میں اور میری بیٹی جب بھی غسلخانے کا رخ کرتے ہیں تو میری صاحبزادی بہت اچھلتی کودتی اندر جاتی ہیں۔ نہانے اور پھر اس بہانے پانی بہانے کی خوشی انکے روئیں روئیں سے ٹپکتی ہیں۔ لیکن ہم دونوں کو اندر گئے کچھ ہی لمحے گذرتے ہیں کہ ایک افراتفری اور ہڑبونگ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ باہر والوں کو یوں لگتا ہے کہ اندر ایک شیر اور ہاتھی کو بند کر دیا گیا ہے۔
ایک دن میری رشتے دار خاتون نے اسکی وجہ پوچھنے کی ہمت کر ڈالی۔ انہوں نے سوچا کہ ویسے تو یہ مارتی پیٹتی دکھائ نہیں دیتیں لیکن غسلخانے میں ضرور جا کر دن بھر کے چماٹ رسید کرتی ہونگی۔ آخر مہمانوں کے سامنے بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے۔
تو انہوں نے اپنے لہجے میں ایک تجاہل عارفانہ پیدا کرتے ہوئے کہا۔ یہ تم دونوں آخر اندر کیا کرتی ہو کہ پورا گھر ہل جاتا ہے۔ میں نے انہیں انتہائ تحمل سے جواب دیا۔ کچھ ایسا خاص نہیں کرتے۔ اقتدار کی جنگ میں اتنا شور شرابہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایکدم سنجیدہ ہوئیں اور کہنے لگیں کیا مطلب غسل خانے کے اندر کونسی اقتدار کی جنگ ہو سکتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر عقابی روح سینوں میں بیدار ہو تو غسل خانے کے اندر کیا مردہ خانے کے اندر بھی شور شرابہ ہو سکتا ہے۔
کہنے لگیں، چلو اچھا اب باتیں نہ بناءو۔ میں تو بالکل دہل کر رہ جاتی ہوں۔ تم دونوں اندر اتنا چنگھاڑتی ہو۔ آخر غسل خانے میں کس چیز پہ جھگڑا ہوتا ہے۔ میں انکی طرف مڑی اور کہا آپکو یقین نہیں آرہا یہ اقتدار کی جنگ ہوتی ہے۔ جب ہم نہانے کے لئے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپکو پتہ ہے سب سے اہم چیز پانی ہوتا ہے۔ وہ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ دوسری اہم چیز اسکا منبع ہے۔ چونکہ لیڈ پوزیشن میری ہے تو ہینڈ شاور میرے ہاتھ میں ہوتا ہے یہ صورتحال میری صاحبزادی کے حق میں نہیں جاتی کیونکہ اس طرح وہ اسے حسب منشاء استعمال نہیں کر پاتیں۔ وہ اسکے لئے جنگ کرتی ہیں اور میں اسے ہر قیمت پہ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہوں اس طرح میری رٹ قائم ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پورا ٹینک پانی خرچ ہونے کے بعد ہمارے غسل خانے کی ہر چیز غسل کر لے گی سوائے انکے کیونکہ اس عمل کے دوران انہیں خود نہانے کی فرصت نہیں ملے گی۔ تو یہ اقتدار کی جنگ اس پورے عمل کے دوران چلتی ہے اور پچھلے دو سال چار مہینے سے ایسے ہی چل رہی ہے۔ پہلے میں خود بھی ساری بھیگ جاتی تھی اب میں نے اپنے بچاءو کے طریقے ڈھونڈھ لئے ہیں۔
ارے تم لوگوں سے تو اب ایک بچہ قابو میں نہیں آتا۔ ہم سے پوچھودس دس بچے پیدا کئے اور اکیلے پالے پوسے-------------------------۔ سوچتی ہوں کہ اگر ماضی کی روایات کو جاری رکھتے ہوئے دو ہینڈ شاور ایکدن اپنی بیٹی کی پیٹھ پہ رسید کر دوں تو معاملہ اسی دن نبٹ ہو جائے گا۔ لیکن یہ تو بادشاہت کے زمانے کا طریقہ ہے۔ کیا جمہوری دور میں ایسا ممکن ہے۔
میں وہاں سے فوراً اٹھتی ہوں، اس سے پہلے کہ میری بیٹی پانی میں شرابور، میرے بستر پہ چڑھ کر اچھل کود مچائیں اور مجھے انکو کپڑے پہانے کے لئیے بیڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتیں سماجتیں کرنی پڑیں صورتحال میرے قابو میں رہنی چاہئیے۔ آپکو معلوم ہے اقتدار کی اس جنگ میں وقت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔
آپ روزمرہ کے عام واقعات کو کس خوبصورتی سے استعمال کر لیتی ہیں اور کیا کیا معنی پہنا دیتی ہیں۔ ما شاء اللہ۔
ReplyDeleteایک ادبی شہ پارے کی ایک خصوصیت اس کا بظاہر عام اور سادہ نظر آنا بھی ہوتا ہے ۔ مگر اسی پر جب قاری ایکسوسری اور گہری نظر ڈالتا ہے تو وہ تحریر ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا نظر بھی آتی ہے ۔ اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پوسٹ کو غسل خانے تک محدود رکھوں یا ملک اور معاشرے کے مجموعی رویوں پر پھیلا دوں
