آخر کیسے پتہ چلتا ہے کہ آج اتوار ہے اور چھٹی ہے۔ اسکول بسوں کی آوازیں نہیں ہوتیں۔ صبح سے ڈور بیل بار بار نہیں بجتی۔کوئ خواب درمیان سے نہیں ٹوٹتا۔ لیکن ایک اہم علامت بچپن سے اس دن کے اخبار سے پتہ چلتی تھی۔ جس میں میگزین ہوتا تھا۔ جو صبح پہلے جاگتا تھا اخبار سب سے پہلے اسکے حصے میں آجاتا تھا۔ شاید میری سحر خیزی کی عادت میں یہ چیز بھی شامل ہو۔ میں سب سے پہلے اخبار پڑھ کرختم کرنا چاہتی تھی۔ اب تو اخبار والا اتنی دیر سے اخبار دیکر جاتا ہے کہ میں انٹر نیٹ پہ ایک تفصیلی چکر لگا لیتی ہوں۔
اس اتوار کو ہم سب نے اس تجویز پہ غور کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ اخبارات کو بند کر دیا جائے۔ ہمارے ہر روز آنیوالے اخبارات کی تعداد اب سے کچھ عرصے پہلے تک تین اخباراورچھٹی والے دن کو خاص رعایت دیتے ہوئے دو انگریزی کے اور دو اردو کے اخبار تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اتنے چینل آتے ہیں پل پل کی خبر تو ان سے ہی مل جاتی ہے۔تو روز کا ایک اخبار مقرر ہوا اور چھٹی والے دن تین۔
لیکن اب کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اخبار کی چھٹی کر دینی چاہئیے کیونکہ جب ہر کسی کہ پاس اسکا اپنا کمپیوٹر ہے اور وہ الیکٹرونک اخبار پڑھ سکتا ہے تو اسکی کیا ضرورت ہے۔ میں اس تجویز کے حامیوں میں سے نہیں ہوں۔ اس طرح سے اس معاملے میں انتہائ قدامت پسند ہوں۔
میرا موقف یہ ہے کہ اخبار اپنی جسمانی حیثیت میں جب موجود ہوتا ہے تو ایک اخلاقی دباءو رہتا ہے کہ ایک نظر ہی سہی پڑھ لینا چاہئیے۔ دوسرا یہ کہ دن میں کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پڑھ سکتے ہیں حتی کہ کسی قطار میں انتظار کرتے ہوئے یا چلتی گاڑی میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور تھک جائیں تو تکئے کے نیچے دبا کر وہیں کچھ دیر کے لئے آنکھین موند لیں۔ گرمی ہو تو ہلا کر پنکھا بنا لیں، برسات میں مکھیاں اڑا لیں، کسی بات پہ سب سے چھپ کر مسکرانا ہو تو اخبار منہ کے آگے کر لیں، اور کچھ نہیں تو کباڑئے سے ہر مہینے الجھنے کا آسان بہانہ، ماچس ختم ہو گئ تو ایک چولہے سے دوسرے تک آگ لیجانے کا آسان طریقہ، کسی کو پیار سے چپت لگا نے کا دل ہو لیکن محرمیت آڑے آتی ہو تو اخبار سے جھاڑ دیں، کیا یہ رومانیت الیکٹرنک اخبار کیساتھ میسر ہے؟
میرا موقف یہ ہے کہ اخبار اپنی جسمانی حیثیت میں جب موجود ہوتا ہے تو ایک اخلاقی دباءو رہتا ہے کہ ایک نظر ہی سہی پڑھ لینا چاہئیے۔ دوسرا یہ کہ دن میں کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پڑھ سکتے ہیں حتی کہ کسی قطار میں انتظار کرتے ہوئے یا چلتی گاڑی میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور تھک جائیں تو تکئے کے نیچے دبا کر وہیں کچھ دیر کے لئے آنکھین موند لیں۔ گرمی ہو تو ہلا کر پنکھا بنا لیں، برسات میں مکھیاں اڑا لیں، کسی بات پہ سب سے چھپ کر مسکرانا ہو تو اخبار منہ کے آگے کر لیں، اور کچھ نہیں تو کباڑئے سے ہر مہینے الجھنے کا آسان بہانہ، ماچس ختم ہو گئ تو ایک چولہے سے دوسرے تک آگ لیجانے کا آسان طریقہ، کسی کو پیار سے چپت لگا نے کا دل ہو لیکن محرمیت آڑے آتی ہو تو اخبار سے جھاڑ دیں، کیا یہ رومانیت الیکٹرنک اخبار کیساتھ میسر ہے؟
