Saturday, March 20, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۸

تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح میں، آریاءووں کی آمد،ہندوستان کی تہذیب میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنی۔ اس سے پہلے یہاں دراوڑی تہذیب کا اثر تھا جس نے وادی سندھ میں جنم لیا اور جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے۔ آریا وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ انکی زبان پہ یورپی زبانوں کا اثر تھا، آریہ بنیادی طور پہ جنگجو تھے، انکے مزاج میں آوارہ خرامی اور اضطراب تھا۔وہ سفید فام تھے اور دراوڑی گہرے رنگ کے۔ آریا اپنے آپکو اور اپنی تہذیب کو  دراوڑوں سے بہتر جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دراوڑوں کو حقارت سے داس کہا جسکا مطلب ہے غلام۔ دی گئ دو تصویروں میں آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون آریائ نسل سے ہے اور کون دراوڑی نسل سے۔



 اسکے ساتھ ہی ایک طبقاتی تقسیم نے جنم لیا۔ طبقاتی تقسیم اگرچہ آریاءووں کی آمد سے پہلے موجود تھی۔ لیکن نئ پیدا ہونے والی تقسیم خالص نسلی اثرات کے تحفظ کا نتیجہ تھی۔ کیونکہ ساتھ رہنے سے سفید فام آریاءووں کو  سیاہ فام مقامی باشندوں سے اختلاط کا اندیشہ تھا۔۔ چنانچہ مذہبی فرائض کی انجام دہی برہمنوں کو ملی، ملک کی حفاظت کشتریوں کے ہاتھ آئ، عوام ویش کہلائے اور کاروباری امور انکے حوالے ہوئے۔ سب سے نیچ ذات شودر تھے۔ جنکا کام برتر طبقات کی خدمت سر انجام دینا تھا۔ آریاءووں نے اس ساری تقسیم کو اس طرح منظم کیا کہ خود برہمن کا منصب سنبھال لیا اور اس طرح سےمذہبی امور کے ذریعے معاشرے کی رہ نمائ جیسا مضبوط ادارہ انکے پاس آگیا۔۔یہ تقسیم اتنے مضبوط اثرات رکھتی تھی کہ بر صغیر پاک و ہند میں وطن، نسل، ذات، مذہب،  اورپیشے کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی اکائیاں آج بھی موجود ہیں۔
آریاءووں نے اپنی داخلی جذبات کا اطہار اپنشدوں میں کیا۔ رگ وید انکی تصنیف کردہ مذہبی کتاب ہے۔  انہوں نے  فنا و بقا کے تصورات کو اہمیت دی۔ اس میں حقیقت اولی کی وحدت کی بات کی گئ۔ چنانچہ روح کو اہمیت دی گئ اور فرد کو جسم سے بلند ہونے کا سبق دیا گیا۔ یوں صورت حال یہ بنی کہ اعلی سطح پہ آریائ اثرات اور زیریں سطح پہ دراوڑی اثرات سرگرم ہونے لگے۔ اور دو مزاج سامنے آئے۔ آریائ اور دراوڑی مزاج۔
اس عہد کی دو کتابیں جو کہ ہندو دیو مالا میں شامل ہیں رامائن اور مہا بھارت ہیں۔ رامائن میں رام ، سیتا اور راون کے کرداروں سے کہانی بنی گئ۔ اور اس میں ہندو فلسفے کے بنیادی عناصر مثلاً نظریہ ء وحدت اور تیاگ وغیرہ بھی سما گئے۔ رام ایک اعلی ذات سے تعلق رکھنے والافرد ہے اور شمالی ہندوستان میں اسکی حکومت قائم ہے۔ وہ مزاجاً آریہ ہے۔ اسکے بر عکس راون راکشس ہے، برا ہے، اور جنوب سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں شمالی ہندوستان آریہ کے مزاج میں آگیا
جبکہ جنوبی ہندوستان میں دراوڑی تہذیب کے آثار آگئے۔ چنانچہ راون کا سیتا کو اغوا کرنا دراصل دراوڑوں کا آریہ سماج کے خلاف ایک رد عمل بھی ہے۔


