Wednesday, September 15, 2010

سر سید کا عہد-۱

سر سید پہ مزید بات  کرنے سے پہلے ہمیں اس زمانے کے حالات پہ ضرور ایک نظر ڈالنی چاہئیے۔ جب سر سید احمد خان نے بر صغیر کے مسلمانوں کے جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔ کیونکہ ہر بڑی شخصیت پہ اپنے عہد کا عکس ہوتا ہے اور وہ اپنے عہد کے مسائل کو اسی عہد میں میسر علمی اور ذہنی وسائل سے دیکھتا اور انکے حل تلاش کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک شخص پہ ہم حیران ہوں کہ اس نے کمپیوٹر کیوں نہیں بنایا۔ انسانی عقل نے بتدریج ترقی کی اور اسے ہی ارتقاء کہتے ہیں۔
جب مغل سلطنت اپنے انحطاط کا شکار تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ بنگال میں  1757 میں پلاسی کی جنگ ہوئ اور میر جعفر کی  حکمرانی میں کمپنی کی  حکومت قائم ہوئ۔  ادھر پنجاب می، رنجیت سنگھ نے مسلمان حکمرانوں کو شکست دے کر انکا  تقریباً ہزار سال کا دور اقتدار ختم کیا اور ملتان سے لے کر پشاور تک اپنی حکومت قائم کی۔ اپنی حکومت کا صدر مقام اس نے لاہور کو منتخب کیا۔ 1839 میں اسکے انتقال کے بعد وہاں انگریزوں کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ اٹھارہ سو پینتالیس میں یہ علاقہ بھی انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔سندھ 1843 میں اور اودھ 1856 میں کمپنی نے ملحق کئے۔ اسکے بعد بھی اگر کوئ علامتی اقتدار مسلمانوں کا باقی تھا تو اسے جنگ آزادی اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے نے مٹا دیا۔
اس سیاسی انقلاب کے ساتھ مسلمانوں کا اصل اقتصدای اور تمدنی انحطاط شروع ہوا۔
ڈاکٹر ویلیئم ہنٹر کی کتاب ' آور انڈین مسلمانز' میں اس وقت مسلمانوں کی حالت زار کی ایک تصویر موجود ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ
مسلمانوں کو حکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام اہم عہدوں کا دروازہ ان پہ بند کر دیا گیا ہے۔ طریقہ ء تعلیم ایسا ہے کہ ان میں انکی قوم کے لئے کوئ انتظام نہیں۔ قاضیوں کا نظام ختم کر کے جو انگریزی نظام عدلیہ آیا ہے اس سے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بے کار اور محتاج کر دیا ہے۔ انکے اوقاف کی آمدنی، جو انکی تعلیم پہ خرچ ہونی چاہئیے تھی وہ غلط مصارف پہ خرچ ہو رہی ہے۔  وہ مسلمان جو پہلے جاگیروں کے مالک تھے وہ اب قرض کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئ ہندو قرض خواہ ان پہ نالش کرتا ہے اور اور وہ رہی سہی جمع پونجی سے بھی جاتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ
مسلمانوں کی بد قسمتی کا صحیح نقشہ ان محکموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی۔ 1869 میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینیئروں کے تین درجوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر۔ امیدواروں میں چار ہندو، دو انگریز اور مسلمان صفر۔ سب انجینیئروں اور سپر وائزروں میں چوبیس ہندو اور ایک مسلمان۔ اوور سیئروں میں تریسٹھ ہندو اور دو مسلمان۔ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم۔
سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائ کورٹ کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ اسکے بعد 1851 تک بھِ مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اور مسلمان وکلاء کی تعداد ہندءووں اور انگریزوں کے مقابلے میں کم نہ تھی۔ لیکن اسکے بعد تبدیلی شروع ہوئ۔ نئ طرز کے آدمی آنا شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بدل دیا گیا۔ 1852 سے ۱868 تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے۔ ان میں 239 ہندو تھے اور ایک مسلمان۔
ڈاکٹر ہنٹر مزید لکھتے ہیں کہ
اگلے دن ایک بڑے سرکاری محکمے میں دیکھا گیا کہ سارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھی اہلکار ایسا نہ تھا جو مسلمانی زبان سے واقف ہو اور حقیقتاً اب کلکتے میں شاید ہی کوئ سرکاری دفتر ایسا ہوگا، جس میں کسی مسلمان کو دربانی، چپڑاس یا دواتیں بھرنے اور قلم درست کرنے کی نوکری سے زیادہ کچھ ملنے کی امید ہو سکتی ہو۔' چنانچہ انہوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی ہے کہ  تمام ملازمتیں اعلی ہوں یا ادنی آہستہ آہستہ مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہیں اور دوسری قوموں بالخصوص ہندءووں کا بخشی جاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ رعیت کے تمام  طبقوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ملک جب ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان سب قوموں میں بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر اور جسمانی طور پہ زیادہ توانا اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا ملکہ بھی ان میں زیادہ تھآ۔ لیکن یہی مسلمان آج سرکاری ملازمتوں اور غیر سرکاری اسامیوں سے یکسر محروم ہیں۔


جاری ہے

1 comment:

  1. یہاں ایک تحریر کسی انگریز کی یاد آتی ہے جو ہندو طرز معاشرت سے اس لئے بیزار تھا کہ برہمن لڑکپن تک بہت ذہین رہتا ہے لیکن جونہی اسے مذہب کی جاگ لگ جاتی ہے اس کی باتیں انگریز دماغ کو بی معنی معلوم ہوتی ہیں۔ انگریز کے نزدیک مسلمان زیادہ قابل اعتبار تھے لیکن ان کی حکومت ابھی حال ہی میں الٹی گئی تھی اور انگریز کو یہ بات کھٹکتی تھی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