Thursday, March 24, 2011

ساحل کے ساتھ-۹


یہ گوادر میں مرنے والے کیا ذکری تھے؟ نہیں، نہیں، نمازی تھے۔ ہمم، تو یہ بھی نہیں سوچا جا سکتا کہ مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ انہیں یقین تھا کہ ایجنسی والوں نے مارا ہے۔ یہ ہنگامہ کرنے والے لوگ بہت تھوڑے سے ہیں۔ سب کو باہر سے پیسہ ملتا ہے۔ ایجینسی والوں نے سوچا ہوگا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں پیچیدگیاں زیادہ ہیں۔ پکڑو اور ماردو۔ یہ ان کا خیال تھا۔
 یہاں میں نمازی اور ذکری کا فرق بتاتی چلوں۔ بلوچستان میں عمومی طور پہ اور ڈسٹرکٹ گوادر میں بالخصوص مسلمانوں کا ایک فرقہ پایا جاتا ہے جو ذکری کہلاتا ہے۔ ذکری، کراچی میں بھی پائے جاتے ہیں اسکے علاوہ ایران میں بھی موجود ہیں۔  انکے فرقے کے بانی کے طور پہ ایک شخص محمد جونپوری کا نام لیا جاتا ہے۔ زکریوں کے عقیدے کے مطابق وہ امام مہدی ہیں۔ کچھ کے خیال میں وہ ایک صوفی تھے اور ذکری دراصل صوفی ازم کی کسی تحریک سے متائثر ہو کر وجود میں آیا۔
ذکری اور نمازی میں فرق جیسا کہ نام سے اندازہ ہو تا ہے، نماز کا ہے۔ ذکری نماز کی جگہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ مذہب تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے۔  ذکرکے اوقات مقرر ہیں۔ جس جگہ ذکر کیا جاتا ہے اسے ذکر خانہ کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت مسجد کا ظاہری حلیہ نہیں رکھتی کسی گھر کا کوئ کمرہ بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کہ میسر مواد کہتا ہے کہ ذکری دن میں پانچ دفعہ نماز کی جگہ پانچ دفعہ ذکر کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پہ میں دیکھتی ہوں کہ ایسا اجتماع ہفتے میں ایک بار ہوتا ہے۔
ذکریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حج بھی کرتے ہیں لیکن وہ رمضان کی ستائیس تاریخ کو گوادر شہر کے قریب واقع ایک اور شہر تربت میں موجود ایک مقام کی زیارت کو جاتے ہیں یہ مقام کوہ مراد میں واقع ہے۔ جہاں انکے مطابق امام مہدی کبھی رہ چکے ہیں۔ اسے زیارت بھی کہا جاتا ہے اور اسکے اعمال حج سے ملتے جلتے ہوتے ہیں سنتے ہیں کہ وہاں ایک کنواں بھی موجود تھا جو اب خشک ہو چکا ہے۔ یہ آب زم زم کے وزن پہ چاہ سم سم کہلاتا تھا۔
یوں ، مجھے سن دو ہزار تین میں اسکے متعلق جان کر حیرانی ہوئ کہ قادیانیوں کی طرح سے انہیں غیر مسلم کیوں نہیں قرار دیا گیا۔ آج سن دو ہزار گیارہ میں ذکریوں کو اپنے تحفظ کے متعلق خدشات ہیں۔ اور لوگ علی الاعلان اپنے آپ کو ذکری کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسکی وجہ آپ جانیں؟
جب سے کوسٹل ہائ وے بنی ہے مختلف اسلامی گروپوں کا یہاں نفوذ آسان ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار تین میں جب میں یہاں پہلی دفعہ آئ تھی۔ کوئ بڑا مدرسہ موجود نہ تھا۔ چھوٹے درس قرآنی کے مدرسے ہوں تو ہوں۔ کوسٹل ہائ وے کی تکمیل کے دوران ہی  زمین کا ایک بڑا ٹکڑا ایک مذہبی تنظیم کے حوالے کیا گیا۔ اب اس پہ ایک خاصی بڑی عمارت موجود ہے۔
ان گروپوں نے ذکری فرقے کو خلاف اسلام قرار دینے کی جد و جہد شروع کر دی ہے۔ کچھ بلوچوں کے خیال میں ذکریوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش بھی پنجابیوں کی ہے۔
خیر، یہاں تک آنے کے بعد آپکو یہ تو سمجھ آرہا ہوگا کہ عام سنّی مسلمان نمازی کہلاتا ہے۔ ابھی تک نمازی اور ذکری ایک دوسرے سے معاشرتی تعلق رکھتے ہیں۔ انکی آپس میں رشتے داریاں ہیں اور وہ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ عقائد کے فرق کے باوجود وہ اپنے آپکو ایک ہی سمجھتے ہیں یعنی بلوچ۔
