حالیہ کچھ سالوں نے ہمیں ٹریجڈیز کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ایک نیا المیہ۔ پاکستان میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کو سورج کی روشنی میں قتل کردیا گیا۔ یعنی اب قتل کرنے کے لئے کسی کرامت کی ضرورت نہیں۔ قاتل کو کف آستین اور دامن کے داغ چھپانے کی بھی ضرورت نہیں۔
اہل طاقت کے پاس مذمتی بیانات کا وہی پرانا سلسلہ اور اہل فکر کے پاس مستقبل کی پریشان کن تصاویر اور وسوسے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ ہے وہ پاکستان جہاں ایک سال میں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہوئے اور اڑسٹھ خود کش حملے ہوئے۔ اور اہل طاقت اسی طرح طاقت کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ کوئ اس آگ اور خون اگلنے والی عفریت کو قابو نہیں کرنا چاہتا۔
شہباز بھٹی کے قتک کے ساتھ ہی مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ ایک دفعہ پھر شروع ہو گیا۔ مذہبی علماء نے اس قتل کی حسب معمول مذمت کی اور پھر سے نجانے کتنی لاکھویں دفعہ یہ جملہ دوہرایا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر اس قتل کے تانے بانے امریکہ سے جوڑے۔
اس دفعہ ہم اس حلقے میں شامل ہیں جو مذہبی علماء سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان میں کیا مذہب کو اپنے جنون کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا؟ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی طاقتیں ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد پہ فساد کو جنم دینے کی کوشش کر رہی ہیں تو وہ اس بات کی وضاحت بھی کریں کہ اب تک مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے لوگوں کے اندر قوت برداشت پیدا کرنے کے لئے کیا کیا؟ انہوں نے مذہبی رواداری پیدا کرنے کی جو عملی کوششیں کی ہیں ان سے ہمیں آگہی کیوں نہیں اور ہم اب تک اسکے ثمر سے کیوں محروم ہیں؟
ایک اور سیاسی نکتہ رکھنے والا گروہ بھی ہے جو اس قتل کی ذمہ داری حکمراں طبقے کی اعلی قیادت پہ ڈالتا ہے۔ کیونکہ اب تک یہ مسئلہ لا ینحل ہے کہ سلمان تاثیر کے باڈی گارڈز میں قادری کی شمولیت کیوں کی گئ جبکہ اسکے خیالات کسی سے چھپے ہوئے نہ تھا۔ دوئم سلمان تاثیر کے قتل کی شہادتیں صحیح قانونی طریقے سے کیوں نہیں جمع کی گئیں۔
اب یہی مسئلہ شہباز بھٹی کے قتل کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ قتل کی دھمکیوں کے باوجود قتل کے وقت، سیکیوریٹی انکے پاس موجود نہ تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز بھٹی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سلمان تاثیر کے قتل کی تفتیش میں دلچسپی لے رہے تھے۔
اسکے باوجود کہ تحریک طالبان نے اسکی ذمہ داری لی ہے یہ حسب توقع ایسے پیچیدہ سیاسی قتل میں شامل ہو جائے گا جس کے مجرمین کے بارے میں ہمیں کبھی نہیں پتہ چلتا۔
ہردو نکتے سے الگ، اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے، اور اسے کسی بھی مثبت سمت کی طرف لے جانا ہے تو ایک طرف ہمیں آزادی فکر کو ترویج دینی ہوگی جس کے لئے برداشت بنیادی چیز ہے۔ اس کے لئے مذہبی جماعتوں کو اپنے یوٹوپیا سے باہر آنا ہوگا۔ کیونکہ اسکے بغیر اصل مسائل کو کارپٹ کے نیچے چھپایا جاتا رہے گا۔