آریا اپنے ساتھ جو زبان لائے تھے اس نے سنسکرت کو جنم دیا۔ جبکہ دراوڑی زبان کے اثرات جنوب کی زبان میں نظر آتے ہیں جیسے تامل، تیلگو، کناڈا، بروہی، ملیالم زبانیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان،  ایران  سری لنکا، اور انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔
دراوڑی اور آریائ تضاد کا کا نتیجہ برصغیر کے مذہبی تصورات میں بھی تبدیلی لایا۔ دراوڑ کثرت کی طرف مائل تھے اور آریاءووں نے وحدت کی طرف توجہ دلائ۔ دراوڑ اپنی زمین سے جڑے رہنا پسند کرتے تھے جبکہ آریہ آزاد ہونے کے آرزومند تھے۔ چنانچہ برصغیر میں چلنے والی تحریکوں کے پیچھے اس نفسیات نے بھی کام کیا۔
دراوڑی تہذیب نے خود کو اونچی پرواز پر مائل کرنے کے بجائے اپنے اندر سمٹ جانے کی تلقین کی اور سماجی رسوم قیود کا پختہ نظام قائم کیا۔ برصغیر میں برہمنیت کو فروغ انکے اس رد عمل کی وجہ سےبھی  ملا۔

جاری ہے

حوالہ جات؛

اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان۔

10 comments:

  1. پھپھے کٹنیMarch 20, 2010 at 3:27 PM

    شکل سے يہ آدمی کرشمہ کپور کا ابا لگ رہا ہے

    ReplyDelete
  2. چلیں آپ نے تبصرہ کرنے کی جراءت تو کی۔ یہ کرشمہ کپور کے خاندان سے ہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  3. کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ یہاں کے قدیم باشندے اس وقت تہذیب کی معراج پر تھے جب باقی دنیا گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ہر گھر میں کنواں ، سیوریج سسٹم ، آب رواں میسر تھا اور شہر ٹاون پلاننگ کے تححت آبد کیے گئے تھے ۔ مگر شاید تہذیب یافتہ ہونا ان کے لئے کافی نہیں تھا ۔ قوت کا مقابلہ محض اعلی اقدار سے کرنے کی کوشش میں ہمیشہ کی غلامی میں چلے گئے ۔

    ReplyDelete
  4. !جرات کی کیا بات ہے
    کیا تبصرہ کرنے میں کوئی خطرہ ہے؟

    ReplyDelete
  5. یہاں کے قدیم باشندوں پہ مٹی کی محبت حاوی تھی۔ اور شاید طبعاً وہ امن پسند تھے۔ اس لئے جب حالات انکے حق میں نہیں رہے تو انہوں نے جنوب کی طرف پسپائ اختیار کر لی۔ ان میں سے بعض تو جنگلوں کی طرف نکل گئے۔ اور اس طرح سے انہیں اپنے علاقے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے بلکہ اپنی ہی مٹی پہ انہیں غلام کا درجہ ملا۔

    ReplyDelete
  6. عامرشہزاد، یہ تو میں نے کوئ تبصرہ نہ ملنے پہ کہا۔ آریا اور دراوڑ ان علاقوں کے باسی تھے جہاں آج ہم رہتے ہیں۔ ہم میں سے بعض کے بدن میں آریاءوون کا خون ہوگا اور بعض کے دراوڑی۔ پھر بھی اگر ہم انکے بارے میں جاننے میں دلچسپی نہیں لیتے تو اسکی کیا وجہ ہے۔

    ReplyDelete
  7. اس پورے سلسلے کو میں نے پڑھا تو ہے اور اس سے سیکھا بھی ہے۔ لیکن اپنی جہالت کی وجہ سے خود کو اس پر تبصرہ کرنے سے باز رکھا۔ یہ اس لئے رسید کے طور پر یہ تبصرہ قبول کیجئے
    راج کپور اور نندیتا داس کا نام بھی ساتھ لکھ دیتیں تو اچھا نہ ہوتا؟

    ReplyDelete
  8. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  9. سلسلہ بہت دلچسپ رخ اختیار کرگیا ہے، سوچ رہا ہوں پاکستان سے انور سدید کی یہ کتاب پہلی فرست میں منگوا لوں!
    اللہ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ صحیح معلومات کے ساتھ لوگ اس میدان بلاگنگ میں آگئے ہیں ورنہ لوگوں نے تو غلط سلط معلومات فراہم کر کر کے باقیوں کے خراب ذہنوں کو اور خرابی میں ڈالا ہوا تھا!
    خیال رہے یہاں خراب ذہنوں سے مراد زہریلے پروپگینڈے سے متاثر ہوئے ذہن ہیں!

    ReplyDelete
  10. جعفر، مجھے یقین تھا کہ یہ کام آپ کریں گے۔ یہا کام میں نے آپکے چھوڑ دیا تھا۔
    آپکی مدد کا شکریہ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