Wednesday, March 17, 2010

مولانا رومی کی شاعری

تمہیں تو پروں کیساتھ پیدا کیا گیا ہے تم کیوں رینگنا چاہتے ہو۔
یہ الفاظ عظیم صوفی شاعر جلال الدین محمد رومی کے ہیں۔ انکا نام صوفی شاعری کے حوالے سے جس بلندی پہ نظر آتا ہے اسکی کوئ مثال نہیں ملتی۔ مثنوی مولانا رومی  اس شاعری کی معراج ہے اور انکے عشق کا اظہار۔ عشق افراد ، اشیاء، مظاہر قوت، معقولات و مجردات کا ہو سکتا ہے اور خدا سے بھی۔ مگر خدا سے عشق کی شدت کو انسان الفاظ میں ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اور اس لئیے مجازی اشارے استعمال کرنا پڑ جاتے ہیں۔

رومی کے اوپر کچھ تحاریر سے گذرتے ہوئے خیال ہوا کہ انکی شاعری کے کچھ حصوں میں آپکو بھی شامل کر لیا جائے۔ 
مولانا چونکہ خیال کرتے ہیں کہ روح انسانی کی اصل خدا ہے۔ اور اس سلسلے میںمرد  وعورت کی کوئ تخصیص نہیں۔ اس وجہ سے اپنے زمانے میں مولانا رومی صوفی ازم کی تاریخ  میں ان معدودے شخصیات میں شامل ہوتے ہیں جنکے مریدوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔ مثنوی میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں کہ

Mohammed said,
'women prevails over the wise and intelligent. While the ignorant dominate her'. They lack tenderness and affection because their animality prevail. Love and gentleness are human qualities, aggressiveness and lust are bestical.
 یعنی، محمد صلعم نے کہا کہ عورتیں عقلمند اور ذہین مردوں پہ چھا جاتی ہیں جبکہ جاہل مرد ان پہ حکمرانی کرتے ہیں۔ ان میں شفقت اور محبت کی کمی ہوتی ہے کیونکہ ان میں حیوانیت غالب ہوتی ہے۔ محبت اور شائستگی انسانی خواص ہیں اور جارحیت پسندی اور ہوس حیوانی خواص۔
ایک اور جگہ پہ وہ کہتے ہیں،
Women is a ray of God. She is not earthy beloved. You could say; She is creative, not created
یعنی، عورت خدا کی ایک کرن ہے۔ عورت کوئ زمینی محبوب نہیں ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ وہ تخلیق کار ہے تخلیق نہیں۔
vol I, 2433-2437
Mathnavi Jalaluddin Rumi.
Translated by Kabir and Camilla Helminski
Shambhala, Boston and London, 2008.

ایک اور جگہ وہ انسانی ارتقاء کی بات کرتے ہیں۔ انسان نے نہ صرف جسمانی ارتقاء حاصل کیا ہے بلکہ شعوری ارتقاء سے بھی گذرا ہے۔اور حقیقت تک رسائ حاصل کرنے کے لئیے ذہن کا پورا سہارا لیا۔ اور حسیات اور خرد سے حاصل اس معلومات نے کئ متضاد خیالات کو جنم دیا ہے۔ اور تضاد کی صورت ایسی بنتی ہے کہ
کائنات فی الواقع موجود ہے۔ فی الواقع موجود نہیں ہے محض التباس ہے۔ حقیقت غیر متغیر ہے۔ حقیقت تغیر پذیر ہے۔ اشیاء کا تغیر ذہن کی کرشمہ سازی ہے۔ فرد تمام اشیاء کا معیار ہے۔ فطرت انسانی حامل صداقت ہے۔ روح فانی ہے۔ روح غیر فانی ہے۔ کائنات میں تناسخ ارواح  کا سلسلہ جاری ہے۔ خدا ایک ہے۔ خدا بہت سے ہیں۔ خدا ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
رومی اپنے وجدان کو استعمال کرتے ہیں اور جذبہ ء عشق سے ایک ارتقائ حالت کو اس طرح کھوجتے ہیں۔