دوسرے ہمیں اپنے سیاسی نظام کو نئے سرے سے تشکیل دینا ہوگا جہاں واقعی عوام کی حکومت عوام کے ذریعے سے ہو، جہاں اہل اقتدار، دولت کی ہوس میں اقتدار سے چمٹے نہ رہیں اور ایکدوسرے کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہیں اس طرح کہ انہیں ملکی اور عوامی مفادات کی ذرہ بھر فکر نہ ہو۔ اور جہاں تبدیلی کے لئے فوج کی حمایت درکار نہ ہو۔
شہباز بھٹی، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ ہم پاکستان کے کمزورعوام آپکو بچانے کے لئے کچھ نہ کر سکے۔
مذہبی علماء ؟ .. یا مذہبی غنڈے۔
ReplyDeleteپہلے تو شکریہ کہ آپ نے ہمارے بلاگ کا پہلا وزٹ کیا جس سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی ۔
ReplyDeleteہمارے نیوٹرل سٹینس اور علامتی باتوں کے بارے میں تو دوسرے ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں ۔ جیسے کے آپ نے دی بھی ہے ۔
جہاں تک بدتمیز بلاگر صاحب کی بات ہے ان کا سٹینس کسی اور کے خیال میں ٹھیک نہ بھی تو تب بھی ہمارے خیال تو ٹھیک ہی ہے ۔ ایسے ہی خیالات ہمارے پھپھے کٹنی نامی بلاگر کے بارے میں بھی ہیں جو کہ ہمارے فیوریٹ بلاگر بھی ہیں ۔ ہمارے حساب سے تو جی جس جس نے جو جو کچھ کیا وہ اچھے کیلئے ہی کیا اور آنے والے وقت میں جو کچھ بھی ہوگا وہ بھی اچھے ہی کیلئے ہی ہوگا ۔
آپ نے بھٹی صاحب کی بات کی ہے تو وہ اپنے حساب سے آبجیکٹیو بھی تھے اور بہادر بھی ۔ انکے ساتھ ایسا کر گزرنے والے بھی یقینا اپنے حساب سے آبجیکٹیو بھی ہونگے اور بہادر بھی ۔
بلاگ کے وزٹ کرنے کا ایک دفعہ پھر شکریہ ۔ امید ہے آنا جانا لگا رہے گا ۔
نہ بی بی نہ ۔ سورج بيچارا تو لحاف اوڑھے تھا يعنی بارش ہو رہی تھی اور اندھيرہ چھايا تھا ۔ خير يہ بات تو ويسے ہی لکھ دی اصل يہ سوال ہے کہ ہمارے مُلک ميں کہيں کوئی حکومت نام کی چيز ہے ؟ يا يہ جنگل ہے کہ جس کا جو جی چاہے سو کرے ؟
ReplyDeleteعنیقہ آپ نے غلط لکھا؛
ReplyDeleteشہباز بھٹی، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ ہم پاکستان کے کمزورعوام آپکو بچانے کے لئے کچھ نہ کر سکے۔
ہم واقعی شرمندہ ہیں کہ ہم انہیں نہ بچا سکے پر ہم کمزور نہیں بلکہ بے حس اور مردہ قوم ہیں۔
(بلکہ یقینا ہم قوم ہی نہیں ہیں)
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی
شرمندگی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ReplyDeleteجملوں میں چھپی شگفتگی سے ان کی دلی خوشی کا اندازہ لگا لیجیئے!
Abdullah
ابھی تو ابتداء ہے اگر اس ممتاز قادری درندے کو جلد سے جلد سزائے موت نہ دی گئی،تو ہمیں ایسے بہت سے مقتولوں کے لیئے تیار رہنا چاہیئے،
ReplyDeleteاسلام آباد کی سڑکوں پر تہمینہ درانی کو پاکستانی تسلیمہ نسرین بنانے والے بینرز لگانے والے اور ان کو نہ ہٹانے والے کون ہیں،کیا اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت مشکل ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جب درندے اپنی ہی صفوں میں موجود ہوں تو انہیں بے رحمی سے صفوں سے نکال کر ان کے انجام تک پہنچانا ہر مصلحت سے برتر اور ضروری ہوتا ہے اللہ ان حکمرانون کو عقل سلیم عطا فرمائے!
