Wednesday, August 11, 2010

ایک ماں اپنے بیٹے کی زبانی-۱

اگست کا مہینہ شروع ہونے سے قبل میرا مصمم ارادہ تو یہ تھا کہ اس مہینے سرسید پہ جو کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں اسے لکھ دوں۔ کہ دستور جو کچھ ہو لیکن موقع اچھا ہے۔ لیکن ایک تو میں سات سمندر پار بمعہ اپنے خاندان کے ہجرت نہیں کر گئ  ہمیشہ کے لئے۔ اور یہ کہہ کر مٹی پاءوں کہ سانوں کی۔ دوسرے یہ کہ تباہ کن سیلاب جیسا کہ زرداری صاحب نے بھی فرمایا بغیر اطلاع کے آ گیا۔ تیسرے یہ کہ کراچی میرا جائے توطن اور متوقع جائے مدفن ہے۔ اس طرح میرا قلم شہر کراچی اور ملک کے درمیان ایک فری الیکٹرون کی طرح حرکت میں آگیا۔  ادھر جو لوگ شہر سے باہر تھے انکا شہر میں آ کر اٹک گیا۔ پھر یہ کہ جوتم پیزار مجھے پسند تونہیں کہ جمہوری طریقہ نہیں، لیکن پھر بھی جمہور اور جوتے کے درمیان چلی جنگ، یہاں بھی جگہ پا گئ کہ یہی رائج الوقت جمہوریت ہے۔
خیر، سر سید احمد خان پہ اردو وکیپیڈیا پہ ایک تفصیلی مضمون موجود ہے۔ تو پھر میرا  دل کیوں چاہ رہا ہے کہ ان پہ لکھوں؟
بات یہ ہے کہ  یہ مضمون  دستاویزی قسم کا ہے۔ اس سے انکے کارنامے تو پتہ چلتے ہیں لیکن بحیثیت ایک زندہ انسان انکی شخصیت محسوس نہیں ہوتی۔
ادھر میں نے انکے حوالے سے کچھ کتابیں دیکھیں، جنکا تذکرہ آگے کسی تحریر میں آئے گا۔ لیکن ایک دن میں نارتھ ناظم آباد کراچی سے گذرتے ہوئے وہاں واقع ایک چھوٹی سی لائبریری میں داخل ہو گئ۔ اسکا نام تیموریہ لائبریری ہے۔ یہاں مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسکا نام ہےسر سید احمد خان، شخصیت اور فن۔ اس کتاب کے مصنف ہیں جمیل یوسف اور اسے اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد نے شاٰئع کیا ہے۔ مجھے یہ کتاب اس حوالے سےخاصی پسند آئ۔
 اس سلسلے کی پہلی تحریر انکی والدہ کے حوالے سے ہے۔
  سر سید کے خاندان ددھیالی خاندان کے دہلی کے مغل خاندان سے روابط تھے۔انکے دادا کو بادشاہ کی طرف سے خطابات اور عہدہء احتساب و قضا دیا گیا۔ انکے والد کو بھی شاہ کی طرف سے یہی خطبات اور منصب پیش کیا گیا۔ مگر اپنی آزاد طبیعت اور درویشی کی وجہ سے انہوں سے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
انکے نانا، خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر،  ۱۸۱۵ء میں اکبر شاہ عالم ثانی کے وزیر اعظم رہے۔ اور دبیرا لدولہ امین الملک مصلح جنگ کے خطابات پائے۔ گورنر جنرل ولزلی نے انہیں اپنا وزیر بنا کر ایران بھیجا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے منصب وزارت کی پیش کش کو اپنی سب سے بڑی بیٹی عزیزالنساء بیگم  جو کہ سرسید کی والدہ تھیں، انکے مشورے پہ قبول نہ کیا۔
سر سید کی والدہ ماجدہ غیر معمولی سیرت و کردار کی مالک اور بڑی دانشمند خاتون تھیں۔  وہ نہ صرف بڑی راسخ العقیدہ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ صحیح العقیدہ مسلمان تھیں۔ سر سید ااپنی والدہ کے فہم دین کے متعلق لکھتے ہیں
اس زمانہ میں جبکہ میرے مذہبی خیالات اپنی ذاتی تحقیق پر مبنی ہیں اب بھی میں اپنی والدہ کے عقائد میں کوئ ایسا عقیدہ جس پر شرک یا بدعت کا اطلاق ہو سکے نہیں پاتا۔
سرسید کی عظیم شخصیت اور بے مثل سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر میں زیادہ تر انکی والدہ کی تربیت کا حصہ ہے۔ انکے والد میر متقی ایک آزاد منش اور درویش صفت انسان تھے اور زیادہ وقت اپنے مرشد حضرت شاہ غلام علی کی خانقاہ پہ گذارتے اور انکی صحبت میں رہتے تھے۔ گھر کا انتظام و انصرام سر سید کی والدہ کے سپرد تھا۔ 
اپنی والدہ کے بارے میں بتاتے ہیں
جب میں انکو سبق سناتا یا نئے سبق کا مطالعہ انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا تو ایک لکڑی جس میں سوت کی گندھی ہوئ تین لڑیں باندھ رکھی تھیں۔ اپنے پاس رکھ لیتیں۔ وہ خفا تو اکثر ہوتی تھیں مگر ان سوت کی لڑوں سے کبھی مجھے مارا نہیں۔
دس گیارہ برس کی عمر میں ایک دفعہ ایک بوڑھے نوکر کو تھپڑ مار دیا، والدہ نے گھر سے نکال دیا۔  نوکرانی نے چپکے سے خالہ کے گھر پہنچا دیا۔ دو دن خالہ کے گھر چھپے رہے تیسرے دن خالہ لیکر والدہ کے پاس گئیں۔ تاکہ قصور معاف کرائیں، انہوں نے نوکر سے معافی مانگنے کی شرط پہلے رکھی۔ ڈیوڑھی میں جا کر نوکر کے آگے ہاتھ جوڑے تو قصور معاف ہوا۔
سر سید کے بڑے بھائ کا جواں عمری میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ مرض الموت میں وہ انکے پاس ہی بیٹھی رہتیں۔ ایک مہینہ اسی حالت میں رہ کر انتقال کر گئے۔ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ فجر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ وضو کر کے نماز پڑھی اور اشراق تک مصلے پہ بیٹھی رہیں۔ انہی دنوں ایک رشتے دار کی بیٹی کی شادی ہونے والی  تھی۔ شادی میں صرف چار دن رہ گئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔ لوگوں نے حسب دستور شادی کو ملتوی کرنا چاہا انکی موت کے تین دن بعد وہ انکے گھر گئیں اور کہا میں شادی والے گھر میں آئ ہوں۔ ماتم تین دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ جو خدا کو منظور تھا ہو چکا۔ تم شادی کو ہرگز ملتوی نہ کرو۔

