Saturday, April 24, 2010

کون لوگ ہو تسی

آسٹریلیا پہلی دنیا سے تعلق رکھنے والا ملک ، پاکستان کے مقابلے میں تقریباً سات گنا زیادہ رقبہ رکھتا ہے۔ پاکستان کی آبادی اس وقت تقریباً سترہ کروڑ ہے اور آسٹریلیا کی آبادی تقریباً بائیس ملین یعنی دو کروڑ ہے۔ آسٹریلیا کی فی کس سالانہ آمدنی تقریباً انتالیس ہزار  ڈالر بنتی ہے۔ اور پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ایک ہزار ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ 
اب آپ سوچیں گے کہ اس وقت مجھے آسٹریلیا کیوں مل گیا ہے پاکستان سے مقابلے کے لئے۔ اسکی دو وجوہات ہیں ایک تو میں ابھی کچھ ہی مہینے پہلے وہاں ایک قلیل مدتی قیام کے لئے موجود تھی۔ اس سے  کچھ سال پہلے بھی میں وہاں ذرا زیادہ عرصے کے لئےرہ چکی ہوں اور اسکی دوسری بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ سے نبٹنے کے لئے نئے حکومتی منصوبے کا اعلان ہے۔
ان دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ آسٹریلیا میں تمام صنعتی ادارے شام کو پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں جس میں بازار بھی شامل ہیں۔ اور تمام کھانے پینے کی جگہیں شام کو سات بجے بند ہوجاتی ہیں۔ سوائے کچھ مخصوص جگہوں کے جن میں کھانے پینے کی کچھ جگہیں اور کچھ اور مثتنشیات شامل ہیں جو کہ رات کو دس بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ شام کو سات بجے تمام سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ بازاروں کے اس طرح سر شام بند ہونے سے وہ لوگ جو آفسز میں کام کرتے ہیں انہیں مسئلہ ہو سکتا ہے اسکے لئے ہفتے میں ایکدن ایسا ہےجسے شاپنگ نائٹ کہتے ہیں اس دن بازارزیادہ سے زیادہ نو  بجے رات تک کھلے رہتے ہیں۔ تمام مارکیٹس صبح سات بجے کھل جاتی ہیں۔ اور یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو اسکول چھوڑتے ہوئے واپسی میں خریداری کرتے  ہوئے آجائیں۔
کم و بیش یہی حال میں نے تھائ لینڈ میں دیکھا۔ تمام بازار سات بجے بند۔ شام ساڑھے چھ بجے سے شاپنگ مالز میں اعلان رخصت کی سیٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ حتی کہ پہلے دن میرے ساتھیوں کے اس چیزکو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے ہمیں تقریباً رات کو بھوکا رہنا پڑا،محض ڈبل روٹی سے کس کا بھلا ہوتا اور اتنی رات کو سوائے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے جو ہماری جگہ سے خاصہ دور تھا کہیں سے حلال کھانا  تو دور حرام بھی ملنے کا کوئ امکان نہ تھا۔ تمام مارکٹ صبح آٹھ بجے کھل جاتی ہیں۔
اب پاکستان آئیے، کراچی میں مارکیٹ دن کے ایک بجے کھلنا شروع ہوتی ہے جو رات کو گیارہ بارہ بجے تک بند ہوتی ہے۔ گویا عملی طور پہ دن آدھے دن کے بعد شروع ہوتا ہے کہ کاروباری طبقہ اس وقت سو کر اٹھتا ہے۔ پھر رات کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ رات تو اپنی ہوتی ہے۔
اب سے چند مہینے پہلے، جب تک شادی کے اوقات کی پابندی مقرر نہ ہوئ تھی۔ عالم یہ تھا کہ خواتین دس بجے رات کو درزی کے پاس کھڑی کپڑوں کا انتظار کرتی تھیں کہ یہ کپڑے پہن کر تیار ہو کر انہیں بارہ بجے کسی شادی میں پہنچنا ہوتا تھا اور اس شادی کا کھانا رات کو دو بجے کھایا جاتا تھا۔اور اس شادی کی تقریب کا اختتام صبح چار بجے ہوتا تھا۔
ترقی یافتہ ممالک تو اپنی بجلی بچانے کے اتنے سخت قوانین بنا کر ان پہ عمل کر ہے ہیں۔ لیکن ہم جیسے غریب ممالک میں کیا ہوتا ہے۔  پاکستانی حکومت کے اس اعلان کے بعد کے کاروبار رات کو آٹھ بجے بند کر دیا جائے تاجروں نے اسکی عدم تعمیل کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف ہم بجلی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں ہمارے کارخانوں میں، ہسپتالوں میں، اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ اور دوسری طرف ہم بطور حکمران یا بطور عوام اپنی کاہلی، نکمے پن اور عیاشی سے بھی نجات نہیں پانا چاہتے ہیں۔ کون لوگ ہو تسی؟