:(
Abdullah
Suna hay Jangloun ka bhi koi Dastoor hota hay ;(
ReplyDeleteجاہل اور سنکی صاحب، اگر ہر چیز اپنی جگہ اچھی اور مثبت ہو تو پھرانسانوں کے معاشرے جانوروں کے جنگل بن جائیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔
ReplyDeleteاس کائینات کے اندر ہمیں ہر چیز کے بارے میں ایک پوائینٹ آف ریفرنس رکھنا پڑتا ہے چاہے وہ کائینات کے آغاز کی کہانہ ہو، خدا کے ہونے نہ ہونے کا مسئلہ یا اچھائ اور برائ کا تصور۔
ہر چیز کا ایک مبہم ہی صحیح تصور شناخت ہوتا ہے۔ اور تمام پیمانے اصل میں ایک نہیں ہو سکتے۔
دہشتگرد عافيہ کے ليئے ہر وقت ٹسوے بہانے والے بلاگرز نے بے گناہ منسٹر صاحب کے ليئے ايک آنسو نہيں بہايا۔ اگر دہشتگردی ہی انکا مذہب نہيں ہے تو اور کيا ہے۔
ReplyDeleteافسوس کہ منسٹر صاحب کے قاتل سامنے نہيں آئے اور پنجابی طالبان المعروف نون ليگ قاتلوں کو ہار نہيں پہنا سکي۔
صرف اسلام آباد ہی نہیں کراچی کی سڑکوں پہ میں نے تہمینہ درانی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرنے والے بینرز دیکے۔ ابھی یہ نہیں معلوم کہ تہمینہ درانی پہ اس کرم کی کیا وجہ ہے۔
ReplyDeleteاب تو ایک زمانہ گزر گیا کہ ہمارے ملک میں مذہب خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ نہیں رہا ، بلکہ ایک ایسا منافع بخش شعبہ بن چکا ہے جس پر نہ تو کوئی ٹیکس لگتا ہے ، نہ ہی آمدنی کے ذرائع کے بارے میں کچھ دریافت کیا جاتا ہے ........ حرام حلال ،جائز ناجائز کا تذکرہ ہی کیا بیرونی قوتوں سے بھی سرمایہ حاصل کرنے کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی خطیر سے خطیر سرمائے کے کسی بھی قسم کے اصرا ف پر انگلیاں اٹھتی ہیں ......... جب بات ملکی سطح کے مذہبی رہنمائو ں ، مفتیان عظام ، علمائے دین ، مشائخ کرام ، پیران طریقت کی ہو تو پھر لش پش پجارو اور دیگر تام جھام معمول کی بات ہے ، اچھنبے کی نہیں ........ دائیں بائیں مسلح باڈی گارڈز کے علاوہ نعلین شریف سنبھالنے والے خدمت گاروں کی معقول تعداد ........ چھینک بھی آ جائے تو عقیدت مند ڈاکٹروں کاپینل چیک اپ کے لیے حاضر ، یاد رہے یہ وہ ڈاکٹرز ہوتے ہیںکہ جن کی غیر معمولی فیس سن ہی کر مڈل کلاس کے کچھ افراد شاید صدمے سے فوت ہوجا ئیں .......
ReplyDeleteملک کے عام افراد کو تو چھوڑیے خود مذہب کے ان ٹھیکے داروں کی پرستش کی حد تک پیروی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد آلودہ پانی پی پی کر لا علاج امراض میں مبتلا ہوتی ہے تو ہوا کرے ، ان کی بلا سے ، انہیں تو منرل واٹر باآسانی میسر ہے کہ کسی مالدار عقیدت مند نے منرل واٹر کا ماہانہ کوٹہ فراہم کرنے سعادت جو حاصل کر رکھی ہے ......... اندرون وبیرون ملک سفر کے ہوش ربا اخراجات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ ان کے دولت مند پیروکار ( جنہیں '' پجاری '' کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا ) جہاں ان کے دیگر ناز نخرے اٹھاتے ہیں ، وہیں ان کی تمام بھاگ دوڑ اور کود پھاند کا خرچ بھی برداشت کرتے ہیں ........
مذہبی زعماء کے تمام قسم کے '' شوق '' کی تکمیل میں نہ تو وسائل رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون ....... جہاں دل چاہا ، وہاں مسجد بنادی ........ جس میدان پر ان کی نگاہ بصیرت پڑ گئی ، وہاں مدرسہ کی بنیاد رکھ دی ........ اول تو کوئی جرأت کرے گا ہی نہیں اور اگر کسی ناہنجار اور گستاخ نے اعتراض کرنے کی جرأ ت کی اور کہا کہ حضرت یہ زمین تو کھیل کود کے گرائونڈ کی ہے ! ، پارکنگ لاٹ کی ہے ! ، کمیونٹی سینٹر کی ہے ! ، غریبوں کے بچوں کے اسکول کے لیے مختص کی گئی ہے ! ، یہاں تو سروس روڈ بننی تھی ! ، یہ محلہ ہے ، یہاں اتنے گھروں کے بیچوں بیچ مسجد ، مدرسہ ، مزار یا آستانے کی تعمیر سے لوگوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی ! ............ تو اس کم بخت پر داغنے کے لیے '' کفر '' کے فتوے کا میزائل موجود ہے ........ پھر بھی وہ احمق باز نہیں آیا تو'' توہین رسالت '' کا طوق اس کے گلے میں ڈال کر وحشی ہجوم کے حوالے بھی کیا جاسکتاہے ، جو محض ڈنڈوں ، جوتوں اور چپلوں سے اتنا مارے گا کہ بے چارا کسی صورت جانبر نہیں ہوسکے گا ...........