ReplyDeleteماضی کی روايات ان بچوں پر نہيں چلنے والی ميں نے آپکا طريقہ بھی استعمال کيا ہے اور روايتی بھی کر ديکھا کوئی بھی پائيدار نہيں تھا جلد ہی حالات اپنی روٹين پر واپس آ جاتے ہيں بس ہماری نسل بيچاری ايسی پسی ہوئی ہے جسکو والدين بھی اڑيل ملے تھے اور بچے بھی
ReplyDeleteبہت سی جمہوری مائیں سائیکلوجیکل وار فئیر کا بھی استعمال کرتی ہیں۔ مثلا لالچ، بلیک میل یا سنگین نتائج کی خالی خولی دھمکی۔ مگر سنگین نتائج والی دھمکی احتیاط سے خرچ کرنی چاہئے زیادہ استعمال پر یہ بے کار ہوجاتی ہے۔
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteواقعی آپ نےاس تحریرسےثابت کردیاہےکہ ایک عام سی بات سےبھی انسان بہت اہم بات سمجھاسکتاہےاس کےلیےیہ ضروری نہیں کہ مشکل استعمال کیاجائے۔ اللہ تعالی آپ کی تحریر کواورترقی دے۔ آمین ثم امین
والسلام
جاویداقبال
کیا خوب لکھا ہے ماشاء اللہ۔ سادہ اور پر اثر۔ آپ کا یہی طرز تحریر ہے جو باندھ کر رکھتا ہے۔
ReplyDeleteابن سعید، ریاض شاہد، جاوید اقبال، اور راشد کامران صاحبان آپ سب کا بے حد شکریہ۔
ReplyDeleteاسماء، ہر طریقہ آزمانے سے گریز کرنا چاہئیے، میں نے تو یہ سیکھا ہے۔ صورت حال زیادہ تر میرے کنٹرول میں رہتی ہے۔ لیکن میں یہ سوچتی ہوں کہ بچپن تو نام ہی شرارت اور آزادی کا ہے۔ اس لئے اس فطرت کو دبا نہیں دینا چاہئیے۔ اس لئے کچھ چیزوں کو اس طرح اجازت رکھتی ہوں کے انہیں آہستہ آہستہ یہ عقل آجائے کہ آزادی کا صحیح استعمال کیا ہے۔
نومان آپکے مشورے خاصے مناسب ہیں۔ میں کسی مادی لالچ سے حتی الامکان پرہیز کرتی ہوں۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ وہ کوئ اچھا یا صحیح کام اس لئے کریں کہ انعام میں کچھ ملے گا۔ حقیقت میں ایسا نہین ہوتا۔ زیادہ تر اچھے کام کی کوئ جزا نہیں ہوتی۔ ایک بہتر شخص کو اچھے کام اس لئے کرنا چاہئیں کہ انہیں کرنے کا صحیح طریقہ وہی ہوتا ہے۔ میں نے ایک سنگین سزا ضرور رکھی ہے جسکی نوبت پانچ چھ مہینوں میں ایک دفعہ آتی ہے اور جیسے ہی اس پہ عملدرآمد شروع ہوتا ہے وہ فوراً سوری کر لیتی ہیں۔ فائدہ اسکا یہ ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں اس پہ عملدر آمد کرونگی اور یہ محض خالی خولی دھمکی نہیں ہے۔ اگر یہ چیز پانچ چھ مہینے میں ایک دفعہ ہو تو اسکی دہشت بھی رہتی ہے۔ ہاں اس سزا کا تعلق تشدد نہیں بلکہ سوشل ریلیشنز کا اختتام اور قید تنہائ ہے۔ انسان تنہا نہیں رہنا چاہتا، بالخصوص ان لوگوں سے جو اسکا جذباتی سہارا ہوں ان سے الگ نہیں ہونا چہتا۔
میں نہیں چاہتی کہ وہ کوئ اچھا یا صحیح کام اس لئے کریں کہ انعام میں کچھ ملے گا۔ حقیقت میں ایسا نہین ہوتا۔ زیادہ تر اچھے کام کی کوئ جزا نہیں ہوتی۔ ایک بہتر شخص کو اچھے کام اس لئے کرنا چاہئیں کہ انہیں کرنے کا صحیح طریقہ وہی ہوتا ہے۔
ReplyDeleteبہت خوب!
خوش رہئیے!
۔
یہ بات دلچسپی کا باعث ہے کہ دنیا بھر کے بچے پانی سے چھینٹے اڑانے میں عجیب طرح کی فرحت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ReplyDeleteآپکی اس تحریر میں ممتا کا جذبہ اور پیار چھلکتا ہے۔جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اور اس بارے بنی نوع انسان اور تاریخ میں ابھی اہم شخصیات جو اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسی بھی رہی ہوں ۔ اتفاق کرتی ہیں۔
آپکی بچی خوش قسمت ہے کہ اُسے آپ جیسی محبت کرنے والی ماں ملی۔ اللہ اسکی اور آپ سب کی خوشیاں سلامت رکھے۔ آمین
اگر اقتدار ایسا ہی سمجھدار ذمہ دار ، محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہو تو بھلا کسی کو کیوں برا لگے!!!!
ReplyDeleteبقول اعتزاز احسن
حکومت ہوگی ماں کے جیسیِِِِِِِِِ
ریاست ہوگی ماں کے جیسی
آج کل کیا کھانے لگی ہیں آپ
ReplyDeleteبہت اعلٰی تحریرنے لگی ہیں