امتیاز خان کا تعارف مجھے ان تحریروں سے حاصل ہوا جو انہوں نے مجھے ازراہ مہربانی ای میل کیں۔ انکی سرگرمیاں دلچسپ ہیں کیونکہ وہ رپورٹنگ اور اسکے میڈیا کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ انکی یہ تحریر مجھے خاصی دلچسپ لگی۔ اگرچہ اسکے کچھ حصوں سے مجھے اختلاف ہے بہت سارے سوالات ہیں۔ آپ میں سے بیشتر علم رکھتے ہونگے کہ خواتین کو لاحق مسائل میری دلچسپی کا زیادہ عنصر ہیں۔ اس لئےآج میرے بلاگ پہ امتیاز خان کو پڑھیں۔ انکے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئیے دئے گئے لنک پہ جائیے۔
کشمیری لڑکی غیر روایتی میدانوں کی تلاش میں
فردوسہ(نام تبدیل کیا گیا ) سرینگر میں ایک دکان پہ بطور سیلز گرل کام کرتی ہے۔اس نے اپنے لیے یہ کام کیوں چن لیا‘اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں”میں یہ کام شوق سے نہیں کرتی ہوں۔میں بارہویں جماعت میں پڑھتی تھی لیکن حالات ہی ایسے پیدا ہوگئے کہ مجھے پڑھائی کو خیرباد کہنا پڑا۔باپ کی معمولی پنشن سے گھر کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتی ہیں اور میرا کوئی بھائی نہیں ہے ،چار چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں جن کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے میں پچھلے دس سال سے یہ کام کررہی ہوں“۔اسی طرح18 سالہ شنو بھی ایک دکان پر سیلز گرل کے طور پر تعینات ہے ۔شنو نے اپنے ایک الگ انداز میں کہا”بھائی یہ کوئی سیر سپاٹا نہیں ہے۔اگر عزت محفوظ ہے تب کام کرنے میں حرج ہی کیاہے“۔
وادی میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے نتیجے میں نوجوان لڑکیوں نے روزگار کمانے کیلئے مختلف نوعیت کے ایسے غیرروایتی کام کرنا شروع کئے ہیں جو ابھی تک مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے رہے ہیں۔ وادی میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور اس وقت اندازے کے مطابق پوسٹ گریجویٹ،گریجویٹ،میٹرک پاس،تربیت یافتہ انجینئر اور دیگر شعبہ جات میںتربیت حاصل کرنے کے بعد تین لاکھ کے قریب بے روزگار افراد روزگار کے متلاشی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عمر کی حدیں پار بھی کرگئے ہیں ۔اِن تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بے روزگاروں میں ہزاروں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
وادی میں ایسی سینکڑوں بے روزگار پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھروں میں والدین کا واحد سہارا ہیں ۔معاشی اور معاشرتی مجبوریوں کے سبب یہ لڑ کیاں روز گار کے حصول کے لیے نئی راہوں کی تلاش میں چل پڑی ہیں۔سرینگر کے ایک پٹرول پمپ پہ ایسی ہی کچھ لڑکیاں اب گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل ڈالنے سے لیکر روپے وصول کرنے اور حساب وکتاب رکھنے کے جیسے کام پر مامور ہیں، حالانکہ اس سے قبل وادی میں کبھی بھی خواتین پٹرول پمپوں پہ کام نہیں کرتی تھیں۔
کشمیر یونیورسٹی سے فارغ اردو کی ایک طالبہ عاصمہ اس ضمن میں کہتی ہیں” حکومت کے پاس نوجوانوں کی معاشی بحالی کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے۔اگر ملازمتیں نہیں ہیں تو صنعت اور تجارت بھی کہاں ہے؟یہی حالات لڑکیوں کو غیر روایتی میدونوں کی طرف دھکیل رہے ہیں“۔