خیز سلسلہ آج کل جا ری ہے ، اس کا آغاز گیارہ سالہ ”دور سیاہ“کے اواخر میں لاہور سے ہی ہوا تھا اس کے بعد کراچی کے مرکز صدر میں مختلف مقامات پر ہونے والے دھماکوں میں بے گناہ افرد کی ہلاکتوں کے بعد ” خود ساختہ امیر المومنین “ کراچی تشریف لائے تو مشتعل صحافیوں نے انہیں گھیر لیا ، لیکن پے درپے سوالوں کے تابڑ توڑ حملوں سے موصوف ذرا بھی نہ گھبرائے ، بلکہ نہایت شاطرانہ و مکارانہ معصومیت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ ” حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ ان دھماکوں کو روک سکے ، آج چار دھماکے ہوئے ہیں ، کل ایک سو چون ہوں گے ، ابھی تو شروعات ہیں ، ہمیں ان کے لیے تیار رہنا چاہیے “
ReplyDeleteما شاءاللہ ! کیا نگاہ بصیرت تھی حضرت کی ! ہمیں تو یہ بھی اکثر گمان گزرتا ہے کہ ” حضرت اقدس “ کو کامل یقین تھا کہ وہ جو کچھ ”بو“ رہے ہیں ، اس سے کس قسم کے پودے نکلیں گے ؟؟؟؟ کس طرح کے درخت بنیں گے ؟؟؟؟؟؟ اور کیسا خوفناک پھل لائیں گے ؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟
آج خودساختہ امیرالمومنین کو پردہ فرمائے گوکہ کئی عشرے گزر چکے ہیں لیکن ان کا ”فیضِ عام“ آج بھی اُسی طرح جاری وساری ہے جس طرح ان کی جلوہ افروزی کے زمانے میں جاری وساری تھا حضرت والا سے ”فیض یافتہ “ اکثر سیاسی زعماءاور ”اُن “کی کرامات و برکات کے ”طفیل “ پروان چڑھنے والی بہت سی مذہبی وغیر مذہبی جماعتوں کے بیشتر محترم اکابرین خودکش حملوں کے بعد بجائے اس کے کہ بےگناہ اور معصوم ہلاکتوں پر لرزہ براندام ہو کرعبرت پکڑیںاور زندہ بچ جانے والے زخمیوں کے علاج معالجہ کا بندوبست کریں جن میں سے بہت سے توان خودکش حملوں کی وجہ سے ساری عمر کے لیے جسمانی ہی نہیں نفسیاتی طور پر بھی معذور ہوجاتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم اُن وحشی درندوں کی کھلے الفاظ میں مذمت ہی کرڈالیں جو پاکستان کو صومالیہ ، سوڈان اور افغانستان کے درجے کی کسی ریاست میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں اُس پاکستان کو جی ہاں اُس پاکستان کو جس کی کبھی ایسی اُٹھان تھی کہ ایشیا کے بہت سے ممالک جو آج ترقی یافتہ معیشت کے حامل ہیں ، پاکستان سے کہیں پیچھے تھے لیکن اپنے مربی و مشفی کے رنگ میں مکمل طور پر رنگے ہوئے یہ لوگ یہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب کیا دھرا امریکہ کا ہے یہود وہنود سازش ہے یا پھر یہ مشرف کا کارنامہ ہے کہ اُس نے امریکی اشارے پر یوٹرن لے کر ملک کو بند گلی میں پہنچا دیا !
