Wednesday, March 10, 2010

اختلاف نظر

اس اتوار کو 'ڈان' اخبار میں دو ملتے جلتے مضامین آئے۔ ملتے جلتے اس لئے کہ دونوں میں پاکستانی سیاست کے رجحانات پہ ایک جیسے حوالے سے بات کی گئ ہے۔
 پہلا مضمون ھما یوسف نے لکھا ہے جو کہ ایڈیٹوریل صفحے پہ موجود ہے۔ جہاں ایک طرف انکا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم کو شدت سے ایک ہیرو کی ضروورت ہے وہاں انہوں نے بلوچستان کی مائ جوری کی مثال دیتے ہوئے انہیں پاکستانی سیاست مین تبدیلی کی نشانی قرار دیا ،  انکا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اب یہ تبدیلی آرہی ہے کہ لوگ مسائل کو لیکر چلنے والی سیاست کی طرف جا رہے ہیں۔
 اس سلسلے میں مجھے اس وقت مایوسی ہوئ جب انہوں نے مسلم  لیگ نون، جماعت اسلامی اور عمران خان کی سیاست کو مسائل کو سامنے والی سیاست میں شامل کیا۔ دوسری طرف انہیں لگا کہ ایم کیو ایم نے پچھلے چند مہینوں میں یہی پالسی اپنائ ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقون سے ایم کیو ایم ملک کے دہگر حصوں کی طرف متوجہ ہوئ ہے۔
مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف انکے کریڈٹ پہ عدلیہ کی جنگ ڈال دینا اور اسے ایشو بیسڈ سیاست کی طرف جانیوالا قدم قرار دینا کہاں تک صحیح ہے۔ اس طرح تو بھٹو کے دور میں اسلامی حکومت کا نفاذ اس وقت کی حزب اختلاف کا نعرہ بن گیا تھا جو جنرل ضیا الحق کی حکومت کی شکل میں منتج ہوا۔ اگر اسے معیار بنا لیا جائے تو تو پاکستان میں ہمیشہ ایشو بیسڈ سیاست ہوئ ہے یہ الگ بات کہ یہ وہ ایشوز ہوتے ہیں جو ان سیاسی جماعتوں کو وقتی طور پہ سہارا دے رہے ہوتے ہیں۔
جہاں تک ایم کیو ایم کی پالیسی تبدیلی کا تعلق ہے ایم کیو ایم اسکی کوششیں پچھلے کافی سالوں سے کر رہی ہے۔ اور وہ اس سلسلے میں مختلف مواقع پہ کام کرتے رہے ہیں یہ دراصل پچھلے چند مہینوں کا کام نہیں ہے اسی وجہ سے سے کئ سال پہلے ایم کیو ایم نے اپنا نام مہاجر قومی مومنٹ کے بجائے متحدہ قومی مومنٹ رکھ لیا تھا۔
انکی ایک بات سے ہر پاکستانی اتفاق کریگا کہ فاٹا کہ علاقے میں سیاسی لیڈران کو کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے روائتی نظام سے نکل کر قومی دھارے میں آ سکیں اور اسکے لئے وہاں تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 
دوسرا مضمون ندیم ایف پراچہ کا ہے جس میں انہوں نے پنڈی کے حلقہ پچپن کے نتائج سے اس روئیے کو اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔  ان میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں میں، مسلم لیگ نون اور شیخ رشید کی عوامی لیگ دونوں ہی دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ انکے مقابل جماعت اسلامی اور تحریک انصاف وہ جماعتیں ہیں جو امریکہ کے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے خلاف اور مشتبہ غیر ملکی سیکیوریٹی ایجنسیز کے افراد کی پاکستان کی موجودگی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان الیکشنز میں سیاسی وجوہات کی بناء پہ حصہ نہیں لیا۔
 ان الیکشنز میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں کو شکست ہوئ۔ پراچہ صاحب کے خیال میں جماعت اسلامی اپنے طور پہ کبھی بھی دو سے تین فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکی۔ انکی پالیسی مجموعہ ہے اسلامی راسخ العقیدہ نظریات، امریکہ کے خلاف ہونا اور طالبان کا حامی ہونا۔
 انکے کہنے کے مطابق اگرچہ پاکستانی ووٹرز کے نزدیک  جماعتوں کے نظریات اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہ بات با بار مشاہدے میں آچکی ہے کہ وہ ایسے امیدوار چاہتے ہیں جو بے روزگاری، جرائم، ہنگامہ آرائ اور ملکی ترقی جیسے معاملات کو حل کرنے کی طرف بھی توجہ دینا چاہتے ہیں۔
انکے خیال میں وہ جماعتیں جو اس طرف توجہ دے رہی ہیں وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم اور اے این پی ہیں۔
جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اس سلسلے میں ناکام رہی ہیں۔
ایک مزے کی بات جو پراچہ صاحب کہتے ہیں  وہ یہ کہ ایک سیاستدانوں کی کرپشن، عدلیہ کی آزادی اور طالبان کے خلاف جاری جنگ پہ ٹی وی کے اینکر پرسن زیادہ اچھی طرح بول سکتے ہیں مگر کیا وہ ان بنیادوں پہ الیکشن جیت سکتے ہیں۔
 دیکھا آپ نے دو مختلف افراد ایک ہی موضوع پہ بات کرتے ہیں مگر ایک کو جو جماعت ایک چیز کرتی نظر آرہی ہے دوسرے کو وہی جماعت وہی چیز کرتی نہیں نظر آ رہی۔
تمہی کچھ بتلاءو اسکو کیا کہتے ہیں؟

