Monday, September 13, 2010

ایک فلم ، ایک تعارف

امر محبوب، ایک دستاویزی فلم میکر ہیں۔ عید کے موقع پہ انکے موبائل فون پہ آنے والے ایس ایم ایس کی پیپس پہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے پیغامات آ رہے ہیں۔ تو جواب ملا ہاں، آ تو رہے ہیں۔ مگر مبارکباد بھیجنے والے زیادہ تر تھر کے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔
اسکی ، میرے خیال میں کئ وجوہات ہیں۔ ایک تو تھر میں ہندو آبادی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ تقریباً چالیس فی صد ہندو اور ساٹھ فی صد مسلمان اور دوسرے یہ کہ امر محبوب نے تھر کے اوپر ایک بہت اچھی دستاویزی فلم بنائ ہے ۔ فلم میں تھر کو ثقافتی، ماحولیاتی اور تاریخی ہر پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئ۔ یوں انہوں نے تھر کے لوگوں کے ساتھ ایک بھر پور وقت گذارا۔ اسی چکر میں مجھے بھی وہاں رہنے کا اتفاق حاصل ہوا۔  اس دوران میں پابندی سے ڈائری لکھتی رہی۔  وہ سامان ابھی ایک طرف رکھا ہے۔ لیکن مختصراً تھر ایک طلسماتی سحر رکھتا ہے۔ سندھ کے لوک شاعر، شاہ لطیف بھٹائ بھی اسکے حسن سے بے حد متائثر تھے انکی کہانیوں کا ایک کردار ماروی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ یہاں میں نے وہ کنواں بھی دیکھا جو ماروی سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تھر میں ہندو اور مسلمان کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ تو آپکو یہ فلم دیکھنا چاہئیے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ جین اور بدھ مذاہب کے لوگ بنیادی طور پہ سبزی خور ہوتے ہیں مگر گوشت کھانا انکے لئے کس وقت جائز ہوتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر کے ہندءووں کو مسلمان کرنے کی نیکی تبلیغی جماعتیں کماتی ہیں مگر بعد میں کیا ہوتا ہے، کیا اپ جانتے ہیں کہ تھر میں ایک ایسا قبیلہ بھی موجود ہے جس نے احتجاجاً اپنے آپکو دنیا کی ہر جدید چیز سے دور رکھا ہوا ہے اور انکی خواتین صرف کالے کپڑے پہنتی ہیں، کیا آپکو معلوم ہے کہ تھر کسی زمانے میں اپنے موروں اور ہرنوں کے لئے مشہور تھا۔ جو شکار کا شکار ہو گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر میں اگر دس دن بارش ہو جائے تو یہ صحرا، سبزے کا وہ لبادہ اوڑھتا ہے کہ پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بن جاتا ہے۔ 
یہ سب جاننا ہے تو تھر پہ بنی ہوئ یہ فلم دیکھنی پڑے گی جسکا نام ہے۔ ریت کے رنگ۔ یہ فلم اب یو ٹیوب پہ چار حصوں میں موجود ہے۔ میں یہاں اسکا لنکس دے رہی ہوں۔ فلم کا دورانیہ پچپن منٹ ہے۔  ایک دفعہ دیکھنا شروع کیجئیے مجھے یقین ہے یہ آپکو باندھ لے گی۔




31 comments:

  1. مذکورہ قبیلے کے تعارف سے پہلے میں نے ڈالڈا کا ڈبہ دیکھا تو سوچا یہی ہوگا اور وہی نکلا۔ مجھے وہ بات یاد آ گئی کہ اللے بے نیاز ہے کہ بندہ اپنے آپ کو جس مرضی مصیبت میں ڈالے۔

    اردو بولنے والا کسی کی نقل کر رہا ہے۔ مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا مگر یہ اس کا اوریجنل انداز نہیں۔ میں نے یہ پہلے شائد محی الدین یا کسی اور کا انداز سنا ہوا ہے۔

    امر نام میں نے آپ کے نام کے ساتھ کسی یو آر ایل میں دیکھا تھا شائد فیس بک یا کہیں۔