جبکہ آج سے ڈھائی عشرے قبل ان کے سیاسی مرشد اور مربی و مشفی نے بھی تو امریکی اشارے پر ہی افغان پالیسی تشکیل دی تھی اور ہیجان خیزاور نفرت انگیز مذہبی نعروں کا سہارا لے اُسے ”جہاد“ کا عنوان دیا تھا اس وقت یہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں غیر مشروط طور پر ” امریکہ کے پٹھو “ اور ” باوردی صدر “ کی پشت پناہ بلکہ مضبوط دست و بازو کیوں بنی ہوئی تھیں ؟؟؟
اس وقت کیوں نہیں کہا گیا کہ یہ دو سپر پاورز کے مفادات کی جنگ ہے ، امریکہ یونی پولر ورلڈ کے قیام کے لیے ہمیں استعمال کررہا ہے ؟؟؟؟؟
آج امریکہ کی مخالفت کرنے والے اکثر علمائے دین ، مفتیان عظام ، فقیہان کرام اور مشائخ طریقت میں سے کسی نے اس وقت یہ سوال کیوں نہیں کیاکہ اگر یہ اسلام کی جنگ ہے تو پھر امریکہ جیسی ” دشمن اسلام “ طاقت صمیم قلب کے ساتھ اس جنگ میں کیوں ہمارا ساتھ دے رہی ہے ؟؟؟؟؟
گیارہ سالہ ” دور سیاہ “ میں صورتحال یہ تھی کہ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے ” مجاہدین “ کے دستے پاکستان سے روانہ ہوتے تھے ، ان کے لیے امریکہ سے ملنے والے اسلحے کے ذخائر اور ہیڈ کوارٹرز پاکستان کے شہروں میں قائم تھے اس جنگ کے نتیجے میں ایک غیر جانبدار اندازے کے مطابق ایک کروڑکے لگ بھگ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوگئے ، اس قدر بڑی تعداد میں آبادی کے انخلاءپر گھبرانے اور ان کی سرگرمیوں کو محدودکرنے کے بجائے ، ان کی آمد پر دیدہ و دل فرش راہ کر دیے گئے
کیوں ؟؟؟؟
اس لیے کہ عالمی برادری کی جانب سے امداد کے نام پر ڈالروں کی بارش جو ہونے لگی تھی !!!
کیا ڈالر بٹورنے کے لیے ہی حقائق سے صریح چشم پوشی اختیار کی گئی تھی ؟؟؟؟
اسی دوران افغان باشندے ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں عام پاکستانیوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر آباد ہوگئے ، انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوالیے ، جائیدادیں خرید لیں ، اور بعض تجزیہ نگاروں کا تودعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر منشیات کی آمدنی کا پیسہ کاروبار و تجارت کے مختلف شعبوں میں لگا کر ان پر اپنی برادری کی اجارہ داری قائم کرلی ، اس لیے کہ عام پاکستانی چھوٹے کاروبار میں اس قدر سرمایہ کاری نہیں کرسکتا اکثر مذہبی ، سیاسی اور بعض لسانی تنظیموں کی جانب سے ایسے تمام معاملات کی پردہ پوشی نہایت چالاکی اور ہشیاری کے ساتھ کی جاتی رہی ہے
ReplyDeleteاگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے اور بعض مذہبی ، سیاسی و صحافتی اکابرین نے امریکہ دشمنی میں شدت پسندوں کی حمایت کی جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے ، اسے ترک نہ کیا تو جلد یا بدیر ملک پر انہی شدت پسندوں کی رٹ بھی قائم ہوسکتی ہے اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا ، سقوط مشرقی پاکستان سے بھی بڑا پھرخدانخواستہ ملک بھر میں خانہ جنگی کا ایساسلسلہ نہ شروع ہوجائے کہ جسے دیکھ کر شاید افغانستان و عراق کی تباہیاں بھی حقیر محسوس ہوں الامان الحفیظ محض ہم مسلک اور ملتے جلتے عقائد کی بناءپر اس ہلاکت خیز گروہ کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی ہلاکت خیزیوں پر پردے ڈالنے اور عوام میں ان کے لیے مخالفانہ جذبات کو روکنے کی احمقانہ ، ظالمانہ اور ملکی قانون