے کے لئے کپڑے کا تھیلا استعمال کرے بجائے اسکے کہ پلاسٹک کی تھیلی میں وہ آپکو لپیٹ کر دیدے۔
بہت اچھی اور معلوماتی تحریر ہے۔ بہت شکریہ۔
ReplyDeleteکاربن ڈائی آکسائیڈ کے بارے کچھ تفصیل سے لکھئے
ReplyDeleteڈکلوفینیک کا ہر سالٹ نہیں بلکہ صرف ڈکلوفینیک سوڈیم ہی گدھوں کے گردے ناکارہ کرتا ہے۔ انسان پر اس کے منفی اثرات الگ ہیں۔جانوروں پر الگ۔ تاہم ڈکلوفینیک پوٹاشیم نسبتاً کم خطرناک ہے
اس کے علاوہ کیا واقعی اوزون کی تہہ محض ایک چوتھائی انچ کی موٹائی کی ہوتی ہے؟ میں نے کہیں پڑھا تھا تو کافی عجیب لگا
اوزون تہہ ایک چوتھائ انچ موٹی نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر میلوں پھیلی ہوئ اس تہہ کو دبایا جائے تو اس کی موٹائ تین ملی میٹر ہوگی۔ مزید کے لئے وکیپیڈیا سے یہ حوالہ حاضر ہے۔
ReplyDeleteThe ozone molecule is also unstable (although, in the stratosphere, long-lived) and when ultraviolet light hits ozone it splits into a molecule of O2 and an atom of atomic oxygen, a continuing process called the ozone-oxygen cycle, thus creating an ozone layer in the stratosphere, the region from about 10 to 50 kilometres (33,000 to 160,000 ft) above Earth's surface. About 90% of the ozone in our atmosphere is contained in the stratosphere. Ozone concentrations are greatest between about 20 and 40 kilometres (12 and 25 mi), where they range from about 2 to 8 parts per million. If all of the ozone were compressed to the pressure of the air at sea level, it would be only 3 millimeters thick.
شکریہ :-)
Delete