از جمادی مُردم و نامی شدم — وز نما مُردم بحیوان سرزدم
مُردم از حیوانی و آدم شدم — پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم
حملهء دیگر بمیرم از بشر — تا برآرم از ملایک بال و پر
وز ملک هم بایدم جستن ز جو — کل شییء هالک الاوجهه
بار دیگر از ملک پران شوم — آنچه اندر وهم ناید آن شوم
  پس عدم گردم عدم چو ارغنون — گویدم کانا الیه راجعون
ترجمہ؛
میں پہلے پہل جماد یعنی پتھرتھا پھر فنا ہو کریعنی ترقی کر کے نبات یعنی شجر ہو گیا، پھر فنا ہوا یعنی ترقی کی اور حیوان کی صورت نمودار ہوا۔
اسکے بعد میری حیوانیت بھی فنا ہو گئ یعنی میں نے مزید ترقی کی اور مجھے انسانی صفات عطا ہوئے۔ مجھے فنا ہونے کا خوف نہیں۔ کیونکہ فنا سے مجھ میں کوئ کمی نہیں پیدا ہوتی۔
حیات مادی کے بعد مجھ پر پھر فنا کا حملہ ہوتا ہے۔ میری بشریت یعنی انسانی خصوصیات معدوم ہوتی ہیں اور فرشتوں کی مانند مجھے بال و پر عطا کئے جاتے ہیں
عالم ملکوت سے میں پرواز کر کے ایسے مقام پہ پہنچ جاتا ہوں، جہاں وہم و قیاس کا گذر نہیں ہو سکتا۔
میں آخر میں عدم ہی عدم ہو جاتا ہوں اور ساز کی طرح 'ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے' میرا ورد ہو جاتا ہے۔

اگرچہ  رومی اس خیال تک اپنے وجدان کی قوت سے پہنچے مگر جدید سائنس میں ایک تحقیق داں اسے اپنے علم اور تفکر  اور مشاہدے کی قوت سے حاصل کرتا ہے تفکر اور مشاہدہ جب اپنی انتہاء پہ پہنچتے ہیں تو وجدان بن جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ڈارون کے ارتقاء کا نظریہ سامنے آتا ہے۔  اس سے ایک بات ہمیں محسوس ہوتی ہے کہ وجدان ہو یا تحقیق ہمیشہ کھلے ذہن پہ ہی اپنا نزول کرتے ہیں۔
 اللہ انکی مغفرت کرے۔  جب ہمیں بال و پر دئے گئے ہیں تو ہم کیوں رینگنا چاہتے ہیں۔

حوالہ جات؛
مثنوی مولانا روم میں خواتین کا تذکرہ
کتاب، تصوف اور سریت، پروفیسر  لطیف اللہ، ادارہء ثقافت اسلامیہ

9 comments:

  1. اگرچہ رومی اس خیال تک اپنے وجدان کی قوت سے پہنچے مگر جدید سائنس میں ایک تحقیق داں اسے اپنے علم اور تفکر اور مشاہدے کی قوت سے حاصل کرتا ہے تفکر اور مشاہدہ جب اپنی انتہاء پہ پہنچتے ہیں تو وجدان بن جاتے ہیں

    خدا تک پہنچنے کے راستے کا پہلا قدم عقل ہی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم مجھے چلینج کرو بلکہ بغیر عقل کے اندھوں کی طرح آیات کو ماننے والوں کو کمتر درجہ دیتا ہے

    ReplyDelete
  2. بی بی!
    ایک بات کا آپ نے ذکر نہیں کیا جو قارئین کے لئیے نہائت دلچسپ ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مولانا جلال ‌الدین محمد بلخی رومی رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا مرشد مانتے تھے۔ حالانکہ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ سینکڑوں سال قبل (پیدائش بارہ سو سات ء ، انتقال بار سو تہتر ء) تشریف لائے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں ۔ اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں۔

    آدمی دید است باقی پوست است
    دید آں باشد کہ دید دوست است
    جملہ تن را در گداز اندر بصر
    در نظر رو در نظر رو در نظر

    علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے

    خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
    ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
    ——————————————–

    بی بی!