کی رو سے دیکھا جائے تو باغیانہ روش ترک نہیں کی گئی تو یہ ہلاکت خیز گروہ اپنی کارروائیوں میں مزید بے باک اور نڈر ہوتا جائے گا عقلمحوتماشہ ہے کہ دہشت پسند گروہ کے ترجمان کی جانب سے خود کش حملے کی کارروائیوں کا اعتراف کیے جانے کے باوجودخود ساختہ امیرالمومنین کے بعض گدی نشین ،فیض یافتہ اور بے لوث پیروکار جہاں ایک جانب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان حملوں میں بلیک واٹر ، سی آئی اے یا اسرئیلی و بھارتی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں تو وہیں ساتھ ہی ساتھ ہلاکت خیز گروہ کے لیے ان کے دلوں میں ہمدردی کے جذبات کیوں موجزن ہیں ؟؟؟؟ اورعقل سر بہ گریباں ہے کہ وہ ان جذبات کا اظہار بھی بلا جھجک و شرم کیے چلے جارہے ہیں ؟؟؟ حالانکہ خود ان محترم اکابرین کے ہی بیانات کے مطابق اس ہلاکت خیز گروہ کے لوگ تو یہود و ہنود اور امریکہ کے ایجنٹ ہوئے پھر یہ لوگ ایسے ملک دشمن گروہ کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت کیوں کررہے ہیں ؟؟؟ جو صوبہ پختون خواہ ہی نہیں لاہور ، کراچی سمیت ملک کے کئی اہم شہروں میں اپنے مضبوط مستقر قائم کرچکے ہیں ۔
ظلمت کو ضیاءاور صرصر کو صبا تسلیم کرنے والے اس گروہ کی بعض نابغہ روزگار ہستیاں تو معصوم ، بے گناہ افراد کو اچانک پبلک مقامات بے دردی کے ساتھ ہلاک کردینے والے خودکش حملوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتی ہیں ، ایک جملہ تو ان حلقوں میں آج کل زبان زد عام ہے کہ ”یہ سب یہودی سازش ہے “ یا ” یہ سب امریکہ کروارہا ہے “ جب ان لوگوں کو سوفیصد یقین ہے کہ آج پاکستان میں جاری ہلاکت خیز گروہ کی تمام دہشت گردانہ کارروائیاں درحقیقت یہودی سازش اور امریکی پلان کا حصہ ہیں تو اس سازش اور پلان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے گروہ کے لیے ان کے قلب میں اس قدر محبت بھرے جذبات کیوں موجزن ہیں ؟؟؟؟ اور جنوبی پنجاب ، کراچی اور دیگر اہم شہروں میں قائم ان کے مراکز پر فوجی آپریشن کے دیرینہ عوامی مطالبہ سے بوکھلا کر بعض مذہبی اکابرین ایسے کسی آپریشن کی صورت میں اس کا بھرپور دفاع کی دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ” سازش “ اور ” پلان “ کو پایہءتکمیل تک پہنچانے والوں کو جو بھاری بھرکم ” معاوضہ “ مل رہا ہے ، اس میں سے وہ اپنے ” حمایتیوں “ کو بھی معقول ”حصہ“ دے رہے ہوں ؟؟؟؟
تہمینہ درانی نے ایک کتاب لکھی تھی 1998 میں کفر کے نام سےجس میں ان سجادہ نشینوں اور مزہبی خانوادوں کے اندر کے گند کو کھول کھول کر بیان کیا تھا،سو 12سال بعد سو کر جاگنے والوں نے ان پر علمائے اکرام اور اولیائے اکرام کی توہین کا الزام عائد کیا ہے،
ReplyDeleteاب وہ چونکہ شہباز شریف کی بیوی بھی ہیں اس لیئے ایک تیر سے دو شکار کرنےکی تیاریاں ہورہی ہیں!!!!!!!!!!
Abdullah
پہلے ہم شاہد اتنے جزباتی نہیں تھے ، اب ہم نے اپنا شیوہ بنا۔ لیا ہے ، کہ چائے کوئی کچھ بھی کہہ لے ہم نے قتل ہی کرنا ہے ۔ چاہے وہ ہمارے حکمران ہوں ۔ کہ ایک عام آدمی ہمارے رویے ہی ہمارے دشمن ہیں ۔ پھر ہم دوسروں سے شکایت کیوں کرتے ہیں ، کیا یہ کہہ دینا کہ ہم شرمندہ ہیں ،۔ ہم کو سکون مل جائے گا ، شرمندہ ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ،،، کیونکہ اب لوگ اس شرمندہ ہونے پر بالکل شرمندہ نہیں ہوتے ، اور نا ہی محسوس کرتے ہیں ۔ پہلے بے غیرت کا لفط سن کر غیرت آتی تھی ،