اچھا ، اس ہڑتال سے ہمارے واپسی کے منصوبے پہ کچھ ایسا ہی بھونچکا  اثر پڑا جیسا آدم کا دانہ ء گندم کھانے کے بعد دنیا کے حالات پہ پڑا۔  لوگ بڑے فخر اور بے نیازی سے کہتے ہیں کہ ہمیں سیاسی موضوعات اور گفتگو پسند نہیں آتے۔ مگر یہ سیاسی حالات لمحے بھر میں ہماری  ترجیحات،  امیدوں اور خدشات کو یکدم تبدیل کر دیتے ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ہم انکے متعلق کیسے خیالات رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جنت سے ہمارا نکالا جانا بھی سیاست شیطاں ہی تھی۔
اب کہاں تو ہم میٹھی سویوں کی خوشبو میں غرق  تھے۔ اس خیال سے مہمیز تھے کہ رات کو  چھت پہ بیٹھ کر ستاروں کی کہکشاءوں سے مزین آسماں کی رونق  کو  دیر تک نرگس کی آنکھ سے دیکھیں گے کہ کراچی میں آسماں تک پہنچنے سے پہلے ہی نظر دھویں کی آلودگی میں گم ہو جاتی ہے۔ یہی آسماں ہوتا ہے مگر اس قدر آباد نہیں۔ کہاں ہمارے خیال دل افروز کی ایسی دھجیاں بنیں کہ وہ خود خشک سویوں کی شکل میں آگیا۔ ستاروں کا خیال ذہن آسمانی سے بھک سے اڑ گیا۔ ہم اب روحانی طور پہ کراچی میں تھے۔
وہ لوگ رخصت ہوئے تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہماری موجودگی اتوار کے دن کراچی میں ہونا لازمی تھی۔   اگر دودن ہڑتال  وجہ سے رکتے ہیں تو اتوار کو ہی نکل پاتے۔  یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ادھر ہڑتال کی وجہ سے اگلے دن ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہو گی ۔ اس لئے واپسی کا منصوبہ اسی لمحے بنانا تھا ۔
وہاں سے کراچی کے لئے چلنے والی بس ساڑھے آٹھ بجے روانہ ہونی تھی۔ جو دراصل گوادر شہر سے یہاں آتی ہے۔ اس وقت ساڑھے چھ بج رہے تھے۔
چلیں جناب، پہلے بکنگ آفس سے معلوم کرنا پڑے گا کہ بس میں تین افراد کے لئے جگہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ یہ کہہ کر روانہ ہوئے۔
کراچی کی منی بسوں میں دن رات لمبے لمبے سفر کرنے کے باوجود میں پاکستان میں شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے سفر سے اب تک محروم رہی تھی۔  اور اب کن حالات میں اس سفر کے امکان پیدا ہوئے۔ شام ، سات بجے اطلاع ملی کہ بکنگ ہو گئ ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے روانگی ہے۔ بس والوں کا کہنا ہے کہ سات گھنٹے میں کراچی پہنچ جائیں گے۔
سویاں اٹھا کر رفیق بلوچ کے حوالے کیں۔ جلدی جلدی، بھاگم بھاگ چار دن کی پھیلائ گرہستی کو سمیٹا۔ رات کے کھانے کے لئے روٹی اور آملیٹ تیار کر کے باندھا۔ کچن کو صاف ستھرا کیا کہ بعد میں آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔ اب ہم گوادر سے کراچی بس کے سفر کے لئے تیار تھے۔
صرف دو سیٹیں ملیں۔ ہڑتال کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں سے نکلنا چاہ رہے ہیں اور بس بھری ہوئ ہوگی۔ یعنی مشعل ساری رات ہم دونوں کی گود میں پھیل کر سوئیں گی۔ 
ساڑھے آٹھ بجے ہم بس کے اڈے پہ کھڑے تھے۔ رفیق بلوچ میرے پاس آیا اور ایک تھیلا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس میں گوادر کی مٹھائ ہے۔ اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا۔ مٹھائ، میں نے اسکی کیلوریز کا حساب لگایا۔ پھر اپنے پہ تف بھیجی، جدید شہری انداز زندگی کے متائثرین، جذبات کو بھی کیلوریز میں دیکھتے ہیں۔
ایک جانی پہچانی منزل کی طرف، جانے پہچانے راستوں پہ ایک  انجان سفر شروع ہونے کو تھا۔  دیکھیں تو ہر سفر ہی اپنے اختتام تک انجان رہتا ہے، جیسے زندگی کا سفر۔ لیکن بعض اوقات یا تو راستوں میں اتنے طلسم  ہوتے ہیں کہ راستےمیں ہونے کا احساس دل سے نکل جاتا ہے جیسے ایلس ان دا ونڈر لینڈ یا پھر انگریزی کا ایک محاورہ اختتام اچھا ہو تو سب اچھا ہوتا ہے، سفر بھی گذر ہی جاتا ہے۔ 
ساڑھے نو بجے رات کو پاکستان کےمعیاری طریقہ ء تاخیر کے مطابق بس آئ۔ میں نے مشعل کو گود میں سنبھالا، اور ذرا عالم جوش میں گوادر کے ساحل سے بس میں قدم رکھا، یوں جیسے کولمبس نے امریکہ کے ساحلوں پہ پیر دھرے ہوں۔ میرا گوادر سے کراچی پہلا بس کا سفر۔