23 comments:

  1. ہم جی بے حس ثم ڈھیٹ لوگ ہیں

    ReplyDelete
  2. انیقہ ہم وہ لوگ ہیں جن کے نبی نے بعد نماز عشاء جاگنے کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا تھا!
    اور ہم دن رات یہ نعرہ لگایا کرتے ہیں کہ نبی کے فرمان پر جان بھی قربان ہے!

    ReplyDelete
  3. میں تین ماہ نیوزی لینڈ میں رہ کر آیا ھوں۔ان لوگوں کا بچت کا طریقہ دیکھئے۔آپ شاور لینا شروع کریں تو آپ کو ایک بالٹی میں نہانے والے دن یاد آجائیں۔شاور سے پانی اتنا آہستہ گرتا ھے کہ زیاں کا امکان ھی نہیں رھتا۔پاکستان میں دیکھا کہ جس علاقے یا گھر میں پانی وافر ھے۔وہاں پر تو سیلاب آیا ھوا ھوتا ھے۔ٹوک دو تو طنزیہ لہجے میں کہتے ھیں۔آپ رہ رہ کے نخریلے ھو گئے ھو۔یا حیرت!!!یا اھل جنوں!!یا فدایان رسول!!ہ

    ReplyDelete
  4. بات تو سچی ہے۔

    اگر ہمیں حکومت سے کسی بہتری کی اُمید نہیں ہے تو کم از کم خود کو ہی ٹھیک کر لیں۔

    ReplyDelete
  5. یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا شمار انتہائی خودغرض اور منافق اقوام کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔

    ReplyDelete
  6. آسٹریلیا کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ ہے

    ReplyDelete
  7. خاور صاحب صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔۔ اب یہ ۲۰۰۹ کی مردم شماری کے مطابق دو کروڑ تیرہ لاکھ ہوگئی ہے لیکن پھربھی پاکستان کی آبادی آسٹریلیا سے آٹھ سو فیصد زیادہ ہے ۔۔.اور یہ بحی یاد رہے کہ آسٹریلیا کی خواندگی مرد و زن ۹۹ فیصد ہے۔

    ReplyDelete
  8. آسٹریلیا کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا ہے اس لیے اس کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہمیں کچھ اور نہ سہی آبادی، رقبہ اور فی کس آمدنی ہی کو دیکھ لینا چاہیے۔ جب آبادی رقبہ سات گنا کم ہو اور آبادی تقریباَ برابر تو مسائل تو پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن مسائل کا حل وہ نہیں جو حکومت نے تجویز کیا ہے۔

    توانائی کانفرنس میں موجود مندوبین نے اپنی پنی شکایت درج کروائیں، جس پر حکومت نے جن قوانین کا اعلان کیا، اس میں بھی نقصان کم یا زیادہ عوام کا ہی ہواگا۔ بجائے اس کے کہ آپ بجلی کی کمی کو پورا کریں اور نئے بجلی گھر تعمیر کریں اس کے بجائے آپ لوگوں پر قدغن لگادیں یہ کونسا انصاف ہوا بھلا؟

    اور اگر جزوقتی پابندی کو مان بھی لیا جائے تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل میں چھٹیاں دو سے تین یا اوقات کار آٹھ سے کم ہوجائیں گے؟

    اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو پتا چلے گا کہ ایوان صدر اور ویزر اعظم ہاوس کی بجلی اتنی خرچ ہوتی ہے جتنی کہ ایک چھوٹے شہر میں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ شہریوں کو آرام دینے کی غرض سے خود بھی دو سے تین گھنٹے ہی لوڈشیڈنگ برداشت کرلیں۔ لیکن خود تو اے سی میں بیٹھیں، ایک دن اسمبلی میں حاضر نہ ہوں پھر بھی لاکھوں توپے قوم کا کھائیں اور دوسروں کے کاروبار کو ڈنڈے کے زور پر بند کروائیں تو عوام کا غصہ ہونا بالکل بجا ہے۔

    قانون بنایا جائے تو سب کے لیے برابر ہو، یہ کیا کہ بیس گریڈ سے کم والا اے سی استعمال نہ کرے اور افسر اے سی چلائے۔ میڈیکل اسٹورز کو بند کروایا جائے اور گورنر ہاوسز میں عشائیہ دیے جائیں۔

    ReplyDelete
  9. خاور صاحب، تصحیح کر دی ہے یہ بائیس ملین تین لاکھ تھی جسے میں نے غلطی سے بائیس کروڑ کر دیا تھا۔
    لنک دیکھ لیں
    http://en.wikipedia.org/wiki/Australia
    اسد، میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ جب وہ اتنے ترقی یافتہ ہے، انکے پاس آمدنی اور وسائل کی کمی نہیں ہے پھر بھی وہ بچت کرتے ہیں دوسری طرف ہم اتنے غریب ہیں لیکن چاہے وہ ہمارے حکمراں ہوں یا عوام کوئ اپنی عیاشی نہیں چھوڑنا چاہتا۔
    اب کراچی میں عام مارکیٹ ایک بجے سے پہلے نہیں کھلتی۔ یہ مارکیٹ کھلنے کا کون سا وقت ہے۔
    آپکی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ حکومت کو خود کم خرچ کی مثال قائم کرنی چاہئیے لیکن وہ اس لئے تو حکومت حاص نہیں کرتے کہ اپنی عیاشیوں کی قربانی دیکر مثالیں قائم کرتے پھریں۔
    وہ تو ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ اسکی توقع کسی کو نہیں رکھنی چاہئیے۔ قانون کی برابری تو پچھلے ساٹھ سالوں میں نہ ہو سکی، تو کیا ہم توقع کریں کہ بجلی کی کمی قانون کی بالادستی کی نئ مثالیں قائم کرے گی۔

    ReplyDelete
  10. یہ جو مارکیٹیں، بازار نصف دن سے پہلے کھلنے کا نام ہی نہیں لیتے اس واہیات چیز سے میں بہت نالاں ہوں۔ عجیب مصیبت ہے کچھ لینا ہے تو آدھا دن گزرنے کا انتظار کرو۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ۷-۸ بجے صبح دکانیں کھل جائیں۔

    ReplyDelete
  11. میرا خیال ہے کہ گورنمنٹ اس حکم پر عمل درآمد نہیں کرا سکے گی ۔

    ReplyDelete
  12. حکومت کو تاجروں کی طاقت کا خوب علم ہے ۔ کچھ فضیحتے کے بعد گاڑی اسی پرانی ڈگر پر رواں رہے گی ۔

    ReplyDelete
  13. پہلے کوئی ڈھنگ کا قانون بنانا نہیں اور پھر کہنا ہم زبردستی اس پر عمل کروائیں گے۔ تو کون مانے گا۔ مخالفت ہی کی جائے گی۔ تاجر اس غلط فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں تو انھیں شعور کی کمی نہیں بلکہ وہ بالکل حق پر ہیں۔

    ReplyDelete
  14. جناب شکاری صاحب حق کی آپنے بھلی کہی،
    ہم تو بجلی چرانے سے لے کر ٹیکس چرانا،کئی گنا ناجائز منافع کمانا،گاہک کو دھوکا دینا یہ سب بھی اپنا حق ہی سمجھتے ہیں،
    اصل میں انیقہ جیسے لوگ عقل سے پیدل ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دینے بیٹھ جاتے ہیں، اور مجھ جیسے بھی جو یہ نعرہ نہیں لگاتے کہ رسول کے فرمان پر جان بھی قر بان ہے بلکہ ان کے فرامین پر عمل کی کوشش کرتے ہیں،
    سو بھائی لگے رہیئے آپ ، کون جیت سکا ہے آپ لوگوں سے!
    :(