ReplyDeleteصرف تہمینہ درانی ہی نہیں بلکہ شیری رحمان کے بارے میں بھی ان کا کچھ پروگرام ہے۔ ان پر نظر کرم کی وجہ غالبا ان کی سگریٹ نوشی ہے۔
ReplyDeleteاور میں ایک عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ دہشت گرد صرف مسلمانوں کو ہی کیوں قتل کرتے ہیں ۔
ReplyDeleteہونا تو یہ چاہئتے تھا کہ مسلمان کے بدلے کافر کو مارا جاتالیکن ہمشہ مسلان ہی مرتا رہا ہے۔
شاذل صاحب، اس لئے کہ دہشت گرد اور انہیں چلانے والوں کا مذہب مال پانی ہے۔ جو مال دے گا اس کے لئے کام کریں گے۔ صورت حال ایسی رکھیں گے انکا کاروبار پھلتا پھولتا رہے۔ اگر وہ تفرقے اور جنگ کی باتیں کرنا چھوڑ دیں گے تو پھر لوگ انکی طرف نہیں دیکھیں گے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ جنگ کے زمانے میں جن لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہ نہیں ہوتے جو امن کے زمانے میں چاہئیے ہوتے ہیں۔
ReplyDeleteآپ خود سوچیں اگر پاکستان میں جاری دہشت گردی کی یہ جنگ ختم ہو جائے تو عوام اور نظام میں کیا متوقع تبدیلیناں ہونگیں اور ہم کس قسم کے لوگوں پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیں گے۔ ایک لمحے میں سمجھ آجائے گا کہ دہشت گرد مسلمانوں کو کیوں نشانہ زیادہ بناتے ہیں۔
ديوبندی دہشتگرد احمد مدنی جہنم رسيد ہوگيا۔ آنجہانی دہشتگرد سپاہ صحابہ کا ليڈر تھا۔
ReplyDeleteخس کم جہاں پاک۔
چلو اس کمنٹ سے یہ تو پتا چلا کہ عبداللہ میر جعفر اور میر صادق کے خاندان سے ہے اور شیعہ ہے ۔
ReplyDeleteرہی بات بھٹی کے مرنے کی تو اسکو بھی حکومت نے خود مروا دیا ہو گا ویسے جو پرچہ ملا ہے اس پر ۳ نام درج ہیں ۔ اب کونسی پاگل تنظیم ہے جو تین مختلف تنظیموں کے نام لکھے ؟؟؟ بات تو وہی ہے نہ کہ آپ جیسے لوگ بی بی سی اور سی این این کو سن سن کر اسکے رنگ میں رنگے ہوے ہیں ۔ اور جو وہ کہے گا وہی آپ کہیں گے ۔
انکل ٹام میرے کس کمینٹ سے جناب کو یہ اندازہ ہوا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ReplyDeleteسارے نامعلوم کمینٹس میرے نہیں ہوتے ہیں،کیا سمجھے!
ویسے بھی میں اپنا نام ضرور آخر میں لکھتا ہوں،
اوریہ میری تربیت میں شامل نہیں کہ مرے ہوئے لوگوں کو کوستا پھروں،خصوصا جن کے بارے میں مجھے کچھ بھی علم نہ ہو،
اور دوسروں کا ایمان ٹٹولنے سے زیادہ بہترہے کہ اپنے ایمان کی درستگی کریں کیونکہ سب کو اپنی اپنی قبروں میں جانا ہے،
Abdullah
اچھا ، آنٹی عنیقہ سے کہیں کہ وہ اس نامعلوم کی اور آپکی آی پیز دکھائیں ، اگر یہ آپ نہ ہوے تو میں معذرت کر لوں گا ، اس میں پھڈے والی کونسی بات ہے ؟؟؟
ReplyDeleteعنیقہ صاحبہ کو کمٹس پڑھ کر اپرو کرنے چاہیے۔ ایک طرف تو آپ لوگ شہباز بھٹی کی موت پر واویلا کررہے ہیں دوسری طرف آپ کے اسی صفحے پر ایک رافضی کراچی کے ایک نامور عالم دین کی شہادت پر بکواس کررہا ہے اور انہیں جہنم رسید ہونا کہہ رہا ہے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔ اس رافضی نے آپ کو اپنی بات کے کیا ثبوت دیے ہیں۔ ؟
ReplyDeleteکیا ایک عالم دین کا بیہمانہ قتل قابل مذمت نہیں ؟
کیا پاپ جان پال کا پاکستانی ایجنٹ جو کہ اپنی حدود سے نکل کر اسلامی قوانین پر طنز مارہا تھا اور اسے بدلنے کی کوششیں کررہا تھا ، کا قتل ہمارے ایک معصوم اور نامور عالم دین کے قتل سے ذیادہ بڑا حادثہ ہے ؟