    ReplyDelete
  2. چونکہ میں انہیں ذاتی طور پہ سنتی رہتی ہوں اس لئے آپکا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ ضیا ءالدین کی نقل کر رہے ہیں۔ یہ انکا اپنا حقیقی انداز ہے۔

    ReplyDelete
  3. باقی یہ کہ آپ ڈالڈا کے ڈبے کو کمپیوٹر کے ساتھ رکھ کر بیٹھیں گے تو یہی ہوگا۔

    ReplyDelete
  4. عید کے موقع پہ انکے موبائل فون پہ آنے والے ایس ایم ایس کی پیپس پہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے پیغامات آ رہے ہیں


    The Women Nature.. DOnt Mind Just Kidding
    Ab Tau Un pe shak na kia karain

    ReplyDelete
  5. تھر کے بارے میں پچپن منٹ کی دستاویزی فلم دیکھی - لیکن مائی بھاگی کا تھر کی نمائیندگی کرنے والے نغمہ - کھڑی نیمبھ (نیم) کے نیچے - ناپایا جو تھر کے مون سون ،مور ،کوئل اور تھر کی روح پرور لوک دُھن پر مشتمل ہے- میرے خیال میں اس تھر کے عکاس نغمہ کی جھلک کو اس دستاویزی فلم میں ضروری شامل ھونا چاھئے تھا - بہت شُکریہ

    ReplyDelete
  6. لفنگا، میں اس بات کی قائل ہوں کہ شک کبھی نہیں کرنا چاہئیے ، یقین کرنا چاہئیے۔ سارے معاملات قابو میں رہتے ہیں۔
    :)
    Md,
    جناب، اس میں وہاں کے بالکل مقامی لوگوں کے گانے اور موسیقی شامل کی گئ ہے۔ شہری لوگوں کے شوق کو اس سے دور رکھا گیا ہے۔ اس لئے مائ بھاگی کا گانا اس میں شامل نہیں۔ البتہ کچھ ایسا ضرور ہے جو وہاں بالکل عام ہے مقامی لوگ اسے پسند کرتے ہیں، مگر باہر کے لوگ اس سے واقف نہیں۔

    ReplyDelete
  7. بہت خوبصورت ابھی صرف پہلا حصہ دیکھا ہے۔ باقی بک مارک کرلئے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. ابھی کچھ مصروفیت چل رہی ہے ایک خوبصورت ڈاکومینٹری دیکھنے کے لیئے بندے کا ذہنی اور جسمانی طور پر ریلیکس ہونا ضروری ہے سو تبصرہ دیکھنےکے بعد ہوگا
    :)

    ReplyDelete
  9. میرا خیال ہے کہ بات شہر اور دیہات کی نہیں ہورہی ہے بلکہ بات ہورہی ہے تھر کی - اور مائی بھاگی تھر کی لوک فنکارہ ہے- وہ تھر کے مقامی لوک گیت گاتی ہے - تھر کے نام کے ساتھ مائی بھاگی کا نام جُڑا ہُوا ہے - الن فقیر شہر میں گاتاتھا آپ کے فارمولے کے مظابق وہ سندھی زبان کا لوک فنکار نہیں رہا - اسی طرح پر دیگر علاقائی زبانوں کے لوک فنکاروں سے بھی جو شہر میں گاتے ہیں انکی علاقائی وابستگی ختم ہوجاتی ہے - یعنی وہ جس زبان کے لوک فنکار کہلاتے ہیں شہر میں گانے کی وجہ سے اب وہ اس زبان کے لوک فنکار نہیں رہے - ایسی دستاویزی فلموں میں مقامی زبان کے مشہور لوک فنکاروں کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ اُس لوک فنکار کی بھی حوصلہ افضائی ہو - اب بھی آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے جو وضاحت کی ہے وہ صحیح ہے تو پھر مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا ہے - بہت شُکریہ

    ReplyDelete
  10. میں نے پوری ڈاکیومینٹری دیکھی، بہت اچھی ہے۔ پہلی دفعہ تھر کے بارے میں اتنا کچھ جاننے کو ملا ورنہ تھر میرے لیے قحط اور مائی بگائی کے گیت سے زیادہ کچھ نہ تھا۔

