Thursday, March 25, 2010

ٹیکنا لوجی اور اجنتا کے غار

آخر کیسے پتہ چلتا ہے کہ آج اتوار ہے اور چھٹی ہے۔ اسکول بسوں کی آوازیں نہیں ہوتیں۔ صبح سے ڈور بیل بار بار نہیں بجتی۔کوئ خواب درمیان سے نہیں ٹوٹتا۔ لیکن ایک اہم علامت بچپن سے  اس دن کے اخبار سے پتہ چلتی تھی۔ جس میں میگزین ہوتا تھا۔  جو صبح پہلے جاگتا تھا اخبار سب سے پہلے اسکے حصے میں آجاتا تھا۔ شاید میری سحر خیزی کی عادت میں یہ چیز بھی شامل ہو۔  میں سب سے پہلے اخبار پڑھ کرختم کرنا چاہتی تھی۔ اب تو اخبار والا اتنی دیر سے اخبار دیکر جاتا ہے کہ میں انٹر نیٹ پہ ایک تفصیلی چکر لگا لیتی ہوں۔
اس اتوار کو ہم سب نے اس تجویز پہ غور کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ اخبارات کو بند کر دیا جائے۔ ہمارے ہر روز آنیوالے اخبارات کی تعداد اب سے کچھ عرصے پہلے تک  تین اخباراورچھٹی والے دن کو خاص رعایت دیتے ہوئے دو انگریزی کے اور دو اردو کے اخبار تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اتنے چینل آتے ہیں پل پل کی خبر تو ان سے ہی مل جاتی ہے۔تو روز کا ایک اخبار مقرر ہوا اور چھٹی والے دن تین۔ 
لیکن اب کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اخبار کی چھٹی کر دینی چاہئیے کیونکہ جب ہر کسی کہ پاس اسکا اپنا کمپیوٹر ہے اور وہ الیکٹرونک اخبار پڑھ سکتا ہے تو اسکی کیا ضرورت ہے۔ میں اس تجویز کے حامیوں میں سے نہیں ہوں۔ اس طرح سے اس معاملے میں انتہائ قدامت پسند ہوں۔
میرا موقف یہ ہے کہ اخبار اپنی جسمانی حیثیت میں جب موجود ہوتا ہے تو ایک اخلاقی دباءو رہتا ہے کہ ایک نظر ہی سہی پڑھ لینا چاہئیے۔ دوسرا یہ کہ دن میں کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پڑھ سکتے ہیں حتی کہ کسی قطار میں انتظار کرتے ہوئے یا چلتی گاڑی میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور تھک جائیں تو تکئے کے نیچے دبا کر وہیں کچھ دیر کے لئے آنکھین موند لیں۔ گرمی ہو تو ہلا کر پنکھا بنا لیں، برسات میں مکھیاں اڑا لیں، کسی بات پہ سب سے چھپ کر مسکرانا ہو تو اخبار منہ کے آگے کر لیں، اور کچھ نہیں تو کباڑئے سے ہر مہینے الجھنے کا آسان بہانہ،  ماچس ختم ہو گئ تو ایک چولہے سے دوسرے تک آگ لیجانے کا آسان طریقہ، کسی کو پیار سے چپت لگا نے کا دل ہو لیکن محرمیت آڑے آتی ہو تو اخبار سے جھاڑ دیں، کیا یہ رومانیت الیکٹرنک اخبار کیساتھ میسر ہے؟
 کچھ انہی وجوہات کی بناء پہ مجھے ڈیجیٹل کیمرے انتہائ ناپسند ہیں۔ پہلے کیمروں میں رول ہوا کرتے تھے۔ ایک اخلاقی دباءو رہتا تھا کہ انکو ڈیویلپ کروا لیا جائے ورنہ خراب ہو جائیں گے۔ پھر انکو البم میں سجایا جاتا اور پھر سب لوگوں کو یہ دکھائے جاتے اور ان پہ سیر حاصل گفگتو ہوتی۔ ہائے کیا زمانہ تھا۔ کسی کی تصویر پسند آئ تو اڑالی اور پھر مدتوں پہلو میں دبا کر دیکھتے رہنا اور ان سے باتیں کرنا ۔اسی لئے تو یہ گانا بنا کہ جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں۔ تصویر میں نہیں۔
اب ڈیجیٹل کیمرے کی وجہ سے تصویریں کمپیوٹر میں ہی پڑی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت میرے پاس پانچ سو کے قریب تصاویر ہیں جنکے بارے میں ہر تھوڑے دن بعد سوچتی ہوں کہ ان کو بیٹھ کر چھانوں اور کسی چیز میں محفوظ کر کے تصاویر نکلوا لوں۔ تاکہ کسی البم میں سج جائیں لیکن وہی بات آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
ان تصویروں کی تعداد بڑھے چلی جارہی ہے۔ اور یقیناً کچھ عرصے بعد انکو بنوانا جیب پہ خاصہ بھاری پڑیگا۔ لیکن ایک عجیب نا مکمل سا اطمینان رہتا ہے کہ کمپیوٹر میں تو ہیں۔ جب چاہیں گے جا کر بنوا لیں گے۔
سوچتی ہوں خدانخواستہ اگر کسی وجہ سے یہ دنیا اس وقت  کسی بھی وجہ سے ایکدم ختم ہو جائے تو بچ رہنے والے اس حساب سے کتنے غریب ہونگے انکے پاس کچھ بھی نہ ہوگا جس سے وہ اپنا ماضی دوبارہ نکال سکیں۔ جیسے اجنتا کے غار اور الف لیلی کی کہانیاں۔