جاری ہے

2 comments:

  1. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    واقعی نپولین بوناپاٹ کاایک قول ہےآپ مجھےاچھی مائیں دومیں آپکواچھی قوم دوں گا۔توماں کابہت زیادہ اثرہوتاہےاورماں کی گودبچےکی پہلی درس گاہ ہے۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  2. عنیقہ، جہانزیب اشرف نے آپسے کچھ سوالات کیئے تھے جن کے جوابات مینے دے دیئے چونکہ وہ ان حضرت کو تیر کی طرح جاکر لگے سو انہوں نے اپنے بزرگوں کی روایت پر عمل کرتے ہوئے انہیں ڈلیٹ کردیا کیونکہ انہیں ان تبصروں میں اپنی شکل کی بدصورتی نظر آرہی تھی !
    انہون نے فرمایا تھا،
    سرراہ آپ نے بابر کے خیالات پیش کر کے اپنے بھائی بندوں کی ترجمانی کر دی ہے، بھائیوں اور باپ کو بوقت ضرورت قتل کر کے فائدہ حاصل کرنے والے لوگ آج آپ کی وجہ سے معزر ٹھہرے ۔ تو آپ کا بھی اپنے بھائی بندوں جیسا عقیدہ ہے کہ ہم بے شعوروں کو اردو بول بول کر شعور آیا ہے؟
    اس پر مینے لکھا کہ بادشاہون کے قتل و غارت کو آپنے پوری قوم پر منطبق کردیا مگر یہ بھول گئے کہ کہ آپکی قوم کے لوگ آج بھی اپنے باپ بھائیوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے رہتے ہیں وہ بھی معمولی سی جائداد یا زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لیئے!