    ReplyDelete
  15. ساتھیوں کے اتنے مفصل تبصرے دیکھ ایک ھی بات کا احساس ھوا ھے کہ۔۔۔۔۔۔۔
    پھول بننے کی توقع پرجئے بیٹھی ھے
    ھر کلی جان کو مٹھی میں لئے بیٹھی ھے

    ReplyDelete
  16. احمد صاحب، میں خود بھی اس چیز سے تنگ ہوں۔ یہ ممکن ہی نہیں ، کہ بیشتر کام صبح نبٹا لئے جائیں اور پھر دن بھر کوئ اور کام کیا جائے۔ انتظار کرتے رہیں کہ کب مارکیٹ کھلے اور ایک عملی دن شروع ہو۔
    میں اپنی بچی کو اسکول چھوڑنے جاتی ہوں آجکل تو اکثر خیال آتا ہے کہ اگر اس وقت بازار کھلا ہو تو میرے پیٹرول کی بچت ہو جائے۔ اور میں صرف ایک کام کرنے کے بجائے کئ کام کرلوں۔
    شکاری صاحب، میرا خیال ہے کوئ دو سال پہلے بھی کراچی میں دوکانداروں کو اس بات کا پابند بنانے کی کوشش کی گئ کہ وہ رات کو جلدی کاروبار بند کر دیں لیکن وہ اس پہ تیار نہیں ہوئے۔
    جہاں رات میں بجلی کی کمی کا مسئلہ ہے وہاں رات میں چورکی وارداتوں کا بھی زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔
    میں اس خیال سے متفق ہوں کہ موجودہ حکومت نے بجلی کے مسئلے پہ اصل مسائل سے چشم پوشی کی ہےاور اسکا سارا بوجھ عوام پہ ہی ڈال دیا ہے لیکن عوامی طرز عمل بھی بیشتر جگہوں پہ کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوتے۔
    کراچی میں بجلی چوری بعض علاقون میں اتنی زیادہ ہے کہ واں کے لئے کے ای ایس سی نے اپنے طور پہ بڑا دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ انکی لوڈ شیڈنگ آدھ گھنٹے زیادہ ہوگی۔ جو طبقہ ء امراء سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ بھی بجلی چوری کر رہے ہیں مگر ان پہ کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔
    اگر بجلی کی چوری کے خلاف کوئ سخت قانون بن بھی جائے تو با اثر افراد تو اس سے بالکل متائثر نہیں ہونگے۔ یوں یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہیگا۔
    اور صورتحال یہ بنتی ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران۔
    مجھے یہ بھی جان کر بڑی حیرت ہوئ کہ ہفتے کو ہونے والے امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا کیونکہ حکومت نے ہفتے کی چھٹی کا اعلان کیا ہے۔
    تعلیم میں حکومت کی دلچسپی کا یہ حال ہے۔ آپ ایمرجینسی میں راتوں رات بیٹھ کر ایک متنازعہ پالیسی بناتے ہیں اور پھر پہلے سے شیڈیولڈ امتحانات کو ملتوی کر دیتے ہیں۔ اسکے نتیجے میں توانائ کا جو نقصان ہوا اسے ذہن میں نہیں رکھا جائےگا۔ تیاری کرنے والے بچوں کو الگ ٹینشن میں ڈالیں اور اس امتحان کے انعقاد پہ ہونے والی تمام انتظامی تیاری کو صفر حالت پہ پہنچا دیا۔
    کس دماغ سے سوچتے ہیں یہ سب۔
    ریاض شاہد صاحب، بس اس قسم کے حل اسی لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ ہم تو چاہ رہے ہیں کہ مسئلہ حل ہو لیکن اب آپ حل پہ متفق نہیں تو ہم کیا کریں۔
    مگر اب جب کہ بجلی کی شارٹ فال جو کہ پچھلے دو سال میں بڑھکر چھ ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئ ہے تو کیا ہوگا۔