یہ حالات کیوں کر پیدا ہوئے ‘یہی سوال ہم نے ماہرِ سماجیات ڈاکٹر خورشیدالاسلام سے پوچھا تو انہوں نے کہا ”مغربی افکار اورمیڈیا کے زیرِ اثر ہماری نئی پوداور خصوصاًخواتین کی سوچ ناقابلِ یقین حد تک متاثر ہورہی ہے،سماجی اور تہذیبی اقدارتبدیل ہورہی ہیں،مادیت رگ رگ میں سرایت کررہی ہے،اور مادی دوڑ نوجوانوں کو کچھ بھی کرنے پر اُکسارہی ہے“۔ایک مقامی صحافی اور تجزیہ نگار اشفاق ملک اسی تناظر میں کہتے ہیں ”جدید طرز معاشرت،اور معاشی مجبوریاں آگے چل کر بنت حوا کو کہاں کہاں لے چلیں گی،شاید آج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا،لیکن عورتوں کی نسوانیت اور نسوانی تقاضوں کو ملحوظ اور محفوظ رکھنے کے لیے معاشرے پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے ۔ لڑکیاں معاشی اور سماجی مجبوریوں کے باعث ان غیر روایتی میدانوں میں قدم رکھنے پر مجبور ہیں۔سماج اپنے کمزور طبقوں کی حالت زار سے لاتعلق ہے،لیکن جب کوئی مجبور لڑکی اس طرح کا کام کرکے اپنی اور اپنے لواحقین کی روزی روٹی کا انتظام کرتی ہے تو سماج تلملا اٹھتا ہے‘جسکا کوئی جواز نہیں ہے“۔
لیکن کیا غیر روایتی میدانوں میں لڑکیوں کی موجودگی کو یہ معاشرہ برداشت کرے گا‘ اس بارے میں ایک مقامی کالج کی خاتون پروفیسر نے کہا”برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ابتدا میں تحفظات ہوتے ہیں،لیکن آہستہ آہستہ یہ تحفظات دور ہو جاتے ہیں۔شروع شروع میں تو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے۔آج ایسی کوئی بات نہیں ہے“۔
حوالہ؛
امتیاز خان اور انکی تحریر
وادی میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے نتیجے میں نوجوان لڑکیوں نے روزگار کمانے کیلئے مختلف نوعیت کے ایسے غیرروایتی کام کرنا شروع کئے ہیں جو ابھی تک مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے رہے ہیں۔ وادی میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور اس وقت اندازے کے مطابق پوسٹ گریجویٹ،گریجویٹ،میٹرک پاس،تربیت یافتہ انجینئر اور دیگر شعبہ جات میںتربیت حاصل کرنے کے بعد تین لاکھ کے قریب بے روزگار افراد روزگار کے متلاشی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عمر کی حدیں پار بھی کرگئے ہیں ۔اِن تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بے روزگاروں میں ہزاروں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
وادی میں ایسی سینکڑوں بے روزگار پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھروں میں والدین کا واحد سہارا ہیں ۔معاشی اور معاشرتی مجبوریوں کے سبب یہ لڑ کیاں روز گار کے حصول کے لیے نئی راہوں کی تلاش میں چل پڑی ہیں۔سرینگر کے ایک پٹرول پمپ پہ ایسی ہی کچھ لڑکیاں اب گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل ڈالنے سے لیکر روپے وصول کرنے اور حساب وکتاب رکھنے کے جیسے کام پر مامور ہیں، حالانکہ اس سے قبل وادی میں کبھی بھی خواتین پٹرول پمپوں پہ کام نہیں کرتی تھیں۔
کشمیر یونیورسٹی سے فارغ اردو کی ایک طالبہ عاصمہ اس ضمن میں کہتی ہیں” حکومت کے پاس نوجوانوں کی معاشی بحالی کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے۔اگر ملازمتیں نہیں ہیں تو صنعت اور تجارت بھی کہاں ہے؟یہی حالات لڑکیوں کو غیر روایتی میدونوں کی طرف دھکیل رہے ہیں“۔