    آپ نے ڈارون کے ارتقاء کےنظریہ کا ذکر کیا ہے جس میں ڈارون کا خیال ہے کہ جانداروں کا مآخذ بنیادی طور پہ ایک ہی تھا جو بعد میں ترقی کرتے مختلف ادوار میں اپنے مختلف جانداروں کی شکل اختیار کر گیا ۔ انسان کے بارے میں ڈارون کا نظریہ یہ ہے کہ انسان بندر سے بتدریج انسان بنا یعنی اسکی دُم ارتقائی عمل سے گھس گئی ، کمر سیدھی ہوگئی جس سے دو پاؤں پہ چلنا سیکھ لیا۔ اور دماغ استعمال ہونا شروع ہوا اور حضرت انسان نے بولنا سیکھ لیا۔ وغیرہ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کا جد امجد بندر تھا تو ایک ہی خظے اور آب ہوا میں رہتے ہوئے ، ایک ہی جیسے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بندر کیونکر بندر رہ گئے اور ارتقائی عمل سے انسان نہ بن سکے؟۔

    ReplyDelete
  3. ریاض شاہد صاحب، آپ نے بجا فرمایا۔ اگرچہ یہ بات نجانے کتنی دفعہ کہی جا چکی ہے اور میں آج پھر وہی کہونگی کہ پہلی وحی کا آغاز ہی علم کی معرفت سے ہوتا ہے۔ قرآن بار بار تفکر کی دعوت دیتا ہے، کبھی قصے بتا کر، کبھی مظاہر قوت کی نشانیاں بتا کر۔ سورہء رحمان اس سلسلے میں بڑی پر تاثیر سورت ہے۔
    گوندل صاحب، آپ نے بجا فرمایا، وہ انکے روحانی شاگرد تھے۔ رومی کی حیات کو اتنے مختصر بلاگ میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لئیے میں نے یہ دو چھوٹے سے موضوع اٹھائے ہیں۔
    یہ کہنا کہ تمام جانور یا تمام کائنات کا ماءخذ ایک ہی تھا یا ہے۔ کچھ ایسا غلط نہیں۔ آخر خدا بھی تو کہتا ہے کہ اس نے کن کہا اور دنیا وجود میں آگئ۔ لیکن یہاں ایک نکتہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ وقت کی اکائ پوری کائنات میں ایک جیسی نہیں۔ آئن اسٹائن نے اس سلسلے میں کام کیا اور اضافیت کا نظریہ پیش کیا۔ لیکن ابھی انسان کو اپنے آپکو تلاش کرنے کے لئے خاصہ کام کرنا ہے۔
    آئن اسٹائن نے ایک دفعہ کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کائنات کے اندر کوئ بہت سادہ سے نظریہ کام کر رہا ہو اور ہم نے اسکی سمت جانے کے لئے مشکل راستہ منتخب کیا ہو۔ لیکن یہاں میں یہ جمع کرنا چاہونگی کہ زیادہ تر حالات میں منزل نہیں راستے خوبصرتی رکھتے ہیں۔
    اب واپس پلٹتے ہیں ڈارون کے نظرئے کی طرف، تو خدا نے کن کہا اور کائنات بن گئ۔ اس کن اور کائنات کی تخلیق کے درمیان جو وقفہ ہے اسے ہم نہیں جانتے۔ اس لئیے اقبال نے کہا کہ
    یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
    کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن یا فیکن
    بحیثیت سائنس کے طالب علم کے میں یہ جانتی ہوں کہ ہر چیز دوسرے سے متعلق ہے۔ مطلق کیمسٹری یا مطلق بائیلوجی کوئ چیز نہیں اور جب ہم کسی چیز کی گہرائیوں میں جاتے ہیں تو تمام علوم ایک دوسرے سے منسلک نظر آتے ہیں۔
    ڈارون نے اس ترتیب کو اس سسے تعبیر کیا کہ انسان کے جد امجد بندر تھے۔ اس سے پہلے کئ فلسفی یہ کہہ چکے تھے کہ انسان اور بندروں کے درمیان مماثلت ہے۔ درحقیقت یہ بڑی سادہ سی بات لگتی ہے کہ کیا خدا کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ چیزوں کو اس طرح پیدا کرے کہ وہ ایکدوسرے سے تعلق رکھتی ہوں۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ کائنات ایک پزل کی طرح ہمارے سامنے حل ہونے کے لئے پڑی ہے۔ کوئ چیز ایسی نہیں جو عقل کی حدوں سے ماورا ہو۔ بس ابھی ہم عقل کی اس ارتقائ حالت کو نہیں پہنچے کہ ان چیزوں کا ادراک کر سکیں۔
    کسی بھی سمجھدار شخص کو اور کسی مسلمان کو ڈارون کے نظریات سے کوئ مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک فرد واحد کے اخذ کردہ نتائج ہیں۔ اسکے مشاہدات اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتے ہیں۔آپ کچھ اور سوچ کر کوئ اور نتیجہ نکال لیں ۔ لیکن یہ تسلسل جو ہمیں حیاتیات سے لیکر ہر چیز میں نظر آتا ہے اسے محض یہ کہہ کر چھوڑ دینا کہ خداءے پاک کی عظیم صناعی ہے۔ خدا کی اس صناعی کی توہین کرنے کے برابر ہے۔ ہمیں اسکے پیچھے چلنے والے رازوں کو کھوجنا ہے کیونکہ یہی ہمارے صناع کا مقصد لگتا ہے۔ اور اسی سے ہم اسکی تخلیقی قوتوں کی تعریف صحیح سے کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. Your respect,
    Aniqa I'm all of the opinion to you. Times need we be the ones like you.