    ReplyDelete
  11. یہ تو ایک اور ہی جہاں کی سیر کرا دی آپ نے۔

    یہ ویڈیوز پوسٹ کرنے کا شکریہ۔ میں نے چاروں دیکھی ہیں آج۔ تھر کے بارے میں میری معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے یہ ڈاکو مینٹری دیکھ کر۔ اس سے پہلے بس ایک مبہم سا خاکہ تھا ذہن میں اس جگہ کے بارے میں کہ سندھ میں ایک علاقہ ہے جہاں پانی کی کمیابی کی وجہ سے قحط کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن یہ فلم دیکھ کر تو تھر کی زندگی کے بے شمار ان دیکھے رنگ دیکھنے کو ملے۔

    فلم بہت اعلیٰ معیار کی بنائی گئی ہے۔ سینماٹوگرافی بہت عمدہ ہے۔ سینز کا سیکوینس زبردست ہے۔ سب ٹائٹلز میں زبان بہت اچھی ہے۔ اردو سے انگریزی میں کلمات کی منتقلی بہت احسن طور پر کی گئی ہے۔ ورنہ عمومی طور پر بس لفظ بہ لفظ ترجمہ کر دیا جاتا ہے۔ ہما احمر یقیناً مبارک باد کی مستحق ہیں۔

    فلم دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے، جاننے کا موقعہ ملا۔ مثلاً یہ کہ سڑکیں، جنہیں ہم اپنی روز مرہ کی شہری زندگی میں ٹیکن فار گرانٹیڈ لیتے ہیں ان کی اہمیت اصل میں کسقدر زیادہ ہے اور ان کے ہونے اور نہ ہونے سے جو فرق پڑتا ہے وہ کتنا بڑا ہے۔ تعلیم کی وقعت کا معلوم تو تھا ہی لیکن یہ فلم دیکھ کر اس کی اہمیت بھی بھر پور طور سامنے آئی۔

    یہ بھی ایک زبردست بات معلوم ہوئی کہ کسطرح کسی قوم یا علاقے کے لوگوں کی سوچ کا انداز ان کی زندگی کی حتمی شکل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تھر کے لوگ چونکہ دین دنیا کے کل معاملات کو ایزی لیتے ہیں سو ان کے حالات میں بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی ظہور پذیر نہیں ہو سکی۔ یہ مجھے خاص طور پر ادراک حاصل ہوا اس فلم کو دیکھ کر کہ یہ ٹھیک ہے کہ اوور ایمبیشس ہونا اچھا نہیں ہے اور اوور ایمبیشس انسان خود کو آخر کار کنزیوم کر لیتا ہے لیکن یہ بھی ایک ماننے کی بات ہے کہ ایمبیشن بالکل نہ ہونا بھی بہت بڑی مصیبت ہے۔ تھر کے لوگ چونکہ اس قسم کے ولولے اور خواہش سے کلی طور پر عاری ہیں اس لیے خوف اور بھوک کا شکار رہنے کے باوجود تبدیلی کے لیے کچھ کرنے کے خواہاں نہیں۔

    فلم کے کلوزنگ کریڈیٹس میں کیمرہ کی مد میں آپکا نام دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آپ ڈاکومینٹری میکنگ میں بھی اچھا خاصا قدم رکھتی ہیں۔ اس سے پہلے شرمین عبید کی دستا ویزی فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ کلرز آف سینڈ دیکھ کر بہت لطف آیا ہے۔ آپکا شکریہ۔

    ReplyDelete
  12. Md,
    صرف ایک مختصر بات۔ مائ بھاگی کا وہ گیت حد سے زیادہ مشہور ہے بہت استعمال کیا جا چکا ہے۔ لیکن یہ فلم تھر کو اس روائیتی تصور سے باہر دکھانے کی ایک کوشش ہے۔ جہاں تھر ایک بیکراں صحرا کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں جو موسیقی پیش کی گئ ہے اسکی ریکارڈنگ اور تلاش بسیار میں خاصی محنت کی گئ ہے اور اسکے انتخاب میں حسن اور راگ اور ساز کا بے حد خیال رکھا گیا ہے۔ اگر آپ اس طرف توجہ کریں۔ مائ بھآگی کا وہ گانا ڈالنا کوئ مشکل کام نہ تھا۔