اجنتا کے غاروں میں زمانہ قبل از مسیح کی بنی ہوئ یہ تصویر، اب تک موجود ہے)۔)

14 comments:

  1. آج پھر رشک والا دن ہے!۔۔۔

    ReplyDelete
  2. دوبارہ سوچئے کیا آپ واقعی قدامت پسند ہیں کیونکہ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے اور اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس سے جان چھڑانا ناممکن ہو چکا ہے۔

    ReplyDelete
  3. کیا خوبصورت ہے۔۔ نامعلوم کیوں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یہ سوچ رہا تھا کہ اگر تین دن پاور نا ملے تو سب کچھ ختم میرا خیال ہے کسی غار میں جا کر کچھ لکھ دینا چاہیے۔۔ ویسے سنا ہے فکر مند لوگوں نے تو ٹائم کیپسول دبا رکھے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. کیا خیالات کی بھی کوئی وبا ہوتی ہے؟؟؟؟

    ReplyDelete
  5. ماموں
    اس کا مطلب ہوا کے اگر سب ختم ہو گیا تو اپ کا بلاگ کسی غار کی دیوار پر ہو گا

    ReplyDelete
  6. ان تصويروں کو فورا سے پہلے کہيں اور بھی محفوظ کر ليں بچوں کی پہلے دو سال کی تصويريں بمعہ خاص مواقع کے ساری اڑنے کا تجربہ ہميں ہو چکا ہے بس ايک غلط کلک سے

    ReplyDelete
  7. جعفر، شکر کے بحران کی وجہ سے میں آپکے اس تبصرے کو اسطرح پڑھتی ہون۔ آج پھر شکر کا دن ہے۔
    میرا پاکستان میں نے دوبارہ سوچا اور نتیجہ وہی نکلا۔ ٹیکنالوجی جتنی ترقی کر لے بنیادی انسانی جذبات تو وہی رہیں گے۔
    راشد کامران صاحب ٹائم کیپسول، کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ لیکن ایک فلم کابنانے کا خیال ضرور آگیا ہے۔ جس میں یہ ہوگا کہ دنیا کے مکم ل طور پہ ختم ہوجانے کے بعد ہزارون سال بعد کسی انسانی ڈی این اے میں کسی تحریک کی وجہ سے انسان دوباری جنم لیگا۔ اور جب وہ کھدائیاں کرے گا اور کمپیوٹر کے ڈھانچے پاءے گا تو انکے متعلق کیا خیال کرےگا۔ مگر ایسا ہے کہ فلم بانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اس لءے میں فی الحال اسی صدی میں دنیا تیاگ جاءونگی۔
    عبداللہ، آپکی یہ اصطلاح، خیالات کی وبا مجھے بہت پسند آئ۔ خیالات کی ایسی ہی وباءوون سے انقلاب جنم لیتے ہیں۔ ویسے وبا میں خاتمہ بالخیر بھی ہوجاتا ہے اور نجانے کیوں مجھے وہ ناول یاد آرہا ہے۔ لو ان کالرا۔ جسکا ترجمہ ہے وبائے مرگ میں محبت۔
    ماموں، آہ خواہش ہے کہ کچھ ایسا لکھوں جو دل پہ نقش ہو جائے میرے نہیں اورون کے۔ مگر وقت بہت ظالم چیز ہے۔ میرے قریب تو کہیں کوئ غآر نہین جہاں کچھ لکھ دوں۔
    اسماء، میں نے خاصی تصویریں تو پکاسا ویب البم پہ ڈالدی ہیں۔ ایک میری بہن صاحبہ کو تصویریں اپنے پاس جمع کرنے کا بہت شوق ہے تو اگر ایک غلط کلک ہو گئ تو امید ہے کہ انکا کمپیوٹر کام کریگا۔ اگر مرفی کے قانون نے ہاتھ نہ ڈالا تو۔ ویسے مشورہ آپکا بھی دانشمندی کا تقاضہ ہے۔