جاری ہے

21 comments:

  1. آپ کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ گوادر کے حالات باہر کے لوگوں کے لیے اچھے نہیں یعنی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ لیکن پھر یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کیسے سیر سپاٹا کر آئیں ۔ ویسے میری پریشانی کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں خود بھی ان جگہوں میں گھومنا چاہتا ہوں ۔

    ReplyDelete
  2. سفرنامہ لکھنے کا انداز اچھا ہے يعنی پڑھتے ہوئے دلچسپی قائم رہتی ہے

    ذکری فرقہ کی تفصيل بتانے کا شکريہ ۔ ميں سُنا ضرور ہوا تھا مگر ذکری کہلانے کا سبب معلوم کرنے کی کوشش نہ کی تھی

    آپ نے سيّدنا آدم عليہ السلام کا جنت ميں گندم کھانے کا لکھا ہے ۔ اس گندم کے متعلق آپ نے کہاں پڑھا ہے ؟ قرآن شريف اور حديث ميں تو ايسا کہيں نہيں لکھا يا شايد مہو اور ميں پڑھنے سے قاصر رہا ہوں ۔ اسلئے حوالہ دے ديں تو نوازش ہو گی

    ReplyDelete
  3. افتخار اجمل صاحب، یہ محض ایک سفر کے حالات ہیں اور بالکل بھی اسلامی تاریخ سے وابستہ تحریر نہیں۔
    سورہ بقرہ میں حضرت ادم اور حوا کی پیدائیش اور جنت سے نکالے جانے کا تذکرہ ہے۔ جہاں ایک درخت کا تذکرہ ہے۔ کس چیز کا درخت ہے قرآن اس پہ خاموش ہے۔ عیسائیوں کے مطابق وہ سیب کا درخت تھا ہمارے یہاں جو روایت مشہور ہے وہ گندم سے متعلق ہے۔ اردو زبان میں یہ محاورہ چلا آرہا ہے استعمال میں بس یہی اسکی اصلیت ہے۔
    جیسے قرآن کہیں یہ نہیں کہتا کہ حضرت حوا کو آدم کی پسلی دے پیدا کیا گیا۔ یہ عیسائیوں کی مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔ بعض لوگ کسی حدیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ اس بیان کا بالکل درست ذریعہ موجود نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  4. مُجھے بی۔بی ۔ سی پر ایک ذکری کا انٹرویو یاد آرہا ہے کہ اُسنے اپنی نماز کے بارے میں بتایا تھا کہ ہم نماز میں ایک سجدہ کرتے ہیں ۔ چونکہ خُدا ایک ہے اسلئے نماز میں سجدہ بھی ایک ہے ۔ بلکہ اُسکا سوال تھا کہ دوسرا سجدہ کس کو کیا جاتا ہے ؟ اُسکا تو یہ بھی کہنا تھا کہ حضورص نے بھی ایک سجدہ والی نماز پڑھی ہے ۔ دوسرا سجدہ کرنا غلط ہے۔ میرا اس بارے میں ابھی تجسس باقی ہے۔ کوئی قاری ٹھوس ثبوت کے ساتھ اصل حقیقت واضع کرسکے ۔ اجازت دیں ۔ خلوص کا طالب ۔( ایم ۔ ڈی )۔