    ReplyDelete
  13. اور ہاں، ان مقامی فنکاروں کو ڈال کر انکی حوصلہ افزائ بھی تو کی گئ ہے۔ کاش آپ ذرا تصور کر سکتے کہ جب ہمیں ان گانوں کو ریکارڈ کرنے کے لئے ان سے ملنا پڑا تو وہ کتنے پر جوش تھے کہ ایک کیمرہ انکی تصویر بنا رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ فلم ابھی تک وہ توجہ حاصل نہ کر سکی جسکی یہ مستحق ہے۔

    ReplyDelete
  14. ہوم ورک میں گھنٹے کی ویڈیو دیکھنا مقصود تھا اس لئے کلاس میں لیٹ ہوگیا۔
    فلم بہت دلچسپ ہے۔ خاص طور پر چوتھا حصہ۔ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لوگوں کی سادگی اور آزادی کی تعریف کی جائے یا پسماندہ سماجی رسوم میں پھنسی تہذیب کا افسوس جہاں ارتقاء معدوم نظر آتا ہے۔
    چوتھے حصے میں جو تبدیلی کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ خوب ہے۔ لیکن ظاہر ہے جب اندھا دھند تبدیلی ٹھونسی جائے گی تو وہ مقامی تہذیب کی نزاکتوں پر بھی منفی اثر کرے گی۔
    کینیڈا میں بھی کچھ مقامی قومیں رہتی ہیں۔ جنہیں فرسٹ نیش ، میٹس اور انوئٹس کہا جاتا ہے۔ حکومت کینیڈا نے راست اقدام کے ذریعہ ان کو ایسی سہولیات مہیا کی ہیں کہ ان کی تہذیب اور شناخت بھی برقرار رہے اور وہ جدت سے بھی محروم نہ ہوں۔ اس سلسلے میں ان کے لئے ایک بہت بڑا علاقہ مختص کیا گیا ہے جسے نونووت
    کہتے ہیں۔ انوئٹس لوگ وہاں سکون سے رہتے ہیں۔ اپنی تہذیب اور شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی اور جدت کی طرف سفر کرتے ہوئے۔

    ReplyDelete
  15. بہت اچھی ڈاکومینٹری ھے اور اعلیٰ معیار کی بنائی گئی ہے۔

    ReplyDelete
  16. اب آپ نے دوسری طرز پر وضاحت کرکے مجھے دوبارہ جواب پر اُکسادیا ہے - میرے نقطہ نظر کی اس سے بڑھ کر کیا وضاحت ہوگی کہ - ساجد اقبال نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ وہ مائی بھاگی کے گیتوں کے حوالے سے تھر کو جانتا ہے - آپ نے خود اعتراف کیا ہے کہ ڈاکو مینٹری کو وُہ پزیرآئی نہیں ملی جو اسکو ملنی چاہئے تھی - اب سوال پیدا ہوتا ہے کیوں نہیں ملی ؟ اسمیں قصور کس کا ہے ڈاکومینٹری کا ہے یا عوام کا جو اسے سمجھ نہ سکی جبکہ آپ کو یہ بات سمجھ میں نہی آرہی ہے ڈاکومینٹری کو پزیرائی کیوں نہیں ملی جبکہ آپ لوگوں نے ڈاکومینٹری پر کافی محنت بھی کی میرا خیال ہے یہ محنت غلط سمت میں ہوئی ہے- میرے خیال میں پزیرائی نہ ملنے کی وجہ تھر کا پاور فُل حوالہ اسکی لوک موسیقی ہے -ڈاکومینٹری میں اسکو مناسب وقت نہیں دیا گیا- مثلا" تھر کے پیلے کپڑے پیلی پگڑی والے لوک فنکار جو کھڑاویں بجاتے ہیں انکو بھی نظر انداز کیا گیا - ثقافت میں شادی بیاہ کے ڈھولک گیتوں کو بہت اہمیت حاصل ہے - ڈاکو مینٹری میں اسکی بھی کمی ہے -ماروی کی داستان بیان کرتے ہوئے بیک گراونڈ میں ہلکی آواز میں - مائی بھاگی کا ماروی والا نغمہ بجاتے تو اچھا تاثر ابھرتا - بیک گراونڈ موسیقی کے طور پر ہلکی آواز میں مائی بھاگی کی مشھور دھنیں بجتیں تو بھی ایک اچھا تاثر دے تیں - یہ ہے میری زاتی رائے ڈاکو مینٹری کو زیادہ پزیرائی نہ ملنے کی - ویسے آپ بہتر جانتی ہیں - اب مجھے مزید کچھ نہیں کہنا ہے - بہت شکریہ