یہ حالات کیوں کر پیدا ہوئے ‘یہی سوال ہم نے ماہرِ سماجیات ڈاکٹر خورشیدالاسلام سے پوچھا تو انہوں نے کہا ”مغربی افکار اورمیڈیا کے زیرِ اثر ہماری نئی پوداور خصوصاًخواتین کی سوچ ناقابلِ یقین حد تک متاثر ہورہی ہے،سماجی اور تہذیبی اقدارتبدیل ہورہی ہیں،مادیت رگ رگ میں سرایت کررہی ہے،اور مادی دوڑ نوجوانوں کو کچھ بھی کرنے پر اُکسارہی ہے“۔ایک مقامی صحافی اور تجزیہ نگار اشفاق ملک اسی تناظر میں کہتے ہیں ”جدید طرز معاشرت،اور معاشی مجبوریاں آگے چل کر بنت حوا کو کہاں کہاں لے چلیں گی،شاید آج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا،لیکن عورتوں کی نسوانیت اور نسوانی تقاضوں کو ملحوظ اور محفوظ رکھنے کے لیے معاشرے پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے ۔ لڑکیاں معاشی اور سماجی مجبوریوں کے باعث ان غیر روایتی میدانوں میں قدم رکھنے پر مجبور ہیں۔سماج اپنے کمزور طبقوں کی حالت زار سے لاتعلق ہے،لیکن جب کوئی مجبور لڑکی اس طرح کا کام کرکے اپنی اور اپنے لواحقین کی روزی روٹی کا انتظام کرتی ہے تو سماج تلملا اٹھتا ہے‘جسکا کوئی جواز نہیں ہے“۔
لیکن کیا غیر روایتی میدانوں میں لڑکیوں کی موجودگی کو یہ معاشرہ برداشت کرے گا‘ اس بارے میں ایک مقامی کالج کی خاتون پروفیسر نے کہا”برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ابتدا میں تحفظات ہوتے ہیں،لیکن آہستہ آہستہ یہ تحفظات دور ہو جاتے ہیں۔شروع شروع میں تو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے۔آج ایسی کوئی بات نہیں ہے“۔
حوالہ؛
امتیاز خان اور انکی تحریر
جی میں جناب سعید پالن پوری صاحب سے اتفاق کرتا ہوں،
ReplyDeleteاللہ نے آدم اور حوادونوں کی تخلیق کا ارادہ فرمایا مگر آدم کو پہلے اور حوا کو بعد میں کیوں بنایا؟دونوں کو ایک ساتھ کیوں نہ بنایا؟
میری ناقص رائے میں اللہ پاک حضرت آدم کے دل میں اماں حوا کی قدر پیدا کرنا چاہتے تھے اس لیئے جب جنت کی بے شمار نعمتوں کے باوجود انہیں ایک ہمساز و ہمراز کی ضرورت محسوس ہوئی تب انہیں بطور نعمت اماں حوا عطا کی گئیں،
اسی لیئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا کی نعمتوں میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے،
اب اگر اسلامی نقطئہ نگاہ سے دیکھا جائے تو عورت مرد کے لیئے اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور اسرائیلی نقطئہ نگاہ سے مرد کے دل بہلانے کی چیز،
غور کیجیئے زرا سا نظریہ بدلنے سے کتنا بڑا انقلاب آجاتا ہے!
یہ تبصرہ محب علوی کی پرانی پوسٹ "تحریک نسواں کی علمبردار خواتین کی خدمت میں" پر سعید پالن پوری صاحب کے تبصرے کی تائید میں لکھا تھا،
سوچا اسے یہاں بھی شیئر کرلوں تاکہ آپکی رائے بھی معلوم کی جائے
گوکہ یہ تبصرہ آپکی اس پوسٹ سے اتنا مطابقت تو نہیں رکھتاپھر بھی :)
مں تو اس چیز پہ نہیں یقین رکھتی کہ خدا نے عورت کو مرد کے لئیے تخلیق کیا۔ جس طرح ہر جنس کے اندر جوڑے بنائے گئے ہیں ویسے ہی انسان کا جوڑا بنایا گیا تاکہ وہ اپنی نسل کو پھیلائیں اور ایکدوسرے کی غمگساری کریں۔ ان میں سے کسی کو کسی کے لئیے نہیں تخلیق کیا گیا۔ اور اس بات پہ بحث کرنامحض مظاہر قدرت میں الجھنا ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نسل تو کسی ایک جنس کے بغیر بھی بڑھ سکتی تھی۔ تو ابھی میں جلدی میں ہوں، اگر آپ یہ سوال کریں گے تو میں بعد میں اپنے نکتے کی وضاحت کرونگی۔
ReplyDeleteہاں واقعی یہ بھی ایک سوال ہے ؟
ReplyDeleteکیونکہ اللہ کے لیئے کیا مشکل تھا کہ ایک صنف سے ہی نسل بڑھاتے رہتے پھر اس کی کیا ضرورت تھی کہ ہر جاندار کے جوڑے پیدا کیئے جائے جبکہ ہمیں ایسے جاندار بھی نطر آتے ہیں جو ہومو سیکشوئل ہوتے ہیں؟
