Wednesday, March 23, 2011

قصہ کہانی

ٹوئٹر سے پیغام ملا۔  صبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیغام انقلاب نہیں تھا۔ ہمم، تو پیغام ملا کہ تیئیس مارچ کو بچوں کو اپنی تاریخ سے واقفیت پیدا کرانے کے لئے قصہ کہانی کے نام سے ایک پروگرام بنایا گیا ہے۔ شرکت کے خواہشمند رجسٹریشن کروالیں۔ دئیے گئے فون نمبر پہ رجسٹریشن کرالی۔ خدا کا شکر ادا کیا  جس نے ان انسانوں کو ہمت اور فکر دی جن سے ہمارے  آج میں یہ آسانیاں ہیں۔ اور اپنی بیٹی کی رجسٹریشن کرالی۔
پروگرام کا وقت صبح ساڑھے دس بجے تھا۔ اور مقام فریئر ہال کراچی تھا۔ منتظمین کا تعلق دی سیٹیزن آرکائیو آف پاکستان سے تھا۔ فریئر ہال کراچی کی ان تاریخی عمارتوں میں سے ہے جو مجھے بے حد پسند ہیں اور ان سے بڑی دلچسپ یادیں وابستہ ہیں۔

یہ پاکستان کے قیام سے پہلے سر ہنری بارٹل ایڈورڈ فریئر کے اعزاز میں تعمیر کی گئ تھی جنہوں نے اپنے عہد میں کراچی کی معاشی ترقی کے لئے بڑا کام کیا۔ اس عمارت کی بے حد شاندار بات یہ ہے کہ اسکی چھت  کو مشہور مصور صادقین نے اپنی مصوری کے شاہکاروں سے سجایا ہے اور اسکی خوبصورتی کو صرف دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنی خوبصورت ہے کہ بہت دیر تک سر اٹھائے رکھنے پہ بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ نہ جسمانی نہ روحانی۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہماری تاریخ میں اب بھی کچھ نام ایسے ہیں جن پہ ہم فخر سے سر اٹھا سکتے ہیں۔ 
مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ایسے کئ نام میرے شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ فریئر ہال جیسی منفردعمارت مجھ سے زیادہ دور نہیں۔ جب چاہوں وہاں جا کر سر اٹھا لوں۔
خیر، جناب ہم ماں بیٹی وہاں پہنچے۔  تو انکی ٹیم موجود تھی۔ اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی۔ جس طرح کا انتظام تھا اسکے حساب سے بچوں کی تعداد مناسب تھی۔ اپنے حساب سے یہ ایک مختلف کوشش تھی۔ نہ یہاں بچوں کے جھولے تھے نہ کھیل اور ہلڑ بازی کے دیگر ذرائع۔ بس انہیں ایک جگہ بیٹھ کر باتیں سننی تھیں۔ بچوں میں چارسال سے لیکر تیرہ چودہ سال کے بچے شامل تھے، ساتھ ہی انکے والدین بھی تھے۔
قیام پاکستان کے حوالے سے اور کراچی کے پس منظر سے تعلق رکھتی تصاویر کی نمائیش بھی ساتھ میں تھی کچھ ماڈلز بھی بچوں کی دلچسپی کے لئے رکھے گئے۔



پروگرام کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا۔ روایت سے بغاوت تھی کہ اسے تلاوت قرآن پاک یا نعت رسول مقبول سے نہیں کیا گیا۔ یہاں تو میں اسیے سیمینارز میں شرکت کر چکی ہوں جو کسی غیر ملکی سائینسداں کے سائینسی کام سے متعلق ہوتا ہے اور ایک گروہ کا اصرار ہوتا کہ اس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہو بالخصوص وہ جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس سائینسداں کا سائینسی کام کس چیز کے متعلق ہے۔
اس ترانے میں موسیقی کے کچھ راگ ڈال کر اسے ذرا انفرادیت دینے کی کوشش کی گئ تھی جس سے ترانے کی موسیقی تو دب گئ اور راگ کھل گیا۔ مجھے تو یہ کوشش کچھ ایسی سمجھ میں نہیں آئ۔
یوم پاکستان کے حوالے سے ایک چھوٹی سی دستاویزی فلم دکھائ گئ۔ پھر بچوں کے ایک رسالے سے ایک نظم پڑھی گئ۔ پھر انہیں مذہبی رواداری کے پس منظر میں ایک کہانی سنائ گئ۔ وقفے وقفے سے بچوں کو دعوت دی گئ کہ وہ اگر کچھ سنانا چاہیں تو سامنے آئیں۔ بچوں نے اس مرحلے میں بڑی دلچسپی لی۔ پھر اسکے بعد بچوں سے ایک سادہ کوئز کیا گیا۔ صحیح جواب بتانے وال بچوں کو انعامات دئیے گئے۔