    ReplyDelete
  5. ذکری فرقہ پر مزید معلومات کے لیے یہ مضمون دیکھیں
    http://ahlehaq.com/ah/index.php?option=com_content&view=article&id=162:2011-03-26-19-11-00&catid=65:2010-06-30-21-35-25&Itemid=63

    ReplyDelete
  6. بہت اچھا کيا آپ نے وضاحت کر دی ۔ ميں يہی چاہتا کہ آپ لکھيں ۔ ميں لکھتا تو چند لوگ مجھ پر فتوے لگانے پہنچ جاتے ۔
    ميں آئے دن اچھے خاصے بظاہر تعليميافتہ اور سمجھدار لوگوں سے سُنتا رہتا ہوں ۔ "اس گندم کی وجہ سے حضرت آدم عليہ السلام کو جنت سے نکالا گيا تھا جو ہم کھاتے ہيں"۔

    ReplyDelete
  7. عنیقہ پٹڑیاں بدلتے آپ نے کسی کو دیکھا ہے،ریلوے کی ٹرین کے علاوہ؟؟؟
    نہیں دیکھا تو اب دیکھ لیجیئے!!!!
    :)

    ReplyDelete
  8. افتخار اجمل صاحب، صد شکر کہ آپ نے مجھے رد نہیں کیا۔ اور میں اس امتحان میں پاس ہو گئ۔
    :)

    ReplyDelete
  9. انکل ٹام، آپ نے ذکریوں کے بارے میں لنک دیا۔ شکریہ۔ یہ آپ اسمعیلیوں کے بارے میں کوئ لنک دے سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. تاريخ کے حساب سے اسماعيلی کيا ہيں اس ربط پر ديکھئے
    http://www.historyworld.net/wrldhis/PlainTextHistories.asp?historyid=ab17

    عجيب بات ہے کہ اسماعيليوں کا مذہبی عقيدہ اور ان کا سُنی اور شيعہ کے ساتھ موازنہ کی کئی ويب سائٹس ہوا کرتی تھيں جو سب غائب ہو گئی ہيں

    ReplyDelete
  11. افتخار اجمل صاحب، یہ میں نے کچھ لنکس نکالے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔ یہ سارے لنکس اردو میں ہیں۔ کوئ بھی دلچسپی رکھنے والا شخص انہیں دیکھ سکتا ہے۔

    http://www.islamqa.com/ur/ref/9072
    http://www.urduforum.shiacenter.org/viewtopic.php?t=164
    http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=2879
    http://www.banuri.edu.pk/ur/node/103

    مزید لنکس بھی کافی ترداد میں موجود ہیں۔ مجھے تو حیرانی صرف اس بات پہ ہوتی ہے۔ قادیانی مذہب بھی اسی طرح کی مماثلت اس مذہب سے یا دیگر مذاہب سے رکھتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود صرف انہیں غیر مسلم قرار دینے کی مہم کیوں چلائ گئ اور باقی سب کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟

    ReplyDelete
  12. عنیقہ اس سوال کا جواب آپکو کم سے کم ان لوگوں سے نہیں مل سکے گا،
    سمپل سی بات ہے قادیانی پنجابی جاگیر داروں کو تھریٹ کررہے تھے اس لیئے ان کو غیر مسلم قرار دلوانا ضروری تھا!
    بالکل ایسے ہی جیسے ایم کیوایم کو دہشت گرد قراردلوانا ضروری تھا!