 حوالہ؛

16 comments:

  1. اول تو وہ جنہیں آپ سمجھانا چاہتی ہیں وہ ڈان نہیں پڑھتے کچھ اور پڑھتے ہیں ، دوسرا اس سوال کا جواب سوچ کر وہ اپنے آپ کو سوچنے کی زحمت نہیں دینا چاہتے آخری یہ انہیں خوب معلوم ہے آپ انہیں سوچنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں ۔
    ُSince politics is not my cup of tea i can only say Farooq F Paracha is an interesting guy

    ReplyDelete
  2. ڈفر، جواب درست ہے۔ ایک لاکھ پواءنت جیتنے پہ اس بلاک کی انتظامیہ آپکو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہے۔
    :)
    محمد ریاض شاہد صاحب،
    وہ اپنی خو نہ بدلیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔ اس لئیے تو یہ لکھا کہ وہ ڈان نہیں پڑھتے ہیں۔ لوگوں کو خبر رکھنی چاہئیے کہ ملک کے دیگر لوگ کیا سوچتے ہیں۔ آخر کب تک بالائ چاٹ کر گذارا کریں گے۔
    اسکے باوجود کہ میں نے سیاست سے منہ نہیں موڑا ہوا، اسکی وجہ یہ ہے کہ ساس بھی کبھی بہو تھی دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ ندیم ایف پراچہ مجھے بھی ایک دلچسپ شخصیت لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

    ReplyDelete
  3. میری ناقص رائے میں۔۔ اورناقص ہی ہے اس لیے زور نہیں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی اور کسی حد تک ایم کیو ایم کو ہٹا کر سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر ایشوز کی بنیاد پر سیاست اور جمہوریت نہیں ہے اور معزز لکھاری ملکی سطح پر ان پارٹیوں سے ایشوز کی سیاست کی باتیں کررہے ہیں۔ ایشوز کی سیاست کیونکر ممکن ہے جب پی پی کا سربراہ بھٹو ہونا لازمی ہے، عمران خان کے بغیر تحریک انصاف ایک پھس غبارہ ہے اور شریفین پی ایم ایل کے تاحیات گدی نشین اور الطاف حسین کے بعد ایم کیو ایم میں جانشینی کے معاملے پر ایک ہلا ہونا ہی ہونا ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ کالمز محض پسند و ناپسند یا انگریزی میں
    {Favouritism}
    کی نمائندگی زیادہ کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. they say third time is the charm, we will find out soon.