    آگے جناب نے فرمایا،
    پنجاب والوں نے اردو کو جس طرح اپنایا ہے ویسے تو “اردو اسپیکنگ” والوں نے بھی اردو کو نہیں اپنایا، اور آپ کے شہر کی جامعہ میں بھی پنجابی میں ایم اے کروایا جاتا ہے، اگر آپ کرنا چاہیں تو ۔ آپ کے پاس تو کسی دوسری زبان کی “چوائس” نہیں تھی، ہمارے پاس تھی ہم نے پھر بھی اردو کو ترجیع دی، یہ سننے کے لئے کہ آپ کے پاس رسم الخط نہیں ۔

    مین نے جواب مین لکھا ،
    جہانزیب اشرف یہ احسان تو آپ رہنے ہی دیں ،جنہون نے اردو کو اپنایا صرف اور صرف حکومت کرنے کے اور اپنے ذاتی فائدے کے لیئے!
    آپلوگ کیوں نہین اپنی زبان کی ترویج کے لیئے کام کرتے ؟کسی نے آپکا ہاتھ تو نہیں پکڑ رکھا ہے!

    اس کے علاوہ مینے افتخار اجمل کے لنکس کے جواب میں لکھا،کہ یہ کیا آپکا پنجابستانی اسلام ہے جس کی آپ ترویج فرمارہے ہیں؟؟؟؟

    اس کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ میں نے تو کسی اردو بولنے والے کو اعلی نسل کے زعم میں مبتلا نہیں دیکھا ،میں نے تو نجیب الطرفین سیدوں کو بھی پٹھانوں کے شادی بیاہ مین انکے ساتھ زمین پر بیٹھ کرکھانا کھاتے دیکھا ہے اور پنجابیوں کے ساتھ اس طرح دکھ سکھ مین شریک ہوتے دیکھا ہے کہ کیا انکا کوئی اپنا رشتہ دار شریک ہوتا ہوگا!

    بس یہ باتیں انہین اتنی ناپسند ہوئیں کہ انہون نے میرے تمام تبصرے ڈلیٹ کردیئے اور یہ فرمایا!

    عبداللہ لوگوں کے ترجمان بننا چھوڑ دیں، جن سے پوچھا گیا ہے ام کے منہ میں بھی زبان ہے ۔
    بلاگ منتظم
    اور مینے ایک لنک بھی لگایا تھا،

    تہزیب یافتہ،غیرت مندوں کی غیرت کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال!

    http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5827096,00.html

    جناب نےیہ لنک چھوڑ دیا مگر کچھ اس طرح فرمایا،

    عبداللہ آپ جتنے تعصب میں آگے نکل چکے ہیں وہاں آپ کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے، کسی کی تحریر کھیر پکانے کے متعلق ہو وہاں بھی آپ ایم کیو ایم اور اردو اسپیکنگ کا کٹا لے کر گھس جاتے ہو ۔
    آپ کے دماغی تعصبی دنیا میں، جرائم صرف پنجاب میں ہوتے ہیں اور جو علاقے پنجاب میں نہیں وہاں یا تو جرائم ہوتے نہیں یا پنجابی ہجرت کر کے آنے والے نے کئے ہیں ۔
    آپ کے تبصرہ جات حذف کئے گئے ہیں، اگر آپ اپنی روش سے باز نہ آئے تو آپ سے لنک پوسٹنے کی سہولت بھی چھہن لی جائے گی ۔

    اب آپ اور دیگر پڑھنے والے یہ بتائین کہ اس میں کونسی غلط بات مینے کہی ہے!
    خود کا یہ حال ہے کہ ان کے بھائی بند میرے ہر تبصرے میں لغو باتیں کر کے اپنی ٹانگ گھسیڑین تو انہین قطعی اعتراض نہین بلکہ یہ صاحب بھی اس میں شامل ہوکر انجوائے کریں اور میرے جائز تبصرے بھی اس طرح ڈلیٹ کر دیئے جائیں!!!!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