    ReplyDelete
  13. جہاں تک میری معلومات ہیں اسماعیلیہ اور آغاخانی ایک ہی فرقہ ہیں ،۔
    http://www.scribd.com/collections/2326661/Agha-Khani-Ismaili
    دو کتابیں ادھر ہیں ،۔
    http://islamicbookslibrary.wordpress.com/2010/06/21/425/
    اور ایک کتاب یہ ہے ۔
    چونکہ اسماعیلیت شیعت کی ہی ایک شاغ ہے اسی لیے میرا خیال ہے کہ شاید کچھ معلومات آپکو شاہ صاحبؒ کی تحفہ اثنا عشریہ سے مل جائے ۔
    http://islamicbookslibrary.wordpress.com/2010/02/21/tohfa-e-ithna-ashariya-urdu-by-sheikh-shah-abdul-aziz-dehlvi-r-a/
    اور میرے خیال سے قادیانیوں کا ایک دفعہ شور ہو گیا تھا تو تحریک چلا کر علماء نے فائدہ اٹھا لیا اور ایسے قوانین بنوا دیے کہ جس کے بھی ان جیسے عقائد ہوں گے پاکستانی قوانین کے تحت کافر تسلیم کیا جاے گا ۔

    ReplyDelete
  14. انکل ٹام، علماء نے کیا فائدہ اٹھایا۔ سوائے قادیانیوں کے کسی اور کو علی اعلان کافر یا مرتد کہہ کر تو دیکھیں۔
    آغا خانی یا اسمعیلی میرے خیال سے کافی پیسے والی کمیونیٹی ہے اس لئے انکے خلاف ایسا فتوی نکال کر اس پہ عمل کروانا مشکل ہوگا۔

    ReplyDelete
  15. قادیانیوں اور اس ٹائپ کے دوسرے فرقوں میں ایک بڑا فرق قادیانیوں کا غیرمعمولی طور پر متحرک ہونا ہے۔ قادیانی اندر خانے اپنے مذہب کی تبلیغ بڑے زور و شور سے کرتے ہیں۔ جبکہ اوپر اوپر اپنی پہچان چھپاتے ہیں۔ جبکہ اسماعیلی وغیرہ بڑی ٹھنڈی کمیونٹی ہے۔ اپنا مذہب اپنے تک محدود رکھتی ہے۔ اپنی مذہبی پہنچان بھی عام مسلمانوں سے الگ رکھتے ہیں۔ ماسوائے قادیانیوں کے دوسرے "نیم اسلامی" فرقے کافی لبرل ہیں۔ جبکہ اس کے برخلاف قادیانی ایک انتہائی مذہب پرست کمیونٹی ہے۔ آپ اسماعیلی یا اس ٹائپ کے دوسرے فرقوں کے افراد کے پاس بیٹھیں .. وہ کبھی اپنے مذہب اور عقائد کی طرف بات کا رخ نہیں موڑیں گے۔ جبکہ قادیانیوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کسی طرح اپنے مذہبی عقائد کے حق میں کوئی بات کرکے اپنا مذہبی فریضہ تبلیغ سے عہدہ برآ ہوں۔ میں یہاں کینیڈا میں قادیانیوں سمیت کئی مذاہب کے افراد سے بہت ملتا رہا ہوں۔ عموما کسی مذہبی گروہ اور ان کے مذہبی خیالات سے مجھے کبھی کوئی خاص عناد نہیں رہی۔ ہاں البتہ مذہب پرست چاہے وہ کسی بھی فرقے سے ہو، اس سے میری کوئی خاص بنتی نہیں۔ اور قادیانی نہ صرف یہ کہ بہت بڑے مذہب پرست ہیں بلکہ مختلف اقسام کے امیگریشن فراڈ کے ذریعے وطن عزیز کینیڈا میں خیرات کی روٹیاں بھی توڑ رہے ہیں۔ کسی حد تک اچھا ہی ہوا کہ دوسرے مذہب پرستوں نے قادیانی مذہب پرستوں کی گردن پر پاؤں رکھا ہوا ہے۔ قادیانیوں سے میری ناپسندیدگی کی تفصیلی وجوہات پھر سہی۔