    ReplyDelete
  8. میں ٓپ سے متفق ہوں اخبار کا اپنا ایک ماحول مزاج اور نشہ ہے جیو والا لاکھ بریکنگ نیوز دے لے جو مزہ کوءی خبر اخبار میں پڑھنے کا مزہ ہے وہ جیو یا کسی نیوز چینل میں نہیں۔
    بچپن میں بڑی باقاعدگی سے اخبار پڑھی ہے صبح کے اخبار کی خوشبو ٓج بھی میرے دماغ میں رچی بسی ہے۔
    آپکے حکم کے مطابق شاءیستہ کا مظاہرہ کیا ہے پتا نہیں آپکو پسند آتا ہے کہ نہیں ۔کامران اصغر کامی بکیبورڈ خود

    ReplyDelete
  9. کامی آپ نے سنا ہوگا کہ جو دبتا ہے اسکو دباتی ہے دنیا۔ بس جوبیچارے شاءستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہی اسے پڑھ کر مزید شائستہ ہونے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح سے دو پول بن جائیں گے ایک بہت شائستہ اور دوسرے بہت ناشائستہ۔ اگرچہ سائنس کہتی ہے کہ ایسا نظام قدرے غیر مستحکم ہوگا لیکنتاریخ کہتی ہے کہ اس طرح سے زیادہ استحکام حاصل ہوگا۔ دیکھیں کس کی بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔
    فی الحال آپکو شائستگی کا مظاہرہ کرنے پہ دس میں سے نو نمبر دئیے جاتے ہیں۔ ایک نمبر کیوں کاٹا ہے یہ پوچھنے پہ بتاءونگی۔

    ReplyDelete
  10. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    واقعی جوکہ مزا اخبارپڑھنےمیں ہےوہ الیکٹرانک اخبارمیں نہیں آتا۔ میں بھی آپ کےساتھ پوری طرح متفق ہوں۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  11. بتا دیں میں پہلے ہی کنفیوز سا بندہ ہوں میری کنفیوژن مزید بڑھ جاے گی میرے خیال میں شایستہ ٹھیک نہیں لکھا
    کیا میل کے ذریعے میں کچھ پوچھ سکتا ہوں۔
    ۔ کامران اصغر کامی

    ReplyDelete
  12. کنفیوز کامی، اس وقت تو بھول گئ ہوں، کس لئے کاٹا تھا۔ یاد کر کے بتاءوونگی۔
    میل کے ذریعے آپ کچھ کیا بہت کچھ پوچھ سکتے ہیں۔ البتہ جواب میں اپنی پسند کا دونگی۔
    اور یہ کس شائستہ کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک نہیں لکھا، وہ جو میں نے لکھا، یا وہ جو آپ نے لکھا۔

    ReplyDelete
  13. ہائے کیا زمانہ یاد کروا دیا
    اخبار کے لیے صبح صبح اٹھنا
    میرا تو روز کام ہوتا تھا کہ اخبار سب سے پہلے کوپو اور پزل والا صفحہ نکالو
    جمعرات کو بچوں کے اخبار کے انتطار میں تو نیند ہی نہیں آتی تھی
    اور جنگ والے اتنے ۔۔۔ تھے (بلکہ ہیں) کہ ان کو اشاعت خصوصی کے لیے جمعرات کا ہی دن ملتا تھا
    بس میری جنگ گروپ کیلیے نفرت کی ایک بڑی وجہ یہی ہے
    تحریر کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی
    بے انتہا خوبصورت تحریر

    ReplyDelete
  14. چھپی تصاویر تک ہر کسی کی رسائی کہاں ہوسکتی تھی ؟
    البتہ پکاسا فوٹو ایلبم!
    :)
    اللہ بھلا کرے ان ڈیجیٹل کیمروں کا۔
    :) :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