    ReplyDelete
  17. میں پھر وہی عرض کروں گا کہ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بازار بند کروانا یا اضافی چھٹی کردینا عارضی حل تو ہوسکتا ہے مستقل نہیں۔ اگر آج بجلی کی طلب و رسد میں چھ ہزار میگا واٹ کی کمی ہے تو کل یہ کمی سولا ہزار بھی ہوسکتی ہے۔ اس صورتحال کا واحد حل یہی ہے کہ بجلی پیدا کی جائے۔ انسان کے چار بچے ہوں تو اسے چاروں کے لیے طلب پوری کرنی ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ وہ دو کو بھوکا ماردے اور دو کا پیٹ بھرے۔

    جہاں تک تعلق ہے بجلی کی چوری کا تو پنجاب کی طرف سے بھی یہ اعتراض سامنے آچکا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں ہی سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ سچ ہے، لیکن اس میں اس مکان والے یا دکان دار کا کیا قصور جو بروقت بجلی کے بل بھرتا ہے۔

    کاروباری حضرات پر ہاتھ ڈالنے سے قبل جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مربوط حکمت عملی ترتیب دی جاتی تو بہت بہتر ہوتا۔ مثلاَ جیسے آپ نے شاپنگ نائٹ کی بات کی تو یہاں بھی اس سے ملتا جلتا کام کیا جاسکتا تھا۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ ہفتہ میں تین یا چار دن مخصوص وقت میں دکانیں بند کریں جائیں اور باقی دن لامحدود وقت ہو۔ پھر چند ماہ بعد مخصوص اوقات والے دن کو بڑھایا جاتا۔

    پتا نہیں کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کا امن برداشت نہیں ہورہا وفاق سے۔ جبراَ قانون ٹھوسا جائے گا تو وہی جلاو گھیراو، مظاہرہ اور آنسو گیس وغیرہ یہاں بی شروع ہوجائے گی۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ جلتی پر تیل کا بھی کرنے والا ہے۔

    ReplyDelete
  18. یہ جو مختلف محکموں کو فری میں بجلی فراہم کی جاتی ہے جس مین سر فہرست واپڈا اور فوج ہیں ان کی کالونیوں میں بجلی مفت ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کمرے میں پنکھے،اے سی مسلسل چلاکرتے اور گھر کا ہر کمرہ بلا ضرورت بقع نور بنا رہتا ہے،کیوں؟
    اس لیئے کہ مال مفت دل بے رحم
    میں یہ کہتا ہوں کہ آپ انہیں مفت بجلی دینا چاہتے ہیں ضرور دیں مگر ایک مخصوص مقدار جو ایک اوسط گھر کی ضرورت کے لیئے کافی ہو،اس کے لیئے ان کے گھروں میں بھی میٹر لگائے جائیں اور یہ بھی مقرر کردہ یونٹس سے جتنے زیادہ استعمال کریں اس کا بل ادا کریں!
    آخر ان لوگوں کے لیئے کوئی قانون اور ضابطہ کیوں نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  19. محمد ریاض شاہد کا تبصرہ25th April, 2010 میں میرے والد صاحب بطور سول ٹیچر آرمی کے سکولوں میں پڑھاتے رہے ہیں اور ہمارا قیام بھی چھاونیوں میں رہا ہے ۔ اس لئے کچھ معلومات ہیں ۔
    واپڈا کسی بھی چھاونی کو اپنی بجلی حسب ضرورت بیچ دیتا ہے اس کے بعد اس کا کام ختم ہو جاتا ہے ۔ چھاونی کے اندر بجلی کی تقسیم اور بل کی وصولی وزارت دفاع کے ادارے ایم ای ایس کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
    فوج کو بجلی کی چھوٹ اس طرح سے ہے

    فوجی یونٹوں کے اندر کنوارے فوجی سپاہیوں کی بیرکس میں بلبوں اور پنکھوں کی ایک مخصوص تعداد ، مقامات ، مخصوص گھنٹے اور اوقات متعین ہوتے ہیں جو کہ فری ہوتے ہیں ۔ ان کا اندراج قواعد کی کتابوں میں ہے ۔ ان سے زیادہ استعمال پر میٹر کے ذریعے خرچ کردہ یونٹس پر بل وصول کیا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ چھوٹ صرف بلب اور پنکھوں پر ہے مثلا موٹر وغیرہ لگانے پر اس کا پورا بل ادا کرنا ہوتا ہے اور یہ یونٹ کا درد سر ہوتا ہے کہ کیسے اسے ادا کرے