    ReplyDelete
  17. Md,
    پذیرائ سے میری مراد اسکی کمرشل ویلیو ہے۔ اس پہ جو خرچہ آیا وہ نہیں ملا۔ بخدا ذرا آپ اپنی یاد داشت پہ زور دے کر بتائیں کہ تھر پہ اتنی تفصیلی اور مثبت فلم آپ نے کون سی دیکھی ہے۔ باقی آپ یہ سوچیں کہ صرف مائ بھاگی کا گیت ہی تھر ہے تو ایسا نہیں ہے۔ کوئ چیز آپکو پسند ہو سکتی ہے لیکن وہی ہر چیز نہیں ہو سکتی ابھی تو آپ اسکی پس منظر میں موجود موسیقی میں استعمال کئے جانے والے ساز اور راگ پہ غور کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ اس میں کیا مختلف ہے اور اسکے کرنے والے نے اس پہ کتنی محنت کی ہے۔ اسکے ریسرچ میٹیریئل پہ خآصی محنت کی گئ ہے۔ فلم میں موجود ایک ایک منظر کو اسکے موسم میں اور تہوار میں لیا گیا یے اور اس سے آپکو پتہ چلنا چاہئیے کہ اس پہ کتنا وقت لگایا گیا ہے۔ مگر خدا جانے کیوں آپ مائ بھاگی کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ تان سین بھی اپنے وقت کا انمول گویا تھا مگر وقت کسی کے لئے رکتا نہیں۔ اور بھی لوگ ہیں ، تخلیق کار ہیں جنہیں پذیرائ ملنی چاہئیے یہ تو نہیں ہونا چاہئیے کہ جسے ایک دفعہ شہرت مل گئ وہی اب تخلیق کے سنگھاسن پہ بیٹھا رہے گا۔
    یہ کوئ انڈین کمرشل فلم نہیں، دستاویزی فلم ہے۔ آپکو اسکے ریسرچ میٹیریئل پہ توجہ دینی چاہئیے۔ یہ دیکھنا چاہئیے کہ کیا یہ تھر کے عام آدمی کی زندگی آپکے سامنے لاتی ہے یا نہیں، کیا یہ آپکو اسکی تاریخ اور جغرافیہ کا علم دیتی ہے یا نہیں کیا یہ وہاں پہ موجود ثقافتی اور ماحولیاتی تنوع کو پیش کرتی ہے یا نہیں۔ کیا یہ وہاں کے باشندوں سے آپکو قریب کرتی ہے یا نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اپنی اس معصوم خواہش پہ اتنا اصرار کیوں کر رہے ہیں حتی کہ اسکی وجہ سے آپ اس پوری فلم کو ریجیکٹ کرنے کو تیار ہیں۔
    اب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ محض مائ بھاگی کا گیت ڈالنے سے یہ اس قیمت پہ بکے گی جس پہ اسکا تخلیق کار اسے بیچنا چاہتا ہے تو ہم انہیں قائل کر کے برکت کے لئے کہیں نہ کہیں اس گانے کو ڈال دیتے ہیں۔
    اب آپ اصل موضوع کی طرف آئیں اور اسے خریدنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

