Sunday, January 10, 2010

کچھ آج سے الگ اور اسکے متعلق

ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' شاید اس موضوع پہ لکھی جانیوالی کتابوں میں بہت اچھی کتاب میں ہے۔ یہ کتاب انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے۔ لیکن اسکی مقبولیت اتنی ہے کہ بارہ برس میں اسکے تین ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔
عنوان دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ اردو سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی  ضرورت ہو گی۔ لیکن چونکہ اس میں زبان کے فروغ اور اس پہ دیگر سیاسی و غیر سیاسی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے تو یہ ایک عام قاری کے لئے بھی پڑھنے میں بہت اچھی کتاب ہے۔
مجھے اسے پڑھنے کی ضرورت یوں پیش آئ کہ جب میں نے ایک بلاگ پہ یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے پنجابی زبان سے جنم لیا ہے تو سوچا کہ جو اپنی پہلے والی معلومات ہیں ان کو اپ ڈیٹ کیا جائے، جو اس میدان کے ماہرین ہیں ان سے بلامشافہ گفتگو کی جائے اور اس پہ جو لٹریچر مہیا ہے وہ پڑھا جائے۔  ورنہ بات برائے بات تو کوئ بھی کر سکتا ہے  اور کیسی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کتاب میں جو دیگر تفصیلات ہیں ان سے صرف نظر کرنا میرے لئیے ممکن نہ تھا۔
آئیے ایک اقتباس سے گذرتے ہیں جو خاصہ تفصیلی ہے۔ لیکن یہ کسی تحریک کے مختلف ادوار کے بارے میں ہے۔
صاحب تحریر کا خیال ہے کہ کوئ تحریک اپنی نمو میں چار ادوار سے گذرتی ہے۔
۱
تحریک کے اساسی تصور کی نمو کا دور
یہ تحریک کا ابتدائ دور ہوتا ہے جس میں راہنما پہلے اس تصور کے بارے میں اپنا ذہن صاف کرتا ہے اور ایک واضح نظریہ مرتب کرتا ہے۔ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئیے اپنے رفقاء کے سامنے اور پھر عوام کے سامنے یہ نظریہ پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ تصور خوبصورت اور موزوں طریقے سے پیش کیا جائے اور سابقہ جمود کے طویل دور نے تغیر قبول کرنے کے لئیے زمین ہموار کر دی ہو تو یہ نظریہ بہت جلد قبولیت کا درجہ حاصل کرنے لگتا ہے۔ بصورت دیگر تحریک اس ابتدائ مرحلے میں ہی بجھ کر رہ جاتی ہے۔
۲-
ہمدردانہ جذبے کے فروغ کا دور
اس دور میں عوام کا کا ایک بڑا طبقہ تحریک کے بنیادی تصور سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگتا ہے جبکہ رجعت پسند طبقہ اسکے خلاف اپنے نظریات کی برتری ثابت کرنے کے لئے درپئے جنگ ہوجاتا ہے۔ اور یوں نئے تصور نے جو تحرک پیدا کیا ہے اسے روکنے کے لئے مزاحمت شروع ہو جاتی ہے۔ تحریک اگر جاندار ہو تو آگے بڑھتی ہے اور نئے تصور کو بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے اور اسکے ساتھ ہی تحریک اپنی کامیابی کا ایک دور مکمل کر لیتی ہے۔

نوٹ؛ یہ سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپی برقرار رکھنے کے لئیے میں نے اسے توڑ دیا ہے۔ تو پھر سے  آگے پڑھتے ہیں مگر ایک مختصر وقفے کے بعد۔

حوالہ؛
ڈاکٹر انور سدید

5 comments:

  1. اس دور میں عوام کا کا ایک بڑا طبقہ تحریک کے بنیادی تصور سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگتا ہے جبکہ رجعت پسند طبقہ اسکے خلاف اپنے نظریات کی برتری ثابت کرنے کے لئے درپئے جنگ ہوجاتا ہے۔ اور یوں نئے تصور نے جو تحرک پیدا کیا ہے اسے روکنے کے لئے مزاحمت شروع ہو جاتی ہے۔ تحریک اگر جاندار ہو تو آگے بڑھتی ہے اور نئے تصور کو بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے اور اسکے ساتھ ہی تحریک اپنی کامیابی کا ایک دور مکمل
    کر لیتی ہے۔
    I totaly agree with Doctor Sahab!
    And we can see that all around us!:)

    ReplyDelete
  2. ثبوت کے لیئے بلاگزپراپنے ساتھ پہیش آنے والا تاذہ ترین واقعہ پیش خدمت ہے ایک صاحب جنکا بلاگ اردو سیارہ کی فہرست میں سب سے اوپر موجود ہے اور جو بقول انکے پٹھان ہیں چرس سے ذوق رکھتے ہیں کراچی میں رہتے ہیں اور خود کو صحافی کہتے ہیں، مگر صحافت کی الف بے سے بھی ناواقف معلوم ہوتے ہیں اورشہر کی اصل صورت حال کو چھپا کر صرف اپنا ایک نکاتی ایجینڈہ فالو کرتے ہیں اور وہ ہے ایم کیو ایم دشمنی حال ہی میں ان کے بلاگ پر یہ تبصرہ ہوا!
    وقار said
    January 8, 2010 @ 9:44 am
    مسعود جنجوعہ کی شہادت کی خبر آمنہ مسعودصاحبہ کے لئے کسی سانحہ سے کم نہیں ہوگی۔ بڑی ہمت والی خاتون ہیں اورپچھلے کئی سالوں سے اپنے شوہر سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ اللہ انہیں اس سانحہ کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔

    ویسے مجھے بھائی لوگو کی عقل پر ماتم نہیں قہقہے لگانے کوجی چاہتا ہے۔ یہ ہر بات میں سے مہاجر قوم پرستی کی کڑی نکال کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو ہی لے لیجئے۔ کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ کس کے ایما پر ہورہا ہے اور کون کروارہا ہے۔ اس سلسلے میں الطاف بھائی جو پچھلے 9 سالوں سے حکومت میں شامل ہیں کی چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل بھی کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔

    یہاں عبد اللہ بھائی نے کہا کہ کوئی تنظیم اپنے کارکنوں کو خود ہی کیوں قتل کریگی۔ حضور ایم-کیو-ایم کا معاملہ ذرا مختلف ہے یہ ایک مافیا ہے اور مافیائوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی کسی کی جگہ لینے کا اہل ہو یا کوئی خطرہ محسوس ہو تو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ عظیم احمد طارق سے لے کر خالد بن ولید تک ہر ایک کی اپنی کہانی ہے۔ بحرحال خون ناحق کسی کا بھی ہو، وہ پکار پکار کر یہی کہ رہا ہے کہ [شاعر سے معذرت کے ساتھ]
    میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
    سب بھائی لوگوں نے پہنے ہوئے ہیں دستانیں
    جس کے جواب میں‌مینے‌انہیں لکھا کہ جس پارٹی کو آپ مافیا بنانے پر تلے ہیں اس نے فرقہ ورانہ فسادات سے بچانے اورکراچی کے امن کو برقرار رکھنے کے لیئے سب سے پہلے عملی قدم اٹھایا اور تمام فرقوں کے علماء کو اکٹھا کیا اور وہاں علماء نے کیا کہا اس خبر میں پڑھ لیں!
    http://www.jang.com.pk/jang/dec2009-daily/31-12-2009/main2.htm
    اس کے علاوہ کراچی کی پڑھی لکھی ادبی برادری بھی ایم کیو ایم اور الطاف کے بارے میں کیا کہتی ہے اسے بھی دیکھ لیں!
    الطاف حسینکی کتاب کی تقریب رونمائی کی صدارت میرا اعزاز ہے،پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتحپوری!
    اس صفحے کی خبر نمبر 15
    http://www.jang.com.pk/jang/jan2010-daily/06-01-2010/mulkbharse.htm
    اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر اس خبر کی تفصیل بھی موجود ہے!
    http://www.mqm.org/
    پھر مینے ہارون الرشید کے اس کالم کا لنک بھی لگایا جس میں ایل پی جی گیس کے کوٹے پر عوام کی بوٹیاں نوچ کر 220 ارب روپے کمانے والوں کا ذکر بد تھا!
    http://www.jang.com.pk/jang/jan2010-daily/08-01-2010/col3.htm
    چنانچہ یہ صاحب جو کراچی میں کسی اور کا کھیل کھیل رہے ہیں کو یہ حقائق ہضم نہ ہوئے اور انہوں نے میرا یہ جوابی تبصرہ ڈلیٹ کر دیاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟
    کیا اس لیئے کہ اتنی محنت سے ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد جماعت ثابت کرنے کے بعد اس کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آتے دیکھنا ان حضرات اور ان کے آقاؤں کے لیئے ناقابل برداشت ہورہا ہے؟

    ReplyDelete
  3. اقتباس تو بہت زبردست ہے لیکن بہت ساری تھیوریز ایسی ہوتی ہیں جنہیں صرف موضوع کے حوالے سے ایک خیال گرداننا چاہیے نا کہ اس کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا۔ اردو کی پیدائش کے حوالے سے بہت ساری آراء ہیں ان میں سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس نے پنجاب سے جنم لیا۔ بہرحال اقتباس بہت شاندار ہے پیش کرنے کا شکریہ

    ReplyDelete
  4. ابو شامل، فی الوقت تو یہ اردو زبان کے متعلق نہیں ہے۔ اس لئیے میں یہ موضوع نہیں کھولنا چاہتی۔ یقیناً اس کتاب میں بھی اس موضوع پہ بات کی گئ ہے جسے میں فی الحال نہیں چھیڑ رہی۔ لیکن میں ایک بات ضرور کہنا چاہونگی کہ جن باتوں کے متعلق ماہرین بھی ابھی تک کوئ ایک رائے قائم نہیں کر سکے۔ انکے اوپر کسی بھی شخص کا ایک بات حتمی طور پہ کہہ دینا صحیح نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  5. ہاہاہا ۔۔۔۔۔ آخری جملے میں اچھا ہٹ کیا ہے۔ چلیں آپ کہتی ہیں تو رجوع کر لیتے ہیں اپنے موقف سے :) ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