    ReplyDelete
  5. پاکستان کی سیاسی جماعتیں کوئی واضح سوچ نہ خود رکھتی ہیں نہ ہی عوام کو دکھا سکتی ہیں۔ ان کے پاس نہ لائحہ عمل ہوتا ہے نہ کوئی پلان۔ بس فی الوقت جو ایشو چل رہے ہوں ان پر بیان بازیوں کی حد تک ہی سیاست محدود ہے۔

    میں یہ کہونگا کہ ایم کیو ایم کے پاس بھی کوئی نظریہ یا منصوبہ نہیں اور وہ اپنی روایتی امیج سے اگر چھٹکارا پالیں گے تو ان میں اور پیپلز پارٹی میں کیا فرق رہ جائیگا؟

    ReplyDelete
  6. کچھ اس سے ملتی جلتی پوسٹ ریاض شاہد صاحب نے بھی تحریر کی ہے،اوراس کا آخری پیراگراف تو بہت ہی ذبردست ہے!
    جب صدیوں تک معاشرہ زمین کو کائنات کا مرکز سمجھتا رہا تو اس نظریے سے اختلاف کرنے والوں کو سزاوں سے نوازا گیا ۔ مگر جس دن اپنے زاویہ نظر سے رجوع کر کے کوپر نیکس کے نظریے کو مان لیا گیا تو حضرت انسان پر اس کائنات کے اندر نئی حیرتوں کے باب وا ہوتے چلے گئے ۔ آج تاریخ کی کتب میں شاید ان پادریوں کے نام تک محفوظ نہ ہوں جنہوں نے گیلیلیو کو سزا سنائی تھی مگر گیلیو کا نام آج بھی زندہ ہے ۔
    http://jaridah.wordpress.com/2010/03/12/%d8%b2%d8%a7%d9%88%db%8c%db%81-%d9%86%d8%b8%d8%b1/

    ReplyDelete
  7. راشد آپکو ایسا کیوں لگتا ہے کہ الطاف حسین کی جانشینی پر کوئی ہنگامہ ضرور ہوگا،اگر آج تک اس بات پر ہنگامہ نہیں ہوا کہ کون کہاں سے اور کس سیٹ کے لیئے کھڑا ہوگااور کس کو کیا ذمہ داری سونپی جائے گی تو آگے بھی ایسا کچھ نہ ہوگا متحدہ میں رابطہ کمیٹی فیصلے کرتی ہے اور اس پر الطاف حسین صرف مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں سو آگے بھی رابطہ کمیٹی ہی فیصلے کرے گی!
    رہی نعمان کی بات کہ ایم کیو ایم کے پاس کوئی نطریہ یا منصوبہ نہیں ہے تو پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا سب سے بڑا نظریہ ہے دوسرے کیا آپنے انکا منشور پڑھا ہے اگر پڑھا ہوتا تو آپ ایسی بات نہ لکھتے،
    اور ابھی جو نیا بلدیاتی نطام ایم کیو ایم نے تیار کیا ہے اور جس پر وہ تمام صوبوں سے مشاورت بھی کررہی ہے یا آئینی کمیٹی میں دیگر جماعتوں کے ساتھ اس کا موجود ہونا اور اہم اشوز پر اختلاف رائے ظاہر کرنا آپ کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے!
    باقی بات لوگوں کے نا ماننے کی ہے تو مینے اپنے پنجابی دوستوں سے یہی سوال کیا تھا کہ جب ہر بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ کس طرح ایجینسیوں نے ایم کیو ایم کو عتاب کا نشانہ بنائے رکھا اور جھوٹے پروپگینڈے کے ذریعے اسے غداراور فاشسٹ تنظیم ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے پھر بھی پنجاب کے لوگ نہ برا بھلا کہا کرتے ہیں تو انکا جواب تھا ہم اری بھی مجبوری ہے ایک تو ہمارابرادری کا نظام اور دوسرے یہ کہ ہم دوسری سیاسی جماعتوں پر تو کرپشن اقربا پروری کے الزامات لگاتے ہیں،
    ایم کیو ایم میں یہ سب نہیں ہے تو اب اگرایم کیو ایم پر یہ الزام نہ لگائیں تو پھر کونسا الزام لگائیں؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  8. تصحیح،
    پنجاب کے لوگ انہیں برا بھلا کہا کرتے ہیں