    ReplyDelete
  16. عنیقہ آنٹی قادیانی بھی کافی پیسے اور اثر و رسوغ والے لوگ ہیں ، میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو لندن میں رہتا ہے ، اسکا ایک علاقے میں داخلہ بند ہے اور پولیس کی ہر وقت اس پر نظر رہتی ہے وجہ صرف اتنی تھی کہ اسکی کچھ قادیانیوں سے کچھ سلام دعا ہو گئی تو وہ انکو اسلام کی دعوت دینے لگا ، انکے بڑوں تک بات گئی تو انہوں نے یہ سب کروا دیا ۔۔۔

    ReplyDelete
  17. مجھے ایک اور بات یاد آی ، یہاں مسی ساگا میں ایک مولانا صاحب ہوتے ہین وہ کوی ختم نبوت سینٹر بنانے کے چکر میں تھی ، مولانا سہیل باوا صاحب جو لندن ختم نبوت اکیڈمی سے تعلق رکھتے ہیں انکے حوالے سے میری انسے بات ہوی تو وہ بتا رہے تھے کہ یہاں مسی ساگا میں ایک مسجد والے ختم نبوت کانفرنس ٹائپ کی کوی چیز کروانا چاہتے تھے اور انہوں نے اخبار میں اشتہار دیا اور اس میں قادیانیوں کے بارے میں بھی لکھ دیا ۔ قادیانیوں نے وہ کانفرنس ہی کینسل کروا دی ۔

    مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ سٹیفن ہارپر انکی مسجد کا جو کیلگری میں بنی ہے افتتاح کروانے گیا تھا ۔

    ReplyDelete
  18. قادیانیوں نے کیا کینسل کروانی ہے۔ جب دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت انگیز اشتہارات اخباروں میں اس طرح دو گے تو یہی حال ہوگا۔ احمق لوگ ۔۔۔ ختم نبوت والے کیا پاکستان سمجھ کر یہ ڈرامہ کرا رہے تھے؟ کسی بھی فرقے یا مذہب کے خلاف اس طرح سرعام اشتہار شائع کروا کر کانفرنس کراؤ تو یہی نتیجہ نکلے گا۔
    لندن والی بات بھی بونگی دیکھائی دے رہی ہے۔

    ReplyDelete
  19. اشتہار والی بات پر مولانا صاحب نے بھی اسی قسم کی بات کی تھی ، اور یہ کام ختم نبوت والوں کا نہیں تھا ایک مسجد والے خود سے کر رہے تھے، لیکن لندن والی بات میں کیا بونگا ہے ؟؟؟

    ReplyDelete
  20. مذھب پرستی کی اصطلاح یہاں پر غیر ضروری ہے۔ مسلمان اپنے دین پر عمل کرے تو اپنے عقیدے کا دفاع اور تبلیغ ضروری ہو جاتی ہے۔ قرآن کا بھی یہی حکم ہے اس لئے احمدی مسلمانوں کے بارہ میں یہ خیال کرنا کہ نہ جانے کس نیت سےتبلیغ کرتے ہیں نا جائز بات ہے۔
    باقی رہا امیگریشن فراڈ کا معاملہ، تو پاکستانی قانون سے تنگ آکر اگر کوئی ملک چھوڑنا چاھے تو آپ کو کیا تکلیف؟ پہلے اپنے آئین کو درست کریں، پھر الزام دیں تو درست ہو گا۔

    ذکری فرقہ کے عقائد جو بھی ہوں، وہ اگر خود کو مسلمان کہتے ہیں توکسی کو ان کے مذہب سے غرض نہیں ہونی چاہیئے۔ اچھے مسلمانون کی طرح انہیں تبلیغ کریں اور ان کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا کرے تو ان کا دفاع بھی کریں۔ اور اگر کوئی آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتا ہے تو کہ دیں۔۔ لکم دینکم ولی دین۔

    ReplyDelete
  21. وکی پیڈیا پر محمد جونپوری صاحب کے بارے میں جتنی معلومات میسر ہین ان سے تو وہ حقیقتا امام مہدی ہی لگتے ہیں،
    تو کیا جس طرح دجال کئی ہوں گے اس طرح امام مہدی بھی کئی ہیں؟؟؟؟؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