پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ایک معمے کی صورت رہے ہیں۔ اور عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔ لیکن کبھی بھی حالات اس طرح کے نہیں ہو پاتے کہ تمہیں اپنوں سے کب فرصت، ہم اپنے غم سے کب خالی۔ چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی۔
البتہ عوام کا ایک طبقہ جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ امریکہ کا ہمارے اندر مصروف رہنا ہے وہ کہتے ہیں کہ
خیر اس موقع پہ میں عوام کا تذکرہ کر کے آپکے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتی۔ آخر وہ خوامخواہ ہوتے ہی کیوں ہیں۔
چلیں پھر خواص کی باتیں کریں۔ ماضی ء قریب میں موجودہ صدر صاحب کے سارا پالن سے ہاتھ ملالینے اور معانقے کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے
پہ ان لوگوں نے وہ ہلہ بولا کہ کچھ تاریخی شاہکار وجود میں آگئے۔
یہ دیکھئے یہ ہے انکے دشمنوں کے تخیل کی پرواز۔ گھٹیا حرکت۔ ایسے ہی کسی موقع پہ شاید چڑ کر غالب نے کہا کہ خواہش کو احمقون نے پرستش دیا قرار۔ کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں۔ میری ہمدردیاں اپنے محبوب صدر کے ساتھ رہیں۔
آج ہم سبکی محبوب امریکن وزیر ہلیری کلینٹن نے اعلی سطح کی امریکن اور پاکستانی اسٹریٹجک میٹنگ کے بعد اسے نئے تعلقات کی استواری کا نیا دن قرار دیاہے۔ نئے تعلقات کی استواری کے اس نئے دن پہ آپ سب کے تخیل کی بلند پرواز کے لئیے یہ تصویر حاضر ہے۔
نہیں معلوم شاہ محمود قریشی نے کیا سوچا۔ ہم اگر شاعر ہوتے تو کہتے کہ
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پئیے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
کیا کیا جائے کہ بیچاری عوام اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لئے کچھ بھی کر جاتی ہے لیکن پھر بھی فرسٹریشن ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔
ReplyDeleteپھر اس طرح کا مواد فارورڈ ای میلز کے لئے بھی بہت کام آتا ہے (افسوس کہ) عوامی مزاج اب اسی قسم کا ہو چکا ہے۔