کچھ آئیڈیا تو ہے مگر آپکے جواب میں ذیادہ دلچسپی ہے:)
عبداللہ، دیر سے جواب دینے کے لئے معذرت۔ مجھے نجانے کیوں یہ گمان تھا کہ میں اسکا جواب دے چکی۔
ReplyDeleteحیاتیات کی دنیا میں تمام نباتات اور جنور بنیادی طور پہ دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک ادنی اور دوسرے اعلی۔ اسکا انحصار انکی ساخت اور طرز حیات پہ ہوتاہے۔
اعلی درجے کی حیات میں اپنی نسل آگے بڑھانے کے لئے نجنسی طریقہ استعمال ہوتا ہے اور جو ادنی حیات ہوتی ہے وہ غیر جنسی طریقے سے بھی اپنی نسل بڑھا سکتی ہے جیسے امیبا۔
جنسی طریقہ سے نسل بڑھانا ایک زیادہ مستحکم طریقہ ہے۔ اسکے نتیجے میں وجود میں آنیوالی نسل کے بقاء کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور اس میں وہ کمزوریاں نہیں پیدا ہوتیں جو غیر جنسی طریقہ ء افزائش میں ہوتی ہیں۔
جنسی طریقہ ء افزائش کے لئے دو جنسوں کا ہونا ضروری ہے۔ جس میں سے ایک کو مادہ کا نام دیا جاتا ہے اور دوسرے کو نر کا۔ تو اس طرح سے تمام اعلی حیات کے اندر دو مختلف جنس پائ جاتی ہیں۔ نر اور مادہ۔
انسان بھی اس سلسلے میں کسی اثتشناء کا حامل نہیں۔ خدا نے اسکا بھی زوج بنایا ہے تاکہ نسل انسانی زیادہ بہتر طریقے سے اپنی نسل کی بقاء کے لئے کام کرے۔ اب جبکہ کبھی یہ نہیں سنا کہ شیرنی کو شیر کی دل کی راحت کے لئیے پیدا کیا گیا یا بندریا ، ایک بندر کے لئے نعمت ہے تو انسان کی صورت میں اس طرح کی توجیہات کیوں لائ جاتی ہیں۔
زرا بھی عقل سے کام لیں تو یہ کافی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ پہلے آدم کو پیدا کیا گیا اور پھر چونکہ انکا دل نہیں لگا تو عورت کو پیدا کر دیا گیا۔تاکہ انہیں ایک ساتھی مل جائے۔ اس توجیہہ کی قرآن سے بھی کہیں تصدیق نہیں ہوتی۔ کیا خدا ایسی عقل رکھتا ہے کہ باقی تمام جانوروں کے لئے تو انکے زوج بنائے مگر انسان کا نہ بنائے۔ صرف ایک انسان پیدا کرنا تو مقصود نہ تھا۔ یہ تو خدا کی منصوبہ بندی کا حصہ ہوگا۔ ایکدم آدم کی فرمائش پہ تو یہ پروگرام وجود میں نہ آیا ہوگا۔
کائنات کی تخلیق کے بہت سارے نظریات ہیں۔ لیکن اب تک کے مشاہدے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس کائنات میں ایک ترتیب اور توازن ہے۔ یہی ترتیب اور توازن ہمیں خدا کے وجود کے احساس کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایسی باتوں پہ یقین کرنے لگیں تو یہ چیز ہمیں کسی خدا کی طرف نہیں لیجاتی۔ یقین نہ ہو تو خود سے سوال کرنا شروع کر دیں۔ اور جب ایسے جواب آنا شروع ہونگے تو آپکو حیرانی ہوگی کہ خدا کا وجود آخر کس لئے ہے۔ کیا وہ اس کارخانہ ء قدرت میں صرف نر انسانوں کا تحفظ اور بقاء چاہتا ہے۔
معاشرے کو متوازن حالت میں رکھنے کے لئیے کچھ اصول اور ضوابط مقرر کئے گئے جنکو بڑھا چڑھا کر مسخ کر دیا گیا ۔
Subhan Allah or jazak Allah:)
ReplyDeleteیہ بات کافی مزے کی ہے تاہم ہر اعلٰی جانور میں بھی نر اور مادہ کی لازمی ضرورت نہیں ہوتی۔ کچھ ہفتے قبل بی بی سی کی اردو سائٹ پر ایک مضمون دیکھا تھا کہ ایک شارک جو بہت سالوں سے اکیلی رکھی گئی تھی، کے ہاں بچی شارک پیدا ہوئی۔ اے آئی یعنی آرٹیفشل انسیمی نیشن کے امکان کو ختم کرنے کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تو یہ بات کنفرم ہوئی کہ اس بچی شارک کی پیدائش میں نر شارک کا کوئی عمل دخل نہیں۔ تاہم یہ محض ایک ایکسیپشن بھی ہو سکتی ہے، لیکن اسے اصول نہیں کہہ سکتے
ReplyDelete