    ReplyDelete
  5. http://www.youtube.com/watch?v=HrHH59It6HM

    بہت خوب

    ReplyDelete
  6. رضوان صاحب
    مرید ہندی کا بھی یہی مخمصہ ہے کہ عقل اور انجمن کی دنیا سے عشق کا سفر کیوں کر طے ہو ۔
    ہم بھی تو ابھی پہلا قدم بھی اٹھا نہیں پا رہے

    ReplyDelete
  7. "علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مولانا جلال ‌الدین محمد بلخی رومی رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا مرشد مانتے تھے۔ "

    آخر کيوں ناں مانتے؟ مولانا رومی فيضان نبوت کے جاری رہنے کے قائل ہيں-


    "Exert yourself in the service of faith to such an extent that you be granted prophethood within the Muslim Ummah.”
    (Masnawi Maulana Rum vol. 5, pg. 42)"

    ReplyDelete
  8. چلو اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ مولانا رومی بھی احمدی تھے اور چونکہ وہ تھے تو علامہ اقبال تو خود بخود ہو گئے۔ اسی منطق کی رو سے پاکستان کے عوام احمدی ہوئے ۔ چہ خوب
    تو کیا پھر علامہ اقبال نے بھی جھوٹا نبی ہونے کا دعوی کیا اور امت سے علیحدگی اختیار کی جو وہ بتان وہم و گمان کو توڑ کر ملت میں گم ہو جانے کو ترجیح دیتے تھے ۔ ویسے ملت سے کیا صرف احمدی مراد ہیں یا باقی مسلمانون بچاروں کی مغفرت کا بھی کوئی امکان ہے

    ReplyDelete
  9. گمنام،میرا خیال ہے کہ چونکہ امت محمدیہ کو کتاب یا علم کا تحفہ دے دیا گیا ہے تو یہ بذات خود اس طرف اءک بڑااشارہ ہے کہ خدا نے اپنے بندوں کو آزاد کر دیا ہے۔ کتاب رہنمائ کے لئے موجود ہے اور اب یہ ہم پہ فرض ہے کہ ہم مزید اماموں یا نبیوں کے انتظار کے بجائے کائنات کی تسخیر کو نکل کھڑے ہوں۔ کتاب یا قرآن کریم اس چیز کی توثیق کرتا ہے کہ علم کے دروازے ہر خاص و عام کے لئے کھول دئے گئے ہیں۔ اسی کو شاید اللہ نے دین کی تکمیل سے پکارا ہے۔ اور مولانا رونی اور اقبال نے بھی یہی تعبیر کیا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