ہم لوگ اپنے مذہب اور سکالرز کے بارے میں کیوں اتنے بے حس ہیں ؟
کیا مسلمان اور پھر ایک سنی عالم کی جان کی کوئی قیمت نہیں ؟
میں الحمد اللہ ایک مذہبی آدمی ہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا مذہب یا کسی بھی سنی طبقہ کے مستند علما نہ شہباز بھٹی کے قتل کی اجازت دینے ہیں نہ کسی عالم دین کی۔ آپ لوگ مسلم علما کے خلاف یہ گمراہ کن پراپیگنڈہ بند کریں ۔ فضول بہتان لگانے کے بجائے کوئی ثبوت ہے تو وہ پیش کریں۔
اسلام کسی کی بلاوجہ جان لینے کی تعلیم نہیں دیتا لیکن ایک مسلمان اللہ کے نزدیک ساری دنیا کے کافروں سے بہتر ہے۔ ہمیں اپنی اسی نام نہاد روشن خیالی کی چھوڑنا ہوگا جس میں بس مغربی تہذہب اور اسکی سوچ کو ہی معیار بنایا جاتا ہے۔
یہ کیا وجہ ہے کہ جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت جانے لگتی ہے تو کوئی ناکوئی حکومتی رکن قتل ہوجاتا ہے۔
ReplyDeleteپچھلی دفعہ فضل الرحمان اور ایم کیو ایم نے حکومت کو بحران میں مبتلا کیا مذہب کے نام پر سلمان تاثیر کو اڑادیا گیا اور سب کا دھیان ادھر کرکے حکومت بچا لی گئی۔
ابھی نواز شریف اور پنجاب حکومت نے حکومت کو متزلزل کیا تو بھٹی صاحب کو اڑا دیا گیا۔
اگلی باری کسی کی ہے حکومتی وزیروں کو خود سوچ لینا چاہیے۔
وقار اعظم، اب آپ انکل ٹام کے نام سے تبصرے کر رہے ہیں۔ یہ جاننے کے لئے کہ کون شیعہ ہے اور کون نہیں۔ اس بلاگ پہ ایسی کوئ قید نہیں کہ صرف سنی مسلمان ہی یہاں گفتگو میں شریک ہو سکتے ہیں۔
ReplyDeleteگمنام صاحب، آپ کا خیال ہے کسی حکومتی کارکن کے قتل کی وجہ سے حکومت جانے سے بچ جاتی ہے۔ جب حکومت کو چکتا کرنے کا قصد کر لیا جائے تو حکومتی کارکن کا قتل ہونا ہی اسکے جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ مرتضی بھٹو کے مرنے کے کتنے دن بعد بے نظیر کی حکومت گئ تھی۔ یہ آپ کو معلوم ہے۔
جناب آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ بے نظیر کو مروا کر زرداری کتنے عرصہ سے حکومت کررہا ہے۔
ReplyDeleteکیا آپ کو اس پر شک ہے کہ زرداری بے نظیر کے قاتلوں میں شامل نہیں ؟
جو حکومت شروع ہی خون بہا کرہوئی وہ قائم بھی خون بہا کررہے گی۔ آپ مانیں یا نا مانیں۔
میں اپنے خیالات کے بے لاگ اظہار میں کبھی منافقانہ رویہ کا قائل نہیں رہا اور اسی لئے قادنیانیوں پر حملے خوشی اور سلمان تاثیر کے قتل کی حمایت پر میں نے کسی خس و پیش سے کام نہیں لیا تھا اور آج شہباز بھٹی کے قتل پر بھی میں بانگ دہل کہتا ہوں کہ اس قتل سے ناصرف مجھے بلکہ اس ملک کی ایک غالب اکثریت کو خوشی اور اطمینان کا احساس ہوا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ شخص ایک دہائی سے نہ صرف مسلمانوں کے داخلی قانون کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے اس حساس ترین اور تمام مکاتب فکر کے مابین متفقہ مسئلہ کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی مذموم کوششوں کے لئے بھی استعمال کررہا تھا۔
ReplyDeleteیقینا شہباز بھٹی واجب القتل نہیں تھا لیکن اس طرح کی اوچھی اور انتہاپسندانہ و حرکتیں کرنے والوں کو معاشرےکی دوسری انتہا سے اسی طرح کے انتہائی روئے کی توقع رکھنی چاہیے۔
کیا ہوا میرے سوالوں سے اتنا گھبرا گئے کہ ڈاکٹری چھوڑ کر دوبارہ ایم بی اے کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDelete:)
Abdullah