    ReplyDelete
  18. عثمان، آپ نے کینیڈا کی بات کی ۔ آسٹریلیا مِیں بھی ایسا ہی ہے۔ وہاں کے ان باشندوں کو ایبرجن کہتے ہیں۔ اور وہاں انکے ثقافتی ورثے کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یا تو انسانی ضرورت ارتقاء کو متعارف کراتی ہے یا جب تک ایک تہذیب کے سامنے دوسری تہذیب نہیں کھڑی ہوتی ارتقاء کا سفر شروع نہیں ہوتا۔ اگر انسان تہذیب اور علم میں قناعت اختیار کر لے تو جمود طاری ہوتا ہے۔
    اب آپکے استاد بننے کی باری آئ۔
    مجھے آپ سے یہ معلوم کرنا تھآ کہ یہ تبصرے میں آپ لنک کیسے ڈالتے ہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  19. آپ کی سوئی مائی بھاگی پر اٹک گئی -جبکہ ڈاکومینٹری کی کم پزیرائی کی دیگر وجوہات کی جو میں نے نشان دہی کی تھی اسکے جواب آپ نے گول کردیئے- زرا غور سے میرے تبصرہ کو دوبارہ پڑھیں میں نے مائی بھاگی کے علاوہ دیگر خامیوں کی بھی نشان دہی کی ہے - مائی بھاگی میری معصوم خواہش نہی-آپ ساجد بھائی کاتبصرہ دیکھیں اُنکا کہنا ہے میں تھر کو مائی بھاگی کے گیتوں کے حوالہ سے جانتاہوں - ایسے کئی ساجد بھائی ھیں جو پیلے کپڑے ،پیلی پگڑی اور کھڑاویں بجانے والے فنکاروں کے حوالے سے تھر کو جانتےہیں - میرے خیال میں جس ٹیم نے یہ ڈاکومینٹری بنائی ہے وُہ تھر کی موسیقی کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکا اسی لئے اُسنے ڈاکومینٹری میں اسکو اتنی جگہ نہیں دی جسکی وہ حق دار تھی میں سمجھتا ہوں اس ڈاکو مینٹری میں یہ ایک بُہت بڑی خامی ہے جسکی وجہ سے وہ توجہ حاصل نہ کر سکی جسکی ٹیم کو توقع تھی -چونکہ تھر کا پاور فُل حوالہ تھر کی موسیقی ہے اسمیں نمائیندہ فنکاروں کی جھلکیاں ہونی چاہئیں تھیں - رہی بات خرید نے کی تو طریقہ کار بتادیں میں حوصلہ افضائی کے طور پر خریدوں گا - بُہت شکریہ

    ReplyDelete
  20. طریقہ وہی ہے جو آپ پوسٹ لکھتے وقت استعمال کرتی ہیں۔ پھر بھی واضح کردیتا ہوں:

    لنک

    < a href="http://www.url-that-you-want-hyperlinked.com">word or words that you would like your readers to click< / a >

    نمایاں
    < b > متعلقہ جملہ لکھیے< / b >

    اٹالک
    < i > متعلقہ جملہ لکھیے< / i >

    with no space at the beginning between "< and a" or at the end between "< and / and a and >" which was done here to show the hyperlink html code rather than have it automatically link

    اکثر لوگ تبصرہ کرتے وقت ان پر توجہ نہیں دیتے۔ وجہ یہ ہے کہ تھوڑا وقت لگتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ کار ضرور استعمال کرنا چاہیے اگر آپ کو اپنی بات مؤثر طریقہ سے پہنچانی ہے۔ لنک اسطرح دینے سے ہر آدمی غیر ارادی طور پر کلک ضرور کرتا ہے۔ جبکہ ویسے ہی پیسٹ کردینے سے کوئی بھی متعلقہ لنک پر کلک نہیں کرتا۔
    نمایاں کرنا بھی بہت بہتر ہے۔ ہر آدمی کی نظر لازماً متعلقہ لفظ یا جملے پر پڑتی ہے۔
    اٹالک کرنا مجھے صرف انگریزی ہی میں بہتر لگتا ہے۔ اردو میں اتنا اچھا نہیں لگتا۔
    یہ کوڈ لگانے سے پہلے سپیس کے متعلق اوپر دی گئی ہدایات پر ضرور عمل کریں۔ کوڈ لگانے کے بعد اپنے تبصرے کا پری ویو ضرور دیکھیں کہ آیا کوڈ صحیح لگا ہے اور جملہ گڈمڈ تو نہیں ہوگیا۔
    یہ تو تھا بلاگر ڈاٹ کام پر استعمال ہونے والی تراکیب۔ ورڈ پریس پر وہ حضرات جنہوں نے میری طرح اردو ایڈیٹر کا پلگ ان لگا رکھا ہے۔ وہاں طریقہ کار مختلف ہے۔ جو مجھے خود بھی ٹھیک سے نہیں معلوم۔ اگر آپ کو اس کے بارے میں معلومات چاہیے تو میں پوچھ کر بتا دوں گا۔