    فوجی افسران اور سپاہیوں کے گھروں پر استعمال ہونی والی بجلی پر پچاس فیصد چھوٹ ہے مگر یہ بھی صرف لائٹنگ پر ہے پاور پر نہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ اے سی ، موٹر ، فریج وغیرہ کا پورا بل ادا کرنا ہوتا ہے ۔ لائٹوں کی بھی تعداد کسی گھر میں مخصوص ہی ہو سکتی ہے ۔ اجازت سے زیادہ لائٹیں لگانے کی اجازت نہیں ۔ اگر اجازت لے کر لگائی ہیں تو ان کا بل پورا ادا کرنا ہوتا ہے اور ہر گھر میں میٹر لگانے کی پابندی ہے اور ایم ای ایس کا ادارہ اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ اسے مالی نقصان نہ ہو ورنہ یہ نقصان اسے جیب سے ادا کرنا ہوگا ۔

    فوج کی اس طرح کی سہولیات اور دوسرے مالی معاملات کا انٹرنل آڈٹ ملٹری اکاونٹنٹ جنرل کرتا ہے جو وزارت دفاع کا ادارہ ہے اور اس کی رپورٹ آرمی چیف کو دیتا ہے اس طرح وہ آرمی چیف کا مالی معاملات میں مشیر بھی ہے ۔
    ہر چار سال کے بعد ایکسٹرنل آڈٹ اکاونٹنٹ جنرل آف پاکستان کرتا ہے جو وفاقی حکومت کا ادارہ ہے اور مالی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کو دیتا ہے ۔ یہ کمیٹی ضوابط کی بے قاعدگیوں پر یونٹ کمانڈرز کو براہ راست بلا کر کیس کو
    سنتی ہے اور فیصلہ سناتی ہے

    ReplyDelete
  20. عبداللہ کا تبصرہ25th April, 2010 میں ریاض شاہد صاحب آپکی مہربانی کہ آپنے اس بات کی وضاحت کی،مجھے اس باریکی کا علم نہ تھااور اس وقت جب یہ سب میرے علم میں آیا تھا اتنی باریکی میں جانے کی عقل بھی نہ تھی!
    مگر واپڈا کالونی کے بارے میں تو میری معلومات درست ہیں نا؟

    ReplyDelete
  21. اوپر والا تبصرہ مینے افضل صاحب کے بلاگ پر بھی کیا تھا،اور میری فوج کے حوالے سے غلط فہمی کو ریاض شاہد صاحب نے دور کیا،
    تو اب مینے اپنا فرض سمجھا کہ اس جوابی تبصرے کو یہاں بھی پوسٹ کردوں!

    ReplyDelete
  22. آپکی تحریر سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ دیگر تبصرہ نگاروں کا یہ کہنا درست کے مفت بجلی اور منصوبہ بندی وغیرہ کے مسائل اپنی جگہ لیکن بجلی کی بچت کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں سر فہرست اوقات کار کا تعین ہے۔آسٹریلیا، برطانیہ اور ریاستہاے متحدہ امریکہ میں جہاں بجلی جانا ایک انہونی سی بات ہے وہاں بھی لوگوں کو ڈش واشر، واشنگ مشین وغیرہ رات کے وقت چلانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ڈے لایٹ سیونگس بھی دن کے وقت کی روشنی کی ایک بہترین ترکیب ہے لیکن ہمارے ملک میں اللہ کے فضل سے اتنی دن کی روشنی پہلے ہی موجود ہے کہ اس کو استعمال کرنے سے توانائی کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔بارہ بجے مارکیٹوں کا کھلنا چہ معنی؟

    حکومتوں پر الزام دھرنے سے پیشتر خود تنقیدی اور کلچر کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔12 بجے کی شادیوں میں شرکت سے معذرت کریں، وقت کی پابندی کریں، فجر کی نماز کے بعد روزی روٹی کی دوڑ کے لئے نکلیں اور عشا کے بعد سو جائیں، نسخہ اکثیر ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