    ReplyDelete
  9. Bt, I am interested in, what you say.
    عبداللہ، اگر میری غیر جانبدار رائے لیں تو میں بھی یہی سوچتی ہوں کہ ایسا ہوگا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ متبادل لیڈران تیار کرنے کے بجائے کسی ایک کو فوکس کر لیا جاتا ہے۔ جہاں وراثتی سیاست چل رہی ہے وہاں تو جھوٹا وصیت نامہ بھی چل جاتا ہے۔ سارے فیوڈلز کے مفادات بھی ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن اایک شہری تنظیم کے لئیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اسکے پاس ایک واضح طرقہ ء کار موجود ہو کہ ایمرجنسی کی صورت میں کیا ہوگا۔ جیسے رابطہ کمیٹی کے ارکان چننے کا واضح اور سیٹ طریقہ ہونا چاہئیے۔ شخصیات کے بجائے اداروں کو مضبوط کرنا چاہئیے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد عدم استحکام کی ایک وجہ محض قائد اعظم کو ہر بات کا محور بنا لینا بھی تھا۔ جب وہ نہ رہے تو سب ختم ہو گیا۔ اور لوگوں نے کف افسوس ملا کہ اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ جناح مرنےوالے ہیں تو پاکستان نہ بنتا۔
    نومان، میرے خیال میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں پھر بھی فرق رہیگا ایک فیوڈلز کی جماعت ہے اور دوسری نہیںہے۔

    ReplyDelete
  10. جی انیقہ یہاں میں آپ سے کلی طور پر متفق ہوں،رابطہ کمیٹی کے ارکان کو چننے کا ایک واضح طریقہ کار ہونا چاہیئے،ویسے رابطہ کمیٹی میں شائد ان لوگوں کو لیا جاتا ہے جو ایک لمبے عرصے سے ایم کیو ایم میں ہوں اور عوام کے لیئے کام کررہے ہوں اس کی حالیہ مثال کراچی اور حیدرآباد کے ناظم اور نائب ناظم کا رابطہ کمیٹی میں شامل ہونا ہے، امیدہے کہ متحدہ نے بھی اس مسئلہ پر غور ضرور کیا ہوگا کہ پارٹی میں لیڈر شہ کا فقدان نہیں ہونا چاہیئے!
    میں اس بارے میں کوئی واضح جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کیونکہ میں آپکی طرح محض انکاایک ہمدرد ہوں کارکن نہیں:)

    ReplyDelete
  11. تصحیح،
    لیڈر شپ کا فقدان نہیں ہونا چاہیئے!

    ReplyDelete
  12. حامد میر ایک الگ کہانی سنا رہے ہیں،کہ کراچی ایک سابقہ وزیراعلی سندھ اے این پی کی کراچی کی قیادت کو چڑھا رہے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی شروع کرے اور وہ انکا ساتھ دیں گے
    تاکہ کراچی میں لوگوں کا خون بہا کر حکومت تبدیل کی جاسکے!
    اب سوال یہ کہ یہ سابقہ وزیر اعلی سندھ ہیں کون؟

    ReplyDelete
  13. سابقہ وزیر اعلی کون ہونگے۔ غوث علی شاہ، انہی کے دور میں ظلم و ستم کی کہانیاں رقم ہوئیں تھیں۔ اور جن پہ عمل نہیں ہوسکا ہوگا وہ اب کرنا چاہ رہے ہونگے۔ اس وقت بھی انہوں نے پٹھانوں کا چڑحاوا دیا تھا۔ اب بھی دے لیں گے۔ لیکن میرے خایل سے اے این پی نے بھی کچھ سیکھا ہی ہوگا۔ اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ پٹھان امن اور سکون سے شہر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں تو انہیں ان بیمار عناصر کی سیاست سے باہر آنا ہوگا۔
    صرف امن ہی معاشی ترقی کا ضامن ہو سکتاہے چاہے وہ کسی بھی کمیونٹی سے ہو۔

    ReplyDelete
  14. لگتا ہے آپ نے صحیح چور پکڑ لیا ہے،کیونکہ سابقہ میں سے ایک یہی بچے ہیں ان کے بارے میں کہانیاں بھی بہت سنی گئیں ضیاء دور میں اسلحہ اور منشیات کے کاروبارکے سرغنہ کے طوراور یوں بھی ایک وڈیرے کا مفاد جاگیر داروں کے مفاد سے جڑا ہوا ہوتا ہے اس وقت تو سب سے بڑی تکلیف آئیں کا اپنی اصل بلکہ بہتر شکل میں بحال ہونا ہے اب اگر کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جائے اور حکومت برخاست ہوجائے تو جو تھوڑا بہت کام ہونے جارہا ہے وہ تو گیا نا کھڈے میں،ظالموں کو خداغارت کرے آمین

    ReplyDelete
  15. اسی لیئے تو میں متحدہ کے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں کہ کن ظالموں سے لڑ رہے ہیں چاروں طرف کرپٹ اور ظالم ہیں اور متحدہ اکیلی

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