کچھ انہی وجوہات کی بناء پہ مجھے ڈیجیٹل کیمرے انتہائ ناپسند ہیں۔ پہلے کیمروں میں رول ہوا کرتے تھے۔ ایک اخلاقی دباءو رہتا تھا کہ انکو ڈیویلپ کروا لیا جائے ورنہ خراب ہو جائیں گے۔ پھر انکو البم میں سجایا جاتا اور پھر سب لوگوں کو یہ دکھائے جاتے اور ان پہ سیر حاصل گفگتو ہوتی۔ ہائے کیا زمانہ تھا۔ کسی کی تصویر پسند آئ تو اڑالی اور پھر مدتوں پہلو میں دبا کر دیکھتے رہنا اور ان سے باتیں کرنا ۔اسی لئے تو یہ گانا بنا کہ جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں۔ تصویر میں نہیں۔
اب ڈیجیٹل کیمرے کی وجہ سے تصویریں کمپیوٹر میں ہی پڑی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت میرے پاس پانچ سو کے قریب تصاویر ہیں جنکے بارے میں ہر تھوڑے دن بعد سوچتی ہوں کہ ان کو بیٹھ کر چھانوں اور کسی چیز میں محفوظ کر کے تصاویر نکلوا لوں۔ تاکہ کسی البم میں سج جائیں لیکن وہی بات آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
ان تصویروں کی تعداد بڑھے چلی جارہی ہے۔ اور یقیناً کچھ عرصے بعد انکو بنوانا جیب پہ خاصہ بھاری پڑیگا۔ لیکن ایک عجیب نا مکمل سا اطمینان رہتا ہے کہ کمپیوٹر میں تو ہیں۔ جب چاہیں گے جا کر بنوا لیں گے۔
سوچتی ہوں خدانخواستہ اگر کسی وجہ سے یہ دنیا اس وقت کسی بھی وجہ سے ایکدم ختم ہو جائے تو بچ رہنے والے اس حساب سے کتنے غریب ہونگے انکے پاس کچھ بھی نہ ہوگا جس سے وہ اپنا ماضی دوبارہ نکال سکیں۔ جیسے اجنتا کے غار اور الف لیلی کی کہانیاں۔
اجنتا کے غاروں میں زمانہ قبل از مسیح کی بنی ہوئ یہ تصویر، اب تک موجود ہے)۔)
آج پھر رشک والا دن ہے!۔۔۔
ReplyDeleteدوبارہ سوچئے کیا آپ واقعی قدامت پسند ہیں کیونکہ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے اور اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس سے جان چھڑانا ناممکن ہو چکا ہے۔
ReplyDeleteکیا خوبصورت ہے۔۔ نامعلوم کیوں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یہ سوچ رہا تھا کہ اگر تین دن پاور نا ملے تو سب کچھ ختم میرا خیال ہے کسی غار میں جا کر کچھ لکھ دینا چاہیے۔۔ ویسے سنا ہے فکر مند لوگوں نے تو ٹائم کیپسول دبا رکھے ہیں۔
ReplyDeleteکیا خیالات کی بھی کوئی وبا ہوتی ہے؟؟؟؟
ReplyDeleteماموں
ReplyDeleteاس کا مطلب ہوا کے اگر سب ختم ہو گیا تو اپ کا بلاگ کسی غار کی دیوار پر ہو گا
ان تصويروں کو فورا سے پہلے کہيں اور بھی محفوظ کر ليں بچوں کی پہلے دو سال کی تصويريں بمعہ خاص مواقع کے ساری اڑنے کا تجربہ ہميں ہو چکا ہے بس ايک غلط کلک سے
ReplyDeleteجعفر، شکر کے بحران کی وجہ سے میں آپکے اس تبصرے کو اسطرح پڑھتی ہون۔ آج پھر شکر کا دن ہے۔
ReplyDeleteمیرا پاکستان میں نے دوبارہ سوچا اور نتیجہ وہی نکلا۔ ٹیکنالوجی جتنی ترقی کر لے بنیادی انسانی جذبات تو وہی رہیں گے۔
راشد کامران صاحب ٹائم کیپسول، کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ لیکن ایک فلم کابنانے کا خیال ضرور آگیا ہے۔ جس میں یہ ہوگا کہ دنیا کے مکم ل طور پہ ختم ہوجانے کے بعد ہزارون سال بعد کسی انسانی ڈی این اے میں کسی تحریک کی وجہ سے انسان دوباری جنم لیگا۔ اور جب وہ کھدائیاں کرے گا اور کمپیوٹر کے ڈھانچے پاءے گا تو انکے متعلق کیا خیال کرےگا۔ مگر ایسا ہے کہ فلم بانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اس لءے میں فی الحال اسی صدی میں دنیا تیاگ جاءونگی۔