    ReplyDelete
  21. یوٹیوب پر مائی بھاگی کے گانے سنے ہیں جی۔
    دو گھنٹے سو کے اٹھا ہوں۔
    اچھا ہوا مائی جی مووی میں نہیں ڈالی۔
    نہیں تو چار گھنٹے سونا پڑجاتا۔

    ReplyDelete
  22. میں نے ایک تفصیلی کمنٹ میں آپ کو ایچ ٹی ایم ایل کے کوڈ بتائے تھے. لنک وغیرہ لگانے کے لئے.
    کیا آپ کو ملے نہیں؟ کمنٹ نظر نہیں آرہا.

    ReplyDelete
  23. مجھے تو صرف قدرتی مناظر دیکھنے کا خبط ہے خواہ وہ ریگستان کے ہوں یا پہاڑوں اور آبشاروں کے
    میرے لیے اس ویڈیو میں اس کے سوا کوئی کام کی بات نہیں کہ چند لمحے کے لیے ذہن قدرتی مناظر کے حسن میں کھو جاتا ہے
    فلم آپ تھر کے بجائے سمندر پر بھی بناتیں تو مبارکباد کی مستحق تھیں
    خوب محنت کرنی پڑتی ہے
    مبارک ہو
    ایک مرتبہ میرے ذہن میں بھی پاکستان کی سمندری اور میٹھے پانی کی مچھلیوں کی فلم بنانے کی سوجھی تھی لیکن واقعی جو فرصت درکار تھی وہ میسر نہ آسکی

    ReplyDelete
  24. office mai www.youtube.com band hai ghar ja kr hi dekhon ga

    ReplyDelete
  25. عثمان آپکا بہت شکریہ کہ آپ نے ایک نو وارد کی حمایت میں لکھا - ورنہ سینئیر بلاگر کچھ بھی لکھیں واہ واہ ہوجاتی ہے - یو ٹیوب پر سن کر آپ اتنے مدہوش ہوئے کہ پورے دو گھنٹے سوئے اور اگر فلم میں سنتے تو یقینا" آپ پورے چار گھنٹے سوکر اٹھتے - آپ کو تو معلوم ہے نہ نیند قدرت کا کتنا پیارا عطیہ ہے -نیند کیلئے ہم خالق کائنات کا جتنا شُکر ادا کریں کم ہے -یہ ان سے پوچھئے جنہیں گولیاں کھا کر بھی نیند نہیں آتی - کتنے عذاب سے گُزر تے ہیں - میرا خیال ہے فلم میں موجود گانوں نے آپ کی نیند بیدار کردی ہوگی -------ھیلو ، ھیلو --کون کہاں سے بول رہا ہے --اوہو کینڈا سے عثمان --کیا کہا آپ نے میں خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا ہوں -آپ نے وہ تبصرہ استانی جی کی حمایت میں لکھا ہے اوہو غلطی ہوگئی - اچھا آپ معزرت تو قبول کرتے ہیں نا اسلئے قبول فرمائیں - بہت شکریہ

    ReplyDelete
  26. احمد شفقت صاحب، آپکے اس تفصیلی اور باریک بیں تجزئیے کا بے حد شکریہ۔ اس فلم کو یہاں جگہ دینے کا مقصد محض اس بلاگ پہ آنے والوں کا اس کاوش سے اور تھر کے اس ان دیکھے اور ان سنے پہلو سے متعارف کرانا تھا۔ آپ کو پسند آئ، بے حد شکریہ۔

