تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح میں، آریاءووں کی آمد،ہندوستان کی تہذیب میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنی۔ اس سے پہلے یہاں دراوڑی تہذیب کا اثر تھا جس نے وادی سندھ میں جنم لیا اور جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے۔ آریا وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ انکی زبان پہ یورپی زبانوں کا اثر تھا، آریہ بنیادی طور پہ جنگجو تھے، انکے مزاج میں آوارہ خرامی اور اضطراب تھا۔وہ سفید فام تھے اور دراوڑی گہرے رنگ کے۔ آریا اپنے آپکو اور اپنی تہذیب کو دراوڑوں سے بہتر جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دراوڑوں کو حقارت سے داس کہا جسکا مطلب ہے غلام۔ دی گئ دو تصویروں میں آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون آریائ نسل سے ہے اور کون دراوڑی نسل سے۔
اسکے ساتھ ہی ایک طبقاتی تقسیم نے جنم لیا۔ طبقاتی تقسیم اگرچہ آریاءووں کی آمد سے پہلے موجود تھی۔ لیکن نئ پیدا ہونے والی تقسیم خالص نسلی اثرات کے تحفظ کا نتیجہ تھی۔ کیونکہ ساتھ رہنے سے سفید فام آریاءووں کو سیاہ فام مقامی باشندوں سے اختلاط کا اندیشہ تھا۔۔ چنانچہ مذہبی فرائض کی انجام دہی برہمنوں کو ملی، ملک کی حفاظت کشتریوں کے ہاتھ آئ، عوام ویش کہلائے اور کاروباری امور انکے حوالے ہوئے۔ سب سے نیچ ذات شودر تھے۔ جنکا کام برتر طبقات کی خدمت سر انجام دینا تھا۔ آریاءووں نے اس ساری تقسیم کو اس طرح منظم کیا کہ خود برہمن کا منصب سنبھال لیا اور اس طرح سےمذہبی امور کے ذریعے معاشرے کی رہ نمائ جیسا مضبوط ادارہ انکے پاس آگیا۔۔یہ تقسیم اتنے مضبوط اثرات رکھتی تھی کہ بر صغیر پاک و ہند میں وطن، نسل، ذات، مذہب، اورپیشے کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی اکائیاں آج بھی موجود ہیں۔
آریاءووں نے اپنی داخلی جذبات کا اطہار اپنشدوں میں کیا۔ رگ وید انکی تصنیف کردہ مذہبی کتاب ہے۔ انہوں نے فنا و بقا کے تصورات کو اہمیت دی۔ اس میں حقیقت اولی کی وحدت کی بات کی گئ۔ چنانچہ روح کو اہمیت دی گئ اور فرد کو جسم سے بلند ہونے کا سبق دیا گیا۔ یوں صورت حال یہ بنی کہ اعلی سطح پہ آریائ اثرات اور زیریں سطح پہ دراوڑی اثرات سرگرم ہونے لگے۔ اور دو مزاج سامنے آئے۔ آریائ اور دراوڑی مزاج۔
اس عہد کی دو کتابیں جو کہ ہندو دیو مالا میں شامل ہیں رامائن اور مہا بھارت ہیں۔ رامائن میں رام ، سیتا اور راون کے کرداروں سے کہانی بنی گئ۔ اور اس میں ہندو فلسفے کے بنیادی عناصر مثلاً نظریہ ء وحدت اور تیاگ وغیرہ بھی سما گئے۔ رام ایک اعلی ذات سے تعلق رکھنے والافرد ہے اور شمالی ہندوستان میں اسکی حکومت قائم ہے۔ وہ مزاجاً آریہ ہے۔ اسکے بر عکس راون راکشس ہے، برا ہے، اور جنوب سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں شمالی ہندوستان آریہ کے مزاج میں آگیا
جبکہ جنوبی ہندوستان میں دراوڑی تہذیب کے آثار آگئے۔ چنانچہ راون کا سیتا کو اغوا کرنا دراصل دراوڑوں کا آریہ سماج کے خلاف ایک رد عمل بھی ہے۔
آریا اپنے ساتھ جو زبان لائے تھے اس نے سنسکرت کو جنم دیا۔ جبکہ دراوڑی زبان کے اثرات جنوب کی زبان میں نظر آتے ہیں جیسے تامل، تیلگو، کناڈا، بروہی، ملیالم زبانیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران سری لنکا، اور انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔
دراوڑی اور آریائ تضاد کا کا نتیجہ برصغیر کے مذہبی تصورات میں بھی تبدیلی لایا۔ دراوڑ کثرت کی طرف مائل تھے اور آریاءووں نے وحدت کی طرف توجہ دلائ۔ دراوڑ اپنی زمین سے جڑے رہنا پسند کرتے تھے جبکہ آریہ آزاد ہونے کے آرزومند تھے۔ چنانچہ برصغیر میں چلنے والی تحریکوں کے پیچھے اس نفسیات نے بھی کام کیا۔
دراوڑی تہذیب نے خود کو اونچی پرواز پر مائل کرنے کے بجائے اپنے اندر سمٹ جانے کی تلقین کی اور سماجی رسوم قیود کا پختہ نظام قائم کیا۔ برصغیر میں برہمنیت کو فروغ انکے اس رد عمل کی وجہ سےبھی ملا۔
جاری ہے
جاری ہے
حوالہ جات؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان۔
شکل سے يہ آدمی کرشمہ کپور کا ابا لگ رہا ہے
ReplyDeleteچلیں آپ نے تبصرہ کرنے کی جراءت تو کی۔ یہ کرشمہ کپور کے خاندان سے ہیں۔
ReplyDelete:)
کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ یہاں کے قدیم باشندے اس وقت تہذیب کی معراج پر تھے جب باقی دنیا گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ہر گھر میں کنواں ، سیوریج سسٹم ، آب رواں میسر تھا اور شہر ٹاون پلاننگ کے تححت آبد کیے گئے تھے ۔ مگر شاید تہذیب یافتہ ہونا ان کے لئے کافی نہیں تھا ۔ قوت کا مقابلہ محض اعلی اقدار سے کرنے کی کوشش میں ہمیشہ کی غلامی میں چلے گئے ۔
ReplyDelete!جرات کی کیا بات ہے
ReplyDeleteکیا تبصرہ کرنے میں کوئی خطرہ ہے؟
یہاں کے قدیم باشندوں پہ مٹی کی محبت حاوی تھی۔ اور شاید طبعاً وہ امن پسند تھے۔ اس لئے جب حالات انکے حق میں نہیں رہے تو انہوں نے جنوب کی طرف پسپائ اختیار کر لی۔ ان میں سے بعض تو جنگلوں کی طرف نکل گئے۔ اور اس طرح سے انہیں اپنے علاقے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے بلکہ اپنی ہی مٹی پہ انہیں غلام کا درجہ ملا۔
ReplyDeleteعامرشہزاد، یہ تو میں نے کوئ تبصرہ نہ ملنے پہ کہا۔ آریا اور دراوڑ ان علاقوں کے باسی تھے جہاں آج ہم رہتے ہیں۔ ہم میں سے بعض کے بدن میں آریاءوون کا خون ہوگا اور بعض کے دراوڑی۔ پھر بھی اگر ہم انکے بارے میں جاننے میں دلچسپی نہیں لیتے تو اسکی کیا وجہ ہے۔
ReplyDeleteاس پورے سلسلے کو میں نے پڑھا تو ہے اور اس سے سیکھا بھی ہے۔ لیکن اپنی جہالت کی وجہ سے خود کو اس پر تبصرہ کرنے سے باز رکھا۔ یہ اس لئے رسید کے طور پر یہ تبصرہ قبول کیجئے
ReplyDeleteراج کپور اور نندیتا داس کا نام بھی ساتھ لکھ دیتیں تو اچھا نہ ہوتا؟
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteسلسلہ بہت دلچسپ رخ اختیار کرگیا ہے، سوچ رہا ہوں پاکستان سے انور سدید کی یہ کتاب پہلی فرست میں منگوا لوں!
ReplyDeleteاللہ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ صحیح معلومات کے ساتھ لوگ اس میدان بلاگنگ میں آگئے ہیں ورنہ لوگوں نے تو غلط سلط معلومات فراہم کر کر کے باقیوں کے خراب ذہنوں کو اور خرابی میں ڈالا ہوا تھا!
خیال رہے یہاں خراب ذہنوں سے مراد زہریلے پروپگینڈے سے متاثر ہوئے ذہن ہیں!
جعفر، مجھے یقین تھا کہ یہ کام آپ کریں گے۔ یہا کام میں نے آپکے چھوڑ دیا تھا۔
ReplyDeleteآپکی مدد کا شکریہ۔