عبداللہ، آپکی یہ اصطلاح، خیالات کی وبا مجھے بہت پسند آئ۔ خیالات کی ایسی ہی وباءوون سے انقلاب جنم لیتے ہیں۔ ویسے وبا میں خاتمہ بالخیر بھی ہوجاتا ہے اور نجانے کیوں مجھے وہ ناول یاد آرہا ہے۔ لو ان کالرا۔ جسکا ترجمہ ہے وبائے مرگ میں محبت۔
ماموں، آہ خواہش ہے کہ کچھ ایسا لکھوں جو دل پہ نقش ہو جائے میرے نہیں اورون کے۔ مگر وقت بہت ظالم چیز ہے۔ میرے قریب تو کہیں کوئ غآر نہین جہاں کچھ لکھ دوں۔
اسماء، میں نے خاصی تصویریں تو پکاسا ویب البم پہ ڈالدی ہیں۔ ایک میری بہن صاحبہ کو تصویریں اپنے پاس جمع کرنے کا بہت شوق ہے تو اگر ایک غلط کلک ہو گئ تو امید ہے کہ انکا کمپیوٹر کام کریگا۔ اگر مرفی کے قانون نے ہاتھ نہ ڈالا تو۔ ویسے مشورہ آپکا بھی دانشمندی کا تقاضہ ہے۔
میں ٓپ سے متفق ہوں اخبار کا اپنا ایک ماحول مزاج اور نشہ ہے جیو والا لاکھ بریکنگ نیوز دے لے جو مزہ کوءی خبر اخبار میں پڑھنے کا مزہ ہے وہ جیو یا کسی نیوز چینل میں نہیں۔
ReplyDeleteبچپن میں بڑی باقاعدگی سے اخبار پڑھی ہے صبح کے اخبار کی خوشبو ٓج بھی میرے دماغ میں رچی بسی ہے۔
آپکے حکم کے مطابق شاءیستہ کا مظاہرہ کیا ہے پتا نہیں آپکو پسند آتا ہے کہ نہیں ۔کامران اصغر کامی بکیبورڈ خود
کامی آپ نے سنا ہوگا کہ جو دبتا ہے اسکو دباتی ہے دنیا۔ بس جوبیچارے شاءستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہی اسے پڑھ کر مزید شائستہ ہونے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح سے دو پول بن جائیں گے ایک بہت شائستہ اور دوسرے بہت ناشائستہ۔ اگرچہ سائنس کہتی ہے کہ ایسا نظام قدرے غیر مستحکم ہوگا لیکنتاریخ کہتی ہے کہ اس طرح سے زیادہ استحکام حاصل ہوگا۔ دیکھیں کس کی بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔
ReplyDeleteفی الحال آپکو شائستگی کا مظاہرہ کرنے پہ دس میں سے نو نمبر دئیے جاتے ہیں۔ ایک نمبر کیوں کاٹا ہے یہ پوچھنے پہ بتاءونگی۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteواقعی جوکہ مزا اخبارپڑھنےمیں ہےوہ الیکٹرانک اخبارمیں نہیں آتا۔ میں بھی آپ کےساتھ پوری طرح متفق ہوں۔
والسلام
جاویداقبال
بتا دیں میں پہلے ہی کنفیوز سا بندہ ہوں میری کنفیوژن مزید بڑھ جاے گی میرے خیال میں شایستہ ٹھیک نہیں لکھا
ReplyDeleteکیا میل کے ذریعے میں کچھ پوچھ سکتا ہوں۔
۔ کامران اصغر کامی
کنفیوز کامی، اس وقت تو بھول گئ ہوں، کس لئے کاٹا تھا۔ یاد کر کے بتاءوونگی۔
ReplyDeleteمیل کے ذریعے آپ کچھ کیا بہت کچھ پوچھ سکتے ہیں۔ البتہ جواب میں اپنی پسند کا دونگی۔
اور یہ کس شائستہ کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک نہیں لکھا، وہ جو میں نے لکھا، یا وہ جو آپ نے لکھا۔
ہائے کیا زمانہ یاد کروا دیا
ReplyDeleteاخبار کے لیے صبح صبح اٹھنا
میرا تو روز کام ہوتا تھا کہ اخبار سب سے پہلے کوپو اور پزل والا صفحہ نکالو
جمعرات کو بچوں کے اخبار کے انتطار میں تو نیند ہی نہیں آتی تھی
اور جنگ والے اتنے ۔۔۔ تھے (بلکہ ہیں) کہ ان کو اشاعت خصوصی کے لیے جمعرات کا ہی دن ملتا تھا
بس میری جنگ گروپ کیلیے نفرت کی ایک بڑی وجہ یہی ہے
تحریر کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی
بے انتہا خوبصورت تحریر
چھپی تصاویر تک ہر کسی کی رسائی کہاں ہوسکتی تھی ؟
ReplyDeleteالبتہ پکاسا فوٹو ایلبم!
:)
اللہ بھلا کرے ان ڈیجیٹل کیمروں کا۔
:) :)