    ReplyDelete
  27. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  28. آخر کار فلم دیکھ ہی لی،
    سب سے پہلے تو امر محبوب صاحب کو مبارکبادایک عمدہ ڈکومینٹری کے لیئے،واقعی تھر کے ان رنگوں کا ہمیں بھی علم نہ تھا اور ان کی اس فلم نے بہت سے لوگوں کو حقیقی تھر سے روشناس کروایا!!!!!!
    :)
    اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ لوگ اس فلم کے لیئے ایک سال تک تھر میں رہے یا چاروں سیزن پر جاتے آتے رہے؟؟؟؟؟؟
    کیونکہ اس فلم کو دیکھ کر بنانے والے کے تھر سےدلی تعلق کا احساس ہوا،
    باقی تفصیلی تعریف تو اپنے احمد عرفان شفقت صاحب کر ہی چکے ہیں،ان سے پورے طورپر متفق ہوں،
    آپکا اور امر محبوب صاحب کا بہت بہت شکریہ پاکستان کے ایک خوبصورت اور اچھوتے پہلو سے روشناس کروانے کے لیئے!!!!!!!
    :)
    آپکے تجربات جو وہاں رہتے ہوئے آپکو ہوئے انکا بھی انتظار رہے گا!!!!

    ReplyDelete
  29. عبداللہ، تھر اتنی آسان جگہ نہیں ہے۔ اور نہ یہ محض ایک سال میں ممکن ہو سکتا تھا جبکہ فلم کا بجٹ انتہائ محدود تھا۔ پچپن منٹ کی یہ فلم جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے ساٹھ گھنٹے کی فوٹیج سے نکالی گئ ہے۔ جس جگہ آپ آدھ منٹ کا گانا دیکھتا ہے وہاں در اصل ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو لوگوں نے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہوگا اور اس جگہ پہنچنے میں گھنٹوں کی مشقت سے گذرنا پڑا ہوگا۔ میں ایک دفعہ آٹھ دن کے لئے اس مہم پہ ساتھ تھی۔ اور واپسی میں آنکھوں کا شدید انفیکشن ہوا جسکے نتیجے میں میری آپٹک نرو متائثر ہوئ۔ اور ابھی چار سال گذر جانے کے با وجود اس میں کوئ نمایاں تبدیلی نہیں ہوئ۔ بس خدا کا شکر ہے کہ دیکھنے والے کو میری اس تکلیف کا اندازہ نہیں ہوتا البتہ پڑھنے لکھنے میں مجھے کچھ مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ تو اس فلم کی شوٹنگ سب سے مشکل اور ان تھک محنت کا کام تھا۔ اور انتہائ محدود وسائل میں یہ امر محبوب کی ہمت تھی کہ انہوں نے اتنا کام کیا۔ واقعی وہ تحسین کے مستحق ہیں۔

    ReplyDelete
  30. جی عنیقہ مجھے انداذہ تو تھا کہ یہ ڈاکومینٹری بنانے میں آپ لوگوں کو خاصی تکالیف اٹھانا پڑی ہوں گی !
    مگر اپنے آرام دہ گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والوں پر بے تکی تنقید کرنے والون سے تو پورا پاکستان بھرا پڑا ہے اگر کام کرنے اور ان کے کامون پر بے جا تنقید کرنے والون کی تعداد الٹ جائے تو پاکستان بہت جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ،مگر اے بسائے آرزوکہ خاک شد
    :(

    ReplyDelete
  31. اگر آپ اپنی تکلیف کے بارے میں تفصیل سے مجھے ای میل میں بتا سکیں تو مہر آپی سے مشورہ کیا جاسکتا ہے ،یا پھرآپ خود ہی کسی اچھے تجربہ کار ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو دکھالیں ،مگر میرا خیال یہی ہے کہ اپ اس مسئلے سے لاپرواہی نہ برتیں تو بہترہے!!!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