 اگرچہ مشعل نے ہر اس لمحے ہاتھ اٹھا کر جوش و خروش سے کھڑا کیا جب جب سب بچوں نے اٹھایا۔ لیکن یہ سوالات ابھی انکے لئے تھے نہیں انہیں تو معلوم بھی نہ ہوگا کہ قرارداد پاکستان کس نے پیش کی گئ قسم کے سوالوں کے کیا جواب ہیں۔ بہرحال انکے جذبے کو دیکھ کر مجھے اطمینان رہا۔
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یعنی بجلی چلی گئ۔ یوں پروگرام کا اختتام  اچانک ہو گیا۔ نیم اندھیرے میں ہم سب نے ترانہ پڑھا اور میں نے نوٹ کیا کہ بچوں کو زیادہ اچھی طرح یاد تھا۔ بچوں نے خاصی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ محسوس ہوا کہ اگر ایسے پروگرام ہوں جن میں بچوں کو بھی کچھ کرنے کے مواقع حاصل ہوں وہ اس میں دلچسپی لیتے ہیں، چاہے وہ تاریخ جیسا بظاہر خشک نظر آنے والا موضوع ہو۔ شرط یہ ہے کہ ہم انہیں موقع دیں اور ان پہ اعتماد کریں۔ نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ یہ آنے والی نسل پاکستان کی موجودہ نسل سے بہتر ہوگی۔


پاکستان بن گیا، ٹوٹ بھی گیا، مزید شکست و ریخت کے مراحل میں ہے۔ گذشتہ باسٹھ سالوں میں ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں سے زبان کی لڑائ لڑی، حقوق کی لڑائ لڑی، مذہب کی لڑائ لڑی۔ ذلت و خواری کی ان لڑائیوں میں بلا مبالغہ لاکھوں  لوگ مارے گئے۔  اتنے بہت سے کام اچانک ہی نہیں نبٹ گئے۔ ہم گذشتہ باسٹھ سالوں سے یہی کچھ کرنے میں مصروف ہیں۔ اور اس سے اکتاتے نہیں۔ ہمارے خون میں سب کو ٹھکانے لگا دینے کی گرمی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اور ہم تنزلی کے نئے کنوءوں میں گرتے ہی جا رہے ہیں۔
میں گھر واپس آ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ نجانے وہ دن کب آئے گا جب میرے جیسے والدین کو فسادات اور ہنگاموں کی وجہ سے ہونے والی اچانک چھٹیوں کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں سے یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ روڈ خراب ہو گیا ہے بیٹا آج گاڑی اس پہ چل نہیں پائے گی۔ اس لئے آج اسکول کی چھٹی ہے۔
بچوں کو مرنے کے متعلق بتانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ بم کیسے پھٹتا ہے۔ کیوں کچھ برے لوگ بار بار بم پھاڑتے ہیں، گاڑیاں جلاتے ہیں، گولی مار دیتے ہیں۔ بچوں کو ہی کیا اکثر خود کو بتانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ نجانے میرے جیسے لوگوں کی یہ مشکل کیسے آسان ہوگی۔ کیا اسکے لئے کوئ منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ کوئ قرارداد پاس ہو سکتی ہے۔
کاش وہ دن آئے جب یہ سب باتیں قصہ کہانی ہو جائیں۔ جب ہم اپنی آنے والی نسل کے سامنے شرمندہ کھڑے ہوں کہ ہمارے پاس تمہیں سنانے کے لئے کوئ دل فریب کہانی نہیں۔ کچھ جھوٹ تھے میرے بچوں، ہم نے انہیں مٹانے میں زندگی صرف کی۔  تمہارا دل چاہے تو عبرت کے لئے ہمیں اپنے ماضی کا حصہ بنے رہنے دو اور تمہارا دل چاہے تو حرف مکرر کی طرح مٹا دو۔ ہر داغ ہے اس دل پہ اک داغ ندامت۔

1 comment:

  1. موجودہ نسل کی بہ نسبت اگلی نسل چونکہ دنیا سے کہیں ذیادہ رابطے میں ہوگی اس لیے اس میں ہماری نسل کی نسبت اہم تبدیلیوں کا ظہور ناگزیر ہے۔ اب وہ اچھے ثابت ہوں گے یا برے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ میری تو دعا ہے کہ وہ ہم سے کم جذباتی ہوں۔ ہم اگر اپنے جذبات کے بلبلے ہی کچھ کم کردیں تو کسی پاسے لگ جائیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